سید زبیر
محفلین
حقوق نسواں اور منافق معاشرہ
ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ کیٹ ہڈسن نے ۲۰۰۴ ء میں ایک بھارتی روزنامہ کو انٹرویو دیتے ہوئے نہایت ہی متائثر کن جملہ کہا ۔انہوں نے کہا ’’ یہ ایک بہترین امر ہے کہ اگر آ پ ایک خاتون ہیں جو باہر اور ۔۔۔۔ مقامات پر کام کرتی ہیں تو سب سے بہتر اور محفوظ مقام آ پ کے لیے آپ کا گھر ہے ‘‘ اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری خواہش ہے ’’ کاش میں ایک وفا شعار بیوی اور شفیق ماں ہوتی ‘‘ ۔ عصر حاضر میں ہم جب اپنے چاروں جانب دفاتر ، کلب ، تفریحی مقامات حتیٰ کہ کھیل کے میدان میں عورت کی خوبصورتی کا اظہار ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ایسے موقعہ پر ایک انتہائی پرکشش تھیٹر کے ماحول کی اداکارہ کی یہ خواہش کہ وہ باوفا بیوی اور شفیق ماں بننا زیادہ پسند کرتی ایک ایسی حقیقت ہے جو مغربی سوچ اور پراپیگنڈہ کی صریحاً نفی کرتی ہے موجودہ اخلاق باختہ اور منافق معاشرہ میں خواتین کو جنسی تسکین کا ایک نشان بنا دیا گیا ہے جہاں اس کو دوست تو بنایا جاتا ہے مگر اس کو وقار اور وہ مرتبہ نہیں دیا جاتا جو اس کا بطور ایک انسان حق ہے اسے عریاں فلموں ،اشتہارارت اور انٹر نیٹ پر ایک جنسی تسکین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ایسا منافق معاشرہ کس طرح ایک خاتون کی ایسی حقیقی خواہش کو سمجھ سکتا ہے ۔ایسا معاشرہ خاتون کے اندرونی کرب اور روح کے زخموں کو کیسے سمجھ سکتا ہے ۔جس کی قوت بصارت اور بصیرت عورت کے عضویاتی حسن ہی تک محدود ہے ۔یہ صورتحال صرف ہالی ووڈ ، بالی ووڈ یالالی ووڈ کی روشنیوں تک ہی محدود نہیں دنیا کے ہر ادارے میں خواہ وہ سویلین ہو یا عسکری ، خواتین کو اس کے فطری تقاضوں ، جذبہ امومت سے محروم کر کے ہوس پرستی کی طرف آمادہ کیا جاتا ہے وہ ماں کے کردار سے محروم ہوتی جارہی ہے ۔ مغربی دنیا نے تو بہت پہلے ہی خواتین کو جنگوں میں بھی دھکیل دیا ۔معصوم خواتین کو عسکری قحبہ خانوں کے مکروہ دھندوں میں پھنسا دیا دوسری جنگ عظیم میں جاپان میں عصمت فروشی کے لیے جبری بھرتی کی جاتی تھی اگرچہ جاپانی مورخ کے بقول اس کے لیے صرف پیشہ ور خواتین ہی کو جنگ میں بھیجا جاتا تھا۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ معصوم خواتین کو پیشہ ورانہ عصمت فروشی پر کس نے مجبور کیا اس دور میں کئی نجی قحبہ خانے سرکاری سرپرستی میں چلتے تھے بعض جاپانی مورخین لکھتے ہیں کہ متعددایسی با عصمت خواتین کے ثبوت موجود ہیں جن کو دھوکہ اور عیاری سے یا پھر ایشین کالونیوں اور مقبوضہ علاقوں سے بحری اور بری افواج نے اغوا کیا تھا ا اور وہ اپنی حیا کے گوہر سے محروم کردی گئیں ۔اب جب کہ امریکی افواج میں سینکڑوں ہزاروں خواتین ہیں جن کی اگر چہ بنیادی ذمہ داری ملک کی حفاظت ہے مگر وہ ظالم اور جابر افسروں سے اپنی عزت کی حفاظت نہ کرسکیں ماریانہ ہدا ایک امریکی فوج کی خاتون افسر نے نہایت کرب سے کہا کہ وہ جب بھی سرخ ،سفید اور نیلے رنگ والے امریکی پرچم کو دیکھتی ہے تو اسے پورا جھنڈا خون میں ڈوبا ہوا نطر آتا ہے ۔