عادل ـ سہیل
محفلین
::::: حقوق الزوجین ::::: میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق ::::::
اب ہم مختصراً خاوند کے بیوی پراہم حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں ،
::::: بیوی پر خاوند کے حقوق :::::
::::: پہلا حق ::: اطاعت ::: یعنی تابع فرمانی ::::: بیوی پر خاوند کی تابع فرمانی فرض ہے ، یعنی جہاں تک اور جب تک اُس کی ہمت اور طاقت میں ہو وہ خاوند کی تابع فرمانی کرے گی ، کِسی بھی حال میں وہ خاوند کی نافرمانی نہیں کرے گی ،
::::: (١) حسین بن محصن رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اُنکی پھوپھی (چچی یا تائی بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ لفظ عمۃ اِن سب رشتوں کے لیے اِستعمال ہوتا ہے ) رضی اللہ عنھا نے اُنہیں بتایا کہ ایک دفعہ کِسی کام سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا ( ا ذات ُ زَوج ٍ انتِ ::: اے خاتون کیا تمہارا خاوند ہے ؟) میں نے عرض کیا :: جی :: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کَیف َ انتِ لہ ُ ) ( تُم اُسکے لیے کیسی ( بیوی ) ہو ؟) میں نے عرض کیا :: میں کِسی بھی معاملے میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتی سِوائے اِس کے کہ کوئی کام میری طاقت سے باہر ہو :: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( فَاینَ انتِ مِنہ ُ فَاِنَّما ہُو جَنَّتُکِ ونَارُکِ )( تُم اُس سے کہاں ہو کیونکہ بے شک وہ تمہاری جنّت اور جہنم ہے ) یعنی یہ خیال رکھنا کہ تم اُسکے حق کی ادائیگی کے معاملے میں کہاں ہو ؟ اگر اُس کا حق ٹھیک سے ادا کرو گی تو وہ تمہارے لیے جنّت میں داخلے کا مقام ہے اور اگر نہیں تو وہ تمہارے لیے جہنم میں داخلے کا مُقام ہے ۔ مُسند احمد /حدیث ١٩٠٢٥، کتاب عِشرۃَ النِّساء للنسائی / حدیث ٧٩/ ، صحیح الترغیب و الترھیب / حدیث ١٩٣٣،
::::: (٢) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا صَلّت المَراَۃُ خَمسھَا ، و صَامَت شَھرھا ، و حَصَّنَت فرجھا ، و اطاعَت بَعلَھا ، دَخلَت مِن ايّ ابواب الجنَّۃِ شاءَ ت )( اگر عورت ( روزانہ) اپنی پانچ نمازیں ادا کرتی ہو ، اور اپنے ( رمضان کے ) روزے رکھتی ہو ، اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو ، اور اپنے خاوند کی تانع فرمانی کرتی ہو ، ( اور اِس حال میں مر جائے تو ) جنّت کے جِس دروازے سے چاہے گی جنّت میں داخل ہو جائے گی ) صحیح ابن حبان / حدیث ٤١٦٣/کتاب النکاح، صحیح الترغیب و الترھیب (حسن لغیرہ ) /حدیث ١٩٣١ ،
اِس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو بیوی اپنے خاوند کی نافرمانی کرتی ہوئی مرے گی ظاہر ہے خاوند اُس سے راضی تو نہیں ہوگا ، اور ایسی صورت میں وہ عورت جنّت میں داخل نہیں ہو سکے گی ، جب تک کہ اللہ کے سامنے اُس کا خاوند اپنے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کو معاف نہ کر دے ، یہ الگ بات ہے کہ دُنیا میں اگر کوئی خاوند '''بے چارہ ''' یا مجبور ہو اور اپنی بیوی کی نافرمانی پر اپنے غصے یا دُکھ کا اظہار نہ کرتا ہو لیکن آخرت میں اپنی شکایت اور حق طلبی کرنے میں کِسی کو کوئی مجبوری یا بے چارگی نہ ہوگی ۔
::::: اطاعت اور تابع فرمانی کے بارے میں ایک بات بہت واضح طور پر سمجھ لینے والی ہے کہ کِسی کا کوئی بھی حق یا رُتبہ ہو اگر وہ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکموں کی خِلاف ورزی کا حُکم دے تو اُس کی تابع فرمانی نہیں کی جائے گی ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ( لا طَاعَۃَ فِی مَعصِیۃِاللَّہِ ، اِنَّمَا الطَّاعۃُ فِی المَعرُوفِ )( اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی بھی تابع فرمانی نہیں کی جا سکتی ، بے شک تابع فرمانی تو صرف نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے ) صحیح مسلم ، حدیث ١٨٤٠ ، کتاب الامارۃ باب ٨ کی بیسویں روایت ۔
