حوا کی بیٹی

حوا کی بیٹی دُنیا میں دو بار جنم لیتی ہے ۔ ایک بار ماں کے پیٹ سے ، دوسری بار ڈولی کے پیٹ سے ۔ مگر ہمارے ہاں پہلی اور دوسری پیدائش میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ یعنی دونوں بار پیدا ہونے کی تاریخ ، جگہ اور لوگ جن کے ہاں ایسے پیدا ہونا ہوتا ہے اُ س کے انتخاب میں اُس کی رائے نہیں لی جاتی ۔
اُس کا جسم گولائیوں سے مل کر بنا ہےجب کہ آدمی کا زاویوں سے ۔ اُس کا وجود پیاز کی طرح ہے کہ جتنی مرضی پرتیں اُتاریں پھر بھی کوئی نہ کوئی گولائی ضرور موجود ہو گی ۔ بلکہ یہ خود بھی اُس وقت تک موجود ہوگی جب تک کوئی نہ کوئی پرت ہو گی ۔
دُنیا کی سب سے پہلی عورت مرد تھی پھر اُسے حضرت آدم کے سینے سے علیحدہ کیا گیا مگر آدم کے علاوہ دُنیا کا ہر مرد پہلے عورت ہوتا ہے ۔ نو مہینے بعد وہ اس کے جسم سے علیحدہ ہوتا ہے اسی لیے ساری زندگی اسے سب سے زیادہ کشش اپنے اصل کی ہی ہے ۔ حوا تو وہ سیڑھی ہے جس سے انسان عرش سے فرش پہ اُترتا ہے اور باقی ساری زندگی واپس چڑھنے کا ہی سوچتا رہتا ہے ۔
اس میں اور مرد میں وہی فرق ہے جو پھل اور بیج میں ہے ۔پھل میں ذائقہ اور کئی بیج ہوتے ہیں جب کہ بیج میں پورا شجر ۔ وہ آئینے کی طرح ہے کہ وہی نظر آتا ہے جو سامنے ہوتا ہے ۔
وہ اس دنیا کی پہلی تخلیق کار ہے مگر اپنی تحقیق مرد کے ہاتھوں تنگ ہے ۔ جس نے اُس کا خُدا (مجازی) ہونے کا دعوٰی کر دیا ہے ۔
اسے خوش کرنا سب سے آسان اور خوش رکھنا سب سے مُشکل کام ہے ۔ اس کو حاصل کرنا آرٹ اور اسے رکھنا سائنس ہے ۔ اسے وہ سب سے زیادہ جانتا ہے جس کو یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ ابھی اسے نہیں جانتا ۔
خاموشی ایک لباس ہے شاید اس لیے عورتوں کو زیادہ پسند نہیں ۔ کہتے ہیں مرد اس وقت مرتا ہے جب اُسکی نبض رُک جائے اور عورت اس وقت جب اُسکی زبان ۔ زبان اس کے جسم کا سب سے سخت عضو ہے ۔ دُنیا کے آدھے مسائل اس کے پیدا کردہ ہیں اور باقی آدھے ان مسائل کو سُلجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ وہ آنکھوں سے زیادہ کانوں کا ستعمال کرتی ہے اور مرد کانوں سے زیادہ آنکھوں کا ۔
اگرچہ شادی عورتوں کو مردوں میں برابر تقسیم کرنے کا نام ہے پھر بھی اس کی آدھی عُمر شادی کے انتظار میں گُزر جاتی ہے اور باقی آدھی اُ سکی یاد میں ۔ کہتے ہیں مرد محبت کے لیے شادی کرتا ہے اور عورت شادی کے لیے محبت ۔
عورت اس دنیا کی خوبصورت بدصورتی ہے اور مرد بدصورت خوبصورتی ۔ اس دنیا میں عورت کی سب سے بڑی محافظ اس کی بد صورتی ہے ۔ اور وہ سب سے خوبصورت اُس وقت ہوتی ہے جب حاملہ ہو ۔ مُسکراہٹ اس کے چہرے کا نقاب ہے اور نقاب میں اصلی چہرہ نظر نہیں آتا ۔ اس کے لیے سب سے بڑی گالی یہ ہے کہ تم بو ڑھی ہو گئی ہو ۔ وہ میک اپ جس میں عورت سب سے زیادہ خوبصورت لگتی ہے "خوشی" ہے ۔ اس کا لباس اُس کے جسم کی روح ہے
