تعبیر

محفلین
اپیا ان جھنڈوں کے لیئے شکریہ :) اور آپ پہلے دن ہی آگئیں۔ کمال نہیں کر دیا آپ نے۔ :)
ہاہاہا
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
بس دیکھ لیں کبھی کبھار معجزے بھی ہو ہی جاتے ہیں :p
چھ ماہ کچھوا تو چھ ماہ خرگوش کی باری لگی رہتی ہے سو اس بار خرگوش کی باری ہے لگتا ہے :p
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سیب حرام ہے (اصل مضموں یا حکایت)
کم علم کی بحث
میں مسجد میں تحیۃ المسجد ادا کر رہا تھا۔ اس ذکر سے نمودونمائش ہرگز مقصود نہیں۔ کیوں کہ اگر یہی مقصد ہوتا تو میں تہجد، اشراق، چاشت، اوابین اور تحیتہ الوضو کا بھی لازمی ذکر کرتا۔ مگر الحمداللہ چونکہ طبیعت ریاکاری سے بالکل پاک ہے تو صرف واقعہ بیان کرنا مقصد ہے۔ ہاں کوئی اسے نیکی کی ترغیب سمجھے تو اپنی نیک نیتی کا صلہ پائے گا۔​
ہاں تو میں بات کر رہا تھا کہ دوران نماز سگریٹ کی ناگوار بدبو نے مجھے بے چین کر کے رکھ دیا۔ عرصہ ہوا جب حج سے واپس آیا تو پکے سے توبہ کر چکا تھا۔ لیکن آج یہ بدبو دوبارہ اعصاب پر سوار ہو گئی۔ خشوع و خضوع قائم رکھنا تو دور کی بات تھی بدبو کی شدت سے نماز پوری کرنا بھی محال لگ رہا تھا۔ بس جلد از جلد سجدے ٹیکے کے یہ آدمی بناء نصیحت کہیں بےہدایتا ہی نہ نکل جائے۔ دوبارہ بتاتا چلوں کہ یہاں بھی اپنی نیکی کا ڈھنڈورا پیٹنا اور خود کا حاجی بتانا مقصود نہیں۔ ورنہ لوگ تو میرے سے کئی کرامات بھی منسوب کرتے ہیں۔ بس جی انکی دل شکنی کے ڈر سے انکار نہیں کیا کبھی کہ سچ ہیں یا غلط۔ ہمیشہ خاموش رہنا ہی پسند کیا اس ضمن میں۔ خیر سلام پھیر کر دیکھا تو قریب ہی ایک آدمی نماز ادا کر رہا تھا۔ سگریٹ نوشی کی کثرت سے اس کے ہونٹ سیاہ پڑ چکے تھے۔ میں نے سوچا یہ نماز سے​
فارغ ہو چکے تو اس سے بات کرونگا، شاید میری نصیحت سے اس پر کوئی مثبت اثر پڑ جائے۔ اور دل ہی دل میں اثر انگیز قسم کے جملے سوچنے لگا۔ اور اک مدلل گفتگو کا خاکہ ذہن میں ترتیب دینے لگا۔لیکن مجھے اس وقت اک کرب کا سامنا کرنا پڑا جب اس شخص کے ساتھ بیٹھے ایک نوجوان نے اسکی نماز سے فراغت پر مجھ سے پہلے ہی اس سے گفتگو کرنا شروع کی، اب میں نے اپنی نماز بھول بھال کر انکی گفتگو سننے کیلئے یکسوئی سے اس طرف کان لگا دیئے کہ دیکھیں یہ کم علم اور کم تجربہ کار کیا کر پائے گا۔ تو کچھ اس قسم کی بات چیت ہو رہی تھی:​

