حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ

24۔ سفارتی محاذ کے علاوہ بھارت نے مکتی باہنی کے ارکان کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرکے مشرقی پاکستان میں سرگرم عملی مداخلت شروع کر دی۔ اور ان لوگوں کو مشرقی پاکستان کی سرحد سے اندر داخل کر دیا۔ کمیشن کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق بھارت نے مارچ 1971ء سے اکتوبر 1971ء تک غنڈوں‌کو بڑے پیمانے پر شورش پھیلانے ، زرائع مواصلات کو تباہ کرنے اور مشرقی پاکستان کے امن پسند اور محب وطن عناصر میں خوف و دہشت پیدا کرنے کی تربیت دے کر بھیجا۔

25۔ اس کے ساتھ بھارت نے مشرقی پاکستان کے دیہات پر گولہ باری شروع کر دی۔ بینا پول (جیسر) ہلی (دینا پور)‌برنگ مانی( رنگ پور) کمال پور( میمن شاہی) اتگرام ، ذکی گنج اور دملائے (سہلٹ) سلاندری(کومیلا) بیلونیا( نواکھلی) اور رام گڑھ (چٹاگانگ) سے ایسے واقعات کی مصدقہ اطلاعات ملی ہیں اس گولہ باری سے نہ صرف ہمارے عالمی سرحدوں کی کھلی خلاف ورزی کی گئی بلکہ سرحدی علاقوں‌میں اس حد تک خوف ہراس پھیل گیا کہ لوگ بڑے پیمانے پر بھارت ہجرت کرنے لگے۔ بھارت کے جارحیت پر مبنی ان اقدامات سے مہاجریں کی مشرقی پاکستان واپسی میں بھی رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ حالانکہ صدر مملکت نے واپسی کے خواہش مند ایسے تمام شہریوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ جو سیاسی مشکلات کیوجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ پس بھارت ایک طرف تو مہاجریں کے مسئلے اور بنگلہ دیش کے بحران کےسیاسی حل کے لیے اپنی آرزو مندی کا شور مچائے ہوئے تھے۔ اور دوسری طرف ان دونوں امور کی تکمیل روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش میں لگا ہوا تھا۔

26۔ اپنے اشتعال اور مخالفانہ اقدامات کے ساتھ ایک ہی وقت میں‌ بھارت اور مغربی پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ اپنی افواج کو جمع کرنا شروع کرکے جان بوجھ کر دھماکہ خیز صورتحال پیدا کردی۔ بھارتی آرٹلری کی گولہ باری کے علاوہ فضائیہ نے بھی مشرقی پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں جبکہ بھارتی بحریہ کی مداخلت سے چٹاگانگ ، کھلنا اور کراچی کی بندرگاہوں تک ہمارے جہازوں کی رسائی کو حقیقی خطرہ لاحق ہو گیا۔

27۔ ان نازک مہینوں میں پاکستان نے صورتحال کو پرسکون کرنے کے کئی اقدمات کیے۔ جن میں‌ بھارت جانے والے شہریوں کے لیے عام معافی کا پہلے ہی ذکر کیا جا چکا ہے ۔ حکومت نے مہاجرین کی واپسی میں سہولت کی خاطر استقبالیہ مراکز قائم کیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشن برائے مہاجرین کے نمائندوں کا خیر مقدم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تاکہ یہ ادارہ مہاجرین کے مسئلہ کی نوعیت اور ان کی صحیح تعداد کا اندازہ لگا سکے۔ حکومت نے کئی غیر ملکی پارلیمانی گروپوں اور صحافیوں کو سرحد کا دورہ کرنے کی اجازت دی تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے حالات دیکھ سکیں۔ دفاعی پہلو پر حکومت نے سرحدوں کے دونوں اطراف سے افواج کی واپسی اور یہاں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی تعیناتی کی تجویز پیش کی۔ بھارت کی طرف سے انکار پر پاکستان نے یکطرفہ طور پراقوام متحدہ کے مبصرین کو سرحد کے اپنی طرف قبولکرنے کی پیشکش کی لیکن نہ تو بھارت نے یہ تجاویز قبول کیں اور نہ عالمی برادری نے انہیں منوانے کے لیے بھارت پر کوئی دباؤ ڈالا۔

28۔ جب دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ رہی تھی تو بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے پاکستان کے خلاف اپنے جارحانہ عزائم کے متعلق حمایت حاصل کرنے کی خاطر اکتوبر نومبر 1971ء میں مغربی ممالک کا جامع دورہ کیا ۔ انہوں نے بار بار بھارت پر مشرقی پاکستان کے مہاجرین کے ناقابل برداشت معاشی بوجھ اور اخلاقی سیاسی اور معاشرتی دباؤ کا تذکرہ کیا۔ دورے سے قبل انہوں نے اپنی کابینہ کے تقریباً تمام وزراء اور دوسرے اعلی حکام کو پاکستان کے خلاف سیاسی اور معاشی حمایت کے لیے دوسرے ممالک میں روانہ کر دیا۔

25 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے آغاز سے ہی اہم بھارتی رہنما مثلا جے پی نرائین ، وزیر دفاع جگجیون رام ، وزیرسیاحت ڈاکٹر کرن سنگھ ، وزیر خزانہ وائی بی چوان اور خارجہ پالیسی ساز کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر پی دھر نے آزاد بنگلہ دیش کی حمایت میں مسلسل بیانات دینے شروع کر دیئے۔ اور اس بات پر اصرار کیا کہ بھارت کے لیے صرف واحد قابل قبول حل وہی ہوگا جس کاشیخ مجیب نے مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو کھلی جنگ کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں سب سے پہلے بھارتی وزیراعظم نے 18 مئی 1971ء میں یہ اعلان کرکے اس بات کا اشارہ دیا کہ(بھارت پاکستان کے ساتھ لڑائی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے)۔

13 جون کو بھارتی وزیر صنعت نے ہیگ میں کہا کہ (میرے ملک میں عوامی رائے یہ ہے کہ پاکستان کےساتھ جنگ مہاجرین کو امداد دینے سے زیادہ سستی پڑے گی۔)

25 جون کو وزیر خارجہ سورن سنگھ نے حکمران کانگریس پارٹی کے اجلاس کو بتایا کہ (اگر بنگلہ دیش کے بحران کا کوئی اطمینان بخش حل نہ نکلا تو بھارت کو اپنے طور سے کاروائی کرنا ہوگی)

9 اگست 1971ء کو بھارت روس معاہدے پر دستخط کے بعد سورن سنگھ نے لوک سبھا میں بیان دیا جس میں انہوں نے کہا ( بھارت روس معاہدہ ہمیں بنگلہ دیش میں‌ یکطرفہ ایکشن ینے سے نہیں روکتا)۔

اس بارے میں ایک اہم بیان بھارتی وزیر محنت و بحالیات آر کے خادیکر کا ہے جب انہوں‌ نے 22 اگست 1971ء کو اعلان کیا (بھارت روس معاہدے سے بنگلہ دیش میں آزادی کی قوتوں کو تقویت ملی ہے)

30۔ بھارتی حکومت کئی طریقوں سے صورتحال کو خراب سے خراب تر بناتی رہی۔ جب یہ پڑھنے میں آیا کہ کلکتہ میں پاکستان ہائی کمیشن کے کئی بنگالی اہلکار بنگلہ دیش کے ساتھ مل گے ہیں تو اس وقت بھارتی حکومت نے نہ صرف پاکستانی ڈپٹی ہائی کمنشر کو ان اہلکاروں سے ملنے نہ دیا بلکہ ڈپٹی کمشنر کی نقل و حرکت پر شرمناک پابندی عائد کرکے ان کا بطور سفارت کار جینا دوبھر کر دیا۔ نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمشنر کو بھی مروجہ سفارتی مراعات اور تکریمات نہ دی گئیں ۔ تقریباً اس وقت بھارت نے علیحدگی پسند عوامی لیگ کے راہنماؤں کو کلکتہ میں نام نہاد بنگلہ دیش حکومت کرنے پر اکسایا اور جلدی میں 6 دسمبر کو یہ نام نہاد حکومت سفارتی طور پر تسلیم کر لی گئی۔
 
