تعبیر

محفلین
آپی ٹیگ تو کسی کو بھی نہیں کیا۔ :(
بس جلدی سے ساری پڑھ لیں۔ اور بتائیں کہ کیسی ہیں۔
نیلم کے دھاگوں سے راستہ اس لیئے ملتا کہ اسکی حکایتوں کا حشر نشر ہو رہا۔ اور اس نے مجھے ڈرا رکھا کہ کسی اور کی حکایت کا برا حشر کیا تو مار پڑے گی۔
اللہ کا بہت شکر ہے آپی کہ اس نے مجھے غرور سے محفوظ رکھا۔ :) :)
اوفو مجھے کیا کریں نا کیونکہ مجھ اناڑی اورپینڈو کو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا
جی ضرور بتاؤنگی پڑھ لوں تو
شیور ہے کہ زبردست اور پرمزاح ہونگی
سچ میں مجھے یہاں آپ کے اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ مجھے کہاں آنا ہے ورنہ نیلم کے دھاگے سے
ماشاءاللہ
اللہ آپ کو شیطان کے مکرو فریب سے بچائے اور تکبر سے ہمیشہ دور رکھے :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اوفو مجھے کیا کریں نا کیونکہ مجھ اناڑی اورپینڈو کو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا
ہا ہا ہا :laugh: کر لو گل۔ اب میں ایسی باتیں کرو تو کوئی یقین بھی کرے :p
جی ضرور بتاؤنگی پڑھ لوں تو
:) :)
شیور ہے کہ زبردست اور پرمزاح ہونگی
امید کہ امید پر پورا اترا جائے :p

سچ میں مجھے یہاں آپ کے اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ مجھے کہاں آنا ہے ورنہ نیلم کے دھاگے سے
یہ نیلم کی وجہ سے دکان چل رہی اپنی :laugh:
ماشاءاللہ
اللہ آپ کو شیطان کے مکرو فریب سے بچائے اور تکبر سے ہمیشہ دور رکھے :)
آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
قیصرانی بھائی اور تعبیر آپی
جسکو تیرنا نہ آتا ہو وہ بزدل۔ اس کے بارے میں حکایتی محترمہ نیلم صاحبہ کی پیش کردہ حکایت تو آپ نے پڑھ ہی رکھی ہے۔
بزدل غلام (اصل حکایت)​
مظلوم غلام اور احمق دانا
(شیخ سعدی کی روح سے معذرت کے ساتھ)​
ایک بادشاہ کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا تھا۔ کشتی اس لیئے کہ کروز اور لانچ کا دور نہ تھا۔ آبدوز بھی ایجاد نہ ہوئی تھی۔ کچھ درباری اور چند غلام بھی ساتھ تھے۔ وہ ساتھ نہ ہوتے تو پروٹو کول کسطرح پورا ہوتا۔ سب کہتے کتنا غریب بادشاہ ہے۔ بغیر پروٹوکول کے پھرتا ہے۔ یہ سارے غلام ایسے تھے جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھے تھے اور شوق میں ساتھ چلے آئے تھے اور اب پچھتا رہے تھے۔ مگر اک ایسا تھا جو اپنا خوف نہ چھپا پا رہا تھا۔ اور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ موت برحق ہے والے مقولے پر اس کا ایمان بہت ناپختہ تھا۔ بادشاہ کو اس کی بھوں بھوں کر کے رونے کی آواز سے سخت الجھن ہو رہی تھی لیکن غلام پر منع کرنے اور ڈانٹنے ڈپٹنے کا بالکل اثر نہ ہوا اور وہ یونہی روتا رہا۔ بادشاہ سوچ رہا تھا کہ واپس جا کر اسکی گردن مار دینے کا حکم دے دے گا۔

