حضرت نعمت اللہ شاہ ولی رحمتہ اللہ علیہ کی آٹھ سو پچاس سالہ پیشن گوئیاں۔۔

کافی لوگوں نے اپنے اپنے مقاصد کیلئے حضرت نعمت شاہ ولی سے منسوب اشعار تاریخ کے مختلف مرحلوں میں پیش کئے ہیں ہیں۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ انکا انتساب اُن سے کہاں تک درست ہے۔ میں نے تو مرزا غلام احمد قادیانی کی بھی ایک کتاب میں اسکے حوالے دیکھے ہیں جس میں کچھ اشعار کو اپنے دعویٰ کی تائید میں پیش کیا گیا تھا۔۔۔یہ بھی مشہور ہے کہ انگریزوں کے دور میں شاہ نعمت علی شاہ کے اس قصیدے پر پابندی تھی۔۔۔واللہ اعلم
 
یہ سارا دھاگہ پڑھنے کے بعد میں نے اپنے والدین کے ساتھ اس کا ذکر کیا تو دونوں حضرت شاہ ولی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے واقف تھے۔ اور میری والدہ نے بتایا کہ 65ء کی جنگ کے بعد انہوں نے یہ پیشین گوئیاں سن رکھی تھیں۔
 
ترجمہ: دریائے اٹک (دریائے سندھ) کافروں کے خون سے تین مرتبہ بھر کر جاری ہو گا۔
تشریح: حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی کا ہر شعر جہاں ایک الگ باب کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں مستقبل کے بارے ان کا یہ شعر جس میں صاف طور پر دریائے اٹک (دریائے سندھ) کا نام لے کر اسے تین مرتبہ کفار کے خون سے بھر کر جاری ہونے کی پیشنگوئی کی گئی ہے ، مسلمانوں اور کفار کے درمیان ایک انتہائی خونریز جنگ کو ظاہر کرتا ہے جس میں اگلے شعر کے تناظر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گی۔لیکن اس شعر کی یہ تشریح اس وقت تک تشنہ لب ہے جب تک جغرافیائی اور واقعاتی لحاظ سے اس اہم نکتہ پر غور نہ کیا جائے کہ بھلا کفار کے خلاف مذکورہ خونریز جنگ آخر پشاور سے صرف ٤٥میل دور دریائے اٹک تک کیسے آ پہنچے گی جبکہ دریائے سندھ کے مغرب میں صرف صوبہ سرحد(پختونخواہ) ، قبائلی علاقہ، افغانستان اور چند آزاد جمہوری ریاستیں واقع ہیں جو مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ تو کیا اٹک کے کنارے کفار سے مزاحمت صرف یہی مغرب کی طرف سے آنے والے مسلمان کریں گے؟ دوسرا انتہائی تشویشناک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اگر مغرب کی طرف سے کفار کا آنا بعید از قیاس ہے تو پھرکفار دریائے اٹک تک پاکستان کے مشرق یا شمال مشرق کی جانب سے کن راستوں یا علاقوں سے گزر کر پہنچیں گے؟ کیونکہ مقامِ کارزار آخر دریائے اٹک ہی بتایا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم

بھائی میرے خیال میں اس مراد ، انگلستان پھر روس اور اب امریکہ کی باری انشاء اللہ
 

فرخ

محفلین
اگر اٹک تک کے لوگ افغانستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ضرور
میرا نہیں خیال کہ ایسا ہے

پہلے میری معلومات صرف اٹک تک ہی محدود تھیں اور میں نے کبھی اس موضوع کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ مگر انٹرنیٹ پر تلاش کرنےسے پتا چلا کہ بات اس سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔۔۔ ذرا یہ لنک ملاحظہ فرمائیے:
http://www.afghanistans.com/information/history/durandline.htm
اور افغان صدر کا بیان کہ وہ اس ڈیورنڈ لائن کی سرحد کو نہیں مانتے:
http://www.tolonews.com/en/afghanistan/10381-karzai-afghanistan-never-recognised-the-durand-line
اور افغانستان کے اصل نقشے اور ڈیورنڈ لائن کی تفصیل یہاں سے ملاحظہ کیجئے
http://en.wikipedia.org/wiki/Durand_Line
اور ساتھ ساتھ "دی ہندو" کا یہ لنک بھی پڑھئیے:
http://www.thehindu.com/news/international/pak-afghanistan-clash-over-durand-line/article4031545.ece

