حلب کی ایک بہن کا خط

dxbgraphics

محفلین
مجھے شام کے حالات کا کچھ علم نہیں ہے، میں یہاں متن پر تبصرہ نہیں کروں گا لیکن ماخذ کا ذکر کروں گا...

نیلے رنگ سے "ماخد-------فيس بك" لکھ دینے سے یہ ماخذ نہیں بن جاتا بلکہ ربط مہیّا کرنے سے بنتا ہے۔
عام طور پر "اگر ماخذ\ربط نہیں ہے تو یہ جھوٹ ہے!"


whoiskillingciviliansinsyria.org نامی سائٹ، جس کا آپ دونوں نے حوالہ دیا ہے 30 مارچ 2016 کو رجسٹر ہوئی ہے اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ یہ سائٹ کس نے بنائی\رجسٹر کروائی ہے۔ ماخذ --- who.is کیا ایسی سائٹ کا حوالہ قابلِ بھروسا ہو سکتا ہے؟ میرے لیے تو نہیں۔ بہتر ہوتا کہ آپ اقوام متحدہ یا امریکی سرکاری سائٹس کا حوالہ دیتے، دونوں شامی حکومت کے خلاف ہیں۔

اگر کوئی چاہے تو ایوا بارٹلیٹ کو گوگل کر سکتا ہے اور دوسرا پہلو جان سکتا ہے۔
اسی صفحے کے اوپر میری پوسٹ میں پاکستانی اخبار جس میں اقوام متحدہ تصدیق کر چکی ہے موجود ہے۔
 
سب سے بڑا قصور وار سعودیہ اور ترکی ھے جس نے داعش کو ایجاد کیا اور آج بھی داعش کی مدد کر رھا ھے جس کے پیچھے آمریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ھے
 

Fawad -

محفلین
جمہوریت کی دعویدار اور جمہوریت کے لئے کوشاں ممالک بشمول امریکہ اور روس جنہوں نے ایران و دیگر ممالک کے جنگجووں کو شام کا پلیٹ فارم مہیا کیا


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس سے پہلے کہ آپ بغير کسی تامل کے امريکہ کو شام کی عوام کی حمايت کے ليے ہدف تنقيد بنائيں اور اس امر کو تشدد کی اصل وجہ قرار ديں، يہ ياد رکھیں کہ اس جاری تنازعے کے دوران گزشتہ قريب پانچ برسوں کے دوران دو لاکھ پچاس ہزار شہری حکومت مخالف مظاہروں کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بيٹھے ہيں۔ اور اب يہ محض احتجاج نہيں بلکہ خانہ جنگی ہے۔ علاوہ ازيں ايک رپورٹ کے مطابق 11 ملين افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہيں۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کردوں کہ تشدد کا آغاز اس وقت نہيں ہوا تھا جب امريکی حکومت نے اصولی موقف اپناتے ہوئے ان مظاہرين کی حمايت کا فيصلہ کيا تھا جو اسد حکومت کی بربريت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ يہ سارا معاملہ مارچ 2011 ميں شروع ہوا تھا جب شام کے جنوبی شہر ديرہ ميں چند نوجوانوں کی گرفتاری اور تشدد کے واقعات کے بعد مظاہروں کا آغاز ہو گيا۔ جولائ 2011 تک ہزاروں کی تعداد ميں مظاہرين ملک بھر ميں سراپا احتجاج بن گئے۔ مخالف جماعتوں کی جانب سے اسلحہ بھی استمعال کيا جانے لگا۔ ابتداء ميں اپنے دفاع کے ليے اور پھر حکومتی فوجوں کو اپنے علاقوں سے دور رکھنے کے ليے۔

جون 2013 تک اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس تنازعے ميں نوے ہزار افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ اگست 2015 تک يہ تعداد بڑھ کر دو لاکھ پچاس ہزار تک پہنچ گئ۔ امريکی قيادت ميں شام ميں فضائ بمباری کی مہم کا آغاز ستمبر 2014 ميں ہوا جس کا مقصد داعش کے بڑھتے ہوئے تسلط کو روکنا اور ان کے محفوظ ٹھکانوں کو نيست ونابود کرنا تھا۔

اس بےمثال انسانی ظلم و تشدد کے نتيجے ميں امريکی عوام اور حکومت کے پاس اس کے سوا کوئ چارہ نہيں تھا کہ وہ شام کی عوام کے اپنے بہتر مستقبل کی خواہش کے جائز اور ايک آزاد اور جمہوری حکومت کے قيام کے مطالبے کا ساتھ ديں۔