حوا کی بیٹی اس دنیا میں اللہ کا سب سے بڑا اور حسین انعام ہے اس لیے ہر کوئی چاہتا ہے کہ سب سے پہلے یہ انعام اُسے مل جائے ۔ اچھی بُری عورت کا اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ وہ کس بات پر خوش ہوتی ہے ۔ یہ مرد کو بے وقو ف جانتی ہے اور مرد اسے بے وقوف مانتا ہے ۔ عورت سب سے طاقتور اس وقت ہوتی ہے جب مرد اسے کمزور کہے ۔
اس کی اور مرد کی نفسیات میں یہ فرق ہے کہ مر د یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی پہنچ میں کیا ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے اس کی پہنچ میں کیا نہیں ہے جب کہ حو اکی بیٹی وہی کچھ دیکھتی ہے جو اُس کی پہنچ میں ہوتا ہے ۔ مرد چاہتا ہے کہ وہ اس کی زندگی کا پہلا مرد ہو اور عورت چاہتی ہے کہ وہ مرد کی زندگی کی آخری عورت ہو ۔
عورت چاہتی ہے کہ دُنیا میں اس کی حکمرانی ہو اور ہے بھی ٹھیک کہ دنیا بنی ہی اُس کے لیے ہے ۔ مرد کے لیے تو اللہ نے جنت بنائی تھی ۔ مرد کو جنت سے دُنیا میں لانا اسی کا کام ہے ۔ اور وہ آج بھی یہی کر ر ہی ہے کہ بچے کا پیدا ہونا در اصل اس کو جنت سے نکالنے کا عمل ہی تو ہے ۔ کہ ماں کے پیٹ سے زیادہ آسائشیں جنت میں کیا ہوں گی ۔ عورت اور مرد کا فطری رشتہ ایک ہی ہے جو حضرت آدم اور حوا کا تھا باقی سارے رشتے انسان کی اپنی دریافت ہیں بلکہ خُدا بھی انسان کی ہی دریافت ہے ۔ اور وہ شخص اتنا ہی عظیم ہوتا ہے جتنی عظیم دریافت کرے ۔
حوا غزل کا شعر ہے اور مرد نثر پارہ ۔ نثر پارہ جیسا ہوتا ہے ویسا ہی رہتا ہے مگر شعر کا مطلب تو ویسا ہی ہو جاتا ہے جیسا پڑھنے والا ۔ یوں بھی ہمارے ہاں دو غزلے ، سہ غزلے اور چہار غزلے کی قانونی اجازت ہے مگر کوئی دو مضمونہ ، سہ افسانہ اور چہار افسانہ سُننے میں نہیں آیا ۔ چوری چُھپے کی بات اور ہے ۔
حوا کی بیٹی ہر کسی پر اعتبار کر لیتی ہے اس لیے ناقابلِ اعتبار ہے ۔ کہتے ہیں جذبات مرد کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور عورت جذبات کے ہاتھ میں ، جذباتی ہو کر زندگی کے فیصلے کر لیتی ہے اور پھر ساری عُمر انہیں عقل سے صحیح ثابت کرنے میں لگی رہتی ہے ۔ حسن ِ ظن سے زیادہ حُسن ِ زن سے کام لیتی ہے ۔
اُس کو وہی پسند ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اللہ کو اپنی تعریف سننا پسند ہے ۔ یوں بھی مرد کا عورت کی تعریف کرنا درا صل اپنی ہی پیدائش کو حق بجانب قرار دینا ہے ۔ ورنہ اس نے دل سے اسے آج تک بیوی ، باندی اور بیوہ کے سوا کوئی مقام نہیں دیا ۔
لیکن اللہ نے حوا کی بیٹی کو وہ رُتبہ دیا ہے کہ اگر خدا کو زمین پر کسی رُوپ میں آنا پڑا تو وہ یقیناََ مرد کی بجائے ماں کا رُوپ ہو گا ۔