سرخ رنگ وہ خون جو اسکے بدن سے خارج ہوا ، نیلا رنگ اس کے زخموں کا اور سفید رنگ خوف میں ڈوبے ہوئے اس کے چہرے کے رنگ کا مظہر ہے وہ کہتی ہے کہ میرے ملک کی خاطر جس طرح مجھے لوٹا گیا اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہو سکتا ہے ۔ پینٹا گون کے ۱۹۸۸ کے سروے کے مطابق نوے فیصد فوجی خواتین اپنے پر ہونے والے مظالم کا کسی سے ذکر تک نہیں کر سکتیں امریکی معاشرے اور مغربی دنیا نے عورت کے تقدس کو جس طرح پامال کیا اس کے لیے ابو غریب جیل کی مثال ہی کافی ہے
اس طرح ہمسایہ ملک بھارت کی فضائیہ میں ۲۰۰۵ میں زیر تربیت تین خواتین نے بھی اپنے انسٹرکٹرز پر اسی قسم کا الزام لگایا تھا ان خواتین زیر تربیت افسروں کو بعد میں فضائیہ سے نکال دیا گیا تھا اسی طرح ۲۰۱۰ میں بھارت کے کیفٹنٹ جنرلاے کے نندہ سے بھی زبردستی استعفیٰ طلب کیا گیا ان پر الزام تھا کہ دورہ اسرائیل کے دوران اپنے ماتحت افسر کی اہلیہ سے زیادتی کی کوشش کی آسٹریلیا کی مسلح افواج میں بھی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں
یہ منافقت صرف سرکاری اور نجی دفاتر ہی تک محدود نہیں مذہب اور تعلیم جیسے مقدس مقامات پر بھی حوا کی بیٹی کی تذلیل یہی منافق کرتے رہے ہیں پرائمری سکول سے یونیورسٹی تک جنسی تشدد کی مثالیں ہر ملک میں مل جاتی ہیں مذہبی مقدس مقامات گرجا ،مندر خانقاہوں کے مجاور یا مقدس اور پارسا بزرگوں کے مزارات مقدسہ کے روباہ صفت گدی نشین جن کی خانقاہیں طلسم ہوش ربا کی خواب گاہیں بن جاتی ہیں ۔ جہاں جبہ پوش معصوم خواتین کی عصمتوں کی قبائیں تار تار کر دیتے ہیں سروں پر کلاہ سجانے والوں کونہ انداز قلندرانہ کی پاسداری ہے نہ آداب کج کلاہی کا لحاظ۔آج ان اولیا کرام کے مزارات مقدسہ پر کیا ہو رہا ہے کس طرح نچ کہ یار مناواں پر دھمالیں ڈال کرخود کو اور اپنے آقاؤں کو روحانی بلندی سے ہمکنار کیا جاتا ہے
ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ کیٹ ہڈسن نے ۲۰۰۴ ء میں ایک بھارتی روزنامہ کو انٹرویو دیتے ہوئے نہایت ہی متائثر کن جملہ کہا ۔انہوں نے کہا ’’ یہ ایک بہترین امر ہے کہ اگر آ پ ایک خاتون ہیں جو باہر اور ۔۔۔۔ مقامات پر کام کرتی ہیں تو سب سے بہتر اور محفوظ مقام آ پ کے لیے آپ کا گھر ہے ‘‘ اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری خواہش ہے ’’ کاش میں ایک وفا شعار بیوی اور شفیق ماں ہوتی ‘‘ ۔ عصر حاضر میں ہم جب اپنے چاروں جانب دفاتر ، کلب ، تفریحی مقامات حتیٰ کہ کھیل کے میدان میں عورت کی خوبصورتی کا اظہار ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ایسے موقعہ پر ایک انتہائی پرکشش تھیٹر کے ماحول کی اداکارہ کی یہ خواہش کہ وہ باوفا بیوی اور شفیق ماں بننا زیادہ پسند کرتی ایک ایسی حقیقت ہے جو مغربی سوچ اور پراپیگنڈہ کی صریحاً نفی کرتی ہے موجودہ اخلاق باختہ اور منافق معاشرہ میں خواتین کو جنسی تسکین کا ایک نشان بنا دیا گیا ہے جہاں اس کو دوست تو بنایا جاتا ہے مگر اس کو وقار اور وہ مرتبہ نہیں دیا جاتا جو اس کا بطور ایک انسان حق ہے اسے عریاں فلموں ،اشتہارارت اور انٹر نیٹ پر ایک جنسی تسکین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ایسا منافق معاشرہ کس طرح ایک خاتون کی ایسی حقیقی خواہش کو سمجھ سکتا ہے ۔