ہم شام ميں معصوم عورتوں، مردوں اور بچوں کی حفاظت کے ليے صرف امداد اور لاجسٹک تعاون فراہم کر رہے ہيں، ان حالات ميں جب کہ ان کے تحفظ کی ذمہ دار حکومت ان پر بموں سے حملے کر رہی ہے۔ مقصد صرف ان کی حفاظت کو يقينی بنانا ہے۔

يقينی طور پر آپ ان لوگوں کی مدد کے ليے ہميں ہدف تنقید نہيں بنا سکتے​

 

Fawad -

محفلین
سب سے بڑا قصور وار سعودیہ اور ترکی ھے جس نے داعش کو ایجاد کیا اور آج بھی داعش کی مدد کر رھا ھے جس کے پیچھے آمریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ھے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اگر آپ کے الزام ميں کوئ صداقت ہوتی تو پھر آپ اس حقيقت کو کيسے نظرانداز کريں گے کہ امريکہ بدستور اس اتحاد کا حصہ ہے جو اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ اس دہشت گرد تنظيم کو ختم کرنے کے ليے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے جو آپ کی دانست ميں خطے ميں امريکی مفادات کو جلا دينے کے ليے "تخليق" کی گئ ہے۔

حقائق کو درست تناطر ميں سمجھنے کے ليے کچھ اعداد وشمار پيش ہيں جو دہشت گردی کے اس فتنے اور اس کے قائدين کو ختم کرنے کے ليے ہمارے عزم اور کاوش کو اجاگر کرتے ہيں جو بعض رائے دہندگان کے الزام کے مطابق ہماری جانب سے خفيہ امداد وصول کر رہے ہيں۔

جنوری 11 2017 تک امريکہ اور اتحادی افواج نے داعش کے محفوظ ٹھکانوں پر مجموعی طور پر 17،370 فضائ حملے کيے ہيں جن ميں سے 10،850 عراق ميں اور 6،520 شام ميں کيے گئے ہيں۔ اگر صرف امريکہ کی بات کريں تو مجموعی طور پر شام اور عراق ميں داعش کی پيش قدمی کو روکنے کے ليے 13،549 فضائ حملے کيے گئے ہيں جن ميں سے 7،358 عراق ميں اور 6،191 شام ميں کيے گئے ہيں۔

ديگر اتحادی ممالک کی جانب سے عراق اور شام ميں داعش کے خلاف مجموعی طور پر 3،821 فضائ حملے کيے گئے ہيں جن ميں سے 3،492 عراق ميں اور 329 شام ميں کيے گئے ہیں۔

دسمبر 15 2016 تک داعش کے خلاف اس مہم ميں امريکہ کے مالی اخراجات کا مجموعی تخمينہ 7۔10 بلين ڈالرز لگايا گيا ہے۔ اگست 8 2014 کو شروع کی گئ اس مہم ميں 861 دن گزرنے کے بعد يوميہ امريکی اخراجات 5۔12 ملين ڈالرز تک پہنچ گئے ہيں۔

داعش کے خلاف جاری امريکی کاوشيں اور اس ضمن ميں امريکی اخراجات کی مزيد تفصيلات آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

https://www.defense.gov/Portals/1/f.../costUpdates/ISIL_Master_Report_-_15Dec16.pdf

چاہے وہ القائدہ، ٹی ٹی پی، داعش يا دنيا بھر ميں کوئ بھی ايسی تنظيم ہی کيوں نا ہو جسے دہشت گرد قرار ديا جا چکا ہو، آپ ان کی اہم شخصيات اور سرکردہ قيادت کے خلاف ہماری مشترکہ کاوشوں پر ايک نظر ڈالیں تو آپ پر يہ واضح ہو جائے گا کہ ہم نے ان تنظيموں کی قيادت کی جانب سے اپنے کارندوں کو متحرک کرنے، منصوبہ بندی کرنے اور دنيا ميں کہيں بھی دہشت گردی کی کاروائياں کرنے کی ان کی صلاحيتوں کو ختم کرنے کے ليے ہر ممکن کوشش روا رکھی ہے۔​
اگر دہشت گرد تنطيموں کے يہ ليڈر واقعی ہماری کٹھپتلياں ہيں جو اپنے "مريدوں" پر اپنے اثر کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے ايجنڈے کو آگے بڑھاتے ہيں تو پھر ہم مسلسل ان "اثاثوں" کو نشانہ کيوں بنا رہے ہيں؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

USUrduDigitalOutreach | Facebook

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos

Us Dot
 
Top