عثمان ندیم
محفلین
ہمارے معاشرے میں اک عجب روایت پڑ گئی ہے۔ خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں یہ چیز زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس معاشرے میں انگریزی زبان بولنے والے شخص کو زیادہ پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ زبان تو گفتگو کا ایک ذریعہ ہے۔ وہ کوئی بھی زبان ہو سکتی ہے مثلاً اردو، پنجابی، فارسی، پشتو، سرائیکی، انگریزی یا کوئی بھی اور زبان جو ایک علاقے میں مروج ہو۔
پنجاب کے کسی بھی علاقے کی بات کیجیے ادھر زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ انگریزی زبان بولنے والے کو یوں سمجھتے ہیں گویا کہ علم کا اک سمندر ہو۔ اردو بولنے والے کو علم کی اک نہر سمجھا جاتا ہے جبکہ پنجابی بولنے والے کو اک گندا نالا تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ پنجابی بولنے سے ہچکچاتے ہیں اور کبھی کبھار تو جب محفل میں بیٹھے ہوں تو پنجابی زبان کو اپنی عزت پر حرف سمجھتے ہیں۔ اس لیے دیہاتی اپنے بچوں کی پرورش میں اس مشکل کا سامنا کرتے ہیں کہ خود ان کو اردو بھی اچھے سے نہیں آتی اور بچوں کو انگریزی سکھاتے سکھاتے اپنا مذاق بنوا لیتے ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پنجابی بوڑھے لوگوں کی زبان ہے، اردو جوان لوگوں کی جبکہ انگریزی بچوں کی زبان ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہی بچے بڑھاپے کو پہنچ جائیں گے سوچیے کہ تب پنجابی بولنے والے کتنے لوگ رہ جائیں گے؟ کیا ہمارا پنجاب پنجابی زبان سے خالی ہو جائے گا؟ کیا عظیم پنجابی شعرا بابا بلھے شاہ، وارث شاہ وغیرہ کی شاعری پڑھنے اور سمجھنے والا کوئی نہیں ہو گا؟ کیا لوگ پنجابی کے عظیم قصوں ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں سے نا آشنا ہوں گے؟ جبکہ یہ سب پنجابی ادب ہماری شان ہے۔
دراصل ہم آج بھی آزاد نہیں ہوئے 1947ء میں ہم نے ظاہری آزادی تو حاصل کر لی مگر باطنی طور پر ہم آج بھی غلام ہیں۔ انگریزوں نے ہمارے اذہان کا رخ بدل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس قوم میں کوئی لیڈر نہیں ہے۔ ہم بے لگام ہیں۔ ہمارے تنزل کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ غلامی ہے جو کہ میرے نزدیک حقیقی اور باطنی غلامی ہے۔
پنجاب کے کسی بھی علاقے کی بات کیجیے ادھر زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ انگریزی زبان بولنے والے کو یوں سمجھتے ہیں گویا کہ علم کا اک سمندر ہو۔ اردو بولنے والے کو علم کی اک نہر سمجھا جاتا ہے جبکہ پنجابی بولنے والے کو اک گندا نالا تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ پنجابی بولنے سے ہچکچاتے ہیں اور کبھی کبھار تو جب محفل میں بیٹھے ہوں تو پنجابی زبان کو اپنی عزت پر حرف سمجھتے ہیں۔ اس لیے دیہاتی اپنے بچوں کی پرورش میں اس مشکل کا سامنا کرتے ہیں کہ خود ان کو اردو بھی اچھے سے نہیں آتی اور بچوں کو انگریزی سکھاتے سکھاتے اپنا مذاق بنوا لیتے ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پنجابی بوڑھے لوگوں کی زبان ہے، اردو جوان لوگوں کی جبکہ انگریزی بچوں کی زبان ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہی بچے بڑھاپے کو پہنچ جائیں گے سوچیے کہ تب پنجابی بولنے والے کتنے لوگ رہ جائیں گے؟ کیا ہمارا پنجاب پنجابی زبان سے خالی ہو جائے گا؟ کیا عظیم پنجابی شعرا بابا بلھے شاہ، وارث شاہ وغیرہ کی شاعری پڑھنے اور سمجھنے والا کوئی نہیں ہو گا؟ کیا لوگ پنجابی کے عظیم قصوں ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں سے نا آشنا ہوں گے؟ جبکہ یہ سب پنجابی ادب ہماری شان ہے۔
دراصل ہم آج بھی آزاد نہیں ہوئے 1947ء میں ہم نے ظاہری آزادی تو حاصل کر لی مگر باطنی طور پر ہم آج بھی غلام ہیں۔ انگریزوں نے ہمارے اذہان کا رخ بدل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس قوم میں کوئی لیڈر نہیں ہے۔ ہم بے لگام ہیں۔ ہمارے تنزل کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ غلامی ہے جو کہ میرے نزدیک حقیقی اور باطنی غلامی ہے۔