::: حقوق الزوجین ::: 2 ::: خاوند کے بیوی پر حقوق :::

::::: حقوق الزوجین ::::: میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق ::::::

اب ہم مختصراً خاوند کے بیوی پراہم حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں ،
::::: بیوی پر خاوند کے حقوق :::::
::::: پہلا حق ::: اطاعت ::: یعنی تابع فرمانی :::::
بیوی پر خاوند کی تابع فرمانی فرض ہے ، یعنی جہاں تک اور جب تک اُس کی ہمت اور طاقت میں ہو وہ خاوند کی تابع فرمانی کرے گی ، کِسی بھی حال میں وہ خاوند کی نافرمانی نہیں کرے گی ،
::::: (١) حسین بن محصن رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اُنکی پھوپھی (چچی یا تائی بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ لفظ عمۃ اِن سب رشتوں کے لیے اِستعمال ہوتا ہے ) رضی اللہ عنھا نے اُنہیں بتایا کہ ایک دفعہ کِسی کام سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا ( ا ذات ُ زَوج ٍ انتِ ::: اے خاتون کیا تمہارا خاوند ہے ؟) میں نے عرض کیا :: جی :: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کَیف َ انتِ لہ ُ ) ( تُم اُسکے لیے کیسی ( بیوی ) ہو ؟) میں نے عرض کیا :: میں کِسی بھی معاملے میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتی سِوائے اِس کے کہ کوئی کام میری طاقت سے باہر ہو :: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( فَاینَ انتِ مِنہ ُ فَاِنَّما ہُو جَنَّتُکِ ونَارُکِ )( تُم اُس سے کہاں ہو کیونکہ بے شک وہ تمہاری جنّت اور جہنم ہے ) یعنی یہ خیال رکھنا کہ تم اُسکے حق کی ادائیگی کے معاملے میں کہاں ہو ؟ اگر اُس کا حق ٹھیک سے ادا کرو گی تو وہ تمہارے لیے جنّت میں داخلے کا مقام ہے اور اگر نہیں تو وہ تمہارے لیے جہنم میں داخلے کا مُقام ہے ۔ مُسند احمد /حدیث ١٩٠٢٥، کتاب عِشرۃَ النِّساء للنسائی / حدیث ٧٩/ ، صحیح الترغیب و الترھیب / حدیث ١٩٣٣،
::::: (٢) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا صَلّت المَراَۃُ خَمسھَا ، و صَامَت شَھرھا ، و حَصَّنَت فرجھا ، و اطاعَت بَعلَھا ، دَخلَت مِن ايّ ابواب الجنَّۃِ شاءَ ت )( اگر عورت ( روزانہ) اپنی پانچ نمازیں ادا کرتی ہو ، اور اپنے ( رمضان کے ) روزے رکھتی ہو ، اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو ، اور اپنے خاوند کی تانع فرمانی کرتی ہو ، ( اور اِس حال میں مر جائے تو ) جنّت کے جِس دروازے سے چاہے گی جنّت میں داخل ہو جائے گی ) صحیح ابن حبان / حدیث ٤١٦٣/کتاب النکاح، صحیح الترغیب و الترھیب (حسن لغیرہ ) /حدیث ١٩٣١ ،
اِس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو بیوی اپنے خاوند کی نافرمانی کرتی ہوئی مرے گی ظاہر ہے خاوند اُس سے راضی تو نہیں ہوگا ، اور ایسی صورت میں وہ عورت جنّت میں داخل نہیں ہو سکے گی ، جب تک کہ اللہ کے سامنے اُس کا خاوند اپنے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کو معاف نہ کر دے ، یہ الگ بات ہے کہ دُنیا میں اگر کوئی خاوند '''بے چارہ ''' یا مجبور ہو اور اپنی بیوی کی نافرمانی پر اپنے غصے یا دُکھ کا اظہار نہ کرتا ہو لیکن آخرت میں اپنی شکایت اور حق طلبی کرنے میں کِسی کو کوئی مجبوری یا بے چارگی نہ ہوگی ۔
::::: اطاعت اور تابع فرمانی کے بارے میں ایک بات بہت واضح طور پر سمجھ لینے والی ہے کہ کِسی کا کوئی بھی حق یا رُتبہ ہو اگر وہ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکموں کی خِلاف ورزی کا حُکم دے تو اُس کی تابع فرمانی نہیں کی جائے گی ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ( لا طَاعَۃَ فِی مَعصِیۃِاللَّہِ ، اِنَّمَا الطَّاعۃُ فِی المَعرُوفِ )( اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی بھی تابع فرمانی نہیں کی جا سکتی ، بے شک تابع فرمانی تو صرف نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے ) صحیح مسلم ، حدیث ١٨٤٠ ، کتاب الامارۃ باب ٨ کی بیسویں روایت ۔
