حقوقِ نسواں بل

قیصرانی نے کہا:
زکریا بھائی سے میں اتفاق کروں گا۔ ایک چھوٹا سا واقعہ میرے علم میں ہے۔ وہ میں شیئر کرتاہوں

میرے ماموں زاد بھائی نے الدعوٰی جائن کرنے سے قبل ایک بار ان سے ملاقات کی تھی۔ کزن نے مولانا سے پوچھا تھا کہ آپ کے فتوٰی کے مطابق ہر وہ چیز حرام ھے جو جسم کو نقصان دے۔ جیسا کہ تمباکو نوشی۔ مولانا نے تصدیق کی۔ کزن نے پوچھا کہ اگر یہ ایسا ہے تو آپ تمباکو والا پان کیوں‌کھاتے ہیں؟ وہ بھی تو جسم کو نقصان ھے۔ وہ بھی تو حرام شمار ھوگا۔ اس بات پر وہ برافروختہ ہو گئے اور کزن کو کان سے پکڑ کر نکال دیا :(

قیصرانی بھائی
السلام علیکم
کیسے ہو ؟
ایک بات چلتے چلتے عرض کرنا چاہوں گا۔

ہم لوگ علماء کے معاملہ میں بڑے حساس واقع ہوئے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم علماء کو وہ قدر ومنزلت نہیں دے سکے جو انکی حقیقت میں ہے۔ اسکی ایک بنیادی وجہ یہ بھی کہ ہر داڑھی والے کو عالم سمجھ بیٹھتے ہیں مولوی بنا دیتے ہیں۔ اس کے ہر فعل کو ناقدانہ نظر سے دیکھتے ہیں۔
لیکن حقیقت میں نہ تو عالمِ دین ہوتا ہے اور نہ ہی شرع کے بارے میں کچھ جانتا ہے۔ ڈھونگ رچانے والے لوگوں کی وجہ سے حقیقی علماء پر بھی کاری ضرب لگتی ہے۔
مستزاد یہ کہ چونکہ باریش شخص پر لوگ اعتماد کرتے ہیں اس صورت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لٹیرے لوگ ایسی شکل اختیار کر لیتے ہیں پھر انکے کام کو علماء کے کھاتے ڈال دیا جاتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں جن عالم کا ذکر کیا یقینا انکا یہ غلط فعل ہے۔ حق تو یہ تھا کہ وہ عالم آپ کے رشتہ دار کو سمجھاتے اور اگر غلط تھے تو اپنی غلطی کا اعتراف فرماتے۔ پر جہاں علم کا لباس اوڑھا ہو وہ شخص عالم نہیں بلکہ جاہل مرکب کہلائے گا اور سخت گنہگار ہوگا۔ علم ایک امانت ہے۔ جسکی پوچھ خدا کے حضور قیامت کے دن ہوگی۔
اپنی بات کہ اختتام پر یہ عرض کرنا چاہوں کہ کسی عالم کا منفرد منفی واقعہ کا حکم تمام علماء پر نہیں لاگو کیا جا سکتا۔
والسلام
آپکا : راسخ
 

زیک

مسافر
راسخ: تقی عثمانی صاحب کو میں نے جھوٹا صرف ان کی ایک بات کے حوالے سے کہا ہے۔ اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو انہیں جھوٹا کہنے کی بجائے ان کے اس فقرے کو جھوٹ کہہ دیتا ہوں کہ یہ تو صاف ظاہر ہے میرے دیئے ہوئے اقتباس کی روشنی میں کہ ان کی بات حقائق سے دور ہے۔
 
زکریا نے کہا:
راسخ: تقی عثمانی صاحب کو میں نے جھوٹا صرف ان کی ایک بات کے حوالے سے کہا ہے۔ اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو انہیں جھوٹا کہنے کی بجائے ان کے اس فقرے کو جھوٹ کہہ دیتا ہوں کہ یہ تو صاف ظاہر ہے میرے دیئے ہوئے اقتباس کی روشنی میں کہ ان کی بات حقائق سے دور ہے۔
آپکی بات کے تناظر میں مفتی صاحب پر حسنِ ظن قائم رکھتے ہوئے میں انکی اس بات کو سہو کہہ سکتا ہوں۔
شکریہ
 

