حکمت اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ: فوز المبین در رد حرکت زمین ایک سیاسی کتاب ہے نہ کہ مذہبی یا سائنسی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سید رافع

محفلین
علمِ لدنی اعلیٰ حضرت یا اور اولیاء کو عنایت فرمایا جاتا رہا ہے

حدیث بخاری ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اس حدیث میں غور طلب الفاظ، نبی، وارث اور عالم ہیں۔ نبی غیب کی خبر دینے والے کو کہتے ہیں۔ وارث اسے کہتے ہیں جو کہ اصلی مالک کی چھوڑی ہوئی متعاع سے اپنی قربت کے لحاظ سے کم یا زیادہ حصہ پاتا ہے۔ یہ کم و زیادہ علم کا لحاظ قرآن میں اس طرح واضح کیا گیا 12:76 اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔ یعنی صاحبان علم درجہ بہ درجہ ایک کے اوپر ایک ہیں۔ جہاں تک علم کی بات ہے نبی دیگر علوم کے علاوہ خاص کر تلاوت، آیات، تزکیہ، حکمت اور غیب کا علم بتانے میں ممتاز ہوتے ہیں۔ جیسا کہ طریقہ رسول ﷺ کے بارے میں فرمایا 2:129 اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔چنانچہ رسول پر جو غیب کھولا گیا وہ بھی علم عالم کو وراثت میں ملتا ہے۔ یا جس حکمت سے رسول آراستہ ہیں اسکا کوئی حصہ وراثت میں عالم کو ملتا ہے۔ یا تزکیہ کرنے کے طریقے عالم کو وراثت میں ملتے ہیں۔ یا آیات کی تفصیل یا ان سے نکلنے والے احکام کا علم عالم کو وراثت میں ملتا ہے۔ یا کم از کم آیات کی صحیح تلاوت کرنا بھی ایک انسان کو عالم بناتی ہے۔ ایک اور جگہ سنت رسول ﷺ کو واضح کیا 2:151 اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اَسرارِ معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔ یا اسی طرح ایک اور مقام پر رسول ﷺ کا امتی سے تعلق بیان فرمایا کہ 62:2 وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔

اور بالکل سب مسلمانوں کو ان باتوں پر عمل کرنا چاہئے اور اکثر کرتے بھی ہیں لیکن علم لدنی کی تو آپ نے ہی بات چھیڑی ہے اور آپ ہی علم لدنی کی طرف دعوت دے رہے ہیں جبکہ میری کوشش ہے کہ علم لدنی کی شرعی حیثیت شرکاء محفل کو معلوم ہو جائے کیونکہ ذکر تو آپ نے اب کر ہی دیا ہے!!! شرکاء محفل کی کیوں نا توجہ ادھر ہی رہنے دیں!!!

یہ یاد رہے کہ اللہ کسی خاص ضرورت کے تحت اس غیب کا کچھ حصہ کسی رسول پر کھولتا ہے تاکہ اللہ کی طرف ہدایت کرنے میں رسول کے معاون ہو۔ 3:179 اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے چن لیتا ہے۔ پچھلی قوموں کے حالات ہوں یا دور دراز مقامات کی خبر ہو یہ وحی کے ذریعے اس رسول پر کھولی جاتیں ہیں۔ یہی علم رسول قربت کے لحاظ سے عالم کا ورثہ بن جاتی ہیں۔ جو رسول کے جتنا قریب ہو گا وہی ورثے میں سب سے زیادہ حصہ پائے گا۔ یہ قربت، بدنی قربت سے زیادہ باطنی پاکیزگی کی قربت ہے۔ اویس قرنی دور ہونے کے باوجود علم رسول کا وہ حصہ پاتے رہے جو مدینے کے بدوی پاس ہونے کے باوجود نہ پا سکے۔ 49:14 بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے ہیں، کہہ دو تم ایمان نہیں لائے لیکن تم کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اورابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ پاکیزگی میں سب سے بڑھ کر اہلبیت ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے علم رسول ﷺ سے پورا پورا حصہ حاصل کیا۔ 34:33 بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسولﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ آل رسول ﷺ زکوۃ و صدقہ نہیں استعمال کرتی بلکہ انکا حصہ خمس کا پانچواں ہے۔ حدیث مسلم ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کو نیچا کیا، اور فرمایا: ”یہ صدقہ تو لوگوں (کے مال) کا میل (کچیل) ہے، اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل (و اولاد) کے لیے حلال نہیں ہے، (یعنی بنو ہاشم کے لیے صدقہ لینا درست نہیں ہے)"۔ بلکہ اہل بیت کی پاکیزگی اور علم رسول ﷺ سے اسکا تعلق مذید واضح کرنے کے لیے فرمایا 34:33 اور تم اللہ کی آیتوں کو اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) سنت و حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے۔

81:24 اور وہ (حبیبِ مکرّم ﷺ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں۔ اسی صحبت رسول ﷺ کی وجہ سے اہل بیت اور صحابہ میں علم رسول ﷺ کی وراثت منتقل ہوئی اور سنت رسول ﷺ کو جاری رکھنے کے لیے یہ سلسلہ آج تک امت میں بغیر کسی بخل کے جاری و ساری ہے۔ کیونکہ علم رسول ﷺ کی میراث پانے کا واحد طریقہ پاکیزگی ہے اسی لیے امت میں روحانی سلسلے جاری ہوئے جو گئے گزرے دور میں امت کا تزکیہ فرماتے ہیں۔ عام مومنین کے تزکیے پر صبر کی وجہ سے ان پرحق القاء ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً دور قریب کے لوگوں کی اچھی بری نیت، تحریر اور کلام میں کجی یا حق ہونا۔ 34:48 فرما دیجئے: میرا رب حق کا القاء فرماتا ہے سب غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔ جیسے سابقہ امتوں میں اللہ کی سنت احکام کے بارے میں امت محمدیہ ﷺ سے کچھ کچھ مختلف تھی اسی طرح علم لدنی، علم نیت یا علم غیب کی تقسیم کی سنت بھی خضر علیہ السلام یا دور کے نبی کے بجائے علماء محمدیہ ﷺکی ذمہ داری بنی۔ فرمایا کہ 2:106 ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں۔ آیت نشانی کو کہتے ہیں۔ جناب خضر علیہ السلام بھی اللہ کی ایک نشانی ہی ہیں اور اب اس سے بہتر نشانی یہ ہے کہ امت محمدیہ ﷺ کے علماء علم لدنی سے آراستہ ہیں۔ جیسا کہ فرمایا 48:23 (یہ) اﷲ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے، اور آپ اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ 17:77 اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ اور فرمایا 17:77 اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ 33:62 اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ یہ یاد رہے کہ عالم رجس سے پاک ہو۔ طاہر و مطہر ہو۔ اور ان کاموں میں مشغول ہو کہ جس کی تعلیم رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی۔ 3:164 بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

اسی قرینے سے کہ 33:62 اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ اور یہ کہ 4:113 اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جوآپ نہیں جانتے تھے۔ سابقہ انبیاء علیہ السلام کے علوم بھی امت محمدیہ ﷺ کے علماء میں منتقل ہو گئے۔ مثلاً حکومت و حکمت داود علیہ السلام۔ 2:251 اور اﷲ نے ان کو (یعنی داؤد علیہ السلام کو) حکومت اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں جو چاہا سکھایا۔ سیدنا عیسی علیہ السلام کی کتاب و حکمت کا علم اور تورات و انجیل علم بھی امت کے علماء وارثین کے پاس محفوظ ہے۔ 3:48 اور اﷲ اسے (عیسیٰ علیہ السلام) کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل (سب کچھ) سکھائے گا۔ اور فرمایا 5:110 اور جب میں نے تمہیں (عیسیٰ علیہ السلام) کتاب اور حکمت (و دانائی) اور تورات اور انجیل سکھائی۔ پھر یہی نہیں کہ سابقہ انبیاء کو جو علم دیا گیا تھا وہ آپ ﷺ کے ذریعے امت کے علماء میں منتقل ہوا بلکہ الگ سے بھی آپ کو کتاب و حکمت دی گئی۔ 4:113 اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے۔ یہ سب کا سب امت محمدیہ ﷺ کے علماء میں منتقل ہوا بسبب 81:24 اور وہ (حبیبِ مکرّم ﷺ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں۔ اور امت محمدیہ ﷺ کے علماء وارثین میں باتوں کے انجام تک پہنچنے کا علم منتقل ہوا۔ فرمایا 12:6 اورتمہیں (یوسف علیہ السلام) باتوں کے انجام تک پہنچنا سکھائے گا۔ اور فرمایا 12:21 ہم اسے (یوسف علیہ السلام) باتوں کے انجام تک پہنچنا سکھائیں۔

اللہ نے انسان کو طرح طرح سے سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ 96:5 جس نے انسان کو وہ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ لیکن طرح طرح کے لطیف علوم رجس سے پاک علماء کو ورثے میں ملے۔ 34:33 بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسولﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔ مثلاً انہی علماء وارثین کو علم تعبیر معلوم ہے۔ 12:22 اسے (یوسف علیہ السلام کو) حکمِ (نبوت) اور علمِ (تعبیر) عطا فرمایا۔ اور اس علم و حکمت سے بھی آراستہ ہیں جس سے آل ابراہیم علیہ آراستہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نماز میں آل محمد ﷺ کے علاوہ آل ابراہیم علیہ السلام پر بھی درود پڑھا جاتا ہے۔ کیونکہ آل ابراہیم کے علوم تک درود پہنچنا دراصل آل محمد ﷺ کے علوم تک درود پہنچنا ہے۔

ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .

ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

اے ﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔

اے ﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔

اور مذید علوم جو علماء وارثین تک پہنچے وہ یہ ہیں۔ 21:74 اور لوط (علیہ السلام) کو (بھی) ہم نے حکمت اور علم سے نوازا تھا ۔ اور 21:79 چنانچہ ہم ہی نے سلیمان (علیہ السلام) کو وہ (فیصلہ کرنے کا طریقہ) سکھایا تھا اور ہم نے ان سب کو حکمت اور علم سے نوازا تھا اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد (علیہ السلام) کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے۔ اور 27:15 اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو (غیر معمولی) علم عطا کیا۔ اور 44:32 اور بیشک ہم نے ان (بنی اسرائیل) کو علم کی بنا پر ساری دنیا (کی معاصر تہذیبوں) پر چُن لیا تھا۔ اور 18:65 اور اپنی طرف سے ایک خاص علم (خضر علیہ السلام کو) عطا کیا تھا۔ اور 12:68 بیشک یعقوب (علیہ السلام) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا۔
12:101 اور مجھ (یوسف علیہ السلام) کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا۔
اور 21:80 اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو تمہارے لئے زِرہ بنانے کا فن سکھایا۔ اور 27:16 اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے۔ اور 2:102 اس (جادو کے علم) کے پیچھے (بھی) لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت (نامی) دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا۔ اور 2:247 بیشک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے۔ اور 3:18 اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے۔ اور 28:14 اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِّ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوّت) اور علم و دانش سے نوازا۔ یا مومن دربار سلیمان علیہ السلام کا علم ہو۔ 27:40 (پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)۔ ایک علم لوح محفوظ میں بھی ہے 35:11 اور اﷲ ہی نے تمہیں مٹی (یعنی غیر نامی مادّہ) سے پیدا فرمایا پھر ایک تولیدی قطرہ سے، پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنایا، اور کوئی مادّہ حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر اس کے علم سے، اور نہ کسی دراز عمرشخص کی عمر بڑھائی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (یہ سب کچھ) لوحِ (محفوظ) میں ہے، بیشک یہ اﷲ پر بہت آسان ہے۔ علماء وارثین کا اصل مقصد حقیقی سیدھی راہ دکھانا ہوتا ہے۔ 19:43 اے ابّا! (یعنی چچا ابراہیم علیہ السلام آزر) بیشک میرے پاس (بارگاہِ الٰہی سے) وہ علم آچکا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا تم میری پیروی کرو میں تمہیں سیدھی راہ دکھاؤں گا۔

میں صحیح سمجھا تھا آپ نے لیکچر سنا ہی نہیں ہے یا پھر سن لیا ہے تو توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ لیکچر میں بالکل الگ باتیں ہیں!!! ایسی بھی کیا ضد ہے سن لیجئے، کر لیتے ہیں اس پر بھی بات چیت کیا ہو جائے گا اگر کر لی گئی تو؟؟؟؟

میں نے آپ کو کئی بار عطا اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب پڑھنے کی دعوت دی ہے لیکن لگتا ہے کہ آپ مخالف مکتبہ فکر کی کتب پڑھنے میں بالکل بھی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں!!! میں آپ کو ایک بار پھر دعوت دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اس بار اس طرف توجہ دینے کی کوشش کریں گے!!!