::::: دوسرا حق ::: خاوند کے گھر سے بغیر اُس کی اجازت باہر نہ نکلے :::::
ایمان والوں کی مائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس بیگمات کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرماتے ہوئے حُکم دِیا ::: ( وَقَرنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجَاہِلِیَّۃِ الْاُولَی) ( اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو ( یعنی آرام سے گھروں میں ہی رہو ) اور پہلی جاہلیت (یعنی اسلام سے پہلے والے زمانے ) کی طرح بے پردی کے ساتھ اِٹھلا اِٹھلا کر باہر مت نکلو ) سورت الاحزاب / آیت ٣٣،
گو کہ یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس بیگمات سے ہے ، لیکن قران میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے عام اسلوب و قانون کی طرح یہ حکم اُمت کی تمام عورتوں کےلیے ہے ، اِسکی تائید تمام صحابیات کے عمل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ملتی ہے ،جیسا کہ :::
::::: عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (المَراَئۃُ عَورَۃٌ و اِنَّہَا اِذَا خَرجَت اِستَشرَفَہَا الشِّیطَان ُو اِنَّہَا لَتَکُونُ اقرَبُ اِلیٰ اللَّہِ مِنہَا فی قَعرِ بَیتِہا ) ( عور ت (ساری کی ساری) پردے ( میں رکھنے ) والی چیز ہے اور بے شک جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اُسکی راہنمائی کرتا ہے ( یعنی اُسے گناہ کی طرف لے جاتا ہے ) اور عورت اپنے گھر میں ( رہتے ہوئے ) اللہ کے زیادہ قریب ہوتی ہے )السلسلۃالاحادیث الصحیحۃ/٢٦٨٨ ۔
یہ مندرجہ بالا حدیث عورت کے پردے ، اور حجاب کے انداز ، اور ’’’’’ حجاب ‘‘‘‘‘ کا معنی سمجھنے میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے ،
::::: تیسرا حق ::: جب خاوند ہم بستری کے لیئے بلائے تو فوراً خاوند کی طلب کو پورا کرنا ::::: اِس کی ایک دلیل تو اس مضمون میں بیان کی گئی سب سے پہلی حدیث ہے جو کہ عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہُ کی روایت ہے ، اور اُس کے عِلاوہ بھی کئی احادیث اِس بات کو بڑی وضاحت سے بیان کرتی ہیں ، جیسا کہ :::
::::: (١) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا دَعَا الرَّجُلُ اِمراتَہ ُ اِلیٰ فِراشِہِ فابَت لَعَنَتہَا المَلَائِکَۃُ حتی تَرجِعَ) ( اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو فرشتے اُس عورت پر اُس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ خاوند کے پاس واپس نہیں آتی ) صحیح البخاری / حدیث ٣٢٣٧/ کتاب بدء الخلق / باب ٨٥ ، دوسری روایت ،صحیح مسلم /حدیث ١٤٣٦ /کتاب النکاح/باب٢٠،
::::: (٢) اور صحیح مسلم کی دوسری روایت ہے ( وَالَّذِی نَفسِی بِیدِہِ مَا مِن رَجُلٍ یَدعُو امرَاَتَہُ اِلی فِرَاشِہَا فتابٰی عَلِیہِ اِلَّا کَان الَّذِی فِی السَّمَاء ِ سَاخِطًا عَلِیَہا حَتٰی یَرضیٰ عَنہَا )( اُسکی قسم جِسکے ہاتھ میں میری جان ہے ، جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ بیوی انکار کرے تو وہ جو آسمان پر ہے اُس عورت سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اُسکا خاوند اُس سے راضی نہیں ہوتا ) صحیح مُسلم / حدیث ١٤٣٦/ کتاب النکاح / باب ٢٠ کی حدیث٤،
اِس حدیث میں ہمارے موجودہ موضوع کے علاوہ یہ اِس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں بلکہ آسمانوں سے اُوپر ہے ، مکمل تفصیل کے لیے میری کتاب ''' اللہ کہاں ہے ؟ ''' کا مطالعہ اِنشاء اللہ تعالیٰ مفید ہو گا ،
::::: (٣) طلق بن علی رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا دَعَا الرَّجُلُ زَوجَتُہ ُ لِحاجَتِہِ فَلتَجَبہ ُ واِن کانت عَلٰی التَّنُّورِ ) ( جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنی ضرورت کے لیے بلائے تو بیوی خاوند کی بات قُبُول کرے خواہ وہ تنور پر ہی بیٹھی ہو ئی تھی ) صحیح ابن حبان / حدیث ٤١٤٥/کتاب النکاح ، صحیح الترغیب و الترہیب/ حدیث ١٩٤٦ ،
