نیرنگ خیال

لائبریرین
اوہو! یہ خالص پنجابی لہجے میں ’’ بے عزتی‘‘ ہے۔ بہت خوب:ROFLMAO:

بہت مزے دار

تجاہلَ عارفانہ:applause:

:lol:

واہ کیا ما بعد الطبعیاتی نکتہ پیدا کیا ہے۔کہاں ہے آئن اسٹائن اور اس کا وقت کی ڈائلے شن کا نظریہ


:biggrin:

:roll:
ہیلارئیس
خلیل بھائی اسقدر خوبصورت تبصرے کے لیئے تہہ دل سے مشکور ہوں۔ اور دل بڑھ گیا کہ آپ کی طرف سے بھی داد بے بہا ملی :) :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
سادہ منش امام (نئی حکایت)

سالوں پہلے کی بات ہے جب مولوی لوگوں کو بھی باہر کے ویزے مل جاتے تھے تب اک ایسا ہی بھولا بھٹکا مولوی لوگوں کی باتوں میں آ کر یہاں کی پیری جیسی رنگین مسند تیاگ کر لندن جیسے بے رونق اور بد عقیدہ شہر میں صرف اور صرف اسلام کی سرفرازی کے لیئے جا پہنچا۔ڈیوٹی پر آنے جانے کے لیئے عوامی بسوں کا استعمال معمول بن گیا کیوں کہ اب کوئی مرید تو تھا نہیں جو اپنی پجارو اسی کام کے لیئے وقف کر رکھتا۔ شروع میں یہ فضا دل کو راس نہ آئی مگر بیچ بیچ میں جب عوام کی چال چلن اور بازاروں کی رونق دیکھی تو رفتہ رفتہ دل کو یہ موسم راس آنے لگا۔​
لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ حضرت روز سوچتے کہ یار اتنا بڑا شہر اور صرف اک بس؟ مگر اک خدا ترس نے بتایا کہ وقت کی پابندی بھی کسی بلا کا نام ہے۔ امام صاحب کو بڑی حیرانگی ہوئی اور گھر والوں کو فون پر ہنس ہنس کر بتایا کہ یار لوگ بڑے وقت کے پابند ہیں اور اسے بلا سمجھتے ہیں۔ بیوقوف کہیں کے۔​
ایک مرتبہ امام صاحب وقت سے پہلے سٹاپ پر پہنچ گئےتو دیکھا کہ واقعی دوسرا بس والا تھا۔ اس دن طوعاً کرہاً اس پر ہی سفر کیا اور اگلے دن اپنے یار کے ساتھ ہی سفر کرنے کی ٹھانی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ امام صاحب کا اسکے ساتھ صحیح یارانہ لگ گیا تھا۔ اور آپ کو وہ لندن کے نشیب و فراز سے ذرا اچھے طریق سے آگاہی دے رہا تھا۔;)
اگلے دن امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر اسی نشست پر جا کر بیٹھ گئے جس پر روز بیٹھا کرتے تھے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔​
امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ ہو سکتا ہے ڈرائیور نےاپنی طرف سے نذرانہ پیش کیا ہو۔ اور حسب توفیق چندہ ملا کر ثواب دارین حاصل کرنا چاہتا ہو۔ یہ سوچ کر بے اختیار ہنسی آگئی کہ ویسے اتنےپیسے تو اپنے ملک میں کبھی نہیں لیئے کسی سے۔ اتنا کم ریٹ اس تو اپنا ملک ہی اچھا تھا۔ نذرانہ بھی پیش ہوتا تھا تو اسکا کوئی معیار تو تھا۔لوگ ہزاروں دیتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کرتےتھے۔​
