حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ

97) ان کی یہ پیشکش بہرحال قبول نہیں کی گئی اور نتیجے کے طور پر اس نے مشرقی پاکستان میں تمام نشستیں جیت لیں سوائے دو نشستوں کے جس کے نتیجے کے طور پر ایک دوسرے مفہوم میں وہ اپنی پارٹی کے قیدی بن کر رہ گئے اور اس قابل نہ رہے کہ اپنی پارٹی کے انتہا پسند گروپ کے مطالبات کورد کر سکیں۔ جن کا انہیں 7 مارچ 1971ء کو سامنا کرنا پڑا۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنی پارٹی کے دباو سے فرار حاصل کرنے کے لیے انہوں‌ نے خود کو گرفتار کر ا دیا۔ علاوہ ازیں ہم یہ سوچتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن ایک بہتر مدبر ثابت ہوتے، بجائے اس کے جو کچھ انہوں نے کیا اور عمومی طور پر پاکستان اور خاص طور پر مشرقی پاکستان کے عوام کو جمہوریت کے بہتر نتائج فراہم کرتے ، یعنی امن اور سکون اور ایک خوشحال زندگی۔ ان کو ایک سنہری موقع دیا گیا ۔ وہ متحد پاکستان کے وزیراعظم بن سکتے تھے حالانکہ اس سے مشرقی پاکستانی کو اس پیمانے پرآزادی نہ مل پاتی جو کہ چھ نکاتی پروگرام کے ذریعے حاصل ہو سکتی تھی لیکن پھر بھی اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مشرقی پاکستانی کے لیے زیادہ آزادی کی ضرورت تھی۔ اس قسم کے سیٹ اب میں مسٹر بھٹو مرکز میں‌ اپنا حصہ مانگنے کی پوزیشن میں نہ ہوتے اور اپنے سیاسی وجود کو قائم رکھنے کے لیے اگر شیخ مجیب کے لیے ایسا ضروری ہوتا کہ وہ کچھ نمائندے مغربی پاکستان سے انے ساتھ شامل کر لیں تو یہاں ان کی کوئی کمی نہ تھی اور کسی بھی بھی پارٹی سے اتحاد کرسکتے تھے۔ یہاں تک کہ 7 جنوری 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن ، جنرل یحٰیی خان کو یہ یقین دہانی کرا رہے تھے کہ وہ وضح طور پر دو تہائی اکثریت حاصل کر لیں گے۔ ان کے ذہن میں یہ نہیں‌تھاکہ وہ پیپلز پارٹی سے کسی قسم کا اتحاد قائم کریں گے تاہم وہ کسی چھوٹی پارٹی سے اتحاد کرکے اپنی پارٹی کی حیثیت برقرار اور واضح رکھنا چاہتے تھے۔ اس صورت میں مشرقی پاکستان اور مرکز میں وہ اس حیثیت میں ہوتے کہ مشرقی پاکستان کے حالات میں بہتری پیدا کر سکتے تھے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ اپنے چھ نکات کو آئین کا حصہ بنا کر کیا زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے اور مشرقی پاکستان کے لیے کیا بہتر کام کر سکتے تھے حالانکہ وزیراعظم بننے کی صورت میں وہ مشرقی پاکستان کے عوام کی مشکلات و مسائل کو زیادہ بہتر طور پر حل کر سکتے تھے۔ قطع نظر اس کے جنرل یحٰیی خان کا رویہ کیا تھا اور انہوں نے مجیب الرحمن کو کس طرح اشتعال دلایا ہم یہ سوچتے ہیں کہ اگر مجیب الرحمن ایسے آئین پر متفق ہوجاتے جو مغربی پاکستان کے لیے قابل قبول ہوتا تو ملک کے لیے زیادہ بہتر ہوتا اور وہ ایک متحد پاکستان کے سربراہ ہوتے۔

98) اب یہاں ذوالفقار علی بھٹو، چیرمین پیپلز پارٹی کا کردار سامنے آتا ہے جو کہ مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کے لیڈر تھے اور جنہیں ملک کی سیاست میں خاص حیثیت حاصل تھی اور جن پر ایک خاص ذمہ داری تھی کہ وہ ملک کا آئین بنائیں اور ملک کی بقا اور استحکام کو برقرار رکھیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ یہ مطالبہ کرنے میں پوری طرح حق بجانب تھے کہ نیشنل اسمبلی کا اجلاس جو کہ 3 مارچ 1971 کو ہونا طے پایا تھا اسے ملتوی کر دیا جائے اور کیا وہ اس مطالبے میں حق بجانب تھے کہ عوامی لیگ ان سے اتحاد قائم کرے اور یہ کہ انہوں نے ملک میں‌دوطاقتوں کی جو تھیوری پیش کی تھی وہ کس حد تک صحیح تھی اور آخری بات یہ کہ انہوں‌ نے ڈھاکا مذکرات کے دوران اپنی ذہانت اور مثبت حکمت علی سے کام کیوں نہ لیا جس کے نتیجے میں 25 مارچ 1971ء کو فوجی ایکشن شروع کر دیا گیا۔

99) یہ بات عام طور پر سب کومعلوم ہے کہ پیپلز پارٹی نے دوران الیکشن مجیب الرحمن( عوامی لیگ) کے چھ نکات کو اپنی انتخابی مہم کا اہم ایشو نہیں بنایا تھا۔ لیکن کمیشن کے روبرو بھٹو کی جانب سے کہا گیا کہ انہوں‌نے مغربی پاکستان میں دانشواروں کے ایک اجتماع میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ ان چھ نکات میں علیحدگی کے جراثیم موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسا واقع کہا ہو۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے اس نے اس سلسلے میں (چھ نکاتی پروگرام کے خلاف) نہ ہی کوئی مہم چلائی اور نہ ہی عوامی میٹنگ میں ان کے خلاف کچھ کہا۔ ایسی صورت میں کمیشن اس دلیل کو زیادہ اہمیت نہیں دے سکتا۔ جو کہ انہوں نے الیکشن اوراسمبلی کے اجلاس کے بعد پیش کی ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ بھٹو کس جمہوری اور پارلیمانی اصول کے تحت عوامی لیگ کی قیادت سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں اس معاملے پر مفاہمت کرتے ہوئے چھ نکاتی پروگرام میں کچھ کمی کردیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ عوامی لیگ نے بھاری اکثریت کے ساتھ چھ نکاتی پروگرام پر مشرقی پاکستانی عوام کی حمایت حاصل کی تھی ان سے یہ توقی کم ہی کی جاسکتی تھی کہ وہ ان نکات سے بغیر کسی بحث مباحچے اور کچھ لو اور کچھ دو کے عمل کے بغیر انحراف کر سکتے ہیں۔

100) یہی بات پیپلز پارٹی کے اس مطالبے اور اصرار کے متعلق کہی جاسکتی ہے جس کے مطابق کوئی آئین ان کی شمولیت اور منظوری کے بغیر نہیں بنایا جاسکتا حالانکہ شیخ مجیب الرحمن کو نیشنل اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی اور انہیں یقین تھا کہ وہ مغربی پاکستان کی دوسری اقلیتی پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل کر لیں گے جبکہ صورتحال یہ تھی کہ مغربی پاکستان کے صوف 2 صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ عوامی لیگ جس نے پورے پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کی تھی ، آئین نہیں بنا سکتی ۔ ان تمام باتوں سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پیپلز پارٹی ، عوامی لیگ سے یہ مطالبہ کرنے میں قطعاً حق بجانب نہ تھی کہ وہ چھ نکات سے دستبردار ہوجائیں یا پھر ان میں تبدیلی کر لیں یا یہ کہ پیپلز پارتی کو مغربی پاکستان میں عوامی رائے ہموار کرنے اور انہیں چھ نکاتی پروگرام کے حق میں‌ ہموار کرنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا تاہم یہ بات درست نہیں۔ زیادہ بہتر راستہ پیپلز پارٹی کے لیے تھا کہ وہ نیشنل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرتی اور اپنے نظریات اور نکات کی اجلاس میں بیٹھ کر وضاحت اور وکالت کرتی۔
 
101) ہم اس نظریے کی بھی حمایت نہیں کر سکتے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ان مسائل کو اور اس گہرے ردعمل کو سمجھنے سے قاصر رہے جو کہ مشرقی پاکستان میں اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے اور تاریخ کو آگے بڑھانے سے پیدا ہوئے۔ انہوں نے کمیشن کے سامنے واضح طور پر یہ اعتراف کیا کہ مشرقی پاکستان کے لوگ اس صورت میں سخت ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔ مسٹر بھٹو نے مشرقی پاکستان میں اپنی پارٹی قائم کرنے کی معمولی سی بھی کوشش نہیں کی اور ان کے پاس وہاں کے بارے میں خبررسانی کا بھی کوئی ذریعہ نہیں تھا اور ذرائع ابلاغ، جن پر حکومت کا کنٹرول تھا اس کے ذریعے بہت کم حقائق باہر کی دنیا تک پہنچ پاتے تھے۔ بیرونی ممالک کے لوگ حقیقی صورتحال سے بالکل ناواقف تھے اس بات سے قطع نظر کہ جب وہ (بھٹو) جنوری 71ء میں مجیب الرحمن سے گفت وشنید کے لیے ڈھاکا گئے تھے۔ انہوں نے ذاتی طور پر وہاں موجود کشیدگی کا اندازہ لگایا ہوگا جو کہ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے یا اسے مؤخر کرنے کی صورت میں وہاں کے عوام میں پائی جاتی تھی۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد میں تاخیر کے باعث صوبے میں بڑھتی ہوئی تشویش اور بے چینی کا ذاتی مشاہدہ اس امر کااندازہ لگانے کے لیے کافی تھا۔ اس کو اس امر کا اندازہ لگانے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے تھی کہ اجلاس کے انعقاد میں‌ تاخیر کا عنصر مشرقی پاکستان کے عوام میں ایک دانستہ غلطی کے تاثر کو ابھار رہا تھا اور جس کا تاثر یہ لیا جارہا تھا کہ فوجی حکومت انتخابات کے نتائج کے مطابق اکثریتی آبادی والے صوبے کو جان بوجھ کر اقتدار میں حصہ نہیں دے رہی جس کے وہ مستحق تھے۔ اس ضمن میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھٹو صاحب قومی اسمبلی کے اجلاس کے التوا پر اصرار کرکے مشرقی پاکستان کے مزاج کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ مغربی پاکستان میں چھوٹی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کو ان کی جانب سے دی جانے والی دھمکیاں بھی غلط اور ناقابل فہم ثابت ہوئیں۔

102) اگرچہ بھٹو نے 28 فروری 1971ء کو ا120 یوم کی مدت کی حد کی شرط ختم کرنے کی متبادل تجویز پیش کی تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ہمارے مذکورہ بالا بیان سے کسی صورت انحراف پیش نہیں کرتی کیونکہ بھٹو صاحب کسی نہ کسی صورت میں اس امر سے آگاہ تھے کہ جنرل یحٰیی ایل ایف او میں مذکور مدت کی شرط کو معتبر تصور کرتا تھا۔ بھٹو صاحب نے یہ نکتہ پہلے بھی کہیں‌ اٹھایا تھا اور اس بات کا یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ اسے آخر سنجیدگی سے کیوں نہیں‌ لیا گیا اور اگر اس بات کا یقین بھی کر لیا جائے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ایسی تجویز پیش کی تھی تو پھر اس سے قبل بھٹو صاحب نے صدر کو کیوں نہیں پیش کیا اور 28 فروری 1971ء سے قبل کی جانے والی متعدد پریس کانفرنسوں اور دیگر مواقع پر کیوں پیش نہیں کیا گیا۔

103) بھٹو صاحب کی جانب سے آئین سازی پر اتفاق رائے کا مطالبہ بھی دراصل دو اکثریتوں کے نظریے کی ترجمانی کرتا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ۔ یہ نظریہ بھی پیپلز پارٹی کے اس مطالبے کی بنیاد تھا جس میں مرکز میں ایک کثیر الجماعتی مخلوط حکومت کا قیام شامل تھا۔ جنرل یحٰیی نے بھی اس مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے شیخ مجیب کو اسے قبول کرنے کا کہا تھا۔ ہم اس مطالبے پر ہونے والی تنقید اور مخالفت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جس میں اس امر کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ ایک جمہوری پارلیمانی نظام میں حکومت سازی کا حق اکثریتی جماعت کو حاصل ہوتا ہے لیکن اکثریتی جماعت خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ حکومت سے منسلک ہونے پر اصرار نہیں کر سکتی۔ ناقدین نے بھٹو صاحب کے شیخ مجیب الرحمن کو مخاطلب کرکے کہے جانے والے جملے (ہم یہاں تم وہاں) کی سخت مذمت کی ہے۔ جس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو حکومت کرنی چاہیے۔

104) وسط مارچ 1971ء میں بھٹو صاحب نے کراچی میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں‌ کہا تھا کہ اس جملے کو غلط طور پر پیش کیا گیا تھا جبکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ مرکزی حکومت میں مغربی پاکستان سے ہم اور مشرقی پاکستن سے آپ شامل ہوں گے لیکن اس کا مطلب ہرگر یہ نہیں کہ پاکستان کے دونوں حصوں میں علیحدہ حکومتیں قائم ہوں ۔ لیکن بھٹو صاحب کے جملے پر مکمل غوروخوص کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ دراصل کنفیڈریشن کی طرز پر ملک کے دونوں حصوں میں علیحدہ اور خود مختار حکومتیں قائم کرنے کے خواہشمند تھے۔ انہوں نے یہ ریمارکس 14 مارچ کو ایک سیاسی اجتماع میں دئیے تھے۔ بلکہ یہ دراسل اس وقت قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد میں‌ تاخیر پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال میں شیخ مجیب الرحمن سے کیا گیا مطالبہ تھا۔ یہ صورتحال عوامی لیگ نے ہی پیدا کی ہوئی تھی۔ وسط مارچ 1971ء تک درحقیقت عوامی لیگ اسلام آباد کی مرکزی حکومت سے علیحدہ ہو چکی تھی۔ کمیشن کے روبرو بھٹو صاحب نے کہا کہ انہوں‌ نے یہ مطالبہ اس وقت اس لیے کیا تھا کہ کیونکہ تب اکثریتی جماعت ملک میں فیڈریشن کی بجائے کنفیڈریشن کے قیام کی خواہشمند تھی۔ انہوں نے کہا کہ دراصل یکم مارچ 1971ء سے ہی شیخ مجیب الرحمن نے اپنے 6 نکات میں کسی مصالحت سے انکار کر دیا تھا بلکہ اس کا رویہ ایک علیحدہ مملکت کے سربراہ جیسا ہو گیا تھا لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ 14 مارچ 1971ء کو بھٹو صاحب کی جانب سے دئیے جانے والے ریمارکس دراصل کنفیڈریشن کے نظریے کو مسترد کرنے کی بجائے اس کوقبول کرنے کے مترادف تھے۔ بہرحال ہم یہاں یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ بھٹو صاحب کے ریمارکس پیپلز پارٹی کی جانب سے دئیے گئے کسی نئے سیاسی نظریے کی بجائے محض جذباتی نوعیت کے تھے جن کا اظہار اس وقت کی سیاسی صورت حال کے مطابق ہوا تھا۔ تاہم اس وقت اس سے بہت زیادہ غلط فہمی پیدا ہوئی۔
 
105) جہاں‌ تک مارچ 1971ء کے نازک عرصے میں بھٹو صاحب کے عوامی لیگ کے ساتھ مذکرات کے دوران کے کردار کا تعلق ہے تو ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بھٹو صاحب اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان براہ راست کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ حقائق کے ادراک اور تجزیے کے بعد ہم یہ بات پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ مذکرات کا خاتمہ اقتدار کی منتقلی میں کسی بنیادی اختلاف کے باعث نہیں ہوا تھا بلکہ اس ضمن میں‌کسی طریقہ کار کو اختیار کرنے میں اختلاف کے باعث ہوا تھا۔ یہ امر بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ جب آشوب حالات میں بالآخر دسمبر 1971ء میں بھٹو صاحب کو اقتدار دیا گیا تو جنرل یحٰیی خان کی جانب سے جاری کردہ ایک سادہ حکم نامے کے تحت ہوا تھا اس طرح اگر اسے اس نگاہ سے دیکھا جائے تو اس سے جنرل یحٰیی خان کے مشیروں اور سیاسی رہنماؤں کو افسوسناک اور عقل سے خالی حکمت عملی کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ڈھاکا میں سیاسی مذکرات میں‌شریک تھے اور اقتدار کی منتقلی کے بارے میں کسی بات پر رضامند نہ ہوسکے حالانکہ ان کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ ان کی ناکامی سے پاکستان ٹوٹ سکتا تھا۔ بہرحال ہم یہاں انصاف سے یہ بات کہیں گے کہ پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کے درمیان مذکرات کا کوئی باقاعدہ یا رسمی طور پر خاتمہ نہیں ہوا تھا بلکہ صورتحال دراصل جنرل یحٰیی خان کی جانب سے مذکرات کے یکدم خاتمے اور 25 مارچ 1971ء کی شام کو اس کی ڈھاکا سے اچانک خفیہ روانگی کے باعث ہوا تھا۔ یہ محض خام خیالی ، وہم یا قیاس آرائی ہے کہ اگر بھٹو صاحب جو مغربی پاکستان کے اکثریتی لیڈر تھے مذکرات کے خاتمے سے قبل شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ براہ راست مذکرات کے لیے کوئی مؤثر پہل کرتے تو کوئی نتیجہ خیز صوتحال برآمد ہوسکتی تھی۔

106) 26 مارچ 1971ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے جنرل یحٰیی خان نے ڈھاکا میں ہونے والے مذکرات کی ناکامی کی وجوہات بتائی تھیں اور اس موقع پر جلداز جلد عوامی نمائندوں کو اقتدار سونپنے کے عہدے کا اعادہ بھی کیاتھا۔ انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے حالات کے مطابق نئے موثر اقدامات کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا تھا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کے قابل سزا قانونی اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ملک کے پیچیدہ آئین سے پیدا ہونے والی صورتحال اور مسئلے کے حل کی خاطر شیخ مجیب کی غیر قانونی حرکتوں کو برداشت کررہے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کے رویے اور کردار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے عوامی لیگ اور ملک میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کا ذکر بھی کیا تھا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی صرف مشرقی پاکستان تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ مغربی پاکستان میں بھی یہ پابندیاں عائد تھیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اپنے خطاب میں انہوں‌نے یہ واضح نہیں‌کیا تھا کہ آیا سیاسی سرگرمیوں پر پابندی سے عوامی لیگ کے وہ رہنما جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے منتخب ارکان رہ سکیں گے یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ اپنی نشستیں کھو بیٹھتے تو پھر مشرقی پاکستان میں نئی اسمبلی کے قیام کے لیے نئے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہوجاتا۔ نشری خطاب میں آئینی پیچیدگی ککے حل کے سلسلے میں کئے جانے والے نئے اقدامات کے بارے میں کوئی واضح اشارہ نہیں دیا گیا تھا۔

107) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 20 نومبر 1971ء کو جب بھارت کے ساتھ جنگ شروع ہوئی ، تک کے عرصے کے دوران عوامی لیگ کے ساتھ کوئی سیاسی مذاکرات کا امکان آخر کیوں پیدا نہیں ہوسکا۔ 26 مارچ 1971ء کو ملٹری ایکشن کا آغاز ہوا اور قطع نظر اس امر کے یہ کتنا ضروری اور کتنے بڑے پیمانے پر تھا لیکن اس حقیقت کا ادارک کرنا چاہیے کہ محض ایک عارضی حل سے زائد کچھ نہیں تھا اور صرف کامیابی کی صورت میں ہی موثر قرار دیا جاسکتا تھا کہ اگر امن و امان بحال ہوجاتا اور قانون کی حکمرانی ہوتی اور اس دوران مسئلے کے سیاسی حل کے لیے مذکرات کاراستہ اختیار کیا جاتا تو جو اقتدار میں‌ تھے اگرچہ اسے آخری حل نہیں سمجھتے تھے لیکن اس بات کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ فوجی حکومت اسے واقعی ایک آخری حل سمجھ رہی تھی۔

108) جہاں تک بدامنی اور تشدد وغیرہ کا ذکر ہے تو ہمیں بتایا گیا ہے کہ ملٹری ایکشن بہت کامیاب اور نتیجہ خیز رہا اور خاص طور پر سنئیر آرمی افسران جن کے بیانات کے بارے میں کوئی شک و شبہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ بات سامنے آتی ہے کہ فوجی کاروائی کے باعث جون تک صورتحال خاصی بہتر ہوگئی تھی بلکہ توقعات کے مطابق بہتر ہوگئی تھی۔ بہر حال ملٹری ایکشن کا مقصد سیاسی صورتحال میں استحکام پیدا کرنے کی خاطر کوئی کاروائی تھی تو پھر شاید یہی انتہائی مناسب اور موزوں وقت تھا کہ جب سیاسی مذاکرت کا راستہ اختیار کیا جاتا اور مسئلے کے سیاسی حل کے لیے کوششوں کا آغاز کیا جاتا۔ 28 جون 1971ء کو اپنے قومی نشری خطاب میں جنرل یحٰیی خان نے ایک بار پھر مشرقی پاکستان کے حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پریشانی اور مایوسی کا موجب قرار دیا تھا۔
 
109) انہوں نے ایک بار بھی اس بات پر زور دیا کہ اس کے مقاصد میں جمہوریت کی بحالی اور ملک کے تمام حصوں کو مساوی انصاف کی فراہمی ہے اور اس مقصد کے لیے مشرقی پاکستان کے جائز مطالبات تسلیم کر لیے جانے چاہئیں۔ المختصر یہ کہ یحٰیی خان اور مجیب کے درمیان جو چیزیں واضح تھی لوگوں کی یاددہانی کے لیے وہ یہ تھیں کہ 26 مارچ کو اس نے اپنے مقاصد واضح اور صاف الفاظ میں‌بنان کر دیے تھے۔ وہ اقتدار کی منتقلی چاہتا تھا اس لیے یحٰیی خان نے واضح الفاظ میں یہ کہا کہ نئے انتخابات کا سوال پیدا نہیں ہوتا نیز اگرچہ عوامی لیگ پر سیاسی جماعت کی حیثیت سے پابندی عائد کی جاچکی ہے لیکن عوامی لیگ کے پلیٹ فارم سے منتخب قرار پانے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بدستور قومی و صوبائی اسبملی کے رکن رہیں‌گے اور انفرادی حیثیت سے اپنی استحقاقی حیثیت بھی برقرار رکھیں گے۔ یحٰیی خان نے کہا تمام اراکین ،اسمبلیوں کے رکن برقرار رہیں‌گے ماسوائے ان کے جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے یا پھر انہو‌ں نے کونسل ایکٹ کی صریحاً خلاف ورزی کی ، اس دوران یحٰیی خان نے ایسے تمام اراکین اسمبلی جو کہ لسانی پارٹیوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے، کہا کہ وہ آگے بڑھیں اور مشرقی پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کی تعمیر نو کریں ۔

110)ہم یہ بات بھی یہاں واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے اسکریننگ پہلے ہی کی جاچکی تھی جس کے نتیجے میں 88 ایم این اے کلئیر کر دئیے گئے تھے لیکن انہیں مشور دیا گیا کہ اس اراکین کے باوجود اسمبلی میں کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں کر سکتے ۔ ایک اندازے کےمطابق نیشنل اسمبلی میں عوامی لیگ کے اراکین پیپلز پارٹی سے بڑھ جائیں گے، تاہم وہ مکمل اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔ یہ سب کچھ ناممکن نہیں‌ تھا یکن ہمارے لیے کسی ایک سوچ پر پہنچنا مشکل ہے کہ واقعی ایسی صورتحال تھی۔ اسی تقریر کے دوران جنرل یحٰیی نے کہا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نیشنل اسمبلی دستور کی تدوین کا کام سرانجام نہیں دے سکتی اس لیے ان پر دباؤ ہے کہ وہ آئین خود مرتب کریں اس مقصد کے لیے آئین میں ترمیم بھی منظور کرنا پڑے گی۔

یحٰیی خان نے تمام پارٹیوں سے وعدہ کیا کہ جب ڈرافٹ تیار ہوجائے گا تو ان سے مشاورت ضرور لی جائے گئ یہ حیران کن بات تھی کہ جنرل نے لیگل فریم ورک آرڈر آئین خود دینے کا اعلان کیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ یہ سب سے زیادہ بھڑکیلا اور حساس مسئلہ ہے۔

111)وہ اس طرح ہر مسئلے پر ایک نئے معرکے یا مہم جوئی کی دعوت دے رہے تھے۔ ان حالات میں جبکہ مشرقی پاکستان مکمل طور پر عوامی لیگ کے ساتھ اظہار یکجہتی کا مظاہر کر چکا تھا اور ان حالات کی سنجیدگی کا اندازہ ہی نہیں کر سکے کہ ان کے اس نئے حکم سے درحقیقت وہ اپنے لیگل فریم ورک آرڈر کی ہی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ایک ماہ کے تاخیری حربوں یا تعطل میں تشددکے واقعات شروع ہوگئے تھے جس میں انہیں پاکستان اور پاکستانی افواج کے کئی بے گناہ افراد کی جان چلی گئی تھی یحٰیی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ پاکستان کے عوام میں آئین بنانے کی صلاحیت نہیں اور یہ صرف ان کی شخصیت ہے جو کہ انہیں نیا آئین دے سکتی ہے یہ وقت نہیں کہ ان کے اس تصور پر طبع آزمائی کی جائے۔ ہم صرف یہاں اس شخص کے سیاسی سوجھ بوجھ اور صلاحیت کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جب پاکستان کے عوام اس مشکل اور گھمبیر صورتحال میں تھے اس شخص نے اپنے آپ کو ملک کی زمام اقتدار سنبھالنے کے لیے سمجھا اور 1969ء کے بحران کے بعد اسے ایک سیاسی حکومت گردان۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ جون سے اگست 1971ء کے درمیان مصالحت اور نظرثانی کے لیے کتنا آئیڈیل وقت تھا اس وقت سیاسی تجزیہ نگار اور حکومت میں شامل لوگ یہ سمجھتے تھے کہ فوجی ایکشن صرف امن قائم کرنے تک صحیح تھا اور اب مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکل آنا چاہیے۔ جنرل یحٰیی بھی یہی سوچ رکھتے تھے سیاسی مسائک کو کوئی نہیں سمجھ رہا تھا کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ سیاسی حل کیا ہے اور فوجی حل کیا ہے کیونکہ یہ کسی کی سمجھ میں نہیں‌ آرہا تھا کہ فوج کی قوت کو کیسے استعمال کیا جائے۔ خصوصاً ایک حکومت ، یہ یقینا کسی حکومت کے لیے نیا شگون نہیں تھا کہ وہ اپنے مشرقی پاکستان کے عوام کی جانب سے مذکرات کرتی کیونکہ یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ جنرل یحٰیی خان نے نئے انتخابات سے انکار کے بیانات کے باوجود کبھی عوامی لیگ کے ساتھ مذکرات کرنے میں سنجیدگی سے کوئی کوشش کی ہو۔ اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں کسی قابل قبول عوامی لیگ کے رکن کی عدم موجودگی کے باعث مذکرات کے آغاز میں سخت مشکل پیش آرہی تھی کیونکہ عوامی لیگ کے رہنماؤں کی اکثریت اس وقت بیرون ملک فرار ہوچکی تھی یا پھر سرحد عبور کرکے بھارت چلی گئی تھی۔ یہ رہنما بیرون ملک اپنے حقوق کے لیے عالمی رائے عامہ کو ہمنوا بنانے میں مصروف عمل تھے۔ ویسے بھی شیخ مجیب اور ڈاکٹر کمال حسین کے سوا عوامی لیگ کے بیشتر سرکردہ رہنما بھارت جا چکے تھے۔ بہرحال یہ بات خاصی نامناسب اور ناقبول ہے کہ ملک میں کوئی سرکردہ رہنما موجود نہیں تھا۔ شیخ مجیب بذات خود قید میں‌ تھا اور جنرل یحٰیی خان کی صوابدید پر تھا کہ ممکنہ حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیخ مجیب کو جنرل یحٰیی کے ساتھ مذکرات کرنے کو کہا جاسکتا تھا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شیخ مجیب مذکرات سے صاف انکار کر دیتا لیکن ہمیں محض ان نتائج کی توقع نہیں کرنی چاہیے تھی یہاں اس بات کا امکان بھی پایا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے حالات اور افسوسناک صورتحال کے باعث اپنے دیگر ساتھیوں کی عدم موجودگی اور ان کے دباؤ‌ سے آزاد ہونے کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں بھاری اکثریت سے منتخب ہونے اور سارے پاکستان میں اقتدار کے حصول کی موجودگی اور ان کے دباؤ سے آزاد ہونے کی وجہ سے مشرقی پاکستان سے بھاری اکثریت سے منتخب ہونے اور سارے پاکستان میں اقتدار کے حصول کی خواہش کی خاطر شیخ مجیب الرحمن شاید نرم اور متعدل رویہ اختیار کرتا لیکن ہم یہ واضح کرتے چلیں‌کہ شیخ مجیب کے ساتھ مذکرات کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
 
112)یہاں پر ہم باوثوق طور پر یہ کہیں گے کہ جنرل یحٰیی کو باہر کے ملکوں بالخصوص دوست ممالک سے مذکرات شروع کرنے کے لیے مشورے موصول ہورہے تھے۔ یہ دوست ممالک جنرل یحٰیی کو صورتحال کی سنگینی اور ہر حال میں کسی نہ کسی طور پر صورتحال کے سیاسی حل کی اہمیت کا برابر احساس دلا رہے تھے کہ خواہ جیسے بھی ہو، شیخ مجیب سے بات چیت ضرور کی جائے۔ اگرچہ جنرل یحٰیی ان بااثر اور دوست غیر ملکی شخصیات کو سیاسی حل پر آمادگی اور رضامندی کا یقین دلا رہا تھا لیکن بہرحال ایک نکتے پر وہ بہت بضد تھا اور وہ یہ کہ شیخ مجیب سے کوئی بات نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے برعکس شیخ مجیب کو غداری کے الزامات پر ملٹری ٹریبونل کے حوالے کیا گیا۔ ہم یہاں ایک لمحے کے لیے یہ فیصلہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہے کہ آیا قانون کے مطابق شیخ مجیب غداری کا مرتکب ہوا تھا یا نہیں، اگرچہ ہم سب جج ہیں اور جرم کی قانونی حیثیت کے بارے میں بڑے حساس ہیں لیکن بالخصوص غداری جیسا جرم بہرحال کسی سیاسی بحران کے حل کے لیے بے معنی حیثیت رکھتا ہے جو کہ اس وقت ملک کو درپیش تھا۔ ہم نے کسی صوبے کا میں‌ ثبوت یا شواہد کے بارے میں استفسار نہیں کیا جس کی تحقیق اور اس پر غور سے ہی بہرحال ہم مناسب طور پر انصاف کرسکیں گے۔ لیکن آخر اس مقدمے کا مقصد کیا تھا کیا اس کا مقصد شیخ مجیب الرحمن کو اس معمول کے طریقے کے مطابق سزا دینا تھا جس کے ذریعے قانون تمام جرائم میں اپنا راستہ ختم کرتا ہے یا دنیا اور پاکستانی عوامی کے سامنے یہ ثابت کرنا تھا کہ مجیب الرھمن نہ صرف سیاسی غلطیوں کے مرتکب تھے بلکہ وہ سنگین اور قوم دشمن جرائم میں بھی ملوث تھے؟ اگر اس کا یہ مقصد تھا تو اس مقصد کو ایک ملٹری کورٹ کے سامنے اور وہ بھی بند کمرے میں چلا کر بمشکل حاصل کیا جاسکا اور جس کی کاروائی کے بارے میں عوام کو ذرہ برابر بھی پتہ نہ چل سکا۔ ہم اس کامقابلہ مجیب الرحمن کے خلاف اگرتلہ سازش کیس کے مقدمے سے کرتے ہیں جس کی صدارت پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے تین ججوں نے کی اور جس کی پریس میں زبردست تشہیر بھی کی گئی۔ اس کے مقابلے میں‌یہاں عوام اس بات سے بے خبر تھے کہ مقدمہ کب شروع ہوا اور کہاں‌چلایا گیا اور کب ختم ہوا۔ اس حقیقت کی بڑی تشہیر کی گئی کہ مجیب الرحمن کو اپنے دفاع کے لیے اپنی مرضی کا ممتاز وکیل حکومت کے اخراجات پر کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ۔ لیکن ہمارے سامنے جو شہادت ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شروع میں اگرچہ مقدمے کی سماعت کے دوران مجیب الرحمن نے کاروائی میں حصہ لیا ۔ لیکن بعد میں‌ جب انہیں معلوم ہوا کہ جنرل یحٰیی نے 26 مارچ 1971ء کو قوم سے نشری خطاب میں کھلم کھلا انہیں غدار قرار دیا تھا اور اعلان کیا کہ انہیں (مجیب الرحمن) جرم پر کڑی سزا دی جائے گی۔ انہوں نے اپنے آپ کومقدمے کی کاروائی میں شرکت سے الگ کر لیا۔ اس ٹریبونل کے پریذائیڈنگ افسر نے ہمارے سامنے گواہی کے دوران بتایا کہ اگرچہ فوجی عدالتوں کی روایت یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کے لیے وجوہ بھی تحریر کریں ۔ اس خاص مقدمے میں جنرل یحٰیی کی خصوصی ہدایت رپر ایک تفصیلی فیصلہ تیار کیا گیا تھا جس میں وجوہ موجود تھیں۔ اگرچہ اس فیصلے کا کبھی اعلان نہیں کیاگیا۔
 
113) مشرقی پاکستان کے لیڈروں کے ساتھ مذکرات کے دوسرے امکانات بھی تھے۔ مثال کے طور پر عوامی لیگیوں کے ساتھ ہمارے بیرون ملک سفارت خانوں میں سے ایک کے ذریعے رابطے قائم کیے گئے لیکن اس ملاقات کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ اور ہم اس تاثر میں رہے کہ یہاں حکومت کی طرف سے ایسے مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے کسی گہری دلچسپی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ ہمیں اس امکان کے بارے میں بتایا گیا جس سے بھارت کے ساتھ بھی براہ راست مذاکرات کا عندیہ ملتاتھا۔ جس کا مشرقی پاکستان میں بغاوت میں ہاتھ بھی ہو سکتا تھا اور جسے اس وقت چھپانے کے بارے میں مشکل سے ہی تسلیم کیا جاسکتا ہے اور جس کے مستقبل میں کھل کر مداخلت کرنے کے بارے میں واضح طور پر معلوم تھا۔ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں حکومت پاکستان کے ایک سیکرٹری اس پاکستانی وفد کے سربراہ تھے۔ جس نے بھارتی وفد سے ملاقات کی۔ بھارتی وفد کی سربراہی کابینہ کے ایک وزیر کر رہے تھے۔ دونوں وفود کے عہدوں میں واضح فرق نظر آیا ۔ بھارتی وزیر نے سیکرٹری سے رابطہ کرکے بتایا کہ بھارت مختلف معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ وطن واپس آکر سیکرٹری نے صدر یحیٰی خان سے ملاقات کی کوشش کی کیونکہ پیغام پہنچانا ان کی ذمہ داری تھی اور اس وقت حکومت کی صورتحال یہ تھی کہ سیکرٹری صاحب کی صدر کے ساتھ براہ راست کوئی رسائی نہ تھی۔ تاہم ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ایسی حکومت جس میں کوئی وزیر موجود نہ ہو تو سیکرٹری صاحب کو وزارت کے سربراہ کی حیچیت سے صدر مملک تک رسائی میں کوئی مشکل پیش آنی نہیں چاہیے تھی۔ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ انہیں ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود اپنے انٹرویو کے لیے اجازت مل سکی یا نہیں۔ جو کہ بہرحال بعد نہیں مل سکی۔ انہوں نے کافی کوششوں اور وقت کے زیاں کے بعد جنرل پیرزادہ کے پرنسپل اسٹاف افسر سے ملاقات میں کامیابی حاصل کر لی لیکن حکومت معاملات کو سلجھانے میں ناکام رہی۔ ہم یہاں یہ تجویز نہیں کر رہے کہ سیکرٹری کا لایا ہوا پیغام واقعی نتیجہ خیز ثابت ہوتا اور اس میں ناکامی بھارت کا رویہ تبدیل کرنے کی اہم وجہ بن جاتی جس کا بعد میں بھارت کی جانب سے مظاہرہ کیا گیا ۔ ہم یہاں پر یہ تجویز بھی نہیں کرتے کہ عوامی لیگ کے رہنماؤں یا شیخ مجیب کے ساتھ مذکرات میں اس دوران میں صدر پاکستان نے یہ اعلان کیا کہ وہ نشستیں جو خالی ہوئی ہیں مشرقی پاکستان کے قومی اسمبلی کے ممبران نہ ہونے کی وجہ سے یا ممبران صحیح معنوں میں اس کے مستحق نہ تھے تو یہ نظریہ تسلیم شدہ رائے میں ایک قسم کا دھوکا تھا۔ یہ سوچا جارہا تھا کہ انتخاب کی کاروائی مشکل ثابت ہوگی جب تک کہ مختلف جماعتیں نشستوں‌ پر تقسیم میں کوئی طریقہ کار نہ بنائیں اور نشستں کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ منتخب شدہ امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو۔ ایسے انتظام کو باوقار بنانے کی کوشش محض ایک حماقت معلوم ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں آپس میں کوئی اتفاق نہیں کر سکیں اور اس سلسلے میں جنرل فرمان علی نے جماعتوں کے درمیان ایک سازشی کردار ادا کیا اور صحیح معنوں میں انہوں نے ہی امیدواروں کا انتخاب کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکش کے سلسلے میں کوئی کام شروع نہیں ہو سکا۔ اور 28 جون کی تقریر تاریخ کا ایک حادثہ معلوم ہوتا ہے۔ عوام کی ضرورتوں کے مدنظر میں یہ سمجھتا ہوں کہ (بائی الیکشن کی کاروائی فریم ورک آرڈر) کے اصولوں پر مبنی ہوگی۔ کوئی بھی اس قسم کے خیالات کا حامی نہیں ہوسکتا جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہو۔ میرے خیال میں الیکشن کی تیاریاں ایک مختصر عرصے کے اندر انجام پائیں گی۔ عام انتخابات سے پہلے جس قسم کے جذبات کا اظہار کیا گیا۔ وہ ملک کی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔ جنرل یحیٰی نے کم و بیش ایک سال کا موقع اس الیکشن کی تیاری کے سلسلے میں فراہم کیا۔ جنرل یحیٰی نے ایسے خیالات کو برداشت کرنے کے حق میں کچھ بھی نہیں کیا جو ملک کی سالمیت کے خلاف تھے یا جو ایل ایف او کے اصولوں سے انحراف تھا۔