ڈاکٹر یونس بٹ کی " شناخت پریڈ " سے اقتباس
 
آخری تدوین:
فقط الفاظ کی ہیرا پھیری ہے۔ ڈاکٹر یونس بٹ اگر مزاح پر توجہ دیں تو زیادہ بہتر یے۔
ڈاکٹر یونس بٹ مزاح ہی لکھتے ہیں ۔ لیکن ان کی یہ تحریر کافی جاندار لگی مجھے ۔ اور کوئی بھی بات قابلِ اعتراض نہیں ۔ آپ اختلاف کر سکتے ہیں تحریر سے آپ کا حق ہے ۔ لیکن وجہ ضرور بتائیں :)
اورآپ کی معلومات کے لیے بتا دوں کہ ڈاکٹر یونس بٹ الفاظ کی ہیرا پھیری کے لیے ہی مشہور ہیں ۔ :) بشرطیکہ بندے کو اس ہیرا پھیری کی سمجھ آ جائے :D
 

فاطمہ شیخ

محفلین
آپ نے درست فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب کی تحاریر جاندار ہوتی ہیں
مجھے تحریر بہت اچھی لگی. خاص طور پر یہ جملہ " اگر خدا کو زمین پر کسی رُوپ میں آنا پڑا تو وہ یقیناََ مرد کی بجائے ماں کا رُوپ ہوگا"
خدا کی عطا کردہ نعمتوں کی طرح ماں کی محبتوں کا شمار کرنا بھی ناممکن ہے.
تحریر شئیر کرنے کا شکریہ
سلامت رہیں
 
آپ نے درست فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب کی تحاریر جاندار ہوتی ہیں
مجھے تحریر بہت اچھی لگی. خاص طور پر یہ جملہ " اگر خدا کو زمین پر کسی رُوپ میں آنا پڑا تو وہ یقیناََ مرد کی بجائے ماں کا رُوپ ہوگا"
خدا کی عطا کردہ نعمتوں کی طرح ماں کی محبتوں کا شمار کرنا بھی ناممکن ہے.
تحریر شئیر کرنے کا شکریہ
سلامت رہیں
پسندیدگی کے لیے شکریہ :)
 