قیصرانی

لائبریرین
راسخ نے کہا:
آپکی بات کے تناظر میں مفتی صاحب پر حسنِ ظن قائم رکھتے ہوئے میں انکی اس بات کو سہو کہہ سکتا ہوں۔
شکریہ
درست کہا بھائی جی، لیکن جو بندہ منصف کے عہدے پر فائز رہا ہو، عالم ہو، وہ اپنے کیرئیر کے دوران کیے گئے فیصلوں پر کوئی سہو کرے بھی تو اسے میں تو نادانستہ نہیں‌ کہہ سکتا
 
قیصرانی بھائی
میں اگر بے جا دفاع کروں گا مفتی صاحب کا تو منصفی نہ ہوگی۔ مجھے چونکہ ان باتوں کا علم نہیں اس لئے کوئی تبصرہ نہ کروں گا۔ البتہ یہ مذکورہ باتیں مفتی صاحب کے اخلاق ‌ ‌سے میل نہیں کھاتیں۔
اللہ بہتر جانے
 

قیصرانی

لائبریرین
کوئی بات نہیں بھائی جی۔ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے۔ اگر وہ مان لے تو اسے بڑے ظرف کا کہا جاتا ہے نہ مانے تو۔۔۔ آپ بہتر جانتے ہیں۔ دوسرا مفتی صاحب کے لئے اگر وکالت کریں، یا انہیں برا بھلا کہیں، مفتی صاحب کو کوئی فرق نہیں ہوگا، لیکن ہم آپس میں برے بنیں‌گے۔ ابھی دیکھیں‌جیسے شارق بھائی نے مفتی صاحب کا حوالہ دیا جو ان کے کیرئیر سے متعلق تھا، زکریا بھائی نے تصحیح کی، میں نے ایک ذاتی مشاہدہ بتایا۔ تو یہ ہمارے قارئین کی مرضی ہے کہ وہ کس کو درست مانیں‌۔ امید ہے کہ میری بات آپ کو ناگوار نہیں‌گزری ہوگی
 
یارا برے بھلے بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہم اپنی بات کہیں آپ اپنی کہیں۔
میں کسی پر رائے مسلط کرنے کا قائل نہیں۔

مفتی صاحب کے رشتہ داروں سے ہمارا میل جول ہے۔ اس حوالے سے انہیں جانتا ہوں۔ نیز انکی کتابیں پڑھی ہیں۔ اس حوالے سے انہیں استاد مانتا ہوں۔

اگر خطاوار ہیں اور ہم میں سے سب خطاوار ہیں
اللہ ہم سب کو معاف کرے
درست ؟
یصرانی بھائی جب بھی کہیں بھی ہمارے درمیان کوئی بات ہو تو اسے عناد پر کبھی محمول نہ کریں نیز مخالفت برائے مخالفت سے کیا فائدہ؟

نیز لے دے کہ ہی علم حاصل ہوتا ہے۔
 
آج صدر صاحب نےحقوق نسواں بل پر دستخط کر دیے ہیں اور اب یہ بل پورے پاکستان میں قابل عمل ہوگا۔ بل کے قابل عمل ہونے سے پہلے بل کا اثر بہت ہی اچھا رہا۔بل پر میڈیا میں اتنی بحث ہوچکی ہو اور مولانا پرویز مشرف اور ان کے ساتھی علمائے کرام بھی کافی حد تک اس کے متعلق اپنی رائے دے چکے ہیں۔جس کیوجہ سےچھوٹی عمر یعنی 7 ، 8 برس کے بچے بچیاں یہ پوچھنے پر مجبور ہوئے کہ ابا یہ زنا بالجبر اور زنابالرضا کس کو کہتے ہیں۔
شکر ہے اب ہم نے ترقی کر لی ہے ۔ اور (بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے)

پتہ نہیں اس فضول بحث کو چھیڑ کر حکومت چاہتی کیا ہے۔ قانون بنانے سے کچھ نہیں ہوتا اصل میں قانون کا نفاذ بڑی اہم بات ہوتی ہے۔ جو کہ ماشا اللہ اس عدالتی نظام اور پولیس کے نظام میں نافذ ہونا ناممکن نظرآتا ہے۔