جنگوں کی بنیاد ایسی چیزیں بھی بنتی ہیں اور اوپر جو میں نے بات کہی کہ مستقبل میں ایسی جنگ کا امکان ہے، تو وہ انہی خبروں کی بنیاد پر تھی۔۔ تو اگر نعمت اللہ صاحب کی پیشن گوئیاں درست ثابت ہو رہی ہیں تو آنے والی جنگوں میں سے شائید ایک یہ بھی ہو جس کی بنیاد دراصل یہ ڈیورنڈ لائن ہے۔
 
آخری تدوین:

نوید حسین

محفلین
یہاں یہ شعر (" از خاص و عام آیند جمع تمام گردند
درکار آں فزایند صد گونہ غم افزانہ
ترجمہ: عام و خاص سب کے سب لوگ جمع ہو جائیں گے۔اس کام میں سینکڑوں قسم کے غم کی زیادتی ہو گی۔)
مجھے پشاور سکول حملے کے متعلق لگ رہا ھے جبکہ اوپر کے یہ دو اشعار مجھے ضرب عضب کی نشاندھی کرتے لگ رہے ہیں "شمشیر ظفر گیرند با خصم جنگ آرند
تا آنکہ فتح پابند از لطف آں یگانہ
ترجمہ: یہ (پاک فوج) فتح والی تلوار پکڑ کر دشمن کے ساتھ جنگ کریں گے۔حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے فتح حاصل کر لیں گے۔

از قلب پنج آبی خارج شوند ناری
قبضہ کنند مسلم بر شہر غاصبانہ
ترجمہ: پنجاب کے قلب سے ناری (جہنمی) لوگ بھاگ جائیں گے۔ مسلمان شہر پر غاصبانہ قبضہ کر لیں گے۔
" حالانکہ پہلے جب ضرب عضب پنجاب تک نہیں پہنچا تھا تب مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا مگر اب صد فی صد یقین ھوگیا ھے کہ یہ ضرب عضب کا ہی زکر کرتے تھے اس بارے میں حاتم صاحب کی رائے کا منتظر رھوں گا
 
بہت مفصل اور باریک بینی سے واقعات کا بتایا گیا ہے جو کہ حیرت انگیز ہے اور یہ بھی کہ یہ اتنی زیرِ بحث کیوں نہیں رہیں، جبکہ ان کی نسبت کافی مبہم ناسٹرا ڈیمس کی پیشگوئیاں کافی زیرِ بحث رہیں۔ بہرحال اللہ سب سے زیادہ اور تمام کا تمام علم رکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اور جتنے چاہے اپنے راز دکھا دے اور جتنا چاہے علم دے دے، اور اس کے دوستوں یعنی ولیوں کا حق تو بے شک زیادہ ہے۔
اللہ ہمیں ہدایت دے آفات اور حادثات سے بچائے اور ایمان کی حالت میں اپنے پاس بلائے۔
اتنی مفصل تحریر شئیر کرنے کا بہت شکریہ حاتم لیکن آپ نے یہ کسی کتاب سے خود ٹائپ کی یا کوئی آن لائن سورس بھی تھا۔ معافی چاہتا ہوں مجھے نظر نہیں آسکا۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
بہت مفصل اور باریک بینی سے واقعات کا بتایا گیا ہے جو کہ حیرت انگیز ہے اور یہ بھی کہ یہ اتنی زیرِ بحث کیوں نہیں رہیں، جبکہ ان کی نسبت کافی مبہم ناسٹرا ڈیمس کی پیشگوئیاں کافی زیرِ بحث رہیں۔ بہرحال اللہ سب سے زیادہ اور تمام کا تمام علم رکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اور جتنے چاہے اپنے راز دکھا دے اور جتنا چاہے علم دے دے، اور اس کے دوستوں یعنی ولیوں کا حق تو بے شک زیادہ ہے۔
اللہ ہمیں ہدایت دے آفات اور حادثات سے بچائے اور ایمان کی حالت میں اپنے پاس بلائے۔
اتنی مفصل تحریر شئیر کرنے کا بہت شکریہ حاتم لیکن آپ نے یہ کسی کتاب سے خود ٹائپ کی یا کوئی آن لائن سورس بھی تھا۔ معافی چاہتا ہوں مجھے نظر نہیں آسکا۔
امجد بھائی یہ ایک پرانی کتاب جو کچھ خستہ سی حالت میں میرے پاس تھی اسے ٹائپ کر دیا تھا۔ یہ محفل میں میرے پہلے مراسلوں میں سے ایک ہے۔
ویسے مصنف نے بھی اس کتاب میں سند کے طور پر کچھ پیش نہیں کیا اور اس کتاب یا اس میں موجود مختلف اشعار کو بہت دفعہ کئی موقعوں پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن چونکہ حضرت نعمت شاہ ولی کا ذکر و زمانہ کافی پہلے کا ہے اور وہ کوئی بہت نامی گرامی بزرگ بھی نہ تھے لہذا لازمی سی بات ہے کہ ان کے اشعار میں بھی تحریف ہوئی ہو گی۔ اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ سارا مواد درست ہے یا نہیں ۔ ہاں البتہ اسے دیکھ کر اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔ جو کہ اب میں بالکل نہیں لگاتا :D کہ اینا فالتو ٹائم بالکل نئیں ہے :)
 