31۔ اس حصے کو ابھی تک خفیہ رکھا گیا ہے۔

32۔ ہم نے جو کچھ لکھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکتوبر اور نومبر 1971ء تک یہ واضح‌ ہو چکا تھا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ اپنی روایتی دشمنی کے باعث کھلی جنگ کی طرف جارہا ہے۔ بھارتی راہنماؤں کے بیانات ، سفارتی سرگرمی نے روس کے ساتھ معاہدے ، پاکستان کے دونوں بازوؤں پر فوج کے اجتماع ، صورتحال کو ٹھڈا کرنے کے لیے تمام معقول تجاویز کورد کرنے اور مشرقی پاکستان میں ریاست مخالف قوتوں کو مسلسل تربیت اور ہتھیار دینے کے اقدامات سے براہ راست کھلی جنگ کا نتیجہ یہ نکالا جاسکتا ہے۔ ہمارا دفتر خارجہ اور فوج کی خفیہ ایجنسیاں اس نتیجہ پر پہنچی تھیں اور اس وقت کے صدر آغا محمد یحیی خان اس بات سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ ہمیں جنرل یحیی کے کمشن کے سامنے اس بیان سے انتہائی حیرت ہوئی جب انہوں نے کہا کہ (میرا خیال تھا کہ بھارت کھلی جنگ شروع نہیں کرے گا)۔ اس مہم جوئی سے نمٹنے کے لیے جنرل یحیی کے دماغ میں جو غلط اندازے قائم تھے ان غلط اندازوں پر قائم اس اثرورسوخ کا تعین کرنا آسان نہیں جو اس مہم جوئی کے خلاف قوم اور مسلح افواج کی تیاری کے لیے جنرل یحیی کے اقدامات اور فیصلوں پر غالب تھا ۔ ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں اگر جنرل یحیی ایسی کسی غلط فہمی میں مبتلا رہے تو وہ بھارتی عزائم اور تدابیر سمجھنے میں یکسر ناکام ثابت ہوئے۔


(صفحہ 145 سے لے کر 212 تک کو خفیہ رکھا گیا ہے۔
 
باب x

غیر ملکی اخبارات اور تشہیر


مشرقی پاکستان میں سیاسی بحران اور نتیجہ کے طور پر قومی ایکشن کو دنیا بھر میں توجہ حاصل ہوئی۔ فوجی کاروائی کے وقت ڈھاکہ میں موجود بڑی تعداد میں غیر ملکی صحافیوں کو مارشل لا حکام نے بلاتمیز باہر پھینک دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام غیر ملکی میڈیا سرحد پار سے بھارتی معلومات پر انحصار کرنے لگا۔ عالمی پریس بالخصوص امریکی اور برطانوی اخبارات نے پاک فوج کے ہاتھوں خفیہ قتل عام ، زیادتیوں ، لوٹ مار ، آتشزنی کی ہولناک کہانیاں نمایاں طور پر شائع کیں۔ مشرقی پاکستان سے مہاجرین کے بڑے پیمانے پر بھارت انخلاء‌ اور بھارتی پروپیگنڈہ نے عالمی برادری کی نظروں میں پاکستان کے تصور کو دھبا لگا دیا۔ یہاں عالمی پریس کی رپورٹوں کو تفصیلاً بیان کرنے کی ضرورت نہیں‌ بلکہ ان کے چند اقتباسات ہی کافی ہیں۔ عالمی اخبارات کی تنقید کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان فوجی اور سیاستدانوں کے دباؤ کے زیر اثر صدر یحیی نے مشرقی پاکستان کی آبادی کو مذکرات کے ذریعے جھوٹے احساس تحفظ میں رکھ کر ان پر اچانک حملہ کیا انہوں‌ نے صوبائی خود مختاری مانگے والی اکثریتی آبادی کو دبانے اور نیست و نابود کرنے کے لیے جنگ شروع کر دی ۔ یہ سب کچھ انہوں نے طاقتور اقلیت کے مفادات کے تحفظ کی خاطر کیا۔

3۔ برطانوی اخبار (روزنامہ اسکیچ)‌29 مارچ 1971ء کے شمارے میں لکھتا ہے کہ:

(جب گنگا ، ڈیلٹا کے لوگ سیلاب اور قحط سے تباہ حال تھے تو یحیی خان اس وقت امدادی کاروائیوں کے لیے اپنے طیارے اور فوجی بھیجنے سے ہچکچاتے رہے، جب انہی لوگوں نے اپنے راہنما شیخ‌ مجیب کو بے پناہ جمہوری حمایت فراہم کرنے کی جرات کی تو اب یحیی خان کی ٹینک اور دستے حرکت میں‌ آگئے ہیں۔)

4۔ ٹائمز آف لندن نے 29 مارچ 71 کے شمارے میں کہا کہ (پاکستنا فوجی حکومت کی شیخ مجیب اور ان کے عوامی لیگ کو کچلنے اور مشرقی پاکستان میں کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش تباہ کن ہوسکتی ہے۔ اس سے مشرقی پاکستان میں شدت پسندوں کے ان دلائل کی تائید ہوگئی کہ مغربی حصے کے غلبے پر مبنی مرکزی حکومت کے ساتھ بقائے باہمی ناممکن ہوگیا ہے۔ اور اس کا ایک ہی حل ہے کہ کسی بھی طرح آزاد بنگلہ دیش حاصل کر لیا جائے)

5۔ برطانیہ کے روزنامہ ٹیلگراف نے 29 مارچ کو نئی دہلی سے اپنے نامہ نگار کی بھیجی ہوئی یہ رپورٹ شائع کی کہ (بیرونی دنیا سے کٹے صوبے سے حاصل تمام اطلاعات کے مطابق مشرقی پاکستان میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں جاری ہیں ڈھاکہ میں موجود سفارتی مشنوں سے ریڈیوں پر رابطہ رکھنے والے ذرائع کے مطابق 70 ہزار پاکستانی فوجی بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کو بے رحمی سے دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ 10 ہزار سے ایک لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا گیا مرنے والوں کی تعداد جتنی بھی ہو لیکن صوبے میں بے رحمانہ طریقہ سے اپنی مرضی مسلط کرنے کے فوجی عزائم میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا)
 
6۔ نیویارک ٹائمز یکم اپریل 1971ء کو لکھتا ہے (امریکی انتظامیہ الزام لگارہی ہے کہ اسے مشرقی پاکستان میں‌ بھاری خون ریزی کی رپورٹیں مل رہی ہیں جنہیں وہ ظاہر نہیں کر رہے پاکستان ک باہر سے آنےوالی محکمہ دفاع کے نام ایک کیبل گرام میں تو لفظ (چن چن کر نسل کشی ) استعمال کیا گیا ہے)

7۔ حکومت نے ان مضر کہانیوں کی روک تھام کے لیےکچھ نہیں کیا۔ جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس شعبہ میں‌ ہمارے غیر موثر ہونے کی وجہ نہ صرف ہماری اطلاعاتی ایجیسیوں کی نااہلی یا کوتاہی ہے بلکہ بحران کی وسعت اور کئی مہینوں کی طوالت بھی ایک وجہ ہے۔ یہودی مفادات کے زیرتسلط عالمی اخبارات میں پاکستان اور مسلمان مخالف بغض ، جبکہ جمہوری معاشروں میں فوجی حکومتوں کے خلاف عالمگیر نفرت اور بدگمانی بھی وجوہات میں شامل ہیں یہ بات اہم ہے کہ مشرقی پاکستان کے حالات و واقعات کے بارے میں‌ حکومتی وائٹ پیپر بھی فوجی کاروائی شروع ہونےکے 5 ماہ بعد اگست 71 ء میں جاری ہوا۔ اس وقت تک عالمی پریس میں گردش کرنے والی رپورٹیں اس حد تک جڑیں پکڑ چکی تھیں کہ کوئی بھی شخص جنرل یحیی کے وائٹ پیر والے موقف سے متفق نہیں تھا۔