عطاء اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب کا مطالعہ

اس کے علاوہ اس کتاب کا مطالعہ بھی ضرور فرمائیے گا

شریعت و طریقت | Shariat wa Tariqat | کتاب و سنت

میں جیسے موقعہ ملتا ہے لیکچر، کتاب اور آپکا مراسلہ پڑھتا ہوں۔

لیکن جیسے رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے لوگ منکر ہوئے، اسی طرح علماء وارثین کے علم کے بھی لوگ منکر ہوئے۔ حالانکہ اللہ پاک ہے اور وہ لوگوں کو پاک کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اسکو پہچانیں۔ 5:6 اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ اور بعض کو اللہ نے خود ہی پاک کر دیا تاکہ وہ تزکیے کا کام سرانجام دیں اور دوسروں کو پاک کریں۔ یہ ہیں اہل بیت اور آل رسول ﷺ۔ 34:33 بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسولﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔

لیکن شک کرنے والے شک ہی کریں گے۔ 13:43 اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ آپ پیغمبر نہیں ہیں، فرما دیجئے: (میری رسالت پر) میرے اور تمہارے درمیان اﷲ بطورِ گواہ کافی ہے اور وہ شخص بھی جس کے پاس (صحیح طور پر آسمانی) کتاب کا علم ہے۔ علم تو واضح ہے اس سے ہٹ کر حسد یا دل کی جلن ہے۔ 3:19 علم آجانے کے بعد اختلاف کیا وہ صرف باہمی حسد و عناد کے باعث تھا۔ یا پھر اپنے گمان میں لگے ہیں۔ 4:157 انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کرتے ہیں)۔ پھر اسی پر بس نہیں کہ خود ہی شک میں رہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمان اور شک کا عادی بناتے ہیں۔ 6:119 بیشک بہت سے لوگ بغیر (پختہ) علم کے اپنی خواہشات (اور من گھڑت تصورات) کے ذریعے (لوگوں کو) بہکاتے رہتے ہیں۔ اور لوگوں میں سے بعض ایسے نرے لاعلم ہیں جن کے بارے میں کہا گیا 6:140 جنہوں نے اپنی اولاد کو بغیر علمِ (صحیح) کے (محض) بیوقوفی سے قتل کر ڈالا۔

اللہ کے بارے میں حجت قرآن اور احادیث رسول ﷺ ہی ہیں۔ چنانچہ ان سے کہنا چاہیے 6:148 کیا تمہارے پاس کوئی (قابلِ حجت) علم ہے کہ تم اسے ہمارے لئے نکال لاؤ (تو اسے پیش کرو)، تم (علمِ یقینی کو چھوڑ کر) صرف گمان ہی کی پیروی کرتے ہو اور تم محض (تخمینہ کی بنیاد پر) دروغ گوئی کرتے ہو۔ زندگی کا اصل مقصد یاد دلانا چاہیے کہ علم سے اللہ کے نزدیک ہوں 10:39 بلکہ یہ اس (کلامِ الٰہی) کو جھٹلا رہے ہیں جس کے علم کا وہ احاطہ بھی نہیں کرسکے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء وارثین اپنی پوری ہمت کے ساتھ کفر کا مقابلہ کرتے ہیں۔ 13:37 اور (اے سننے والے!) اگر تو نے ان (کافروں) کی خواہشات کی پیروی کی اس کے بعد کہ تیرے پاس (قطعی) علم آچکا ہے تو تیرے لئے اﷲ کے مقابلہ میں نہ کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی محافظ۔ اللہ بے علمی سے محفوظ فرمائے۔ 16:25 جنہیں بےعلمی سے گمراہ کرتے رہے۔ اللہ ہر قسم کی رسوائی و بربادی سے بچائے اور اپنی پناہ میں رکھے۔ 16:27 وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے کہیں گے: بیشک آج کافروں پر (ہر قسم کی) رسوائی اور بربادی ہے۔اللہ ہم اس چیز کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کا ہمیں ٹھیک ٹھیک علم کسی عالم وارثین سے ہوا ہو۔ 17:36 اور (اے انسان!) تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے (صحیح) علم نہیں، بیشک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔ اس عمر سے قبل علماء وارثین کی صحبت عطا فرما کہ جب کہ ناجانیں سب کچھ جاننے کے باوجود۔ 16:70 بعض لوگوں کو اتنی بدترین عمر تک پلٹا دیا جاتا ہے کہ علم کے بعد بھی کچھ جاننے کے قابل نہ رہ جائیں۔

بعض باپ دادا کے مذہب سے آزاد تو بالکل ہی لاعلمی کے مقام سے بات کریں گے۔ 18:5 نہ اس کا کوئی علم انہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ اور کچھ شیاطین کی پیروی میں لگے ہوتے ہیں جن کا تعلق انسانوں سے ہوتا ہے۔ 22:3 اور کچھ لوگ (ایسے) ہیں جو اﷲ کے بارے میں بغیر علم و دانش کے جھگڑا کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ اور فرمایا 22:54 اور تاکہ وہ لوگ جنہیں علم (صحیح) عطا کیا گیا ہے جان لیں کہ وہی (وحی جس کی پیغمبر نے تلاوت کی ہے) آپ کے رب کی طرف سے (مَبنی) برحق ہے سو وہ اسی پر ایمان لائیں (اور شیطانی وسوسوں کو ردّ کردیں) 26:112 اور ان کے دل اس (رب) کے لئے عاجزی کریں، اور بیشک اﷲ مومنوں کو ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرمانے والا ہے۔ اللہ سے متعلق گفتگو کا اصل ادب تو یہی ہے کہ جو اس نے اپنے بارے میں بیان کیا ویسا ہی بیان کر دیا جائے۔ سو فرمایا 22:8 اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اﷲ (کی ذات و صفات اور قدرتوں) کے بارے میں جھگڑا کرتے رہتے ہیں بغیر علم و دانش کے اور بغیر کسی ہدایت و دلیل کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے (جو آسمان سے اتری ہو)۔

یقیناً ان آیاتِ قرآنی کے مطالعہ سے یہ واضح ہو گیا ہوگا کہ اللہ رب العزت کے نزدیک عقل کا استعمال کتنا اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اسلام میں صرف اندھی تقلید اور عقل کا استعمال کیے بغیر ہی مذہب کی جانب متوجہ کرنا مقصود ہوتا تو یہ دینِ فطرت نہ ہوتا بلکہ ایک cult ہوتا!!! اور الحمدللہ ہمارا مذہب کلٹ نہیں ہے جہاں انسانی دماغ کو بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے!!! رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار مسلسل سوالات کرتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سوالات کے جوابات دیتے تھے!!! عقل استعمال کرنے سے وہاں روکا جاتا ہے جہاں افکار کے کمزور ہونے کا ڈر ہو اور نتیجتاً ان کو چیلنج اور رد کیے جانے کے کئی امکانات موجود ہوں لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہے!!!

یہ علم کا معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ علم علماء وارثین سے حاصل کریں جو پاک ہیں اور آپ کو بھی پاک کردیں گے۔ کیونکہ لوگوں میں سے بعض فرقہ بندی کرتے ہیں۔ 42:14 اور انہوں نے فرقہ بندی نہیں کی تھی مگر اِس کے بعد جبکہ اُن کے پاس علم آچکا تھا محض آپس کی ضِد (اور ہٹ دھرمی) کی وجہ سے۔نفسانی خواہش بھی علماء وارثین تک پہچنے سے روکتی ہے۔ 30:29 بلکہ جن لوگوں نے ظلم کیا ہے وہ بغیر علم (و ہدایت) کے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ اور 29:8 جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر۔ اور 31:15 جس (کی حقیقت) کا تجھے کچھ علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کرنا۔اور 31:20 اور لوگوں میں کچھ ایسے (بھی) ہیں جو اﷲ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب (کی دلیل) کے۔

بعض لوگ جیسے کہ رسول ﷺ تک پہنچتے لیکن بات نہ سنتے اسی طرح بہت سے علماء وارثین تک بھی پہنچیں گے 47:16 اور ان میں سے بعض وہ لوگ بھی ہیں جو آپ کی طرف (دل اور دھیان لگائے بغیر) صرف کان لگائے سنتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ آپ کے پاس سے نکل کر (باہر) جاتے ہیں تو ان لوگوں سے پوچھتے ہیں۔ جنہیں علمِ (نافع) عطا کیا گیا ہے کہ ابھی انہوں نے (یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) کیا فرمایا تھا؟ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور فرمایا 45:17 مگر اس کے بعد کہ اُن کے پاس (بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا) علم آچکا انہوں نے (اس سے) اختلاف کیا محض باہمی حسد و عداوت کے باعث۔ اور فرمایا 45:23 کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے اسے علم کے باوجود گمراہ ٹھہرا دیا ہے اور اس کے کان اور اس کے دل پر مُہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے، پھر اُسے اللہ کے بعد کون ہدایت کر سکتا ہے، سو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے۔ اور فرمایا 53:28 اور انہیں اِس کا کچھ بھی علم نہیں ہے، وہ صرف گمان کے پیچھے چلتے ہیں، اور بیشک گمان یقین کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا۔ اور فرمایا 53:30 اُن لوگوں کے علم کی رسائی کی یہی حد ہے، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اُس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جِس نے ہدایت پا لی ہے۔

کچھ اپنے علم و فن پر اترانے کی وجہ سے علم رسول ﷺ سے محروم رہیں گے۔ 40:83 پھر جب اُن کے پیغمبر اُن کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تو اُن کے پاس جو (دنیاوی) علم و فن تھا وہ اس پر اِتراتے رہے۔ بعض اپنی ہی تدبیر میں گم ہوتے ہیں۔ 39:49 پھر جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت بخش دیتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ یہ نعمت تو مجھے (میرے) علم و تدبیر (کی بنا) پر ملی ہے، بلکہ یہ آزمائش ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ بعض اپنے غلط عمل کو بھی اللہ ہی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ 43:20 اور وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمان چاہتا تو ہم اِن (بتوں) کی پرستش نہ کرتے، انہیں اِس کا (بھی) کچھ علم نہیں ہے وہ محض اَٹکل سے جھوٹی باتیں کرتے ہیں۔ اور فرمایا 10:93 انہوں نے کوئی اختلاف نہ کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم و دانش آپہنچی۔ بیشک آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان امور کا فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کفر سے ہر لمحہ مقابلے پر رہنا چاہیے تاکہ لا علمی سے بچیں۔ 40:42 تم مجھے (یہ) دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہراؤں جس کا مجھے کچھ علم بھی نہیں۔ اور لاعلمی سے بچنے کی کنجی قرآن ہے۔ 7:52 اور بیشک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل (یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔

میں بہت گنہگار انسان ہوں اور مجھے قصیدہ خوانی سے نفرت ہے اور وہ بھی اپنے لئے کیونکہ اپنے آپ کو جب میں نے کچھ سمجھنا شروع کر دیا اور وہ بھی اللہ کے جلیل القدر نبی علیہ السلام جیسا تو پھر ایمانداری کے ساتھ سیکھنے اور سمجھنے کا کام کرنا ختم کر بیٹھوں گا کیونکہ میں اپنے آپ کو بہتوں سے بہتر سمجھنا شروع کر دوں گا اور بہتری پیدا کرنے کی گنجائش میرے لئے ضروری نہیں رہے گی۔

حدیث مشکوۃ شریف ہے کہ ہر انسان خطا کار ہے اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ لیکن یہاں تو خطا بھی نہیں ہوئی۔ محض سفر موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے علم لدنی میں کچھ مماثلت پائی گئی تو برکت کے لیے بیان کر دی گئی۔ اور انہی کی نقل میں ایک سفر تجویز کر دیا گیا۔ کچھ تو عقل سے کام لیں۔ کچھ تو عدل الہی سے آراستہ ہوں۔ آپ کا مقام اس نے اپنا خلیفہ تجویز کیا ہے۔ یہ سنت موسوی علیہ السلام کا سنت محمدیہ ﷺ کی طریق پر احیاء ہے۔ اس پر نہیں شرمانا چاہیے۔ اللہ اس سے بہت بلند اور پاک ہے۔ انکساری کچھ اور شئے ہے۔ یہ قصیدہ خوانی تھوڑی آپ اپنی ہمت بلند کرنے کے لیے ایک سفر کر رہے ہیں۔ لامحدود ذات میں منہمک لوگوں پر خود بخود نا جاننے کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ آپ مواحد بنیں۔ لوگوں کا خیال چنداں دل میں نہ لائیں۔

کل علم اللہ ہی کو ہے۔ چنانچہ علماء وارثین بھی یہی کہیں گے۔ 2:32 ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے۔ اور 3:7 اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ اور 6:80 میرے رب نے ہر چیز کو (اپنے) علم سے احاطہ میں لے رکھا ہے۔ اور وہ بتائیں گے کہ 7:89 ہمارا رب اَز روئے علم ہر چیز پر محیط ہے۔ اور کہیں گے کہ 11:14 تو سمجھ لو کہ وہ اللہ کے علم ہی سے اترا ہے۔ کل علم اللہ ہی کو سزاوار ہے۔ 11:46 پس (اے نوح علیہ السلام) مجھ سے وہ سوال نہ کیا کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ اور نوح علیہ السلام نے فرمایا 11:47 (نوح علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ سوال کروں جس کا مجھے کچھ علم نہ ہو۔ یا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ 20:52 (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: ان کا علم میرے رب کے پاس کتاب میں (محفوظ) ہے۔ اور علماء وارثین بھی کہیں گے 17:85 فرما دیجئے: روح میرے رب کے اَمر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ اور یہ علماء بھی سنت رسول ﷺ کی اطاعت میں بالکل یکسو ہو کر علم کے حصول و فروغ میں لگے ہوتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسا کہ نوح علیہ السلام نے اپنے علم کی بابت فرمایا۔ (نوح علیہ السلام نے) فرمایا: میرے علم کو ان کے (پیشہ وارانہ) کاموں سے کیا سروکار۔ اللہ کی رحمت و علم احاطہ کیے ہوئے ہے۔ 40:7 اے ہمارے رب! تو (اپنی) رحمت اور علم سے ہر شے کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے۔ وہ کہیں گے کہ 34:6 اور ایسے لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جو (کتاب) آپ کے رب کی طرف سے آپ کی جانب اتاری گئی ہے وہی حق ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ انہیں صحیح علم دیا گیا ہے۔ 29:49 بلکہ وہ (قرآن ہی کی) واضح آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں (محفوظ) ہیں جنہیں (صحیح) علم عطا کیا گیا ہے۔ لیکن انکو کوئی علم ازخود حاصل نہیں ہے۔ 38:69 مجھے تو (اَزخود) عالمِ بالا کی جماعتِ (ملائکہ) کی کوئی خبر نہ تھی جب وہ (تخلیقِ آدم کے بارے میں) بحث و تمحیص کر رہے تھے۔ علم کی پختگی ہی یہی ہے کہ ایمان سے مزین رہا جائے۔ اس کل علم کے غیب ہونے اور اس پر ایمان رکھنا ہی اصل علم ہے۔ اسی لیے فرمایا 4:162 ان میں سے پختہ علم والے اور مومن لوگ اس (وحی) پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے۔ اور اس (وحی) پر جو آپ سے پہلے نازل کی گئی (برابر) ایمان لاتے ہیں۔ ایمان اسی چیز پر لایا جاتا ہے جہاں حاصل علم تمام ہوجاتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ 27:84 تم (اپنے ناقص) علم سے انہیں کاملاً جان بھی نہیں سکے تھے۔ اورجھٹلانے والوں سے فرمایا کہ 27:84 یہاں تک کہ جب وہ سب (مقامِ حساب پر) آپہنچیں گے تو ارشاد ہوگا کیا تم (بغیر غور و فکر کے) میری آیتوں کو جھٹلاتے تھے حالانکہ تم (اپنے ناقص) علم سے انہیں کاملاً جان بھی نہیں سکے تھے یا (تم خود ہی بتاؤ) اس کے علاوہ اور کیا (سبب) تھا جو تم (حق کی تکذیب) کیا کرتے تھے۔ اور فرمایا 30:56 اور جنہیں علم اور ایمان سے نوازا گیا ہے (ان سے) کہیں گے: درحقیقت تم اﷲ کی کتاب میں (ایک گھڑی نہیں بلکہ) اٹھنے کے دن تک ٹھہرے رہے ہو، سو یہ ہے اٹھنے کا دن، لیکن تم جانتے ہی نہ تھے۔

اللہ ہی کو کل علم ہے اور وہ اس علم کو ضرورت کے لحاظ سے انسانوں پر نازل کرتا رہا ہے۔ 20:98 وہ ہر چیز کو (اپنے) علم کے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔ اور فرمایا 20:110 اور وہ (اپنے) علم سے اس (کے علم) کا احاطہ نہیں کرسکتے۔اللہ علم کے ذریعے ہمیں ایمان اور درجات میں بلندی عطا فرما۔ 58:11 اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا،۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمارا ایمان رکھ کہ تو ہی کل علم کا سزاوار ہے۔ 65:12 اور یہ کہ اللہ نے ہر چیز کا اپنے علم سے احاطہ فرما رکھا ہے۔ اور یہ کہ قیامت کا علم تجھے ہی ہے۔ 67:26 فرما دیجئے کہ (اُس کے وقت کا) علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ بلکہ انسانوں میں سب سے کامل رسول اللہ ﷺ یہ دعا کرتے ہیں کہ 20:114 اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے۔

دعا ہے کہ اللہ ہمارے علم میں اور کل مومنین و مومنات کے علم میں اضافہ فرمائے۔ آمین۔
 

فہد مقصود

محفلین
لدنی ہو یا علم نیت سب کا سب غیب کے علوم میں سے ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ کچھ تہمید غیب پر ہو جائے۔ غیبوں میں سب سے بڑھ کر غیب ھو کا ہے۔ بندوں کو یہ زیبا ہے کہ گفتگو میں ھو کی طرف یکسوئی رہے۔ یہی زندگی کا اصل ہے اور تمام تر غیوب کو جاننے کی کنجی۔ قرآن مجید میں ہے کہ 112:1 قل ھو اللہ احد۔ یعنی اللہ کی اصل حقیقت راز ھو ہے۔ یہ غیب ہے اور لامحدود ہے۔ اسی لیے اس پر صرف ایمان لایا جاسکتا ہے۔ 2:3 جو غیب پر ایمان لاتے۔ علم لدنی ہو یا علم نیت ہو یہ سب غیب کے علوم ہیں۔ چاہے ھو ہو، زمین و آسمان کی کوئی شئے ہو، سرگوشی ہو، سینے میں چھپا راز ہو، خشکی و تری کی کوئی مخلوق ہو، پچھلی قوموں کے حالات ہوں یہ سب کے سب غیب ہیں اور اس لامحدود مسلسل بڑھتے اور تبدیل ہوتے غیب کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ 27:65 فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اللہ کے۔ اللہ کسی خاص ضرورت کے تحت اس غیب کا کچھ حصہ کسی رسول پر کھولتا ہے تاکہ اللہ کی طرف ہدایت کرنے میں رسول کے معاون ہو۔ 3:179 اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے چن لیتا ہے۔ پچھلی قوموں کے حالات ہوں یا دور دراز مقامات کی خبر ہو یہ وحی کے ذریعے اس رسول پر کھولی جاتیں ہیں۔ 3:44 (اے محبوب ﷺ) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں۔ اسی لیے رسول ہمیشہ اس بات کو واضح کرتے رہے کہ وہ خزانے جو اللہ معین مقدار میں بغرض حکمت اتارتا رہتا ہے اور وہ غیب کہ جس سے اللہ بضرورت رسول کو مطلع کرتا رہتا ہے، رسول خود انکے مالک ہیں نہ ان پر مطلع۔ 6:50 آپ (ﷺ) فرما دیجئے کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔ اللہ کے یہ سب خزانے مخصوص کنجیوں سے کھلتے ہیں اور ان کنجیوں کا علم اللہ کو ہے۔ 6:59 اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

علم نیت؟

بے شک خدائے رب العزت ہی عالم الغیب ہے۔ نبی اکرم ﷺ نہ ہی عالم الغیب ہیں اور نہ ہی کلی علم غیب پر مطلع ہیں۔

کفار کے جنگوں کی چالیں ہوں، خشکی اور تری کے فتنے ہوں، آسمانوں سے برسنے والی برکت ہو یا برسنے والے فتنے ہوں سب کے سب غیب ہیں۔ یہ ایک خاص مقدار میں ہیں اور خاص مقدار میں ہی اتارے جاتے ہیں تاکہ ھو کی طرف یکسوئی کرنے والے شہید، صالح یا صدیق بن جائیں۔ اللہ کی سب آیات اور سب صفات کا ظہور پوری شان سے برقرار رہے۔ تاکہ کافروں پر حجت رہے اور مومنین ھو کے راز میں منہمک رہیں۔ اگر کل غیب پر رسول ہر وقت مطلع رہتے تو رسول کل بھلائی کو حاصل کرتے اور کل سختی کو دور کرتے۔ یوں حجت تمام نہ ہوتی۔ اگر رسول کل غیب جاننے کے بعد بھی اپنے سے بھلائی کو جانے دیتے اور سختی کو آنے دیتے تو وہ انسان جیسے ہی نہ رہتے۔ انکا علم تو رب کی طرح ہوتا لیکن ذات میں وہ انسان ہوتے۔ یہ محال ہے۔ اسی لیے رسول غیب کے علم حاصل ہونے کی نفی کرتے رہے۔ 7:188 مگر جس قدر اللہ نے چاہا، اور اگر میں (ﷺ) خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی سختی نہ پہنچتی۔ وہ تمسخر اڑانے والے لوگوں اور طنز کرتے افراد سے دل کو پہچنے والی سخت تکلیف کے باوجود فرما دیتے کہ غیب اللہ ہی کو زیبا ہے۔ 10:20 غیب تو محض اللہ ہی کے لئے ہے، سو تم انتظار کرو میں (ﷺ) بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ انسان ہی نہیں جن اور فرشتے بھی غیب پر مطلع نہیں۔ 34:14 پھر جب آپ (سلیمان علیہ السلام) کا جسم زمین پر آگیا تو جنّات پر ظاہر ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلّت انگیز عذاب میں نہ پڑے رہتے۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام جن کی پیدائش ہی کلمۃ اللہ سے ہے وہ بھی غیب جاننے کی نفی کرتے ہیں۔ 5:116 اور میں (عیسیٰ علیہ السلام) ان کو نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہیں۔ بیشک تو ہی غیب کی سب باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ بلکہ تمام رسول غیب کا جاننا اللہ ہی کا حق تسلیم کرتے ہیں۔ 5:109 جس دن اللہ تمام رسولوں کوجمع فرمائے گا پھر فرمائے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا تھا؟ وہ عرض کریں گے: ہمیں کچھ علم نہیں، بیشک تو ہی غیب کی سب باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔


نبی کے معنی غیب کی خبریں بتانے والا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت تک آنے والے واقعات سے تفصیلاً امت کو مطلع کیا لیکن ہمیشہ غیب ناجاننے کا اقرار کیا۔ 11:31 اور میں (ﷺ) تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں خود غیب جانتا ہوں۔ آپ ﷺ نے احادیث دجال میں صورت سے لے کردجال کے ایک ایک شر سے تو متنبہ کیا لیکن غیب کی خبریں جاننے کی نفی کی۔ اور ان خبروں کا ذریعہ وحی بتایا۔ 11:49 یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے قبل نہ آپ انہیں جانتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ سوال کرنے والے کو یہ مطلع کیا کہ اس کا باپ کو کون ہے لیکن غیب کی خبروں پر مطلع ہونے کی نفی کی۔ 12:102 (اے حبیبِ مکرّم ﷺ) یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی فرما رہے ہیں، اور آپ (کوئی) ان کے پاس موجود نہ تھے۔ حدیث بخاری میں آپ ﷺ نے بلال حبشی کو آسمانوں میں انکے قدموں کی آہٹ سے تو مطلع کیا لیکن آسمانوں کے غیب سے مطلع ہونے کی نفی کرتے رہے۔ 18:26 آسمانوں اور زمین کی (سب) پوشیدہ باتیں اسی کے علم میں ہیں۔ حدیث مسلم سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرشتوں کو دیکھتے لیکن ہمیشہ یہی فرمایا کہ اللہ ہی زمین و آسمان کے غیب جاننے والا ہے۔ 35:38 بیشک اﷲ آسمانوں اور زمین کے غیب کو جاننے والا ہے، یقیناً وہ سینوں کی باتوں سے خوب واقف ہے۔ حدیث مسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت و دوزخ جو کہ غیب میں سے ہے اس دنیا کی دیوار پر رسول اللہ ﷺ کو دکھائی جاتیں لیکن آپ ﷺ یہی فرماتے کہ غیب کا جاننے والا اللہ ہے۔ 72:26 غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا۔

باوجود؟؟؟ یہاں باوجود کا کیا مطلب ہے؟؟؟

بے شک رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ انباء الغیب کے ذریعے علم سے نوازتا رہا ہے۔ جیسا کہ ان آیات سے ثابت ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَمَا كَانَ اللَّ۔هُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَ۔ٰكِنَّ اللَّ۔هَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّ۔هِ وَرُسُلِهِ الخ اٰٰل عمران 179 پارہ 4
(ترجمہ:اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ مطلع کرے تم کو غیب پر ،لیکن ہاں جس کو خود چاہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ،اُن کو منتخب فرمالیتا ہے)

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ الخ جن 26،27 پارہ 29
(ترجمہ :۔ غیب کا جاننے والا وہ ہی ہے،سو مطلع نہیں فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو ، سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے)

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ الخ یوسف 102 پارہ 13
(ترجمہ:یہ غیب کی خبریں ہیں جو وحی کر رہے ہیں ہم تمہاری طرف )

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَ۔ٰذَا الخ ھود 49 پارہ 12
(ترجمہ:یہ خبریں ہیں غیب کی جو ہم وحی کر رہے ہیں تمہاری طرف (اے نبی)نہیں جانتے تھے یہ باتیں تم اور نہ تمہاری قوم اس سے پہلے)

یہاں سب سے اہم بات یاد رہے کہ ان آیات میں یہ کہیں بھی بیان نہیں کیا گیا ہے کہ "اللہ کے رسول ﷺ غیب جانتے ہیں" بلکہ "غیب پر مطلع ہونا یا انباء غیب کا بیان ہے"۔ ان آیات اور آپ کی تحریر کردہ آیات سے یہ صاف ظاہر ہے "غیب پر مطلع ہونا" "غیب جاننےکے برابر " "نہیں ہو سکتا ہے"۔ اللہ رب العزت کے عالم الغیب ہونے پر اور رسول اللہ ﷺ کے "غیب کی خبروں پر مطلع )انباء غیب( ہونے پر ہم سب کا ایمان ہے۔ بس یہی باریک فرق ذہن میں رکھنا ہے کہ "غیب پر مطلع ہونا" ، "غیب جاننے" کی دلیل نہیں ہو سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اطلاع علی الغیب ،انبا ءالغیب اور اظہار الغیب کے ذریعہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو جتنے علوم سے نوازا وہ اللہ کی مخلوق میں کسی کو بھی عطاءنہیں،اور فوق کل ذی علم علیم کے مصداق آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہیں ،نہ تو کلی علم غیب پر مطلع ہیں ۔
قرآن اور حدیث میں متعدد مقامات پر یہ مسئلہ صراحت سے واضح ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کلی علم غیب نہ تھا ۔
اور ساتھ ہی اس کی تائید میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین،حضرات تابعین کرام ،تبع تابعین کرام ،محدثین کرام ،مفسرین کرام ،فقہائے کرام رحمھم اللہ کے واضح اور صاف صاف اقوال بھی موجود ہیں ۔

مثال کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے :
” حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے کہ جو کہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلمکل کی بات جانتے تھے ،اس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا،اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں“
مسلم شریف ،کتاب الایمان،باب معنی قول اللہ عزوجل (ولقد رآہ نزلتہ اخریٰ )ح : 177 طول منہ (بخاری جلد 2 صفحہ 720 )(مسلم جلد 1 صفحہ 98 )(ابو عوانہ جلد1 صفحہ 154 )(بخاری جلد 2 صفحہ 1089 )(ترمذی جلد 2 صفحہ 160 )(مشکوۃ جلد 2 صفحہ 501 )

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غیب کی خبروں سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو مطلع فرمایا۔ صحابہ کرام نے تابعین کرام کو مطلع فرمایا
اور تابعین کرام نے تبع تابعین کرام کو مطلع فرمایا اور اسی طرح درجہ بدرجہ ائمہ کرام،بزرگان دین ،محدثین حضرات ایک دوسرے کو مطلع فرماتے رہے اور اسی طرح آج لاکھوں کروڑوں مسلمان غیب کی خبروں پر مطلع ہوئے ۔ ان غیب کی خبروں میں سے بہت سے واقعات ہوچکے ہیں(جو غیب میں داخل ہیں)اور بہت سے واقعات ہونے والے ہیں (جو غیب میں ہی داخل ہیں)

مسئلہ علم غیب پر چند مغالطے اور اُن کی وضاحتیں

حدیث مسلم سے اطلاع ملتی ہے کہ رسول اللہ ایک عام انسان کی شکل میں آئے فرشتے کو پہچانتے تھے اور لوگوں سے خوب کھول کھول کر یہ غیب بیان بھی کرتے۔81:24 اور وہ (حبیبِ مکرّم ﷺ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں۔ اسی صحبت رسول ﷺ کی وجہ سے صحابہ میں یہ علم منتقل ہوا اور سنت رسول ﷺ کو جاری رکھنے کے لیے یہ سلسلہ آج تک امت میں جاری ہے۔

کس علم کی بات کر رہے ہیں آپ؟؟؟ آپ تو خود آیات قرآنی سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ علم غیب، غیب کی خبروں پر مطلع یا انباء غیب کے برابر نہیں ہے!!! تو پھر یہ کونسا علم بیچ میں آگیا جو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی منتقل ہو گیا؟؟؟ عالم الغیب تو صرف خدائے رب العزت ہے!!! یہی تو اوپر آپ نے بھی ثابت کیا ہے!!!

حدیث بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف دیکھ کر کسی کے کاہن ہونے کا پتہ لگا لیتے۔ بلکہ حدیث بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ جو بھی سوال کرنے سے بچے گا اور صبر کرے گا وہ بھی غیب پر مطلع ہو جائے گا۔ عام مومنین کے صبر کی وجہ سے ان پرحق القاء ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً دور قریب کے لوگوں کی اچھی بری نیت، تحریر اور کلام میں کجی یا حق ہونا۔ 34:48 فرما دیجئے: میرا رب حق کا القاء فرماتا ہے سب غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔

انا للہ وانا الیہ راجعون!

حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں "میرا گمان ہے" انہوں نے کہاں اقرار کیا ہے کہ ان کو یہ سب "غیب" سے معلوم ہو رہا ہے؟؟؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی فرما رہے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جو "خیال" ہوتا تھا وہ درست ثابت ہوتا تھا۔ آگے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ "یا تو میرا گمان غلط ہے"، اگر تو یہ سب کچھ غیب سے معلوم ہو رہا ہوتا تو کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ مکمل یقین سے یہ بات نہ کہہ دیتے؟؟؟ جو بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہی ہی نہیں وہ ان سے منسوب کرنا آپ کے خیال میں کیسا ہے؟؟؟ میرے نزدیک تو یہ بہتان ہو جاتا ہے!!!

حجت تمام کرنے کے لئے ایک اور سایٹ سے انگریزی ترجمہ بھی اس حدیث کا پڑھ لیتے ہیں:

Narrated 'Abdullah bin 'Umar:

I never heard 'Umar saying about something that he thought it would be so-and-so, but he was quite right. Once, while 'Umar was sitting, a handsome man passed by him, 'Umar said, "If I am not wrong, this person is still on his religion of the pre-lslamic period of ignorance or he was their foreteller. Call the man to me." When the man was called to him, he told him of his thought. The man said, "I have never seen such a day on which a Muslim is faced with such an accusation." 'Umar said, "I am determined that you should tell me the truth." He said, "I was a foreteller in the pre-lslamic period of ignorance." Then 'Umar said, "Tell me the most astonishing thing your female Jinn has told you of." He said, "One-day while I was in the market, she came to me scared and said, 'Haven't you seen the Jinns and their despair and they were overthrown after their defeat (and prevented from listening to the news of the heaven) so that they (stopped going to the sky and) kept following camel-riders (i.e. 'Arabs)?" 'Umar said, "He is right." and added, "One day while I was near their idols, there came a man with a calf and slaughtered it as a sacrifice (for the idols). An (unseen) creature shouted at him, and I have never heard harsher than his voice. He was crying, 'O you bold evil-doer! A matter of success! An eloquent man is saying: None has the right to be worshipped except you (O Allah).' On that the people fled, but I said, 'I shall not go away till I know what is behind this.' Then the cry came again: 'O you bold evil-doer! A matter of success! An eloquent man is saying: None has the right to be worshipped except Allah.' I then went away and a few days later it was said, "A prophet has appeared."

• Sahih al-Bukhari, 3866

• Sahih al-Bukhari, Vol. 5, Book of Merits of Al-Ansaar, Hadith 206

• Sahih al-Bukhari, Book of Merits of Al-Ansaar, Hadith 206


Merits of Al-Ansaar - Sahih al-Bukhari — Hadith — Muflihun

اس روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قابلیت اور ذہانت کا اقرار ہے جو کہ وہ تھے۔ ان کا دورِ خلاف ان کی اعلیٰ لیاقت کا سب سے بڑا منہ بولتا ہوا ثبوت ہے۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

انا للہ وانا الیہ راجعون

انا للہ وانا الیہ راجعون

یہ حدیث علم غیب کے بارے میں ہے؟؟؟؟؟؟ حد کر دی صاحب آپ نے!!! لگتا ہے آپ نے بس اس سائیٹ پر غیب کا لفظ تلاش کیا اور بس پھر یہاں درج کرتے چلے گئے جیسا کہ غیب کے لفظ کا ہر حدیث میں نمایاں ہونے سے ظاہر ہے!!!

