حوا کی بیٹی

محمدظہیر

محفلین
اوہ !! بچت ہوگئی . . . شہزاد بھائی قسم سے ...منافقت سے بچ گیا . ..:D تحریر پڑھتے ہوئے لگ رہا تھا یہ آپ کا شاہکار ہے ...تعریف و توصیف کے جملے ترتیب دے رہا تھا ...مگر اچھا ہوا . تحریر آپ کی نہیں :). .. یونس بٹ کا مزاح بہت اچھا ہوتا ہے مگر اس تحریر میں پتہ نہیں چل رہا ...یہ عورت کے حق میں بات ہو رہی ہے یا تضحیک میں ویسے آپس کی بات ہے عجیب بے ڈھنگی کاوش ہے :confused: کہیں کہیں پھر بھی اچھا تاثر دیا ہے کچھ جملے ضرور قابل تعریف ہیں ....سچ کہوں تو آپ کا سوچتے ہوئے اور یہ خیال کرتے ہوئے کے یہ سب آپ نے لکھا ہے عجیب متضاد کیفیت تھی ...مگر بہرحال انتخاب کا تو آپ کا ہی ہے ذرا روشنی ڈالیں ...اس فن پارے کے انتخاب کا محرک ................:rolleyes:
بالکل یہی کیفیت رہی پڑھتے وقت
 
حوا کی بیٹی دُنیا میں دو بار جنم لیتی ہے ۔ ایک بار ماں کے پیٹ سے ، دوسری بار ڈولی کے پیٹ سے ۔ مگر ہمارے ہاں پہلی اور دوسری پیدائش میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ یعنی دونوں بار پیدا ہونے کی تاریخ ، جگہ اور لوگ جن کے ہاں ایسے پیدا ہونا ہوتا ہے اُ س کے انتخاب میں اُس کی رائے نہیں لی جاتی ۔
پیدا ہوتے وقت رائے کسی کی نی لی جاتی جناب. کیسی مزائقہ خیز بات ھے
 
حوا کی بیٹی دُنیا میں دو بار جنم لیتی ہے ۔ ایک بار ماں کے پیٹ سے ، دوسری بار ڈولی کے پیٹ سے ۔ مگر ہمارے ہاں پہلی اور دوسری پیدائش میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ یعنی دونوں بار پیدا ہونے کی تاریخ ، جگہ اور لوگ جن کے ہاں ایسے پیدا ہونا ہوتا ہے اُ س کے انتخاب میں اُس کی رائے نہیں لی جاتی ۔
پیدا ہوتے وقت رائے کسی کی نی لی جاتی جناب. کیسی مزائقہ خیز بات ھے
 
حوا کی بیٹی دُنیا میں دو بار جنم لیتی ہے ۔ ایک بار ماں کے پیٹ سے ، دوسری بار ڈولی کے پیٹ سے ۔ مگر ہمارے ہاں پہلی اور دوسری پیدائش میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ یعنی دونوں بار پیدا ہونے کی تاریخ ، جگہ اور لوگ جن کے ہاں ایسے پیدا ہونا ہوتا ہے اُ س کے انتخاب میں اُس کی رائے نہیں لی جاتی ۔
پیدا ہوتے وقت رائے کسی کی نی لی جاتی جناب. کیسی مزائقہ خیز بات ھے
 