جن جماعتوں کے امیدواران مخصوص ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوگئے تھے خود ان کے لیڈروں نے ہمارے سامنے بیان دیا کہ یہ الیکشن کلی طور پر شرمناک تھے۔ بعد میں‌ہمیں ان افراد کے بارے میں‌ بتایا کہ جو ان انتخابات میں کامیاب ہوگئے تھے اور جو یہ تک نہیں جانتے تھے کہ وہ امیدوار بھی ہیں جو لوگ اسے منتخب ہوئے ہوں ان کے بارے میں یہ سمجھنا کہ انہیں عوام کا اعتماد حاصل ہے اوروہ ان کی جانب سے مذکرات کرنے کی پوزیشن میں ہیں ایک خالی امید کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے ہم اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے مجبور ہیں کہ فوجی ایکشن کے بعد سیاسی حل کی تلاش کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی اور اس شک کو مزید گہرا کرنے کی بھی وجوہ ہے کہ آیا ایسا کوئی مقصد بھی نہیں تھا۔

یہ کہنا باقی ہے کہ جون 1971ء کی نشری تقریر نے اس امر کے بارے میں کسی وقت کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی کہ اس منصوبے پر عمل درآمد کب سے ہوگا۔ تاہم اس بات پر زور دیا تھا کہ حکومت اقتدار کی منتقلی کے بارے میں سوچنے سے پہلے یہ چاہتی ہے کہ ملک میں حالات معقول حد تک معمول پر آجائیں جو کچھ کہا گیا وہ یہ تھا کہ اقتدار جتنی جلد ممکن ہو ان کو منتقل کیا جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق چار مہینے کی مدت کی نشاہدہی کی گئی تھی اگرچہ صحیح وقت کا انحصار اس وقت کی داخلی اور خارجی صورتحال پر تھا۔
 
ضمیمہ اے

تقریر یحیٰی خان

میرے پیارے ہم وطنو میں نے پچھلی بار آپ سے 28 جون کو خطاب کیا تھا اس وقت سے اب تک ملک کے مختلف شعبوں میں متعدد نئے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور میری حکومت نے متعدد خاص اقدامات بھی اٹھائے ہیں تاکہ ملک کو ان بڑے مقاصد کی طرف آگے بڑھایا جائے جن کی میں نے اس نشری تقریر میں نشاندہی کی تھی اس وقت ملک کو بعض سنگین مسائل کا سامنا ہے اور مرکزی و صوبائی حکومتوں کے متعلقہ شعبہ جات، ان مسائل کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سیاسی اور آئینی مسائل سے قطع نظر سب سے زیادہ تشویشناک بات میرے نزدیک یہ ہے کہ جو کم آمدنی والے طبقات کو زیادہ متاثر کرتی ہے وہ ہے ہوشربا مہنگائی اور گرانی! بنیادی ضرورت کی اشیاء مہنگے داموں فروخت ہورہی ہیں اور یہ نتیجہ ہے کہ اس معاشی اور اقتصادی صورتحال کا جو موجودہ حکومت کو ورثے میں ملی ہے۔ مختصراً میں ان اقدامات کا ذکر کروں گا جو موجودہ حکومت اس اہم مسئلے سے نمٹنے کے لیے کر رہی ہے! جہاں تک مشرقی پاکستان میں اناج کی قیمتوں کا سوال ہے یہ بڑے سنگین دباؤ کا شکار رہی ہیں۔ مشرقی پاکستان میں ستر لاکھ ٹن اناج کی کمی ہے جس کا ناگزیر اثر اس کی قیمتوں پر پڑ رہا ہے۔ تاہم حکومت اس کمی پر قابو پانے کی ہرممکن کوشش کر رہی ہے۔ پانچ لاکھ ٹن گندم اور چاول مغربی پاکستان سے روانہ کیا جارہا ہے اور تقریبا دس لاکھ ٹن گندم امدادی پروگرام پی ایل 430 کے تحت فوری طور پر امریکا سے درآمد کرنے کا بندوبست کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ تین لاکھ پچاس ہزار ٹن گندم اور چاول ، مختلف پروگراموں کے تحت، برما ، جاپان ، مغربی جرمنی، کینڈا، فرانس سے درآمد کرنے کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں اناج کی قمیتوں‌ خاصی حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ دونوں صوبوں میں کھانے کے تیل کی مقدار میں‌ اضافے کے لیے بھی ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ہم قیمتوں کی صورتحال کا برابر جائزہ لیتے رہیں گے۔ یہ معاشی مسائل، اس سنگین چیلنج کا ایک حصہ ہیں جو غربت اور جہالت کے خاتمے کے لیے اس حکومت کو درپیش ہے۔ ہماری ضروریات ہر شعبے اور سمت میں برابر بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ ہماری آبادی میں ہر سال چالیس لاکھ نفوس کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے شہری علاقوں میں بھی مسلسل توسیع ہوتی جارہی ہے۔ عوامی سہولتوں اور سماجی خدمات کے شعبوں پر بھی خاصا دباؤ ہے چنانچہ محدود وسائل کے باوجود ہمیں ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے عوام کی زندگی کو بامعنی بنانا ہے اور ان کے حالات زندگی کو مزید بہتر بنانا ہے جس کے لیے ایک طے شدہ اور منطم قومی جدوجہد کی ضرورت ہوگی جس دوسرے موضوع پر میں بات کرنا چاہتا ہوں وہ سرکاری اداروں میں پایا جانے والا کرپشن اور بدعنوانی ہے! حکومت کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات سے سرکاری افسران میں سنگین نوعیت کی بدعنوانیوں، سرکاری حیثیت کے ناجائز استعمال اور بدکرداری کے ثبوت ملے ہیں۔ ان تمام افسران اور اہلکاروں کے خلاف الزامات کا بغور جائزہ لینے کے بعد مارشل لا کے تحت ضروری تادیبی اقدامات کیے جائیں گے۔ مجھے امید ہے کہ اس سے دیگر متعلقہ لوگوں کو عبرت حاصل ہوگی۔ افسران کو چاہیے کہ وہ دل و جان سے اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کرتے رہیں۔ میں‌اس سے پیشتر بھی اس امر کی جانب اشارہ کر چکا ہوں‌ کہ میں ایک اعلٰی اختیاراتی کمیٹی تشکیل دوں گا جو ملک میں سول سروسز کے ڈھانچے کی ازسرنو تنظیم کرے گی۔ آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ ایسی کیمٹی کا قیام عمل میں آچکا ہے ۔ جس کی تمام تر تفصیلات اور دائرہ کار کے بارے میں دیگر معلومات پریس کو جاری کی جاچکی ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ اس طرح ملک کو ایک صاف ستھری اور مؤثر انتظامیہ میسر آسکے گی جیسا کہ آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ مرکز میں وزراء کونسل کے قیام اور صوبوں میں گورنروں کے تقرر کے بعد مارشل لا کا کوئی تعلق روزمرہ کے سوال انتظامی معاملات سے باقی نہیں رہا۔ تاہم یہ انتظامیہ کی نہ صرف یہ کہ حمایت کرتا رہے گا بلکہ ضرورت پڑی تو ضروری مدد اور تعاون بھی فراہم کرے گا۔ آپ میں سے بہت سوں کے لیے مارشل لا کا اس طرح پس منظر میں چلے جانا مایوسی کاباعث ہوگا تاہم میرا بنیادی مقصد چونکہ ہمیشہ سے سول حکومت کی بحالی رہا ہے اس لیے میں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اب محنت ، تعلیم اور زرعی اصلاحات کے بارے میں کچھ باتیں! آجر اور مزدور کے تعلقات کے حوالے سے ایک نیا آرڈیننس جاری کر دیا گیا ہے جس کی رو سے اجتماعی سودے کاری کو بحال کر دیا گیا ہے جسے مزدور اور آجر صنعتی پیداوار کے بہترین مفادات میں استعمال کریں گے۔ میں دونوں فریقین پر زور دوں گا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس آرڈیننس کو باہمی مفاد کے ساتھ ساتھ قومی مفاد کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ جہاں تک تعلیمی اصلاحات کا تعلق ہے میں آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ بہت جلد وزراء کونسل اس سلسلے میں اپنی حتمی فیصلے کا اعلان کر دے گی۔ اب میں‌ان سیاسی اور آئینی مسائل کی طرف آتا ہوں جو اس ملک کو درپیش ہیں۔اپنے آخری خطاب میں ، میں نے یہ امید ظاہر کی تھی کہ ملک کے سیاسی مستقبل کے آئین کودرپیش چند بڑے مسائل پر اتفاق رائے کا مظاہرہ کریں گے تاہم مجھے یہ کہتے ہوئے بے حد افسوس ہورہا ہے کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ ہمیں ان کی دشواریوں اور مجبوریوں کا پورا احساس ہے۔ اور میں نے انفرادی طور پر ان سیاسی لیڈروں سے مذاکرات بھی کیے ہیں تاکہ آئین کو درپیش مسائل حل کیے جاسکیں۔ لیکن اس کےباوجود آئین سازی کے معاملے پر کوئی اتفاق رائے قائم نہیں کر سکے تاہم میں اس سلسلے میں ان سب کے خیالات اور نظریات سے بخوبی آگاہ ہو چکا ہوں۔ اس ملک کی انتظامی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد سے میری بنیادی مطمح نظر یہ رہا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کر دیا جائے لیکن یہ مقصد ایک لیگل فریم ورک کے بگیر نہیں ہوسکتا۔ جو فی الوقت ہمارے پاس موجود نہیں‌ہے۔ اس لیے اس مسئلے پر خاص غور خوص کیا ہے اور چار ایسے امکانی متبادل ہیں ، جن کی بنیاد پر لیگل فریم ورک تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ جس کے تحت عام انتخابات کرائے جاسکتے ہیں۔ پہلا متبادل طریقہ یہ ہے کہ ایک منتخب شدہ آئینی کنونشن کے ذریعے نئے آئین کی تشکیل کرنے کے بعد اسے کنونشن کو تحلیل کر دیا جائے۔ دوسرا متبادل یہ ہے کہ 1956ء کے آئین پر نظر ثانی کی جائے لیکن اس طریقے کی کہ ملک کے دونوں‌صوبوں میں بڑے پیمانے پر مخالفت موجود ہے کیونکہ اب اس آئین کے کچھ نکات مثلا ون یونٹ اور پیرسٹی (مساوات) عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہیں! تیسرا متبادل یہ ہے کہ آئین تشکیل کرنے کے بعد پورے ملک میں ریفرنڈم کرایا جائے۔ چوتھا اور آخری متبادل یہ ہے کہ متعدد سیاسی لیڈروں اور جماعتوں سے باہمی مشاورت کے بعد قومی انتخابات کے لیے ایک لیگل فریم ورک وضع کیا جائے جو عارضی نوعیت کا حامل ہو۔
 
میں نے محتاط انداز سے غور و فکر کرنے کے بعد اس چوتھے متبادل کو اختیار کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے لیے لیگل فریم ورک وضع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ جیسا کہ میں جولائی میں اپنے خطاب میں‌ تذکرہ کر چکا تھا۔ اس طرح مجھ پر یہ عیاں ہوگیا کہ ایک قوم کی حیثیت سے آئینی میدان میں‌ ہمیں جن تین اہم مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں پہلا مسئلہ ون یونٹ کا سوال، دوسرا مسئلہ ایک آدمی ایک ووٹ بمقابلہ پیرسٹی اور تیسرا مسئلہ مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات کا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے ملک میں ہونے والے آئینی مباحث سے میں یہ بات سمجھ سکتا تھا کہ ان آئینی مسائل میں سے پہلے دو مسائل کو عام انتخابات سے قبل حل کیاجانا ضروری ہے کیونکہ ان کا تعلق انتخابات کی اساس اورقومی اسمبلی کی تشکیل سے ہے۔

جہاں تک دیگر آئینی مسائل جیسا کہ پارلیمانی، وفاقی طرز حکومت ، براہ راست بالغ رائے دہی ، شہریوں کے بنیادی حقوق اور عدالتوں کے ذریعے ان کا نفاذ، عدلیہ کی آزادی اور آئین کےمحافظ کے طور پر اس کا کردار اور آئین کا اسلامی کردار جس سے وہ آئیڈیا لوجی محفوظ ہونی چاہیے جس سے پاکستان تخلیق پایا۔ ان امور پر کوئی عدم اتفاق نہیں اور تصفیے کے لیے ان پر غور ہو سکتا ہے۔

تین بنیادی مسائل سے متعلق جن کا میں نے حوالہ دیا آرا منقسم تھیں۔ میں نے اپنے گزشتہ خطاب میں یہ واضح کردیا تھا کہ یہ کسی طور الیکشن ایشوز نہیں ہوں گے۔ مجھے جان کر خوشی ہوئی کہ ان مسائل کے حوالے سے اختلافات کم ہونا شروع ہوگئے ہیں جو ایک اچھی علامت ہے۔

اگرچہ رسمی آل پارٹی میٹنگز نہیں ہوئی لیکن بیشتر سیاسی جماعتیں پارٹی اجلاس اور پریس دونوں کو دیئے گئے بیانات کے ذریعے اب اپنی سوچ میں‌ میں ان مسائل کے بہت قریب آگئی ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں کے دوروں کے دروان بھی مجھ پر یہ بات واضح ہوئی کہ ان مسائل پر مختلف طبقات اورلوگوں کے گروپوں کے درمیاں بمشکل ہی کوئی اختلاف ہوگا جس سے میرے ابتدائی ردعمل کو مزید تقویت حاصل ہوئی کہ یہ امور انتخابی ایشوز ہونے چاہئیں۔ کیونکہ گفتگو کے قدرتی عمل اور سنجیدہ فکر کے ذریعے ہم ان مسائل کے حل کے سلسلے میں بہت قریب تھے اور اگر انتخابات کے دور میں ان مسائل کو دوبارہ اٹھایا گیا تو یہ بڑےنقصان کا سبب ہوگا۔ ان مسائل سے جذباتی بنیادوں پر غیر ضروری تلخیاں پیداہونے کا خطرہ ہے اور یہ پرامن منتقلی اقتدار میں تاخیر کا سبب ہوسکتا ہے۔ میں اب اس کا خلاصہ پیش کروں گا۔ جسے میں ان تین اہم مسائل پر عمومی طور پر قابل قبول خیالات تصور کرتا تھا۔

ون یونٹ کے سوال پر یہ عمومی خواہش سامنے آئی کہ پورے مغربی پاکستان کے لیے ون یونٹ کے موجود انتظام کے بجائے علیحدہ صوبوں کا انظام واپس لایا جائے۔

ایک آدمی ایک ووٹ کے سوال پر بھی ملک کے طول و عرض میں یہ بات تسلیم کی جارہی تھی کہ کسی بھی جمہوری طرز حکومت کے لیے یہ بنیادی ضرورت ہے اور ایسا نہ صرف مشرقی بلکہ مغربی حصے میں بھی ہونا چاہیے ۔ عام طور پر یہ تسلیم کیا جارہا تھا کہ ہمیں اپنی نمائندگی کے لیے اس طرز ووٹنگ کو بنیاد بنانا چاہیے۔

جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ون یونٹ کا مسئلہ اور نمائندگی کا نظام طے ہو جائے تو انتخابات کا انعقاد ہوسکتا ہے اور ملک کے آئین کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک مشینری قائم ہو سکتی ہے اس لیے میں نے حسب ذیل خطوط پر ان دو مسائل کو حل کرنے کا فیصلہ کیا۔

ون یونٹ ختم کر دیا جائے گا اور علیحدہ و صوبے قائم کیے جائیں گے میں یہاں اس بات کا اضافہ بھی کروں گا کہ ون یونٹ کو ایگزیکٹو آرڈرز کے تحت تخلیق کیا گیا تھا ۔ جس کی منظوری صوبائی قانون ساز اداروں اور دوسری مجلس قانون ساز نے بھی دی تھی۔ 1957ء میں مغربی پاکستان کے قانون ساز ادارے نے ون یونٹ کے خاتمے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اگر 1958ء میں مارشل لا نافذ نہ ہوتا تو ممکن ہے کہ ون یونٹ کا خاتمہ بہت پہلے ہو چکا ہوتا ۔ میں آپ کو یہاں یہ یاد دلانا پسند کروں گا کہ جب پاکستان قائم ہوا تھا تو یہ ون یونٹ کی بنیاد پر نہیں بنا تھا بلکہ یہ مغربی حصے کے مختلف صوبوں کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔

مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں کے عوام تقریباً متفقہ طور پر ون یونٹ توڑنے کا مطالبہ کر رہے تھے اس لیے میرے فیصلے کی بنیاد عوامی خواہش ہے۔

اسی طرح عوام کی امنگوں کا احترام کرتے ہوئے میں نے ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول کو تسلیم کر لیا اور یہ جمہوری اصول مستقبل کی قومی اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات کی بنیاد ہوگا۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات سے متعلق میرے جولائی کے نشریاتی خطاب کو یاد کریں۔ میں نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ مشرقی پاکستان کے عوام کو بڑے قومی مسائل پر فیصلہ سازی کے معل میں بھرپور نمائندگی حاصل نہیں۔

پھر میں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ریاستی امور پر غیر مطمئن ہونے میں‌ حق بجانب ہیں۔ اس لیے ہمیں اس پوزیشن کو ختم کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہوگی کہ ملک کی سلامتی اور قومی اتحاد کو نقصان پہنچے بغیر پاکستان کے دونوں حصوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختیاری دی جائے۔

مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات کاایک اہم پہلو آج پاکستان کا مالیاتی اور اقتصادی شعبہ ہے۔ فیڈریشن کا مفہوم نہ صرف قانون ساز اختیارات کی تقسیم بلکہ مالیاتی اختیارات کی تقسیم بھی ہوتا ہے۔ اس مسئلے سے اس انداز سے نمٹا جائے گا کہ ان صوبوں کی ضروریات اور مطالبات کے ساتھ مجموعی طور پر پوری قوم کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

پاکستان کے دونوں‌ حصوں کے عوام کو اپنے اقتصادی ذرائع اور ڈویلپنٹ پر اس وقت تک کنٹرول ہونا چاہیے جب تک وہ مرکز میں قومی حکومت کی کارکردگی کو متاثر نہیں کرتے ۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ تاریخ، ثقافت اور روحانی ورثے کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔

اس لیے اس کی کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں پاکستان میں صوبوں اور مرکز کے درمیان اطمینان بخش تعلقات کار کے لیے کام کرنے کے قابل کیوں نہیں‌ ہونا چاہیے۔

اب میں آپ کو اس ٹائم ٹیبل کی تفصیلات سے آگاہ کرنا پسند کروں گا جس پر ہمیں عوام کے منتخب نمائندوں کو اختیارات منتقل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پہلے یہ کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے عبوری لیگل فریم ورک 31 مارچ 1970ء تک تیار ہوجانا چاہیے۔ اگلی بات یہ کہ چیف الیکشن کمشنر پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ انتخابی فہرستیں‌ جون 1970ء تک تیار ہوجائیں گے۔

