ام نور العين
معطل
جب كوئى تاريخ كى بات كرتا ہے تو قرآن كريم اور اسلام كے عقائد بھی ايك مكمل تاريخ ركھتے ہيں اور بائبل سے زيادہ مستند جس كى شہادت غير مسلم محققين بھی دے چکے ہيں۔
ميرے يہ تينوں سوالات "صرف قرآن " اور تاريخ سے متعلق ہيں۔ او ر سوال نمبر دو كا جو جواب فاروق سرور خان صاحب نے ديا ہے اس كو ديكھیے ۔ كيا كوئى يہودى اور عيسائى يا تاريخى مصادر سے ثابت كر سكتا ہے کہ مسيح عليه السلام بڑھاپے ميں فوت ہوئے؟ (جناب خان صاحب اابراہيمى اديان Abrahamic Religions كى تمام كتابيں اس دعوے پر ہنستی نظر آتى ہيں )
ميرے يہ تينوں سوالات "صرف قرآن " اور تاريخ سے متعلق ہيں۔ او ر سوال نمبر دو كا جو جواب فاروق سرور خان صاحب نے ديا ہے اس كو ديكھیے ۔ كيا كوئى يہودى اور عيسائى يا تاريخى مصادر سے ثابت كر سكتا ہے کہ مسيح عليه السلام بڑھاپے ميں فوت ہوئے؟ (جناب خان صاحب اابراہيمى اديان Abrahamic Religions كى تمام كتابيں اس دعوے پر ہنستی نظر آتى ہيں )
جناب خان صاحب برائے مہربانى ان آيات كريمہ كا مطلب سمجھا ديجیے۔
قرآن كريم كہتا ہے: اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لاچکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواه ہوں گے۔۔۔۔
اس آيت كا كيا مطلب ہے؟ اہل كتاب يہ ايمان لائيں گے يا لا چکے؟ اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا نصارى ان پر ايمان لا چکے؟ تاريخ كيا كہتی ہے؟
اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا وہ بوڑھے ہو كر فوت ہوئے تھے يا جوانى ميں؟
اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو قرآن كريم ان كو قيامت كى نشانى كيوں کہہ رہا ہے؟ زمانى اعتبار سے تو وہ نبي آخر الزماں حضرت محمد مصطفى صلى الله عليه وسلم سے پہلے آئے تھے ؟ پھر وہ قيامت كى نشانى كيسے ہوئے؟
اميد ہے ايك طالبہ علم كو قرآن فہمى ميں مدد دينے ميں بخل نہ كريں گے۔
والسلام
-قرآن كريم كہتا ہے: اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لاچکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواه ہوں گے۔۔۔۔
اس آيت كا كيا مطلب ہے؟ اہل كتاب يہ ايمان لائيں گے يا لا چکے؟ اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا نصارى ان پر ايمان لا چکے؟ تاريخ كيا كہتی ہے؟
اس آیت سے یہ معانی اخذ کرنے میں کہ -- عیسی علیہ السلام آئیں گے اور کوئی بھی اہل کتاب ایسا نہیں ہوگا کہ وہ ان پر ایمان نا لایا ہو ---اس میں کچھ قباحتیں ہیں۔ پہلی قباحت یہ ہے کہ حضرت عیسی کی موت پر یقین رکھنے والے اہل کتاب موجود ہیں، دوسری قباحت یہ کہ اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کے آسمان میں جانے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کو خدا کا بیٹا بھی مانتے ہیں اور ایسی ہی حالت میں مر بھی جاتے ہیں۔ ان کو ہم کس گنتی میں ڈالیں؟ پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی اور ان کی والدہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اور ایسے اہل کتاب مر بھی گئے ہیں۔ تو " کوئی بھی ایسا اہل کتاب نہیں ہوگا" اس تناظر میں درست نہیں رہتا۔ کیوں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے اہل کتاب مردہ ہو چکے ہیں جو ایمان نہیں لائے۔
2-اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا وہ بوڑھے ہو كر فوت ہوئے تھے يا جوانى ميں؟
نا ان کو قتل کیا گیا اور نا ہی ان کو مصلوب کیا گیا۔ قرآں حکیم گواہی دیتا ہے کہ جناب بوڑھی عمر میں بھی دعوت دیں گے۔۔۔ لہذا جناب کی وفات اس عمر کے بعد ہی ممکن ہے۔ اس بارے میں معلومات فراہم کرنے والی آیات بعد میں۔
3-اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو قرآن كريم ان كو قيامت كى نشانى كيوں کہہ رہا ہے؟ زمانى اعتبار سے تو وہ نبي آخر الزماں حضرت محمد مصطفى صلى الله عليه وسلم سے پہلے آئے تھے ؟ پھر وہ قيامت كى نشانى كيسے ہوئے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وقت کے فاصلے کے سنگ میل "واقعات" کی شکل میں ہوتے ہیں۔ یہ "ایونٹس" یا واقعات وقت کے فاصلے کا تعین کرتے ہیں۔ اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام کو قیامت کی نشانی ڈیکلئر کرتے ہیں۔ یہ نشانی آچکی ہے ۔۔۔
قرآن حکیم کے بیانات اور نشانیوں کے بعد قیامت کی کسی مزید نشانی کا کسی انسان کو پتہ ہے؟؟؟۔ اس بارے میں قرآن کی آیات کے حوالے بعد میں ۔ کہ قیامت کی آنے والی نشانیوں کے بارے میں قرآن حکیم کیا تعین کرتا ہے ۔؟؟؟ اس سے موضوع تبدیل ہوجائے گا۔ لہذا کوئی ریفرنس فراہم کرنے سے احتراز کررہا ہوں۔
والسلام