::::: دوسرا حق ::: خاوند کے گھر سے بغیر اُس کی اجازت باہر نہ نکلے :::::
ایمان والوں کی مائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس بیگمات کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرماتے ہوئے حُکم دِیا ::: ( وَقَرنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجَاہِلِیَّۃِ الْاُولَی) ( اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو ( یعنی آرام سے گھروں میں ہی رہو ) اور پہلی جاہلیت (یعنی اسلام سے پہلے والے زمانے ) کی طرح بے پردی کے ساتھ اِٹھلا اِٹھلا کر باہر مت نکلو ) سورت الاحزاب / آیت ٣٣،
گو کہ یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس بیگمات سے ہے ، لیکن قران میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے عام اسلوب و قانون کی طرح یہ حکم اُمت کی تمام عورتوں کےلیے ہے ، اِسکی تائید تمام صحابیات کے عمل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ملتی ہے ،جیسا کہ :::
::::: عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (المَراَئۃُ عَورَۃٌ و اِنَّہَا اِذَا خَرجَت اِستَشرَفَہَا الشِّیطَان ُو اِنَّہَا لَتَکُونُ اقرَبُ اِلیٰ اللَّہِ مِنہَا فی قَعرِ بَیتِہا ) ( عور ت (ساری کی ساری) پردے ( میں رکھنے ) والی چیز ہے اور بے شک جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اُسکی راہنمائی کرتا ہے ( یعنی اُسے گناہ کی طرف لے جاتا ہے ) اور عورت اپنے گھر میں ( رہتے ہوئے ) اللہ کے زیادہ قریب ہوتی ہے )السلسلۃالاحادیث الصحیحۃ/٢٦٨٨ ۔
یہ مندرجہ بالا حدیث عورت کے پردے ، اور حجاب کے انداز ، اور ’’’’’ حجاب ‘‘‘‘‘ کا معنی سمجھنے میں‌ ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے ،
::::: تیسرا حق ::: جب خاوند ہم بستری کے لیئے بلائے تو فوراً خاوند کی طلب کو پورا کرنا ::::: اِس کی ایک دلیل تو اس مضمون میں بیان کی گئی سب سے پہلی حدیث ہے جو کہ عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہُ کی روایت ہے ، اور اُس کے عِلاوہ بھی کئی احادیث اِس بات کو بڑی وضاحت سے بیان کرتی ہیں ، جیسا کہ :::
::::: (١) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا دَعَا الرَّجُلُ اِمراتَہ ُ اِلیٰ فِراشِہِ فابَت لَعَنَتہَا المَلَائِکَۃُ حتی تَرجِعَ) ( اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو فرشتے اُس عورت پر اُس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ خاوند کے پاس واپس نہیں آتی ) صحیح البخاری / حدیث ٣٢٣٧/ کتاب بدء الخلق / باب ٨٥ ، دوسری روایت ،صحیح مسلم /حدیث ١٤٣٦ /کتاب النکاح/باب٢٠،
::::: (٢) اور صحیح مسلم کی دوسری روایت ہے ( وَالَّذِی نَفسِی بِیدِہِ مَا مِن رَجُلٍ یَدعُو امرَاَتَہُ اِلی فِرَاشِہَا فتابٰی عَلِیہِ اِلَّا کَان الَّذِی فِی السَّمَاء ِ سَاخِطًا عَلِیَہا حَتٰی یَرضیٰ عَنہَا )( اُسکی قسم جِسکے ہاتھ میں میری جان ہے ، جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ بیوی انکار کرے تو وہ جو آسمان پر ہے اُس عورت سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اُسکا خاوند اُس سے راضی نہیں ہوتا ) صحیح مُسلم / حدیث ١٤٣٦/ کتاب النکاح / باب ٢٠ کی حدیث٤،