نوجوان: السلام و علیکم، چچا آپ کون ہیں؟​

وہ آدمی: چچا کہ خطاب پر اک برا سا منہ بناتے ہوئے۔ میں ۔۔۔ ۔۔ ہوں۔ (اسے ڈیش نہ پڑھا جائے۔ بلکہ اس جگہ نام سمجھا جائے)​
نوجوان جو کم علمی کی بنیاد پر اسکے چہرے کے تاثرات پڑھنے سے قاصر تھا۔ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے۔
نوجوان: چچا، کیا آپ نے شيخ عبدا لحميد كشك کا نام سنا ہے؟​
وہ آدمی: جی نہیں۔​
نوجوان:​
اچھا تو آپ شيخ جاد الحق کو جانتے ہیں؟​
وہ آدمی: جی نہیں انکا نام بھی آج ہی سن رہا ہوں۔​
نوجوان تھوڑا مایوس ہوتے ہوئے: تو آپ شيخ محمد الغزالی کو بھی جانتے ہیں؟​
وہ آدمی: امام غزالی کا نام تو سن رکھا ہے۔ لیکن شیخوں سے واقف نہیں۔ہمارے علاقے میں شیخ نہ ہونے کے برابر ہیں۔​
نوجوان چہ بچیں ہوتے ہوئے: آپ علماء کی کیسٹیں اور فتاویٰ جات سنتے ہیں؟​
وہ آدمی: بچپن میں کیسٹیں ہوتیں تھیں سونک میگا ڈانس کے ایڈیشن آتے تھے۔ کیا یاد کروا دیا ظالم۔ لیکن علماء کو بس جمعے کے خطبے کے علاوہ سننے کا اتفاق نہیں ہوا۔ فتاوٰی سے بھی کوئی خاص رغبت نہیں۔ بس جو اچھا لگتا ہے کر لیتا ہوں۔ آجکل اک پریشانی ہے۔ تو اس سلسلے میں ذرا نمازوں کی پابندی جاری ہے۔ وگرنہ ہم کہاں اور مسجد کہاں۔ فصلی بٹیرا سمجھیئے ہمیں تو۔​

اب مجھے دل ہی دل میں نوجوان پر غصہ آنے لگا۔ کہ یہ ادھر ادھر کی بیکار باتیں کر کے بندہ بھگا دے گا۔

نوجوان: آپ جانتے ہیں ناں یہ سارے شیوخ سگریٹ کو حرام کہتے ہیں، تو پھر آپ کیوں پیتے ہیں سگریٹ؟​
وہ آدمی: (جو اب اس ساری گفتگو سے بیزاری سی محسوس کر رہا تھا) میں نے آپکو پہلے بھی بتایا میں شیخ نہیں۔ وہ اپنی برادری میں کیا کرتے ہیں کیا نہیں اس سے مجھے کچھ دلچسپی نہیں۔​

نوجوان ذرا ضدی انداز میں: نہیں، سگریٹ حرام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی تو یہی ہے ناں کہ (پلید چیزوں کو تم پر حرام کر دیا گیا ہے)۔ کیا کبھی سگریٹ شروع کرتے وقت آپ نے بسم اللہ پڑھی ہے یا سگریٹ ختم ہونے پر الحمدللہ کہی ہے؟​
وہ آدمی: (تقریبا بھناتے ہوئے) میاں! تم مفتی ہو؟ اور پلید پاک کا فیصلہ کرنے والے تم کون ہو؟ اور ہر وہ چیز جس پر بسم اللہ یا الحمداللہ نہ پڑھی جائے تم اسے پلید کہو گے۔ احمق آدمی یہ کونسا معیار مقرر کر رکھا ہے تم نے۔ اور اسلام کی بات کرتے ہو تو مجھے یہ بتاؤ کہ پلید کا معیار اسلام نے کیا مقرر کر رکھا ہے۔ حلال حرام کی طرف تو میں بعد میں آؤں گا۔اور قرآن میں ایسا کوئی حکم نہیں​
جس میں کہا گیا ہو کہ (ويحرم عليكم الدخان) اور ہم نے تم پر سگریٹ نوشی حرام قرار دی ہے۔​

میرا اندیشہ یقین میں بدلنے لگا کہ یہ نوجوان اپنی احمقانہ باتوں سے معاملے بگاڑ دے گا۔