8۔ برادر اسلامی ممالک سمیت کچھ ملکوں میں ہمارے حق میں بات کی گئی انہوں نے ملکی سلامتی کے لیے جنرل یحیی کے فوجی اقدام کو حق بجانب قرار دیا اور عوامی لیگ کے علیحدگی پسندانہ موقف کی مذمت کی۔ لیکن ان کلمات کے باوجود مشرقی پاکستان کے بحران کو خصوصا انسانی ہمدردی کی بنا پر بین الاقوامی موضوع بننے سے روکا نہ جاسکا۔

9۔ صدر یحیی نے دیر سے نقصان کی تلافی کے لیے غیر ملکی نمائندوں کو اور دوسرے ممالک کے پارلیمانی وفود کو مشرقی پاکستان کے دورہ کی اجازت دی۔ وزارت خارجہ نے بھی بیرونی ممالک میں سفارت خانوں کو پاکستانی نقطہ نظر اجاگر کرنے کے لیے پمفلٹ اور سرکلر ارسال کیے۔ لیکن اس وقت تک بھارتی حکومت مشرقی پاکستان کے خلاف نپی تلی جارحیت کی تیاری کر چکی تھی۔

10۔ بھارت کی جارحیت کے ابتدائی مرحلے پر دنیا میں پاکستان کے لیے کم ہی ہمدردی پائی جاتی تھی۔ اور نہ ہی علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں محب وطن بنگالیوں اور بہاریوں کی تکالیف پر توجہ مرکوز کی گئی۔

11۔ عالمی پریس کے سانحہ مشرقی پاکستان سے برتاؤ سے ایک چیز کھل کر سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی حکومت عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کرکے اس طرح کے حالات پر قابو نہیں پاسکتی اور نہ ہی وہ اپنی سرحدوں کے اندر ہونے والے اہم واقعہ کے بارے میں‌ مستند خبروں اور اطلاعات کا بلیک آؤٹ کر سکتی ہے۔ مہذب قومیں اب تنہائی میں وجود قائم نہیں رکھ سکتیں اس لیے حکومت کے لیے لازمی ہے کہ غیر ملکی تشہیر کا شعبہ مضبوط بنائے اور اس کے ساتھ حکومت کو صحیح تناظر میں درست حائق بیان کرنے کی جرات کا مالک ہونا چاہیے۔
 
اقوام متحدہ

1۔ مشرقی پاکستان میں 21 نومبر 1971ء کو بھارتی جارحیت کے بعد پیدا ہونے والے بحران کے حوالے سے قیام امن کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے کردار کا جائزہ لینے کے لیے ہم نے اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر آغا شاہی سے درخواست کی کہ وہ اقوام متحدہ میں ہونے والے مختلف واقعات اور کوششوں کا مفصل اور جامع احوال بیان کریں۔ جس پر آغا شاہی نے ایک انتہائی دلچسپ بیان ارسال کیا جو مشرقی پاکستان کے بحران کے حوالے سے امریکہ ، روش ، برطانیہ ، فرانس ، اور ایشیائی ملکوں کے کردار کو واضح کرتا ہے۔ یہ بیان ویٹو پاور رکھنے والے ممالک سلامتی کونسل کے مستقل ممبران کے ادارے میں غیر معمولی اہمیت اور جنگ میں مصروف دو رکن ممالک کے درمیان قیام امن کے لیے جنرل اسمبلی کی اہمیت بھی واضح کرتا ہے۔ حالانکہ جنرل اسمبلی میں 104 ممالک نے اس مسئلے پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی لیکن اس کے باوجود سوویت یونین نے سلامتی کونسل کے بار بار ویٹو کرکے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کی تمام بروقت کوششوں کو ناکام بنا دیا۔

2۔ خفیہ رکھا گیا ہے۔

3۔ مارچ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان کا بحران شروع ہوا تو پاکستان نے موقف اختیار کیا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اس لیے اقوام متحدہ یا اس کا کوئی ذیلی ادارہ کسی قسم کی سیاسی حتی کہ انسانی بنیادوں پر بھی مداخلت کا حق نہیں رکھتا بعد ازاں اس میں ترمیم کرکے انسانی بنیادوں پر امداد کے حق کو تسلیم کر لیاگیا۔

4۔ پاکستان کو اپنے اس موقف میں کامیابی حاصل ہوئی اور اس نے مارچ کے آخر سے جولائی تک اقوام متحدہ کی سیاسی مداخلت کو روکے رکھا۔ بھارت نے سلامتی کونسل کو اس معاملے میں لانے کی کوشش کی جو ناکام رہی جس کے بعد اس نے SOC, ECOمیں اس معاملے کو بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے طور اٹھایا مئی میں چند رکن ممالک کی حمایت کے باوجود بھارت پاکستان کے خلاف کسی مشترکہ اعلامیے یا قرارداد منظور کرانے میں ناکام رہا۔

5۔ لیکن بحران کی سنگینی خاص طور پر بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور مہاجرین کے سرحد پار کرنے کی رپورٹوں کے ناگزیر اثرات مرتب ہوئے اور بین الاقوامی برادری کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز ہوگئی۔آہستہ آہستہ (اندرونی مسئلہ) پر مبنی پاکستانی موقف کمزور پڑتا گیا اور دنیا کی رائے ہمارے خلاف ہوتی چلی گئی۔ 23 جون کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر بنرائے مہاجرین پرنس صدر الدین آغا خان نے مشرقی پاکستان کے مسئلے کے سیاسی حل کی اپیل کر دی جو اس وقت اقوام متحدہ میں پای جانے والی عام سوچ کی عکاس تھی۔

6۔ 20 جولائی کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جو اس سے پہلے انسانی بنیادوں پر مشرقی پاکستان کے بحران پر تشویش ظاہر کر چکے تھے سیکورٹی کونسل کے صدر کو تمام ارکان میں تقسیم کرنے کے لیے ایک خفیہ یاداشت بھیجی جس میں ارکان کی توجہ معاملے کی سنگینی کی طرف مبذول کرائی گئی اسے بین الاقوامی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔

7۔ اس موقع پر حکومت پاکستان کچھ عرصہ اقوام متحدہ کی مداخلت کی مزاحمت کرتی رہی لیکن کچھ دن بعد پاکستان نے کہہ دیا کہ سیکورٹی کونسل کا اجلاس تصادم کے روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم اس وقت تک سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے باقاعدہ درخواست کا فیصلہ نہیں کیا گیا تھا اور کونسل کے ارکان اپنے طور پر اجلاس بلانے سے گریزاں تھے۔ ان کے خیال میں پاکستان اور بھارت اس معاملے پر اس قدر متضاد خیالات رکھتے ہیں کہ کوئی مثبت حل نکلنے کی امید بہت کم تھی۔

8۔ اس صورتحال میں حکومت نے تجویز پیش کی کہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے سیکورٹی کونسل کی ایک کمیٹی کو بھارت اور پاکستان کا دورہ کرناچاہیے اس تجویز کو سیکورٹی کونسل کے کچھ ہمدرد غیر مستقل ارکان کی حمایت حاصل تھی تاہم مستقل ارکان نے اس کو شک کی نظر سے دیکھا جبکہ سوویت یونین نے اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔

9۔ 20 اکتوبر کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھارت اور پاکستان دونوں کو معاملہ سلجھانے میں مدد کی پیشکش کی۔ جس کے جواب میں 22 اکتوبر کو صدر نے اس کا خیر مقدم کیا اور 22 اکتوبر کو اپنے جواب میں تجویز پیش کی کہ دونوں ملک باہمی رضا مندی سے فوجیں ایک خاص فاصلے تک پیچھے ہٹا لیں۔ بھارت نے یہ تجویز ماننے سے انکار کر دیا۔

10۔ اس کے بعد سے لے کر 3 دسمبر کو مشرقی محاذ پر جنگ شروع ہونے تک پاکستان سیکرٹری جنرل سے مداخلت کی اپیلیں کرتا رہا لیکن سیکریڑی جنرل سیکورٹی کونسل کے مینڈیٹ کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
 