فرح

محفلین
حوا کی بیٹی دُنیا میں دو بار جنم لیتی ہے ۔ ایک بار ماں کے پیٹ سے ، دوسری بار ڈولی کے پیٹ سے ۔ مگر ہمارے ہاں پہلی اور دوسری پیدائش میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ یعنی دونوں بار پیدا ہونے کی تاریخ ، جگہ اور لوگ جن کے ہاں ایسے پیدا ہونا ہوتا ہے اُ س کے انتخاب میں اُس کی رائے نہیں لی جاتی ۔
اُس کا جسم گولائیوں سے مل کر بنا ہےجب کہ آدمی کا زاویوں سے ۔ اُس کا وجود پیاز کی طرح ہے کہ جتنی مرضی پرتیں اُتاریں پھر بھی کوئی نہ کوئی گولائی ضرور موجود ہو گی ۔ بلکہ یہ خود بھی اُس وقت تک موجود ہوگی جب تک کوئی نہ کوئی پرت ہو گی ۔
دُنیا کی سب سے پہلی عورت مرد تھی پھر اُسے حضرت آدم کے سینے سے علیحدہ کیا گیا مگر آدم کے علاوہ دُنیا کا ہر مرد پہلے عورت ہوتا ہے ۔ نو مہینے بعد وہ اس کے جسم سے علیحدہ ہوتا ہے اسی لیے ساری زندگی اسے سب سے زیادہ کشش اپنے اصل کی ہی ہے ۔ حوا تو وہ سیڑھی ہے جس سے انسان عرش سے فرش پہ اُترتا ہے اور باقی ساری زندگی واپس چڑھنے کا ہی سوچتا رہتا ہے ۔
اس میں اور مرد میں وہی فرق ہے جو پھل اور بیج میں ہے ۔پھل میں ذائقہ اور کئی بیج ہوتے ہیں جب کہ بیج میں پورا شجر ۔ وہ آئینے کی طرح ہے کہ وہی نظر آتا ہے جو سامنے ہوتا ہے ۔
وہ اس دنیا کی پہلی تخلیق کار ہے مگر اپنی تحقیق مرد کے ہاتھوں تنگ ہے ۔ جس نے اُس کا خُدا (مجازی) ہونے کا دعوٰی کر دیا ہے ۔
اسے خوش کرنا سب سے آسان اور خوش رکھنا سب سے مُشکل کام ہے ۔ اس کو حاصل کرنا آرٹ اور اسے رکھنا سائنس ہے ۔ اسے وہ سب سے زیادہ جانتا ہے جس کو یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ ابھی اسے نہیں جانتا ۔
خاموشی ایک لباس ہے شاید اس لیے عورتوں کو زیادہ پسند نہیں ۔ کہتے ہیں مرد اس وقت مرتا ہے جب اُسکی نبض رُک جائے اور عورت اس وقت جب اُسکی زبان ۔ زبان اس کے جسم کا سب سے سخت عضو ہے ۔ دُنیا کے آدھے مسائل اس کے پیدا کردہ ہیں اور باقی آدھے ان مسائل کو سُلجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ وہ آنکھوں سے زیادہ کانوں کا ستعمال کرتی ہے اور مرد کانوں سے زیادہ آنکھوں کا ۔
اگرچہ شادی عورتوں کو مردوں میں برابر تقسیم کرنے کا نام ہے پھر بھی اس کی آدھی عُمر شادی کے انتظار میں گُزر جاتی ہے اور باقی آدھی اُ سکی یاد میں ۔ کہتے ہیں مرد محبت کے لیے شادی کرتا ہے اور عورت شادی کے لیے محبت ۔
عورت اس دنیا کی خوبصورت بدصورتی ہے اور مرد بدصورت خوبصورتی ۔ اس دنیا میں عورت کی سب سے بڑی محافظ اس کی بد صورتی ہے ۔ اور وہ سب سے خوبصورت اُس وقت ہوتی ہے جب حاملہ ہو ۔ مُسکراہٹ اس کے چہرے کا نقاب ہے اور نقاب میں اصلی چہرہ نظر نہیں آتا ۔ اس کے لیے سب سے بڑی گالی یہ ہے کہ تم بو ڑھی ہو گئی ہو ۔ وہ میک اپ جس میں عورت سب سے زیادہ خوبصورت لگتی ہے "خوشی" ہے ۔ اس کا لباس اُس کے جسم کی روح ہے
حوا کی بیٹی اس دنیا میں اللہ کا سب سے بڑا اور حسین انعام ہے اس لیے ہر کوئی چاہتا ہے کہ سب سے پہلے یہ انعام اُسے مل جائے ۔ اچھی بُری عورت کا اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ وہ کس بات پر خوش ہوتی ہے ۔ یہ مرد کو بے وقو ف جانتی ہے اور مرد اسے بے وقوف مانتا ہے ۔ عورت سب سے طاقتور اس وقت ہوتی ہے جب مرد اسے کمزور کہے ۔
اس کی اور مرد کی نفسیات میں یہ فرق ہے کہ مر د یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی پہنچ میں کیا ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے اس کی پہنچ میں کیا نہیں ہے جب کہ حو اکی بیٹی وہی کچھ دیکھتی ہے جو اُس کی پہنچ میں ہوتا ہے ۔ مرد چاہتا ہے کہ وہ اس کی زندگی کا پہلا مرد ہو اور عورت چاہتی ہے کہ وہ مرد کی زندگی کی آخری عورت ہو ۔
عورت چاہتی ہے کہ دُنیا میں اس کی حکمرانی ہو اور ہے بھی ٹھیک کہ دنیا بنی ہی اُس کے لیے ہے ۔ مرد کے لیے تو اللہ نے جنت بنائی تھی ۔ مرد کو جنت سے دُنیا میں لانا اسی کا کام ہے ۔ اور وہ آج بھی یہی کر ر ہی ہے کہ بچے کا پیدا ہونا در اصل اس کو جنت سے نکالنے کا عمل ہی تو ہے ۔ کہ ماں کے پیٹ سے زیادہ آسائشیں جنت میں کیا ہوں گی ۔ عورت اور مرد کا فطری رشتہ ایک ہی ہے جو حضرت آدم اور حوا کا تھا باقی سارے رشتے انسان کی اپنی دریافت ہیں بلکہ خُدا بھی انسان کی ہی دریافت ہے ۔ اور وہ شخص اتنا ہی عظیم ہوتا ہے جتنی عظیم دریافت کرے ۔
حوا غزل کا شعر ہے اور مرد نثر پارہ ۔ نثر پارہ جیسا ہوتا ہے ویسا ہی رہتا ہے مگر شعر کا مطلب تو ویسا ہی ہو جاتا ہے جیسا پڑھنے والا ۔ یوں بھی ہمارے ہاں دو غزلے ، سہ غزلے اور چہار غزلے کی قانونی اجازت ہے مگر کوئی دو مضمونہ ، سہ افسانہ اور چہار افسانہ سُننے میں نہیں آیا ۔ چوری چُھپے کی بات اور ہے ۔
حوا کی بیٹی ہر کسی پر اعتبار کر لیتی ہے اس لیے ناقابلِ اعتبار ہے ۔ کہتے ہیں جذبات مرد کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور عورت جذبات کے ہاتھ میں ، جذباتی ہو کر زندگی کے فیصلے کر لیتی ہے اور پھر ساری عُمر انہیں عقل سے صحیح ثابت کرنے میں لگی رہتی ہے ۔ حسن ِ ظن سے زیادہ حُسن ِ زن سے کام لیتی ہے ۔
اُس کو وہی پسند ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اللہ کو اپنی تعریف سننا پسند ہے ۔ یوں بھی مرد کا عورت کی تعریف کرنا درا صل اپنی ہی پیدائش کو حق بجانب قرار دینا ہے ۔ ورنہ اس نے دل سے اسے آج تک بیوی ، باندی اور بیوہ کے سوا کوئی مقام نہیں دیا ۔
لیکن اللہ نے حوا کی بیٹی کو وہ رُتبہ دیا ہے کہ اگر خدا کو زمین پر کسی رُوپ میں آنا پڑا تو وہ یقیناََ مرد کی بجائے ماں کا رُوپ ہو گا ۔