نوجوان بھی باقاعدہ جذباتی انداز میں تمام زمینی حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے: چچا یقین کیجیئے اسلام میں سگریٹ نوشی بالکل ویسے ہی حرام ہے جس طرح سیب حرام ہے۔​
اس آدمی کا صبر کا پیمانہ لبریز ہی ہو چکا تھا، اسکے چہرے سے ظاہر تھا کہ وہ اس بات پر میری طرح یقین کر چکا ہے کہ یہ نوجوان پاگل ہے۔ اور گفتگو کرنے کے فن سے بالکل ہی فارغ۔ جھلاتے ہوئے خونخوار لہجے میں بولا اوئے لڑکے، تو ہوتا کون ہے کہ جس چیز کو چاہے حرام قرار دے اور جس چیز کو چاہے حلال قرار دیدے؟​
وہ نوجوان نہایت ہی بپھرے لہجے میں بولا کہ پھر لایئے اک آیت جس میں لکھا ہو کہ (ويحل لکم التفاح) اور ہم نے تم پر سیب کو حلال کر دیا ہے۔​
آدمی مسکراتے ہوئے بولا! تو تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ اللہ کے مقرب لوگ اور قرون اولی کے لوگ حرام کھاتے رہے اور انکو اس بات کا ادراک تک نہ تھا۔ دیکھو بیٹا جذباتیت یا کسی چیز سے نفرت اپنی جگہ مگر ہر چیز میں اسلام کو نہیں لاتے۔ اور یہ ضروری بھی نہیں کہ ہر چیز پر اسلام کو بنیاد بنا کر ہی بحث کی جائے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ تمہیں زندگی میں ابھی بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اپنوں سے بڑوں سے بحث کے لیئے جس مدلل انداز گفتگو اور علم کی ضرورت ہے۔ اس کی تم میں شدید کمی ہے۔

اس آدمی کی گفتگو نے​
نوجوان کو ششدر ہی کر کے رکھ دیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ اب رویا کہ تب، مسجد میں اقامت کی آواز گونج اٹھی تھی اور لوگ جماعت کیلیئے کھڑے ہو رہے تھے۔ نماز کے بعد وہ آدمی میری طرف متوجہ ہوا اور بولا آپ جیسے نیک لوگوں کا ہی فیض ہے۔ آپکے اک شاگرد کے ساتھ مہینےمیں اک آدھی ملاقات ہو جاتی ہے تو بس یہی اثر ہے جو زباں میں ہے۔​

اس بات سے میری یہ حیرانگی بھی جاتی رہی کہ یہ تو کبھی میری مجلس اور شاگردوں میں نہیں رہا تو یہ انداز بیاں اس کے اندر کہاں سے آگیا۔ بالکل میرے والا تو نہیں لیکن کچھ سیکھنے کی صلاحیت تھی اس آدمی میں۔ اور نوجوان پر تو مجھے ازحد غصہ آرہا تھا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ صبر کرتا اور مجھے بات کرنے دیتا۔ یقیناً میں اسکو سمجھانے میں کامیاب ہو جاتا۔