جنگ

(جنگ کے حوالے سے اقوام متحدہ میں ہونے والی کاروائی کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ 21 نومبر کو مشرقی پاکستان میں بھارتی جارحیت سے لے کر 3 دسمبر میں کھلی جنگ کے آغاز تک کےعرصہ پر مشتمل ہے ، دوسرا حصہ 3 دسمبر سے 10 دسمبر پر محیط ہے جب اقوام متحدہ میں موصول ہونے والے جنرل فرمان علی کے پیغام کو ہتھیار ڈالنے پر آمادگی کا انحصار سمجھا گیا۔ تیسرا حصہ 10 دسمبر سے 17 دسمبر کو جنگ بندی تک ہے جبکہ آخری حصہ فائر بندی سے لے کر 21 دسمبر تک کا ہے جب سیکورٹی کونسل نے قرارداد نمبر 1971،307 منظور کی۔

پہلا حصہ

12۔ اس حصے میں حکومت کی طرف سے سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ کمیشن کے خیال میں ایسا اس لیے نہیں کیا گیا کہ حکومت کو اس بات کا ڈر تھا کہ سیکورٹی کونسل کی طرف سے کوئی ایسا حل نہ پیش کر دیا جائے جو حکومت کے لیے ناقابل قبول ہو۔

دوسرا حصہ

13۔ مغربی پاکستان میں جنگ کے آغاز کے بعد سیکورٹی کونسل کا اجلاس امریکہ کی درخواست پر منعقد ہوا۔ پاکستان نے کونسل میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے مشرقی حسے میں مسلح مداخلت کی اور بعد ازاں کھلی جارحیت کا ارتکاب کیا ۔ پاکستان نے مطالبہ کیا کہ اس جارحیت پر بھارت کی مذمت کی جائے۔ فائر بندی عمل میں لاتے ہوئے فوجیں واپس بلائی جائیں دوسری طرف بھارت کا موقف مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل تھا۔

الف) پاکستان مشرقی حصے میں لوگوں کی نسل کشی کر رہا ہے

ب) مہاجرین کسی ایسے سیاسی حل کے بغیر واپس آنے پر آمادہ نہیں جو مشرقی پاکستان کے منتخب نمائندوں کے لیے قابل قبول ہو۔

ج) فوری طور پر ایسا حل تلاش کرنا ناگزیر ہے

د) بھارت نے پاکستان پر مغربی محاذ میں جنگ چھڑنے کا الزام بھی عائد کیا ۔

ر) سیاسی تصفیے کے بغیر مشرقی محاذ پر کشیدگی کم نہیں ہوسکتی۔

14۔ اس موقع پر سیکورٹی کونسل کے ارکان تین مختلف آراء میں بٹ گئے۔ پہلا گروپ جو اکثریت میں تھا امریکہ کی مجوزہ قرارداد S/10416کے حق میں‌تھا جس میں فوری جنگ بندی اور فوجوں کی واپسی پر زور دیا گیا ۔ یہ قراداد پاکستان کے حق میں‌ تھی۔ اس موقع پر چین نے بھارت کو پاکستان پر جارحیت کا مرتکب قرار دیا۔ کونسل کے ارکان کی اکثریت نے فوری طور پر جنگ بند کرنے اور کونسل کی طرف سے ان مضمرات پر خصوصی توجہ کی ضرورت پر زور دیا جو اس صورتحال کا باعث بنے۔ چین ، صومالیہ اور ارجنٹینا نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرزمین سے فوجیں واپس بلا لیں۔

15۔ دوسرا موقف سویت یونین کا تھا جس نے اپنی الگ مجوزہ قرارداد کا مسودہ پیش کیا۔ قرارداد S/10417میں کہا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں سیاسی تصفیہ عمل میں لایا جائے جس کے نتیجے میں کشیدگی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ حکومت پاکستان سے کہا گیا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان میں موجود افواج کو تشدد سے روکے یہ یکطرفہ موقف پاکستان کے بالکل خلاف اور بھارت کے حق میں تھا۔

16۔ تیسرا موقف برطانیہ اور فرانس کے نمائندوں کا تھا۔ انہوں‌ نے کہا کہ وہ صرف اس قرارداد کی حمایت کریں گے جسے سوویٹ یونین ویٹو نہ کرے۔ دراصل اس موقف نے بھارت کی پوزیشن مستحکم بنائی۔

17۔ امریکہ کی قرارداد کے حق میں 11 ووٹ آئے لیکن سوویت یونین نے اسے ویٹو کر دیا۔ روس کی قرارداد کے حق میں صرف 2 اور مخالفت میں ایک وٹ پڑا جبکہ 12 ارکان نے اس پر رائے کا اظہار ہی نہیں کیا۔

18۔ دو قراردادوں نے کونسل کے زیادہ تر ارکان کو مایوس کیا ان کے خیال میں ایک متوازن اور موثر قرارداد میں تین باتوں کا ہونا ضروری تھا۔

I.فائر بندی

II. فوجوں کی واپسی

III.سیاسی تصفیہ

کونسل کے 8 غیر مستقل ارکان نے مل کر ایک قراداد کا مسودہ تیار کیا۔ جس میں قرارداد کا اصل متن اوپر بیان کئے گئے پہلے دونوں نکات پر مشتمل تھا جبکہ تیسرا نکتہ یعنی سیاسی تصفیہ کو قرارداد کا افتتاحیہ بنایا گیا تھا۔ اس مجوزہ قرارداد نے بھی 11 ووٹ حاصل کئے دو مخالفت میں آئے جبکہ برطانیہ اور فرانس نے رائے شماری میں حصہ نہ لیا۔
 
19۔ دو دفعہ ویٹو کا حق استعمال کرنے کے بعد روس نے اپنے یکطرفہ موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے اسے قدرے متوازن بنایا اور ایک نئی قرارداد S/10428 پیش کی۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی دنیا کی امن و سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے قرارداد میں دونوں پارٹیوں پر زور دیا گیا کہ وہ فوری جنگ بندی عمل میں لائیں جبکہ پاکستان سے کہا گیا کہ وہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق سیاسی تصفیہ کرے جس کا اظہار انہوں‌ نے 1970ء کے عام انتخابات میں کیا ہے۔ تاہم سوویت یونین نے یہ قرارداد رائے شماری کے لیے پیش نہیں‌ کی کیونکہ اس کے منظور ہوجانے کی کوئی امید نہ تھی۔ حکومت پاکستان کی ہدایت کے مطابق ہم نے روسی تجاویز کی مخالفت کی کیونکہ ان تجاویز کو ماننا اسی طرح تھا کہ بھارتی جارحیت کے زیر اثر مشرقی پاکستان کو فوری طور پر پاکستان سے الگ کر دیا جائے۔

20۔ اس مرحلے پر کونسل کے غیر مستقل ارکان روس کے مسلسل ویٹو کرنے اور لمبی تقریروں کے ذریعے تاخیری حربے استعمال کرنے کی روش سے عاجز آچکے تھے لہذا وہ معاملے کو جنرل اسمبلی میں پیش کرنے پر متفق ہوگئے۔ اس فیصلے کے حق میں 11 ووٹ آئے جبکہ برطانیہ فرانس پولینڈ اور روس نے رائے شماری میں حصہ نہ لیا۔

21۔ جنرل اسمبلی نے 7 دسمبر کو قرارداد 2793xxviمنظور کرلی جس کے حق میں 104 اور مخالفت میں 11 ووٹ آئے جبکہ 10 ملکوں‌ نے رائے شماری میں‌ حصہ نہیں لیا۔ اس قراداد کا مسودہ دراصل سیکورٹی کونسل کے غیر مستقل ارکان کی طرف سے تجویز کی جانے والی قرادادS/10423جیسا ہی تھا جسے سوویت یونین نے 5 دسمبر کو ویٹو کر دیا تھا۔