اِس حدیث میں ہمارے موجودہ موضوع کے علاوہ یہ اِس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں بلکہ آسمانوں سے اُوپر ہے ، مکمل تفصیل کے لیے میری کتاب ''' اللہ کہاں ہے ؟ ''' کا مطالعہ اِنشاء اللہ تعالیٰ مفید ہو گا ،
::::: (٣) طلق بن علی رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا دَعَا الرَّجُلُ زَوجَتُہ ُ لِحاجَتِہِ فَلتَجَبہ ُ واِن کانت عَلٰی التَّنُّورِ ) ( جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنی ضرورت کے لیے بلائے تو بیوی خاوند کی بات قُبُول کرے خواہ وہ تنور پر ہی بیٹھی ہو ئی تھی ) صحیح ابن حبان / حدیث ٤١٤٥/کتاب النکاح ، صحیح الترغیب و الترہیب/ حدیث ١٩٤٦ ،
مضمون جاری ہے ،
 
گذشتہ سے پیوستہ
::::: چوتھا حق ::: خاوند کی اجازت کے بغیر خاوند کے گھر میں کِسی کو داخل نہ کرے :::::
::::: پانچواں حق ::: خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے :::::
یہ بھی خاوند کے حقوق میں سے ہے ،لہذا خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنا اور کِسی کو خاوند کے گھر میں داخل کرنا بیوی کے لیے جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حُکم دِیا ہے کہ:::
::::: (١) ( لَا یَحِلُّ لِلمَراَۃِ اَن تَصُومَ وَزَوجُہَا شَاہِدٌ اِلا بِاِذنِہِ ولا تَاْذَنَ فی بَیتِہِ اِلا بِاِذنِہِ وما اَنفَقَت من نَفَقَۃٍ عَن غَیرِ اَمرِہِ فاِنہ یؤدی اِلِیہ شَطرُہُ ::: کِسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے خاوند کی موجودگی میں ، اُس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے ، اور نہ ہی کِسی کوخاوند کی اجازت کے بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے ، اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کچھ ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتی ہے تو اُس خرچ کے ثواب میں سے خاوند کو بھی حصہ ملے گا ) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت ہے ، صحیح البخاری/حدیث ٥١٩٥/کتاب النکاح / باب ٨٦،
::::: (٢) ( لا تَصُم المَراۃُ و بَعلُھا شاھدٌ اِلَّا بِاِذنِہِ ، ولا تاذن فی بَیتِہِ و ھُوَ شاھدٌ اِلَّا بِاِذنِہِ ، و مَا انفَقَت مِن کَسبِہِ مِن غَیرِ امرِہِ فَاِنَّ نَصف َ اجرِہِ لَہ ُ::: کوئی عورت اپنے خاوند کی موجودگی میں ، اُس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے ، اور نہ ہی کِسی کوخاوند کی موجودگی میں خاوندکی اجازت کے بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے ، اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی کمائی میں سے خاوند کی اجازت کے بغیر کچھ ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتی ہے تو اُسکے ثواب میں آدھا حصہ خاوند کوملے گا ( اور آدھا بیوی کو)) حدیث کا پہلا حصہ ، صحیح البخاری /حدیث ٥١٩٢ /کتاب النکاح /باب٨٤ ، اور مکمل حدیث، صحیح مسلم / حدیث ١٠٢٦ / کتاب الزکاۃ /باب ٢٦
::::: ایک خاص نکتہ ::::: اوپر نقل کی گئی دوسری حدیث میں فرمایا گیا ( اور نہ ہی کِسی کوخاوند کی موجودگی میں خاوندکی اجازت کے بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے )''' اِسکا یہ مطلب نہیں کہ خاوند کی غیر موجودگی میں وہ کِسی کو بھی خاوند کے گھر میں داخل کر سکتی ہے ، بلکہ خاوند کے موجود ہونے کی شرط کا زیادہ قریبی اور درست مفہوم یہ ہے کہ جب خاوند موجود ہو گا تو اُس سے اجازت لینا ممکن ہو گا اور اگر وہ موجود نہیں تو اُس سے اجازت نہیں لی جا سکتی تو ایسے میں بیوی اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرے گی ، اور خاوند کے گھر میں کِسی کو داخل نہیں کرے گی بلکہ خاوند کی غیر موجودگی میں کِسی کو داخل نہ کرنے کے بارے میں بیوی کو زیادہ تاکید کے ساتھ منع کیا جائے گا ، جیسا کہ دوسری احادیث میں ایسی عورتوں کے پاس داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے جِن کے خاوند اُن سے دور ہوں ''' الاِمام الحافظ ابن حَجر العسقلانی رحمہُ اللہ تعالیٰ کی ''' فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب النکاح / باب ٨٦ ''' سے ماخوذ ،