ہاہاہا
ہاہاہااہا
ہاہاہاہاہااااااااااااااہا

:rollingonthefloor:
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سیب حرام ہے (اصل مضموں یا حکایت)
کم علم کی بحث
میں مسجد میں تحیۃ المسجد ادا کر رہا تھا۔ اس ذکر سے نمودونمائش ہرگز مقصود نہیں۔ کیوں کہ اگر یہی مقصد ہوتا تو میں تہجد، اشراق، چاشت، اوابین اور تحیتہ الوضو کا بھی لازمی ذکر کرتا۔ مگر الحمداللہ چونکہ طبیعت ریاکاری سے بالکل پاک ہے تو صرف واقعہ بیان کرنا مقصد ہے۔ ہاں کوئی اسے نیکی کی ترغیب سمجھے تو اپنی نیک نیتی کا صلہ پائے گا۔​
ہاں تو میں بات کر رہا تھا کہ دوران نماز سگریٹ کی ناگوار بدبو نے مجھے بے چین کر کے رکھ دیا۔ عرصہ ہوا جب حج سے واپس آیا تو پکے سے توبہ کر چکا تھا۔ لیکن آج یہ بدبو دوبارہ اعصاب پر سوار ہو گئی۔ خشوع و خضوع قائم رکھنا تو دور کی بات تھی بدبو کی شدت سے نماز پوری کرنا بھی محال لگ رہا تھا۔ بس جلد از جلد سجدے ٹیکے کے یہ آدمی بناء نصیحت کہیں بےہدایتا ہی نہ نکل جائے۔ دوبارہ بتاتا چلوں کہ یہاں بھی اپنی نیکی کا ڈھنڈورا پیٹنا اور خود کا حاجی بتانا مقصود نہیں۔ ورنہ لوگ تو میرے سے کئی کرامات بھی منسوب کرتے ہیں۔ بس جی انکی دل شکنی کے ڈر سے انکار نہیں کیا کبھی کہ سچ ہیں یا غلط۔ ہمیشہ خاموش رہنا ہی پسند کیا اس ضمن میں۔ خیر سلام پھیر کر دیکھا تو قریب ہی ایک آدمی نماز ادا کر رہا تھا۔ سگریٹ نوشی کی کثرت سے اس کے ہونٹ سیاہ پڑ چکے تھے۔ میں نے سوچا یہ نماز سے​
ف اسکو سمجھانے میں کامیاب ہو جاتا۔​

:rollingonthefloor:
:rollingonthefloor:
او گاڈ، میرا موڈ بالکل بھی اچھا نہیں تھا ذوالقرنین بھائی، لیکن اس جملے کو پڑھ کر تو مجھے اتنی بے تحاشہ ہنسی آئی کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین

:rollingonthefloor:
:rollingonthefloor:
او گاڈ، میرا موڈ بالکل بھی اچھا نہیں تھا ذوالقرنین بھائی، لیکن اس جملے کو پڑھ کر تو مجھے اتنی بے تحاشہ ہنسی آئی کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکیں
شکریہ اپیا۔ آپ کا موڈ ٹھیک ہو گیا اور یہ تحریرآپ پر آپ کے نام کا رنگ چڑھانے میں کامیاب رہی:cowboy: ۔ ہماری محنت ٹھکانے لگی۔:p بہت شکریہ اپیا اس حوصلہ افزائی پر صمیم قلب سے ممنون ہوں۔:notworthy: اور یہ رسمی جملہ ہرگز نہیں ہے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
سات باتیں (اصل حکایت)
قحط دانائی
پرانے زمانے میں عقلمند لوگ ناپید ہوتے تھے۔ اور گوگل ابھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ لوگوں کو دانا لوگوں سے ملنے کے لیئے کئی کئی میل کا سفر طے کرنا پڑتا۔ ہر کوئی اپنے گھر کو عقلمند ہوتا ہے۔ یہ مثال بھی اس وقت ایجاد نہ ہوئی تھی۔ دانائی کا معیار کیا ہوتا تھا۔ کس شخص کو دانا کہا جا سکتا اور کس کو نہیں۔ اس بات کا فیصلہ بھی وقت کے بیوقوف ہی کرتے تھے۔
اک اور پتے کی بات بتاتا چلوں کہ سوال کرنے والا کبھی بھی دانا نہ سمجھا جاتا تھا۔ چاہے کتنی ہی دانائی کا سوال نہ پوچھ لے۔ صرف جواب دینے والا ہی دانائی کی گدی پر رونق افروز ہو سکتا تھا۔
ایسے ہی اک دور میں جب دانائی کا قحط پڑا ہوا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ شیخ سعدی کے داناؤں کے دور کے آس پاس کا دور بھی نہ تھا۔ جہاں دانا لوگ یوں پائے جاتے تھے جیسے لال مرچ میں اینٹیں یا پھر چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے۔ اک آدمی سات سوال سوچ بیٹھا۔ سوچ کیا بیٹھا۔ عقلمند آدمی تھا۔ کچھ باتیں ذہن میں آئیں۔ گر کوشش کرتا تو جواب بھی مل جاتا۔ مگر روایت اور رسم و رواج کے مطابق دانا کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ پتہ چلا کہ قریبی قریبی دانا بھی سات سو میل کی مسافت پر ہے۔
یہ بات اس نے اپنے باپ کو بتائی کہ اب مجھے ان کے جوابات کے لیئے اس کے پاس جانا ہوگا۔ کیوں کہ اس سارے علاقے کو وہی اک عقلمند لگتا ہے۔ عہد حاضر کا کوئی باپ ہوتا تو اس کو ذاتی حملہ یا اسلاف پر ضرب گردانتا۔ مگر باپ نے بخوشی اسے کہا جا بیٹا جا۔ عقل سیکھ کر آ۔
اجازت ملنے پر سفر شروع کیا اور سارا راستہ طرح طرح کے حلئے ذہن میں بناتا گیا کہ ایسا ہوگا عقلمند آدمی۔ یا پھر ایسا۔ مگر جب اس کٹھن مسافت کو طے کرنے کے بعد جب وہ اس گاؤں میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ بھی اس کی سی شکل و صورت کا اک عام آدمی تھا۔ کسی بھی عقلمند آدمی سے ملے کا یہ پہلا اتفاق تھا سو آداب کو خیال رکھتے ہوئے بیوقوفانہ قسم کا سلام کیا۔ اور چھوٹتے ہی عرض کی​
میں اتنی دور سے سات باتیں دریافت کرنے آیا ہوں۔​