ایسا معاشرہ خاتون کے اندرونی کرب اور روح کے زخموں کو کیسے سمجھ سکتا ہے ۔جس کی قوت بصارت اور بصیرت عورت کے عضویاتی حسن ہی تک محدود ہے ۔یہ صورتحال صرف ہالی ووڈ ، بالی ووڈ یالالی ووڈ کی روشنیوں تک ہی محدود نہیں دنیا کے ہر ادارے میں خواہ وہ سویلین ہو یا عسکری ، خواتین کو اس کے فطری تقاضوں ، جذبہ امومت سے محروم کر کے ہوس پرستی کی طرف آمادہ کیا جاتا ہے وہ ماں کے کردار سے محروم ہوتی جارہی ہے ۔ مغربی دنیا نے تو بہت پہلے ہی خواتین کو جنگوں میں بھی دھکیل دیا ۔معصوم خواتین کو عسکری قحبہ خانوں کے مکروہ دھندوں میں پھنسا دیا دوسری جنگ عظیم میں جاپان میں عصمت فروشی کے لیے جبری بھرتی کی جاتی تھی اگرچہ جاپانی مورخ کے بقول اس کے لیے صرف پیشہ ور خواتین ہی کو جنگ میں بھیجا جاتا تھا۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ معصوم خواتین کو پیشہ ورانہ عصمت فروشی پر کس نے مجبور کیا اس دور میں کئی نجی قحبہ خانے سرکاری سرپرستی میں چلتے تھے بعض جاپانی مورخین لکھتے ہیں کہ متعددایسی با عصمت خواتین کے ثبوت موجود ہیں جن کو دھوکہ اور عیاری سے یا پھر ایشین کالونیوں اور مقبوضہ علاقوں سے بحری اور بری افواج نے اغوا کیا تھا ا اور وہ اپنی حیا کے گوہر سے محروم کردی گئیں ۔اب جب کہ امریکی افواج میں سینکڑوں ہزاروں خواتین ہیں جن کی اگر چہ بنیادی ذمہ داری ملک کی حفاظت ہے مگر وہ ظالم اور جابر افسروں سے اپنی عزت کی حفاظت نہ کرسکیں ماریانہ ہدا ایک امریکی فوج کی خاتون افسر نے نہایت کرب سے کہا کہ وہ جب بھی سرخ ،سفید اور نیلے رنگ والے امریکی پرچم کو دیکھتی ہے تو اسے پورا جھنڈا خون میں ڈوبا ہوا نطر آتا ہے ۔سرخ رنگ وہ خون جو اسکے بدن سے خارج ہوا ، نیلا رنگ اس کے زخموں کا اور سفید رنگ خوف میں ڈوبے ہوئے اس کے چہرے کے رنگ کا مظہر ہے وہ کہتی ہے کہ میرے ملک کی خاطر جس طرح مجھے لوٹا گیا اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہو سکتا ہے ۔ پینٹا گون کے ۱۹۸۸ کے سروے کے مطابق نوے فیصد فوجی خواتین اپنے پر ہونے والے مظالم کا کسی سے ذکر تک نہیں کر سکتیں امریکی معاشرے اور مغربی دنیا نے عورت کے تقدس کو جس طرح پامال کیا اس کے لیے ابو غریب جیل کی مثال ہی کافی ہے
اس طرح ہمسایہ ملک بھارت کی فضائیہ میں ۲۰۰۵ میں زیر تربیت تین خواتین نے بھی اپنے انسٹرکٹرز پر اسی قسم کا الزام لگایا تھا ان خواتین زیر تربیت افسروں کو بعد میں فضائیہ سے نکال دیا گیا تھا اسی طرح ۲۰۱۰ میں بھارت کے کیفٹنٹ جنرلاے کے نندہ سے بھی زبردستی استعفیٰ طلب کیا گیا ان پر الزام تھا کہ دورہ اسرائیل کے دوران اپنے ماتحت افسر کی اہلیہ سے زیادتی کی کوشش کی آسٹریلیا کی مسلح افواج میں بھی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں
یہ منافقت صرف سرکاری اور نجی دفاتر ہی تک محدود نہیں مذہب اور تعلیم جیسے مقدس مقامات پر بھی حوا کی بیٹی کی تذلیل یہی منافق کرتے رہے ہیں پرائمری سکول سے یونیورسٹی تک جنسی تشدد کی مثالیں ہر ملک میں مل جاتی ہیں مذہبی مقدس مقامات گرجا ،مندر خانقاہوں کے مجاور یا مقدس اور پارسا بزرگوں کے مزارات مقدسہ کے روباہ صفت گدی نشین جن کی خانقاہیں طلسم ہوش ربا کی خواب گاہیں بن جاتی ہیں ۔ جہاں جبہ پوش معصوم خواتین کی عصمتوں کی قبائیں تار تار کر دیتے ہیں سروں پر کلاہ سجانے والوں کونہ انداز قلندرانہ کی پاسداری ہے نہ آداب کج کلاہی کا لحاظ۔آج ان اولیا کرام کے مزارات مقدسہ پر کیا ہو رہا ہے کس طرح نچ کہ یار مناواں پر دھمالیں ڈال کرخود کو اور اپنے آقاؤں کو روحانی بلندی سے ہمکنار کیا جاتا ہے
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوزر و دلق اویس و چادر زہرا
اور یہ سب اس مذہب کہ ماننے والوں کے لئے ہے جہاں کبھی خدیجتہ الکبریٰؓ بطور بیوی، خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کی بطور ما ں بیوی اور بیٹی جیسی مثالیں مشعل راہ ہوا کرتی تھیں
عورت کو گھر سے باہر لانے میں صنعتی انقلاب ایک اہم عنصر تھا عورت کی معاشی ضروریات نے اسے گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا خواتین کو گھریلو کاموں کے علاوہ صنعتوں کارخانوں میں روزگار کے مواقع میسر آنے لگے مگر عورت کے حقوق یہاں بھی بری طرح پامال ہوتے تھے مردوں کی نسبت انہیں زیادہ مشقت کرنی پڑتی تھی اور معاوضہ کم ملتا تھا سدا کی شاکر یہ عورت اسی طرح پستی رہی خواتین کے کام کرنے کا ماحول تکلیف دہ حد تک غیر صحتمندانہ ہوتا تھا خواتین کے کام کرنے کی وجہ سے گھریلو نظام بگڑ کر رہ گیا بچے اپنی پہلی تربیت گاہ سے محروم ہونے لگے اور س طرح یہ بگاڑ معاشرہ کے زوال کا سبب بن گیا انیسویں صدی کے آخر تک مغرب میں خواتین کو ووٹ کا حق نہ تھا ، شادی شدہ عورت کو حقوق ملکیت حاصل نہ تھے طلاق اور بچوں کی سپرداری کا حق صرف مرد کو حاصل تھا طب اور قانون کا پیشہ عورتوں کے لئے شجر ممنوعہ تھا چند مواقع کے علاوہ مذہب میں عورت کو دخل دینے کا کو ئی حق حاصل نہ تھا غرضیکہ عورت کی عزت نفس کی کوئی قیمت نہ تھی ۲۰ جولائی ۱۸۴۸ میں نیویارک میں ویمن رائٹس کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا جس میں عورتوں کے ملکیت کے حقوق کو تسلیم کیا گیا تعلیمی رکاوٹیں دور کرنے اور اعلیٰ عہدوں تک رسائی کی اجازت ملی ۱۹۲۰ میں عورتوں کو ووٹ کا حق ملا امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے خواتین کے پرزہور مظاہروں اور ہڑتالوں کے بعد پہلا قومی کنونشن ترتیب دیا جس ک سفارشات پر عمل کرتے ہوئے ۱۹۷۲ میں عورت کو مساوی معاوضہ کا بل منظور ہوا ۔آزادی کے مجسمے کے یہ پجاری آج تک عورت کو عورت کو مملکت کی سربراہی کے قابل بھی نہیں سمجھتے ۔ برطانیہ میں مطلقہ عورت سے شادی کرنے کے جرم میں ولی عہد کو تخت سے محروم ہونا پڑا آج جو خواتین کو حقوق حاصل ہوئے یہ مغربی خواتین کی ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے مگر اسلام نے اس سے کہیں بڑھ کر حقوق عورتوں کو ودیعت کئے ۔ اسلام میں عورت کو ذہنی نشونما کی مکمل آزادی حاصل ہے ۔