اور اِمام النووی رحمہ ُ اللہ تعالیٰ نے ''' شرح صحیح مسلم''' میں لکھا ''' یہ شرط اِس لیے ہے کہ خاوند یا گھر کے دوسرے مالکان کی ملکیت میں اُنکی اجازت کے بغیر کسی کا دخل نہ ہونے پائے ، اور یہ معاملہ اُن لوگوں کے بارے میں ہے جِن کے بارے میں بیوی کو عِلم نہ ہو کہ اُسکا خاوند اِن لوگوں کے اپنے گھر میں آنے جانے پر راضی ہے یا نہیں، اور جِن لوگوںکے داخل ہونے کے بارے میں خاوند کی اجازت اور رضامندی بیوی کے عِلم میں ہے اُنہیں داخل کرنے کی اجازت دے سکتی ہے '''
یہاں اُوپر بیان کی گئی حدیث پھر دُہراتا ہوں ( لا طَاعۃَ فِی مَعصِیۃِاللَّہِ ، اِنَّما الطَّاعۃُ فِی المَعرُوفِ ::: اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی بھی تابع فرمانی نہیں کی جا سکتی ،بے شک تابع فرمانی تو صرف نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے ) لہذا اگر خاوند کی غیرت اور اسلامی حمیت مر چکی ہے اور اُسے اپنے گھر میں داخل ہونے والے اپنی بیوی کے غیر محرم مَردوں کے داخلے پر کوئی اعتراض نہیں تو بیوی اُنہیں داخل نہیں کرے گی ، ہونا تو یہ چاہیئے کہ بیوی اپنی حیاء اور عفت کی حفاظت کرتے ہوئے خاوند کی غیرت کو جگائے اور اُسے سمجھائے کہ وہ اُس کی بیوی اُس کی عِزت ہے ، لہذا اُسے چاہیئے کہ وہ اپنی عِزت کو محفوظ رکھے ، اور اگر خاوند کی غیرت نہیں جاگتی تو بیوی کو خاص طور پر اِس بات سے مکمل خیال کرنا چاہیئے کہ خاوند کی غیر موجودگی میں کِسی غیر محرم کو گھر میں داخل کرنا تو بڑی بات ہے اُس کے سامنے آنے سے بھی گریز کرے ، تا کہ اُس کی عِزت و عِفت محفوظ رہے اور کِسی کو اُس پر کوئی داغ لگانے کا موقع بھی نہ ملے ، اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کی غیرت و حیاء جو طرح طرح کے فلسفوں کی غنودگی چڑھا کر ہم سے چھین لی گئی ہے ، ہمیں واپس دِلوا دے ،
اورخاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھنے کے حکم کی حکمت یہ ہے کہ ''' خاوند کے بُنیادی حقوق میں سے ہے کہ وہ جِس وقت چاہے بیوی سے جسمانی و جنسی لذت حاصل کرے ، اوربیوی کے روزے کی حالت میں وہ اُس کا روزہ افطار کرنے تک ایسا نہیں کر سکے گا ، اور بیوی کی یہ نفلی عِبادت اُس کے فرائض میں سے ایک فرض یعنی خاوند کی جسمانی طلب پورا کرنا میں کوتاہی کا سبب بنے گی ۔
::::: چھٹا حق ::: خاوند کی اولاد ، مال ، عِزت جِس میں خود بیوی کی عِزت وعفت بھی شامل ہے کی حفاظت کرے :::::
اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے ( فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیبِ بِمَا حَفِظَ اللّہُ ::: پس نیک اور فرمان بردار عورتیں ( وہ ہیں جو ) خاوند کی غیر موجودگی میں ( اُسکے اُن حقوق کی )حفاظت کرتی ہیں جو اللہ نے محفوظ قرار دئیے ہیں ) سورت النِساء / آیت ٣٤،