آپ کی سائیٹ پر حدیث اس طرح درج ہے

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عطاء بن یزید لیثی نے خبر دی اور انہیں ابوسعید رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ چند انصاری صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا اور جس نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیا، یہاں تک کہ جو مال آپ کے پاس تھا وہ ختم ہو گیا۔ جب سب کچھ ختم ہو گیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بھی اچھی چیز میرے پاس ہو گی میں اسے تم سے بچا کے نہیں رکھتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ جو تم میں (سوال سے) بچتا رہے گا اللہ بھی اسے غیب سے دے گا اور جو شخص دل پر زور ڈال کر صبر کرے گا اللہ بھی اسے صبر دے گا اور جو بےپرواہ رہنا اختیار کرے گا اللہ بھی اسے بےپرواہ کر دے گا اور اللہ کی کوئی نعمت صبر سے بڑھ کر تم کو نہیں ملی۔

یہاں نبی اکرم ﷺ مال تقسیم کر رہے ہیں۔ علم کا کہاں ذکر ہے؟؟؟ اور جو آپ نے سوال کرنے کا کہا اس کے معنی کسی اور کے سامنے تنگی میں ہاتھ نہ پھیلانے کے ہیں اور غیب سے عطا فرمانا کے معنی، خدائے رب العزت کی جانب سے مالی تنگی غیب سے مدد فرما کر دور کرنے کے ہیں۔

آپ نے حدیث کا متن تبدیل کر دیا؟؟؟ آپ نے پوری حدیث یہاں درج کیوں نہیں کی؟؟؟ اپنے الفاظ میں حدیث کو کیوں بیان کیا؟؟؟؟

حجت تمام کرنے کے لئے کہ یہ حدیث مال سے متعلق ہے اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔

Narrated Abu Said:

Some people from the Ansar asked Allah's Apostle (to give them something) and he gave to everyone of them, who asked him, until all that he had was finished. When everything was finished and he had spent all that was in his hand, he said to them, '"(Know) that if I have any wealth, I will not withhold it from you (to keep for somebody else),
And (know) that he who refrains from begging others (or doing prohibited deeds), Allah will make him contented and not in need of others;
and he who remains patient, Allah will bestow patience upon him, and he who is satisfied with what he has, Allah will make him self-sufficient. And there is no gift better and vast (you may be given) than patience."

Sahih al-Bukhari, 6470

• Sahih al-Bukhari, Vol. 8, Book of Softening the Heart, Hadith 477

• Sahih al-Bukhari, Book of Softening the Heart, Hadith 477


دیکھ لیجئے لفظ begging استعمال ہوا ہے اور پوری حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں مالی معاملات سے متعلق تعلیم دی گئی ہے۔

بہتر یہ ہوگا کہ جیسے آپ اپنے قرآن میں تضاد والے بیان پر یوٹرن لیتے رہے ہیں، اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں اور مسلمانوں میں غلط فہمیاں پھیلانے اور غلط علم کی ترویج کرنے سے خود کو بچانے کے لئے صاف الفاظ میں یہ اقرار کریں" آپ سے غلطی ہوئی ہے احادیث سمجھنے میں" اور یہ کہ "آپ آئندہ اس معاملے میں احتیاط" فرمائیں گے!!! یہاں نہ میری جیت کا سوال ہے اور نہ آپ کی جیت کا، نہ آپکی انا کا اور نہ میری انا کا!!! بات ہو رہی ہے مذہب پر اور اس میں میری یا آپکی انا کی کوئی اہمیت نہ ہے!!! قرآن اور سنت کی تعلیم کو عوام الناس تک درست طریقے سے پہنچانا ہمارا نسب العین ہونا چاہئیے نہ کہ ہم اپنی پسند، ناپسند یا اپنے فرقے اور اپنے بزرگوں کی محبت میں ایسی باتیں کہہ جائیں کہ جو قرآن اور حدیث کے مخالف ہو!!! براہ مہربانی اس بار آپ اپنے آپ کو نرگسیت کا شکار ثابت نہ کیجئے گا اور اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیجئے گا!!!


سینہ اور نور کا تو تعلق ہے لیکن دماغ اور نور کا کوئی تعلق نہیں۔ دماغ نورانی نہیں ہوتا بلکہ سینہ نور پر ہو جاتا ہے۔ 39:22 بھلا اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہوجاتا ہے۔ ذکر میں کوتاہی یا کمی کی وجہ سے چیزوں میں تضاد دکھائی دیتا ہے اور وہ گول مول دکھائی دینے لگتی ہیں۔ یہ وقت نور کمانے کا ہوتا ہے۔ 39:22 پس اُن لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہو کر) سخت ہوگئے، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ خود اللہ عام لوگوں کی کوشش کے موافق ان کا سینہ کھول دیتا ہے۔ 6:125 پس اﷲ جس کسی کو ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کشادہ فرما دیتا ہے۔ آپ ﷺ کا سینہ مبارک کفار کی باتوں سے تنگ ہوتا تھا۔ 15:97 اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینۂ (اقدس) ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔ خود آپ ﷺ کے سینہ اقدس کو اللہ نے کشادہ فرمایا۔ 94:1 کیا ہم نے آپ (ﷺ) کی خاطر آپ کا سینہ کشادہ نہیں فرما دیا۔ جبکہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سینے کی کشادگی کی دعا کی۔ یہاں سے بھی رسول اللہ ﷺ کی ایک فضیلت محبوبیت ظاہر ہوتی۔ 20:25 (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے۔ ایک دفعہ سینہ کشادہ ہوجائے اور نور پر ہو جائے تو اس حالت کو برقرار رکھنے کے لیے کفر سے مسلسل حالت جنگ میں رہنا چاہیے تاکہ سینے کی بیماریوں سے شفاء رہے۔ 9:14 تم ان سے جنگ کرو، اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور ان پر تمہاری مدد فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینوں کو شفا بخشے گا۔ جنگ کا طریقہ قرآنی ہونا چاہیے ورنہ شفاء کے بجائے بیماری ہو گی۔ قلب تنگ ہو گا۔ نور جاتا رہے گا۔ 10:57 ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں۔


آپ واقعی نرگسیت کا شکا نظر آتے ہیں!!! جبھی آپ اتنے آرام سے مسلمانوں کو قادیانی، ملحد اور نجانے کیا کیا کہتے رہے ہیں!!! میں تین چار مہینے پہلے یہاں آیا ہوں تب سے مسلسل دیکھ رہا ہوں!!! میرے "آپ کے جواب" کو گول مول کہنے پر آپ اب تک نجانے کتنی بار مجھ پر شخصی حملے کر چکے ہیں!!! جاری رکھیں اور یاد رکھیں مجھ پر فرق نہیں پڑنے والا ہے!!! میں ایسے حملوں پر نہ تو توجہ دیتا ہوں بلکہ کوشش کرتا ہوں کہ بھول جاوں تاکہ سامنے والے کو میری وجہ سے قیامت کے دن شرمندگی نہ اٹھانا پڑے لیکن یہ یاد رکھیں کہ قیامت کے دن ہوسکتا ہے میں نے آپ کو معاف کر دیا ہو لیکن خدا نے آپ سے میرے ذکر کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں سوال کر لیا تو کیا کریں گے؟؟؟ ہو سکتا ہے آپ کا گمان غلط نکلے!!! پھر کیا ہوگا؟؟؟؟


آپ کے دماغ اور نور کے تعلق اور یہ جو آپ نے قلب پر اتنی آیات پیش کی ہیں اس پر ایک سوال ذہن میں آرہا ہے کہ قرآن میں سوچنے کی صلاحیت قلب کو حاصل ہے یا دماغ کو؟؟؟ کیا قرآن میں دماغ کا ذکر ہے؟؟؟ مجھے اس سوال کا جواب معلوم ہے اور مختلف مکتبہ فکر سے آپ کو جواب دے دوں گا لیکن آپ کا خیال معلوم کرنا ہے۔

صرف سیدنا خضر علیہ السلام کی تعلیم ہی سے نہیں بلکہ عام سفر سے بھی سینہ روشن ہوتا ہے لیکن دل سمجھنے والا ہونا چاہیے نہ کہ دماغ۔ قلب سخت ہو تو محض دماغ کے ساتھ سفر غفلت کا ہو گا۔ پھر کہتا ہوں کہ عقل سلیم کا مسکن قلب ہے نہ کہ دماغ۔ اس آیت میں بھی دل کا تعلق سمجھ سے بتایا گیا ہے نہ کہ دماغ کا۔ 22:46 تو کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی کہ ان کے دل (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ سمجھ سکتے یا کان (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ (حق کی بات) سن سکتے، تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ دماغ محض کی عقل نکرہ ہے۔ جیسے کہ فرعون کی عقل۔ اسکا قلب سخت تھا۔ جب اس پر بات اچھی طرح واضح ہو گئی تو کہا کہ یہ موسیٰ ع تمہارا بڑا جادوگر ہے۔ عقل کی کارگزاری کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ 26:49 بیشک یہ (موسٰی علیہ السلام) ہی تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ بعض لوگوں کو صحیح علم دیا جاتا ہے یہ رسولوں کے علاوہ ہیں۔ 29:49 بلکہ وہ (قرآن ہی کی) واضح آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں (محفوظ) ہیں جنہیں (صحیح) علم عطا کیا گیا ہے۔

پھر وہی بات آپ فرما رہے ہیں کہ دل سمجھنے والا ہونا چاہئے دماغ نہیں۔ میں پھر سوال کر رہا ہوں کہ سوچنے کا عمل قرآن میں آپ کے نزدیک کیسے بیان کیا گیا ہے؟؟؟ کیا انسانی قلب سوچتا ہے یا پھر انسانی دماغ کا بھی ذکر ہے؟؟؟


حدیث مسلم سے اطلاع ملتی ہے کہ غرور یا گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق کرے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔ دلیل کے ساتھ آیت کے متعلق بحث بھی غرور نہیں۔ 40:56 بے شک جو لوگ اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر کسی دلیل کے جو اُن کے پاس آئی ہو، ان کے سینوں میں سوائے غرور کے اور کچھ نہیں ہے وہ اُس (حقیقی برتری) تک پہنچنے والے ہی نہیں۔ پس آپ (ان کے شر سے) اللہ کی پناہ مانگتے رہئے، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔ حدیث مسلم اور سلسلہ احادیث صحیحہ سے پتہ چلتا ہے کہ ازرہ غرور کپڑے زمین پر لٹکا کر گھسیٹنے میں ہے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ جو سلام میں پہل کرے، کسی کو گالی نہ دے، کسی نیکی کو حقیر و معمولی نہ سمجھے، اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملےاس میں غرور نہیں ہے۔ غرور کی مثال بلند عمارتیں بنانا اور ان پر فخر کرنا ہے۔ اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ بعض لوگ شیاطین نما انسانوں کی صحبت اختیار کرتے ہیں۔ اسی کا اثر گفتگو میں بھی آجاتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔ 114:5 جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔


حضور حقیر تو آپ سمجھتے ہی ہیں جبھی تو دیکھئے ابھی اسی مراسلے میں آپ میرے بارے کچھ نہ جاننے کے باوجود کتنے مزے سے کہہ گئے کہ ذکر کی کمی وجہ ہے اس لئے جواب گول مول نظر آرہا ہے۔ یقیناً آپ خود کو بہتر ذکر کرنے والا سمجھتے ہیں ورنہ میرے بارے میں قیاس کرنے سے پہلے دس بار سوچتے !!! میں تو کب کا اپنے آپ کو بے حس بنا چکا اور اب اس طرح کی باتیں بالکل بھی اثر نہیں کرتی ہیں لیکن ہو سکتا ہے یہ آپ کے قیاس اور گمان کسی اور کو تکلیف دیتے ہوں اور ویسے مجھے ذاتی طور پر بے انتہا ناپسند ہے کہ میں کسی کے اعمال کی جانچ پڑتال کروں!!! میری جتنی بھی لڑائی ہوتی ہے لوگوں کے موقف سے ہوتی ہے کوشش کیا کیجئے کہ اپنا موقف دوسروں کے خیالات تک محدود رکھیں، کسی کی شخصیت تک نہ پہنچا کریں کیونکہ یہ تو مجھے بھی گوارا نہیں ہے کہ ناحق کسی مسلمان کو کافر، ملحد، منافق، قادیانی، ڈیوڈ، وغیرہ قرار دیا جاتا دیکھوں!!! اپنے لئے شاید ہی کبھی لڑوں لیکن دوسروں کے لئے برداشت نہیں کرسکتا ہوں!!!