اسی کشمکش میں تھےکہ اک اور خیال نے آن گھیرا کہ کہیں کسی قسم کا امتحان تو مقصود نہیں۔ ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، اگر امتحان ہی لینا تھا تو اتنے کم پیسے؟یہ سوچناتھا کہ غصے سے پھڑکنے لگے۔ خیال آیا کہ بس ابھی سیٹ تلے تعویذ دباتا ہوں اور اسکا تو بیڑا پار کرتا ہوں۔ مگر پھر یاد آیا کہ مؤا کافر ہے۔ کیا اثر ہوگا۔ اور پہلا خیال ترک کر دیا۔​
بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔ شائد آپکو معلوم نہیں کہ اتنے کم چندے ہمارے ہاں قبول کرنےکا رواج نہیں۔ نذرانہ میں تو ہزاروں پار کر دیتے پر جس دن سے آئے ہیں دیسی مرغے کو ترس رہے ہیں۔ اگر نذرانہ ہی پیش کرنا ہے تو کوئی بہتر چیز لائیے۔ اتنے کم پیسے نکلنے پر تو ڈاکوبھی درگت بنا دے گا۔ ایمان کی حفاظت خاک ہوگی۔​
ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کے پاس آکر کالے بکرے کے صدقے کے بارے میں بنی باتوں کی حقیقت جاننا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس تو ویسے ہی دئیے تھے کہ کل آپکو کلیجی کی دکان پر بھاؤ تاؤ کرتے دیکھا تو سوچا کہ شائد پاؤ دستی کھانے سے جان میں جان آئے۔ آپکی توند روز بروز کم ہوتی جاتی ہے۔​
امام صاحب کو جب جملے کی سمجھ آئی تو بس سے نیچے اتر چکے تھے۔ اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے،غصےسے تھر تھر کانپنے لگے۔ گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا جو پتہ نہیں اس وقت کہاں سے سڑک کے کنارے آگیا تھا۔ بس کے پیچھے بھی نہ بھاگ سکے۔وگرنہ اس گستاخ کا منہ توڑ دیتے۔ آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر رونے لگے اور کہنے لگے اپنے ملک ہوتا تو اس سے اتنا صدقہ خیرات کراتا کہ بقیہ زندگی یہ صدقے خیرات پر پلتا۔ نامراد میری کلیجی کا بھی مذاق اڑا رہا ہے یہاں۔ مؤا کافر جانتا نہیں کہ ہم کتنے بڑےگدی نشین ہیں۔​
اور اسکے بعد۔۔.....​
یاد رکھیئے کہ کچھ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں۔​
صرف اتنا ہی ذہن میں رکھ کر، کہیں کوئی ہمارے روزمرہ معمولات کے تعاقب میں تو نہیں؟ اور اگر ہے تو ایسے شخص کو منہ توڑ جواب دینےکی ضرورت ہے۔​
 

