علم میں دولت
گرچہ کہا یہی جاتا ہے کہ پرانے دور میں سفارش نہ تھی۔ لیکن اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اکثر روایات میں سفارش کا حوالہ ملتا ہے۔ ایسی ہی سفارش پر مبنی حکایت پیش خدمت ہے۔
ایک شخص تھا۔ بہت نکما۔ علم کی دولت سے محروم اور کسی بھی ہنر سے عاری۔ کوئی کام دھندہ نہ کرتا تھا۔ پورا دن گلی کی نکڑ پر ٹنگا رہتا۔ گھر والے تو اک طرف محلے والے الگ تنگ تھے۔ آخر اس کے باپ نے سفارش ڈھونڈنی شروع کی۔ محلے کے حاجی صاحب نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں۔ میری بادشاہ وقت کے دربار تک رسائی ہے۔ میں وہاں کچھ بات چیت کروں گا۔ اللہ کے کرم و فضل سے سبب بن جائے گا۔ سب لوگ اس سفارش کے قبول ہونے کی دعائیں کرنے لگے۔
مراد بر آئی اور وہ بادشاہ کے دربار میں جا پہنچا۔
بادشاہ کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپکا اقبال بلند ہو مجھے درباریوں میں شامل کر لیا جائے۔
بادشاہ نے پوچھا کس علم میں طاق ہو۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت طاق بنانے کے فن سے تو بالکل انجان ہوں۔ لیکن اگر آپ کے دربار میں رہا تو آپ کا علم جو بلندی میں ہمالہ کو شرمسار کر رہا اس سے فیض پا کر ہر علم میں طاق ہو جاؤں گا۔
بادشاہ سمجھ گیا کہ لڑکا آداب شہنشاہی سے خوب آگاہ ہے۔ اک آدھے درباری نے کہا کہ حضور یہ خوشامدی لگتا ہے۔ اس پر بادشاہ نے کہا کہ یہ خوشامد نہیں صاحب نظر ہونا ہے۔
بادشاہ نے اس کی درخواست منظور کرلی،لیکن ساتھ ہی شرط لگا دی کہ پہلے علم حاصل کرو،اس لیے کہ علم کے بغیر کوئی ہمارا درباری نہیں بن سکتا۔
بادشاہ کی مراد خوشامد کے علم سے تھی کہ اسے آداب اور وقت بے وقت چاپلوسی کی خوب تربیت دے دی جائے مگر کج فہموں نے اسے دین و دنیا کا علم حاصل کرنے پر لگا دیا۔
وہ سیدھا سب سے بڑی درسگاہ میں پہنچا۔ اور بادشاہ کی پرچی دکھا کر داخل مکتب ہوگیا۔ اپنی زباندانی کی بدولت جلد ہی اس نے اپنے ہم جماعتوں میں شہرت پا لی۔ اور درسگاہ میں چھوٹے موٹے مقابلے جیتنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ عالم بن گیا۔ اب فروغ علم کے لیئے خود کی اک درسگاہ بنا لی اور خوب مالا مال ہوگیا۔
بادشاہ کا درباری بننے کی چنداں ضرورت نہ رہی تھی۔ لیکن اک دن بادشاہ نے خود اسے طلب کر لیا اور امتحان لیا۔ اس نے اپنی رطب اللسانی سے بادشاہ پر خوب دھاک بٹھائی اور باتوں باتوں میں بادشاہ کو اس دنیا کا نجات دہندہ ثابت کر دیا۔
اس پر بادشاہ بہت خوش ہوا اور کہا
اب تم میرا درباری بننے کے قابل ہوگئے ہو۔
اسپر وہ شدید پریشان ہو گیا کہ چلتا علم کا کاروبار ہے۔ دولت کی ریل پیل ہے۔ اور بادشاہوں کے مزاج کو تو ویسے ہی نہیں پتہ۔ کب گردن مار دے۔ بادشاہ نے اسے تذبذب میں دیکھا تو کہا۔ کیا سوچ رہے ہو۔
یہ سن کر اس نے کہا:
بادشاہ سلامت: اس سے زیادہ فخر کے لمحات میری زندگی میں نہیں آئے کہ آپ جیسا عالم آدمی مجھے اس قابل سمجھ رہا ہے کہ مجھے بھی کچھ علم ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ جیسی باعلم شخصیت کے سامنے میری کیا اوقات ہے۔ آپ شاہی درباریوں کو میری درسگاہ میں بھیجئے۔ انکی تربیت بھی ہو جائے گی اور آپکے ساتھ مشاورت سے میرے علم میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔
بادشاہ خوش ہوگیا اسکی درسگاہ کو شاہی درسگاہ بنوا دیا۔ سب امیر و کبیر لوگ وہاں داخلے کے لیئے سفارشیں ڈھونڈنے لگے۔
اخلاق سبق: علم میں بڑی دولت ہے۔