ڈاکٹر یونس بٹ کی " شناخت پریڈ " سے اقتباس
بہت ھی لاجواب تحریر ۔ ۔ ۔پڑھتی جارھی تھی اور سوچ میں تھی کہ اس تحریر کا خالق کون ھو سکتا ھے اورجب مصنف کا نام پڑھا تو بالکل بھی حیرت نہ ھوئ کیونکہ یونس بٹ صاحب میرے بہت ھی فیورٹ لکھاریوں میں سے ایک ہیں۔ ماشا اللہ
 

اکمل زیدی

محفلین
اوہ !! بچت ہوگئی . . . شہزاد بھائی قسم سے ...منافقت سے بچ گیا . ..:D تحریر پڑھتے ہوئے لگ رہا تھا یہ آپ کا شاہکار ہے ...تعریف و توصیف کے جملے ترتیب دے رہا تھا ...مگر اچھا ہوا . تحریر آپ کی نہیں :). .. یونس بٹ کا مزاح بہت اچھا ہوتا ہے مگر اس تحریر میں پتہ نہیں چل رہا ...یہ عورت کے حق میں بات ہو رہی ہے یا تضحیک میں ویسے آپس کی بات ہے عجیب بے ڈھنگی کاوش ہے :confused: کہیں کہیں پھر بھی اچھا تاثر دیا ہے کچھ جملے ضرور قابل تعریف ہیں ....سچ کہوں تو آپ کا سوچتے ہوئے اور یہ خیال کرتے ہوئے کے یہ سب آپ نے لکھا ہے عجیب متضاد کیفیت تھی ...مگر بہرحال انتخاب کا تو آپ کا ہی ہے ذرا روشنی ڈالیں ...اس فن پارے کے انتخاب کا محرک ................:rolleyes:
 