نیلم

محفلین
:D
زبردست
سادہ منش امام (نئی حکایت)

سالوں پہلے کی بات ہے جب مولوی لوگوں کو بھی باہر کے ویزے مل جاتے تھے تب اک ایسا ہی بھولا بھٹکا مولوی لوگوں کی باتوں میں آ کر یہاں کی پیری جیسی رنگین مسند تیاگ کر لندن جیسے بے رونق اور بد عقیدہ شہر میں صرف اور صرف اسلام کی سرفرازی کے لیئے جا پہنچا۔ڈیوٹی پر آنے جانے کے لیئے عوامی بسوں کا استعمال معمول بن گیا کیوں کہ اب کوئی مرید تو تھا نہیں جو اپنی پجارو اسی کام کے لیئے وقف کر رکھتا۔ شروع میں یہ فضا دل کو راس نہ آئی مگر بیچ بیچ میں جب عوام کی چال چلن اور بازاروں کی رونق دیکھی تو رفتہ رفتہ دل کو یہ موسم راس آنے لگا۔​
لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ حضرت روز سوچتے کہ یار اتنا بڑا شہر اور صرف اک بس؟ مگر اک خدا ترس نے بتایا کہ وقت کی پابندی بھی کسی بلا کا نام ہے۔ امام صاحب کو بڑی حیرانگی ہوئی اور گھر والوں کو فون پر ہنس ہنس کر بتایا کہ یار لوگ بڑے وقت کے پابند ہیں اور اسے بلا سمجھتے ہیں۔ بیوقوف کہیں کے۔​
ایک مرتبہ امام صاحب وقت سے پہلے سٹاپ پر پہنچ گئےتو دیکھا کہ واقعی دوسرا بس والا تھا۔ اس دن طوعاً کرہاً اس پر ہی سفر کیا اور اگلے دن اپنے یار کے ساتھ ہی سفر کرنے کی ٹھانی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ امام صاحب کا اسکے ساتھ صحیح یارانہ لگ گیا تھا۔ اور آپ کو وہ لندن کے نشیب و فراز سے ذرا اچھے طریق سے آگاہی دے رہا تھا۔;)
اگلے دن امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر اسی نشست پر جا کر بیٹھ گئے جس پر روز بیٹھا کرتے تھے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔​
امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ ہو سکتا ہے ڈرائیور نےاپنی طرف سے نذرانہ پیش کیا ہو۔ اور حسب توفیق چندہ ملا کر ثواب دارین حاصل کرنا چاہتا ہو۔ یہ سوچ کر بے اختیار ہنسی آگئی کہ ویسے اتنےپیسے تو اپنے ملک میں کبھی نہیں لیئے کسی سے۔ اتنا کم ریٹ اس تو اپنا ملک ہی اچھا تھا۔ نذرانہ بھی پیش ہوتا تھا تو اسکا کوئی معیار تو تھا۔لوگ ہزاروں دیتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کرتےتھے۔​
اسی کشمکش میں تھےکہ اک اور خیال نے آن گھیرا کہ کہیں کسی قسم کا امتحان تو مقصود نہیں۔ ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، اگر امتحان ہی لینا تھا تو اتنے کم پیسے؟یہ سوچناتھا کہ غصے سے پھڑکنے لگے۔ خیال آیا کہ بس ابھی سیٹ تلے تعویذ دباتا ہوں اور اسکا تو بیڑا پار کرتا ہوں۔ مگر پھر یاد آیا کہ مؤا کافر ہے۔ کیا اثر ہوگا۔ اور پہلا خیال ترک کر دیا۔​
بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔ شائد آپکو معلوم نہیں کہ اتنے کم چندے ہمارے ہاں قبول کرنےکا رواج نہیں۔ نذرانہ میں تو ہزاروں پار کر دیتے پر جس دن سے آئے ہیں دیسی مرغے کو ترس رہے ہیں۔ اگر نذرانہ ہی پیش کرنا ہے تو کوئی بہتر چیز لائیے۔ اتنے کم پیسے نکلنے پر تو ڈاکوبھی درگت بنا دے گا۔ ایمان کی حفاظت خاک ہوگی۔​
ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کے پاس آکر کالے بکرے کے صدقے کے بارے میں بنی باتوں کی حقیقت جاننا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس تو ویسے ہی دئیے تھے کہ کل آپکو کلیجی کی دکان پر بھاؤ تاؤ کرتے دیکھا تو سوچا کہ شائد پاؤ دستی کھانے سے جان میں جان آئے۔ آپکی توند روز بروز کم ہوتی جاتی ہے۔​
امام صاحب کو جب جملے کی سمجھ آئی تو بس سے نیچے اتر چکے تھے۔ اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے،غصےسے تھر تھر کانپنے لگے۔ گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا جو پتہ نہیں اس وقت کہاں سے سڑک کے کنارے آگیا تھا۔ بس کے پیچھے بھی نہ بھاگ سکے۔وگرنہ اس گستاخ کا منہ توڑ دیتے۔ آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر رونے لگے اور کہنے لگے اپنے ملک ہوتا تو اس سے اتنا صدقہ خیرات کراتا کہ بقیہ زندگی یہ صدقے خیرات پر پلتا۔ نامراد میری کلیجی کا بھی مذاق اڑا رہا ہے یہاں۔ مؤا کافر جانتا نہیں کہ ہم کتنے بڑےگدی نشین ہیں۔​
اور اسکے بعد۔۔.....​
یاد رکھیئے کہ کچھ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں۔​
صرف اتنا ہی ذہن میں رکھ کر، کہیں کوئی ہمارے روزمرہ معمولات کے تعاقب میں تو نہیں؟ اور اگر ہے تو ایسے شخص کو منہ توڑ جواب دینےکی ضرورت ہے۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
زبردست نیرنگ خیال، یار آپ مزید لکھیں۔ بہت مزہ آتا ہے پڑھ کر۔ حکایات پر آپ کا نام دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ خاصے کی چیز آ گئی ہے :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
زبردست نیرنگ خیال، یار آپ مزید لکھیں۔ بہت مزہ آتا ہے پڑھ کر۔ حکایات پر آپ کا نام دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ خاصے کی چیز آ گئی ہے :)
قیصرانی بھائی آخر کب تک وہی حکایتیں پڑھ کر عوام روتی رہے گی۔ کچھ تبدیلی تو وقت لاتا ہے نہ :D
اس حوصلہ افزائی پر بےحد شکرگزار ہوں :)