جس نے اس کتاب کو لکھا ہے نقل مار کر لکھا ہے یعنی پرانی کتابوں سے بعینہ ہی لکھ دیا ہے اگر یہ مؤلف پشاور کا ہی ہے تو میں اس پاگل اور خبطی کو جانتا ہوں
 
ناسٹرے ڈیمس کے بارے میں اردو زبان میں میرے خیال میں شائد اس سے بہتر مضمون آپ کو نی مل سکے
october_20_14_10.gif
 
جس نے اس کتاب کو لکھا ہے نقل مار کر لکھا ہے یعنی پرانی کتابوں سے بعینہ ہی لکھ دیا ہے اگر یہ مؤلف پشاور کا ہی ہے تو میں اس پاگل اور خبطی کو جانتا ہوں
یعنی پرانی کتابوں میں بھی یہ من و عن ایسا ہی تحریر ہے؟
 
شاہ نعمت اللہ والی کی پیشین گوئیاں تو گو کہ معروف ہیں لیکن ان کے اشعاروں میں تحریف کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا ۔ بض اشعار کی تشریح مختلف لوگوں نے اپنے حساب سے کی ہے۔ کچھ بھی کہیں یہ ان کے الہامات ہی ہیں بعض دفعہ الہام سمجھنے میں خود صاحب الہام کو بھی غلطی ہو جاتی ہے پیشین گوئیوں کے حوالے سے اگر اھادیث کی تمام پیشین گوئیاں یکجا کی جائیں تو وہ زیادہ مستند کام ہوگا۔ تاہم صحیح احادیث کا التزام ضروری ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے علم کے مطابق یہ اشعار وہ ہیں جنہیں جان بوجھ کر محفوظ رکھا گیا ہے کہ وہ تاریخی اعتبار سے درست ثابت ہوتے تھے اور بہت بڑا حصہ جو کہ غلط ثابت ہوا، کے بارے رائے دی جاتی ہے کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ضائع ہو گئے۔ دوسرا یہ اشعار ہمیشہ اس انداز سے لکھے گئے کہ اس کے کئی مطالب نکل سکتے تھے۔
صاحب قرن ثانی اولاد گور گانی
شاہی کندا ما شاہی چو رستمانہ

ترجمہ: خاندان مغلیہ میں سے صاحب قرن ثانی ہند پر بادشاہی کرے گا لیکن بادشاہی دلیرانہ طور پر ہو گی۔​
یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ ہرگز خاندانِ مغلیہ کا نام نہیں لیا گیا مگر مصنف نے اس چیز کو اپنی طرف سے ثابت کر دیا۔ جب تاریخی واقعات پیش آ چکے ہوں تو پھر ان کو اشعار کی مناسبت سے ثابت کرنا بہت سہل ہو جاتا ہے
پھر یہ دیکھیے
آلات برق پیما اسلاح حشر پربا
سازند اہل حرفہ مشہور آں زمانہ
ترجمہ: برق پیما آلات اور میدان جنگ میں حشر برپا کرنے والا اسلحہ اس زمانہ کے مشہور و معروف سائنسدان بنائیں گے۔​
اہلِ حرفہ سے مراد ماہرین ہیں، سائنس دان اپنی طرف سے تشریح کی گئی اور اسے ترجمہ کہہ کر ظاہر کیا گیا۔ اب ذرا یہ نکتہ دیکھیے کہ سائنس دان بے شک ماہرین ہوتے ہیں مگر ہر ماہر سائنس دان نہیں ہوتا۔ ترجمے میں یہ ڈنڈی ماری گئی
یہ اشعار قابلِ غور ہیں
فسق و فجور ہر سُو رائج شود بہ ہر کُو
مادر بہ دختر خود سازد بسے بہانہ
ترجمہ: ہر طرف اور ہر گلی کوچہ میں فسق و فجور عام ہو جائے گا۔ماں اپنی بیٹی کے ساتھ بہت بہانہ سازی کرے گی۔​