کشتی میں ایک جہاندیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا ۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ اک مسافر کشتی تھی اور بادشاہ کو درباریوں نے مکمل کشتی کرائے پر لینے کی بجائے ضرورت کے مطابق ہی کرایہ ادا کر کے بقیہ رقم ڈکا ر لی تھی۔ کہ بادشاہ کو کونسا پتہ چلے گا۔ اور ملاح سے سازباز کر رکھی تھی کہ مسافر کو اپنا رشتےدار بتا دے اگر بادشاہ پوچھ بیٹھے۔دوسری مصلحت یہ بھی تھی کہ اگر اسکو بھی نکال دیتے تو حکایت آگے کیسے بڑھتی۔
اب دانا شخص نے فلمی انداز میں یکلخت کھڑے ہو کر کہا کہ اگر حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس خوفزدہ غلام کا ڈر دور کر دے؟ تو بادشاہ جو پہلے ہی شیخ سعدی کے دور کے عقلمندوں کو یاد کر رہاتھا خوش ہوگیا کہ لو آیا اک دانا۔ اور اجازت عطا فرمائی۔
دانشمند شخص نے اک نگاہ تکبرانہ سب بیوقوفوں مع بادشاہ پر ڈالی اور بقیہ غلاموں کو حکم دیا کہ اس والے غلام کو اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔ درحقیقت وہ اک اذیت پسند شخص تھا۔ وگرنہ غلام کی توجہ باتوں میں لگا کر بھی بٹائی جا سکتی تھی۔ مگر ان دنوں شائد اس قسم کے موضوعات پر تحقیق نہ ہوتی تھی۔ غلاموں نے حکم کی تعمیل کی اور رونے والے غلام کو اٹھا کر دریا کے اندر پھینک دیا ۔ جب وہ تین چار غوطے کھا چکا تو دانا شخص نے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکلا کر کشتی میں سوار کر لو. وہ غلام غوطے کھاتا کشتی سے دور جا چکا تھا۔ اب سب اک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ تیرنا تو کسی کو بھی نہیں آتا تھا۔ اب سب کی نظریں ملاح پر گڑ گئیں۔ مجبورا ملاح دل ہی دل میں بکتا جھکتا دریا میں چھلانگ لگا کر اسکو اوپر گھسیٹ لایا۔ اسکے پیٹ میں پانی بھی چلا گیا تھا۔ وہ بھی نکالا گیا۔ اب وہ غلام جو غوطے کھانے سے پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بڑی طرح رو رہا تھا بالکل خاموش اور پر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔
بادشاہ جو یہ بیکار حرکت دیکھ کر بور ہو رہا تھا،قدرے غصہ ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھینکوا دیا تھا اور یہ بھی پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ کسی کو تیرنا آتا بھی ہے یا نہیں؟ لیکن دلچسپ امر جس نے تمہاری جان بچا لی وہ یہ ہے کہ یہ اب خاموش ہوگیاہے۔
دانا شخص جو پہلے داد طلب نظروں سے بادشاہ کو دیکھ رہا تھا۔پریشان ہوگیا اور سوچنے لگا کہ اخلاقی سبق ایسا ہونا چاہیئے کہ اب اپنی جان بچ جائے۔ اور آخر کار اس نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب جب لگے غوطے تو عقل آگئی ٹھکانے۔ اور دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہوگئی تو یہ خاموش ہو گیا۔
حالانکہ غلام نے بعد میں اپنے دوستوں کو بتایا کہ میں اس وجہ سے چپ کر گیا کہ یہ آدمی پاگل ہے۔ اور تم لوگ احمق۔ اس بیوقوف کی اس حرکت سے اب میرا ڈر اور بڑھ گیا ہے۔
اخلاقی سبق: اگر آپ اپنے ڈر لوگوں کو بتائیں گے تو وہ نہ صرف آپ کو مزید ڈرائیں گے۔ بلکہ بعد میں آپکو اس میں اخلاقی سبق تلاشنے کا بھی کہیں گے۔ اور یہ کہ اگر کسی شخص نے کبھی کوئی مصیبت نہیں دیکھی تو اس کو اس مصیبت کا مزا چکھانا ضروری نہیں ہے۔ اس قسم کی حرکتوں سے اسکا دل بند ہو سکتا ہے۔ اور وہ مر بھی سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اس قسم کے کام کرتے وقت ساتھ موجود لوگوں کی صلاحیتوں سے آگاہی ضروری ہے۔ ورنہ یہ دانائی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
 

نیلم

محفلین
چلیئےاب میری حکایتوں سےآپ نےجودکان چمکائی ہےاُس کاکمیشن نکالیں:)
حکایت کےاتنےخوبصورت حشر کےلیےمبارک باد:)
 

شمشاد

لائبریرین
ہیں :eek: تو یہ دکانداری اتنے عرصے سے آپ دونوں کی ملی بھگت سے چل رہی ہے جو یہ کمیشن کی باتیں سر عام ہونے لگی ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
چلیئےاب میری حکایتوں سےآپ نےجودکان چمکائی ہےاُس کاکمیشن نکالیں:)
حکایت کےاتنےخوبصورت حشر کےلیےمبارک باد:)
کونسا کمیشن!!! :eek: میری دکان میں تو لائٹ ہی نہیں ہے جو چمکے۔ :)
ہیں :eek: تو یہ دکانداری اتنے عرصے سے آپ دونوں کی ملی بھگت سے چل رہی ہے جو یہ کمیشن کی باتیں سر عام ہونے لگی ہیں۔
نیلم نے مجھے ڈرایا ہوا ہے کہ اگر کسی اور کے ساتھ یہ سلوک کیا تو کٹ پڑ جانی ہے۔ :(

ششششششششش کسی کوبتایئےگانہیں تیسراحصہ آپ کا:D
کونسا دوسرا؟o_O تم تیسرے کی بات کرتی ہو۔:p

وہ حکایت تو اتنی چھوٹی تھی یہ کچھ زیادہ ہی طویل نہیں ہو گئی :p
واہ نین واہ :applause::applause::applause:
یعنی ڈرنا منع ہے
طویل ہونے سے دلچسپی کھو بیٹھی ہے کیا؟ وہ اب رنگ بھی تو بھرنے تھے۔ :)

محفل میں بھی بھتہ خور آگئے۔۔۔ :D
دل کی بات کی آپ نے۔ :notworthy:
 

قیصرانی

لائبریرین
Top