اورمیری پڑھ کےلگتاہوگا،،اب اس کی مار آگئی ہے:D
تم حکایت شئیر کرنا نہ چھوڑنا ورنہ ہمارا کاروبار بھی بند ہوجائے گا۔ سپورٹنگ انڈسٹری ہے نہ ہماری :p
 

شمشاد

لائبریرین
زبردست لکھا ہے انیس بھائی۔

چلو بھئی نیلم اب جلدی سے ایک اور حکایت بیان کریں۔ تاکہ اس کا نیا ورژن پڑھنے کو ملے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین


انداز بیان اور (@قیصرانی بھائی کی فرمائش پر)
کہتے ہیں کسی ملک پر اک بادشاہ کی حکومت تھی۔ یاد رہے یہ ایس-ایچ –او بادشاہ نہ تھا۔ کیوں کہ ہمارے ہاں عام روایت ہے کہ ایس-ایچ-او بھی اپنے علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے۔
بادشاہ دن بھر امور مملکت میں مشغول رہتا عبادت گزار بھی تھا ایسا لوگ کہتے۔شکار کا بھی شوقین تھا۔ بندھے ہرن مارنے میں کمال مہارت تھی۔ ان تمام کارگزاریوں کے بعد رات کو تھک ہار کر سوتا۔ گہری نیند اتنی کہ سویا مویا والہ مقولہ اس کو دیکھ کر ہی بنا ہوگا۔ خواب اول تو آتے ہی نہ ہونگے اس قدر گہری نیند میں ؛اور اگر اک آدھا بھولا بھٹکا خواب آ بھی جاتا تو یاد کہاں رہتا تھا۔ اسی لیئے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا بھی دربار میں نہ رکھا کہ بلاوجہ خرچہ بڑھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ معاشیات پر بھی گہری نظر تھی۔ وگرنہ پہلے دور کے بادشاہ تو اپنا ذاتی خواب کی تعبیریں بتانے والا رکھتے تھے جو مزاج آشنا بھی ہوتا اور خوب موڑ توڑ کر تعبیریں بتایا کرتا ۔ انعاما خلعت فاخرہ پایا کرتا۔ اس بادشاہ نے اس روایت کو بھی ختم کیا اور صرف خلعت دینی شروع کی۔
خیر اصل قصے کی طرف آتے ہیں کہ اس بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اُس کے سارے دانت ٹوٹ کر گر پڑے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ خواب کا آخری حصہ ہے۔ بقیہ خواب بادشاہ کو یاد ہی نہ رہا۔ کہ دانت کیوں ٹوٹے کس نے توڑے؟ یاد رہتا تو صبح تعبیر بتانے والے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ ہاں توڑنے والے کی گردن جلاد کے حوالے کی جاتی۔ اور گستاخ اپنے کیئے کی سزا پاتا۔
بادشاہ کہ اس خواب دیکھنے کی خبر سنکر کام چور وزیروں نے مشورہ دیا کہ اس خوشی میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا جائے۔ اور بادشاہ کی طرف سے مثبت جواب پاتے ہی خوشی کہ شادیانے بجانے لگے۔ طے یہ پایا کہ امور مملکت کو کسی اور دن کے لیئے اٹھا رکھا جائے۔ آج صرف اور صرف اس خواب کی تعبیر ڈھونڈی جائے۔
بادشاہ نےخوابوں کی تعبیر و تفسیر بتانے والے ایک عالم کو بلوا کر اُسے اپنا خواب سُنایا۔
مفسر نے خواب سُن کر بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟ اصل میں مفسر پریشان ہو گیا کہ اس بےتکے اور بے ڈھنگے خواب کی کیا تعبیر بیان کرے۔ لہذا زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں گستاخی کر بیٹھا۔
بادشاہ کو غصہ تو بہت آیا مگر ضبط کر گیا اور مسکرا کر جواب دیا ؛ہاں، میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔

اب مفسر کو یقین ہو گیا تھا کہ بادشاہ عقل سے پیدل ہے اور کوئی سواری نہیں رکھتا اپنے پاس۔ پر مرتا کیا نہ کرتا بیٹھ گیا زمین پر اور لگا آڑھی ترچھی لکیریں کھینچنے۔ پانچ چھ کونوں والے سارے ستارے بنانے کیبعد سارا فرش کا بیڑہ غرق کرکے سراٹھایا۔ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھتے ہوئے بادشاہ سے کہا؛

بادشاہ سلامت، اسکی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپکے سارے گھر والے آپ کے سامنے مریں گے۔
بادشاہ کا چہرہ غیض و غضب کی شدت سے لال ہو گیا۔ وہ سمجھا کہ میں نے جو تخت کے لیئے اپنے بھائی مروائے تھے اسکی طرف اشارہ کر رہا یہ نابکار۔ دربانوں کو حکم دیا کہ اسمفسر کو فی الفور جیل میں ڈال دیں اسکا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا اور کسی دوسرے مفسر کا بندوبست کریں۔
دوسرے مفسر نے آ کردربانوں سے پہلے مفسر کا حال سنا پھر بادشاہ کا خواب سُنا ۔ قادرالکلام نہ تھا کہ بات میں رنگ بھر سکتا سو کُچھ ویسا ہی جواب دیا اور بادشاہ نے اُسے بھی جیل میں ڈلوا دیا۔
تیسرے مفسر کو بلوایا گیا، وزیروں نے بتا یا کہ یہ اس شہر میں آخری تعبیر بتانے والا ہے۔ ذرا ہتھ ہولا رکھنا۔
ادھر مفسر بھی کافی بادشاہوں کا مزاج آشنا تھا۔ کیوں کہ یہ اسکا آبائی پیشہ تھا۔ اور بادشاہ کے تیور دیکھ کر بات کرنا اس نے پنگوڑے میں ہی سیکھ لیا تھا۔ اور چرب زبانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔


بادشاہ نے اُسے اپنا خواب سُنا کر تعبیر جاننا چاہی۔
مفسر نے بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟
بادشاہ نےبرداشت سے کام لیتے ہوئے کہا؛ ہاں مُجھے یقین ہے میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔
اس مفسر نے فرش پر پہلے سے بنے نقش و نگار سے کام چلا لیا اوراک وزیر کی طرف مڑتے ہوئے کہا؛اوئے ادھر بیٹھے ہو۔ جاؤ بھاگ کر مٹھائی لاؤ۔ اور جشن کا اعلان کرا دو۔
پھر بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ جہاں پناہ آپکو مُبار ک ہو۔ بادشاہ جو حیرت کے ساتھ اسکی حرکتیں دیکھ رہا تھا؛کہنے لگا؛ کس بات کی مبارک؟
مفسر نے ادھر ادھر دیکھا اور ملکہ عالیہ کو موجود نہ پا کر بادشاہ کے کان میں جواب دیا؛ بادشاہ سلامت، آپکی بیوی آپ کے سامنے مرے گی۔
بادشاہ نے اندرونی مسرت چھپاتے ہوئے تعجب کے ساتھ مفسر سے پوچھا؛ کیا تمہیں یقین ہے ؟
مفسر نے جواب دیا؛ جی بادشاہ سلامت، میرا علم کامل ہے اس معاملے میں بادشاہ نے خوش ہو کر مفسر کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔ اور تعبیر کسی اور کا نہ بتانے کا وعدہ بھی لیا۔
اس بات کا یہی مطلب بنتا ہے کہ بادشاہ باقی سب کو تو مروا چکا تھا۔ صرف بیگم ہی زندہ تھی۔

اخلاقی سبق: مفہوم دونوں باتوں کا ایک ہی ہے لیکن بات کرنے کے انداز سے کتنا فرق آ گیا۔ پہلے عالم کے الفاظ کا چناو غلط ہونے کیوجہ سے اسکی کی ہوئی تعبیر سننے کو ناگوار گزری جس کیوجہ سے اس کو سزا ملی اور آخری عالم نے بھی کوئی تیر تو نہ مارا پر بادشاہ کی دکھتی رگ جاننے کے سبب انعام کا حقدار ٹھہرا۔
ہمیں بھی چاہیے کہ گر برے الفاظ استعمال کرنے ہی ہیں تو وہ استعمال کریں جو دوسرا سننا چاہتا ہے۔