حلت رود سراسر حرمت رود سراسر
عصمت رود برابر از جبر مغویانہ
ترجمہ: حلال جاتا رہے گا، حرام کی تمیز جاتی رہے گی۔ عورتوں کی عصمت جابرانہ اغوائیگی سے جاتی رہے گی۔​

بے مہر گی سر آید پردہ داری آید
عصمت فروش باطن معصوم ظاہرانہ
ترجمہ: نفرت پیدا ہو گی، بے پردگی آجائیگی۔ عورتیں بے پردہ ہوں گی۔ بظاہر معصوم لیکن اندر سے عصمت فروش ہوں گی۔​

دختر فروش باشند عصمت فروش باشند
مردانِ سفلہ طینت با وضع زاہدانہ
ترجمہ: اکثر لوگ دختر فروشی اور عصمت فروشی کریں گے۔ بدکردار لوگ اپنی ظاہری وضع قطع زاہدوں جیسی رکھیں گے۔​

بے شرم و بے حیائی درمرد ماں فزاید
مادر بہ دختر خود، خود را کند میزانہ
ترجمہ: لوگوں میں بے شرمی اور بے حیائی زیادہ ہو جائیگی، ماں اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے آپ کا موازنہ کرے گی۔ گویا ماں حسن و جمال اور طرز و انداز میں خود کو اپنی بیٹی سے کم نہیں سمجھے گی۔​

کذب و ریاء و غیبت ، فسق و فجور بیحد
قتل و زنیٰ و غلام ہر جا شوند عیانہ
ترجمہ: جھوٹ اور ریا کاری، غیبت اور فسق و فجور کی زیادتی ہو گی۔ قتل ، زنا اور اغلام بازی ہر جگہ عام ہو جائے گی۔​
یعنی ہر جگہ ایک ہی کام یعنی سیکس ہوتا رہے گا اور دنیا جہان کے دیگر کام ٹھپ ہو جائیں گے
یہ بھی ایک لطیفہ ہے کہ 1965 کی جنگ پاکستان نے جیت لی تھی
ناگاہ مومناں را شور پدید آید
با کافراں نمایند جنگے چوں رستمانہ
ترجمہ: اچانک مسلمانوں کو ایک ظاہر شور سنائی دے گا، کافروں کے ساتھ ایک دلیرانہ جنگ لڑی جائیگی۔
تشریح: یہ شعر اور اس کے بعد اگلے چار شعر واضح طور پر ٦ ستمبر ١٩٦٥ء کی پاک بھارت جنگ کو ظاہر کرتے ہیں۔​

شمشیر ظفر گیرند با خصم جنگ آرند
تا آنکہ فتح پابند از لطف آں یگانہ
ترجمہ: یہ (پاک فوج) فتح والی تلوار پکڑ کر دشمن کے ساتھ جنگ کریں گے۔حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے فتح حاصل کر لیں گے۔​

از قلب پنج آبی خارج شوند ناری
قبضہ کنند مسلم بر شہر غاصبانہ
ترجمہ: پنجاب کے قلب سے ناری (جہنمی) لوگ بھاگ جائیں گے۔ مسلمان شہر پر غاصبانہ قبضہ کر لیں گے۔
تشریح: ایک لحاظ سے لاہور کو پنجاب کا دل کہا جاتا ہے، ٦٥ء کی جنگ میں دشمن کی فوجیں اچانک حملہ کر کے لاہور کے شالا مار باغ سے چند میل دور باٹا پور کے قرب و جوار تک پہنچ گئی تھیں۔ لیکن پاک فوج کی سخت مزاحمت سے وہ بی آر بی نہر کو کراس نہیں کر سکیں۔ بی -آر۔بی پُل کے ساتھ سڑک کے کنارے ان عظیم شہداء کی یادگار کھڑی ہے جنہوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے لاہور کا دفاع کیا۔ دوسرے معنوں میں یہ شعر واہگہ سرحد کے قریب ہندوستان کے اندر کھیم کرن شہر پر پاک فوج کے قبضہ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔​