مغربی معاشرے میں جہاں تعلیم عورت کا حق ہے اسلام نے اسے عورت پر اسی طرح فرض قرار دی ہے جیسے مردوں پر ، سب سے اہم عورت کو حق ملکیت حاصل ہے جس کی وہ بلا شرکت غیرے مالک ہے شادی کے بعد بھی وہ اس حق سے محروم نہیں ہوتی وہ اپنے شوہروں کی رضا مندی کے بغیر اپنی جائداد کی خرید و فروخت کر سکتی ہے جبکہ اس کی تمام تر معاشی معاشرتی ذمہ داری خاوند ہی کی ہوتی ہے ۔ مسلم خاتون اپنے وقار کے پیش نظر نہ صرف کاروبار ، ملازمت بلکہ عوامی معاملات میں بھی حصہ لے سکتی ہے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفےٰﷺ کے چند ارشادات مبارکہ ملاحظہ فرمائیں ۱۔ جنت ماں کے قدموں تلے ہے ۲۔ لوگو ! بیویوں کے حقوق تم پر ہیں اور تمہارے حقوق ان پر ہیں ان سے حسن سلوک سے پیش آ ؤ وہ تمہاری ساتھی اور مددگار ہیں ۳۔ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو
یہ حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے میں خواتین زیادہ محفوظ اور پرسکون زندگی گزارتی ہیں لیکن منافق معاشرے میں اس کا جینا محال ہے یہ کیسی منافقت ہے کہ یہ نام نہاد آزادی نسواں کے علمبردار قوم کی ماؤں کی نیم عریاں تصاویر شاہراہوں اور چوراہوں پر ٹانگنے کو عورت کی آزادی سمجھ رہے ہیں جو کہ ایک عورت کی صریحاً تذلیل ہے دراصل یہ نام نہاد دانشور ذہنی پستی اور منافقت کا شکار ہیں جو ان تصاویر سے خود بھی محظوظ ہوتے ہیں اور معاشرے کو بھی گمراہ کرتے ہیں کیا کسی ایڈورٹائزنگ کمپنی کے یا نشریاتی اور مطبوعاتی ادارے کا حریص ایسی جرأت کرے گا کہ اپنی بہن اور بیٹی کی نیم عریاں تصاویر کی نمائش کرے اگر نہیں تو یہی اس کی منافقت اور دوغلا پن ہے کہ وہ مر ہونے کے باعث عزتوں کا بیوپار کرتا ہے ۔ ایسے موقعہے پر یہ حقوق نسواں کی تنظیموں اور مذہبی جماعتوں کا ملی اور دینہ فریضہ ہے کہ وہ ان شتر بے مہار لالچی اور حریص لوگوں سے عورت کی اس تذلیل کو روکیں کیا عورت میں اس کے عضویاتی حسن کے علاوہ کوئی اور خوبی نہیں ۔ خدارا عورت کو اس کی فطری ذمہ داری یعنی حق امومت سے نہ روکیں ۔
خالق کائنات نے جس نے کائنات کی ہر شے کی تخلیق کی واضح طور پر سورۃ الاحزاب میں فرمایا ’’ اور اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے آپ کی نمائش نہ کرتی رہو ‘‘ لیکن عورت کو اپنے پردہ اور حجاب میں رہتے ہوئے تعلیم ، ملازمت ، کاروبار حتیٰ کہ جنگ میں زخمیوں کی خدمت اور علاج تک کرنے کی آزادی ہے ۔ پردہ عورت کی سرگرمیوں میں کسی صورت حائل نہیں ہوتا پردہ تو جسم کا ایک حجاب ہے اسے عورت کی اعلیٰ صفات اور پنہاں امکانات کے لئے کیسے رکاوٹ تصور کیا جا سکتا ہییہ حقیقت ہے اور تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ با پردہ خاتون اپنی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرسکتی ہے تحقیقی اداروں تعلیمی اداروں میں جہاں مخلوط نظام نہیں ہے یا پھر خواتین پردے اور حجاب میں رہتے ہوئے ماحول میں اچھے نتائج دیتی ہیں بشرطیکہ وہاں منافقت نہ ہو اور اسی پردے کی وجہ سے خاتون زیادہ پر سکون زندگی گزارتی ہے