انتخابی فہرستوں کی تیاری کے ساتھ ہی الیکشن کمشنر لیگل فریم ورک کی دفعات کے مطابق مرکزی اور صوبائی انتخابات کے لیے دونوں کی حلقہ بندی کے تعین میں مصروف ہوجائےگا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں حلقہ بندی کے تعین کے کام کے اعتراضات کی سماعت کےبعد ہی حتمی شکل دی جائے گی بشرطیکہ لوگوں کی طرف سے اعتراضات آئیں۔ اس لیے اس مقصد کے لیے بھی کچھ وقت دینا ہوگا۔

مزید براں مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں حصوں میں انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں یکم جون سے ستمبر کے اختتام تک موسمی مشکلات بھی ہوں گے۔ اس لیے میں نے ملک میں 5 اکتوبر 1970ء کو عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی انتخابات اس وقت کرائے جائیں گے جب قومی اسمبلی اپنے ہدف آئین کی تیاری کے کام کو مکمل کر لے گی۔ قومی اسمبلی کو اپنے پہلے اجلاس کے بعد سے اپنا یہ کام 120 دن میں مکمل کرنا ہوگا۔ مجھے خوشی ہوگی کہ اگر قومی اسمبلی یہ مخصوص مدت گزرنے سے پہلے اپنے کام کو حتمی شکل دے سکے۔ اگر اس مخصوص مدت کے اختتام تک اسمبلی یہ کام مکمل نہیں کر سکی تو قومی اسمبلی کو توڑ دیا جائے گا اور قوم کو ایک بار پھر انتخابات کے لیے جانا ہوگا۔ میں‌ امید کرتا ہوں اور دعا کرتاہوں کہ یہ سب کچھ وقوع پذیر نہ ہو۔ اس لیے میں مستقبل کے منتخب نمائندوں پر زور دوں گا کہ وہ اس مقصد کا بھرپور احساس ذمہ داری اور حب الوطنی کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیں۔

جہاں تک قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے طریقہ کار کا تعلق ہے تو اس بات کو سراہا جانا ضروری ہے کہ اسمبلی بنیادی آئینی مسائل طے کرے گی۔ آئین مقدس دستاویز ہے اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنے کا معاہدہ ہے۔ اس کا کسی عام قانون کے ساتھ موازنہ نہیں ہوسکتا اس لیے یہ ضروی ہے کہ ووٹنگ کا طریقہ کار اسبملی خود وضع کرے جو پاکستان کے تمام علاقوں کے نمائندوں کے لیے منصفانہ اور صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ جب اسمبلی اپنا یہ کام پورا کرلے اور اس کا تشکیل کردہ آئین ،منظور ہوجائے تو اسے پاکستانی آئین کی حیثیت دے دی جائے گی۔ تاکہ پرامن انتقال اقتدار کے پروگرام کو ضروری تائید اور حمایت فراہم کرتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار سونپ دیا جائے۔ میرے عزیز ہم وطنو! میں ایک مرتبہ پھر آپ سے کہوں گا کہ ہم اپنی ضروری تائید اور حمایت فراہم کرتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار سونپ دیا جائے۔ میرے عزیز ہم وطنو! میں ایک مرتبہ پھر آپ سے کہوں گا کہ ہم اپنی قومی زندگی کے انتہائی مشکل اور سنگین دور سے گزرہے ہیں چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اس حقیقت کا قرار واقعی ادراک کرتے ہوئے سنجیدہ ، بامقصد اور حب الوطنی پر مبنی رویے کا ثبوت دے۔ آئیے ہم سب مل کر اپنے ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ عہد کریں کہ ہم اپنی بساط بھر ، پوری کوشش کریں گے کہ قوم کو مضبوط اور خوشحال بنائیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے آپ کے سامنے ایک پروگرام رکھ دیا ہے جس کے بارے میں پوری دیانتداری اور خلوص کے ساتھ میرا یہ خیال ہے کہ ہمارے عوام اسے شرف قبولیت بخشیں گے کیونکہ یہ پروگرام پاکستان کے مفادات کے عین مطابق ہے۔ مجھے اپنے عوام پر کامل یقین اور اعتماد ہے مجھے اپنے ملک کی تقدیر بھی بھی پورا بھروسا ہے جو ایک نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا اور جس کے لیے دس لاکھ مسلمانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی تھی۔ تحریک پاکستان کی اصل بنیاد جمہوریت تھی اور میری مخلصانہ خواہش ہے کہ ہم ان جمہوری اصولوں کو کبھی فراموش نہ آخر میں ، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میرے دیئے ہوئے پروگرام کے مطابق یکم جنوری 1970ء سے پورے ملک میں سیاسی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال کر دی جائیں گی اور ان سرگرمیوں کو ممنوع قرار دینے والا مارشل لا ضابطہ منسوخ کر دیاجائے گا۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ میں جمہوریت کی بحالی میں کسی رکاوٹ کو قطعاً برداشت نہیں کروں گا۔ کوئی بھی فرد یا گروہ جو امن و امان کا مسلہ پیدا کرے گا یا تشدد آمیز حرکتوں میں ملوث پایا جائے گا۔ حکومت اس سے سختی کے ساتھ نمٹے تھی کیونکہ جمہوریت صبر و برداشت اور رواداری دیتی ہے نہ کہ تشدد اور جارحیت کا ، چنانچہ تمام سیاسی سرگرمیوں کو اخلاقی دائروں کے اندر رہنا ہوگا۔ جس کے سلسلے میں جلد ہی ہدایات جاری کردی جائیں گی۔ آیئے ہم سب آگے بڑھیں اور پر امن انتقال اقتدار کے اس عمل کو کامیاب بنائیں۔
 
ضمیمہ ب

اعلان

ہرگاہ کہ 25 مارچ 1969ء کے اعلان مارشل لا کے تحت تمام اختیارات میں نے یعنی جنرل آغا محمد یحیٰی خان ، (ہلال پاکستان۔ ہلال جرات) نے منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے کی غرض سے انتخاب منعقد کیے گئے تھے تاہم اس مقصد کے لیے ملک میں ایسی فضا قائم ہونا ضروری تھی جس کی مدد سے پاکستان کے لیے جلد از جلد ایک آئین تشکیل دیا جا سکے۔جس کے لیے مارشل لا اٹھایا جانا ضروری ہے۔ لہٰذا میں جنرل آغا محمد یحیٰی خان ، یہ اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان سے مارشل لا اٹھا لیا گیا ہے۔ اور 25 مارچ 1969ء کا یہ اعلان دونوں‌ صوبوں میں اس وقت سے فوری طور پر منسوخ تصور کیا جائے گا جب دونوں صوبائی گورنر اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھالیں‌گے اور کسی بھی صورت میں آج کے بعد سات یوم کے اندر اندر پورے ملک میں یہ اعلان منسوخ سمجھا جائے گا۔

1۔ یہ اعلان تمام سابقہ قوانین پر فوقیت رکھتا ہے چنانچہ یہ اعلان اور اس کے تحت دیئے جانے والے تمام احکامات دیگر قوانین میں موجود برعکس صورت حال کے باوجود اور نافذ العمل رہیں‌گے۔

2۔ تعریف۔ اس اعلان میں تاوقتیکہ موضوع اور سیاق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے الفاظ کی تعریف اور مفہوم یہ لیا جائے گا۔

(الف) “مرکز“ کا مطلب “جمہوریہ“

(ب) مرکزی حکومت کا مطلب ہے جمہوری کی انتظامی حکومت۔

(ج) “وفاق کے زیر انتظام علاقے“ اس سے مراد وہ علاقے لیے جائیں گے جو پراونس آف ویسٹ پاکستان (ڈس سولیوشن) آرڈر 1970ء میں بیان کیے گئے ہیں۔

(د) “شروعات کا دن“ اس کا مطلب ہے وہ دن جس سے یہ حکم نافذ العمل ہوگا۔

(ہ) عارضی مدت۔ اس کا مطلب ہے وہ مدت جو شروعات کے دن سے لے کر قومی اسمبلی کے تشکیل کردہ آئین کے نفاذ تک جاری رہے گی۔

(و) اسلام آباد دارالحکومتی علاقہ۔ اس کا مطلب ہے وہ علاقہ جو پراونس آف ویسٹ پاکستان (ڈس سولیوشن) آرڈر 1970ء میں بیان کیا گیا ہے۔

(ز) سابقہ آئین۔ اس کا مطلب ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1962ء

(ح) مارشل لا۔ اس کا مطلب ہے 25 مارچ 1969ء کے اعلان کے تحت نافذ کردہ مارشل لا۔

(ط) مارشل لا اتھارٹی ۔ اس سے مراد کوئی بھی شخص یا افراد کا گروہ یا کوئی عدالت ہوگا، جسے کسی بھی مارشل لا ضابطے یا مارشل لا آرڈر کے تحت عمل کا اختیار یا اختیار کے استعمال کا حق دیا گیا ہو۔

(ی) مارشل لا کا دور ۔ اس کا مطلب ہے 25 مارچ 1969ء سے شروع ہونے والا اور شروعات کے دن سے فوری پیشتر ختم ہونے والا دور۔

(ک) “قومی اسمبلی“ صدر کے حکم نمبر 2، 1970ء سے شروع ہونے والا اور شروعات کے دن سے فوری پیشتر ختم ہونے والا دور ۔

(ل) صدر۔ صدر کا مطلب ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان۔

(م) جمہوریہ ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان۔

(ن) شیڈول۔ اس کا مطلب ہے حکمنامے کا نظام الاوقات۔

(ش) “بنگلہ دیش کا صوبہ“ اس کا مطلب وہ علاقہ ہوگا جو شروعات کے دن سے فوری قبل ، صوبہ مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔

(ع) مغربی پاکستان کے صوبے۔ ان کا مطلب ہے وہ علاقے جو بالترتیب صوبہ پنجاب، صوبہ سندھ ، صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان کے ناموں‌سے شروعات کے دن سے قبل جانے جاتے تھے۔

(ق) صوبائی اسمبلی۔ اس کا مطلب ہے کسی صوبے کی اسمبلی۔

(ت) صوبائی حکومت۔ کسی صوبے کی انتظامی حکومت

(ق) صوبائی مجلس قانون ساز۔ کسی صوبے کی مجلس قانون ساز۔
 
4۔ اعلان مارشل لا کی منسوخی۔

25 مارچ 1949ء کے اعلان مارشل لا کی تنسیخ کے بعد مارشل لا اتھارٹی (بشمول تمام عدالتوں اور افراد کے جو اس کی رو سے اختیارات کے حامل تھے) کے وجود اور عمل کا خاتمہ ہوجائے گا۔


5۔ مارشل لا ضابطوں کی منسوخی اور موجودہ قوانین کا نافذ العمل ہونا۔

a.تمام مارشل لا ضابطے اور احکامات بشمول عارضی آئینی حکم کے منسوخ قرار دیئے جاتے ہیں۔

b.اعلان سے مشروط تمام موجودہ قوانین اس وقت تک نافذ العمل رہیں گے تاوقتیکہ انہیں مناسب قانون سازی کے ذریعے تبدیل یا منسوخ نہ کر دیا جائے۔

c.کسی بھی موجودہ قانون کی شقوں کو اس اعلان کی دفعات کے مطابق بنائے جانے کی غرض سے مرکزی قانون سازی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے صدر اور صوبائی گورنر کسی بھی ترمیم ، تبدیلی یا تنسیخ (جو بھی ضروری ہو) کے مجاز ہوں گے۔

d.کوئی عدالت یا ٹریبونل جسے موجودہ کسی بھی قانون کے نفاذ کا اختیار حاصل ہوگا۔ اس وقت تک کسی بھی ترمیم، تبدیلی کی مجاز نہیں ہوگی۔ تاوقتکہ وہ اس اعلان کی دفعات سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہ ہو۔

e.اس ارٹیکل میں ’’موجودہ قانون‘‘ سے مراد ہے کوئی بھی ایکٹ، آرڈیننس ، آرڈر ، اصول ، ضابطہ ، ضمنی قانون ، نوٹیفکیشن یا کوئی اور قانونی دستاویز جسے شروعات کے دن سے فوراً پیشتر پاکستان کے قانون کی تائید حاصل تھی جو ماورائے علاقہ بھی قابل نفاذ تھا۔


6۔ صدر کے اختیارات (عارضی مدت کے دوران)

(1) صدر ملک کا انتظامی سربراہ ہوگا اور اس اعلان کی دفعات کی رو سے وہ تمام اختیارات استعمال کرے گا اوروہ سارے کام انجام دے گا جس کا اسے سابقہ آئین یا موجودہ نافذ العمل قانون کے تحت پورا اختیار دیا گیا ہوگا۔ صدر اپنے اعمال اور فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں جسے بھی مناسب سمجھے اپنا مشیر مقرر کر سکتا ہے۔

2)۔ صدر مرکزی حکومت کے ان اختیارات کا استعمال کر سکے گا جو اس اعلان کی دفعات سے مشروط ہوں گے۔

(3) صدر کو قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے اختیارات حاصل نہیں ہوں گے۔

(4) عارضی مدت کے دوران صدر آرڈیننس کے نفاذ کی صورت میں قانون سازی کر سکتا ہے۔ جن کا تعلق ان امور اور معاملات سے ہو جو مرکزی قانون ساز اسمبلی کے دائرہ اختیار میں آتے ہوں۔

(5) صدر اپنے حکم کے ذریعے ایسی دفعات تشکیل کر سکتا ہے جنہیں وہ ضروری سمجھے تاکہ اس اعلان کے دفعات پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔

(6) صدر نئے انتظامی اقدامات یا دیگر انتظامات کر سکتا ہے تاکہ نئے آئینی نظام کو بروئے کار لایا جاسکے۔

(7) وہ افسران کا تقرر اور تبادلہ بھی کر سکتا ہے تاکہ ملکی امور اور صوبائی معاملات کو خوش اسلوبی کے ساتھ چلایا جاسکے۔

(8) صدر ایک “ نفاذ کونسل“ قائم کرے گا جو گیارہ اراکین پر مشتمل ہوگی جن میں سے چھ نمائندے بنگلہ دیش حکومت ، دو حکومت پنجاب اور تین بقایا تینوں صوبوں سے لیے جائیں گے تاکہ موثر اقدامات کرتے ہوئے ایسے تمام اقدامات بروئےکار لائے جاسکیں جو اس اعلان کی دفعات پرموثر عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوں۔



1۔ آرٹیکل 67 میں مجوزہ ترمیم

سابقہ آئین کے آرٹیکل 67 میں ترمیم کرتے ہوئے درج ذیل نعم البدل تجویز کیا جاتا ہے۔

67۔ (1) کسی شخص کو صوبے کا گورنر مقرر نہیں‌کیا جاسکے گا تاوقتکہ وہ منتخب قومی اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہ ہو۔


2۔ آرٹیکل 68 میں مجوزی ترمیم۔
 
68۔ سابقہ آئین کے آرٹیکل 68 میں ترمیم کرتے ہوئے درج ذیل نعم البدل تجویز کیا جاتا ہے،

اپنے عہدے کا چارج لینے سے پیشتر صوبہ بنگلہ دیش کے گورنر کو بنگلہ دیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے روبرو اور مغربی پاکستان کے چاروں صوبائی گورنروں کو متعلقہ صوبائی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے روبر اپنے عہدوں کا حلف اٹھانا ہوگا۔

آرٹیکل 70 میں ترمیم

سابق آئین کے آرٹیکل 70 کی جگہ مندرجہ ذیل آرٹیکل لے گا۔ (70 ، بنگلہ دیش اسٹیٹ کے لیے ایک مجلس قانون ساز ہوگی جسے اسٹیٹ لیجلیچر آف بنگلہ دیش کہا جائے گا اور پنجاب ، شمال مغربی صوبہ ، سندھ اور بلوچستان کی ہر اسٹیٹ کے لیے ایک مجلس قانون ساز ہوگی جسے اس اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز کہا جائے گا)۔

آرٹیکل 80 میں ترمیم

سابق آئین کے آرٹیکل 80 کی جگہ مندرجہ ذیل آرٹیکل جگہ لے گا “80 (1) ہر اسٹیٹ حکومت میں وزراء کی ایک کابینہ ہوگی جس کی سربراہی وزیراعلٰی کرے گا اس کے علاوہ ڈپٹی وزیر بھی ہوں گے جنہوں اس آرٹیکل میں دئیے گئے طریقے کے مطابق مقرر کیا جائے گا۔

2۔ ہر اسٹیٹ کے ایگزیکٹیو اختیارات اس آئین کے مطابق اس اسٹیٹ گورنمنٹ کی اتھارٹی کے ذریعے استعمال کیے جائیں گے۔ یہ اختیارات آئین اور قانون کے مطابق براہ راست یا متعلقہ حکومت کے ماتحت افسران کے ذریعے استعمال کیے جائیں گے۔

3۔ اسٹیٹ کی کابینہ اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز کو جوابدہ ہوگی۔

4۔(a) گورنر اسٹیٹ کی قانون ساز کے ایسے رکن کو وزیر اعلٰی مقرر کرے گا جسے مجلس قانون ساز کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہوگا۔

b. جب بھی کوئی رکن وزیراعلیٰ مقرر ہوتا ہے تو اسٹیٹ کی قانون ساز کا اگر اجلاس نہ ہو رہا ہو اسے تحلیل بھی نہیں کیا گیا ہے۔ تو اس اجلاس کو دو مہینے کی مدت کے اندر طلب کیاجائے گا۔


5۔ وزیر اعلی کے مشورے پر گورنر ، وزراء اور نائب وزراء کا تقرر کرے گا۔

6۔ اگر کوئی وزیر چھ ماہ تک مسلسل مجلس قانون ساز نہ رہا ہو تو اس مدت کے ختم ہونے پر وہ وزیر یا نائب وزیر نہیں رہےگا اوراسمبلی کے معطل نہ ہونے کت وہ دوبارہ بھی وزیر نہیں‌بن سکتا جب تک کہ وہ اس اسمبلی کا رکن منتخب ہوجائے۔

7۔ اس آرٹیکل کے ذریعے کابینہ کے اراکین اور نائب وزراء کو اس عرصے کے لیے اپنے عہدوں پر برقرار رہنے کا نااہل قرار نہیں دیا جائے گا جس دوران اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز معطل رہے گی اور نہ ہی اس دوران وزیر یا نائب وزیر کے تقرر کو روکا جاسکے گا۔

8۔ شک دور کرنے کے لیے واضح طور پر اعلان کیا جاتا ہے کہ گورنر اپنے اختیارات وزیر اعلی کے مشورے کے مطابق استعمال کرے گا۔

9۔ وزیر اعلی کسی وقت بھی گورنر کو استعفیٰ دے کر مستعفی ہوسکتا ہے۔

10۔ کوئی بھی وزیر یا نائب وزیر ۔ وزیر اعلی کو استعفی دے کر تاکہ اسے گورنر کو پیش کر دیا جائے۔ مستعفی ہوسکتا ہے۔

11۔ گورنر اگر وزیر اعلیٰ مشورہ دے تو وزیراعلی کے علاوہ کسی بھی وزیر کا استعفی منظور کر سکتاہے۔