سین خے

محفلین
آپ تو تحریر کی بات کر رہی ہیں ۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں ہر گھر میں ٹی وی پہ لاتعداد چینلز پہ جتنے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں کیا وہ یہی سب کچھ نہیں کر رہے ۔ تحریر پڑھنے والاتو پھر بھی شاید 16 سال سے کم عمر کوئی ہو لیکن یہ ڈرامے دیکھنے والے شائقین میں 6 ، 7 سال کے بچوں سے لے کے 80 سال کے بو ڑھے بھی شامل ہیں ۔
اور ان ڈراموں نے لوگوں کے ذہنوں میں اس حد تک رشتوں میں تخیلاتی دراڑیں پیدا کر دی ہیں کہ بہو خدا نخواستہ سچ میں درد سے تڑپ رہی ہو لیکن ساس سمجھتی ہے کہ ڈرامے کر رہی ہے ۔ساس کے ہاتھ سے چائے پیتے ہوئے بہو کے دل میں ہوتا ہے کہ یقیناََ ساس صاحبہ نے اس میں کچھ ملا نہ دیا ہو ۔
رشتوں کے حوالے سے ایسی چیزیں اپنے ذہن میں تخلیق کر لی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا اور اس کی بنیاد پہ اپنے رویے لوگوں سے روا رکھے جاتے ہیں ۔ جب آخر پہ بات کُھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جیسا سوچا تھا حقیقت اُس کے بر عکس تھی ۔
جس خاندانی اور معاشرتی ماحول کی بات آپ کر رہی ہیں وہ تو کب سے جنم لے بھی چُکا ہے ۔

ڈاکٹر صاحب آپ کی کچھ باتوں سے میں متفق ہوں۔

جہاں تک ٹی وی پروگرامز کی بات ہے تو لکھنے والے یہی مصنف ہی تو ہیں۔ کبھی کتاب چھاپ دی تو کبھی اسکرپٹ لکھ دیا۔ بات ساری یہ ہے کہ مصنف آخر لکھ کیا رہا ہے؟؟؟ جو لکھ رہا ہے وہ بہرحال کسی نا کسی ذریعے سے عوام تک پہنچتا تو ضرور ہے۔

آپ ٹی وی ڈراموں کے بارے میں بالکل ٹھیک فرما رہے ہیں۔ ٹی وی والوں کا کام صرف پیسہ کمانا ہے۔ وہ چٹ پٹی کہانیاں لے کر ڈرامے وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ان کی اس تخلیق کے کیا نتائج نکلیں گے۔ ان کے کردار emotionally unstable ہوتے ہیں اور عام ناظرین غیر ارادی طور پر ان رویوں کو سیکھ جاتے ہیں۔ اس طرح ہمارے معاشرے میں emotional instability ہر رشتے ناطے میں بڑھتی ہی جا رہی ہے چاہے وہ ساس بہو کا رشتہ ہو یا شوہر بیوی کا یا ماں باپ اور بچوں کا!

اس لئے میری اپنے طور پر یہ کوشش رہتی ہے کہ کم از کم میں ہی کوئی ایسی بات نہ کروں کہ جس کے نتیجے میں نفرت جنم لے۔ :) اور میری یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی بات آرام سے دوسروں تک پہنچا دوں۔ اب کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے تو ہر کسی کی اپنی اپنی سوچ ہے اور ہر کسی کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی سوچ اور پسند کے حساب سے اپنی رائے قائم کرے۔ :)
 

سین خے

محفلین
آج کے دور کے ٹین ایج بوتھ کافی پختہ ہیں۔وہ اس طرح کی تحریروں کو کسی گنتی میں نہیں لاتے۔

جی وہ تو ہیں پر ان کو پھر بھی سیکھنے کی ضرورت رہتی ہے۔ اب چاہے ایک ٹین ایجر اپنی بے جا خود اعتمادی کی وجہ سے ہزار بار آپ سے کہے کہ مجھے یہ آتا ہے، مجھے وہ معلوم ہے، پر ہو سکتا ہے اسے علم نہ ہو۔

اگر کوئی ٹین ایجر اردو ادب میں گریجوئیٹ کرنا چاہے گا تو بہرحال وہ کتابیں تو پڑھے گا نا۔ مصنف کے لکھے کا معاشرے پر اثر ہوتا ہے اب وہ چاہے کتاب کے ذریعے ہو یا کسی ٹی وی شو کے ذریعے۔ :)
 
