بالکل یہی کیفیت رہی پڑھتے وقتاوہ !! بچت ہوگئی . . . شہزاد بھائی قسم سے ...منافقت سے بچ گیا . .. تحریر پڑھتے ہوئے لگ رہا تھا یہ آپ کا شاہکار ہے ...تعریف و توصیف کے جملے ترتیب دے رہا تھا ...مگر اچھا ہوا . تحریر آپ کی نہیں . .. یونس بٹ کا مزاح بہت اچھا ہوتا ہے مگر اس تحریر میں پتہ نہیں چل رہا ...یہ عورت کے حق میں بات ہو رہی ہے یا تضحیک میں ویسے آپس کی بات ہے عجیب بے ڈھنگی کاوش ہے کہیں کہیں پھر بھی اچھا تاثر دیا ہے کچھ جملے ضرور قابل تعریف ہیں ....سچ کہوں تو آپ کا سوچتے ہوئے اور یہ خیال کرتے ہوئے کے یہ سب آپ نے لکھا ہے عجیب متضاد کیفیت تھی ...مگر بہرحال انتخاب کا تو آپ کا ہی ہے ذرا روشنی ڈالیں ...اس فن پارے کے انتخاب کا محرک ................
یہاں تو نہلے پہ دہلا ہو گیا۔ ۔ مزہ آیا۔ ۔ہاہاہاہا ۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔ سمجھان واسطے مثال دتی سی ۔ تُسی اپنی فروٹ شاپ کھول کے بھے گئے او
یہاں تو نہلے پہ دہلا ہو گیا۔ ۔ مزہ آیا۔ ۔
پیدا ہوتے وقت رائے کسی کی نی لی جاتی جناب. کیسی مزائقہ خیز بات ھےحوا کی بیٹی دُنیا میں دو بار جنم لیتی ہے ۔ ایک بار ماں کے پیٹ سے ، دوسری بار ڈولی کے پیٹ سے ۔ مگر ہمارے ہاں پہلی اور دوسری پیدائش میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ یعنی دونوں بار پیدا ہونے کی تاریخ ، جگہ اور لوگ جن کے ہاں ایسے پیدا ہونا ہوتا ہے اُ س کے انتخاب میں اُس کی رائے نہیں لی جاتی ۔
پیدا ہوتے وقت رائے کسی کی نی لی جاتی جناب. کیسی مزائقہ خیز بات ھےحوا کی بیٹی دُنیا میں دو بار جنم لیتی ہے ۔ ایک بار ماں کے پیٹ سے ، دوسری بار ڈولی کے پیٹ سے ۔ مگر ہمارے ہاں پہلی اور دوسری پیدائش میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ یعنی دونوں بار پیدا ہونے کی تاریخ ، جگہ اور لوگ جن کے ہاں ایسے پیدا ہونا ہوتا ہے اُ س کے انتخاب میں اُس کی رائے نہیں لی جاتی ۔
پیدا ہوتے وقت رائے کسی کی نی لی جاتی جناب. کیسی مزائقہ خیز بات ھےحوا کی بیٹی دُنیا میں دو بار جنم لیتی ہے ۔ ایک بار ماں کے پیٹ سے ، دوسری بار ڈولی کے پیٹ سے ۔ مگر ہمارے ہاں پہلی اور دوسری پیدائش میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ یعنی دونوں بار پیدا ہونے کی تاریخ ، جگہ اور لوگ جن کے ہاں ایسے پیدا ہونا ہوتا ہے اُ س کے انتخاب میں اُس کی رائے نہیں لی جاتی ۔
کافی حد تک میرا بھی یہی خیال ھے۔مجھے اس میں تمثیلات غیر حقیقی لگیں
آپ تو تحریر کی بات کر رہی ہیں ۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں ہر گھر میں ٹی وی پہ لاتعداد چینلز پہ جتنے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں کیا وہ یہی سب کچھ نہیں کر رہے ۔ تحریر پڑھنے والاتو پھر بھی شاید 16 سال سے کم عمر کوئی ہو لیکن یہ ڈرامے دیکھنے والے شائقین میں 6 ، 7 سال کے بچوں سے لے کے 80 سال کے بو ڑھے بھی شامل ہیں ۔
اور ان ڈراموں نے لوگوں کے ذہنوں میں اس حد تک رشتوں میں تخیلاتی دراڑیں پیدا کر دی ہیں کہ بہو خدا نخواستہ سچ میں درد سے تڑپ رہی ہو لیکن ساس سمجھتی ہے کہ ڈرامے کر رہی ہے ۔ساس کے ہاتھ سے چائے پیتے ہوئے بہو کے دل میں ہوتا ہے کہ یقیناََ ساس صاحبہ نے اس میں کچھ ملا نہ دیا ہو ۔
رشتوں کے حوالے سے ایسی چیزیں اپنے ذہن میں تخلیق کر لی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا اور اس کی بنیاد پہ اپنے رویے لوگوں سے روا رکھے جاتے ہیں ۔ جب آخر پہ بات کُھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جیسا سوچا تھا حقیقت اُس کے بر عکس تھی ۔
جس خاندانی اور معاشرتی ماحول کی بات آپ کر رہی ہیں وہ تو کب سے جنم لے بھی چُکا ہے ۔
آج کے دور کے ٹین ایج بوتھ کافی پختہ ہیں۔وہ اس طرح کی تحریروں کو کسی گنتی میں نہیں لاتے۔
سچ کو کھولی آنکھ سے دیکھیں۔ہمارے معاشرے میں مصنف حضرات کی ایک برادری ایسی بھی ہے جس کا ذریعہ معاش اسکرپٹ لکھنا ہے۔اگر وہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق کام نہ کریں تو گھروں میں فاقوں کی نوبت آجاتی ہے۔ہمارا میڈیا جب تک مغربی کلچر کی تکلید کرنا بند نہیں کرے گا اُس وقت تک یہ مسائل ایسے ہی رہیں گے۔جی وہ تو ہیں پر ان کو پھر بھی سیکھنے کی ضرورت رہتی ہے۔ اب چاہے ایک ٹین ایجر اپنی بے جا خود اعتمادی کی وجہ سے ہزار بار آپ سے کہے کہ مجھے یہ آتا ہے، مجھے وہ معلوم ہے، پر ہو سکتا ہے اسے علم نہ ہو۔
اگر کوئی ٹین ایجر اردو ادب میں گریجوئیٹ کرنا چاہے گا تو بہرحال وہ کتابیں تو پڑھے گا نا۔ مصنف کے لکھے کا معاشرے پر اثر ہوتا ہے اب وہ چاہے کتاب کے ذریعے ہو یا کسی ٹی وی شو کے ذریعے۔
سچ کو کھولی آنکھ سے دیکھیں۔ہمارے معاشرے میں مصنف حضرات کی ایک برادری ایسی بھی ہے جس کا ذریعہ معاش اسکرپٹ لکھنا ہے۔اگر وہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق کام نہ کریں تو گھروں میں فاقوں کی نوبت آجاتی ہے۔ہمارا میڈیا جب تک مغربی کلچر کی تکلید کرنا بند نہیں کرے گا اُس وقت تک یہ مسائل ایسے ہی رہیں گے۔