یہی اس کی روح اور منشائے فطرت ہے اسی روح کے زخمی ہونے پر ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ کیٹ ہڈسن نے کہا ۔ ’’ یہ ایک بہترین امر ہے کہ اگر آ پ ایک خاتون ہیں جو باہر اور ۔۔۔۔ مقامات پر کام کرتی ہیں تو سب سے بہتر اور محفوظ مقام آ پ کے لیے آپ کا گھر ہے ‘‘ اور میری خواہش ہے کہ کاش میں ایک وفا شعار بیوی اور شفیق ماں ہوتی
گلیم بوزر و دلق اویس و چادر زہرا
اور یہ سب اس مذہب کہ ماننے والوں کے لئے ہے جہاں کبھی خدیجتہ الکبریٰؓ بطور بیوی، خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کی بطور ما ں بیوی اور بیٹی جیسی مثالیں مشعل راہ ہوا کرتی تھیں
عورت کو گھر سے باہر لانے میں صنعتی انقلاب ایک اہم عنصر تھا عورت کی معاشی ضروریات نے اسے گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا خواتین کو گھریلو کاموں کے علاوہ صنعتوں کارخانوں میں روزگار کے مواقع میسر آنے لگے مگر عورت کے حقوق یہاں بھی بری طرح پامال ہوتے تھے مردوں کی نسبت انہیں زیادہ مشقت کرنی پڑتی تھی اور معاوضہ کم ملتا تھا سدا کی شاکر یہ عورت اسی طرح پستی رہی خواتین کے کام کرنے کا ماحول تکلیف دہ حد تک غیر صحتمندانہ ہوتا تھا خواتین کے کام کرنے کی وجہ سے گھریلو نظام بگڑ کر رہ گیا بچے اپنی پہلی تربیت گاہ سے محروم ہونے لگے اور س طرح یہ بگاڑ معاشرہ کے زوال کا سبب بن گیا انیسویں صدی کے آخر تک مغرب میں خواتین کو ووٹ کا حق نہ تھا ، شادی شدہ عورت کو حقوق ملکیت حاصل نہ تھے طلاق اور بچوں کی سپرداری کا حق صرف مرد کو حاصل تھا طب اور قانون کا پیشہ عورتوں کے لئے شجر ممنوعہ تھا چند مواقع کے علاوہ مذہب میں عورت کو دخل دینے کا کو ئی حق حاصل نہ تھا غرضیکہ عورت کی عزت نفس کی کوئی قیمت نہ تھی ۲۰ جولائی ۱۸۴۸ میں نیویارک میں ویمن رائٹس کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا جس میں عورتوں کے ملکیت کے حقوق کو تسلیم کیا گیا تعلیمی رکاوٹیں دور کرنے اور اعلیٰ عہدوں تک رسائی کی اجازت ملی ۱۹۲۰ میں عورتوں کو ووٹ کا حق ملا امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے خواتین کے پرزہور مظاہروں اور ہڑتالوں کے بعد پہلا قومی کنونشن ترتیب دیا جس ک سفارشات پر عمل کرتے ہوئے ۱۹۷۲ میں عورت کو مساوی معاوضہ کا بل منظور ہوا ۔آزادی کے مجسمے کے یہ پجاری آج تک عورت کو عورت کو مملکت کی سربراہی کے قابل بھی نہیں سمجھتے ۔ برطانیہ میں مطلقہ عورت سے شادی کرنے کے جرم میں ولی عہد کو تخت سے محروم ہونا پڑا آج جو خواتین کو حقوق حاصل ہوئے یہ مغربی خواتین کی ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے مگر اسلام نے اس سے کہیں بڑھ کر حقوق عورتوں کو ودیعت کئے ۔ اسلام میں عورت کو ذہنی نشونما کی مکمل آزادی حاصل ہے ۔مغربی معاشرے میں جہاں تعلیم عورت کا حق ہے اسلام نے اسے عورت پر اسی طرح فرض قرار دی ہے جیسے مردوں پر ، سب سے اہم عورت کو حق ملکیت حاصل ہے جس کی وہ بلا شرکت غیرے مالک ہے شادی کے بعد بھی وہ اس حق سے محروم نہیں ہوتی وہ اپنے شوہروں کی رضا مندی کے بغیر اپنی جائداد کی خرید و فروخت کر سکتی ہے جبکہ اس کی تمام تر معاشی معاشرتی ذمہ داری خاوند ہی کی ہوتی ہے ۔ مسلم خاتون اپنے وقار کے پیش نظر نہ صرف کاروبار ، ملازمت بلکہ عوامی معاملات میں بھی حصہ لے سکتی ہے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفےٰﷺ کے چند ارشادات مبارکہ ملاحظہ فرمائیں ۱۔ جنت ماں کے قدموں تلے ہے ۲۔ لوگو ! بیویوں کے حقوق تم پر ہیں اور تمہارے حقوق ان پر ہیں ان سے حسن سلوک سے پیش آ ؤ وہ تمہاری ساتھی اور مددگار ہیں ۳۔ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو
یہ حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے میں خواتین زیادہ محفوظ اور پرسکون زندگی گزارتی ہیں لیکن منافق معاشرے میں اس کا جینا محال ہے یہ کیسی منافقت ہے کہ یہ نام نہاد آزادی نسواں کے علمبردار قوم کی ماؤں کی نیم عریاں تصاویر شاہراہوں اور چوراہوں پر ٹانگنے کو عورت کی آزادی سمجھ رہے ہیں جو کہ ایک عورت کی صریحاً تذلیل ہے دراصل یہ نام نہاد دانشور ذہنی پستی اور منافقت کا شکار ہیں جو ان تصاویر سے خود بھی محظوظ ہوتے ہیں اور معاشرے کو بھی گمراہ کرتے ہیں کیا کسی ایڈورٹائزنگ کمپنی کے یا نشریاتی اور مطبوعاتی ادارے کا حریص ایسی جرأت کرے گا کہ اپنی بہن اور بیٹی کی نیم عریاں تصاویر کی نمائش کرے اگر نہیں تو یہی اس کی منافقت اور دوغلا پن ہے کہ وہ مر ہونے کے باعث عزتوں کا بیوپار کرتا ہے ۔ ایسے موقعہے پر یہ حقوق نسواں کی تنظیموں اور مذہبی جماعتوں کا ملی اور دینہ فریضہ ہے کہ وہ ان شتر بے مہار لالچی اور حریص لوگوں سے عورت کی اس تذلیل کو روکیں کیا عورت میں اس کے عضویاتی حسن کے علاوہ کوئی اور خوبی نہیں ۔ خدارا عورت کو اس کی فطری ذمہ داری یعنی حق امومت سے نہ روکیں ۔
خالق کائنات نے جس نے کائنات کی ہر شے کی تخلیق کی واضح طور پر سورۃ الاحزاب میں فرمایا ’’ اور اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے آپ کی نمائش نہ کرتی رہو ‘‘ لیکن عورت کو اپنے پردہ اور حجاب میں رہتے ہوئے تعلیم ، ملازمت ، کاروبار حتیٰ کہ جنگ میں زخمیوں کی خدمت اور علاج تک کرنے کی آزادی ہے ۔ پردہ عورت کی سرگرمیوں میں کسی صورت حائل نہیں ہوتا پردہ تو جسم کا ایک حجاب ہے اسے عورت کی اعلیٰ صفات اور پنہاں امکانات کے لئے کیسے رکاوٹ تصور کیا جا سکتا ہییہ حقیقت ہے اور تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ با پردہ خاتون اپنی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرسکتی ہے تحقیقی اداروں تعلیمی اداروں میں جہاں مخلوط نظام نہیں ہے یا پھر خواتین پردے اور حجاب میں رہتے ہوئے ماحول میں اچھے نتائج دیتی ہیں بشرطیکہ وہاں منافقت نہ ہو اور اسی پردے کی وجہ سے خاتون زیادہ پر سکون زندگی گزارتی ہے
یہی اس کی روح اور منشائے فطرت ہے اسی روح کے زخمی ہونے پر ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ کیٹ ہڈسن نے کہا ۔ ’’ یہ ایک بہترین امر ہے کہ اگر آ پ ایک خاتون ہیں جو باہر اور ۔۔۔۔ مقامات پر کام کرتی ہیں تو سب سے بہتر اور محفوظ مقام آ پ کے لیے آپ کا گھر ہے ‘‘ اور میری خواہش ہے کہ کاش میں ایک وفا شعار بیوی اور شفیق ماں ہوتی