عقلمند نے جواب دیا۔ کاکا بیٹھ؛ پانی وغیرہ پی۔ کھانا کھا۔ اتنے لمبے سفر نے ویسے ہی تیری مت مار رکھی ہے۔ سوالی عقلمند کی عقلمندی کا قائل ہوگیا۔ آرام سے کھانا کھا کر چائے وائے پی کر جب اسکی تھکان اتر گَئی تو عقل مند آدمی نے کہا۔ اب میں تیرے سوالوں کے جواب دیتا ہوں۔​

آسمان سے کون سی چیز زیادہ ثقیل ہے ؟​
اوئے کاکا! پہلے تو یہ بتا کہ آسمان کو تو نے کب تولا؟ عقل کے ناخن تراشتے ہوئے عقلمند نے مزید کہا۔ اگر وزنی ہوتا تو نیچے نہ گرا پڑا ہوتا۔ جس چیز کو ہوا نے اوپر اٹھا رکھا ہے وہ کاہے کی وزنی۔ خیر تجھے اک پتے کی بات بتا دیتا ہوں تاکہ تیرا سفر اکارت نہ جائے۔ اور وہ یہ کہ مفت یعنی بناء پیسے لیئے کسی کا کام کرنا یا کسی پر الزام لگانا آسمان سے بھی زیادہ بھاری ہے۔ اک بہت ہی عقلمند آدمی نے کہا تھا کہ اگر تم کسی چیز پر دسترس رکھتے ہو تو کبھی بھی اسے مفت نہ کرو۔​
زمین سے کیا چیز وسیع ہے ؟​
تیرے دوسرے سوال کا جواب ہے کہ بیگم کی خواہشات زمین سے زیادہ وسیع ہیں۔ ابن بطوطہ زمین کا طواف کرنے میں شائد کامیاب ہو گیا ہو۔ مگر بیگم کی خواہشات کے آگے وہ بھی بے بس ہو گیا ہوگا۔​
پتھر سے کون سی چیز زیادہ سخت ہے ؟​
تیرے تیسرے سوال کا بزرگانہ جواب یہ ہے کہ عوام کی غیرت پتھر سے زیادہ سخت ہے۔ جتنا مرضی ظلم کر لو۔ جیسے مرضی ہانک لو۔ مگر نہ تو یہ غیرت کا بت ٹوٹتا ہے۔ اور نہ ہی اس میں سے پانی کا کوئی چشمہ بہہ نکلتا ہے۔ یہ پتھر اندھے پن میں لڑھک تو سکتا ہے۔ مگر پانی کی طرح خود راستہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔​