22۔ دوسرے مرحلے میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ بھارت کی مسلح جارحیت اور مداخلت کی بنیاد پر پاکستان وقف کو جنرل اسمبلی میں غیر معمولی حمایت حاصل رہی۔ سیکورٹی کونسل کی کاروائی میں بھی بھارت کو کوئی سیاسی سہولت نہیں دی گئی ۔ حالانکہ سوویت یونین نے ویٹو کرکے فوری جنگ بندی اور فوجوں کی واپسی کی کوشش کو ناکام بنا دیاتھا۔ اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ کہ یہ سب کچھ اس لیے ممکن تھا کیونکہ اس وقت پاکستان عزم و حوصلے کے ساتھ بھارتی جارحیت کا مقابلہ کر رہا تھا ۔

تیسرا مرحلہ

23۔ ہماری یہ پوزیشن جو سیاسی سودے بازی کے لیے انتہائی ضروری تھی 10 دسمبر کو اس وقت اچانک ختم ہوگئی جب ڈھاکہ میں جنرل فرمان علی نے سیکرٹری جنرل کے نمائندے سے پالمئیر ہنری کو ایک تحریری پیغام دیا۔ جس کے بعد مشرقی پاکستان کے گورنر مالک نے اپنی تجاویز بھیج دیں اور وہاں پر سیکرٹری خارجہ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ گورنر حکومت کی ہدایت کے بغیر بھی ایسا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ سیکرٹری جنرل کو یہ پیغام نہیں پہنچنےدیا گیا جبکہ سیکرٹری سے کہہ دیا گیا کہ جنرل فرمان کی تحریر کو نظرانداز کر دیا جائے۔ ان دو تجاویز کے منظر عام پر آنے سے خواہ یہ متضاد تھیں یہ بات صاف ہوگئی کہ پاکستان زیادہ دیر تک جنگ میں نہیں ٹک سکے گا۔ جنرل فرمان کے پیغام کا مدعا سیکورٹی کونسل کےمستقل ارکان کے علم میں آچکا تھا۔

24۔ ذوالفقار علی بھٹؤ جسیے ہی 10 دسمبر کو نیویارک پہنچے فرمان علی ملک کے پیغام کی خبر ان تک پہنچی ۔ انتہائی صدمے کی حالت میں انہوں نے فوری طور پر سابق صدر کوایک تار ارسال کیا جس میں‌ کہا گیا تھا کہ فرمان علی کی پیشکش پورے (پاکستان کے شرمناک خاتمے کے مترادف ہے) اور وہ (ذوالفقار علی بھٹو) ہتھیار پھینکنے کے ایسے ذلت آمیز عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ بھٹو نے صدر یحیی پر زور دیا کہ وہ ان باتوں پر سختی سے قائم رہیں جن کا فیصلہ ان کے نیویارک آنے سے پہلے بحث و مباحثے کے بعد کر لیا گیا تھا۔ بعد کے پیغامات میں انہوں‌ نے یہ تجویز کیا کہ امریکہ اور چین کو اس بات پر متفق کیا جائے کہ وہ معاملے کو کچھ دیر کے لیے ٹال دیں اور اگر ممکن ہو تو کم از کم ایک ہفتے کے لیے میدان جنگ میں پاکستان کی پوزیشن مستحکم بنا دیں۔

25۔ 21 دسمبر کو بھٹو نے امریکہ اور چین کے وفود سے طویل صلاح مشورے کیے۔ اس بات کا فیصلہ کیاگیا کہ سیکورٹی کونسل کا اجلاس فوری طور پر بلایا جائے اور قرارداد فوری طور پر منظور کر لی جاے جس کا متن کم و بیش ویسا ہی ہو جیسا جنرل اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد کا تھا۔ سوویت یونین کے ویٹو کر دینے کے بعد عام فائر بندی پر مبنی ایک قرارداد پیش کی جائے۔
 
26۔ بھٹو کے ہنگامی پیغامات کے جواب میں صدر یحیی نے یہ پیغام بھیجا کہ فرمان علی کے پیغام کووہیں‌ دبا لیا گیا ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں اور صدر کی پیشکش صرف جنگ بندی تک محدود ہے۔ صدر نے یہ بھی کہا کہ فوج کو مزید ایک ہفتہ تک مصروف جنگ رکھنا پاکستان کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوگا۔ ان کے ٹیلی گراموں میں بلاتاخیر فوری جنگ بندی کی ناگزیریت پر زور دیا گیا تھا۔ ایک اور تار میں‌ صدر نے امریکی اور چینی وفود سے بات چیت کے نکات پر اتفاق ظاہر کیا

27۔ 12 دسمبر کو جبکہ صورتحال تیزی سے مایوس کن ہوتی چلی جارہی تھی بھٹو نے صدر یحیی پر زور دیا کہ وہ آخری امید کے طور پر چین جا کر انہیں پاکستان کو بچانے کے لیے مداخلت پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں۔

28۔ سیکورٹی کونسل کا اجاس 12 دسمبر کو دوبارہ ہوا۔ بھارت کے وزیر خارجہ مطالبہ کر رہے تھے کہ بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) کے منتخب نمائندوں کو بھی اجلاس میں آنے کی دعوت دی جائے کیونکہ نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ مغربی حصے میں‌ بھی جنگ بندی کی کسی تجویز پر موثر عملدرآمد کے لیے ان کی موجودگی لازمی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے معاملے کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے اس کی اہمیت کو واضح کیا انہوں نے کہا کہ (ریاستوں‌کو ان کی غلطیوں کی سزا نہیں دی جاتی) انہوں نے سوویت نمائندے کے ان کے ملک کا وہ وعدہ یاد دلایا جس میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا اعادہ کیا گیا تھا جو انڈوسوویت معاہدے کو بنیاد بنا کر توڑ دیا گیا۔

29۔ سیکورٹی کونسل کی اب تک کی کاروائی میں یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ سوویت یونین یہ تہیہ کئے ہوئے ہے کہ وہ کسی ایسی قرارداد کو منظور نہیں ہونے دے گا جس میں جنگ بندی کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان میں‌ کسی سیاسی تصفیے کا پابند نہ بنایا گیا ہو۔ اس حوالے سے سوویت نمائندے کی طرف سے فرمان علی کے فارمولے کے بارے میں پسندیدگی کے اظہار پر مبنی ریمارکس قابل توجہ ہیں۔ ان حالات میں حکومت کی یہ امید غیر حقیقت پسندانہ تھی کہ وہ عام جنگ بندی کا ہدف حاصل کر لے گی۔ امریکہ کی مجوزہ قرارداد S/10446/Rev.1جس کا متن جنرل اسمبلی کی قرارداد 2793xxxviجیسا ہی تھا ایک دفعہ پھر سوویت یونین نے ویٹو کردی۔

30۔ سوویت یونین کی طرف سے تیسری مرتبہ ویٹو کئے جانے کے بعد فرانس اور برطانیہ کے نمائندوں نے امریکہ کو خفیہ طور پر اس بات پر زبردست تنقید کا نشانہ بنایا کہوہ ایک ایسی قرارداد منظور کرانے کی کوشش میں مصروف ہے جسے سوویت یونین کا ویٹو کرنا یقینی ہے۔ انہوں‌ نے اعلان کیا کہ وہ ایک تین نکاتی فارمولا پیش کریں گے جوتمام فریقوں کے لیے قابل قبول ہوگا۔ یہ فارمولا تین نکات پر مشتمل تھا۔

1۔ جارحانہ کاروائیوں کا فوری خاتمہ

2۔ فوجوں کی لڑائی کا خاتمہ

3۔ اور انصاف پر مبنی سیاسی تصفیہ

یہ بات صاف ظاہر تھی کہ یہ تینوں ممالک سقوط ڈھاکہ کے منتظر تھے تاکہ وہ پاکستان پر سیاسی تصفیہ مسلط کرکے بھارت اور سوویت یونین کے مقاصد کو پورا کر دیں۔ بھارت کی جانب سے مشرقی پاکستان میں موجود افواج کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے کے حوالے سے آنے والی خبروں میں‌ برطانیہ اور فرانس کے نمائندوں نے ایک قرارداد کامسودہ تیار کیاجس میں کہا گیاتھا۔

a.مغربی پاکستان میں فوری جنگ بندی عمل میں لائی جائے اور اس میں کشمیر کی کنٹرول لائن بھی شامل ہے جہاں افواج 1965ء والی پوزیشن میں واپس آجائیں۔

b.مشرقی پاکستان میں‌ پاک بھارت فوجی کمانڈروں کے درمیان جنگ بندی کے لیے فوری بات چیت۔

c.ان تمام اختلافات کے تصفیہ کے لیے جامع مذکرات جن کے باعث یہ بحران پیدا ہوا اسی نکتے میں اس بات کی وضاھت کی گئی کہ سیاسی تصفیہ مشرقی پاکستان کی خواہشات کے مطابق ہوگا۔

d.یہ قرارداد دونوں ملکوں کو اس بات کا پابند بناتی تھی کہ وہ اس سلسلہ میں سیکرٹری جنرل کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کو قبول کریں گے۔
 