::::: عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ ( کُلُّکُمْ رَاع ٍ وَکُلُّکُمْ مسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ الاِمَامُ رَاع ٍ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ وَالرَّجُلُ رَاع ٍ فی اَہلِہِ وہو مسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ وَالمَراَۃُ رَاعِیَۃٌ فی بَیتِ زَوجِہَا ومسؤولۃٌ عن رَعِیَّتِہَا وَالخَادِمُ رَاع ٍ فی مَالِ سَیِّدِہِ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ ::: تم میں ہر کوئی محافظ اور ذمہ دارہے ، اور ہر کِسی سے اپنی اپنی رعایا (یعنی جِس جِس کی نگرانی و حفاظت اُس کے ذمے تھی ) کے بارے میں پوچھا جائے گا ( یعنی اُن کے حقوق کی ادائیگی اور اُن کے کچھ کاموں کے بارے میں اِس نگران و محافظ سے پوچھ ہو گی اور وہ دُنیا اور آخرت میںجواب دہ ہے ) ، اِمام ( دِینی اور دُنیاوی راہنما و حُکمران) اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے اور اُس کے بارے میں اُسے پوچھا جائے گا ، مَرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اوراپنی رعایا (یعنی گھر والوں ) کے بارے میں جواب دہ ہے ، اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے ، اور ملازم اپنے مالک کے مال ( کی حفاظت اور تمام حقوق کی ادائیگی ) کا ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے ، )))
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ((( وَالرَّجُلُ رَاع ٍ فی مَالِ ابِیہِ ومسؤولٌ عَن رَعِیَّتِہِ وَکُلُّکُم رَاع ٍ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ ::: آدمی اپنے والد کے مال کا ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے ، اور تم سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے )))
صحیح البخاری / حدیث ٨٥٣ /کتاب الجمعۃ / باب ١١ ،
عورت ذمہ دار ہے کا معنیٰ یہ نہیں کہ وہ حکمران ہے جو اور جیسا چاہے گھر میں کرتی رہے ، بلکہ اِس کا مطلب یہ کہ گھر کے نظم و نسق ، صفائی اور پاکیزگی ، اولاد کی تربیت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے کرے ، اور کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے اور دیگر اخراجات میں خاوند کے مال کو میانہ روی اور واقعتا ضرورت کی حد تک خرچ کرے ، رہنے کی جگہ جہاں وہ آباد ہے اُس کو خاوند اُس کے والدین اور اولاد کے لیے'' گھر '' بنائے رکھے ، ایسا نہ ہو کہ خاوند جب بھی اپنے ٹھکانے کی طرف واپس آتا ہو تو یہ سوچتا ہو کہ کاش کچھ وقت اور باہر گذر جاتا تو اچھا تھا ، کہ وہاں جا کر کیا ملے گا ، منہ جھاڑ سر پہاڑ بیوی ، سلام نہ دُعا ، اور شکایتوں کا ٹوکرا ، کچھ کہہ دِیا تو وہ کھاناملے گا جو مجھے پسند نہ ہو ، وغیرہ وغیرہ ، اِن معاملات میں سے کِسی بھی معاملے میں اگر بیوی کوتاہی کرے گی تو وہ جواب دہ ہے ۔ مضمون جاری ہے ،
 
گذشتہ سے پیوستہ
::::: ساتواں حق ::: خاوند کی خوشی اور دِل جوئی کے لیئے بناؤ سنگھار کیئے رہنا :::::
::::: ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جہاد سے واپس تشریف لا رہے تھے جب مدینہ المنورہ کے قریب پہنچے تو صحابہ جلدی جلدی مدینہ المنورہ میں داخل ہونا چاہ رہے تھے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (((امھلُوا حَتیٰ نَدخُلَ لیلاً ۔اي عِشاءً ۔ لِکي تَمتشِط الشَّعِثۃُ و َتستَحِد المُغِیَّبَۃُ ::: اِنتظار کرو ہم لوگ رات کو (مدینہ المنورہ میں) داخل ہوں گے ۔یعنی عِشاء کے وقت۔ تا کہ جِس عورت کے بال بگڑے ہوں وہ کنگھی (وغیرہ) کر لے ، اور جِسکا خاوند اُس سے دور تھا وہ دھار دار چیز استعمال کر لے ( یعنی اپنے جسم کے وہ بال جو صاف کرنے چاہیں،دھار دار چیز سے صاف کر لے))) صحیح البُخاری/حدیث ٥٢٤٥،٥٢٤٧ /کتاب النکاح / باب ١٢١، ١٢٢، صحیح مُسلم /کتاب الامارۃ /باب٥٦ ،
چلتے چلتے ایک فائدہ بیان کرتا چلوں، اور وہ یہ کہ ،خواتین کو اپنے جسم سے جِن بالوں کو اُتارنے کی اجازت ہے اُنہیں اتارنے کے لیے اُسترا یا لوہے کی کوئی اور دھار دار چیز استعمال کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ، مزید تفصیل کے لیئے میرا مضمون ''' فطرت کی سنتیں ''' ملاحظہ فرمائیے ، اِن شاء اللہ ضروری بنیادی معلومات میں اچھے اضافہ کا سبب ہو گا ۔