از لطف و فضل یزداں بعد از ایام ہفدہ
خوں ریختہء و قربان دادند غازیانہ
ترجمہ: سترہ روز کی جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسلام کے غازی خونریزی کر کے اور قربانی دے کر کامیاب ہونگے۔
تشریح: اس جنگ میں ”ایام ہفدہ“ (١٧ دن) کے الفاظ کہہ کر حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے ٨٠٠ سال قبل ٦ ستمبر ١٩٦٥ء پاک بھارت کی سترہ روزہ جنگ، نہ ایک دن کم ، نہ ایک دن زیادہ، کی بات کرکے اپنی پیشنگوئی کا لوہا منوایا ہے۔​
سب سے مضحکہ خیز ترجمہ اور تشریح دیکھیے
ترجمہ: پنجاب کے قلب سے ناری (جہنمی) لوگ بھاگ جائیں گے۔ مسلمان شہر پر غاصبانہ قبضہ کر لیں گے۔
تشریح: ایک لحاظ سے لاہور کو پنجاب کا دل کہا جاتا ہے، ٦٥ء کی جنگ میں دشمن کی فوجیں اچانک حملہ کر کے لاہور کے شالا مار باغ سے چند میل دور باٹا پور کے قرب و جوار تک پہنچ گئی تھیں۔ لیکن پاک فوج کی سخت مزاحمت سے وہ بی آر بی نہر کو کراس نہیں کر سکیں۔ بی -آر۔بی پُل کے ساتھ سڑک کے کنارے ان عظیم شہداء کی یادگار کھڑی ہے جنہوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے لاہور کا دفاع کیا۔ دوسرے معنوں میں یہ شعر واہگہ سرحد کے قریب ہندوستان کے اندر کھیم کرن شہر پر پاک فوج کے قبضہ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
اب ذرا ترجمہ اور تشریح کو پڑھیے، دونوں کا مقابلہ کیجیے، پھر انہیں سمجھیے اور سر دھنیے۔ اس سے زیادہ کیا کہہ سکتے ہیں
 

کاشف سعید

محفلین
میرے علم کے مطابق یہ اشعار وہ ہیں جنہیں جان بوجھ کر محفوظ رکھا گیا ہے کہ وہ تاریخی اعتبار سے درست ثابت ہوتے تھے اور بہت بڑا حصہ جو کہ غلط ثابت ہوا، کے بارے رائے دی جاتی ہے کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ضائع ہو گئے۔ دوسرا یہ اشعار ہمیشہ اس انداز سے لکھے گئے کہ اس کے کئی مطالب نکل سکتے تھے۔

یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ ہرگز خاندانِ مغلیہ کا نام نہیں لیا گیا مگر مصنف نے اس چیز کو اپنی طرف سے ثابت کر دیا۔ جب تاریخی واقعات پیش آ چکے ہوں تو پھر ان کو اشعار کی مناسبت سے ثابت کرنا بہت سہل ہو جاتا ہے

کم از کم خاندان مغلیہ اولاد گورگانی تو تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
سب سے بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئیوں پر مشتمل کسی کتاب کا قدیم ترین نسخہ تلاش کیا جائے۔ میری رسائی تو ایک ایسے نسخے تک ہوئی ہے جو 1972ء میں طبع ہوا (تالیف از حافظ محمد سرور نظامی) اور معروف صحافی جناب ندیم ملک کے بلاگ میں اس کتاب کے صفحات کا عکس ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ رہا ربط
 
سب سے بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئیوں پر مشتمل کسی کتاب کا قدیم ترین نسخہ تلاش کیا جائے۔ میری رسائی تو ایک ایسے نسخے تک ہوئی ہے جو 1972ء میں طبع ہوا (تالیف از حافظ محمد سرور نظامی) اور معروف صحافی جناب ندیم ملک کے بلاگ میں اس کتاب کے صفحات کا عکس ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ رہا ربط

سب 1971 کی جنگ کی وجہ سے تھا
 
بہت خوب ! میرے خیال میں دریائے سندھ کا تین بار کافروں کے خون سے بھرنا لداخ اور کشمیرمیں جنگ کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ دریائے سندھ پاکستان کے شمال مشرقی علاقوں سے شروع ہوتا ہے۔
 

