جناب
رانا محترم
اپنی تمام تر آزاد سوچ کے باوجود کچھ پوائنٹس ایسے ہیں جو اٹل ہیں ۔۔۔ اگر آپ لوگ خود کو صحیح سمجھتے ہیں تو آج ایک صدی سے زیادہ وقت ہوگیا ۔۔۔ اہل یہود کی طرح آپ لوگ بھی بقا کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔۔۔ ۔ یہودیت تو پیغمبروں کا مذہب رہا ہے ۔۔۔ ۔ آپ کی کیا تاریخ ہے ؟؟؟؟؟ ۔۔۔ اور آجکل کے اتنے ایڈوانس اور حقیقت پسند دور میں بھی آپ لوگ اپنی سوچ اور نقطہ نظر کو ثابت نہیں کر پائے ؟؟؟ ۔۔۔ ۔ تمام فرقے سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، وہابی کھلے بندوں آپ کی مخالفت کرتے ہیں ایسا کیوں ؟؟؟؟؟ بات بغض کی نہیں میرے محترم حقیقت کی ہے ۔۔۔ اگر وہ غلط ہے تو جو ہم سمجھتے ہیں تو آپ لوگ اس کا کھلے عام اقرار کیوں نہیں کرتے ۔۔۔ ۔۔ جمعہ کے جنگ اخبار میں ایک خبر پڑھی کہ ایک صاحب بمعہ اپنے چند ساتھیوں کے قادیانیت سے تائب ہو کر مسلمان ہوگئے ۔۔ اس اخبار کی خبر کی کوئی مذمت ہی کردیں آپ لوگوں میں سے ۔۔
برادر! آپ کا تمام مراسلہ جماعت احمدیہ سے مکمل لاعلمی کے باعث ہے۔ آپ کے پاس احمدیت کے بارے میں صرف وہی معلومات ہیں جو آپ کو فریق مخالف سے حاصل ہوئی ہیں۔ آپ نے خود جماعت کی یا حضرت مرزا صاحب کی کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا۔ پہلے آپ ہمارا موقف ہماری زبانی جانیں تو سہی۔ اگر دلچسپی ہو تو میں کچھ کتابوں کے لنک دے سکتا ہوں۔ آپ کو تمام دنیا میں جماعت کی پھیلتی ہوئی ترقی کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں۔ میں احمدی ہوں اسکے باوجود مجھے پاکستان کے پرنٹ یا الیکٹرونک میڈیا سے جماعت کی ترقی کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملتی تو آپ کو کہاں سے ملے گی۔ ایسے میں آپ کا یہ سمجھنا بالکل بجا ہے کہ شائد ہم بمشکل اپنی بقا ہی کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ بہرحال آپ نے اپنے اس مراسلے میں نسبتاً معقول انداز اختیار کیا ہے اس لئے کچھ باتوں کے بارے میں مختصراً عرض کردیتا ہوں۔
آپ نے لکھا کہ ہمیں سو سال ہوگئے اور ابھی تک ہم اپنی بقا ہی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔بھائی یہ تو آپ کا عقیدہ ہے کہ مسیح و مہدی کے آتے ہی چالیس سال میں غلبہ ہوجائے گا۔ آپ کے عقیدے سے مجھے کوئی غرض نہیں کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ آپ اپنے عقیدے پر خوش رہیں۔ ہمارے نزدیک تو غلبہ اسلام کا آہستہ آہستہ ہی ہوگا۔ لیکن آثار تو ابھی سے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں قادیان سے اٹھنے والی آواز ابتدا میں اکیلی تھی۔ پھر 1974 میں جب پاکستان میں غیر مسلم قرار دیا گیا تو کوئی پچاس کے قریب ممالک میں جماعت قائم ہوچکی تھی۔ پھر ضیاءالحق نے 1984 کا آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت ہم اسلامی شعار استعمال نہیں کرسکتے۔ اس وقت جماعت 70 کے قریب ممالک میں قائم تھی۔ اس آرڈیننس کے نتیجے میں خلیفہ وقت کو پاکستان سے ہجرت کرنی پڑی۔ اس کے بعد سے لے کر آج دنیا کے 204 ممالک میں احمدیت قائم ہوچکی ہے۔ دنیا میں کوئی ایک ایسا فرقہ دکھادیں جس کے علماء یہ دعویٰ کرسکیں کہ ان کے ماننے والے دنیا کے 204 ممالک میں موجود ہیں۔ اپنے فرقے کی ہی بات کرلیں کیا آپ اپنے فرقہ کے متعلق آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اتنے ممالک میں موجود ہے۔ آج صرف ایک امام جماعت احمدیہ ہیں جن کے پیروکار دنیا کے 204 ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جس میں ترقی کی جانب ہمارا قدم نہ اٹھا ہو۔ پھر یہ کہنا ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں کیسی بات ہے۔ صرف ایک پاکستان کی چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ ابھی دو سال پہلے عبدالستار ایدھی صاحب کو جماعت احمدیہ نے ان کی انسانیت کے لئے خدمات پر دس لاکھ پاونڈ کا چیک دیا تھا۔جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہو کیا اسکے لئے یہ ممکن ہے؟ ابھی امریکہ میں ہماری خدام الاحمدیہ کی تنظیم نے ایک مہم چلا کر دس ہزار خون کے بیگ اکٹھے کرکے اسپتالوں کو عطیہ کئے۔ مشہور گستاخانہ فتنہ فلم کے خلاف جماعت نے جو مہم چلائی پوری دنیا میں کسی کو ایسی توفیق نہ ملی۔ کینیڈا کے پاکستانی سفارت خانے کو بھی اس سلسلے میں جماعت احمدیہ کی مدد لینا پڑی جس پر انصار عباسی نے اپنے کالم میں غم و غصہ کا اظہار بھی کیا۔ دنیا بھر میں مساجد، مشن ہاوسز، اسپتال، اسکولز، کالجز کا اتنا بڑا نیٹ ورک بنادیا ہے جماعت نے کہ آپ کی سوچ بھی اس تک نہیں پہنچ سکتی۔ یہیں
ایک دھاگے میں شمشاد بھائی نے افریقہ کے ملک غانا کی کچھ مساجد کی تصاویر شئیر کی تھیں۔ ان میں سے بھی دو احمدیہ مساجد ہیں
پوسٹ نمبر 4 اور
پوسٹ نمبر 12 والی۔ میں نے وہاں ذکر نہیں کیا کہ دھاگہ ٹریک سے ہٹ جاتا۔ جب مساجد کی تعداد اتنی زیادہ ہوجائے تو ایسے مغالطے لگنا ایک عام بات ہے۔ کراچی کے ایک مشہور مدرسے کے ماہنامے کے سرورق پر کینیڈا کی مسجد کی تصویر شایع ہوئی دیکھ چکا ہوں اور لوکل اخبارات اور رسائل میں تو کئی احمدیہ مساجد کی تصاویر میں نے خود دیکھی ہیں، اخبار جہاں میں شائع ہونے والی آسٹریلیا کی مسجد کی تصویر اس ہیڈنگ کے ساتھ کہ آسٹریلیا میں اسلام تیزی سے پھل رہا ہے۔ پرنٹنگ پریس، ریڈیو اسٹیشنز کا تو شمار ہی نہیں۔جماعت احمدیہ کے ٹی وی چینلز اب اتنی تعداد میں ہیں کہ کوئی ملک اب ہمارے ٹی وی چینلز سے باہر نہیں رہا۔ عرب ممالک کے لئے خاص طور پر ایک العربیہ ٹی وی چینل کام کررہا ہے جس پر مصر وغیرہ میں شور بھی اٹھتا رہتا ہے۔ مصر میں ایک عیسائی پادری نے اپنے ٹی وی شوز کے ذریعے جو اسلام پر اعتراض کئے ان کا جواب الازہر والے بھی نہ دے سکے اور اس کی خدمت کی بھی ہمارے ٹی وی چینل کو ہی توفیق ملی۔ اور جواب ایسا تھا کہ الازہر نے بڑی ہمت دکھائی کہ ہمارے اس جواب کو ایڈاپٹ کر لیا۔ اور یہ بھی جان لیں کہ اس وقت دنیا کا تیزی سے پھیلنے والا فرقہ بھی جماعت احمدیہ ہی ہے جو بقول آپ کے بقا کی جنگ ہی لڑ رہا ہے۔ یہ ویڈیو دیکھیں جس میں آپ ہی کے ایک مولوی صاحب اس کا اعتراف ثبوت دکھا کر کررہے ہیں۔
کوڈ:
http://www.youtube.com/watch?v=tJTCv5apRXw
کبھی کبھی
جماعت احمدیہ کی آفیشل ویب سائیٹ کو وزٹ کرلیا کریں تو اتنی سادہ لوحی سے ایسے سوال کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ جماعت کے اخبار
الفضل کا ہی روز آن لائن مطالعہ کرلیا کریں تو جماعت کی ہوشربا ترقی سے آگاہی ہوتی رہے۔ صرف اپنے علما اور ملکی میڈیا پر آنکھ بند کرکے اعتماد نہ کرلیں کہ جو جماعت کا ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے اسکا کہیں وجود ہی نہیں بمشکل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ہمیں یہود سے تشبیہ آپ نے دی ہے۔ جبکہ ہماری یہ تمام ترقی صرف سوا سو سال کا ثمرہ ہے اس لئے ساڑھے تین ہزار سال پرانے مذہب سے تشبیہ کچھ جچتی نہیں۔ البتہ یہ حققیت ہے کہ یہود بھی آپ کی طرح ہی آسمان سے ایک آنے والے کے منتظر ہیں۔ اپنے وقت کے مسیح کو انہوں بھی آپ ہی کی طرح یہ کہہ کر رد کردیا کہ آسمان سے آنا لکھا ہے تو آسمان والے کو ہی مانیں گے۔ نتیجہ بھی یکساں ہے دونوں ابھی تک آسمان سے آنے والے کے انتظار میں ہیں۔ یہود نے بھی اپنے مسیح کی موت کو لعنتی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جب موت ہی نعوذ باللہ لعنتی ہے تو نبی کیسے ہوسکتا ہے۔ آپ کے علماء نے بھی حضرت مرزا صاحب کی موت کو لعنتی ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہود بھی کہتے ہیں کہ کتابوں میں لکھا تھا کہ مسیح کے آتے ہی بادشاہت اورغلبہ مل جائے گا جبکہ اس مسیح کے آنے سے تو کوئی بادشاہت اور غلبہ نہ ہوا۔ ہوبہو یہی اعتراض آپکے علماء کا بھی ہوتا ہے کہ مسیح کے تو آتے ہی غلبہ ہوجانا تھا جبکہ یہاں تو ایسا نظر نہیں آتا۔ اور پھر سب سے بڑھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ میری امت یہود کے نقش قدم پر چلے گی۔
پھر یہ آپ نے کہا کہ تمام فرقے ہماری مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ تو بھائی اسکا جواب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بہت مل جاتا ہے۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا کہ میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے جن میں سے بہتر ناری اور ایک ناجی ہوگا۔ اب جب ہمیں غیر مسلم قرار دیا گیا تھا تو اس وقت نوائے وقت میں سرخی لگی کہ بہتر فرقوں کا متفقہ فیصلہ کہ احمدی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ اس پیشگوئی کے مطابق بہتر فرقوں نے ناجی فرقے کی مخالفت کرنی تھی یا نہیں؟ اور پھر امت کے پرانے بزرگان اور مجدددین نے بھی یہی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب مسیح اور مہدی ظاہر ہوں گے تو اس کے سب سے بڑے مخالف اس زمانے کے علماء ہوں گے۔ شائد یہ امام غزالی کی کتاب میں ہے۔ لیکن قطع نظر حوالے کے اگر آپ کہیں گے تو آپ کو ڈھونڈ کر ایک نہیں کئی بزرگوں کے جو آپ کے مانے ہوئے بزرگ ہوں گے ان کے حوالے دے دوں گا کہ مسیح اور مہدی کے مخالفت اس زمانے کے علماء نے کرنی ہی تھی۔
پھر آپ نے کہا کہ اگر وہ غلط ہے جو آپ سمجھتے ہیں تو ہم اسکا اقرار کیوں نہیں کرتے۔ تو جناب کھل کر اقرار کرتے ہیں۔ حضرت مرزا صاحب کی ساری کتابیں اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ آپ کے کون سے عقائد غلط ہیں۔ آپ سے اسی لئے تو میں نے کہا کہ حضرت مرزا صاحب کی کوئی ایک کتاب تو پوری پڑھ لیں یکطرفہ معلومات ٹھیک نہیں ہوتیں۔ اگر خواہش ہو تو مجھے بتائیے گا میں کسی ایسی کتاب کا لنک دے دوں گا جو مختصر بھی ہو اور اس میں حضرت مرزا صاحب نے ان عقائد کا بھی ذکر کیا ہو جو غلط ہیں۔
پھر آپ نے کہا کہ جنگ میں آپ نے خبر پڑھی کہ کوئی صاحب احمدیت سے تائب ہوئے تھے تو ہم اس خبر کی مذمت کیوں نہیں کرتے۔ تو بھائی میں مذمت کرنے کو تیار ہوں صرف ایک شرط ہے کہ پہلے آپ ان احادیث اور کتابوں کی مذمت کردیں جن میں یہ خبر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کاتب وحی تائب ہو کر مرتد ہوگیا تھا۔
دوسری بات کہ ایک مرتد ہوتا ہے کہ تو دوسری طرف جو ہرسال لاکھوں کی تعداد میں احمدیت میں شامل ہوتے ہیں ان کو بھی تو دیکھیں جن کی لائیو بیعت کا نظارہ ہر سال جماعت احمدیہ کے ٹی وی چینلز پر دکھایا جاتا ہے۔ اوپر جو آپ کے ایک مولوی صاحب کی ویڈیو کا میں نے ذکر کیا ہے وہ ہی دیکھ لیں جس میں وہ ہماری اسی سالانہ بیعت کو اپنی بات کے ثبوت کے طور پر پیش کررہے ہیںِ۔
آخر میں آپ سے ایک برادرانہ درخواست ہے کہ جس طرح آپ نے اپنے اس مراسلے میں معقول اور مہذبانہ انداز میں بات کی ہے اسی طرح اگر آئندہ بھی دوستانہ طرز پر کچھ پوچھیں گے تو مجھے خوشی ہوگی ورنہ جواب دینے سے معذرت چاہوں گا۔ ایک بات اور کہ براہ مہربانی ایسی سنی سنائی باتوں کو اہمیت نہ دیا کریں ہمارے بارے میں کچھ نہ کچھ خود ضرور معلومات حاصل کریں۔ میں کوشش کروں گا کہ ایک ایسا دھاگہ کبھی کھولوں جس میں جماعت کے بارے میں وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ تازہ اپ ڈیٹس دیتا رہوں اور جس میں کسی دوسرے پر اعتراض کئے بغیر صرف اپنے بارے میں کچھ ہلکی پھلکی معلومات پوسٹ کی جاتی رہیں۔ لیکن ابھی تو دو تین ماہ کافی مصروف ہوں وقت ملنے پر انشاء اللہ اس طرف توجہ کروں گا۔