31۔ اس دوران جب ہم اس قرارداد کے مسودے کو حتمی شکل دینے کی کوششوں میں مصروف تھے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے کمانڈر نیازی کی جنگ بندی کے لیے بھارتی چیف آف سٹاف سے ملاقات کی خبر اقوام متحدہ پہنچی۔ مشرقی پاکستان میں ہماری مکمل عسکری ناکامی کا اثر بحث مباحثے میں مصروف سیکورٹی کونسل کے ارکان پر بھی پڑا۔

32۔ اس موقع پر امریکی وفد نے ہمیں بتایا کہ وہ سوویت یونین کو سادہ جنگ بندی پر آمادہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اب یہ بات بالکل واضح تھی کہ ہم سیکورٹی کونسل سے کوئی ایسی قرارداد منظور نہیں کروا سکتے جس میں

a. پاکستان کے علاقائی استحکام کی ضمانت موجود ہو

b.اور اسے بھارت بھی تسلیم کر لے۔

بے نتیجہ طویل بحث مباحچے کو ملک کے عزت و وقار کے منافی جانتے بھٹو اس نتیجے پر پہنچے کہ ڈھاکہ میں ہماری قومی ذلت اور رسوائی اقوام متحدہ میں‌ بھی نہیں دہرائی جانی چاہیے۔ ہم نے سیکورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی درخواست کی جس سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے کہا۔ (میں جارحیت کو برحق قراردینے اور اپنے ملک کے ایک حصے کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کرنے کی کاروائی میں حصہ نہیں لوں گا) بھٹو اپنی تقریر مکمل کرنے کے بعد سیکورٹی کونسل چیمبر سے باہر نکل گئے۔

33۔ بھٹو کےاس دلیرانہ مظاہرے کو دشمن ممالک کے پریس نے بھی نہایت اچھے الفاظ میں دہرایا تمام چھوٹے ممالک کے وفود نے بھی اس کی بے انتہا تعریف کی۔ کچھ عرب ممالک کے نمائندوں نے خفیہ طور پر اس بات کا بھی اظہار کیا کہ بھٹو نے وہ کر دکھایا ہے جو 1967ء میں بالکل ایسی ہی فوجی شکست کے وقت وہ نہ کر سکے تھے۔

34۔ بھٹو کے واک آوٹ کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے گئے جب سیکورٹی کونسل کے اگلے اجلاس میں ایک رکن نے بھٹو کے اس عمل کو ان الفاظ میں حق بجانب قرار دیا کہ (بھٹو سیکورٹی کونسل کے مکمل جمود پر احتجاج کرنے میں حق بجانب تھے) اور یہ تجویز کیا کہ معاملہ دوبارہ جنرل اسمبلی میں لے جایا جائے۔ تیزی سے خراب ہوتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں بہت سی قراردادوں کے مسودے تیار کیے گئے پہلی قرارداد پولینڈ نے ، دوسری برطانیہ اور فرانس نے تیسری شام نے اور چوتھی سوویت یونین نے تجویز کی۔ ان تمام قراردادوں میں کسی نہ کسی حد تک سیاسی تصفیے پر ہی زور دیا گیا تھا۔

35۔ ان تمام قراردادوں میں سب سے زیادہ اہم برطانیہ اور فرانس کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد S/10455تھی اس قرارداد کے مطابق:

1۔ پائیدار قیام امن کے لیے مغربی محاذ پر مکمل اور فوری جنگ بندی عمل میں لا کر تمام جارحانہ کاروائیاں ختم کر دی جائیں اور اس کی اس وقت تک پابندی کی جائے۔جب تک اسی طرح کی فائر بندی مشرقی محاذ پر بھی عمل میں نہیں‌ آ جاتی ۔

2۔ مشرقی پاکستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے ایک ایسا فوری اور جامع سیاسی تصفیہ عمل میں لایا جائے جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور اصولوں کے عین مطابق ہو۔

36۔ اس دوران ہم اس قرارداد کے مسودے کو اپنے حق میں تبدیل کروانے کے لیے تگ و دو کر رہے تھے اور مسودے کی تحریر پر بحث و مباحثہ جاری تھا یہاں یہ خبر پہنچی کہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے کمانڈر نے فائر بندی کی درخواست کی ہے۔ بعد ازاں برطانوی سفارتکاروں نے ہمیں بتایا کہ وہ قرارداد کے مسودے میں فوجوں کے انخلاء کا اصول شامل کرانے سے قاصر ہیں۔

37۔ اب ہم نے ایک ایسی قرارداد منظور کرانے کے لیے کوشش شروع کر دی جس میں فوری جنگ بندی کے ساتھ جینوا کنونشن کی پاسداری کا اصول موجود ہو کیونکہ اس وقت محسوس کیا جارہا تھا کہ اس تبدیل شدہ صورتحال میں سیاسی تصفیے کے حوالے سے کسی نئی شک کی شمولیت خارج از امکان تھی۔ لہذا سوویت ویٹو کے خطرے کے پیش نظر سیکورٹی کونسل کے غیر مستقل ارکان نئی قرارداد پیش نہ کر سکے جس میں 16 ستمبر تک دونوں حصوں میں فائر بندی اور بعد ازاں فوجوں کی واپسی اور مقبوضہ علاقوں کی واپسی کا اصول موجود ہو۔
 
38۔ 16 دسمبر کو ذوالفقار علی بھٹو کو صدر یحیی کا تار موصول ہوا جس میں برطانیہ اور فرانس کی قرارداد کےمسودے سے اتفاق کا اظہار کیا گیا تھا تار میں کہا گیا تھا کہ اس اگر اس مسودے میں تبدیلی ممکن ہو تو یہ بھی بہتر ہوگا تاہم اگر یہ قرارداد منظور نہ ہو تو پھر محض جنگ بندی کے لیے کوشش کی جائے۔ اس سے پہلے کہ اس پیغام کے مطابق عمل کیا جاتا یہ خبر پہنچی کہ ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کر دیئے گئے ہیں۔ برطانیہ اور فرانس نے اپنی تجاویز پر آمادہ کرنے کی کوشش ترک کردیں۔ اسی دن کونسل کے دوسرے اجلاس میں بھارت کے وزیر خارنہ نے وہ بیان پڑھ کر سنایا جس میں یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

39۔ سوویت یونین نے بھارتی اعلان جنگ بندی کا کچھ کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے کے لیے قرارداد S/10458پیش کر دی جس میں مشرقی پاکستان میں جارحانہ اقدامات کے خاتمے کا خیر مقدم کرتے ہوئے دسمبر 1970ء کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے مشرقی پاکستان کے نمائندوں کو کسی رکاوٹ کے بغیر اختیارات کی منتقلی پر زور دیا گیا تھا۔ اس تجویز کا مقصد پاکستان پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ بھی بھارتی اقدام کا مثبت جواب دے اس قرارداد میں جموں و کشمیر میں 1965ء کی سیز فائز لائن سمیت تمام محاذوں پر جنگ بند کرنے کی اپیل بھی تھی۔

40۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد آناً فاناَ تبدیل ہوجانے والی صورتحال کے باعث تمام پچھلی قراردادیں بے کار ہو چکی تھیں اب میدان میں صرف سوویت یونین کی قرارداد باقی تھی۔ یہ بات انتہائی ضروری تھی کہ اس قرارداد کو موثر طریقے سے روکا جائے۔ لہذا ہم نے امریکہ سے درخواست کی کہ اس قرارداد کے مسودے کو استعمال میں لایا جائے جو سیکورٹی کونسل کے غیر مستقل ارکان نے تیار کی تھی اور بعد ازاں سوویت ویٹو کے خطرے کے پیش نظر پیش نہیں کی۔ امریکہ نے ہماری درخواست کا مثبت جواب دیا اور قرارداد S.10459.Rev1پیش کی ۔ جاپان بھی اس قرارداد کا شریک محرک تھا اس قرارداد کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔

1۔ تمام محاذوں پر فوری فائر بندی کی سختی سے پابندی کی جائے جب تک تمام مقبوضہ علاقوں سے فوجوں کی واپسی عمل میں نہیں آجاتی۔

2۔ تمام متعلقہ فریق انسانی جانوں کے تحفظ اور 1949ء کے جینوا کنونشن کی پاسداری کے لیے تمام ممکنہ اقدمات کریں۔ اور اپنے تمام تر اختیارات اور وسائل کو استعمال میں لا کر زخمی اور بیمار جنگی قیدیوں اور شہریوں کے مکمل تحفظ کو یقینی بنائیں۔

3۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اپنا ایک خصوصی نمائندہ مقرر کریں جو اس انسانی مسئلے کے حل کے لیے کوششیں بروئے کار لائے۔

41۔ حالانکہ اس قرارداد میں‌ سوویت یونین کی خواہش کے مطابق فائر بندی کی نگرانی سے متعلق کوئی شق شامل نہ تھی اس کے باوجود اس نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔ اب سوویت یونین کو تمام مقبوضہ علاقوں سے فوجوں کی فوری واپسی پر اعتراض تھا۔ کیونکہ مشرقی پاکستان پر بھارت قابض ہو چکا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس میں جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر2793xxviیا یو این ای پی آر او کا کوئی ریفرنس آئے۔ مزید برآں وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس موقع پر کوئی ایسی قرارداد منظور ہوجائے جس کا محرک امریکہ ہو۔

چوتھا حصہ

42۔ صدر یحیی نے بھارتی وزیراعظم کے اعلان فائر بندی کے جواب میں جمعہ کے روز 1430 جی ایم ٹی پر اپنی تمام افواج کو بھی فائر بندی کا حکم دے دیا۔ اعلان جنگ بندی میں کہا گیا تھا کہ اگر بھارت جنگ بندی کے اعلان میں مخلص ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس اعلان کو اقوام متحدہ کے ذریعے باقاعدہ بنائے۔ تاہم سیکورٹی کونسل میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھارت نے اقوام متحدہ کے ذریعے اسے باقاعدہ بنانے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

43۔ صدر یحیی کے ایک ہنگامی پیغام پر بھٹو نے صدر نکسن سے ملنے واشنگٹن پہنچے اور ان سے مل کر واپس پاکستان چلے گئے۔

44۔ جنگ رک جانے کے باعث دوسروں کی نظروں‌ میں اس معاملے کی ہنگامی نوعیت ختم ہو چکی تھی تاہم ہمیں فائر بندی کو باقاعدہ شکل دینے مقبوضہ علاقوں سے فوجوں کی واپسی اور جموں کشمیر میں فائر بندی کی بحالی پر مبنی کسی قرارداد کی منظوری کی کوششیں‌جاری رکھنا تھیں۔ ہماری یہ کوشش 17 سے 21 دسمبر تک جاری رہی۔ یہ کارنامہ صومالیہ کے نمائندے نے انجام دیا جس نے تمام فریقوں سے گفت و شنید کے بعد ایسے مسودے کی تیاری میں کامیابی حاصل کر لی جو سوویت یونین کے ویٹو سے محفوظ رہا۔ بھارت کا اصرار تھا کہ اس مسودے میں

a.جنرل اسمبلی کی قرارداد 2793 کا کوئی ذکر نہیں ہونا چاہیے

b.جموں کشمیر کی سیز فائز لائن کا کوئی ذکر نہیں‌ ہونا چاہیے

c.اور مشرقی اور مغربی محاذ سے فوجوں کی واپسی کا تذکرہ ایک ہی اصول کے تحت نہیں کیا جانا چاہیے۔

ہم نے بھارتی مطالبات کی مخالفت کی اور گفت و شنید کے بعد یہ قرارداد S/10465 مسودہ تیار کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس قرارداد میں یہ تینوں نکات موجود تھے تاہم باہمی طور پر قابل قبول مسودہ تشکیل دینے کے لیے بعض نکات پر سمجھوتہ کرنا پڑا۔ اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ قرارداد کے نکات کی تشریح کے بارے میں کسی ابہام سے بچنے کے لیے قرارداد کے محرک دستاویز کے متن کی تشریح کرکے بتائیں کہ کسی مخصوص نکتے سے وہ کیا مطلب اخذ کرتے ہیں۔ اس قرارداد اور اس کی تشریحات نے فائربندی کو باقاعدہ شکل دے دی اور یہ اصول طے پاگیا کہ فوجیں اپنی پرانی پوزیشنوں پر واپس چلی جائیں گی۔

45۔ قرارداد S/10465۔۔21 دسمبر کو سیکورٹی کونسل کے حتمی اجلاس میں منظور کر لی گئی قرارداد کے حق میں 13 ووٹ آئے مخالفت میں کوئی ووٹ نہ تھا جبکہ سوویت یونین اور پولینڈ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد کی تشریحات کو پڑھنے کی ذمہ داری صومالیہ نے نبھائی۔
 
46۔ قرارداد منظور ہوجانے کے بعد ہم نے یہ واضح کردیا کہ یہ ایک المناک حقیقت تھی کہ سیکورٹی کونسل اس معاملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق سلجھانے میں ناکام رہی ہے۔ ہم یہ بات بھی ریکارڈ پر لائے کہ کون سے امور ہیں جو اس قرارداد کے بارے میں ہماری حکومت کے روئیے کو طے کریں گے ۔ جس کی تشریحات صومالیہ کے نمائندے نے کی ہیں۔

47۔ بھارت کے وزیرخارجہ نے کہا کہ ان کا ملک متعلقہ فریقوں کے ساتھ مل بیٹھ کر نہ صرف فوجوں کے انخلاء کے معاملہ کوسلجھانے کے لیے تیار ہے بلکہ دوسرے مسائل کو بھی باہمی بات چیت سے حل کرنا چاہتا ہے۔

انہوں‌ نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں بنگلہ دیش اور اس کی حکومت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ پاکستانی نمائندے نے اس موقع پر بھارتی مداخلت کا مناسب الفاظ میں جواب دیا۔

48۔ سیکورٹی کونسل کی کاروائی ختم ہونے کے بعد بھٹو نے سیکورٹی کونسل کے رکن ممالک کے سربراہان مملکت اور حکومت سے اپیل کی کہ وہ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے ہاتھوں غیر بنگالیوں کے قتل عام کو بند کرانے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں۔ اس اپیل کے ساتھ ہم نے سیکریٹری جنرل پر زور دیا کہ وہ قرارداد 307.771کے پیراگراف 5 کے تحت اپنا ایک خصوصی نمائندہ بھیجیں ۔ ہم نے تمام رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اس خون کی ہولی کو بند کرانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ ان ممالک نے صلاح دی کہ جب تک سیکریٹری جنرل کا خصوصی نمائندہ اپنی رپورٹ پیش نہیں کر دیتا اس وقت سیکورٹی کونسل کا اجلاس طلب کرنا کسی طور پر فائدہ مند نہیں ہوگا۔

49۔ 26 دسمبر کو ہم نے سیکرٹری جنرل کو تحریری طور پر حکومت کی طرف سے سیکورٹی کونسل کی قرارداد 307.71قبول کرنے کے فیصلے سے آگاہ کر دیا اور ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا کہ قرارداد اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر viiکے تحت منظور کی گئی تھی۔ اس پیغام میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ برصغیر میں پائیدار امن کا قیام صرف اسی صور ت میں ممکن ہے جب بھارت مشرقی پاکستان اور جموں کشمیر سمیت تمام علاقوں میں جارحانہ کاروائیاں بند کر دے۔