یاز

محفلین
ہم نے بھی یہ پیش گوئیاں مختلف مضامین اور نیٹ پر موجود پی ڈی ایف کتب میں پڑھیں تو خاصی حیرانی ہوئی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ احادیث اور بعد کی کتب میں موجود پیش گوئیوں کو ہر عہد میں اسی دور کی مناسبت سے جوڑا گیا۔ جیسے یاجوج ماجوج وغیرہ کو تاتاریوں کے ساتھ بھی منسوب کیا گیا۔ آج ان کو چینیوں کے ساتھ بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ کسی دور میں شاید کسی اور قوم کو بھی اسی پہ محمول کیا گیا ہو۔
اسی طرح کلام میں حسبِ ضرورت تحریف وغیرہ بھی بالکل خارج از امکان نہیں ہے۔

خیر اس ضمن میں مزید حقائق کی کھوج جاری رہنی چاہئے۔
"ہم سب" کی ویب سائٹ پہ عدنان کاکڑ نے دو کالم میں نعمت اللہ صاحب کی پیش گوئیاں شائع کی تھیں۔ تیسرے کالم میں کچھ ایسا تجزیہ بھی شامل کیا ہے۔ ذیل میں اس کو کاپی کر رہا ہوں۔
----------------------------------------------------
ربط: کیا شاہ نعمت اللہ ولیؒ کی پیش گوئیاں ایک فراڈ ہیں؟ - ہم سب

گزشتہ دنوں ہم نے شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی کشمیری کی پیش گوئیوں پر مبنی دو مضامین لکھے تھے۔ پہلے مضمون میں درج حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کی پیش گوئیوں کو دیکھ کر تو امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیوں پر ہنسی آتی تھی کہ ہمارے بابے تو صدیوں پہلے امریکہ کی زبردست تباہی کی پیش گوئی کر گئے ہیں اور امریکہ ایسے تباہ ہو گا کہ اس کا صرف نام ہی تاریخ میں بچے گا۔ ٹرمپ کو دیکھ کر ان پیش گوئیوں پر ہمارا یقین پختہ ہو گیا اور ہمیں یہ بھی یقین ہو گیا کہ امریکہ کی یہ تباہی ضرور پاکستان کے ہاتھوں ہی ہو گی۔

اسی بارے میں مزید پڑھنے پر ہمیں ہندوستان کی مکمل فتح کا بھی علم ہوا کہ اٹک کی خونریز جنگ کے بعد بھارت مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آ جائے گا اور ادھر چالیس برس تک مسلمانوں کی حکومت رہے گی حتی کہ اصفہان میں دجال کا ظہور ہو گا۔


ان مضامین پر کچھ بدعقیدہ قسم کے لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی، نوسٹرے ڈیمس اور ایسے دوسرے لوگوں کی پیش گوئیاں محض پروپیگنڈے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں اور بوقت ضرورت یا تو ان پیش گوئیوں کا نیا ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن شائع کر دیا جاتا ہے یا پھر کوئی گنجلگ سی پیش گوئی پکڑ کر اس کے نئے مفہوم پیدا کر دیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کی پیش گوئیوں میں فارسی زبان میں ٹ نہ ہونے کے باجود اٹک کا نام لکھا جانا، نانگا پربت وغیرہ جیسے جدید نام اور قدیم نام سارگن یا گلت کی بجائے گلگت کہنا بعض ضعیف العقیدہ اذہان میں ان پیش گوئیوں کے متعلق شبہات پیدا کرتا ہے۔

رودِ اٹک نہ سہ بار از خوں اہل کفار
پر مے شود بہ یکبار جریان جاریانہ
چترال، ناگا پربت، باسین ، ملک گلگت
پس ملک ہائے تبت گیر نار جنگ آنہ
ترجمہ: دریائے اٹک (دریائے سندھ) کافروں کے خون سے تین مرتبہ بھر کر جاری ہو گا۔ چترال، نانگا پربت، چین کے ساتھ گلگت کا علاقہ مل کر تبت کا علاقہ میدان جنگ بنے گا

ایسے میں جب ہمیں محدث میگزین کے فروری 1972 کے شمارے میں آغا شورش کاشمیری صاحب کے جریدے ہفت روزہ چٹان مورخہ 10 جنوری 1972 کا ایک نقل شدہ مضمون دکھائی دیا تو ہم نے مناسب سمجھا کہ توازن برقرار رکھنے کی خاطر اسے بھی اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔ یہ مضمون جناب احسان قریشی صاحب صابری نے ”حقیقت حال کیا ہے؟ “ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ آپ نے پہلے شاہ صاحب کی پیش گوئیاں پڑھیں۔ اب احسان قریشی صابری صاحب کا مضمون بھی پڑھیں اور خود فیصلہ کر لیں کہ کس کی بات آپ کے دل کو لگتی ہے۔


