وہاب اعجاز خان
محفلین
97) ان کی یہ پیشکش بہرحال قبول نہیں کی گئی اور نتیجے کے طور پر اس نے مشرقی پاکستان میں تمام نشستیں جیت لیں سوائے دو نشستوں کے جس کے نتیجے کے طور پر ایک دوسرے مفہوم میں وہ اپنی پارٹی کے قیدی بن کر رہ گئے اور اس قابل نہ رہے کہ اپنی پارٹی کے انتہا پسند گروپ کے مطالبات کورد کر سکیں۔ جن کا انہیں 7 مارچ 1971ء کو سامنا کرنا پڑا۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنی پارٹی کے دباو سے فرار حاصل کرنے کے لیے انہوں نے خود کو گرفتار کر ا دیا۔ علاوہ ازیں ہم یہ سوچتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن ایک بہتر مدبر ثابت ہوتے، بجائے اس کے جو کچھ انہوں نے کیا اور عمومی طور پر پاکستان اور خاص طور پر مشرقی پاکستان کے عوام کو جمہوریت کے بہتر نتائج فراہم کرتے ، یعنی امن اور سکون اور ایک خوشحال زندگی۔ ان کو ایک سنہری موقع دیا گیا ۔ وہ متحد پاکستان کے وزیراعظم بن سکتے تھے حالانکہ اس سے مشرقی پاکستانی کو اس پیمانے پرآزادی نہ مل پاتی جو کہ چھ نکاتی پروگرام کے ذریعے حاصل ہو سکتی تھی لیکن پھر بھی اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مشرقی پاکستانی کے لیے زیادہ آزادی کی ضرورت تھی۔ اس قسم کے سیٹ اب میں مسٹر بھٹو مرکز میں اپنا حصہ مانگنے کی پوزیشن میں نہ ہوتے اور اپنے سیاسی وجود کو قائم رکھنے کے لیے اگر شیخ مجیب کے لیے ایسا ضروری ہوتا کہ وہ کچھ نمائندے مغربی پاکستان سے انے ساتھ شامل کر لیں تو یہاں ان کی کوئی کمی نہ تھی اور کسی بھی بھی پارٹی سے اتحاد کرسکتے تھے۔ یہاں تک کہ 7 جنوری 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن ، جنرل یحٰیی خان کو یہ یقین دہانی کرا رہے تھے کہ وہ وضح طور پر دو تہائی اکثریت حاصل کر لیں گے۔ ان کے ذہن میں یہ نہیںتھاکہ وہ پیپلز پارٹی سے کسی قسم کا اتحاد قائم کریں گے تاہم وہ کسی چھوٹی پارٹی سے اتحاد کرکے اپنی پارٹی کی حیثیت برقرار اور واضح رکھنا چاہتے تھے۔ اس صورت میں مشرقی پاکستان اور مرکز میں وہ اس حیثیت میں ہوتے کہ مشرقی پاکستان کے حالات میں بہتری پیدا کر سکتے تھے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ اپنے چھ نکات کو آئین کا حصہ بنا کر کیا زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے اور مشرقی پاکستان کے لیے کیا بہتر کام کر سکتے تھے حالانکہ وزیراعظم بننے کی صورت میں وہ مشرقی پاکستان کے عوام کی مشکلات و مسائل کو زیادہ بہتر طور پر حل کر سکتے تھے۔ قطع نظر اس کے جنرل یحٰیی خان کا رویہ کیا تھا اور انہوں نے مجیب الرحمن کو کس طرح اشتعال دلایا ہم یہ سوچتے ہیں کہ اگر مجیب الرحمن ایسے آئین پر متفق ہوجاتے جو مغربی پاکستان کے لیے قابل قبول ہوتا تو ملک کے لیے زیادہ بہتر ہوتا اور وہ ایک متحد پاکستان کے سربراہ ہوتے۔
9 اب یہاں ذوالفقار علی بھٹو، چیرمین پیپلز پارٹی کا کردار سامنے آتا ہے جو کہ مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کے لیڈر تھے اور جنہیں ملک کی سیاست میں خاص حیثیت حاصل تھی اور جن پر ایک خاص ذمہ داری تھی کہ وہ ملک کا آئین بنائیں اور ملک کی بقا اور استحکام کو برقرار رکھیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ یہ مطالبہ کرنے میں پوری طرح حق بجانب تھے کہ نیشنل اسمبلی کا اجلاس جو کہ 3 مارچ 1971 کو ہونا طے پایا تھا اسے ملتوی کر دیا جائے اور کیا وہ اس مطالبے میں حق بجانب تھے کہ عوامی لیگ ان سے اتحاد قائم کرے اور یہ کہ انہوں نے ملک میںدوطاقتوں کی جو تھیوری پیش کی تھی وہ کس حد تک صحیح تھی اور آخری بات یہ کہ انہوں نے ڈھاکا مذکرات کے دوران اپنی ذہانت اور مثبت حکمت علی سے کام کیوں نہ لیا جس کے نتیجے میں 25 مارچ 1971ء کو فوجی ایکشن شروع کر دیا گیا۔
