عرفان سعید
محفلین
اس سے کم بھی نہیں تھا!وائکنگ تھا؟
اس سے کم بھی نہیں تھا!وائکنگ تھا؟
دل تے کردا
جہاں تک میں نے پڑھا ہے محمد بن قاسم، حجاج بن یوسف کا بھتیجا تھا جو عرب سے آیا تھا نہ کہ چین سے
ارے جانے دو، ناروے سے آیا تھا!
محمد بن قاسم ضرور پہلا پاکستانی ہے لیکن چین سے نہیں آیا تھا۔
محمد بن قاسم کے بارہ میں مطالعہ پاکستان میں لکھا ہے کہ ان کی وجہ سے پہلی بار اسلام موجودہ پاکستان میں آیا۔ یوں کئی صدیوں بعد یہاں ہندوؤں سے مختلف “مسلم قوم” (دو قومی نظریہ) نے جنم لیا۔ جس کی بنیاد پر آج بنگال الگ ہونے کے باوجود پاکستان کا وجود ہے۔
اس لحاظ سے محمد بن قاسم کو مطالعہ پاکستان میں پہلا پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
جیسے امریکی زیک بڑے فخر سے کولمبس کو تاریخ کا پہلا امریکی مانتے ہیں کیونکہ اس نے امریکہ “دریافت” کیا تھا۔ حالانکہ کولمبس سے پہلے بھی امریکہ میں مختلف اقوام آباد تھیں۔ البتہ آج امریکہ بہادر کا وجود پہلے امریکی کولمبس کی مرہون منت ہے۔
محمد بن قاسم کون تھا؟ خالصتا عرب تھا۔ اس لئے قیامت تک پاکستانی عربوں سے مرعوب رہیں گے۔ جیسے امریکی آج بھی اپنی جڑ “یورپی کولمبس” کو نہیں بھول سکتے۔
ہمارے معاشرے میں اک عجب روایت پڑ گئی ہے۔ خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں یہ چیز زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس معاشرے میں انگریزی زبان بولنے والے شخص کو زیادہ پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے۔
کچھ زیادہ مبالغہ نہیں ہو گیا؟ خصوصاً دیہاتی علاقوں کے بارے میں۔پنجاب کے کسی بھی علاقے کی بات کیجیے ادھر زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ انگریزی زبان بولنے والے کو یوں سمجھتے ہیں گویا کہ علم کا اک سمندر ہو۔ اردو بولنے والے کو علم کی اک نہر سمجھا جاتا ہے جبکہ پنجابی بولنے والے کو اک گندا نالا تصور کیا جاتا ہے۔
میں نے جو دیکھا لکھ دیا۔ میں خود دیہات سے تعلق رکھتا ہوں۔کچھ زیادہ مبالغہ نہیں ہو گیا؟ خصوصاً دیہاتی علاقوں کے بارے میں۔
آپ کی کیا رائے ہے ؟ اگر آپ کچھ اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کیجیے میں آپ کا شکرگزار!!کچھ زیادہ مبالغہ نہیں ہو گیا؟ خصوصاً دیہاتی علاقوں کے بارے میں۔
دیہی علاقوں میں واقعی صورت حال اتنی خراب نہیں ہے۔کچھ زیادہ مبالغہ نہیں ہو گیا؟ خصوصاً دیہاتی علاقوں کے بارے میں۔
کیا آپ کے خیال میں ان پڑھ اور کم عقل لوگ انگریزی زبان سے مرعوب نہیں ہوتے؟؟میرا تعلق بھی دیہاتی علاقے سے ہے ( وادئ سون ضلع خوشاب ) وہاں میرے مشاہدے میں ایسی صورتحال ایک بار بھی پیش نہیں آئی نہ ہی کبھی کسی سے اس طرح کی کوئی بات سنی ہے۔
ہمارے معاشرے میں اک عجب روایت پڑ گئی ہے۔ خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں یہ چیز زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس معاشرے میں انگریزی زبان بولنے والے شخص کو زیادہ پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ زبان تو گفتگو کا ایک ذریعہ ہے۔ وہ کوئی بھی زبان ہو سکتی ہے مثلاً اردو، پنجابی، فارسی، پشتو، سرائیکی، انگریزی یا کوئی بھی اور زبان جو ایک علاقے میں مروج ہو۔