12۔ وزیراعلی کسی بھی وزیر یا نائب وزیر سے استعفی دینے کی درخواست کرسکتا ہے بشرطیکہ وزیراعلی کے نزدیک اس کی معقول وجوہ ہوں۔ اگر متعلقہ وزیر اس درخواست پر عمل درآمد نہیں کرتا تو وزیراعلی کے مشورے پر گورنر اس کا تقرر ختم کر سکتا ہے۔ کوئی بھی وزیر اعلیٰ اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز میں‌اراکین کی اکثریت کی حمایت باقی نہ رہنے پر اپنے عہدے سے استعفی دے سکتا ہے۔ اگر اس کے مشورے پر گورنر مجلس قانون ساز کو معطل نہ کر دیا ہو۔

13۔ اگر کسی وقت وزیراعلی اپنے عہدے سے استعفی دے دیتا ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ وزراء اور نائب وزراء نے بھی استعفی دے دیا ہے لیکن وزیر علی وزراء اور نائب وزراء اس وقت تک اپنے عہدوں پر کام کرتے رہیں گے جب تک ان کے جانشین ذمہ داری نہیں سنبھال لیتے۔


آرٹیکل 81 میں ترمیم

سابق آئین کے آرٹیکل کی جگہ مندرجہ ذیل آرٹیکل لے گا۔

81۔ (1) حکومت کے تمام کام گورنر کے نام سے کیے جائیں۔

(2) اسٹیٹ کی حکومتوں کے ایسے قواعد ہوں گے جن کے مطابق آرڈرز اوردوسری دستاویزات پر گورنر کے نام پر عمل درآمد کرایا جائے گا اورایسے آرڈرز کی قانونی حیثیت کو کسی بھی عدالت میں اس بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکے گا کہ یہ حکم گورنر نے نہیں دیا یا جاری نہیں کیا۔

(3) اسٹیٹ کی حکومت اپنے کام کو تفویض کرنے اور ان پر عمل درآمد کرانے کے لیے قواعد بنائے گی۔


آرٹیکل 82 میں ترمیم۔

سابق آئین کے آرٹیکل 82 اور 84 کو ہذف کر دیا جائے گا آرٹیکل 86 سے 90 تک میں ترمیم سابق آئین کے آرٹیکل 86 سے 90 کے بجائے مندرجہ ذیل آرٹیکل جگہ لیں گے۔

“86 اس حسے میں“ میں“منی بل“ کا مطلب ایسا بل ہے جو مندرجہ ذیل تمام معاملات کے یاان میں سے کسی ایک معاملے کے بارے میں ہو۔

a. کسی بھی ٹیکس کا نفاذ ، ختم کیا جانا، کم کرنا ، تبدیل کرنا یا باقاعدہ بنانا۔

b.اسٹیٹ کی حکومت کی طرف سے کوئی رقم قرض لینا یا کوئی ضمانت دینا یا حکومت کی مالی ذمہ داریوں کے متعلق کسی قانون میں ترمیم کرنا۔

c.اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ کا تحفظ کرنا اس میں رقم جمع کرانا، اس میں سے رقم ادا کرنا۔

d.اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ پر چارج عائد کرنا یا کسی چارج میں تبدیلی کرنا یا اسے ختم کرنا۔

e.اسٹیٹ کنسولیڈییڈ فنڈ کے لیے رقوم وصول کرنا یا اسٹیٹ پبلک اکاونٹ کے لیے وصول کرنا یا ایسی رقم کی تحویل اور جاری کرنا اور

f.ایسا کوئی بھی معاملہ جو مندرجہ بالا ذیلی دفعات کے بارے میں ہو۔

z.کسی بل کو صرف اس وجہ سے منی بل نہیں سمجھا جائے گا۔

(a) یہ کسی جرمانے یا مالی سزا کو عائد کرنے یا اس میں تبدیلی کے بارے میں ہے یا لائسنس فیس یا کسی خدمت کے بدلے فیس چارج کے مطالبے یا ادائیگی کے بارے میں ہے۔

(b) یہ کسی مقامی حکومت یا مقامی ادارے کی طرف سے کسی ٹیکس کے نافذ کرنے ، ختم کرنے، کم کرنے یا تبدیل کرنے یا باقاعدہ بنانے کے بارے میں ہے۔


3۔ ہرمنی بل پر جب گورنر کے دستخط کے لیے پیش کیا جائے گا ایک سرٹیفیکٹ دیا جائے گا جو تمام مقاصد ککے لیے کافی ہوگا اور اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔


(87 کوئی ایسا بل یا ترمیم جو آرٹیکل 86 کی کلاز (1) میں دئیے گئے کسی معاملے کے بارے میں ہو یا اگر تشکیل دیا جائے اور پر عمل درآمد کیا جائے تو اس میں اسٹیٹ کی آمدنی سے اخراجات ہوتے ہوں اسے مجلس قانون ساز میں اسٹیٹ حکومت کی سفارش کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔

88۔ کسی اسٹیٹ کے لیے اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز کی طرف سے منظور کیے گئے قانون کے علاوہ کوئی بھی ٹیکس نافذ نہیں کیا جاکستا۔

89۔ (1) کسی اسٹیٹ کی حکومت کی تمام آمدنی اس کے لیے حاصل کیے ہوئے تمام قرضے اور قرضوں کی واپسی ایک کنسولیڈیٹڈ فنڈ کا حصہ ہوں گے اور اسے اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ کہا جائے گا۔

90۔ (1) اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ کی تحویل اس فنڈ میں رقوم کی ادائیگی اس میں نکالی جانے والی رقوم اس فنڈ میں جمع کی جائے والی رقوم کے علاوہ دوسری سرکاری رقوم کی تحویل جو اسٹیٹ کی حکومت نے وصول کی ہوں اسٹیٹ کے پبلک اکاونٹس میں ان کی ادائیگی اور اس اکاونٹ میں سے رقموں کا نکالا جانا اور دوسرے تمام معاملات جو مندرجہ بالا باتوں کے بارے میں ہوں اسٹیٹ کے مجلس قانون ساز کے منظور کیے ہوئے ایکٹ کے ذریعے طے پائیں گے۔ جب تک اس کے لیے قوانین نہ بنائے گئے ہوں تو یہ گورنر کے بنائے ہوئے قواعد کے مطابق طے پائیں گے۔

(2) وہ تمام رقوم(a) جو ایسے افسر نے وصول کی ہوں یا اس کے پاس جمع کرائی گئی ہوں جسے حکومت کے معاملات چلانے کے لیے ملازم رکھا گیا ہو اور اس نے اس حیثیت میں رقوم کی ہو اور یہ رقم حکومت کی آمدنی یا حکومت کی طرف سے وصول کی جانے والی رقم کے علاوہ ہو۔

(b) جو کسی عدالت نے کسی معمالے میں کسی کاونٹ میں کسی شخص کے لیے حکومت کے معاملات کے سلسلے میں وصول کی ہو وہ اسٹیٹ کے پبلک اکاونٹ میں جمع کی جائے گی۔

41۔ مندرجہ ذیل آرٹیکل کا نمبر 90Aسے 90Fتک ہوگا اور سابق آئین کے آرٹیکل 90 کے آگئے ان کا اضافہ کیا جائے گا۔ نئے آرٹیکل 90A سے90Fتک اضافہ ۔

90A۔1) اسٹیٹ کی حکومت ہر مالی سال کے بارے میں‌اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز میں اس سال کے لیے حکومت کی آمدنی اور اخراجات کا ایک تخمینہ پیش کرے گی جسے اس حصے میں سالانہ مالی اسٹیٹ نیٹ کہا جائے گا۔

2) سالانہ مالی تخمینہ مندرجہ ذیل کو علیحدہ علیحدہ ظاہر کرےگا۔

a. ایسی رقم جس کی ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ضرورت ہوگی اور جنہیں آئین نے اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے لینے کے لیے کہا ہے۔

b.ایسی رقم جس کے ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ضرورت ہوگی جن کے لیے اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے لینے کی تجویز دی گئی ہے آمدنی سے متعلق اخراجات کو دوسرے اخراجات سے علحیدہ کردیا جائے گا۔

90B۔۔۔۔مندرجہ ذیل اخرجات اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے لیے جائیں‌گے۔

a.گورنر کو دیا جانے والا معاوضہ اور وہ اخراجات جو اس کے دفتر کے متعلق ہوں گے اور

i.ہائی کورٹ کے ججوں کو دیا جائے والا معاوضہ

ii.اسٹیٹ کے پبلک سروس کمیشن کے اراکین کو دیا جانے والا معاوضہ۔

iii.اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز کی اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو دیا جانے والا معاوضہ۔

b.انتظامیہ کے اخراجات جن میں ہائی کورٹ ، پبلک سروس کمیشن اور سیکرٹریٹ کے افسران و ملازمین کا معاوضہ شامل ہے۔

c. ان قرضوں پرآنے والے تمام اخرجات جن کے لیے حکومت ذمے دار ہے۔ ان میں سود۔ سکنگ فنڈ چارجز ، سرمایہ کی ادائیگی اور قرضے لینے کے دوسرے اخراجات اور سروچارجز اور حکومت کے کنسولیڈیٹڈ فنڈ کی سیکورٹی کے سلسلے میں آنے والے اخراجات ۔

d.حکومت کے خلاف کسی عدالت یا ٹریبونل کی جاری کی گئی کسی ڈگری یا ایورڈ کی ادائیگی کی رقم۔

e. آئین یا اسٹیٹ کی قانون ساز ایکٹ کے تحت اس فنڈ میں سے ادا کی جانے والی رقم

90C۔۔۔(1) سالانہ مالی تخمینے کاوہ حصہ جو اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے ادا کیا جانا ہو اس پر بحث تو کی جاسکتی ہے مگر اس پر اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز میں ووٹنگ نہیں ہوسکتی۔

2) سالانہ مالی تخمینے کا وہ حصہ جو دوسرے اخراجات کے بارے میں ہے اسٹیٹ کی قانون ساز میں گرانٹس کے مطالبات کےطور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اور مجلس قانون ساز کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ان مطالبات کو منظور کرے وہ ان میں کمی بھی کرسکتی ہے۔

3) اسٹیٹ کی حکومت کی سفارش کے بغیر کوئی بھی مطالبات زر پیش نہیں کیے جاسکتے۔

90D۔۔۔۔1) جیسے بھی گزشتہ آرٹیکل کے تحت گرانٹس منظور ہوجائیں گی مجلس قانون ساز میں ایک بل پیش کیا جائے گا کہ اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے وہ تمام رقوم حاصل کی جائیں جو ۔

a. اسٹیٹ کی قانون ساز کی طرف سے گرانٹس کے لیے منظور کی گئی ہیں۔

b.جو اخراجات کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے لے جانے ہیں مگر ان کی تعداد ان اخراجات سے زیادہ نہیں ہوگی۔ جو اسٹیٹ کی قانون ساز کے سامنے سالانہ مالی تخمینے میں رکھے گئے ہیں۔

2) اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز میں کوئی ایسا بل پیش نہیں‌ کیا جا سکے گا جس کے ذریعے منظور کی گئی گرانٹس کی رقم یا زیادہ کرنے کا اثر پڑے یا اس کے مقصد کو تبدیل کیا جائے۔

3) آئین کے دفعات کے علاوہ کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے کوئی رقم نہیں‌نکالی جاسکے گی سوائے اس رقم کے جو اس آرٹیکل کے تحت بنائے گئے ایکٹ کے ذریعہ منظور نہ کی گئی ہو۔

90E۔۔۔۔اگر کسی مالی سال کے سلسلے میں یہ معلوم ہو کہ:

a.کسی خاص خدمت کے لیے مخصوص رقم اس سال کے لیے ناکافی ہے یا کسی نئی خدمت کے لیے جسے سالانہ مالی تخمینے میں شامل نہیں کیا گیا ہے اخراجات کی ضرورت پیش آگئی ہے یا۔

b.کسی خدمت پر اس سال میں اس کے لیے منظور شدہ رقم سے زیادہ خرچ ہوگئی ہے تو اسٹیٹ حکومت کو اختیار ہوگا کہ وہ ان اخراجات کی اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے لینے کی اجازت دیدے چاہے یہ اخراجات آئین کی طرف سے کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہوں۔ انہیں اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز کے لیے ایک سپلیمنٹری اخراجات کا تخمینہ پیش کیا جائے گا جس میں ان اخرجات کی رقم درج کی جائے گی اور آرٹیکل 90A سے 90D تک کی دفعات اس تخمینے پر بھی اسی طرح نافذ ہوں گی جس طرح سالانہ مالی تخمینے پرہوتی ہیں۔

90F۔۔۔اس چیپٹر کی مندرجہ بالا دفعات کو متاثر کیے بغیر اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز کو اختیار حاصل ہوگا کہ :

a. کسی مالی سال کے ایک حصے کے لیے اخراجات کے تخمینے کی اس سے پہلے منظوری دیدے جب تک کہ آرٹیکل 90Cمیں درج شدہ ووٹنگ کا طریقہ کار مکمہ ہو اور آرٹیکل 90Dکی دفعات کے مطابق ان اخراجات کی منظوری کا قانون منظور ہو۔

b.اسٹیٹ کے وسائل پر غیر متوقع مطالبات کی اس صورت میں منظوری دے جب کہ خدمت بہت زیادہ ہو یا اس کی نوعیت غیر معینہ ہو اور اس کے مطالبات کی تفصیل سالانہ مالی تخمینے میں شامل نہ ہوسکے۔

c.کسی ایسی خصوصی گرانٹ کی منظوری دے جو کسی سال کے سالانہ مالی تخمینے میں شامل نہ ہو۔ اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ قانون بنا کر اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے ایسی رقوم نکالنے کی اجازت دیدے جن کے لیے منظوری دی گئی ہے۔

2) کلاز (1) کے تحت منظور کی گئی کسی بھی گرانٹ پر اور اس کے تحت بنائے گئے کسی بھی قانون پر آرٹیکل 90Cاور 90Dکی دفعات اسی طرح اثر انداز ہونگی جس طرح سالانہ مالی بجٹ میں مذکور اخراجات کی کسی گرانٹ پر اور اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی رقم نکالنے یا اختیار دینے کے بارے میں قانون پر اثر انداز ہوتی ہیں۔


آرٹیکل 91 میں ترمیم


1) آرٹیکل 91 کی کلاز (1) کی جگہ مندرجہ ذیل کلاز جگہ لے گی۔

91۔ بنگلہ دیش کے اسٹیٹ کے لیے اور مغربی پاکستان کی ہر اسٹیٹ کے لیے ایک عدالت عالیہ ہوگی۔


آرٹیکل 92 میں‌ ترمیم

1) آئین کے آرٹیکل 92 کی کلاز (2) میں سے سب کلاز bکو حذف کر دیا جائے گا۔

2) آئین کے آرٹیکل 92 کی کلا c کو b کر دیا جائے گا۔

3) آئین کے آرٹیکل 92 کی کلاز 3 کو حذف کر دیا جائے گا۔ آرٹیکلز 99۔ 103۔ 104۔ 105۔ 107۔ 108۔ 112۔ 113۔ 114۔ 119 ۔ 120۔ 121۔ اور 122 اور آرٹیکل 131 کی کلاز کو حذف کر دیا جائے گا۔

4۔ سابق آئین کے آرٹیکلز 99۔ 103 ۔ 104۔ 105 ۔ 107 ۔ 108۔ 112 ۔ 113 ۔ 114 اور آرٹیکل کی کلاز 2کو حذف کر دیا جائے گا۔


آرٹیکل 134 میں ترمیم

سابق آئین کے آرٹیکل 134 کی جگہ مندرجہ ذیل جگہ لے گا۔

“اگر قانون ساز کسی ایسے موضوع پر قانون سازی کرے گا جو اس کے قانون سازی کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے تو وہ قانون کالعدم سمجھا جائے گا“

آرٹیکل 137 میں ترمیم

سابق آئین کے ارٹیکل 137 حذف کر دیا جائے گا۔

آرٹیکل 138 میں ترمیم

آئین کے آرٹیکل 138 کی جگہ مندرجہ ذیل جگہ لے گا۔

138۔ مرکزی حکومت کی یہ آئینی ذمہ داری ہوگی کہ وہ وفاقی سروسز میں بشمول ڈیفنس سروسز کم از کم وقت میں پاکستان کے تمام علاقوں کے لوگوں کی آبادی کی بنیاد پر نمائندگی کو یقینی بنائے۔

سابق آئین کے آرٹیکل 140 میں ترمیم

سابق آئین کے آرٹیکل 140 میں مندرنہ ذیل آرٹیکل جگہ لے گا۔

140۔ کسی اسٹیٹ کے ایگزیکٹو اختیارات میں‌ اسٹیٹ کنسولیڈیٹڈ فنڈ کی ضمانت پر قرضے لینے کا اختیار بھی شامل ہے لیکن اس کی رقسم کی تعداد اسٹیٹ کی مجلس قانون ساز کے بنائے ہوئے ایکٹ میں‌طے ہوگی اور یہ دی جانے والی ضمانتوں کی طے شدہ محدود بنیاد پر ہوگی۔
 
باب نمبر 7

جنرل یحیٰی خان اور ان کے ساتھیوں کی نیتوں کا تجزیہ

اس روپورٹ میں پوری بحث کے دوران ہمیں یہ سوال پریشان کرتا رہا کہ کیا جنرل یحیی خان نیک نیت تھے کیا انہوں نے نیک نیتی سے اقتدار سنبھالا تھا اور اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ملک کو بچانے کے لیے ان کا عمل قانون اور اخلاقی طور پر جائز تھا اور ان کا ارادہ تھا کہ وہ جلد از جلد عوام کو اقتدار منتقل کر دیں گے۔ یا انہوں نے مکمل طور پر قانونی طور اور بے ایمانی سے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا ہوسکتا ہے کہ انہوں نے خلوص کے ساتھ کام شروع کیا ہو مگر اقتدار کے بدعنوان بنا دینے والے اثر کی وجہ سے انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہو اور محض اقتدار کی خاطر اس کی خواہش کرنے لگےہوں‌ اس کے برعکس خیال ممکن نہیں ہے۔ یعنی یہ خیال ممکن نہیں ہے کہ انہوں نے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور بعد میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایمانداری سے اقتدار منتقل کر دیں۔ کسی آدمی کی نیت کے بارے میں شواہد حاصل کرنا مشکل کام ہے کہ اس کی ذہنی کیفیت تک رسائی ممکن ہوسکے لیکن جنرل یحیی خان کی نیت کے بارے میں عدالتی کاروائی کی طرح ہی بہت سے ایسے حالات سامنے آئے جو ان کی نیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔

2۔ ہم یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ کیا مارشل لا کا اعلان کرنا مناسب قانونی اقدام تھا۔ دراصل یہ فوجی حکمرانی تھی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ اپنے ہی ملک میں فوجی حکومت قائم کر ناجائز نہیں ہے لیکن یحیی خان کو اس لیے معاف کیا جاسکتا ہے کہ وہ قانون سے ناواقف تھے اور سپریم کورٹ نے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے انہوں نے یہ خیال بھی کیا ہوگا کہ ڈوسو کے مقدمے میں قانون واضح طور پر بیان کر دیا گیا تھا۔ (پی ایل ڈی 158 ایس سی 533) لیکن ڈوسو کے مقدمے میں کیا فیصلہ ہوا تھا فیصلہ یہ دیاگیا تھا کہ جب بھی طاقت کے ذریعے کسی جائز حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے اور نئی اتھارٹی قائم ہو جاتی ہے تو یہ ایک کامیاب انقلاب ہوتا ہے اور نئی اتھارٹی طاقت کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر فوجی حکومت کامیابی کے ساتھ قائم کر دی جائے تو عدالتیں اسے قانونی طور پر اختیارات کی حامل تسلیم کر لیں گی اسمیں یہ نہیں کہا گیا کہ آئین یا اور کوئی قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آئینی طور پر قائم کسی حکومت کو الٹا جاسکتا ہے۔ یہ اصول کہ فوج کے کمانڈر انچیف کو یا کسی فوجی کمانڈر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ضروری سمجھے حکومت پر قبضہ کر لے نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں کیاگیا تھا بلکہ یہ جنرل یحیی کی حکومت اور آئین کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری کی بھی خلاف ورزی تھی کیونکہ برسراقتدار حکومت کی مدد کرنے کے قانونی طور پر پابند تھے۔

3۔ ہم یہ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ گول میز کانفرنس کے دوران یحیی خان اور شیخ مجیب الرحمن کی ایک ملاقات کا انتظام بھی کیا گیاتھا اس بات میں‌کوئی شک نہیں کہ یہ ملاقات ہوئی تھی مگر اس بارے میں دو مختلف آراء ہیں ایک طرف تو ہمیں بتایا گیا کہ جنرل یحیی خان نے یقین دلایا تھا کہ مارشل لا نہیں لگایا جائے گا دوسری طرف جنرل یحیی خان کا خود بیان ہے کہ ملاقات اس لیے ہوئی تھی کہ مجیب الرحمن کو عقل کی بات کرنے پر رضا مند کیا جاسکے اور یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا تھا کہ اگر انہوں نے عقل کی بات نہیں کی تو مارشل لا لگنے کا بھی امکان ہے اگرچہ یہ لازمی نہیں تھا۔ کچھ اسباب کی بنا پر جن کا ہم نے اور کہیں‌ذکر کیا ہے ہم پہلے والے بیان کوتسلیم کرنے میں زیادہ رغبت رکھتے ہیں۔ لیکن ان دونوں بیانات میں تضاد کے باوجود بہت حد تک مماثلت ہے۔ مارشل لا زیر بحث تھا اور سوال یحیی خان کو طے کرنا تھا کہ مارشل لا لگایا جائے یا نہ لگایا جائے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی مرضی کے بغیرمارشل لا نہیں لگایا جاسکتا تھا اور ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ مارشل لا کا نفاذ صرف کمانڈر انچیف کا حق یا فرض تھا۔

اس بات سے کہ یہ ملاقات گول میز کانفرنس ختم ہونے سے پہلے ہوئی بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کانفرنس شروع ہونے سے پہلے ہوئی تھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ کمانڈر انچیف کانفرنس کی کاروائی میں جائز حد سے زیادہ دلچسپی لے رہے تھے اگرچہ ہم اس الزام سے متفق نہیں ہیں کہ جنرل یحیی نے فیلڈ مارشل کی بیماری کے وقت سے ہی ایوان صدر کا کنٹرول سنبھال لیا تھا مگر یہ جائز حد سے زیادہ دلچسپی بہت پہلے سے شروع ہوگئی تھی اور یہ اس مشاورت میں ظاہر ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں اگرتلہ سازش کا مقدمہ قائم کیا گیا ۔

4۔ ایک اور واقعہ جس سے شک پیدا ہوتا ہے یحیی خان کا اپنے قریبی ساتھیوں کو بلا کر ان کے ساتھ مارشل لا کے نفاذ کا منصوبہ بنانا تھا ان ساتھیوں میں جنرل گل حسن اور جنرل پیرزادہ شامل تھے۔ ڈرافٹ مارشل لا ریگولیشنز اور دوسری تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔ جب یحیی خان سے پوچھا گیا تو انہوں نے یہ بات تسلیم کی اور اپنے اس خیال کے مطابق کہ ضرورت پڑنے پر مارشل لا نافذ کرنا کمانڈر انچیف کا حق اور فرض ہے انہوں نے بتایا کہ یہ تیاریاں فوری نوعیت کی منصوبہ بندی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوج ہنگامی نوعیت کی منصوبہ بندی رکھتی ہے ۔ تاکہ تمام ہنگامی حالات کا مقابلہ کیا جاسکے اور اس منصوبہ بندی پر مسلسل نظرثانی کی جاتی رہتی ہے اور اسے جدید رکھا جاتا ہے۔اسی طرقیہ کار کے مطابق مارشل لا کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جو مارچ 1969ء میں نافذ کیا گیا تھا اپنے اس نظریہ پر کہ یہ فوج کا فرض ہے اس قدر مضبوطی سے قائم تھے کہ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اب بھی فوج کے پاس اسطرح کا ایک پلان موجود ہے ہمارے لیے یہ ایک ہولناک تصور تھا۔ اگر ہم اس تصور کو تسلیم نہ کریں کہ یہ فوج کا حق اور فرض ہے اور ڈوسو کے مقدمے کے فیصلے میں اس طرح کی کوئی بنیاد نہیں ہے تو ان تیاریوں کو مضبوط ثبوت سمجھا جائے گا۔ ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اور ملک میں امن و امان قائم ہوجانے کے باوجود جنرل یحیی خان نے نومبر 1969ء تک اپنے ٹائم ٹیبل کا اعلان نہیں‌کیا اور اس کے بعد اکتوبر 1970ء تک انتخابات نہیں کرائے گئے۔ سیاسی سرگرمیاں یکم جنوری 1971ء سے شروع کی جانی تھیں‌اس طرح دس ماہ کی طویل مدت تک سیاسی نظریات کی تشہیر کے لیے دی گئی جو پاکستان کی سلامتی اور لیگل فریم ورک آرڈر کے خلاف تھے۔ یہ بات پہلے معلوم ہوجانی چاہیے تھی کہ اس طویل مہم کے دوران پاکستان دشمن پروگرام کو دبانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
 
5۔ معلوم ہوتا ہے کہ نتیجہ آنے تک انتظامیہ کو یہ توقع نہیں تھی کہ عوامی لیگ اس قدر اکثریت سے کامیاب ہوگی حقیقت یہ ہے کہ شروع میں یہ خیال تھا کہ مشرقی اور مغربی بازوؤں سے انتخابات میں‌چھوٹی چھوٹی کئی جماعتیں منتخب ہو کر آئیں‌گی جن کی تعداد آٹھ سے دس تک ہوسکتی تھی اگر ایسی صورت حال ہوتی تو چھ نکات کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور کوئی جماعت یا کئی جماعتیں مل کر بھی اس لائق نہ ہوتیں کہ وہ اقتدار کو جائز حقدار قرار پاتیں۔ اس کے علاوہ جماعتوں کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ سے قومی اسمبلی آئین سازی کا اپنا بنیادی کام بھی سرانجام نہ دے پاتی ان توقعات کی روشنی میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ 120 دن کا وقت کیوں‌مقرر کیا گیا تھا جس کے دوران اسمبلی کو تحلیل ہو جانے کے خوف کے ساتھ آئین بنانا تھا یہ ظاہر ہے کہ اگر یہ جماعتیں آئین بنانے میں ناکام رہتیں‌ یا آئین بنانے کے بعد نافذ ہونے کے بعد یہ جماعتیں حکومت بنانے کے لیے متحد نہ ہو پاتیں تو جنرل یحیی خان کے لیے آسان ہوتا ، اگر ان کا ایسا ارادہ تھا کہ وہ موثر طور پر اقتدار پر قائم رہیں۔ وہ قوم کو بتا سکتے تھے کہ ان کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود عوام کے نمائندوں نے قوم کو ایک بار پرمایوس کر دیا ہے اس لیے ملک کی حکومت صرف ان کے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔ آئینی تعطل کے لیے وہ 120 دن کی مدت کی حد کی توقع کر رہے تھے اس کے ساتھ ہی وہ اپنے اصول کا اس لیے دفاع کر رہے تھے کہ جب تک آئین سازی کی مدت کا تعین نہیں کیا جائے گا اور اس دوران آئین سازی کے علاوہ قانون سازی کا کام کرنے پر پابندی نہیں ہوگی اسمبلی ایک مستقل غیر نمائندہ ادارہ ہو کر رہ جائے گی ان کے خیال میں اس کی مثال پہلی آئین ساز اسمبلی کی تاریخ تھی۔

6۔ لیکن یہ قیاس آرائیاں ہیں اور صرف اس بنیاد پر کہ ان کارروائیوں کے نتیجے میں ایسی صورت حال پیدا ہوجائے گی ہم یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ارادتاً کیا گیا تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایسے قواعد بنائے گئے تھے جن سے واضح‌طور ر یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ ان سے ان کا ارادہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے اس کے ساتھ ہی اگر جنرل عمر کی سیاسی کاروائیاں بھی شامل کر لی جائیں جن کا پہلے ذکرکیا جاچکا ہے تو ہمارے خیال میں یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ انتخابات کے نتائج کے بارے میں غلط اندازے ‌لیگل فریم ورک کی دفعات کے مطابق تھے اور چھ نکات پرعدم توجہی اس خیال کو مزید تقویت دیتی ہے کہ جنرل یحیی خان مخلص نہیں تھے۔

7۔ لیکن انتخابات کے نتائج حیران کن تھے مجیب نے مشرقی پاکستان میں تقریباً ہر نشست جیت لی تھی اگرچہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے ایسی کامیابی تو حاصل نہیں کی تھی پھر بھی مغربی پاکستان کی صرف سب سے بڑی جماعت ہی بن کر نہیں ابھری تھی بلکہ اکثریتی جماعت تھی اس پس منظر میں قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے مختلف اوقات میں ملتوی ہونے کے بارے میں ‌غور کیا جاسکتا ہے۔ انتخابات کے نتائج کا 5 دسمبر 1970ء کو اعلان کیا گیا اور جنرل یحیی خان نے اسمبلی کا اجلاس بلانے یا مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان مذکرات کرانے کے لیے اس وقت تک کوئی اقدام نہیں‌اٹھایا جب تک وہ 11 جنوری 1971ء کو مشرقی پاکستان نہیں پہنچ گئے۔ یہی وہ مشہور ملاقات تھی جس میں یحیی خان نے مجیب الرحمن کو مستقبل کا وزیراعظم کہا تھا اور مجیب نے یحیی خان کو صدارت کی پیشکش کی تھی۔ بعد میں جو کچھ پیش آیا اس کے پیش نظر یہ سوچے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ جنرل یحیی خان نے اپنی زبان منہ میں دبا کر بات کی تھی۔ مجیب کو چھ نکات پر مضبوطی سے قائم رہنے کی وجہ سے بعد میں‌‌غدار کہا گیا اگرچہ اس ملاقات کے بعد چھ نکات کا کہیں وجود نہیں تھا انتخابات کے دوران انہیں‌شاید اس لیے نظرانداز کیا گیا تھا کہ یہ ایسی جماعت کا پروگرام تھا مشرقی پاکستان کے تمام عوام میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی یا یہ ایسے معاملات ہیں جن پر مذکرات ہوسکتے ہیں لیکن جنوری 70 میں دونوں مفروضے صحیح‌ ثابت نہیں ہو سکے انتخابات کے نتائج نے ظاہر کر دیا کہ مشرقی پاکستان مکمل طور پر چھ نکات کی حمایت میں ہے اس وقت ہم اس بات کا جائزہ نہیں لے رہے ہیں کہ کیا لوگ چھ نکات کے مضمرات کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور انہوں‌ نے دانستہ طور پر علیحدگی یا فیڈریشن کے لیے ووٹ دئیے تھے بلکہ ہم یہ بیان کر رہے تھے کہ مجیب نے اپنے پروگرام پرعوامی مینڈیٹ حاصل کر لیا تھا ۔اس کے بعد لاڑکانہ میں بھٹو سے ملاقات ہوئی۔ 3 مارچ کی تاریخ کا مقرر کیا جانا پھر یکم مارچ کے لیے اس کا ملتوی کیا جانا اور پھر اس التواء کے بعد صدر کا ایڈمرل احسن اور جنرل یعقوب نے جو دونوں دفاع کے سنیئر افسر تھے اور اپنی اپنی حیثیتوں میں مشرقی پاکستان میں صدر کی نمائندگی کرتے تھے اس موقع پر صدر سے درخواست کی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے ایک حتمی تاریخ کا اعلان کر دیں اور جلد ہی مشرقی پاکستان آئین مگر یہ دونوں درخواستیں بے کار ثابت ہوئیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ دونوں افسر جو صدر کے خلوص پر یقین رکھتے تھے اب مایوس ہوگئے اسی دن انہوں نے اپنے عہدوں کا چارج چھوڑ دیا۔

8 ۔ جس وقت مارچ میں آخری اور ناخوشگوار مذاکرات شروع ہوئے شیخ مجیب الرحمن کا رویہ اگر پہلے سے سخت نہیں‌تھا تو اب اس قدر سخت ہوگیا تھا کہ اس میں کوئی لچک پیدا نہیں ہوسکتی تھی جس طریقے سے یہ مذکرات ہوئے وہ بھی بڑے تجسس کا باعث ہے کسی وقت میں بھی تمام جماعتیں ایک ساتھ کانفرنس میں صدر کی موجودگی میں نہیں بیٹھیں‌اور خاص طور پر صدر کے ساتھ عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کی ایک ساتھ کوئی ملاقات نہیں ہوئی سوائے 2 مارچ کی اس چھوٹی سی ملاقات کے جسے مشکل ہی سے ملاقات کہاجاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ناکامی کی وجہ یہ بتائی جاسکتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کا رویہ نہایت سخت تھا ۔ لیکن ہم اس بات سے اتفاق نہیں‌کر سکتے کہ مجیب الرحمن کا سخت رویہ جنرل یحیی خان کو ان کی اس ذمے داری سے بری الذمہ کر دیتا ہے کہ وہ ایسی ملاقات پر اصرار کرتے اور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ جنرل یحیی خان جو المیہ ہوا، اس کے۔
 
9۔ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے آخری چند ماہ میں‌سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے دوبارہ مذکرات کی کوشش نہیں کی گئی اس کے بجائے جنرل یحیی نے اقتدار منتقل کرنے کے اپنے عہد کا پھر سے اعلان کیا اور جون کے آخر میں اعلان کیا کہ وہ اپنے بنائے ہوئے دستور کا اعلان کریں گے۔

10۔ اس تاریخ کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا جس پر آئین نافذ کی جانا تھا اسی دوران ہم پر جنگ مسلط کر دی گئی جو مشرقی پاکستان میں 20 نومبر کو شروع ہوئی اور مغربی پاکستان میں 3 دسمبر کو۔ اس دوران آئین بنا لیا گیا تھا اس دستاویز کا مطالعہ جس نے کبھی دن کا نہیں دیکھ بڑا حیران کن ہے اس آئین کے آرٹیکل 16 میں‌کہا گیا ہے:

“16 اس آئین میں بیان کی گئی ہر بات کے باوجود

a. اس آئین کے تحت پاکستان کے پہلے صدر جنرل آغا محمد یحیی خان ہوں گے۔

b. جنرل یحیی خان افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف کا عہدہ بھی اتنی مدت کے لیے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں جو پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوگی اور یہ مدت اس آئین پر عمل درآمد شروع ہونے کی تاریخ سے شروع ہوگی۔

c.نائب صدر کا انتخاب ، صدر کے انتخابات سے علیحدہ ہوگا اور کوئی شخص بھی جس کا مشرقی پاکستان سے تعلق نہ ہو اس عہدے کے لیے امیدوار نہیں ہوسکتا۔

11۔ دوسرے الفاظ میں نہ صرف یحیی خان خود کو صدر برقرار رکھنا چاہتے تھے بلکہ خود کو اپنے صدر کے عہدے کے دوران کمانڈر انچیف بھی برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ یہ دوہرے عہدے وہ 25 مارچ 1969ء سے اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔ صدر یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ کمانڈر انچیف کے پاس مارشل لا لگانے کا حق بھی ہے اور اس طرح اس کا اختیار صدر سے اور آئین سے بھی اعلی ہوتا ہے اس لیے وہ کسی طرح بھی صدارت سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھے اور نہ ہی کسی اور کوڈ موکلس تلوار دینا چاہتے تھے جو خود ان کےسر پر لٹکتی رہتی۔

27۔ جنرل یحیی خان کے اردگرد افسروں کے لیے گروپ نے گھیرا ڈال رکھا تھا جو ان کے بہت قریب تھے اور ان پر خاص اثر روسوخ رکھتے تھے ان میں جنرل حمید، جنرل گل حسین ، جنرل پیرزادہ ، جنرل مٹھا اور جنرل عمر شامل تھے۔ ان میں سے پہلے (جنرل حمید ) عملی طور پر ڈپٹی کمانڈر انچیف اور ڈپٹی چیف مارشل اور ایڈمنسٹریٹر تھے دوسرے (جنرل گل حسن ) چیف آف جنرل سٹاف جبکہ جنرل پیرزادہ اس حد تک تمام حالات کے انچارج تھے کہ انہیں حتی کہ وزیر اعظم بھی کہا جاتا تھا۔ جنرل مٹھا کے متعلق معلوم ہوا کہ جنرل یحیی نے اس مشکل وقت میں ان سے صلاح‌ مشورہ کیا مثلاً جب مشرقی پاکستان میں‌ فوجی کاروائی کا فیصلہ ہوا جہاں‌وہ دوسرا محاذ کھلنے (10 اپریل 1971) تک قیام پذیر رہے۔ جنرل یحیی نے 20 دسمبر 1971ء کو اقتدار چھوڑنے کے وقت بھی ان سے مشورہ کیا یہ بات عیاں ہے کہ اس روز وہ (جنرل مٹھا) ایوان صدر کی حفاظت کے لیے کافی تعداد میں کمانڈوز کو متحرک کرنے کی کوشش میں رہے۔ جنرل گل حسن نے خصوصیت سے جنرل مٹھا کو یحیی کا قریبی ساتھی بتایا جب ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جنرل یحیی لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہر قیمت پر خود کو اقتدار میں رکھنا چاہتے تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جنرل اس منصوبےکے سرگرم شریک کار تھے یا محض با امر مجبوری انہوں نے یہ کردار ادا کیا۔ یہ سب انتہائی منجھے ہوئے اور سینئیر افسر تھے ان سب سے کوئی بھی حالات کی پیچیدگی سے اپنی لاعلمی کا بہانہ بنا کر اس کے پیچھے پناہ نہیں لے سکتا تھا۔ مزید براں جنرل یحیی کے اقتدار کی بنیاد ہی خود فوج تھی اور جب تک ان دونوں جنرلوں کے عہدے کے لوگ جن سے جنرل یحیی روزانہ ملتے اور مشاورت کرتے وہ ان کے اقتدار کو جاری رکھنے پر رضا مند نہ ہوتے تو جنرل یحیی اقتدار میں نہیں‌رہ سکتے تھے یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ ان جنرلوں کی اپنی اعلیٰ مراعات یافتہ اقتدار کی حیثیت کا دارومدار بھی جنرل یحیی کی حکومت سے تھا ان کی منشاء بھی یہی تھی کہ حکومتی اختیارات کو دوام دے سکیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ تمام جنرل یحیی خان کے مارشل لا نافذ کرنے اور حکومت حاصل کرنے کے ابتدائی پلان کا بھی حصہ تھے۔
 