فرہنگ: مفسر: خواب کی تعبیر بتانے والا۔ صرف اس کہانی کے لیئے۔ ویسے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں۔
 

نیلم

محفلین


انداز بیان اور (@قیصرانی بھائی کی فرمائش پر)
کہتے ہیں کسی ملک پر اک بادشاہ کی حکومت تھی۔ یاد رہے یہ ایس-ایچ –او بادشاہ نہ تھا۔ کیوں کہ ہمارے ہاں عام روایت ہے کہ ایس-ایچ-او بھی اپنے علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے۔
بادشاہ دن بھر امور مملکت میں مشغول رہتا عبادت گزار بھی تھا ایسا لوگ کہتے۔شکار کا بھی شوقین تھا۔ بندھے ہرن مارنے میں کمال مہارت تھی۔ ان تمام کارگزاریوں کے بعد رات کو تھک ہار کر سوتا۔ گہری نیند اتنی کہ سویا مویا والہ مقولہ اس کو دیکھ کر ہی بنا ہوگا۔ خواب اول تو آتے ہی نہ ہونگے اس قدر گہری نیند میں ؛اور اگر اک آدھا بھولا بھٹکا خواب آ بھی جاتا تو یاد کہاں رہتا تھا۔ اسی لیئے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا بھی دربار میں نہ رکھا کہ بلاوجہ خرچہ بڑھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ معاشیات پر بھی گہری نظر تھی۔ وگرنہ پہلے دور کے بادشاہ تو اپنا ذاتی خواب کی تعبیریں بتانے والا رکھتے تھے جو مزاج آشنا بھی ہوتا اور خوب موڑ توڑ کر تعبیریں بتایا کرتا ۔ انعاما خلعت فاخرہ پایا کرتا۔ اس بادشاہ نے اس روایت کو بھی ختم کیا اور صرف خلعت دینی شروع کی۔
خیر اصل قصے کی طرف آتے ہیں کہ اس بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اُس کے سارے دانت ٹوٹ کر گر پڑے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ خواب کا آخری حصہ ہے۔ بقیہ خواب بادشاہ کو یاد ہی نہ رہا۔ کہ دانت کیوں ٹوٹے کس نے توڑے؟ یاد رہتا تو صبح تعبیر بتانے والے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ ہاں توڑنے والے کی گردن جلاد کے حوالے کی جاتی۔ اور گستاخ اپنے کیئے کی سزا پاتا۔
بادشاہ کہ اس خواب دیکھنے کی خبر سنکر کام چور وزیروں نے مشورہ دیا کہ اس خوشی میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا جائے۔ اور بادشاہ کی طرف سے مثبت جواب پاتے ہی خوشی کہ شادیانے بجانے لگے۔ طے یہ پایا کہ امور مملکت کو کسی اور دن کے لیئے اٹھا رکھا جائے۔ آج صرف اور صرف اس خواب کی تعبیر ڈھونڈی جائے۔
بادشاہ نےخوابوں کی تعبیر و تفسیر بتانے والے ایک عالم کو بلوا کر اُسے اپنا خواب سُنایا۔
مفسر نے خواب سُن کر بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟ اصل میں مفسر پریشان ہو گیا کہ اس بےتکے اور بے ڈھنگے خواب کی کیا تعبیر بیان کرے۔ لہذا زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں گستاخی کر بیٹھا۔
بادشاہ کو غصہ تو بہت آیا مگر ضبط کر گیا اور مسکرا کر جواب دیا ؛ہاں، میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔

اب مفسر کو یقین ہو گیا تھا کہ بادشاہ عقل سے پیدل ہے اور کوئی سواری نہیں رکھتا اپنے پاس۔ پر مرتا کیا نہ کرتا بیٹھ گیا زمین پر اور لگا آڑھی ترچھی لکیریں کھینچنے۔ پانچ چھ کونوں والے سارے ستارے بنانے کیبعد سارا فرش کا بیڑہ غرق کرکے سراٹھایا۔ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھتے ہوئے بادشاہ سے کہا؛