حقیقت حال کیا ہے؟ از احسان قریشی صابری
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر ابتلاء اور مصائب کا کوئی دور آیا تو کسی نہ کسی اہلِ قلم نے شاہ نعمت اللہ ولیؒ کا قصیدہ ترمیم کے ساتھ شائع کر دیا تاکہ انہیں تسلی اور تشفی ہو۔ بجائے اس کے کہ ہم زوال اور نکبت کے اصل اسباب قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کریں، اور اپنا اور اپنی قوم کا انفرادی اور اجتماعی جائزہ لیں اور ان اسباب کا ازالہ کریں۔ نیز اپنی عملی قوتوں کو بروئے کار لا کرنامساعد حالات کا مردانہ وار مقابلہ کریں۔ ہمیں اس کی معرفت اور ان پیش گوئیوں کے پیش نظر خوش آئندہ توقعات قائم کرنا پڑتی ہیں۔

سب سے پہلے یہ قصیدہ 1857ء کے ابتلاء کے بعد شائع ہوا تھا۔ دوسری بار چند ترامیم کے ساتھ پہلی جنگِ عظیم ختم ہونے کے بعد کسی صاحب نے شائع کر دیا، جس میں سلطان ترکی کی یلغار اور خلافتِ عثمانیہ کی نشاۃِ ثانیہ کے متعلق پیشین گوئیاں موجود تھیں۔ تیسری بار یہ قصیدہ 1948ء میں شائع ہوا تھا۔ جب بھارت نے حیدر آباد دکن پر حملہ کیا تھا اس میں چند ایسے اشعار بھی درج تھے، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ سلطنتِ آصفیہ کا جھنڈا لال قلعہ دہلی پر عنقریب لہرائے گا۔ چوتھی بار یہ قصیدہ اب موجودہ دورِ ابتلاء میں شائع ہوا ہے تاکہ ہم اپنی کوتاہیوں بد اعمالیوں اور سہل کوشیوں کا جائزہ لیے بغیر پیشین گوئیوں کے سہارے خوش آئند توقعات قائم کرتے رہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، حالانکہ ہمارے ابتلاء کے اسباب خود ہمارے پیدا کردہ ہیں۔ حق تعالیٰ نے ہمیں 1947ء میں ایک وسیع و عریض ملک اپنے فضل و کرم سے بطور انعام عطا کیا تھا۔

قرآن حکیم کی آیات کے مطابق عادتِ الٰہی یہ رہی ہے کہ انعام کا شکر ادا کیا جائے تو نعمت میں زیادتی ہوتی رہتی ہے اور اگر ناشکری کی جائے اور مسلمان بد اعمالیوں میں مبتلا ہو جائیں تو حق تعالیٰ ناراض ہو کر تھوڑی بہت سزا یہیں دے دیا ہے۔ ہمارے لئے اس انعام کے شکر کی صورت یہی تھی کہ ہم اپنی زندگیاں منشاء الٰہی کے مطابق ڈھالتے۔ اپنا نظامِ سلطنت اس فرمان کے مطابق بناتے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی روایات قائم کرتے۔ اس کے بجائے ہم نے جو کچھ کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اللہ اپنا انعام کسی قوم سے اس وقت تک واپس نہیں لیتا جب تک وہ قوم خود اس کا استحقاق نہ گنوا دے۔ جو کچھ ہم نے بویا ہے وہی ہم کاٹ رہے ہیں۔