اگر بیوی شریعت کی پابندی میں رہتے ہو خود کو خاوند کی خواہش کے مطابق بنا سنوار کر نہیں رکھتی تو وہ خاوند کی حق تلفی کا گناہ بھی اُٹھاتی ہے اور اپنی ازدواجی زندگی کو بے مزہ اور تکلیف دہ بھی بناتی ہے ، اور بسا اوقات اپنی سوتن لانے کا سبب بھی بناتی ہے ، یا خاوند کا برائی اور گناہ کاشکار ہو جانے کا سبب بھی بنتی ہے ۔
::::: آٹھواں حق ::: خاوند کی خدمت کرے :::::
بیوی پر واجب ہے کہ وہ خاوند کی خدمت کرے یعنی اُس کے کھانے پینے ، کپڑے لتے ، سونے جاگنے ، آنے جانے ، میں جو جو مدد معروف طریقے پر یعنی شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے ، اپنے ماحول اور معاشرے کے معمول کے مطابق وہ کرسکتی ہے کرے ، بیوی پر خاوند کی ایسی خدمت کرنا واجب ہے یا نہیں اِس معاملے پر کافی بحث کی گئی ، کچھ نے کہا بیوی پر اِن کاموں میں سے کوئی کام کرنا واجب نہیں اور کچھ نے کہا کہ واجب ہے ، اور یہ دوسری بات ہی درست ہے ، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ نے ''' مجموع الفتاویٰ ''' میں لکھا ''' حق بات یہ ہی ہے کہ بیوی پر خاوند کی خدمت کرنا واجب ہے ، کیونکہ اللہ کی کتاب میں خاوند بیوی کا مالک ہے ((( یعنی اللہ تعالیٰ نے خاوند کو بیوی کا آقا قرار دِیا ہے ، اِمام صاحب اِس آیت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں ( وَ اَلفِیا سَیِّدَھَا عَلیَ البَابِ ::: اور اُن دونوں ( یوسف علیہ السلام اوروزیرِ مصر کی بیوی) نے وزیرِ مصر کی بیوی کے آقا کو دروازے پر پایا ) سورت یوسف / آیت ٢٥، اور دروازے پر وزیرِ مصر تھا ، جِسے اللہ تعالیٰ نے اُسکی بیوی کا مالک کہا ہے ))) اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت (یعنی حدیث )کے مطابق بیوی خاوند کی قیدی ہے ((( یہاں اِمام صاحب ایک حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، اِس حدیث کا ذِکر اِن شاء اللہ آگے ''' بیوی کے حقوق''' میں آئے گا ))) اور یہ بات بالکل جانی پہچانی اور معمول کی ہے کہ غلام اور قیدی پر اپنے مالک و آقا کی خدمت کرنا واجب ہوتا ہے'''
یہاں ایک وضاحت بطورِ اضافی فائدہ کرتا چلوں ، وہ یہ کہ ، اِماموں کے نزدیک ، سُنّت اور حدیث میں کوئی فرق نہیں ، کیونکہ لفظِ حدیث کا استعمال تین مختلف چیزوں پر ہوتا ہے (١) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یعنی فرمان جِسے عام طور پر حدیث کہا جاتا ہے اور کم عِلمی کی وجہ سے صرف اِسے ہی حدیث جانا جاتا ہے (٢) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل یعنی کام ، جِسے عام طور پر سُنّت کہا جاتا ہے اور کم عِلمی کی وجہ سے صرف اِسے ہی سُنّت جانا جاتا ہے ، اور اِسی کم علمی کی وجہ سے مسلمانوں میں اہلِ سُنّت اور اہلِ حدیث قسم کی تقسیم کروا کر اُنہیں ایک دوسرا کا دُشمن بنا کر کفار اور اُن کے ہاتھوں میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر کھیلنے والے اپنا اپنا اُلو سیدھا کر رہے ہیں (٣) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِقرار، یعنی کوئی کام یا بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے واقع ہوئی اور اُنہوں نے اُس پر انکار نہیں کیا اُس سے منع نہیں فرمایا ، مزید تفصیلات اِنشاء اللہ تعالیٰ حدیث کی اقسام میں بیان کروں گا ، سُنّت کی مختصر تعریف اور اقسام وضوء کی سُنّتوں کے آغاز میں بیان کر چکا ہوں،
اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے اِمام ابن القیم رحمہُ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ شرح مُلاحظہ فرمائیے جو اُنہوں نے اپنی مشہور اور بہترین کتاب ''' زاد المعاد ''' میں بیان کی کہ ''' ایسے معاہدے ( یعنی نکاح جس میں الگ سے کوئی شرط یا قید مقرر نہ کی گئی ہو ) کا معاملہ عام معروف (یعنی معاشرتی طور پر جانے پہچانے )معمولات کے مطابق ہوتا ہے ، اور معروف معمول یہ ہی ہے کہ بیوی خاوند کی خدمت کرے گی اور گھر کے سارے معاملات بھی نمٹائے گی ، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بیوی پر خاوند کی خدمت کرنا واجب نہیں اور یہ کہتے ہیں کہ فاطمہ اور اسماء ( رضی اللہ عنھما ) جو خدمت کیا کرتی تھیں وہ نفلی طور پر اور بطورِ احسان تھی ، اُن کی اِس بات کا جواب یہ ہے کہ جب فاطمہ ( رضی اللہ عنھا ) نے اپنے خاوند کی خدمت سے تکلیف کی شکایت کی تو اُن کے والدِ محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ( رضی اللہ عنہُ ) سے یہ نہیں کہا کہ ''' اِس پر تمہاری خدمت واجب نہیں ، اپنے کام خود کِیا کرو ''' اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسماء بنت ابو بکر ( رضی اللہ عنھما) کو دیکھا کہ وہ اپنے سر پر چارا اُٹھائے جا رہی ہیں اور زُبیر( بن العوام رضی اللہ عنہ ُ )اُن کے ساتھ چل رہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زُبیر( بن العوام رضی اللہ عنہ ُ )سے یہ نہیں کہا کہ ''' اِس پر تمہاری خدمت کرنا واجب نہیں ، یا یہ کہ یہ ظلم ہے ''' بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زُبیر( بن العوام رضی اللہ عنہ ُ ) کے لیئے اور اپنے تمام صحابہ کے لیے یہ قُبُول فرمایا کہ وہ اپنی بیویوں سے اپنی خدمت کروایں اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ اُن بیویوں میں سے کچھ اِس خدمت کرنے پر راضی ہیں تو کچھ ناراض بھی ہیں '''
لہذا درست بات یہ ہی ہے کہ بیوی پرمعروف طریقے پر یعنی شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے ، اپنے ماحول اور معاشرے کے معمول کے مطابق خاوند کی خدمت کرنا واجب ہے۔
::::: نواں حق ::: خاوند کی شُکر گذار رہے ، اُسکی بڑائی اور برتری کا اِنکار نہ کرے ، اور بہترین طور پر اُسکے ساتھ وقت گذارے :::::
::::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی روایت جِس میں سورج گرھن اور نماز ِ کسوف یعنی سورج گرھن کے وقت پڑھی جانے والی نماز کا ذِکر ہے ، اُس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز اُنہیں دِکھائی جانے والی چیزوں کا بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا (((،،،،،، وَاُرِیت ُ النَّارَ فلم اَرَ مَنظَرًا کَالیَومِ قَطُّ اَفظَعَ وَرَاَیتُ اَکثَرَ اَہلِہَا النِّسَاء َ::: ،،،،،، اور مجھے جہنم دِکھائی گئی ، پس آج کے منظر سے بڑھ کر خوفناک منظر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ، اور میں نے دیکھا کہ جہنم میں اکثریت عورتوں کی ہے))) صحابہ نے پوچھا ::: اے اللہ کے رسول ایسا کیوں ہے؟ ::: فرمایا (بکُفرِھنَّ )( اُنکے کُفر کی وجہ سے) پوچھا گیا ::: کیا عورتیں اللہ کا کفر کرتی ہیں ؟::: فرمایا (((یَکفُرنَ العَشِیرَ وَیَکفُرنَ الاِحسَانَ لو اَحسَنتَ اِلی اِحدَاہُنَّ الدَّہرَ کُلَّہ ُ ثُمَّ رَاَت مِنکَ شَّیئًا قَالت مَا رَایت ُ مِنکَ خَیرًا قَطُّ :::خاوند کی ناشکری کرتی ہیں ، اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں ، اگر تُم اُس(یعنی بیوی) کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرتے رہو اور پھر کبھی اُسے تمہاری طرف سے کوئی (تکلیف دہ کام یا) چیز ملے تو کہتی ہے ، میں کبھی بھی تمہاری طرف سے خیر نہیں پائی))) صحیح البخاری / حدیث ١٠٠٤/ کتاب الکسوف / باب ٩ ، صحیح مسلم / حدیث ٩٠٧/ کتاب الکسوف /باب ٣،