جی یہی کہہ رہا تھا کہ قرآن میں کہیں تضاد نہیں۔ نہ ان آیات میں۔ لیکن عقل محض، دماغ اور منطق سے کلام الہی یا ھو کے بھید کو سمجھنے میں مشغول ہوئے تو اسکو بھی منطق سے تضاد ثابت کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی زندگی بھی تو زمین و آسمان کے درمیان کی ہی شئے ہے۔ اور وہ کھیل تماشا ہے۔ چنانچہ وہ زمین و آسمان سے باہر کی کوئی شئے ہے۔ کیونکہ زمین و آسمان کھیل و تماشا نہیں۔

جناب اگر آپ یو ٹرن لینا چاہتے ہیں تو لے لیجئے!!! ویسے آپ کا مراسلہ یہیں موجود ہے قارئین اور شرکاء محفل خود رائے قائم کر لیں گے۔ بس خیال رکھئے گا کہ آئندہ ایسا نہ کیجئے گا!!! کیونکہ پھر آپ جیسے خود کو بہت مذہبی اور پکا مسلمان ثابت کرنے والے صاحب اور غیر مسلمانوں میں کوئی فرق نہ رہ جائے گا!!! ایسے سوالات غیر مسلمانوں کی طرف سے آئے جانے پر کوئی حیرت نہیں ہوتی ہے کیونکہ ان کو قرآن کے بارے میں علم نہیں ہے اور ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کے سوالات کے دلائل کے ساتھ اطمینان، سکون اور صبر سے جوابات دیں نہ کہ ہم خود بھی ایسی باتیں پھیلانے لگیں وہ بھی اتنے یقین کے ساتھ!!! اور آیاتِ قرآنی کے حوالے بھی ساتھ میں شامل کر دیں تو پھر غلط فہمی پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے گی!!!

ایمان تو اللہ پر اس کے اسماء و صفات کے پر ہونا چاہیے۔ یا اس کے تمام احکامات پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں،یومِ آخرت، اللہ کی جانب سے اچھی بری تقدیر پر اور مرنے کے بعد جینے پر۔ یہ صوفیت کوئی ایمان لانے کی چیز نہیں ہے۔ کفار اسلام کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ انکا اسلام پر بالکل بھی ایمان نہیں ہے! اسلام کی بے شمار تباہ کاریاں سامنے آچکی ہیں! اسلام کے ذریعے درِحقیقت عقیدہ توحید اور نبوت پر حملے کیے جاتے ہیں، چور راستے مہیا کیے جاتے ہیں۔ اب جب کئی ہزار کتابیں دنیا میں اسطرح لکھ دی جائیں تو آپ سادگی میں اسلام کا چولا بھی اتار پھینکیے گا!

بات یہ ہے کہ ان کفار تک اسلام کی تعلیمات نہیں پہنچیں یا پھر اللہ کو انکی ہدایت مقصود نہیں ہے۔ وہ ہیں ہی شقی اور کفر کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ بہرحال مومنین کو نصیحت فائدہ دیتی ہے۔

اسود عسنی اور مسلیمہ کذاب برصغیر میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ وہ اس دور اور ان ممالک کے ہیں جہاں ہدایت زیادہ عام تھی۔ یہ جھوٹے نبی ہونے کے دعویٰ سخت شقی ہونے سے ہے۔ اللہ کی مرضی ہے کہ جس خطے اور جہاں چاہے پیدا کرے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں جو سکہ زیادہ چلتا ہے وہاں ہی کھوٹے سکے پیدا ہوتے ہیں۔ اسود عسنی اور مسلیمہ کذاب عرب شریف کے علاقوں کے ہیں جہاں نبی کی بات سنی اور مانی جاتی تھی۔ غلام احمد برصغیر کا ہے جو اولیاء اللہ کا مسکن رہا ہے جو توحید کی تفصیل بیان کرتے۔ پچھلی صدی میں اسلامی تزکیہ کا سب سے بڑا مرکز ہند ہی تھا۔ اور تزکیہ قرآن کا ہی شعبہ ہے۔ 2:129 انہی میں سے رسول (ﷺ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دےاور ان کو خوب پاک صاف کر دے۔ یہ خوب پاک کر دینا بھی تو امت میں کسی کا کام ہونا چاہیے؟ یا یہ بند کردیں؟ آپ کہیں تو یہ آیت کا کتاب و حکمت کی تعلیم کا حصہ جاری رکھتے ہیں اور تزکیہ والا حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا اثر وہی ہو گا جو اس سے قبل کئی بار کہا چکا ہے کہ دماغ کی منطق، علم کلام، فلسفہ کو خوب ترقی ملے گی۔ بری طبعیتوں کو انہی میں مزہ آئے گا۔ قلب تاریک اپنے اپنے طور سے جس قدر چاہیں گے حق پر نقب لگائیں گے۔ دلیل فرعونی ہو جائے گی کہ ہادی کو گمراہ کہا جائے گا۔ 26:49 بیشک یہ (موسٰی علیہ السلام) ہی تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔

نہ نہ نہ!!!! ہمارا قصور ہے اور بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی غلطیاں تسلیم کریں!!! آپ میرے ایک دھاگے کا مطالعہ فرمائیں اور کچھ کتابیں آپ کو پیش کی تھیں ان کا مطالعہ فرمائیں پھر دعویٰ کیجئے گا کہ ہمارے خطے میں عقیدہ توحید خالص ہے۔ اگر آپ اب بھی صرف لفظی طور پر یہ ثابت کرنے پر بضد رہے کہ عقیدہ توحید اور دیگر بنیادی عقائد درست حالت میں اس خطے میں ترویج پاتے رہے ہیں تو میں ایک الگ دھاگہ شروع کروں گا اور آپ کی ہی کتابوں سے چاہے میں اس فورم پر کتنی ہی بار ان کو درج کیوں نہ کر چکا ہوں آپ کو ٹیگ کر کے سوال کرنا شروع کر دوں گا!!! کیونکہ آپاپنے نظریات بالکل درست خیال کرتے ہیں اور سامنے والے کے موقف کو پوری طرح جاننے کی بھی کوشش نہ کرتے ہیں!!! ایک ہی جیسی باتیں کتنی بار آپ کے سامنے دہرائی جائیں؟؟؟ آپ کو بار بار دعوت دے رہا ہوں کہ حضور کچھ تو مطالعہ کر لیجئے لیکن لگتا ہے آپ نے اب تک کچھ بھی نہ پڑھا ہے۔ میں آپ کی آسانی کے لئے دوبارہ لنک فراہم کر رہا ہوں۔ کچھ بہادری دکھائیں اور مطالعہ کیجئے یہ سوچ کر کہ اگر آپ غلط بھی ہوئے اور آپ کو درست بات معلوم ہو گئی تو آپ اپنے نظریات سے رجوع کرنے سے نہ گھبرائیں گے!!!


مزارات پر عرس اور میلے، غیر اللہ کی نذر اور قبر پرستی

عطاء اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب کا مطالعہ

مذہبی عقائد اور نظریات

propaganda & propaganda tools

کفریہ عقائد

آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

خلیل الرحمان قمرنے ٹی وی پر براہ راست ماروی سرمد کو گالی دیدی


ویسے اس طرح کی تعلیمات کی ترویج کرنے کی کوئی تک بنتی ہے؟؟؟ ایسی تعلیمات جو قرآن اور سنت کے خلاف ہوں؟؟؟؟ یہ یاد رکھیں کہ مرزا غلام قادیانی نے انہی عقائد کو استعمال کرتے ہوئے نبوت کا دعویٰ کیا تھا!!! کیا یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے عقائد درست نہ کریں اور سمجھنے کے باوجود کہ قرآن اور سنت کے خلاف کیا کچھ ہے ان سب عقائد اور نظریات پر قائم رہنے کے لئے بضد رہیں؟؟؟

اور آپ پھر دماغ سے سوچنے اور قلب سے سوچنے کو الگ الگ کہہ رہے ہیں۔ آپ سے پھر وہی سوال ہے کہ قرآن میں قلب کا بیان ہے یا دماغ کا؟؟؟ اور سوچنے کی صلاحیت کس کو حاصل ہے؟؟؟


اب اس ساری گفتگو کو سمجھنے کے لیے یہی مثال لے لیں۔ بات شریعت کے اندر رہ کر سفر کرنے کی ہو رہی ہے اور یہاں زنا اور دیگر گناہوں میں تطبیق پیدا کرنے کو کہا جا رہا ہے جو کہ ایک عام مسلمان بھی جانتا ہے کہ شریعت سے باہر ہیں۔ منطق محض سے عقل سلیم نہیں عقل نکرہ پیدا ہوتی ہے۔ ایسی عقل جو دن و رات قلب کو تاریک سے تاریک تر کرتی ہے۔

آپ فرما دیجئے کہ جس چیز سے خوف ہو اس کے الٹ کرنے سے آپ کی کیا مراد تھی؟؟؟ مجھے چوری کا خوف رہتا ہے کہ ایک ڈالر بھی میرے پاس کسی کا نہ آجائے۔ آپ بتا دیں مجھے چوری نہ کرنے کا کیا الٹ کرنا ہوگا کہ میرا خوف چلا جائے اور وہ عمل شریعت کے باہر بھی نہ ہو!!!!