کون سی چیز آگ سے زیادہ جلانے والی ہے؟​
چوتھے سوال پر عقلمند نے اک مشفقانہ سا قہقہہ لگایا جیسا بچوں کے معصوم سوالوں پر لگایا جاتا ہے۔ اور کہا کہ آگ کے سوا کوئی اور چیز اتنا جلانے والی ہوتی تو جہنم اسی چیز سے بنائی جاتی۔ نہ کہ آگ سے۔​
سوالی نے کہا سرکار میرا سوال تھا کہ آگ سے جلنے کے علاوہ بھی کوئی ایسی کیفیت ہے کہ بندہ سمجھے وہ جل رہا ہے۔​
اس بات پر دانا آدمی سوچ میں پڑ گیا۔ مگر اسی دوران سامنے سے کچھ خواتین کا گزر ہوا۔ تو دانا نے کہا کہ اگر بیٹا اپنی کمائی ماں کی بجائے بیگم کے ہاتھ پر رکھ دے۔ یا بیگم کی بجائے ماں کے ہاتھ پر۔ تو اس عورت کے لیئے اس سے زیادہ جلانے والی چیز کائنات میں کوئی نہیں۔​
کون سے چیز زمہریر سے زیادہ سرد ہے ؟​
پانچویں سوال پر اک بار تو دانا پریشان ہو گیا۔ پھر اٹھا بہانے سے اور ساتھ کمرے میں لغت تک جاپہنچا۔ وہاں سے زمہریر کا مطلب دیکھا۔ واپس آکر سکون سے بیٹھ گیا۔ اور کہنے لگا کہ اسکے دوجوابات ہیں۔ اک میری ذاتی رائے اور اک وہی نسل در نسل چلنے والا جواب۔​
سوالی نے کہا کہ حضور دونوں جواب دے کر سرفراز فرمائیے۔​
روایتی جواب یہ ہے کہ رشتے داروں کے پاس حاجت لے جانا اور کامیاب نہ ہونا زمہریر سے زیادہ سرد ہے۔ مگر رشتےداروں کے پاس جاتا کون ہے۔ اگر رشتے دار اتنے اچھے ہوتے تو ان سے اچھے سلوک کی بار بار تاکید کیوں کی جاتی۔ لہذا زمہریر سے زیادہ سرد وہ وقت ہے جب تم اپنے کسی دوست سے ادھار مانگنے جا​
ؤ
اور وہ تمہاری بات شروع کرنے سے پہلے تم سے ادھار مانگ لے۔​
اس جواب پر سوالی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شائد کوئی پرانا واقعہ اسے یاد آگیا تھا۔​
کون سی چیز سمندر سے زیادہ غنی ہے ؟​
دانا اس پر ذرا بیزار سا ہو کر کہنے لگا۔ کہ اگر غنی کا مطلب سخاوت سے ہے تو سمندر تو صرف قربانی لیتا ہے۔ دریاؤں کی۔ ندی نالوں کی۔ اور اگر اپنی حدوں سے نکل آئے تو ملکوں کے ملک ڈبو دیتا۔ مگر جو میں سمجھا کہ تم اسکی وسعت سے غنا کو منسوب کر رہے ہو۔
رشوت دینے والے کا دل سمندر سے بھی بڑا ہوتا۔ کیوں کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی کمائی صرف اپنا کام نکلوانے کو ان راشیوں کے ہاتھ تھما دیتا جو ناسور بنے خون چوسنے میں مصروف ہیں۔
یتیم سے زیادہ کون بدتر ہے ؟​
اس سوال پر اک بار تو دانا حیران رہ گیا۔ اس نے کہا نوجوان میر عمر ساٹھ کے قریب ہے۔ اور میں بھی یتیم ہوں۔ مگر میری حالت ہرگز قابل رحم نہیں۔ میں خوش باش زندگی گزار رہا ہوں۔​
اس پر سوالی نے دل ہی دل میں اس دانا کو گالیاں دیتے ہوئے بظاہر بڑے ادب سے کہا۔ جناب اس سے مراد ایسا بچہ جس کے سر سے اس شفیق کا سایہ تب اٹھ جائے۔ جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ اب تو اگر آپ کے بچے بھی یتیم ہو جائیں تو انکی حالت اللہ کے کرم سے ٹھیک ہی رہے گی۔​
اب دانا کو شرمندگی ہوئی کہ اتنی سی بات نہ سمجھ پایا۔ خیر اس نے جواب تراشتے ہوئے کہا کہ اس بہو کی حالت یتیم سے بھی بدتر ہے جسکو چغلی کرنے کو کوئی ہمجولی میسر نہ ہو اور اسکی ساس کے پاس چغل خوروں کی روز محفل سجتی ہو۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہاہاہا۔۔۔ زبردست یارا، مزہ آ گیا۔ جیتے رہیں اور خوب خوب خوش رہیں :)
بہت شکریہ قیصرانی بھائی :)

