ہم نے بھی یہ پیش گوئیاں مختلف مضامین اور نیٹ پر موجود پی ڈی ایف کتب میں پڑھیں تو خاصی حیرانی ہوئی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ احادیث اور بعد کی کتب میں موجود پیش گوئیوں کو ہر عہد میں اسی دور کی مناسبت سے جوڑا گیا۔ جیسے یاجوج ماجوج وغیرہ کو تاتاریوں کے ساتھ بھی منسوب کیا گیا۔ آج ان کو چینیوں کے ساتھ بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ کسی دور میں شاید کسی اور قوم کو بھی اسی پہ محمول کیا گیا ہو۔
اسی طرح کلام میں حسبِ ضرورت تحریف وغیرہ بھی بالکل خارج از امکان نہیں ہے۔
خیر اس ضمن میں مزید حقائق کی کھوج جاری رہنی چاہئے۔
"ہم سب" کی ویب سائٹ پہ عدنان کاکڑ نے دو کالم میں نعمت اللہ صاحب کی پیش گوئیاں شائع کی تھیں۔ تیسرے کالم میں کچھ ایسا تجزیہ بھی شامل کیا ہے۔ ذیل میں اس کو کاپی کر رہا ہوں۔
----------------------------------------------------
ربط:
کیا شاہ نعمت اللہ ولیؒ کی پیش گوئیاں ایک فراڈ ہیں؟ - ہم سب
گزشتہ دنوں ہم نے شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی کشمیری کی پیش گوئیوں پر مبنی دو مضامین لکھے تھے۔ پہلے مضمون میں درج حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کی پیش گوئیوں کو دیکھ کر تو امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیوں پر ہنسی آتی تھی کہ ہمارے بابے تو صدیوں پہلے
امریکہ کی زبردست تباہی کی پیش گوئی کر گئے ہیں اور امریکہ ایسے تباہ ہو گا کہ اس کا صرف نام ہی تاریخ میں بچے گا۔ ٹرمپ کو دیکھ کر ان پیش گوئیوں پر ہمارا یقین پختہ ہو گیا اور ہمیں یہ بھی یقین ہو گیا کہ امریکہ کی یہ تباہی ضرور پاکستان کے ہاتھوں ہی ہو گی۔
اسی بارے میں مزید پڑھنے پر ہمیں
ہندوستان کی مکمل فتح کا بھی علم ہوا کہ اٹک کی خونریز جنگ کے بعد بھارت مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آ جائے گا اور ادھر چالیس برس تک مسلمانوں کی حکومت رہے گی حتی کہ اصفہان میں دجال کا ظہور ہو گا۔
ان مضامین پر کچھ بدعقیدہ قسم کے لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی، نوسٹرے ڈیمس اور ایسے دوسرے لوگوں کی پیش گوئیاں محض پروپیگنڈے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں اور بوقت ضرورت یا تو ان پیش گوئیوں کا نیا ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن شائع کر دیا جاتا ہے یا پھر کوئی گنجلگ سی پیش گوئی پکڑ کر اس کے نئے مفہوم پیدا کر دیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کی پیش گوئیوں میں فارسی زبان میں ٹ نہ ہونے کے باجود اٹک کا نام لکھا جانا، نانگا پربت وغیرہ جیسے جدید نام اور قدیم نام سارگن یا گلت کی بجائے گلگت کہنا بعض ضعیف العقیدہ اذہان میں ان پیش گوئیوں کے متعلق شبہات پیدا کرتا ہے۔
رودِ اٹک نہ سہ بار از خوں اہل کفار
پر مے شود بہ یکبار جریان جاریانہ
چترال، ناگا پربت، باسین ، ملک گلگت
پس ملک ہائے تبت گیر نار جنگ آنہ
ترجمہ: دریائے اٹک (دریائے سندھ) کافروں کے خون سے تین مرتبہ بھر کر جاری ہو گا۔ چترال، نانگا پربت، چین کے ساتھ گلگت کا علاقہ مل کر تبت کا علاقہ میدان جنگ بنے گا