28۔ جنرل عمر کا کیس بھی اپنی قسم کا انوکھا کیس ہے وہ قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری تھے لیکن جیسا ہمیں نظر آیا وہ اپنی ذمہ داری کی آڑ لے کر جنرل یحیی کے لیے اس سے زیادہ اہم امور سرانجام دیتے رہے ان کے پاس بھاری مقدار میں‌کیش ہوتا جو یقیناً ان کے محکمہ کے بجٹ کا حصہ نہیں تھا اور اس کیش کا ذریعہ ہمارے سامنے سرکاری طور پر بیان نہیں کیا گیا ۔ جنرل یحیی اور وہ (جنرل عمر) دونوں اس سیکرٹ فنڈ کی موجودگی سے انکار کرتے رہے اور نہ ہی اس رقم کے مصرف کا کوئی سرکاری اعلان کیا گیا جو کہ یقیناً جنرل یحیی کی ہدایات پر عموماً یا خصوصاً ان کے متعین کردہ مقاصد پر خرچ ہوتی تھی حتی کہ ان کے قریبی ماتحت بھی اس رقم کا ذریعہ یا مقاصد سے لاعلم تھے۔ دوسری طرف کافی ثبوت ہیں‌جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے (جنرعمر) سیاستدانوں سے قریبی رابطے تھے جن سے وہ صدر کے ایلچی کے طور یحیی کی پالیسیوں کی ترویج کے لیے ملتے اور مخصوص لائحہ عمل کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے یہ تمام امور ان کی سرکاری ڈیوٹی میں شامل نہیں‌تھے۔ الیکشن مہم سے پہلے اور بعد کے حالات کے جائزے کے دوران ہم نے دیکھا کہ جنرل یحیی کی مخصوص جماعتوں‌نے حمایت نہیں کی بلکہ وہ ایسے نتائج کی توقع کر رہے تھے جن میں کوئی بھی اکیلی جماعت اس حد تک طاقت نہ بنے جو ان سے اپنی شرائط منوا سکے اس مقصد کے لیے کئی چھوٹی جماعتوں کو الیکشن میں‌جھونکا گیا۔ جنرل عمر نے الیکشن سے کافی پہلے ہی رقم اکھٹی کر لی تھی جو انہوں نے انتخابات میں خرچ کی صاف طور پر انہوں نے اسے اپنے مقصد کو آگے بڑھانے پر ہی لگایا ہوگا انتخابات کے بعد بھی جنرل یحیی کی کوشش یہ تھی کہ وہ پارٹیوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر نتائج کو کالعدم قرر دیدیں ۔ اس عرصے میں‌ بھی جنرل عمر کے متعلق یہ نہیں‌کہا جاسکتا کہ وہ اپنی عمومی اور سیدھی سادگی حکومتی نوکری کرتے رہے انہوں نے تمام تر غیر قانونی ہتھکنڈوں سمیت جنرل یحیی کی غاصبانہ اقتدار برقرار رکھنے میں‌مدد اور اعانت کی ان کا مقصد بھی جنرل حمید اور پیر زادہ کی طرح اپنی مراعات یافتہ حیثیت کو دوام دینا ہی تھا۔

29۔ لہذا ہم اس ناخوشگوار نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ چاروں جنرل ، صدر یحیی کے ناجائز اقتدار پر قبضے میں سرگرم اور رضامند کردار تھے یہ ممکن ہے کہ اس طرح کے اور بھی لوگ ہو‌ں گے لیکن چونکہ ہمیں ایسی شہادتیں نہیں ملیں اس لیے اپنی تحقیقات کو ان تک نہیں‌ پھیلا سکتے۔

30۔ جہاں تک دوسرے سرکاری حکام کا تعلق ہے تو یہ عیاں ہے کہ وہ پالیسی ساز حکومتی مشینری میں‌شامل نہیں تھے۔ وہ صرف احکامات پر علمدرآمد کرتے تھے انہیں فوجی حکومت نفرت اور محکومیت کی نظر سے دیکھتی چونکہ ان کی نوکری کا دارومدار حکومت کی طوالت سے نہیں‌تھا س لیے فوجی افسروں کی طرح ان کے وہ مقاصد نہیں‌ تھے۔ لہذا ہم کسی سرکاری افسر کو اس سازش کا حصہ نہیں سمجھتے۔

31۔ ان میں ایک قابل توجہ استثنا پی ایس پی اشر این اے رضوی کا ہے جو اس وقت ڈائریکٹر انٹیلی جنس تھے ہمارے سامنے شہادتیں آئی ہیں‌کہ وہ سیاست میں مصروف رہے صنعت کاروں اور دوسروں سے فنڈز اکھٹے کرتے اور اسے جنرل یحیی ان کی فوجی حکومت کے سیاسی عزائم کو ترویج دینے میں استعمال کرتے رہے۔ تاہم ہم صرف یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ محض فوجی حکومت کے ایک آلہ کار کے طور پر کام کر رہے تھے انہیں اختیارات قابو کرنے میں مصروف فوجی جنریلوں کے پایہ ستون کے ہوا پہ نہیں رکھا جاسکتا۔
 
تیسرا حصہ

بین الاقومی تعلقات

باب اول

بین الاقوامی تعلقات کی اہمیت اور مناسبت


ابتدائی ابواب میں ہم نے مشرقی پاکستان کے سانحہ سے دوچار کرنے والے سیاسی عناسر کا تجزیہ کیا اب ہم بین الاقوامی تعلقات اور ان کے اثرات کی طرف آتے ہیں جن کا ہماری تحقیقات کے موضوع پر براہ راست اثر ہے قومی سلامتی اور دفاع ناگزیر طور پر خارجہ پالیسی سے جڑے ہوئے ہیں اور خارجہ پالیسی جغرافیائی مقام ، سیاسی فلسفے اور لوگوں کے قومی نظرئیے کی پیداوار ہوتی ہے۔

2۔ ایشیا اور افریقہ میں‌ قائم ہونے والی اکثر ریاستوں کو بعد میں معلوم ہوا کہ آزادی کی تحریک کا اختتام دراصل اپنا وجود قائم رکھنے کی کوشش کا آغاز ہے۔ ان میں نہ صرف بین الاقومی تعلقات کو سنبھالنے کےتجربہ کی کمی تھی بلکہ ان کے پاس اپنی قومی سلامتی اور ترقی کے ہتھیار خارجہ پالیسی کو شکل و صورت دینے کی بھی تربیت نہیں‌ تھی۔ سلطنت خارجہ امور میں ان کی آزادی کاروائی عالمی دنیا کی عظیم قوتوں کے اثرو رسوخ کے دائرے میں گھوم رہی تھی۔ پاکستان میں ہمارے لیے یہ مسئلہ اس لیے بھی زیادہ گھمبیر ہوگیا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان ایک دوسرے سے قدرتی طور پر الگ تھے اور ان کے درمیان ہزار میل کا بھارتی علاقہ پڑتا تھا اپنے حدود اربعہ کی وجہ سے ہمیں جنوب مشرقی اور مشرق وسطی میں بابر دفاعی اہمیت حاصل ہے۔ مغربی پاکستان ایک انتہائی حساس علاقے میں واقعہ ہے جہاں چین ، سوویت یونین، افغانستان اور ایران ہمارے ہمسائے ہیں جبکہ اس طرح مشرقی پاکستان میں ہم برما ، تھائی لینڈ ، ویتنام ، ملائیما (ملائشیا) اور انڈونیشیا کے قریب ہونے کے باعث جنوب مشرقی ایشیا کا حصہ ہیں‌ ان ممالک کو ایشیا میں مغربی استعماریت کا اعصابی مرکز خیال کیا جاسکتا ہے لیکن ہماری مشکلات کی بنیادی وجہ بھارت کی طرف سے ہمارے آزاد خودمختار وجود کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر صلح صفائی سے رہنے میں‌ ناکامی ہے۔

29 چھوٹے ملکوں‌بڑے ملکوں کے مقابلے میں اپنی آزادی اور اقتدار اعلی کی حفاظت کی ضرورت کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہیں کیونکہ بڑے ممالک طاقتور ہونے کی وجہ سے اپنے مفادات کی حفاظت کر سکتے ہیں‌عالمی سیاست کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاستیں طاقت کا احترام کرتی ہیں اور کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں حالانکہ یہ طرز عمل بین الاقوامی قانون کے اصولوں سے ہم آہنگ نہیں، بین الاقوامی طرز عمل کے اصولوں‌اور ریاستوں کے حقیقی رویے میں خلیج موجود ہے، چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک کئی حوالوں سے غیر محفوظ ہیں وہ فوجی اور اقتصادی دونوں حوالوں سے کمزور ہیں انہیں‌سرحدی جھگڑے اپنے نوآبادیاتی آقاؤں سے وراثت میں ملے ہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بننے کے لیے انہیں اقتصادی اور مالی امداد کی ضرورت ہوتی ہے جو بڑی طاقتیں فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے امداد دینے والے کی حیثیت سے بڑی طاقتیں‌مداخلت کرتی ہیں‌اور امداد لینے والے ممالک کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے لگتی ہیں۔

4۔ گزشتہ 20 سالوں میں عالمی طاقتوں کے ظہور نے ریاستوں کے باہمی تعلقات کا پورا تصور ہی بدل دیا ہے۔ عالمی طاقتوں سے دو طرفہ تعلقات کی نوعیت کے تعین اور اپنے قومی مفادات کے فروغ کے لیے چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک کے اہداف مزید پیچیدہ اور مشکل ہوگئے ہیں یہ تعلق برابری کی سطح پر قائم نہیں‌ہوتے اور کسی چھوٹے ملک کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ انصاف کے تقاضوں یا دیانت داری کے اصولوں کے تحت بڑی طاقت سے اپنی بات منوا سکے، حتمی تجزیہ یہ ہے کہ چھوٹے اور بڑے ممالک کے باہمی تعلقات کی نوعیت عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات پر منحصر ہوتی ہے اور یہ اپنے مفادات ہی عالمی طاقت اور چھوٹے ممالک میں لامحدود اور غیر مساوی محاذ آرائی پیدا ہونے کا باعث بنتے ہیں اس تناظر میں بھارت اور دوسری تین عالمی طاقتوں کے ساتھ نومبر 1971ء سے قبل پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کا جائزہ لینا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ یہ جائزہ قیام پاکستان سے سقوط ڈھاکہ تک ان ممالک سے تعلقات میں آنے والے اتار چڑھاؤ کی مختصر تاریخ پر نظر ڈالے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔

6۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے خارجہ پالیسی 3 منقسم مراحل سے گزری ہے پہلا مرحلہ اقوام متحدہ کی طرف سے ہماری قومی سلامتی کی ضمانت اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرنے کے دور سے متعلق ہے لیکن جب بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ اقوام متحدہ غیر موثر ثابت ہورہی ہے تو ہم اپنی غیر جانبدارانہ (خارجہ) پالیسی ترک کرنے پر مجبور ہوگئے ہم نے امریکا سے دو طرفہ دفاعی معاہدہ کر لیا اور مغربی طاقتوں کی عالمی سٹریجٹی کا حصہ بنتے ہوئے سیٹو اور سینٹو کے رکن بن گئے یہ مرحلہ ایک غلط فہمی دور ہونے پر اس وقت ختم ہوا جب امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے ہماری قومی سلامتی کی بالکل پروا نہ کرتے ہوئے 1954ء‌کے بعد مسلسل بھارت کو مسلح کرنا شروع کر دیا۔ تب ہماری خارجہ پالیسی کا تیسرا اور موجودہ مرحلہ شروع ہوا جو دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ دوسرے کے اقتدار اعلی علاقائی سالمیت اور قومی مفادات کے احترام اور ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت سے احتراز کی پرامن بقائے باہمی کی پالیسی پر مشتمل ہے یہ باہمی مفادات کے لیے ایسے دو طرفہ تعلقات کے فروغ کی پالیسی ہے جو کسی تیسرے ملک سے تعلقات کی قمیت پر استوار نہیں ہوں گے ان اصولوں کی بنیاد پر اقدامات اٹھانے کی وجہ سے بھارت کے سوا پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں کامیاب ہوگیا تاہم مشرقی پاکستان کے سیاسی بحران میں پیش آنے والے مخصوص واقعات کی وجہ سے پاکستان اور سوویت یونین کے تعلقات میں رخنہ پیدا ہوگیا۔

7۔ ہم رپورٹ کے اس حصے کو اقوام متحدہ کے اس کردار کے تجزیہ پر ختم کرتے ہیں جو اس نے مشرقی پاکستان کے مہاجرین کے مسئلہ پاکستان اور بھارت میں بڑھتی کشیدگی اور دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کی تمام حدیں پار ہوجانے کی صورتحال سے (نمٹتے ) ہوئے ادا کیا۔
 
باب 2 کا دوسرا حصہ

پاک بھارت تعلقات


منطقی حکمت ، جغرافیے کا جبر اور عالمی طاقتوں کااثر رسوخ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں امن سے رہیں‌لیکن غربت کے مارے عوام کو ان ثمرات سے محروم رکھا گیا جو انہیں سیاسی آزادی کے باعث حاصل ہونے چاہیے تھے۔ ہندوؤں کی قومی سوچ جو گزشتہ صدی کے کئی ہندو مفکرین سے متاثر ہے یہ ہے کہ پاکستان سمیت پورا برصغیر ایک ناقابل تقسیم خطہ ہے حالانکہ جغرافیائی حوالے سے بھارت ماسوائے انگریز راج یا مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور حکومت کے چند سالوں کے مکمل طور پر کبھی بھی ایک سلطنت کے کنٹرول میں نہیں رہا لیکن جب برصغیر کے مسلمان اپنے لیے ایکگھر بنانے میں کامیاب ہوگئے تو ہندوؤں نے پاکستان کو اپنے مادر وطن بھارت۔۔۔کے ٹکڑے کرنے کے مترادف قرار دیا، ہندو رہنما تقسیم برصغیر کو صرف اس وقت قبول کرنے پر تیار ہوئے جب یہ انہیں ناگزیر نظر آنے لگے اور انہوں نے اسے برطانیہ کی طرف سے ہندوستانیوں کو انتقال اقتدار کی قمیت تصور کیا انہوں نے اسے برطانیہ کی طرف سے ہندوستانیوں کو انتقال اقتدار کی قمیت تصور کیا انہوں نے تقسیم کو مصلحت کے تحت اس امید پر قبول کیا کہ نئی ریاست قائم نہیں رہ سکے گی اور اپنے بڑے ہمسائے کے دباؤ کے باعث ٹوٹ جائے گی۔

2۔ تقسیم ہند کے بعد روز اول سے ہی بھارت کی خواہش یہ تھی کہ پاکستان اس میں دوبارہ جذب ہو جائے یا اس کا طفیلی ملک بن کر رہے بھارت نے ہمارے ملک میں بہنے والے دریاؤں کے پانی کو روکنے اور رخ موڑنے کی دھمکی کی وجہ بھی یہی تھی۔تمام سمجھوتوں کی خلاف ورز کرتے ہوئے بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کےایک بڑے حصے پر زبردستی قبضہ کر لیا اور وہاں اپنی فوج جمع کرکے ہمارے سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ پیدا کر دیا۔

3۔ بھارتی لیدڑوں نے اپنے مذموم منصوبوں کو خفیہ رکھنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں‌کی مسٹر اچاریہ کرپالانی نے جو 1947 میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر تھے اعلان کیا کہ کانگریس متحدہ ہندوستان کے اپنے دعوی سے دستبردار ہوگی۔ نہ بھارتی قوم ، بھارت کے پہلے وزیر داخلہ اور کانگریس کے طاقتور لیڈر سردار وی بی پٹیل نے بھی تقریباً انہی دنوں اعلان کیا کہ جلد یا بدیر دونوں ممالک (پاکستان اور بھارت) پھر متحد ہو جائیں گے۔ یوں پاکستان کو اپنے پہلے یوم آزادی سے اپنی بقاء کی سخت جدوجہد شروع کرنا پڑی۔ پاکستان اور بھارت میں مرکزی مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ کیا ایک اسلامی ملک اور ایک سیکولر ہندو ریاست باہم امن سے رہ سکتے ہیں۔

4۔ تقسیم ہند کے بعد مہاجرین کے مسئلے اور اثاثوں‌کی تقسیم کے علاوہ بڑا واقعہ جو دونوں‌ ممالک میں شدید محاذ آرائی کا باعث بنا وہ بھارت کا اپنے ملک میں بڑی مسلم اقلیت کے ساتھ ناروا سلوک تھا۔ صورت حال اس حد تک خراب ہوگئی کہ 1950ء میں وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو انتہائی کشیدگی کی فضا میں‌ بھارت کا دورہ کرنا پڑا جس کے نتیجے میں لیاقت نہرو معاہدہ عمل میں‌آیا۔ معاہدے کا ابتدائی علامیہ یہ ہے۔ ( پاکستان اور بھارت کی حکومتیں باضابطہ اتفاق کرتی ہیں کہ دونوں اپنے پورے ملک میں اقلیتوں سے مذہبی تفریق سے بالاتر ہو کر بطور شہری مساویانہ سلوک کرینگی ، زندگی ، ثقافت ، جائیداد اور ذاتی احترام و وقار ، کے مکمل تحفظ کااحساس پیدا کرنے اور آزادانہ نقل و حرکت ، کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے اور تقریر اور عبادت کی قانون و اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے مکمل آزادی دی جائے گی۔)

5۔ بدقسمتی سے لیاقت نہرو معاہدے کے باوجود بھارت میں مسلم کش فسادات کا سلسلہ جاری رہا دونوں‌ ملکوں‌ کے تعلقات انتقال آبادی کے مسئلے سے بھی متاثر ہوئے اس کے علاوہ سرحدوں کے تعین کے لیے باونڈری کمیشن کے فیصلے بھی کشیدگی کی وجہ بنے۔ جن میں مشرقی پاکستان کا بیج Bagge ایورارڈ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
 
6۔ بھارت کی طرف سے مغربی پاکستان کے سندھ طاس کے دریاؤں اور مشرقی پاکستان کو دریائے گنگا کے پانی کا جائز حصہ دینے سے انکار نے مزید پیچیدگیاں پیدا کیں۔ سندھ طاس پانی کے معاہدے سے مغربی پاکستان میں تنازع طے پا گیا۔ جبکہ مشرقی پاکستان میں‌ فرخا بیراج کا سلگتا ہوا مسئلہ 1971ء کی جنگ تک حل طلب تھا۔