نینی بھیا۔۔ اٹس اوسم
تھینکس بٹیا :p


:)

نینی بھیا کبھی کبھی آپ کمال کر دیتے ہیں
اففییی ی!
:laughing::rollingonthefloor:
شکریہ شکریہ :p

کبھی کبھی؟ ان کی ہر تحریر شاہکار ہوتی ہے :)
اس عزت افزائی پر دل کی تہہ سے ممنون ہوں قیصرانی بھائی :)
 
میں نے اک دو جگہ نیلم کی ارسال کردہ حکایتوں کا حشر نشر کیا۔ اور اک آدھی حکایت کا اور حشر نشر کرتے کرتے رک گیا تو یونہی ذہن میں آیا کہ یہاں تو اور بھی بہت سے قلمکار (مجھے قلمکاری کا کوئی دعوی نہیں) لوگ موجود ہیں جو کسی بھی حکایت کا خوب حلیہ بگاڑ سکتے ہیں۔ تو کیوں نہ اک دھاگہ ایسا شروع کیا جائے۔ جہاں پر حکایتوں کا مزاحیہ و طنزیہ رنگ دے کر نئے انداز میں پیش کیا جائے۔ لیکن اگر طنز کی بجائے مزاح پر زور دیا جائے تو یقیناً زیادہ لطف آئے گا۔

پیش خدمت ہیں پہلے وہ حکایتیں جن کو میں نے اُدھر پیش کر رکھا تھا۔ سوچا وہ بھی اٹھا کر اِدھر ہی لے آتا ہوں۔

(اصل حکایت ٹی-وی)​
آئی پیڈ-III
ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔​

سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے​

اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟​
...​
ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے​

شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے آئی-پیڈ-III لے دے، میں بھی ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے امی ابو کی عیاشی لگی ہوئی۔ چلو ابو کا ٹیبلٹ تو آفیشل ہے پر امی نے جو دھوم مچائی ہوئی وہ۔ میں آئی-پیڈ-III لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد بیٹھے رہیں گے۔ جب میں ٹیمپل-رن براوؤ کھیل رہا ہونگا تو سب کی نظر میری اچیومنٹس پر ہوگی۔ میں دی-کرس اور مشینیریم جیسی ذہنی گیمز کھیلوں گا تو سب دوست مجھ سے جلیں گے۔ میں تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز بنا رہوں گا۔ بہن بھائی جہاں بھی گیم میں اٹکیں گے تو مجھ ہی پکارا جائے گا۔دوست احباب پائریٹڈ گیمز کے لیئے میرے پیچھے پیچھے پھریں گے۔ ہر کوئی پوچھے گا مجھ سے کہ یہ جیل بریک کیسے ہوگا۔ امی جب ون ٹچ ڈرائنگ جیسی بچگانہ گیمز پر دو دو گھنٹے اٹکی رہیں گی تو میں دل کھول کر مذاق اڑاؤں گا۔​

اور تو اورابو کی توجہ کا بھی ایسے ہی مرکز بن جاؤں گا جیسے کوئی بلیک بیری۔جتنے بھی تھکے ہونگے مجھے کہیں گے کہ میری ٹیبلٹ پر بھی یہ والی گیمز کر دو نہ۔ الغرض سب کو خوب ذلیل کر کے دل کی بھڑاس نکالوں گا۔​

اے خدا میں نے تجھ سے زیادہ نہیں مانگا بس یہ مانگا ہے کہ مجھے اس نوکیا 1210کی جگہ آئی-پیڈ-III لے دے۔​