مجھے تو جو بات درست معلوم ہوتی ہے وہ بول دیتا ہوں۔

آپ اس سے ہی ذرا تکلیف موسیٰ علیہ السلام کا اندازہ لگائیں۔ 2:67 (تو) وہ بولے: کیا آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں؟ 2:68 آپ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہم پر واضح کر دے۔ اب تعمیل کرو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ 2:69 وہ (پھر) بولے: اپنے رب سے ہمارے حق میں دعا کریں وہ ہمارے لئے واضح کر دے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ 2:70 وہ کون سی گائے ہے؟ (کیونکہ) ہم پر گائے مشتبہ ہو گئی ہے۔ 2:71 پھر انہوں نے اس کو ذبح کیا حالانکہ وہ ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔


آپ نے میرے لئے مثال دی بھی تو بنی اسرائیل کی دی!!! آپ جاری رکھیں!!! لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ مذہب کا معاملہ ہے چاہے کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو سوال کیا جائے گا اور ضرور کیا جائے گا!!! رسول اللہ ﷺ سے ہر کوئی سوال کرتا تھا اور نبی اکرم ﷺ حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ سوال کرنے سے معاملات واضح ہوتے ہیں اور سوال کرنا بحث کے بنیادی طریقے سے ہے۔

بہت سے ہندووں، عیسائیوں اور یہودیوں سے بات کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ انکے فلاسفہ کا طریقہ بھی یہی ہے جو کہ طریقہ محمدی ﷺ کی ضد ہے۔ ان میں اکثر یونہی بات کرتے 2:67 (تو) وہ بولے: کیا آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں؟ 2:68 آپ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہم پر واضح کر دے۔ اب تعمیل کرو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ 2:69 وہ (پھر) بولے: اپنے رب سے ہمارے حق میں دعا کریں وہ ہمارے لئے واضح کر دے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ 2:70 وہ کون سی گائے ہے؟ (کیونکہ) ہم پر گائے مشتبہ ہو گئی ہے۔ 2:71 پھر انہوں نے اس کو ذبح کیا حالانکہ وہ ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔

دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں عقل سلیم اور قلب سلیم عطا فرمائے تاکہ ہم اللہ کے بھید کو جاننے میں مشغول ہوں۔ آمین


شریعت محمدی ﷺ میں معاملات واضح کرنے کے لئے صحابہ کتنی ہی بار رسول اللہ ﷺ سے سوالات کرتے تھے۔ بے وجہ اور مین میخ نکال کر حکم نہ ماننا ایک الگ بات ہے جو کہ بنی اسرائیل نے کیا۔ آپ ہی کی ایک حوالہ کے طور پر حدیث دکھانا چاہوں گا

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پوچھو مجھ سے۔“ (دین کی باتیں جو ضروری ہیں، البتہ بے ضرورت پوچھنا منع ہے) لوگوں نے خوف کیا پوچھنے میں (یعنی ان پر رعب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چھا گیا) تو ایک شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں کے پاس بیٹھا اور بولا: یا رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھے۔“ وہ بولا: سچ کہا آپ نے، پھر اس نے کہا: یا رسول اللہ! ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یقین کرے تو اللہ پر اور اس کی کتابوں پر اور اس سے ملنے پر اور اس کے پیغمبروں پر اور یقین کرے تو جی اٹھنے پر مرنے کے بعد اور یقین کرے تو پوری تقدیر پر“ وہ بولا: سچ کہا آپ نے، پھر بولا: یا رسول اللہ! احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سے ڈرے جیسے تو اس کو دیکھ رہا اگر تو اس کو نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ وہ بولا: سچ کہا آپ نے، پھر بولا: یا رسول اللہ! قیامت کب ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے پوچھتا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ البتہ میں تجھ سے اس کی نشانیاں بیان کرتا ہوں۔ جب تو لونڈی کو دیکھے (یا عورت کو) وہ اپنے مالک اور میاں کو جنے تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب تو دیکھے ننگے پاؤں، ننگے بدن، بہروں، گونگوں کو (یعنی احمق اور نادانوں کو) وہ بادشاہ ہیں ملک کے تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب تو دیکھے بکریاں چرانے والوں کو بڑی بڑی عمارتیں بنا رہے ہیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت غیب کی پانچ باتوں میں سے ہے جن کا علم کسی کو نہیں سوا اللہ کے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ» یعنی ”اللہ کے پاس ہے قیامت کا علم اور برساتا ہے پانی اور جانتا ہے جو ماں کے پیٹ میں ہے اور کوئی نہیں جانتا کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کس ملک میں مرے گا“، پھر وہ شخص کھڑا ہوا (اور چلا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو بلاؤ میرے پاس۔“ لوگوں نے ڈھونڈا تو کہیں نہ پایا اس کو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جبریل علیہ السلام تھے۔ انہوں نے چاہا تم کو علم ہو جائے جب تم نے نہ پوچھا۔“ (یعنی تم نے سوال نہ کیا۔ رعب میں آ گئے تو جبریل علیہ السلام آدمی کے بھیس میں بن کر آئے اور ضروری باتیں پوچھ کر گئے تاکہ تم کو علم ہو جائے)۔

ذرا غور فرمائیے کہ سوال کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے اور مسلمانوں کا خوف دور کرنے کے لئے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لے آئے۔ بات یہ ہے کہ یہاں مذہب کے نام پر قرآن و سنت مخالف باتوں کو واضح کرنے کے لئے سوالات کرنا اور ہے اور آپ کا بضد رہنا کہ جو آپ مانتے ہیں وہ درست ہے ایک الگ بات ہے۔ آپ کی بڑی مہربانی ہے کہ آپ مسلمانوں کے سوچنے سمجھنے ہی نہیں دینا چاہتے ہیں۔ آج تک آپ کو جو بھی مطالعہ کرنے کے لئے مواد دیا ور سوچنے کی دعوت دی آپ اس پر کبھی جواب ہی نہیں دیتے ہیں؟؟؟؟ کیوں کرتے ہیں آپ ایسا؟؟؟ کیونکہ آپ کو صرف اپنے فرقے کو ہی صحیح ثابت کرنا ہے چاہے کوئی بات قرآن اور سنت کے مخالف ہی کیوں نہ ہو!!! مذہب پر کبھی فرقے کو الگ رکھ کر غور و فکر کیجئے گا۔ خدا نے آپ کو سمجھ بوجھ دی ہے۔ ہمیں ہمارے فرقے قیامت کے دن بچانے نہیں آئیں گے!
 

فہد مقصود

محفلین
آمین۔ ثم آمین
سید صاحب۔۔۔ اس انتہائی بھرپور مراسلے پر آپ کو بے شمار داد دینا واجب ہے، جس کا اظہار کسی درجہ بندی یا الفاظ کے استعمال سے ممکن ہی نہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ کے علم میں خوب اضافہ، اور ہم جیسوں کو اس سے سبق لینے کی توفیق اور ہمت عطا فرماتا رہے۔ آمین

حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی ایک نظم ’درد عشق‘ یاد آ رہی ہے۔ پیش خدمت ہے۔

اے دردِ عشق! ہے گُہرِ آب دار تُو
نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تُو!
پنہاں تہِ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفلِ نَو کی نگاہ ہے
آئی نئی ہوا چمنِ ہست و بود میں
اے دردِ عشق! اب نہیں لذّت نمود میں
ہاں، خود نمائیوں کی تجھے جُستجو نہ ہو
منّت پذیر نالۂ بُلبل کا تُو نہ ہو!
خالی شرابِ عشق سے لالے کا جام ہو
پانی کی بوند گریۂ شبنم کا نام ہو
پنہاں دُرونِ سینہ کہیں راز ہو ترا
اشکِ جگر گداز نہ غمّاز ہو ترا
گویا زبانِ شاعرِ رنگیں بیاں نہ ہو
آوازِ نَے میں شکوۂ فُرقت نہاں نہ ہو
یہ دَور نُکتہ چیں ہے، کہیں چھُپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تُو مکیں ہے، وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
غافل ہے تجھ سے حیرتِ علم آفریدہ دیکھ!
جویا نہیں تری نگہِ نا رسیدہ دیکھ
رہنے دے جُستجو میں خیالِ بلند کو
حیرت میں چھوڑ دیدۂ حکمت پسند کو
جس کی بہار تُو ہو یہ ایسا چمن نہیں
قابل تری نمود کے یہ انجمن نہیں
یہ انجمن ہے کُشتۂ نظّارۂ مجاز
مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
ہر دل مئے خیال کی مستی سے چُور ہے
کچھ اور آجکل کے کلیموں کا طُور ہے

بھرپور مراسلہ؟؟؟ انا للہ وانا الیہ راجعون! کیا احادیث کا اصل متن پڑھا تھا آپ نے اور کیا آپ نے سید صاحب کی غلط بیانی پر غور نہ کیا تھا؟؟؟

کیا آپ کا بھی تعلق بریلوی فرقے سے ہے جو آپ اس طرح ان کی غلط تعلیمات کا دفاع کرنے اور ان کو خوشنما کر کے دکھانے کے لئے تشریف لائے ہیں یا پھر دوستی وغیرہ کی بات ہے؟؟؟؟

خدا آپ لوگوں کو اندھی تقلید سے بچائے۔ یہاں آپ نے اندھی تقلید کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔ اگر آپ نے اصل متن احادیث کا پڑھ لیا ہوتا تو شاید آپ میری جگہ ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے لیکن نہیں آپ نے تو قصیدہ خوانی کر کے عوام کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ جو سید صاحب نے فرمایا درست فرمایا ہے!!!

انا للہ وانا الیہ راجعون!
 
بھرپور مراسلہ؟؟؟ انا للہ وانا الیہ راجعون! کیا احادیث کا اصل متن پڑھا تھا آپ نے اور کیا آپ نے سید صاحب کی غلط بیانی پر غور نہ کیا تھا؟؟؟

کیا آپ کا بھی تعلق بریلوی فرقے سے ہے جو آپ اس طرح ان کی غلط تعلیمات کا دفاع کرنے اور ان کو خوشنما کر کے دکھانے کے لئے تشریف لائے ہیں یا پھر دوستی وغیرہ کی بات ہے؟؟؟؟

خدا آپ لوگوں کو اندھی تقلید سے بچائے۔ یہاں آپ نے اندھی تقلید کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔ اگر آپ نے اصل متن احادیث کا پڑھ لیا ہوتا تو شاید آپ میری جگہ ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے لیکن نہیں آپ نے تو قصیدہ خوانی کر کے عوام کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ جو سید صاحب نے فرمایا درست فرمایا ہے!!!

انا للہ وانا الیہ راجعون!
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
 

فہد مقصود

محفلین
حدیث بخاری ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اس حدیث میں غور طلب الفاظ، نبی، وارث اور عالم ہیں۔ نبی غیب کی خبر دینے والے کو کہتے ہیں۔ وارث اسے کہتے ہیں جو کہ اصلی مالک کی چھوڑی ہوئی متعاع سے اپنی قربت کے لحاظ سے کم یا زیادہ حصہ پاتا ہے۔ یہ کم و زیادہ علم کا لحاظ قرآن میں اس طرح واضح کیا گیا 12:76 اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔ یعنی صاحبان علم درجہ بہ درجہ ایک کے اوپر ایک ہیں۔ جہاں تک علم کی بات ہے نبی دیگر علوم کے علاوہ خاص کر تلاوت، آیات، تزکیہ، حکمت اور غیب کا علم بتانے میں ممتاز ہوتے ہیں۔ جیسا کہ طریقہ رسول ﷺ کے بارے میں فرمایا 2:129 اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔چنانچہ رسول پر جو غیب کھولا گیا وہ بھی علم عالم کو وراثت میں ملتا ہے۔ یا جس حکمت سے رسول آراستہ ہیں اسکا کوئی حصہ وراثت میں عالم کو ملتا ہے۔ یا تزکیہ کرنے کے طریقے عالم کو وراثت میں ملتے ہیں۔ یا آیات کی تفصیل یا ان سے نکلنے والے احکام کا علم عالم کو وراثت میں ملتا ہے۔ یا کم از کم آیات کی صحیح تلاوت کرنا بھی ایک انسان کو عالم بناتی ہے۔ ایک اور جگہ سنت رسول ﷺ کو واضح کیا 2:151 اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اَسرارِ معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔ یا اسی طرح ایک اور مقام پر رسول ﷺ کا امتی سے تعلق بیان فرمایا کہ 62:2 وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔


جن علم غیب کی خبروں پر رسول اللہ ﷺ کو مطلع کیا گیا ہے، کیا وہی خبریں عالم کو وراثت میں ملتی ہیں یا عالم اس بات پر قادر ہو جاتا ہے کہ کوئی نئی خبر معلوم کر سکے؟؟؟ جو رسول اللہ ﷺ پر علم مطلع کیا گیا وہ رسول اللہ ﷺ نے پوری طرح ہم تک پہنچا دیا ہے اور علماء "اسی علم" کے وارث ہیں اور اسی ہی کی تعلیم و ترویج کرنے کے پابند ہیں۔