7۔ دونوں‌ ملکوں کے درمیاں سب سے زیادہ دھماکہ خیز تنازع بدقسمتی سے ریاست جموں کشمیر کے بڑے حصے پر بھارتی قبضہ تھا، جغرافیائی ، معاشی اور ثقافتی ہر حوالے سے کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور اگر وہاں‌ کے عوام کو آزادانہ خودارادیت دینے سے انکار بھارت کی ننگی جارحیت تھی نہ تو اس رپورٹ کا یہ مقصد ہے کہ مسئلہ کشمیر کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے نہ یہاں اس کی ضرورت ہے یہاں یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ بھارت 25 سال تک پاکستان اور اقوام متحدہ کی طرف سے اس مسئلے کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق پر امن طور پر حل کرنے کی ہر کوشش ناکام بناتا رہا۔ یکم جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کی طرف سے سیز فائر کرانے کے بعد بھارت نے ریاست پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے جو ہتھکنڈے اختیار کیے اس سے نہ صرف کشمیریوں میں بے چینی اور فرسٹریشن پیدا ہوئی بلکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا ہوگئے۔ صدر ایوب خان کی طرف سے یکم ستمبر 1960 ء کو نئی دہلی میں 19 سے 23 ستمبر 1960ء کے درمیان راولپنڈی میں جواہر لال نہرو سے ملاقاتوں کے دوران مسئلے کے حل کی کوششوں میں پہل کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا بھی کوئی تنیجہ برآمد نہ ہوا۔ اکتوبر 1962 کے بھارت چین تنازع نے امریکا کو وہ موقع فراہم کر دیا جس کا وہ آزادی کے وقت سے انتظار کر رہا تھا اگر 19 مئی 1954ء کو سلامتی اور امداد و تعاون کے معاہدے پر دستخط کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات 50 کے عشرے کے آخری سالوں میں مسلسل فروغ پارہے تھے لیکن بھارت کے غیر جانبدارنہ پالیسی پر مضبوطی سے جمنے رہنے کے باوجود امریکا اسے بڑے پیمانے پر اقتصادی امداد کی پیش کش کر دی۔ امریکا پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کی کمیونسٹ چین کے خطے پر اپنا اثر و رسوخ پھیلانے سے روکنے کی اس کی عالمی پالیسی کی کامیابی کے لیے بھارت کا تعاون ضروری ہے۔ لداخ اور نیفا میں‌ بھارتی فوج کی عبرتناک شکست نے امریکا میں ہنگامی ردعمل پیدا کیا اور پاکستان سے ضروری مشورہ کیے بغیر امریکا کے مغربی اتحادیوں نے بھارت کو فوجی امداد دینا شروع کر دی۔ اس دوران 21 نومبر 1962ء کو چین نے یکطرفہ طور پر سیز فائر کا اعلان کر دیا۔ اور اپنی فوجیں واپس بلا لیں لیکن امریکا اور مغرب کے فوری اور پرجوش رعمل سے حوصلہ پاکر نہور نے دسمبر 1962ء میں اعلان کر دیا کہ اگر بھارت چین سرحدی تنازع طے ہوگیا تو بھی ان کا ملک اپنی فوجی تیاریاں جاری رکھے گا امریکا کی مدد سے بھارت کے اپنی فوجی طاقت بڑھانے نے خطے میں طاقت کا توازن پاکستان کے خلاف بگاڑ دیا اور ہمارے ملک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ پیدا ہوگیا۔ یہاں یہ جائزہ دلچسپ ہوگا کہ بھارت اور امریکا کا 1951 ء میں باہمی دفاعی تعاون کا معاہدہ طے ہونے اور 1958ء میں اس کی تجدید کے باوجود امریکا غیر جانبدار بھارت اور اپنے اتحادی پاکستان میں امتیاز روا رکھتا رہا لیکن 1962ء کی چین بھارت جنگ نے یہ فرق مٹا دیا۔

9۔ امریکا اور اس کے اتحادی ملک بھارت کو اس بات پر قائل کرتے رہے کہ اسے جلد چین کے ایک بڑے حملے کا سامنا کرنا پڑے گا بھارت کو مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی صدر کینڈی نے 28 اکتوبر 1962ء کو صدر ایوب کو لکھا کہ وہ نہرو کو یقین دلائیں کہ پاکستان سرحدوں‌ پر کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا۔ خط میں کینڈی نے صدر ایوب کو یقین دلایا کہ پاکستان کا یہ اقدام برصغیر کے وسیع تر مفاد میں‌ ہے اور آگے چل کر پاک بھارت سرحدی تنازعات طے کرنے کا ضامن ثابت ہوگا صدر ایوب نے تامل کا اظہار کیا تو کینڈی نے برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ میکملن اور آسٹریلوی وزیراعظم آر جی مینزیر کے ذریعے ان پر دباؤ ڈلوایا اس سلسلے میں‌ مزید کوششیں کرتے ہوئے برطانیہ کے وزیر خارجہ برائے دولت مشترکہ ڈنکسن سینڈیز اور امریکا کے نائب وزیر خارجہ برائے مشرق بعید ایورل ہیریمین نے پاکستان کے ذاتی دورے کیے ان کوششوں کے نتیجے میں فیلڈ مارشل ایوب اور نہرو نے 29 نومبر 1962ء کو ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کشمیر اور دوسرے متعلقہ مسائل کو حل کرنے کے لیے براہ راست مذکرات پر اتفاق کیا گیا تھا تاکہ دونوں ممالک دوستی اور امن کے ساتھ رہ سکیں۔ نہروں نے اس مشترکہ علامیہ میں اس وقت دستخط کیے جب بھارت اور چین کے درمیان فوجی طاقت کا توازن بھارت کے نقطہ نظر سے تشویشناک تھا لیکن چین کی طرف سے یکطرفہ سیز فائر کے اعلان سے اس کا رویہ مکمل طور پر تبدیل ہوگیا جب امریکا اور دوسری مغربی ملکوں‌نے ضرورت محسوس نہ کی۔ بھارتی وقت حاصل کے چکر میں‌تھے اور مغرب سے اسلحہ کی ایک بڑی کھیپ کے بدلے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مشترکہ اعلامیہ انہیں کوئی بڑی قیمت محسوس نہ ہوئی۔ بھارت نے اپنی سلامتی کو درپیش ایک بڑے خطرے کے موقع پر پاکستان کے احسان کو فراموش کر دیا اور یوں بالآخر مسئلہ کشیمر کے حل کا ایک عظیم موقع ضائع ہوگیا۔

11۔ بھارت نے فوجی لحاظ سے اپنی مضبوطی اور صنعتی ترقی کا ہر نیا مرحلہ طے کرنے کے ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ مزید جارحانہ رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ بھارتی لیڈر یہ سوچنے لگے کہ ایشیا پر ان کی سیاسی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے جو ایشیا کی سلامتی کے امریکی منصوبے سے بھی میل کھاتا تھا۔ کشمیر کے مشترکہ دفاع سمیت پاکستان اور بھارت کی ممکنہ کنفیڈریشن قائم کرنے کے لیے امریکہ میں مذکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بدقسمتی سے یہ نظریہ پاکستان کی سلامتی کی پروا کیے بغیر ایشیا پر بھارتی بالادستی قائم کرنے کی بنیاد پر استوار کیا گیا تھا۔ اس دوران حضرت بل کے مزار کے واقعہ پر کشمیر میں کنٹرول لائن کے دونوں‌ طرف مسلمانوں کا زبردست احتجاج شروع ہوگیا اور صورتحال تشویشناک ہوتی گئی۔
 
12۔ اپریل 1965ء میں بھارت نے رن آف کچھ میں فوجی آپریشن کیے۔ جوابی کاروائی پر صورت حال بھارتی فوج کے لیے بدترین ہوگئی اور پاکستانی فوج اس پوزیشن میں آگئی کہ اسے عبرتناک شکست دے سکتی تھی پاکستان نے فوجی فتح کے موقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائےرن آف کچھ تنازع بین الاقوامی ثالثی سے حل کرنے سے اتفاق کر لیا دونوں ملکوں کی فوجیں سرحد پر ایک دوسرے کے مقابل کھڑی تھیں کہ 6 ستمبر 1965ء کی صبح بھارت نے پاکستان پر اچانک حملہ کر دیا۔

13۔ بلاشبہ بھارت کا موقف یہ ہے کہ وہ مغربی پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں گوریلا کاروائیوں کے باعث بین الاقوامی سرحد پار کرنے پر مجبور ہوا جبکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ گوریلا کاروائیاں نہیں‌ ہو رہی تھیں‌ اور کشمیری خود تھے جو بھارتی فوج کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہے تھے۔ چنانچہ پاکستانی فوج نے فوری طور پر چھمب کے محاذ پر حملہ کیا تاکہ بھارت کو آزاد کشمیر پر قبضے سے روکا جا سکے۔ تقریباً پوری دنیا نے بھارتی حملے کی مذمت کی کہ اس نے بین الاقوامی سرحد پر جارحیت کا ارتکاب کیا تھا۔ عددی اعتبار سے بڑی بھارتی فوجی کو چھوٹی لیکن انتہائی ثابت قدم نے لاہور اور سیالکوٹ دونوں محاذوں پر پسپا کر دیا۔ پاک فضایہ اور بحریہ نے بھی انتہائی مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان پر قبضے کی بھارتی کوشش ناکام ہوگئی۔

14۔ سیز فائر کے بعد تاشقند سربراہ مذکرات ہوئے جو روس کی نئی ڈپلومیسی کی فتح اور برصغیر پاک و ہند کے بارے میں اپنی نئی حکمت عملی کا آغاز تھے۔اعلان تاشقند کے خلاف بھرپور عوامی ردعمل کے باوجود اس بات کی امید پیدا ہوگئی تھی کہ سودیت یونین نئی پیش رفت پاک بھارت تنازعات کے پرامن حل کا دروازہ کھولے گی لیکن بدقسمتی سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ مار 1966ء میں مذکرات ہوئے لیکن بھارت کشمیر کو ان کےایجنڈے میں شامل کرنے پر تیار نہ ہوا۔ اکتوبر 1966ءمیں پاکستان نے بھارت سے تمام تنازعات پر کسی تیسرے ملک میں مذکرات کی خواہش کا اظہار کیا۔ 1969ء میں ہم ن تجویز پیش کی کہ کشمیر سے پاکستان و بھارت دونوں ممالک کی فوجیں واپس بلائی جائیں‌ تاکہ وہاں‌کے لوگ اپنے حق خودارادیت کو استعمال کر سکیں لیکن بھارت کے منفی طرز عمل کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

15۔ پاکستان نے فرخا بیراج کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بھارت سے طویل مذکرات کئے لیکن گنگا کے پانی کی تقسیم پر اختلافات دور نہ ہو سکے ان تمام مذکرات اور کوششوں کو اس حوالے سے کوئی کامیابی نہ ملی کہ کشمیر پر بھارت نے طاقت سے قبضہ برقرار رکھا۔

16۔ 1947ء میں آزادی حاصل کرنے کے بعد 71ء تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو مشرقی پاکستان کے بحران میں بھارت کے کردار کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔

مشرقی پاکستان کے ریاست مخالف عناصر سے بھارت کا گٹھ جوڑ پہلی بار اس وقت منظر عام پر آیا جب 1967ء میں اگرتلہ سازش کیس پکڑی گئی۔ مشرقی پاکستان کو باقی ملک سے الگ کرنے کے لیے ایک انقلابی تنظیم قائم کی گئی اور شیخ مجیب الرحمن اس میں‌ شامل ہوگئے۔ بھارت نے تنظیم کو ہتھیاروں اور مالی امداد کی فراہمی کے علاوہ ڈی ڈے پر یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان فضائی اور سمندری راستے بھی بلاک کر دے گا یہ سچ ہے کہ اس وقت کے مجموعی حالات کی وجہ سے اگرتلا سازش کیس کا فیصلہ نہ سنایا جا سکا لیکن اس سازش میں‌بھارت کے ملوث ہونے کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ 1971ء یہ حالات و واقعات اسی ترتیب سے پیش آئے جن کا اس کیس کے دوران انکشاف ہوا تھا۔

17۔ 30 جنوری 1971ء کو بھارتی حکام نے اپنے ایک ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ کا ڈرامہ کرکے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان پاکستان کے مسافر طیاروں کی پروازوں پر پابندی لگا دی، بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج کی جوڈیشل انکوائری میں ہائی جیکر بھارتی ایجینٹ نکلے اور حکومت پاکستان اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے درمیان سیاسی اور آئینی مذکرات کے دوران ملک کے دو حصوں میں سول طیاروں کی آمدورفت پر پابندی انتہائی سنگین ثابت ہوئی اور اس سے ملک کودرپیش مشکلات میں اضافہ ہوا۔
 
18۔ اسی دوران بھارت نے مشرقی پاکستان کے علحیدگی پسندوں کی پشت پناہی کے لیے اپنی فوجی نقل و حرکت میں اضافہ کر دیا ، بھارتی فوج کی بڑی تعداد کو فروری اور مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی سرحد پر پنچا دیا گیا۔ لڑکا جیٹ اور ٹرانسپورٹ طیاروں کو سرحدی علاقوں کے ہوائی اڈوں پر جمع کر دیا گیا ۔ باقاعدہ فوج کے علاوہ بھارتی بارڈر سیکورٹی فورسز کے دستوں کو بھی مشرقی پاکستان کی سرحد پر تعینات کر دیا گیا۔ بی ایس ایف کے نشانات کٹا کر جیپوں اور دوسری گاڑیوں پر سویلین رنگ کر دئیے گئے یہ بات کئی تحقیقات سے ثابت ہو چکی ہے کہ مارچ 1971ء کے آخر سےبی ایس ایف کے ان بٹالینز نے سویلین بھیس میں مشرقی پاکستان کے اندر سرحدی علاقوں میں‌کاروائیاں شروع کر دیں تھیں ۔ پاک فوج نے مشرقی پاکستان کے علاقوں میں سرگرم غنڈوں سے بڑی تعداد میں بھارتی ہتھیار اور اسلحہ برآمد کرکے قبضے میں لے لیا۔

19۔ اگرچہ یحیی خان کی طرف سے 25 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کا حکم خالصتاَ پاکستان کا ملکی اور اندرونی معاملہ تھا لیکن بھارتی لیڈروں نے اس میں اعلانیہ مداخلت شروع کر دی بھارت کی کئی ریاستی اسمبلیوں میں (بنگلہ دیش) کی حمایت میں رسمی قراردادیں پاس کی گئیں۔ حتی کہ بنگال کے نائب وزیر اعلی اس حد تک بڑھ گئے کہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ ہم مغربی بنگال میں (بنگلہ دیش) کو آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں اگرچہ مرکزی حکومت تاحال یہ فیصلہ نہیں کرسکی۔ بھارتی وزیراعظم کی طرف سے پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کی گئی جسے دونوں ایوانوں نے 30 مارچ 1970ء کو منظور کیا قرار داد میں مشرقی بنگال کے عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ بھارت کے عوام ان کی جدوجہد کی تہہ دل سے حمایت کرتے ہیں 4 اپریل 1971ء کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے بھی بھارتی پارلیمنٹ کی منظور کردہ قرارداد کو اتفاق رائے سے پاس کیا، قرار داد پر بحث کے دوران آل انڈیا کانگریس کمیٹی مغربی بنگال یونٹ کے جنرل سیکرٹری (کے کے شکلا) نے کہا کہ (شیخ‌ مجیب الرحمن بھارت کی جنگ لڑ رہے ہیں)۔

سیاسی رہنماؤں کے علاوہ بھارتی پریس اور دانشوروں نے بھی بحث میں حصہ لیا جس سے پاکستان کو کمزور اور تقسیم کرنے کے یکساں بھارتی مقصد کے متعلق دنیا کو شک و شبہ کی گنجائش نہ رہی۔

30 مارچ 1971ء کو بمبئی کے روزنامہ (انڈین ایکسپریس) نے مشرقی پاکستان میں‌ بھارت کی مسلح مداخلت کی کھلم کھلا وکالت کرتے ہوئے کہا کہ (یہ یقیناً ایک تاریخ موقع ہے اور اب عمل کا وقت آگیا ہے)

7 اپریل 1971ء کو انڈین انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر سر امنیم نے مشرقی پاکستان میں بھارت کی حمایت یافتہ مسلح بغاوت کے حوالے سے کہا کہ (بھارت کو اس حقیقت کا احساس ہے کہ پاکستان کا ٹوٹنا ہمارے مفاد میں ہے ہمیں اب جو موقعہ ملا ہے وہ پھر کبھی نہیں آئے گا)

21۔ بالکل اسی نظریہ کو ایک اور بھارتی دانشور سبرامنیم سوامی نے دہرایا وہ 15 جون 1971ءکو روزنامہ مدرلینڈ کے آرٹیکل میں کہتے ہیں (کہ پاکستان کی علاقائی سالمیت سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے ہمارا صرف دو سوالوں‌ سے تعلق ہونا چاہیے۔ (1) کیا پاکستان کا ٹوٹنا ہمارا طویل مدتی قومی مفاد ہے؟ اگر ایسا ہے تو (2) کیا ہم اس بارے میں‌ کچھ کر سکتے ہیں؟ مضمون کا خاتمہ اس رائے کے ساتھ کیا گیا کہ پاکستان کی ٹوٹ پھوٹ نہ صرف ہمارے بیرونی بلکہ اندرونی سلامتی مفاد میں‌ بھی ہے۔ بھارت کو بین الاقوامی طور پر سپر پاور بن کر سامنے آنا چاہیے اس کردار کے لیے ہمیں قومی سطح پر اپنے شہریوں کو یکجا کر نا ہوگا اور اس مقصد کے لیے پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونا ضروری پہلی شرط ہے)

22۔ آخر میں‌ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے خود 15 جون 1971ء کو اعلان کیا کہ (بھارت کسی ایسے سیاسی حل کی ایک لمحےکے لیے بھی حمایت نہیں کرے گا جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی موت کی صورت میں نکلتا ہو)۔ بھارت کی سب سے اعلی عہدیدار کی طرف سے اس بیان نے اس کے برے عزائم اور پاکستان کے لیے جارحانہ خیالات پر مہر ثبت کر دی۔

23۔ اس مسئلےکے آغاز سے ہی بھارت نے مشرقی پاکستان کے بحران کو بین الاقوامی رنگ دینے کی کوشش کا آغاز کر دیا تھا۔ بھارت نے ایک عالمی سفارتی مہم شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ:

a.مشرقی پاکستان کے لوگوں کو سیاسی حقوق کی بحالی اور ان کی نسل کشی کو روکنے کا بہانہ بنا کر کسی قسم کی بین الاقوامی مداخلت کی درخواست کر سکے۔

b.ایسی فضا قائم کی جائے جس میں‌ اگر مشرقی پاکستان میں مداخلت کی ضرورت پڑے تو اس کا کوئی شدید عالمی ردعمل سامنے نہ آسکے۔ مشرقی پاکستان سے آئے ہوئے مہاجرین اور ان کی دیکھ بھال کے معاشی بوجھ کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ وہ تمام حدیں‌ پار کر گیا۔ عالمی ایجنسیوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپیلیں کی گئیں اور عالمی پریس میں مظالم کی مسخ شدہ اور انتہائی مبالغہ آمیز کہانیاں شائع ہوئیں ۔ شروع میں‌ بھارتی کوششوں کا عالمی برادری کی طرف سے کوئی خاطر خواہ جواب نہ آیا۔ لیکن جب کسی سیاسی حل کے نظر نہ آتے ہوئے مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی طویل ہوتی گئی تو دنیا ہماری مخالفت پر اتر آئی۔ ہم اس معاملہ کے بارے میں بعد میں‌ بات کریں‌گے۔ لیکن اس وقت اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ بھارت نے مشرقی پاکستان کی صورتحال سے پورا فائدہ اٹھایا۔
 
Top