ٹیچر کے شوہر نے افسوسناک انداز سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا “ اے خدایا کتنا کمینہ بچہ ہے۔ اور اپنے ماں باپ کے پیسے کا کیسے اجاڑا کرنا چاہتا ہے۔​

ٹیچر نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ مضمون “ہمارے اپنے بچے“ کا لکھا ہوا ہے.:cry:

====================​
انوکھا بیج - اک سبق آموز کہانی

زید گملے والی کہانی سے مالک بن بیٹھا اور سابقہ مالک کی طرح اس نے بھی شادی نہ کی اور نہ ہی اسکی کوئی اولاد ہوئی۔ دور اندیش ہوتا تو شادی کرتا، ملوکیت کو فروغ دیتا اور اس جھنجٹ سے جان چھڑاتا مگر بوڑھا ہونے پر وہی مسئلہ دوبارہ درپیش آگیا۔ سست تو ازل سے تھا۔ نئی ترکیب کہاں سوچتا سو پرانی والی میں ہی ترمیم کرلی۔ اور بیج تمام ڈائریکٹرز کے درمیان بانٹ دیا۔ خوبی قسمت دیکھیئے کہ تمام پرانے ڈائریکٹرز اپنے ساتھ ہونے والی ظلم کی داستا ں مشہور کر گئے تھے۔ تو تمام نئے اس کمینگی سے بخوبی آگاہ تھے۔​
کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج کے سڑنے کی باتیں کرنے لگے سوائے جگے کے جو پریشان تھا ۔ وہ خاموش رہتا اور اپنی خِفت کو مٹانے کیلئے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا ۔ دراصل جگے نے پرانا گملا خرید کر اس میں پرانی مٹی ڈالی اور کھاد بھی نہ ڈالی۔ مگر پھر بھی بیج سے پودا اگ آیا جو اصل پریشانی کا سبب تھا۔​
ایک ماہ بعد زید نے پھر سب ڈائریکٹرز کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا ۔ سب اجڑے اور سوکھے سڑے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر جگا جس کا بیج اُگا ہوا تھا وہ خوبصورت پودے کے ساتھ اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دُور والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا اور کہا کہ یہ نامراد پودا تو اگنے میں ہی نہیں آرہا۔ اور کسی دوشیزہ کے اخلاق کی مانند سڑتا رہا۔ اس اُمید سے کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے​
سب کی تقاریر سننے کے بعد زید نے بھی حسب روایت کہا “ایک آدمی کم لگ رہا ہے” اور الفاظ کے چناؤ میں بھی تبدیلی نہ کی۔ اس پر جگا جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھُپا بیٹھا تھا کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا “جناب ۔ مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج اگ پڑا ”۔ اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے جگے کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اک تو باقاعدہ لپٹ لپٹ کر رونے لگا۔ جگے نے اسے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں ہوتا رہتا ہے۔​
چائے کے بعد زیدنے اعلان کیا کہ اس کے بعد جگا ادارے کا سربراہ ہو گا ۔ اس پر کئی حاضرین مجلس جو دوراندیش تھے اور پہلے سے سوچ رہے تھے کہ اس بار بھی کوئی گھٹیا پن تو لازمی ہوگا آرام سے بیٹھے رہے۔ بقیہ نے حیرانگی کا اظہار کیا۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے اک گملے کی وجہ سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیئے اور جگا ہی وہ آدمی ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانتدار بھی ہے ۔ میں نے آپ سب کو صحیح اور بہترین بیج دیئے تھے جن کا نہ اگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ سوائے جگے کے آپ سب نے بیج اگانے کی زحمت بھی نہ کی"۔​
اخلاقی سبق: اے بندے ۔ مت بھول کہ جب تجھے کوئی بیج اور گملا دے تو اسے اک بار اگا کر تو دیکھ لے۔ تیرا کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے قسمت کھل جائے۔​
یہ سب سے بہترین ہے۔ میں تو اسے ایوارڈ کے لیے نامزد کرنے کی درخواست کروں گا
 
Top