ایسے میں جب ہمیں محدث میگزین کے فروری 1972 کے شمارے میں آغا شورش کاشمیری صاحب کے جریدے ہفت روزہ چٹان مورخہ 10 جنوری 1972 کا ایک نقل شدہ مضمون دکھائی دیا تو ہم نے مناسب سمجھا کہ توازن برقرار رکھنے کی خاطر اسے بھی اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔ یہ مضمون جناب احسان قریشی صاحب صابری نے ”حقیقت حال کیا ہے؟ “ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ آپ نے پہلے شاہ صاحب کی پیش گوئیاں پڑھیں۔ اب احسان قریشی صابری صاحب کا مضمون بھی پڑھیں اور خود فیصلہ کر لیں کہ کس کی بات آپ کے دل کو لگتی ہے۔
حقیقت حال کیا ہے؟ از احسان قریشی صابری
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر ابتلاء اور مصائب کا کوئی دور آیا تو کسی نہ کسی اہلِ قلم نے شاہ نعمت اللہ ولیؒ کا قصیدہ ترمیم کے ساتھ شائع کر دیا تاکہ انہیں تسلی اور تشفی ہو۔ بجائے اس کے کہ ہم زوال اور نکبت کے اصل اسباب قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کریں، اور اپنا اور اپنی قوم کا انفرادی اور اجتماعی جائزہ لیں اور ان اسباب کا ازالہ کریں۔ نیز اپنی عملی قوتوں کو بروئے کار لا کرنامساعد حالات کا مردانہ وار مقابلہ کریں۔ ہمیں اس کی معرفت اور ان پیش گوئیوں کے پیش نظر خوش آئندہ توقعات قائم کرنا پڑتی ہیں۔
سب سے پہلے یہ قصیدہ 1857ء کے ابتلاء کے بعد شائع ہوا تھا۔ دوسری بار چند ترامیم کے ساتھ پہلی جنگِ عظیم ختم ہونے کے بعد کسی صاحب نے شائع کر دیا، جس میں سلطان ترکی کی یلغار اور خلافتِ عثمانیہ کی نشاۃِ ثانیہ کے متعلق پیشین گوئیاں موجود تھیں۔ تیسری بار یہ قصیدہ 1948ء میں شائع ہوا تھا۔ جب بھارت نے حیدر آباد دکن پر حملہ کیا تھا اس میں چند ایسے اشعار بھی درج تھے، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ سلطنتِ آصفیہ کا جھنڈا لال قلعہ دہلی پر عنقریب لہرائے گا۔ چوتھی بار یہ قصیدہ اب موجودہ دورِ ابتلاء میں شائع ہوا ہے تاکہ ہم اپنی کوتاہیوں بد اعمالیوں اور سہل کوشیوں کا جائزہ لیے بغیر پیشین گوئیوں کے سہارے خوش آئند توقعات قائم کرتے رہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، حالانکہ ہمارے ابتلاء کے اسباب خود ہمارے پیدا کردہ ہیں۔ حق تعالیٰ نے ہمیں 1947ء میں ایک وسیع و عریض ملک اپنے فضل و کرم سے بطور انعام عطا کیا تھا۔
قرآن حکیم کی آیات کے مطابق عادتِ الٰہی یہ رہی ہے کہ انعام کا شکر ادا کیا جائے تو نعمت میں زیادتی ہوتی رہتی ہے اور اگر ناشکری کی جائے اور مسلمان بد اعمالیوں میں مبتلا ہو جائیں تو حق تعالیٰ ناراض ہو کر تھوڑی بہت سزا یہیں دے دیا ہے۔ ہمارے لئے اس انعام کے شکر کی صورت یہی تھی کہ ہم اپنی زندگیاں منشاء الٰہی کے مطابق ڈھالتے۔ اپنا نظامِ سلطنت اس فرمان کے مطابق بناتے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی روایات قائم کرتے۔ اس کے بجائے ہم نے جو کچھ کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اللہ اپنا انعام کسی قوم سے اس وقت تک واپس نہیں لیتا جب تک وہ قوم خود اس کا استحقاق نہ گنوا دے۔ جو کچھ ہم نے بویا ہے وہی ہم کاٹ رہے ہیں۔