شاہ نعمت اللہ ولیؒ کا نام گرامی نور الدین سید شاہ نعمت اللہ ولیؒ ہے۔ ان کا دیوان برٹش میوزیم لندن رائل ایشیاٹک سوسائٹی لائبریری لندن اور پبلک لائبریری بانکی پور میں موجود ہے۔ ہجری 1276ھ میں طہران (ایران) کے ایک بک سیلر نے بھی یہ دیوان جو تمام کا تمام فارسی زبان میں ہے، شائع کیا تھا۔ یہ قصیدہ جواب اخبارات میں شائع ہوا ہے اس دیوان میں کہیں موجود نہیں ہے۔ نیز شاہ صاحب کے حالات زندگی عام فارسی تذکروں مثلاً مجمع الفصحاء، مراۃ الاسرار، ریاض الشعراء، تذکرہ دولت شاہ سمر قندی، اخبار الاخیار، خزینۃ الاصفیاء مرتہ مفتی غلام سرور لاہور، تذکرۃ الکرام اور تاریخ فرشتہ میں پائے جاتے ہیں۔ برٹش میوزیم لندن میں جو نسخہ دیوانِ شاہ نعمت اللہ ولیؒ ہے وہ 1939ء میں پٹنہ کے کسی پریس کا شائع شدہ ہے۔ نیز طہران، (ایران) والا نسخہ رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن کی لائبریری میں محفوظ ہے۔ (1276ھ) اس دیوان میں مناقب شاہ نعمت اللہ ولی کے عنوان سے شاہ صاحب کی مختصر سی سوانح عمری بھی درج ہے۔ اس کے مطابق شاہ نعمت اللہ ولیؒ کبھی برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے اور نہ ہی ان کا مزار بھارت یا پاکستان میں کہیں موجود ہے۔ البتہ ان کی اولاد سلطان احمد شاہ بہمنی کی دعوت پر ہند میں آئی تھی۔

شاہ نعمت اللہ ولیؒ 730ھ میں حلب میں پیدا ہوئے، عراق میں نشوونما پائی۔ 24 سال کی عمر میں مکہ معظمہ گئے یہاں سات سال قیام پذیر رہے اور شیخ عبد اللہ یافعیؒ (متوفی 728 ہجری) کے حلقہ ارادت میں داخل ہو کر تصوف اور سلوک کی راہ طے کی اور ان کے مجاز بیعت (خلیفہ) مقرر ہوئے۔ اس کے بعد شاہ صاحب سمر قند ہرات اور یزد میں مقیم رہے اور ہر جگہ ان سے بڑی تعداد میں افراد بیعت ہوئے، آخر قصبہ امان میں جو کرمان سے 87 میل دور ہے، مستقل سکونت اختیار کی اور اپنی زندگی کے آخری 25 سال وہیں بسر کیے اور 834ھ میں 104 برس کی عمر میں وفات پائی۔

شاہ صاحب خود کبھی برصغیر میں تشریف نہیں لائے۔ البتہ ان کے کشف و کرامات کی شہرت دور دور تک پھیلی۔ جس سے وہ مختلف سلاطین کے حلقہ میں بڑے احترام اور عقیدت سے دیکھے جاتے تھے۔ انہی سلاطین میں دکن (اصل مضمون میں دہلی لکھا ہے) کا حکمران احمد شاہ بہمنی بھی تھا۔ اسی کی درخواست پر شاہ صاحب کے پوتے میر نور اللہ دکن آئے۔ سلطان نے مخدوم کی حیثیت سے بڑی عزت و تکریم کی۔ شاہ نعمت اللہ ولیؒ کا اصل قصیدہ اس شعر سے شروع ہوتا ہے۔ ؎

قدرت کردگارمی بینم حالتِ روزگارمی بینم


اور وہ قصیدہ جو اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ اس کا اصل قصیدہ سے کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ قصیدے کے فرضی ہونے کی داخلی شہادتیں خود اس قصیدہ میں موجود ہیں جو کہ شاہ صاحب کے زمانے میں موجود نہیں تھے۔ مثلاً جاپان کا ذِکر بار بار اس قصیدے میں آیا ہے حالانکہ اس ملک کا نام ”جاپان“ 1295ء میں پڑا تھا۔ اس سے پہلے (شاہ صاحب کے وقت میں) اس ملک کا نام ’چی نیکو‘ (نیپون یا نیہون؟) تھا۔ البتہ سرور کائنات نبی اکرم ﷺ نے پاک و ہند جنگ کے متعلق ذکر فرمایا ہے۔ (نسائی شریف کتاب الجہاد۔ باب غزوۃ الہند۔ جلد نمبر 6 ص 43 مطبوعہ مصر)

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسولِ مقبول ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہوں کو حق تعالیٰ خاص طور پر جہنم کی آگ سے بچائیں گے۔ ایک گروہ جو ہندوستان سے جنگ کرے گا اور دوسرا گروہ جو اس کے بعد آئے گا اور حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا ساتھ دے گا۔

رسول مقبول ﷺ کے اس فرمان کے مطابق فتح آخر میں ہماری ہو گی۔ کیوں کہ ان دونوں کے لئے آگ سے برأت اور فتح کی بشارت موجود ہے۔
 
Top