سادہ منش امام (نئی حکایت)
سالوں پہلے کی بات ہے جب مولوی لوگوں کو بھی باہر کے ویزے مل جاتے تھے تب اک ایسا ہی بھولا بھٹکا مولوی لوگوں کی باتوں میں آ کر یہاں کی پیری جیسی رنگین مسند تیاگ کر لندن جیسے بے رونق اور بد عقیدہ شہر میں صرف اور صرف اسلام کی سرفرازی کے لیئے جا پہنچا۔ڈیوٹی پر آنے جانے کے لیئے عوامی بسوں کا استعمال معمول بن گیا کیوں کہ اب کوئی مرید تو تھا نہیں جو اپنی پجارو اسی کام کے لیئے وقف کر رکھتا۔ شروع میں یہ فضا دل کو راس نہ آئی مگر بیچ بیچ میں جب عوام کی چال چلن اور بازاروں کی رونق دیکھی تو رفتہ رفتہ دل کو یہ موسم راس آنے لگا۔
لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ حضرت روز سوچتے کہ یار اتنا بڑا شہر اور صرف اک بس؟ مگر اک خدا ترس نے بتایا کہ وقت کی پابندی بھی کسی بلا کا نام ہے۔ امام صاحب کو بڑی حیرانگی ہوئی اور گھر والوں کو فون پر ہنس ہنس کر بتایا کہ یار لوگ بڑے وقت کے پابند ہیں اور اسے بلا سمجھتے ہیں۔ بیوقوف کہیں کے۔
ایک مرتبہ امام صاحب وقت سے پہلے سٹاپ پر پہنچ گئےتو دیکھا کہ واقعی دوسرا بس والا تھا۔ اس دن طوعاً کرہاً اس پر ہی سفر کیا اور اگلے دن اپنے یار کے ساتھ ہی سفر کرنے کی ٹھانی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ امام صاحب کا اسکے ساتھ صحیح یارانہ لگ گیا تھا۔ اور آپ کو وہ لندن کے نشیب و فراز سے ذرا اچھے طریق سے آگاہی دے رہا تھا۔
اگلے دن امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر اسی نشست پر جا کر بیٹھ گئے جس پر روز بیٹھا کرتے تھے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔
امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ ہو سکتا ہے ڈرائیور نےاپنی طرف سے نذرانہ پیش کیا ہو۔ اور حسب توفیق چندہ ملا کر ثواب دارین حاصل کرنا چاہتا ہو۔ یہ سوچ کر بے اختیار ہنسی آگئی کہ ویسے اتنےپیسے تو اپنے ملک میں کبھی نہیں لیئے کسی سے۔ اتنا کم ریٹ اس تو اپنا ملک ہی اچھا تھا۔ نذرانہ بھی پیش ہوتا تھا تو اسکا کوئی معیار تو تھا۔لوگ ہزاروں دیتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کرتےتھے۔
اسی کشمکش میں تھےکہ اک اور خیال نے آن گھیرا کہ کہیں کسی قسم کا امتحان تو مقصود نہیں۔ ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، اگر امتحان ہی لینا تھا تو اتنے کم پیسے؟یہ سوچناتھا کہ غصے سے پھڑکنے لگے۔ خیال آیا کہ بس ابھی سیٹ تلے تعویذ دباتا ہوں اور اسکا تو بیڑا پار کرتا ہوں۔ مگر پھر یاد آیا کہ مؤا کافر ہے۔ کیا اثر ہوگا۔ اور پہلا خیال ترک کر دیا۔
بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔ شائد آپکو معلوم نہیں کہ اتنے کم چندے ہمارے ہاں قبول کرنےکا رواج نہیں۔ نذرانہ میں تو ہزاروں پار کر دیتے پر جس دن سے آئے ہیں دیسی مرغے کو ترس رہے ہیں۔ اگر نذرانہ ہی پیش کرنا ہے تو کوئی بہتر چیز لائیے۔ اتنے کم پیسے نکلنے پر تو ڈاکوبھی درگت بنا دے گا۔ ایمان کی حفاظت خاک ہوگی۔
ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کے پاس آکر کالے بکرے کے صدقے کے بارے میں بنی باتوں کی حقیقت جاننا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس تو ویسے ہی دئیے تھے کہ کل آپکو کلیجی کی دکان پر بھاؤ تاؤ کرتے دیکھا تو سوچا کہ شائد پاؤ دستی کھانے سے جان میں جان آئے۔ آپکی توند روز بروز کم ہوتی جاتی ہے۔
امام صاحب کو جب جملے کی سمجھ آئی تو بس سے نیچے اتر چکے تھے۔ اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے،غصےسے تھر تھر کانپنے لگے۔ گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا جو پتہ نہیں اس وقت کہاں سے سڑک کے کنارے آگیا تھا۔ بس کے پیچھے بھی نہ بھاگ سکے۔وگرنہ اس گستاخ کا منہ توڑ دیتے۔ آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر رونے لگے اور کہنے لگے اپنے ملک ہوتا تو اس سے اتنا صدقہ خیرات کراتا کہ بقیہ زندگی یہ صدقے خیرات پر پلتا۔ نامراد میری کلیجی کا بھی مذاق اڑا رہا ہے یہاں۔ مؤا کافر جانتا نہیں کہ ہم کتنے بڑےگدی نشین ہیں۔
اور اسکے بعد۔۔.....
یاد رکھیئے کہ کچھ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں۔
صرف اتنا ہی ذہن میں رکھ کر، کہیں کوئی ہمارے روزمرہ معمولات کے تعاقب میں تو نہیں؟ اور اگر ہے تو ایسے شخص کو منہ توڑ جواب دینےکی ضرورت ہے۔