99) یہ بات عام طور پر سب کومعلوم ہے کہ پیپلز پارٹی نے دوران الیکشن مجیب الرحمن( عوامی لیگ) کے چھ نکات کو اپنی انتخابی مہم کا اہم ایشو نہیں بنایا تھا۔ لیکن کمیشن کے روبرو بھٹو کی جانب سے کہا گیا کہ انہوںنے مغربی پاکستان میں دانشواروں کے ایک اجتماع میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ ان چھ نکات میں علیحدگی کے جراثیم موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسا واقع کہا ہو۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے اس نے اس سلسلے میں (چھ نکاتی پروگرام کے خلاف) نہ ہی کوئی مہم چلائی اور نہ ہی عوامی میٹنگ میں ان کے خلاف کچھ کہا۔ ایسی صورت میں کمیشن اس دلیل کو زیادہ اہمیت نہیں دے سکتا۔ جو کہ انہوں نے الیکشن اوراسمبلی کے اجلاس کے بعد پیش کی ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ بھٹو کس جمہوری اور پارلیمانی اصول کے تحت عوامی لیگ کی قیادت سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں اس معاملے پر مفاہمت کرتے ہوئے چھ نکاتی پروگرام میں کچھ کمی کردیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ عوامی لیگ نے بھاری اکثریت کے ساتھ چھ نکاتی پروگرام پر مشرقی پاکستانی عوام کی حمایت حاصل کی تھی ان سے یہ توقی کم ہی کی جاسکتی تھی کہ وہ ان نکات سے بغیر کسی بحث مباحچے اور کچھ لو اور کچھ دو کے عمل کے بغیر انحراف کر سکتے ہیں۔
100) یہی بات پیپلز پارٹی کے اس مطالبے اور اصرار کے متعلق کہی جاسکتی ہے جس کے مطابق کوئی آئین ان کی شمولیت اور منظوری کے بغیر نہیں بنایا جاسکتا حالانکہ شیخ مجیب الرحمن کو نیشنل اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی اور انہیں یقین تھا کہ وہ مغربی پاکستان کی دوسری اقلیتی پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل کر لیں گے جبکہ صورتحال یہ تھی کہ مغربی پاکستان کے صوف 2 صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ عوامی لیگ جس نے پورے پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کی تھی ، آئین نہیں بنا سکتی ۔ ان تمام باتوں سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پیپلز پارٹی ، عوامی لیگ سے یہ مطالبہ کرنے میں قطعاً حق بجانب نہ تھی کہ وہ چھ نکات سے دستبردار ہوجائیں یا پھر ان میں تبدیلی کر لیں یا یہ کہ پیپلز پارتی کو مغربی پاکستان میں عوامی رائے ہموار کرنے اور انہیں چھ نکاتی پروگرام کے حق میں ہموار کرنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا تاہم یہ بات درست نہیں۔ زیادہ بہتر راستہ پیپلز پارٹی کے لیے تھا کہ وہ نیشنل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرتی اور اپنے نظریات اور نکات کی اجلاس میں بیٹھ کر وضاحت اور وکالت کرتی۔