جہاں تک حدود آرڈنینس کا تعلق ہے تو میں تو ایک مکمل اسلامی نظام کے بغیر کسی بھی حد کی سزا کو زیادتی سمجھتا ہوں ۔ اس لیے غیر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حدود آرڈینس رہے یا نہ رہے کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے کہ اسلام جو معاشی سیاسی سماجی تحفظ کسی شخص کو دیتا ہے وہ حکومت دینے سے قاصر ہو تو ایسی غیر اسلامی حکومت میں حدکے اندر سزا دینا بڑی بے وقوفی کی بات نظرآتی ہے۔اور اس میں کوئی شک نہیں پاکستان ایک غیر اسلامی نظام حکومت پر چلنے والا ملک ہے۔
 

دوست

محفلین
اس بل پر غیر حکومتی علماء کو بہت اعتراضات بھی ہیں۔
ان کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل تک نے جس کا اجلاس ایوان صدر میں ہوا ہے 9 میں سے 4 اراکین غائب تھے نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔
(بحوالہ روزنامہ ایکسپریس اشاعت 1 دسمبر 2006 بروز جمعہ)۔
 
وہاب اعجاز خان نے کہا:
آج صدر صاحب نےحقوق نسواں بل پر دستخط کر دیے ہیں اور اب یہ بل پورے پاکستان میں قابل عمل ہوگا۔ بل کے قابل عمل ہونے سے پہلے بل کا اثر بہت ہی اچھا رہا۔بل پر میڈیا میں اتنی بحث ہوچکی ہو اور مولانا پرویز مشرف اور ان کے ساتھی علمائے کرام بھی کافی حد تک اس کے متعلق اپنی رائے دے چکے ہیں۔جس کیوجہ سےچھوٹی عمر یعنی 7 ، 8 برس کے بچے بچیاں یہ پوچھنے پر مجبور ہوئے کہ ابا یہ زنا بالجبر اور زنابالرضا کس کو کہتے ہیں۔
شکر ہے اب ہم نے ترقی کر لی ہے ۔ اور (بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے)

پتہ نہیں اس فضول بحث کو چھیڑ کر حکومت چاہتی کیا ہے۔ قانون بنانے سے کچھ نہیں ہوتا اصل میں قانون کا نفاذ بڑی اہم بات ہوتی ہے۔ جو کہ ماشا اللہ اس عدالتی نظام اور پولیس کے نظام میں نافذ ہونا ناممکن نظرآتا ہے۔

جہاں تک حدود آرڈنینس کا تعلق ہے تو میں تو ایک مکمل اسلامی نظام کے بغیر کسی بھی حد کی سزا کو زیادتی سمجھتا ہوں ۔ اس لیے غیر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حدود آرڈینس رہے یا نہ رہے کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے کہ اسلام جو معاشی سیاسی سماجی تحفظ کسی شخص کو دیتا ہے وہ حکومت دینے سے قاصر ہو تو ایسی غیر اسلامی حکومت میں حدکے اندر سزا دینا بڑی بے وقوفی کی بات نظرآتی ہے۔اور اس میں کوئی شک نہیں پاکستان ایک غیر اسلامی نظام حکومت پر چلنے والا ملک ہے۔

عبد الوہاب بھائی
میرے ملک میں وہ قانون قابلِ عمل ہے جس میں دوسرے کا نقصان ہو ۔
مصلحت پسندی کا بول بالا ہے
مقتدر لوگ چور ہیں
اور چھوٹوں پر اثر ظاہر ہے اثر پڑتا ہے
اللہ خیر کرے
 
قیصرانی نے کہا:
وہاب کی بات درست ہے اور راسخ کی بات کی بڑی حد تک درست ہے

وہاب بھائی
اگر حکومت اسلامی قوانین کا نفاذ نہ کرے تو کیا عوام کو خاموش رہنا چاہئے ؟

ویسے بھی اب فکر معاش نے زندگی کو اجیرن کردیا ہے کسی کو کیا فکر ہوگی اسلام کی یا قوانین کے نفاذ کی مزدور نے اٹھنا ہے صبح کو اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنا ہے
ہمارا حال بہت برا ہے عبد الوہاب
 
Top