ڈاکٹر یونس بٹ مزاح ہی لکھتے ہیں ۔ لیکن ان کی یہ تحریر کافی جاندار لگی مجھے ۔ اور کوئی بھی بات قابلِ اعتراض نہیں ۔ آپ اختلاف کر سکتے ہیں تحریر سے آپ کا حق ہے ۔ لیکن وجہ ضرور بتائیں :)
اورآپ کی معلومات کے لیے بتا دوں کہ ڈاکٹر یونس بٹ الفاظ کی ہیرا پھیری کے لیے ہی مشہور ہیں ۔ :) بشرطیکہ بندے کو اس ہیرا پھیری کی سمجھ آ جائے :D
ڈاکٹر تے ڈاکٹر دا بیری ہوندا اے تسی ڈاکٹر ہی ہو نا!
رہی بات وجہ کی، تو بھائی، بات نکلے کی تو پھر دور تلک جائے گی، رین ہی دیو۔
 
بہت ھی لاجواب تحریر ۔ ۔ ۔پڑھتی جارھی تھی اور سوچ میں تھی کہ اس تحریر کا خالق کون ھو سکتا ھے اورجب مصنف کا نام پڑھا تو بالکل بھی حیرت نہ ھوئ کیونکہ یونس بٹ صاحب میرے بہت ھی فیورٹ لکھاریوں میں سے ایک ہیں۔ ماشا اللہ
شکریہ پسندیدگی کے لیے ۔ :)
 
وہ !! بچت ہوگئی . . . شہزاد بھائی قسم سے ...منافقت سے بچ گیا . ..:D تحریر پڑھتے ہوئے لگ رہا تھا یہ آپ کا شاہکار ہے ...تعریف و توصیف کے جملے ترتیب دے رہا تھا ...مگر اچھا ہوا . تحریر آپ کی نہیں :). .. یونس بٹ کا مزاح بہت اچھا ہوتا ہے مگر اس تحریر میں پتہ نہیں چل رہا ...یہ عورت کے حق میں بات ہو رہی ہے یا تضحیک میں ویسے آپس کی بات ہے عجیب بے ڈھنگی کاوش ہے :confused: کہیں کہیں پھر بھی اچھا تاثر دیا ہے کچھ جملے ضرور قابل تعریف ہیں ....سچ کہوں تو آپ کا سوچتے ہوئے اور یہ خیال کرتے ہوئے کے یہ سب آپ نے لکھا ہے عجیب متضاد کیفیت تھی ...مگر بہرحال انتخاب کا تو آپ کا ہی ہے ذرا روشنی ڈالیں ...اس فن پارے کے انتخاب کا محرک ................:rolleyes:
بھیا اصل میں یہ تحریر اُ کی ایک مزاحیہ کتاب "شناخت پریڈ " سے لی ہے ۔ مجھے پسند اس لیے آئی کہ اس تحریر میں طنز کا عنصر بھی تھا مردوں کے لیے بھی اور عورتوں کے لیے بھی ۔ لفظوں کے ہیر پھیر میں یونس بٹ ویسے اُستاد ہیں جو جس کو جیسی سمجھ آ جائے ۔ کچھ ذومعنی باتیں بھی ہیں جو نہ ہی سمجھ آئیں تو بہتر ہے :D
باقی ڈاکٹر کی تحریر ڈاکٹر نے شیئر نہیں کرنی تو کس نے کرنی ہے ۔ مریض تو بے چارے نُسخے ہی شیئر کرتے ہیں وہ بھی دوسرے ڈاکٹروں سے ۔ علاج ناکام ہونے کی صورت میں :D
 