9 اب یہاں ذوالفقار علی بھٹو، چیرمین پیپلز پارٹی کا کردار سامنے آتا ہے جو کہ مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کے لیڈر تھے اور جنہیں ملک کی سیاست میں خاص حیثیت حاصل تھی اور جن پر ایک خاص ذمہ داری تھی کہ وہ ملک کا آئین بنائیں اور ملک کی بقا اور استحکام کو برقرار رکھیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ یہ مطالبہ کرنے میں پوری طرح حق بجانب تھے کہ نیشنل اسمبلی کا اجلاس جو کہ 3 مارچ 1971 کو ہونا طے پایا تھا اسے ملتوی کر دیا جائے اور کیا وہ اس مطالبے میں حق بجانب تھے کہ عوامی لیگ ان سے اتحاد قائم کرے اور یہ کہ انہوں نے ملک میںدوطاقتوں کی جو تھیوری پیش کی تھی وہ کس حد تک صحیح تھی اور آخری بات یہ کہ انہوں نے ڈھاکا مذکرات کے دوران اپنی ذہانت اور مثبت حکمت علی سے کام کیوں نہ لیا جس کے نتیجے میں 25 مارچ 1971ء کو فوجی ایکشن شروع کر دیا گیا۔
99) یہ بات عام طور پر سب کومعلوم ہے کہ پیپلز پارٹی نے دوران الیکشن مجیب الرحمن( عوامی لیگ) کے چھ نکات کو اپنی انتخابی مہم کا اہم ایشو نہیں بنایا تھا۔ لیکن کمیشن کے روبرو بھٹو کی جانب سے کہا گیا کہ انہوںنے مغربی پاکستان میں دانشواروں کے ایک اجتماع میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ ان چھ نکات میں علیحدگی کے جراثیم موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسا واقع کہا ہو۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے اس نے اس سلسلے میں (چھ نکاتی پروگرام کے خلاف) نہ ہی کوئی مہم چلائی اور نہ ہی عوامی میٹنگ میں ان کے خلاف کچھ کہا۔ ایسی صورت میں کمیشن اس دلیل کو زیادہ اہمیت نہیں دے سکتا۔ جو کہ انہوں نے الیکشن اوراسمبلی کے اجلاس کے بعد پیش کی ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ بھٹو کس جمہوری اور پارلیمانی اصول کے تحت عوامی لیگ کی قیادت سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں اس معاملے پر مفاہمت کرتے ہوئے چھ نکاتی پروگرام میں کچھ کمی کردیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ عوامی لیگ نے بھاری اکثریت کے ساتھ چھ نکاتی پروگرام پر مشرقی پاکستانی عوام کی حمایت حاصل کی تھی ان سے یہ توقی کم ہی کی جاسکتی تھی کہ وہ ان نکات سے بغیر کسی بحث مباحچے اور کچھ لو اور کچھ دو کے عمل کے بغیر انحراف کر سکتے ہیں۔
100) یہی بات پیپلز پارٹی کے اس مطالبے اور اصرار کے متعلق کہی جاسکتی ہے جس کے مطابق کوئی آئین ان کی شمولیت اور منظوری کے بغیر نہیں بنایا جاسکتا حالانکہ شیخ مجیب الرحمن کو نیشنل اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی اور انہیں یقین تھا کہ وہ مغربی پاکستان کی دوسری اقلیتی پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل کر لیں گے جبکہ صورتحال یہ تھی کہ مغربی پاکستان کے صوف 2 صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ عوامی لیگ جس نے پورے پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کی تھی ، آئین نہیں بنا سکتی ۔ ان تمام باتوں سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پیپلز پارٹی ، عوامی لیگ سے یہ مطالبہ کرنے میں قطعاً حق بجانب نہ تھی کہ وہ چھ نکات سے دستبردار ہوجائیں یا پھر ان میں تبدیلی کر لیں یا یہ کہ پیپلز پارتی کو مغربی پاکستان میں عوامی رائے ہموار کرنے اور انہیں چھ نکاتی پروگرام کے حق میں ہموار کرنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا تاہم یہ بات درست نہیں۔ زیادہ بہتر راستہ پیپلز پارٹی کے لیے تھا کہ وہ نیشنل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرتی اور اپنے نظریات اور نکات کی اجلاس میں بیٹھ کر وضاحت اور وکالت کرتی۔