مضمون جاری ہے ،
اب ہم مختصراً خاوند کے بیوی پراہم حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں ،
::::: بیوی پر خاوند کے حقوق :::::
::::: پہلا حق ::: اطاعت ::: یعنی تابع فرمانی ::::: بیوی پر خاوند کی تابع فرمانی فرض ہے ، یعنی جہاں تک اور جب تک اُس کی ہمت اور طاقت میں ہو وہ خاوند کی تابع فرمانی کرے گی ، کِسی بھی حال میں وہ خاوند کی نافرمانی نہیں کرے گی ،
::::: (١) حسین بن محصن رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اُنکی پھوپھی (چچی یا تائی بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ لفظ عمۃ اِن سب رشتوں کے لیے اِستعمال ہوتا ہے ) رضی اللہ عنھا نے اُنہیں بتایا کہ ایک دفعہ کِسی کام سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا ( ا ذات ُ زَوج ٍ انتِ ::: اے خاتون کیا تمہارا خاوند ہے ؟) میں نے عرض کیا :: جی :: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کَیف َ انتِ لہ ُ ) ( تُم اُسکے لیے کیسی ( بیوی ) ہو ؟) میں نے عرض کیا :: میں کِسی بھی معاملے میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتی سِوائے اِس کے کہ کوئی کام میری طاقت سے باہر ہو :: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( فَاینَ انتِ مِنہ ُ فَاِنَّما ہُو جَنَّتُکِ ونَارُکِ )( تُم اُس سے کہاں ہو کیونکہ بے شک وہ تمہاری جنّت اور جہنم ہے ) یعنی یہ خیال رکھنا کہ تم اُسکے حق کی ادائیگی کے معاملے میں کہاں ہو ؟ اگر اُس کا حق ٹھیک سے ادا کرو گی تو وہ تمہارے لیے جنّت میں داخلے کا مقام ہے اور اگر نہیں تو وہ تمہارے لیے جہنم میں داخلے کا مُقام ہے ۔ مُسند احمد /حدیث ١٩٠٢٥، کتاب عِشرۃَ النِّساء للنسائی / حدیث ٧٩/ ، صحیح الترغیب و الترھیب / حدیث ١٩٣٣،
::::: (٢) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا صَلّت المَراَۃُ خَمسھَا ، و صَامَت شَھرھا ، و حَصَّنَت فرجھا ، و اطاعَت بَعلَھا ، دَخلَت مِن ايّ ابواب الجنَّۃِ شاءَ ت )( اگر عورت ( روزانہ) اپنی پانچ نمازیں ادا کرتی ہو ، اور اپنے ( رمضان کے ) روزے رکھتی ہو ، اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو ، اور اپنے خاوند کی تانع فرمانی کرتی ہو ، ( اور اِس حال میں مر جائے تو ) جنّت کے جِس دروازے سے چاہے گی جنّت میں داخل ہو جائے گی ) صحیح ابن حبان / حدیث ٤١٦٣/کتاب النکاح، صحیح الترغیب و الترھیب (حسن لغیرہ ) /حدیث ١٩٣١ ،
اِس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو بیوی اپنے خاوند کی نافرمانی کرتی ہوئی مرے گی ظاہر ہے خاوند اُس سے راضی تو نہیں ہوگا ، اور ایسی صورت میں وہ عورت جنّت میں داخل نہیں ہو سکے گی ، جب تک کہ اللہ کے سامنے اُس کا خاوند اپنے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کو معاف نہ کر دے ، یہ الگ بات ہے کہ دُنیا میں اگر کوئی خاوند '''بے چارہ ''' یا مجبور ہو اور اپنی بیوی کی نافرمانی پر اپنے غصے یا دُکھ کا اظہار نہ کرتا ہو لیکن آخرت میں اپنی شکایت اور حق طلبی کرنے میں کِسی کو کوئی مجبوری یا بے چارگی نہ ہوگی ۔
::::: اطاعت اور تابع فرمانی کے بارے میں ایک بات بہت واضح طور پر سمجھ لینے والی ہے کہ کِسی کا کوئی بھی حق یا رُتبہ ہو اگر وہ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکموں کی خِلاف ورزی کا حُکم دے تو اُس کی تابع فرمانی نہیں کی جائے گی ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ( لا طَاعَۃَ فِی مَعصِیۃِاللَّہِ ، اِنَّمَا الطَّاعۃُ فِی المَعرُوفِ )( اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی بھی تابع فرمانی نہیں کی جا سکتی ، بے شک تابع فرمانی تو صرف نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے ) صحیح مسلم ، حدیث ١٨٤٠ ، کتاب الامارۃ باب ٨ کی بیسویں روایت ۔
::::: دوسرا حق ::: خاوند کے گھر سے بغیر اُس کی اجازت باہر نہ نکلے :::::