50۔ بھارت نے 10 جنوری کو سیکرٹری جنرل کو ایک پیغام مسودہS/10501 بھیجاجس میں‌ کہا گیا تھا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ فوجیوں‌ کے انخلا کے معاملے پر دو طرفہ بات چیت کے لیے تیار ہے اور جس قدر جلد ممکن ہو سکے فوجوں کو واپس بلا لینے پر رضامند ہے۔ مشرقی پاکستان سے فوج کے انخلاء کے بارے میں‌ بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس بات کا کا فیصلہ بھارت اور بنگلہ دیش کی حکومتیں‌ باہمی گفت و شنید سے کریں‌گی اور انخلاء اسی وقت عمل میں‌ آئے گا جب دونوں‌ حکومتیں اسے مناسب سمجھیں گی۔ اس پیغام کے آخر میں‌ 1949ء کے جینوا کنونشن کی مکمل پاسداری تمام انسانی مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے مکمل توان کا اعادہ کیا گیا تھا ۔

51۔ اوپر بیان کئے جانے والے واقعات کی روشنی میں تین سوال پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب دیا جانا چاہیے۔

a. کیا یہ ممکن تھا کہ یہ مسئلہ اس وقت نومبر 1971ء میں سیکورٹی کونسل میں اٹھایا جاتا جب بھارت نے مشرقی پاکستان میں کھلی جارحیت کا آغاز کیا تھا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو نتیجہ کیا ہوتا؟

b.اگر مشرقی کمان کچھ دیر اور میدان میں‌ ڈٹی رہتی اور ہتھیار نہ ڈالتی جیسا انہوں 16 دسمبر 1971ء کو کیا تو کیا ایک آبرومندانہ جنگ بندی اور افواج کی واپسی کاامکان تھا؟

c.کیا سوویت یونین ، پولیند اور اینگلو فرنچ قراردادوں کے منظور کرکے اپنے حق میں‌ نتائج حاصل کیے جاسکتے تھے۔ اگر ایسا تھا تو ان قراردادوں کو منطور کیوں‌ نہیں‌ کیا گیا ؟
 
52۔ پہلےسوال کا جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ ان حقائق کا اجمالی تذکرہ کر دیا جائے جن کے باعث بتدریج مشرقی پاکستان کے بحران نے بین الاقوامی حیثیت حاصل کر لی۔ مارچ کے مہینے سے جولائی 1971ء تک حکومت پاکستان کا موقف تھا کہ مشرقی پاکستان کا بحران مکمل طور پر پاکستان کا داخلی معاملہ ہے اس لیے اقوام متحدہ اس میں کسی قسم کی مداخلت کا مجاز نہیں۔

سیکورٹی کونسل کے ارکان کی اکثریت اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بھی ظاہری طور پر اسی موقف کے حامی تھے۔ تاہم کچھ ہی ہفتوں میں‌ یعنی 25 مارچ کے بعد سیکرٹری جنرل انسانی بنیادوں پر مشرقی پاکستان کے حالات پر تشویش ظاہر کرنے پر مجبور ہو گئے ۔مئی 1971ء میں اکنامک ایڈ سوشل کونسل ای سی او سی کے نیویارک میں ہونے والے 50 ویں سیشن کے موقع پر بھارت کے مشرقی پاکستان کے مسئلے کو اٹھانے کی بھرپور کوشش کی اور موقف اختیار کیا کہ مشرقی پاکستان میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں لیکن ای سی او ایس او سی میں‌ موجود پاکستانی نمائندہ تنظیم کو کسی اور معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے یا اعلامیہ جاری کرنے سے روکے رکھنے میں کامیاب رہا۔

لیکن 23 جون 1971ء کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین پرنس صدر الدین آغا خان نے اقوام متحدہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مشرقی پاکستان سے بہت بڑی تعداد سے بہت بڑی تعداد میں لوگ ملک چھوڑ گئے ہیں ۔ انہوں‌ نے مہاجرین کے مسئلے کو گھمبیر اور غیر معمولی تشویش کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مشرقی پاکستان کے مسئلے کا سیاسی تصفیہ ہی مہاجرین کی واپسی کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔ ان کا بیان اس حوالے سے انتہائی اہم تھا کہ پہلی دفعہ اقوام متحدہ کے کسی افسر نے کھلے طور پر مشرقی پاکستان کے بحران کے سیاسی تصفیئے کی ضرورت پر زور دیا تھا اور آگے چل کر یہی بات اقوام متحدہ کے حلقوں کے عام موقف کی شکل اختیار کر گئی۔

53۔ 25 جولائی 1971ء کو پاکستان نے مشرقی پاکستان پر اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں اپنے نمائندے کو اس بات سے آگاہ کیا کہ بھارت سے جنگ کے خطرے کو ٹالنے ککے لیے سکیورٹی کونسل کا اجلاس مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ لہذا پاکستان برصغیر میں امن کو درپیش خطرات پر بحث کے لیے سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کا حامی ہے۔ کیونکہ سوویت یونین اور سکیورٹی کونسل کے چند اور رکن ممالک پر اجلاس بلانے کے حق میں نہیں تھے۔ اس لیے ایسا نہ ہوسکا۔

54۔ اس پر حکومت پاکستان نے تجویز دی کہ سیکورٹی کونسل کی ایک کمیٹی کوامن کو لاحق خطرات کو ٹالنے کے لیے بھارت اور پاکستان کا دورہ کرنا چاہیے اس تجویز میں ادارے کے غیر مستقل ارکان نے ہمدردانہ دلچسپی کا اظہار کیا۔ سوویت یونین نے تو اسے رد کر دیا تاہم دوسرے مستقل ارکان نے بھی ان تجویز کو شک کی نظر سے دیکھا ۔ سوویت یونین نے اس مخالفانہ روئیے کا محرک اس کی بھارت کے لیے مکمل حمایت کا اصول تھا۔ اس نےروایتی انداز میں سیکورٹی کونسل کے ہر اس اقدام کا رخ موڑ دیا جو اس کے ویٹو کے حق کو ذائل کرسکتا تھا۔

55۔ 3اور 4 اکتوبر 1971ء کو صدر یحیی خان نے امریکہ کے صدر نکسن کو ایک ذاتی پیغام بھیجا جس میں پاکستان اور بھارت میں جنگ جیسی صورتحال کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی تھی۔ پیغام میں امریکہ سے اس مشکل وقت میں مشرقی پاکستان کے بحران کے حل کے لیے سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلانے میں مدد اور رہنمائی فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ یحیی خان نے امریکی صدر سے یہ بھی کہا کہ اگر وہ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی سطح پر اور اقدمات کو زیادہ مناسب خیال کرتے ہیں تو پاکستان ان سے بھی اتفاق کرے گا۔

56۔ یہ پیغام 6 اکتوبر 1971ء کو پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ مسٹر علوی نے جو اس وقت امریکہ کے دورے پر تھے صدر نکسن کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر کسنگر کے حوالے کیا۔ ڈاکٹر کسنگر نے مسٹر علوی اور سفیر ہلالی کو بتایا کہ وہ فوری طور پر یہ پیغام صدر نکسن کو پہچائیں گے اور بعد ازاں سفیر ہلالی کو اپنے خیالات سے آگاہ کردیں گے انہوں‌ نے کہا کہ وہ اس معاملے کو انتہائی احتیاط اور ہمدردی کی نظر سے دیکھیں گے۔

پیغام پر اپنے فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ (اگر پاکستان یہ معاملہ سیکورٹی کونسل میں لے جانے کا فیصلہ کرتا ہے امریکہ کی ہمددردیاں پاکستان کے ساتھ ہوں گی) تاہم میرے خیال میں سیکورٹی کونسل ہمیں کسی نتیجے پر نہیں پہنچائے گی۔ شاید بھارت اور سوویت یونین سے مذکرات کے ذریعے زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

جاری ہے
 

کاشفی

محفلین
1959956_752888908069523_1278046996_n.jpg

Justice Hamoodur Rehman presenting his commission report to Zulfikar Ali Bhutto
 
Top