پنجاب کے کسی بھی علاقے کی بات کیجیے ادھر زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ انگریزی زبان بولنے والے کو یوں سمجھتے ہیں گویا کہ علم کا اک سمندر ہو۔ اردو بولنے والے کو علم کی اک نہر سمجھا جاتا ہے جبکہ پنجابی بولنے والے کو اک گندا نالا تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ پنجابی بولنے سے ہچکچاتے ہیں اور کبھی کبھار تو جب محفل میں بیٹھے ہوں تو پنجابی زبان کو اپنی عزت پر حرف سمجھتے ہیں۔ اس لیے دیہاتی اپنے بچوں کی پرورش میں اس مشکل کا سامنا کرتے ہیں کہ خود ان کو اردو بھی اچھے سے نہیں آتی اور بچوں کو انگریزی سکھاتے سکھاتے اپنا مذاق بنوا لیتے ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پنجابی بوڑھے لوگوں کی زبان ہے، اردو جوان لوگوں کی جبکہ انگریزی بچوں کی زبان ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہی بچے بڑھاپے کو پہنچ جائیں گے سوچیے کہ تب پنجابی بولنے والے کتنے لوگ رہ جائیں گے؟ کیا ہمارا پنجاب پنجابی زبان سے خالی ہو جائے گا؟ کیا عظیم پنجابی شعرا بابا بلھے شاہ، وارث شاہ وغیرہ کی شاعری پڑھنے اور سمجھنے والا کوئی نہیں ہو گا؟ کیا لوگ پنجابی کے عظیم قصوں ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں سے نا آشنا ہوں گے؟ جبکہ یہ سب پنجابی ادب ہماری شان ہے۔
دراصل ہم آج بھی آزاد نہیں ہوئے 1947ء میں ہم نے ظاہری آزادی تو حاصل کر لی مگر باطنی طور پر ہم آج بھی غلام ہیں۔ انگریزوں نے ہمارے اذہان کا رخ بدل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس قوم میں کوئی لیڈر نہیں ہے۔ ہم بے لگام ہیں۔ ہمارے تنزل کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ غلامی ہے جو کہ میرے نزدیک حقیقی اور باطنی غلامی ہے۔
میرے خیال میں ان کا مطلب یہ ہے کہ جہاں انگریزی بولے بغیر گزارہ نہیں جیسا کہ یورپ و امریکہ وہاں تو ٹھیک ہے۔انگلش بین الاقوامی رابطہ کی زبان ہے اس کو بولنا یا سمجھنا ذہنی غلامی کیسی؟
آپ سمجھے نہیں۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ اسے سمجھنا بھی چاہیے اور بولنا بھی چاہیے۔ مگر ہمارے معاشرے میں علم کا پیمانہ زبان کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم انگریزی زبان بولیں مگر علاقائی زبانوں مثلاً پنجابی بولنے والے کو کم تر نہ سمجھیں۔ ہمیں اپنی ثقافت اور زبان کو بھی ترقی دینا ہے۔انگلش بین الاقوامی رابطہ کی زبان ہے اس کو بولنا یا سمجھنا ذہنی غلامی کیسی؟
ہم انگریزی زبان بولیں مگر علاقائی زبانوں مثلاً پنجابی بولنے والے کو کم تر نہ سمجھیں۔ ہمیں اپنی ثقافت اور زبان کو بھی ترقی دینا ہے۔
آپ سمجھے نہیں۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ اسے سمجھنا بھی چاہیے اور بولنا بھی چاہیے۔ مگر ہمارے معاشرے میں علم کا پیمانہ زبان کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم انگریزی زبان بولیں مگر علاقائی زبانوں مثلاً پنجابی بولنے والے کو کم تر نہ سمجھیں۔ ہمیں اپنی ثقافت اور زبان کو بھی ترقی دینا ہے۔[/QUOTE
احساس کمتری آپ کا اپنا ہو سکتا ہے ہم نے تو دیہات میں ایسا کبھی محسوس نہیں کیا، بلکہ ایک دو بار پنچائیت میں کچھ بزرگوں کو انگلش کے لفظ پنجابی زبان میں فٹ کرتے دیکھا
مثال کے طور پر
پبلک دی اے رائے ہے کہ اس الیکشن تے لوکل کینڈیڈیٹ نوں سپورٹ کیتا جاوے
آپ شاید مجھے غلط ثابت کرنا چاہ رہے ہیں مگر میرا نقطہ نظر آپ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ میری بات کو آپ کسی اور زاویے سے دیکھتے نظر آتے ہیں۔احساس کمتری آپ کا اپنا ہو سکتا ہے ہم نے تو دیہات میں ایسا کبھی محسوس نہیں کیا، بلکہ ایک دو بار پنچائیت میں کچھ بزرگوں کو انگلش کے لفظ پنجابی زبان میں کمال مہارت سے استعمال کرتے دیکھا
مثال کے طور پر
پبلک دی اے رائے ہے کہ اس الیکشن تے لوکل کینڈیڈیٹ نوں سپورٹ کیتا جاوے
آیا نہیں تھا بلکہ آئے گا ۔ارے جانے دو، ناروے سے آیا تھا!