گرو جی یہ بڑی پرانی کتھا کہانی ہے۔ پہلے قرآن کی آیات کاپی پیسٹکی جاتی ہیں، پھر یہ بھاشن دیا جاتا ہے کہ کتب احادیث اصل میں کتب روایات و قصے کہانیاں ہیں اور یہ کہ یہ وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ڈھائی سو سال تک موجود نہیں تھیں۔ پھر میرے آپ جیسے اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ نماز کا طریقہ بھی پھر قرآن میں کیوں نہیں اگر قرآن پر ایمان لانے سے اسلام مکمل ہوجاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
وسلام
میں نے بعض لوگوں کو یہ سوال اور اس قسم کے اور بھی سوالات اکثر اٹھاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اب پتا نہیں کہ ان سوالات کی وجوہات لاعملی یا کم عملی ہے یا اس کے کچھ اور مقاصد ہیں ۔ مگر میں نے بہرحال آج کوشش کی ہے کہ ان سوالات کا جواب دیا جائے ۔ ذیلی مضمون موجودہ ٹاپک سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ جس کے لیئے میں معذرت خواہ ہوں ۔
سب سے پہلے ایک بنیادی بات سمجھ لیں کہ عام طور پر یہ غلط فہمی پھیل گئی ہے کہ دین ِ اسلام کی ابتداء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی ہے ۔ قرآن مجید اس کی تردید کرتا ہے ۔ قرآن مجید کا دعویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ایک ہی دین تمام نبیوں کے ذریعے سے دیا ۔ اور اس کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام سے ہوئی ہے ۔ وہ اللہ کے پیغمبر تھے ۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے اولین ہدایت دی اور اس کے بعد پھر پے در پے پیغمبروں کا سلسلہ جاری ہوا ۔ یہ سب اللہ کا دین " اسلام " ہی لیکر آئے ہیں ۔ قرآن مجید کا اپنی دینی دعوت کے بارے میں اصلی دعویٰ یہ ہے ۔ چنانچہ قرآن نے اس کو خود بیان کردیا ہے ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے یہ فرمایا ہے کہ " جو دین ہم نے آپ کے لیئے لازم ٹہرایا ہے ۔ وہی دین ہم نے سب پیغمبروں کو دیا ۔ نوح علیہ السلام کو بھی یہی دین دیا ۔ ابراہیم علیہ السلام کو بھی یہی دین دیا ۔ عیسیٰ علیہ السلام کو بھی یہی دین دیا گیااور اس سے پہلے موسی علیہ السلام کو بھی یہی دین دیا گیا ۔ " اور یہ بتایا گیا ہے کہ سب کو اس دین کے بارے میں ایک ہی ہدایت کی گئی تھی کہ اس کو مضبوطی کیساتھ پکڑو ۔ اور اس میں کوئی تفرقہ پیدا نہ کرو ۔ یعنی اس دین کی وحدت کو ہر حال میں برقرار رہنا چاہئے ، اس بات کو قرآن مجید نے کئی جگہ کئی اسالیب میں بیان کی ہیں ۔ ہر مسلمان کو اس بنیادی بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیئے ۔
ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ ہم بھی اس کو غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں ۔ غیر مسلم جب اسلام پر تنقید کرنے کے لیئے کھڑے ہوتے ہیں تو اکثر وہ یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی فلاں بات بائبل سے لی گئی ہے ۔ فلاں بات انجیل سے لی گئی ہے ۔ فلاں بات فلاں جگہ سے لی گئی ہے ۔ حالانکہ وہ اس بات کو نہیں جانتے کہ قرآن مجید اسی تسلسل میں کھڑا ہوا ہے ۔ یعنی قرآن مجید اپنے بارے میں یہی نہیں کہتا کہ وہ اللہ کی پہلی کتاب ہے ۔ بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کی آخری کتاب ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اللہ کے پہلے پیغمبر ہیں ۔ بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے آخری پیغمبر ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب رسالت مآب صلی اللہ وسلم کی بعثت ہوئی ۔ تو اس وقت جس قوم میں آپ کی بعثت ہوئی ۔ وہ کسی دین سے واقف تھی کہ نہیں تھی ۔ ؟ اگر یہ پس منظر کی بات واضع ہوجائے تو ایسے کئی سوالوں کا جواب خودبخود سامنے آجائے گا ۔ جس کے بارے میں لوگوں کی حجت یہ ہوتی ہے کہ یہ قرآن مجید میں کیوں موجود نہیں ہے ۔ ؟
رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی بعثت جس وقت جس قوم میں ہوئی ۔ وہ قوم دینِ ابراہیمی پر قائم تھی ۔ یعنی جس طریقے سے دینِ مسیحی پورا کا پورا ایک دین بن چکا ہے ۔ اور اس دین میں بہت سی چیزیں وہ آگئیں ہیں ۔ جو سیدنا عیسی علیہ السلام نے نہیں کہی تھیں ۔ جو اس وقت بھی انجیل میں نہیں پائی جاتیں ۔ چرچ کی پوری ایک روایت قائم ہوئی ۔ رہبانیت کا پورا ایک ادارہ قائم ہوا ۔ یہ ساری چیزیں اگرچہ آچکی ہیں ۔ لیکن وہ اپنے آپ کو نسبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دیدتے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو مسیحی کہلاتے ہیں ۔ بلکل اسی طریقے سے دین کی وہ روایات جو رسالت مآب صلی علیہ وسلم کو ملیں ۔ یعنی جو آپ سے پہلے عرب میں موجود تھیں ۔ وہ ابراہیمی دین کی روایت تھیں۔ اس کے مطابق حج ہو رہا تھا ، اس کے مطابق نماز پڑھی جا رہی تھی ، اس کے مطابق روزے رکھے جا رہے تھے ، اس کے مطابق دین کے بہت سے احکام تھے جو روبہ عمل تھے ۔ اور ایک پوری کی پوری روایات چلی آرہی تھی ۔ اور وہ باقاعدہ اس کا نام بھی لیتے تھے اور ان کو عام طور پر حنیفی کہا جاتا تھا ۔ اس کی بڑی تفصیلات ہمارے قدیم علماء نے بھی بیان کیں ہیں ۔ یہاں کوئی نادر بات نہیں کہی جا رہی ہے ۔ شاہ ولی اللہ (رح ) کی کتاب " حجت اللہ بالغہ " میں پورا ایک باب ہے جس میں شاہ ولی اللہ نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اصل میں ابراہیمی دین کی تجدید کے لیئے تشریف لائے ۔ انہوں نے اس بات کو پوری تفصیل سے بیان کیا ہے اور اس ک باب کا عنوان ہی یہ ہے کہ " رسالت مآب صلی اللہ وسلم کی بعثت سے پہلے جہالیت میں کیا دینی روایات موجود تھیں ۔ ان تمام دینی روایات کا انہوں نے ذکر کیا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب بعثت ہوئی تو کیا صورتحال بن گئی تھی ۔ یعنی توحید سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے پیش کی تھی ۔ اس میں شرک کی آمیزش ہوگئی ۔ نماز کی ہیت بلکل حد تک تبدیل کردی گئی تھی ۔ حج میں بدعات شامل کر دیں گئیں تھیں ۔ روزوں کا معاملہ بھی اسی طرح بہت حد تک مشتبہ ہوچکا تھا ۔ دین ِ ابراہیمی میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو اپنی اصل شکل میں تھیں ، بعض چیزیں ایسی تھیں کہ جن میں تحریفات ہوگئیں تھیں ۔ بعض ایسی چیزیں تھیں جو بھلا دی گئیں تھیں ۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے انہیں روایات کو اللہ کے حکم سے جاری کردیا ۔ ظاہر آپ اللہ کے پیغمبر تھے ۔ جب آپ پیغمبری کے منصب ر فائز ہوئے تو آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ اس ملت ابراہیمی کی پیروی میں مبعوث کیئے گئے ہیں ۔ آپ اس کی پیروی کریں گے ۔ چنانچہ آپ نے اس کو زندہ کیا ۔ جس جگہ کسی اصلاح کی ضرورت تھی ۔ اس میں اصلاح کی ۔ جہاں ترمیم کی ضرورت تھی وہاں اللہ کے حکم سے ترمیم کردی ۔ جہاں کوئی اضافہ مقصود تھا وہاں اضافہ کردیا ۔ اور پھر اس کو جاری کردیا ۔ یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصوید سے یہ دین آگے چلا ہے ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ دین ، ابراہیمی دین کی روایت ہے ۔ سارے اس بات سے واقف ہیں کہ حضور صلی اللہ وسلم کے آنے سے پہلے ہی حج ہو رہا تھا ، جمعہ کی نماز کا بھی اہتمام بھی کیا جاتا تھا ۔ جنازہ کی بھی اسی طرح کی مثال موجود تھی ، نکاح بھی اسی طریقے سے ہوتا تھا ۔ طلاق کا کم و بیش یہی قانون تھا ۔ بیت اللہ موجود تھا ۔ بیت کی عظمت سے سب واقف تھے ۔ اللہ کا تصور موجود تھا اور اللہ سے دعائیں کی جاتیں تھیں ۔ اور " اللہ " کا لفظ بھی موجود تھا ۔ یہ ساری چیزیں موجود تھیں ۔