جی وہ تو ہیں پر ان کو پھر بھی سیکھنے کی ضرورت رہتی ہے۔ اب چاہے ایک ٹین ایجر اپنی بے جا خود اعتمادی کی وجہ سے ہزار بار آپ سے کہے کہ مجھے یہ آتا ہے، مجھے وہ معلوم ہے، پر ہو سکتا ہے اسے علم نہ ہو۔

اگر کوئی ٹین ایجر اردو ادب میں گریجوئیٹ کرنا چاہے گا تو بہرحال وہ کتابیں تو پڑھے گا نا۔ مصنف کے لکھے کا معاشرے پر اثر ہوتا ہے اب وہ چاہے کتاب کے ذریعے ہو یا کسی ٹی وی شو کے ذریعے۔ :)
سچ کو کھولی آنکھ سے دیکھیں۔ہمارے معاشرے میں مصنف حضرات کی ایک برادری ایسی بھی ہے جس کا ذریعہ معاش اسکرپٹ لکھنا ہے۔اگر وہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق کام نہ کریں تو گھروں میں فاقوں کی نوبت آجاتی ہے۔ہمارا میڈیا جب تک مغربی کلچر کی تکلید کرنا بند نہیں کرے گا اُس وقت تک یہ مسائل ایسے ہی رہیں گے۔
 

سین خے

محفلین
سچ کو کھولی آنکھ سے دیکھیں۔ہمارے معاشرے میں مصنف حضرات کی ایک برادری ایسی بھی ہے جس کا ذریعہ معاش اسکرپٹ لکھنا ہے۔اگر وہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق کام نہ کریں تو گھروں میں فاقوں کی نوبت آجاتی ہے۔ہمارا میڈیا جب تک مغربی کلچر کی تکلید کرنا بند نہیں کرے گا اُس وقت تک یہ مسائل ایسے ہی رہیں گے۔

میں آپ کی اس بات سے اتفاق کروں گی کہ مصنف حضرات وہی بیچتے ہیں جو بکتا ہے۔ جن ٹی وی شوز کی ریٹنگ زیادہ جاتی ہے اسی طرز کے اور ٹی وی شوز بنا دئیے جاتے ہیں۔

جہاں تک مغربی کلچر کی تقلید کی بات ہے تو مغربی ٹی وی شوز میں اگر gender discrimination دکھائی جائے، چاہے اس میں مرد کو کم تر دکھایا جائے یا عورت کو، وہاں پر ان باتوں پر بے انتہا تنقید کی جاتی ہے اور ہنگامہ مچتا ہے۔ چاہے وہ ایک کمرشل ہی کیوں نہ ہو، ہزاروں petitions وجود میں آجاتی ہیں۔ اور نتیجتاً ان پروگرامز کے کرتا دھرتا کوشش کرتے ہیں کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کریں۔

ایک اور بات قابلِ ذکر یہ ہے کہ مغرب میں اگر کچھ پروگرامز میں gender discrimination دکھا بھی دی جاتی ہے تو gender equality بھی تو ہزار جگہ پر دکھائی جا رہی ہے۔ مغرب کے مقابلے میں ہمارے یہاں صرف ایک ہی جیسے رٹے پٹے موضوع ہیں۔ آپ بلبلے ڈرامہ لے لیں مرد نکما اور بیوقوف دکھایا ہے۔ کیوں دکھایا ہے بھئی؟ اگر مزاحیہ پروگرام بنانا ہی ہے تو ہزار مزاح کے موضوع ہیں۔ ہمارے یہاں تو یہ سب کچھ عام ہے۔ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ سب کچھ پسند کیا جاتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ مغرب میں اگر مسائل ہیں تو ان پر شور مچا لیا جاتا ہے اور اس سے بہتری آجاتی ہے۔ ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جو جیسا چل رہا ہے وہ ویسا ہی چلتا رہتا ہے۔
 
Top