اِس حدیث میں عورتوں کی بحیثیت بیوی ایک ایسی عادت کا ذِکر کیا گیا ہے جو تقریباً ہر کِسی کے مشاھدے میں ہے ، اور وہ ہے خاوند کی ناشکری کرنا اور کبھی کبھار ظاہر ہونے والی کِسی تکلیف دہ یا زیادتی والی بات یا کام پر خاوند کی طرف سے ہمیشہ ملنے والے احسان اور محبت کا انکار کرنا اور یہ الزام لگا دینا کہ تم ہمیشہ کے بُرے اور ظالم ہو ، اور یہ کفر یعنی اِنکار عورتوں کے جہنم میں داخل ہونے کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے ، لہذا ہر مسلمان عورت کو چاہیئے کہ وہ اپنے خاوند کی شکر گذاری کرتی رہے اور خوامخواہ بلا سبب اُس کے احسان اور محبت کا کفریعنی انکار نہ کرے ، اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو بڑائی اور برتری خاوند کو دی گئی ہے اُس کا اقرار قول و فعل سے کرتی رہے ، اور اگر ایسا نہیں کرتی تو درحقیقت وہ خاوند کی حیثیت کا نہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کا کفر یعنی اِنکار کرتی ہے ۔
::::: ایک نصیحت ::::: میری مسلمان ، بہنوں ، بیٹیو ، جو کچھ اِس مضمون میں بیان کیا گیا ہے ، وہ میری اپنی طرف سے نہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی بنیاد پر ہے ، پس ایک اچھے مسلمان کی طرح آپ سب کو یہ باتیں قُبُول کرنا اور اِن کے مطابق عمل کرنا چاہیئے ، اگر آپ ایک اچھی تابع فرمان بیوی بنیں گی ، اور گھر اور گھرانے کو بنا ئے اور جوڑے رکھیں گی ، تو آپ گھر گُلشن کا گُلاب ہیں ، جِس کو ہر ایک محبت اور احترام سے دیکھتا ہے اور جِس کی خوشبو ہر کِسی کو اُس کو اسیر کیئے رکھتی ہے ، اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گی ، تو ، آپ باغِ حیات میں بھبھول کا جھاڑ ہیں جِس کے کانٹوں کی اذیت سے ہر کوئی بچنا چاہتا ہے اور جِس کی بدبو سے ہر کوئی دور بھاگتا ہے ، اور جِس کو اپنی زندگی سے خارج کرنے کی خواہش ہر کوئی رکھتا ہے اور موقع ملتے ہی اُسے پورا کرتا ہے ،
دُنیا کی زندگی میں تو یہ معاملہ رہے گا اور آخرت میں بھی یقینا دُنیا میں کیئے گئے کاموں کے مطابق ہی ثواب اور عذاب ملے گا ، پہلے حق کے ضمن میں نقل کی گئی دوسری حدیث کو ایک دفعہ پھر پڑہیے ، ثواب کا معاملہ اچھی طرح سے سمجھ میں آ جائے گا اورابھی ابھی نویں(٩) حق کے ضمن میں نقل گئی حدیث کو بھی ، عذاب کا معاملہ واضح ہو جائے گا ، اِنشاء اللہ تعالیٰ ،
جو چیز دُنیا میں خیر والی ہے اِنشاء اللہ تعالیٰ اُس کا انجام آخرت میں بھی خیر والا ہی ہو گا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان مبارک پر غور فرمائیے
((( الدُّنیَا مَتَاعٌ وَخَیرُ مَتَاعِ الدُّنیَا المَراَۃُ الصَّالِحَۃُ ::: دُنیا ( آخرت کا ) سامان ہے اور اِس سامان میں سب سے زیادہ خیر والی چیز صالح ( نیکو کار ) عورت ہے ))) صحیح مسلم / حدیث ١٤٦٧ /کتاب الرضاع /باب ١٧، میری مسلمان بہنوں ، بیٹیوں کوشش کیجیئے کہ یہ فرمان آپ پر پورا ہو تا کہ آپ دُنیا اور آخرت میں سب سے زیادہ خیر والی ہو جائیں ، اور اپنے لیے اور اپنوں کے لیے دُنیا اور آخرت میں عِزت اور سکون کا سبب بنیں۔
الحمد للہ تعالیٰ یہاں تک خاوند کے بیوی پر حقوق کے بارے میں بات مکمل ہوئی ، اس کے بعد بیوی کے خاوند پر حقوق کا بیان ان شا اللہ ایک الگ مستقل مضمون کی صورت میں پیش کروں گا ، اور امید ہے کہ خاوند کے حقوق پڑھ کر اگر کسی بھائی یا بہن کے دل و دماغ میں کوئی اشکال پیدا ہوا ہوگا تو وہ بیوی کے حقوق پڑھ کر دور ہو جائے گا ، ان شا اللہ ،
و السلام علیکم۔
 
Top