ہمارے ہاں عمومی تاثر یہ بن گیا ہے کہ وہاں تو سرے سے کوئی دین موجود ہی نہیں تھا ۔ اور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار آکر ان کو دین بتایا ہے ۔ ایسا کچھ نہیں ہے ۔ یہ بنی اسماعیل ہیں ۔ حضرت اسماعیل کی اولاد تھے ۔ اور پھر ان کے اپنے شہروں میں یہود آباد تھے ۔ ان کے ہاں یہ روایت بنی اسرائیل کے دینی طور پر بھی موجود تھی ۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بہت سی ایسی چیزوں کا ذکر اس پہلو سے آتا ہے کہ جن چیزوں کی بابت ان کو بتایا جا رہا ہے ، یہ چیزیں لوگ پہلے سے جانتے ہیں ۔ آدمی جب قرآن پڑھتا ہے اور اگر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو تو اس کے ذہن میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ نماز کا اہتمام کرو ۔ اس کی کوئی تفصیلات نہیں بتاتا ۔ زکوۃ ادا کرو اس کی کوئی تفصیلات نہیں بتاتا ۔ حج کے بارے میں بلکل ایسے ہی ذکر کرتا ہے کہ چند چیزیں ہیں جن کے اندر خرابی پیدا ہوگئی ہے جن کی اصلاح کردینی ہے ۔ جب کوئی آدمی اس زاویئے سے دیکھتا ہے اور وہ اس بات کے پس منظر سے واقف نہ ہو تو بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ بعض لوگوں نے موجودہ زمانے میں یہی کیا کہ ان سب چیزوں کو قرآن سے برآمد کرنے کی کوشش کی ۔ یہ خود ایک بے معنی بات تھی ۔ قرآن پورے ایک پس منظر میں کھڑا ہے ۔ اس کی پوری ایک تاریخ ہے ۔ اس کے پیچھے دین کی ایک روایت کھڑی ہے ۔ اس میں وہ گفتگو کر رہا ہے ۔ جو چیزیں موجود ہیں ، معروف ہیں ، ، معلوم ہیں ۔ ان کو اپنانے کے لیئے کہہ رہا ہے ۔ لوگ ان سے واقف ہیں ۔ الفاظ موجود ہیں ۔
جب قرآن کہتا ہے کہ نماز کا اہتمام کرو تو لوگ جانتے ہیں کہ نماز کیا ہے ۔ ؟ ۔ زکوۃ ادا کرو تو لوگوں کو معلوم ہے کہ زکوۃ کیا ہے ۔ رسالت مآب یہ باتیں پہلی بار نہیں بتا رہے ۔ اس وجہ سے اس کی تفصیل کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کو ایک آسان مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ نبوت تو اب خیر ختم ہوگئی مگر تھوڑی دیر کے لیئے سوچیں کہ اگر اس وقت کسی پیغمبر کی بعثت ہو ۔ اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات جو دین میں پہلے سے چلی آرہی ہے ۔ تو وہ کیا کرے گا کہ جہاں کوئی خرابی پیدا ہوگئی ہے وہ اس خرابی کو دور کرے گا ۔ جہاں کوئی چیز مردہ ہوگئی ہے اس کو زندہ کردے گا ۔ اور اللہ جہاں چاہے گا اس کی مرضی سے وہاں کوئی ترمیم یا اضافہ بھی ہوجائے گا ۔ اور یہی معاملہ پوری کی پوری دینی روایت میں سب پیغمبروں نے کیا ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل میں فرماتے ہیں کہ میں تورایت جو منسوخ کرنے کے لیئے نہیں آیا ہوں ۔ بلکہ اس کو پورا کرنے کے لیئے آیا ہوں ۔ لہذا تورایت کا جو قانون تھا انہوں نے اس کو آگے جاری کردیا ۔ پیغمبر کی تصوید اس کو حاصل ہوگئی ۔ یہی کام سب پیغمبروں نے کیا ہے ۔ اب جتنے لوگ اس وقت صاحبِ ایمان تھے تو وہ سب اس کو اپنا رہے تھے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا کہا تو سب نے نماز پڑھنی شروع کردی ۔ اس کی جماعت کا اہتمام شروع ہوگیا ۔ صحابہ کرام نے پانچ وقت مسجد میں حاضر ہوکر اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کا سلسلہ شروع کردیا ۔ حج کا معاملہ ہوا تو ظاہر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حج کیا ، عمرے کیئے ۔ صحابہ کرام نے بھی اس کی پیروی کی ۔ رمضان آگیا تو انہوں نے روزے بھی رکھنا شروع کردیئے ۔ اور اس قسم کے جتنے بھی معاملات سے وہ سب رسالت مآب صلی اللہ وسلم کے ذریعے سے امت میں جاری ہوگیا ۔
اب اس بات کے کیا معنی نکلتے ہیں کہ نماز روزے وغیرہ کا قرآن میں ذکر ہے ۔ مگر طریقے کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ تو اس بات کا کیا مطلب اخذ کرنا چاہیئے کہ ایسا کیوں کہا جاتا ہے ۔ ؟