ایمان والوں کی مائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس بیگمات کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرماتے ہوئے حُکم دِیا ::: ( وَقَرنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجَاہِلِیَّۃِ الْاُولَی) ( اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو ( یعنی آرام سے گھروں میں ہی رہو ) اور پہلی جاہلیت (یعنی اسلام سے پہلے والے زمانے ) کی طرح بے پردی کے ساتھ اِٹھلا اِٹھلا کر باہر مت نکلو ) سورت الاحزاب / آیت ٣٣،
گو کہ یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس بیگمات سے ہے ، لیکن قران میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے عام اسلوب و قانون کی طرح یہ حکم اُمت کی تمام عورتوں کےلیے ہے ، اِسکی تائید تمام صحابیات کے عمل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ملتی ہے ،جیسا کہ :::
::::: عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (المَراَئۃُ عَورَۃٌ و اِنَّہَا اِذَا خَرجَت اِستَشرَفَہَا الشِّیطَان ُو اِنَّہَا لَتَکُونُ اقرَبُ اِلیٰ اللَّہِ مِنہَا فی قَعرِ بَیتِہا ) ( عور ت (ساری کی ساری) پردے ( میں رکھنے ) والی چیز ہے اور بے شک جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اُسکی راہنمائی کرتا ہے ( یعنی اُسے گناہ کی طرف لے جاتا ہے ) اور عورت اپنے گھر میں ( رہتے ہوئے ) اللہ کے زیادہ قریب ہوتی ہے )السلسلۃالاحادیث الصحیحۃ/٢٦٨٨ ۔
یہ مندرجہ بالا حدیث عورت کے پردے ، اور حجاب کے انداز ، اور ’’’’’ حجاب ‘‘‘‘‘ کا معنی سمجھنے میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے ،
::::: تیسرا حق ::: جب خاوند ہم بستری کے لیئے بلائے تو فوراً خاوند کی طلب کو پورا کرنا ::::: اِس کی ایک دلیل تو اس مضمون میں بیان کی گئی سب سے پہلی حدیث ہے جو کہ عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہُ کی روایت ہے ، اور اُس کے عِلاوہ بھی کئی احادیث اِس بات کو بڑی وضاحت سے بیان کرتی ہیں ، جیسا کہ :::
::::: (١) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا دَعَا الرَّجُلُ اِمراتَہ ُ اِلیٰ فِراشِہِ فابَت لَعَنَتہَا المَلَائِکَۃُ حتی تَرجِعَ) ( اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو فرشتے اُس عورت پر اُس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ خاوند کے پاس واپس نہیں آتی ) صحیح البخاری / حدیث ٣٢٣٧/ کتاب بدء الخلق / باب ٨٥ ، دوسری روایت ،صحیح مسلم /حدیث ١٤٣٦ /کتاب النکاح/باب٢٠،
::::: (٢) اور صحیح مسلم کی دوسری روایت ہے ( وَالَّذِی نَفسِی بِیدِہِ مَا مِن رَجُلٍ یَدعُو امرَاَتَہُ اِلی فِرَاشِہَا فتابٰی عَلِیہِ اِلَّا کَان الَّذِی فِی السَّمَاء ِ سَاخِطًا عَلِیَہا حَتٰی یَرضیٰ عَنہَا )( اُسکی قسم جِسکے ہاتھ میں میری جان ہے ، جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ بیوی انکار کرے تو وہ جو آسمان پر ہے اُس عورت سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اُسکا خاوند اُس سے راضی نہیں ہوتا ) صحیح مُسلم / حدیث ١٤٣٦/ کتاب النکاح / باب ٢٠ کی حدیث٤،
اِس حدیث میں ہمارے موجودہ موضوع کے علاوہ یہ اِس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں بلکہ آسمانوں سے اُوپر ہے ، مکمل تفصیل کے لیے میری کتاب ''' اللہ کہاں ہے ؟ ''' کا مطالعہ اِنشاء اللہ تعالیٰ مفید ہو گا ،
::::: (٣) طلق بن علی رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا دَعَا الرَّجُلُ زَوجَتُہ ُ لِحاجَتِہِ فَلتَجَبہ ُ واِن کانت عَلٰی التَّنُّورِ ) ( جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنی ضرورت کے لیے بلائے تو بیوی خاوند کی بات قُبُول کرے خواہ وہ تنور پر ہی بیٹھی ہو ئی تھی ) صحیح ابن حبان / حدیث ٤١٤٥/کتاب النکاح ، صحیح الترغیب و الترہیب/ حدیث ١٩٤٦ ،
مضمون جاری ہے ،