بادشاہ سلامت، اسکی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپکے سارے گھر والے آپ کے سامنے مریں گے۔
بادشاہ کا چہرہ غیض و غضب کی شدت سے لال ہو گیا۔ وہ سمجھا کہ میں نے جو تخت کے لیئے اپنے بھائی مروائے تھے اسکی طرف اشارہ کر رہا یہ نابکار۔ دربانوں کو حکم دیا کہ اسمفسر کو فی الفور جیل میں ڈال دیں اسکا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا اور کسی دوسرے مفسر کا بندوبست کریں۔
دوسرے مفسر نے آ کردربانوں سے پہلے مفسر کا حال سنا پھر بادشاہ کا خواب سُنا ۔ قادرالکلام نہ تھا کہ بات میں رنگ بھر سکتا سو کُچھ ویسا ہی جواب دیا اور بادشاہ نے اُسے بھی جیل میں ڈلوا دیا۔
تیسرے مفسر کو بلوایا گیا، وزیروں نے بتا یا کہ یہ اس شہر میں آخری تعبیر بتانے والا ہے۔ ذرا ہتھ ہولا رکھنا۔
ادھر مفسر بھی کافی بادشاہوں کا مزاج آشنا تھا۔ کیوں کہ یہ اسکا آبائی پیشہ تھا۔ اور بادشاہ کے تیور دیکھ کر بات کرنا اس نے پنگوڑے میں ہی سیکھ لیا تھا۔ اور چرب زبانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔


بادشاہ نے اُسے اپنا خواب سُنا کر تعبیر جاننا چاہی۔
مفسر نے بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟
بادشاہ نےبرداشت سے کام لیتے ہوئے کہا؛ ہاں مُجھے یقین ہے میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔
اس مفسر نے فرش پر پہلے سے بنے نقش و نگار سے کام چلا لیا اوراک وزیر کی طرف مڑتے ہوئے کہا؛اوئے ادھر بیٹھے ہو۔ جاؤ بھاگ کر مٹھائی لاؤ۔ اور جشن کا اعلان کرا دو۔
پھر بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ جہاں پناہ آپکو مُبار ک ہو۔ بادشاہ جو حیرت کے ساتھ اسکی حرکتیں دیکھ رہا تھا؛کہنے لگا؛ کس بات کی مبارک؟
مفسر نے ادھر ادھر دیکھا اور ملکہ عالیہ کو موجود نہ پا کر بادشاہ کے کان میں جواب دیا؛ بادشاہ سلامت، آپکی بیوی آپ کے سامنے مرے گی۔
بادشاہ نے اندرونی مسرت چھپاتے ہوئے تعجب کے ساتھ مفسر سے پوچھا؛ کیا تمہیں یقین ہے ؟
مفسر نے جواب دیا؛ جی بادشاہ سلامت، میرا علم کامل ہے اس معاملے میں بادشاہ نے خوش ہو کر مفسر کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔ اور تعبیر کسی اور کا نہ بتانے کا وعدہ بھی لیا۔
اس بات کا یہی مطلب بنتا ہے کہ بادشاہ باقی سب کو تو مروا چکا تھا۔ صرف بیگم ہی زندہ تھی۔

اخلاقی سبق: مفہوم دونوں باتوں کا ایک ہی ہے لیکن بات کرنے کے انداز سے کتنا فرق آ گیا۔ پہلے عالم کے الفاظ کا چناو غلط ہونے کیوجہ سے اسکی کی ہوئی تعبیر سننے کو ناگوار گزری جس کیوجہ سے اس کو سزا ملی اور آخری عالم نے بھی کوئی تیر تو نہ مارا پر بادشاہ کی دکھتی رگ جاننے کے سبب انعام کا حقدار ٹھہرا۔
ہمیں بھی چاہیے کہ گر برے الفاظ استعمال کرنے ہی ہیں تو وہ استعمال کریں جو دوسرا سننا چاہتا ہے۔

فرہنگ: مفسر: خواب کی تعبیر بتانے والا۔ صرف اس کہانی کے لیئے۔ ویسے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں۔

زبردست جناب ایک اورکہانی کاحشر نشر کرنےکےلیے:D
آپ نےبادشاہ سلامت کےساتھ اچھانہیں کیااُس بچارےکوجھوٹی تسلی دےدی:D
 
Top