ڈاکٹر تے ڈاکٹر دا بیری ہوندا اے تسی ڈاکٹر ہی ہو نا!
رہی بات وجہ کی، تو بھائی، بات نکلے کی تو پھر دور تلک جائے گی، رین ہی دیو۔
دور تلک کون سا مریخ تک جائے گی ۔ آپس کی بات ہے آپس میں ہی طے کر لیتے ہیں :D
یہ نقطہ رہ گیا یا کوءی ۔ ۔ ۔ ۔ نکتہ ۔ ۔ رہ گیا ۔ ۔ ۔ :)
اصل میں ٹیگ نامہ والی پوسٹ دو دفعہ ہو گئی تو حذف کرنا پڑا ۔ حذف کیا تو باقی نُقطہ ہی رہ گیا :p
 

فرح

محفلین
ویسے بٹ صاحب مرد عورت دونوں میں سے کسی کی پیدائش کی تاریخ جگہ اور لوگ جنکے ھاں پیدا ھونا ھے ان میں سے کسی سے نہیں پوچھا جاتا۔ ۔ بس اس نے بھیجنا ھوتا ھے جہاں اسکا دل کرتا ھے بھیج دیتا ھے۔ ۔مجھے تو یہ اللہ کا طریقہ بڑا بھلا لگا ۔ ۔ ورنہ آپلوگ وھاں بھی شاید کوئ " جگاڑ" لگا کر اچھے اچھے گھر بانٹ لیتے۔ ۔ (خاکم بدھن)
 
ویسے بٹ صاحب مرد عورت دونوں میں سے کسی کی پیدائش کی تاریخ جگہ اور لوگ جنکے ھاں پیدا ھونا ھے ان میں سے کسی سے نہیں پوچھا جاتا۔ ۔ بس اس نے بھیجنا ھوتا ھے جہاں اسکا دل کرتا ھے بھیج دیتا ھے۔ ۔مجھے تو یہ اللہ کا طریقہ بڑا بھلا لگا ۔ ۔ ورنہ آپلوگ وھاں بھی شاید کوئ " جگاڑ" لگا کر اچھے اچھے گھر بانٹ لیتے۔ ۔ (خاکم بدھن)
جی بالکل اس سے متفق ہیں کہ اللہ نے کچھ چیزیں صرف اپنے ہاتھ میں رکھی ہیں ۔اُن پہ کسی کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ کس نے کس کے ہاں پیدا ہونا ہے صرف اللہ کو پتہ ہے ۔ لیکن پیدا ہونے کے بعد کس نے کیا بننا ہے یہ والدین پہ زیادہ انحصار کرتا ہے ۔ پیدا تو سارے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔بعد میں کچھ لوگ دُنیا میں تاریخ رقم کرتے ہیں اور کچھ خود رقم ہو جاتے ہیں ۔
 

با ادب

محفلین
تحریر میں کیا نقص ہے یہ نہیں پتا بس اتنا پتہ ہے تحریر نے دل.کو چھوا نہیں. مجھے ویسے بھی یہ مرد عورت کے تقابلی جائزے پسند نہیں. چاہے کتنے ہی اعلیٰ کیوں نہ ہوں. انسان کو اصناف میں اس وجہ سے بانٹ لینا کہ انکا تقابل کروایا جائے میری سمجھ سے باہر ہے. میں اپنی زندگی میں آٹھ مردوں سے گہری واقفیت رکھتی ہوں میرے چھ بھائی ' ابا حضو ر اور میاں صاحب. یہ آٹھ کی آٹھ شخصیات اپنے دائرے میں اتنی مختلف خصوصیات کی حامل ہیں کہ بیان سے باہر.
اسی طرح جن خواتین سے میں واقف ہوں وہ سب بھی الگ سوچ و فکر کی مالک ہیں.
 
Top