شاہ نعمت اللہ ولیؒ کا نام گرامی نور الدین سید شاہ نعمت اللہ ولیؒ ہے۔ ان کا دیوان برٹش میوزیم لندن رائل ایشیاٹک سوسائٹی لائبریری لندن اور پبلک لائبریری بانکی پور میں موجود ہے۔ ہجری 1276ھ میں طہران (ایران) کے ایک بک سیلر نے بھی یہ دیوان جو تمام کا تمام فارسی زبان میں ہے، شائع کیا تھا۔ یہ قصیدہ جواب اخبارات میں شائع ہوا ہے اس دیوان میں کہیں موجود نہیں ہے۔ نیز شاہ صاحب کے حالات زندگی عام فارسی تذکروں مثلاً مجمع الفصحاء، مراۃ الاسرار، ریاض الشعراء، تذکرہ دولت شاہ سمر قندی، اخبار الاخیار، خزینۃ الاصفیاء مرتہ مفتی غلام سرور لاہور، تذکرۃ الکرام اور تاریخ فرشتہ میں پائے جاتے ہیں۔ برٹش میوزیم لندن میں جو نسخہ دیوانِ شاہ نعمت اللہ ولیؒ ہے وہ 1939ء میں پٹنہ کے کسی پریس کا شائع شدہ ہے۔ نیز طہران، (ایران) والا نسخہ رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن کی لائبریری میں محفوظ ہے۔ (1276ھ) اس دیوان میں مناقب شاہ نعمت اللہ ولی کے عنوان سے شاہ صاحب کی مختصر سی سوانح عمری بھی درج ہے۔ اس کے مطابق شاہ نعمت اللہ ولیؒ کبھی برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے اور نہ ہی ان کا مزار بھارت یا پاکستان میں کہیں موجود ہے۔ البتہ ان کی اولاد سلطان احمد شاہ بہمنی کی دعوت پر ہند میں آئی تھی۔
شاہ نعمت اللہ ولیؒ 730ھ میں حلب میں پیدا ہوئے، عراق میں نشوونما پائی۔ 24 سال کی عمر میں مکہ معظمہ گئے یہاں سات سال قیام پذیر رہے اور شیخ عبد اللہ یافعیؒ (متوفی 728 ہجری) کے حلقہ ارادت میں داخل ہو کر تصوف اور سلوک کی راہ طے کی اور ان کے مجاز بیعت (خلیفہ) مقرر ہوئے۔ اس کے بعد شاہ صاحب سمر قند ہرات اور یزد میں مقیم رہے اور ہر جگہ ان سے بڑی تعداد میں افراد بیعت ہوئے، آخر قصبہ امان میں جو کرمان سے 87 میل دور ہے، مستقل سکونت اختیار کی اور اپنی زندگی کے آخری 25 سال وہیں بسر کیے اور 834ھ میں 104 برس کی عمر میں وفات پائی۔
شاہ صاحب خود کبھی برصغیر میں تشریف نہیں لائے۔ البتہ ان کے کشف و کرامات کی شہرت دور دور تک پھیلی۔ جس سے وہ مختلف سلاطین کے حلقہ میں بڑے احترام اور عقیدت سے دیکھے جاتے تھے۔ انہی سلاطین میں دکن (اصل مضمون میں دہلی لکھا ہے) کا حکمران احمد شاہ بہمنی بھی تھا۔ اسی کی درخواست پر شاہ صاحب کے پوتے میر نور اللہ دکن آئے۔ سلطان نے مخدوم کی حیثیت سے بڑی عزت و تکریم کی۔ شاہ نعمت اللہ ولیؒ کا اصل قصیدہ اس شعر سے شروع ہوتا ہے۔ ؎
قدرت کردگارمی بینم حالتِ روزگارمی بینم
اور وہ قصیدہ جو اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ اس کا اصل قصیدہ سے کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ قصیدے کے فرضی ہونے کی داخلی شہادتیں خود اس قصیدہ میں موجود ہیں جو کہ شاہ صاحب کے زمانے میں موجود نہیں تھے۔ مثلاً جاپان کا ذِکر بار بار اس قصیدے میں آیا ہے حالانکہ اس ملک کا نام ”جاپان“ 1295ء میں پڑا تھا۔ اس سے پہلے (شاہ صاحب کے وقت میں) اس ملک کا نام ’چی نیکو‘ (نیپون یا نیہون؟) تھا۔ البتہ سرور کائنات نبی اکرم ﷺ نے پاک و ہند جنگ کے متعلق ذکر فرمایا ہے۔ (نسائی شریف کتاب الجہاد۔ باب غزوۃ الہند۔ جلد نمبر 6 ص 43 مطبوعہ مصر)
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسولِ مقبول ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہوں کو حق تعالیٰ خاص طور پر جہنم کی آگ سے بچائیں گے۔ ایک گروہ جو ہندوستان سے جنگ کرے گا اور دوسرا گروہ جو اس کے بعد آئے گا اور حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا ساتھ دے گا۔
رسول مقبول ﷺ کے اس فرمان کے مطابق فتح آخر میں ہماری ہو گی۔ کیوں کہ ان دونوں کے لئے آگ سے برأت اور فتح کی بشارت موجود ہے۔