جیسا کہ اللہ رب العزت سورۃ الجن میں فرماتے ہیں

26
عٰلِمُ الۡغَيۡبِ فَلَا يُظۡهِرُ عَلٰى غَيۡبِهٖۤ اَحَدًاۙ‏

(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی (عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتاo

27
اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰى مِنۡ رَّسُوۡلٍ فَاِنَّهٗ يَسۡلُكُ مِنۡۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَمِنۡ خَلۡفِهٖ رَصَدًاۙ‏

سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لئے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہےo

AnalyzeQuran

یہاں سوائے رسولوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور مطلع کرنے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اور وہ (حبیبِ مکرّم ﷺ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں۔ اسی صحبت رسول ﷺ کی وجہ سے اہل بیت اور صحابہ میں علم رسول ﷺ کی وراثت منتقل ہوئی اور سنت رسول ﷺ کو جاری رکھنے کے لیے یہ سلسلہ آج تک امت میں بغیر کسی بخل کے جاری و ساری ہے۔ کیونکہ علم رسول ﷺ کی میراث پانے کا واحد طریقہ پاکیزگی ہے اسی لیے امت میں روحانی سلسلے جاری ہوئے جو گئے گزرے دور میں امت کا تزکیہ فرماتے ہیں۔ عام مومنین کے تزکیے پر صبر کی وجہ سے ان پرحق القاء ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً دور قریب کے لوگوں کی اچھی بری نیت، تحریر اور کلام میں کجی یا حق ہونا۔ 34:48 فرما دیجئے: میرا رب حق کا القاء فرماتا ہے سب غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔ جیسے سابقہ امتوں میں اللہ کی سنت احکام کے بارے میں امت محمدیہ ﷺ سے کچھ کچھ مختلف تھی اسی طرح علم لدنی، علم نیت یا علم غیب کی تقسیم کی سنت بھی خضر علیہ السلام یا دور کے نبی کے بجائے علماء محمدیہ ﷺکی ذمہ داری بنی۔ فرمایا کہ 2:106 ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں۔ آیت نشانی کو کہتے ہیں۔ جناب خضر علیہ السلام بھی اللہ کی ایک نشانی ہی ہیں اور اب اس سے بہتر نشانی یہ ہے کہ امت محمدیہ ﷺ کے علماء علم لدنی سے آراستہ ہیں۔ جیسا کہ فرمایا 48:23 (یہ) اﷲ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے، اور آپ اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ 17:77 اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ اور فرمایا 17:77 اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ 33:62 اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ یہ یاد رہے کہ عالم رجس سے پاک ہو۔ طاہر و مطہر ہو۔ اور ان کاموں میں مشغول ہو کہ جس کی تعلیم رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی۔ 3:164 بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔


میرا ایمان ہے کہ علم لدنی اس علم کو کہتے ہیں جو بغیر کسب کی وحی یا الہام سے حاصل ہو۔ اس لئے سارا قرآن علم لدنی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے!

وَقَد ءاتَين۔ٰكَ مِن لَدُنّا ذِكرً‌ا ﴿٩٩(طہٰ)

اور بے شک ہم نے آپ کو اپنی خاص جانب سے ذکر )یعنی نصحیت نامہ( عطا فرمایا ہے۔

اور آپ کا بھی یہی ایمان ہے کہ علم لدنی علم غیب ہے

عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے تو یہ تقسیم کیسی؟؟؟ آپ نے خود اس ضمن میں آیاتِ قرآنی پیش کی ہیں۔ تو یہ تقسیم کا سوال اور علم غیب رکھنے کا سوال پیدا کیسے ہوا؟؟؟ اس کی تو گنجائش ہی نہیں نکلتی ہے۔

اور علم غیب رکھنا بھی کہنا درست نہ ہوا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں بیان ہوا ہے

” حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے کہ جو کہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کل کی بات جانتے تھے ،اس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا،اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں“
مسلم شریف ،کتاب الایمان،باب معنی قول اللہ عزوجل (ولقد رآہ نزلتہ اخریٰ )ح : 177 طول منہ (بخاری جلد 2 صفحہ 720 )(مسلم جلد 1 صفحہ 98 )(ابو عوانہ جلد1 صفحہ 154 )(بخاری جلد 2 صفحہ 1089 )(ترمذی جلد 2 صفحہ 160 )(مشکوۃ جلد 2 صفحہ 501 )

سارا قرآن علم لدنی ہے۔ قرآن کے علاوہ کوئی بھی نئی بات علم لدنی کے نام پر بتانا کسی عالم کے لئے کیسے جائز ہو سکتا ہے؟؟؟؟ اس کے لئے کہاں نص ملتا ہے کہ رسولوں کے علاوہ انباء غیب اولیاء پر بھی مطلع کیا جاتا ہے؟؟؟

کیا آپ کی اور میری اس معاملے میں فراہم کی گئی آیاتِ قرآنی واضح طور پر یہ نہیں بیان کر رہی ہیں کہ عالم الغیب صرف رب تعالیٰ کی ذات ہے اور رسول اللہ ﷺ کو بعض غیب کی خبروں پر مطلع کیا گیا ہے؟؟؟ پھر علم لدنی سے کسی حساب کے مسئلے کا جواب کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟؟؟ کیا یہ نئی بات نہیں ہوئی؟؟؟ جبکہ اللہ رب العزت صاف صاف کسی کو بھی سوائے رسولوں کے جن کو اللہ نے منتخب فرمایا پر انباء غیب )غیب کی خبریں( وحی کرنے کے بارے میں منع فرما رہے ہیں؟؟؟؟ پھر غیب سے کسی مسئلے کا حل معلوم کرنا کیسے ثابت ہو سکتا ہے جیسا کہ کوکب نورانی نے کہا علم لدنی سے اعلیٰ حضرت نے معلوم کر لیا تھا؟؟؟ آیات قرآنی میں جو فرمایا جا رہا ہے اس کی نفی نہیں ہو گئی کیا؟؟؟


لیکن جیسے رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے لوگ منکر ہوئے، اسی طرح علماء وارثین کے علم کے بھی لوگ منکر ہوئے۔ حالانکہ اللہ پاک ہے اور وہ لوگوں کو پاک کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اسکو پہچانیں۔ 5:6 اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ اور بعض کو اللہ نے خود ہی پاک کر دیا تاکہ وہ تزکیے کا کام سرانجام دیں اور دوسروں کو پاک کریں۔ یہ ہیں اہل بیت اور آل رسول ﷺ۔ 34:33 بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسولﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔

لیکن شک کرنے والے شک ہی کریں گے۔ 13:43 اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ آپ پیغمبر نہیں ہیں، فرما دیجئے: (میری رسالت پر) میرے اور تمہارے درمیان اﷲ بطورِ گواہ کافی ہے اور وہ شخص بھی جس کے پاس (صحیح طور پر آسمانی) کتاب کا علم ہے۔ علم تو واضح ہے اس سے ہٹ کر حسد یا دل کی جلن ہے۔ 3:19 علم آجانے کے بعد اختلاف کیا وہ صرف باہمی حسد و عناد کے باعث تھا۔ یا پھر اپنے گمان میں لگے ہیں۔ 4:157 انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کرتے ہیں)۔ پھر اسی پر بس نہیں کہ خود ہی شک میں رہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمان اور شک کا عادی بناتے ہیں۔ 6:119 بیشک بہت سے لوگ بغیر (پختہ) علم کے اپنی خواہشات (اور من گھڑت تصورات) کے ذریعے (لوگوں کو) بہکاتے رہتے ہیں۔ اور لوگوں میں سے بعض ایسے نرے لاعلم ہیں جن کے بارے میں کہا گیا 6:140 جنہوں نے اپنی اولاد کو بغیر علمِ (صحیح) کے (محض) بیوقوفی سے قتل کر ڈالا۔

منکر وہ ہیں جو کسی عالم سے سیکھنا ہی نہ چاہیں!!! منکر وہ علماء اور ان کے پیروکار نہیں ہیں جو دوسرے علماء کی غلطیوں کی نشاندہی کریں۔

شک کیسا؟؟؟ جب اللہ رب العزت نے صاف صاف فرما دیا تو کسی اور کی بات کیوں مانیں؟؟؟؟ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی بات پر یقین کرنے میں کیا حرج ہے؟؟؟ جو عقیدہ قرآن اور سنت کے مخالف ہو اور اگر اس سے ماننے سے انکار کر دیں تو یہ شک ہو گیا؟؟؟؟ اس کا مطلب ہے اس امت کا ہر فرد راہ راست پر ہے اور کسی قسم کی اصلاح کی ضرورت نہیں ہے؟؟؟؟ اور علماء سوء؟؟؟ ان کے بارے میں بھی تو احادیث میں ذکر ملتا ہے؟؟؟

اور یہ بھی خوب فرمایا کہ علم تو واضح ہے ورنہ حسد اور جلن ہے!!! یعنی بنیادی عقائد جیسے توحید میں بد عنوانی کی جاتی رہے اور سب چپ بیٹھے رہیں اور اگر کوئی بولے تو وہ جلن اور حسد کا شکار ہو گیا!!! میں پہلے بھی کئی بار یہ کہہ چکا ہوں اور پھر کہوں گا کہ آپ کے بودے شخصی حملوں سے مجھ پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے!!! اگر آپ کے پاس درست دلائل ہیں تو وہ سامنے لائیں ورنہ آپ کی یہ بے سر و پا بہتان بازی آپ ہی کا کیس کمزور کرے گی!!! گمراہ کن اور اسلام مخالف نظریات مسلمانوں میں پھیلائے جائیں اور اگر سوال کیا جائے تو کبھی قادیانی، کافر، ڈیوڈ قرار دیا جائے، کبھی ذکر کم ہونے کا کہا جائے، تو کبھی بنی اسرائیل کی مثال دی جائے اور اب جلن اور حسد کو بھی شامل کر دیا!!! واہ جی واہ، میں آپ کی ان بہتان بازیوں کا جواب بھی دینا پسند نہیں کرتا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ معزز قارئین سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور حق کو بہت آسانی سے پہچاننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں!!! مجھے یقین ہے کو وہ دلائل کو پڑھ کر فیصلہ کریں گے نہ کہ آپ کی بہتان بازی پر توجہ دیں گے!!! سچ میں اتنی طاقت ہے کہ انسانی سمجھ بوجھ تک اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ ہر کسی کو سچ بہت آسانی سے نظر آجائے گا!!!



آپ نے اپنے اس مراسلے میں ایک ہی جیسی باتوں کو کوئی دس بار دہرایا ہے۔ بار بار ایک ہی جیسی باتوں کا کون اقتباس لے؟ بس چونکہ آپ "حق" پر ہیں تو براہ مہربانی ان سوالات کے جوابات عنایت فرما دیں کیونکہ مجھے آپ کے اس مراسلے سے ان سوالات کا جواب نہیں مل سکا ہے اور یہ سوالات آپ کا یہ مراسلہ پڑھنے کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم عوام تک قرآن اور حدیث کا صحیح علم پہنچانے کی کوشش کریں اسلئے کوشش کیجئے گا کہ جواب واضح رکھیں ہاں یا نہیں کا استعمال ضرور کیجئے گا۔

اللہ رب العزت ہی صرف عالم الغیب ہے؟؟

کیا اللہ نے اپنے رسولوں پر غیب کی خبروں کو مطلع فرمایا؟؟؟

اگر اللہ نے صرف مطلع فرمایا تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول علم غیب رکھتے تھے؟؟؟

انباء غیب کے مطلع ہونے اور علم غیب رکھنے میں فرق ہے یا نہیں؟؟؟

جب اللہ رب العزت نے صاف صاف فرما دیا کے اپنے پسندیدہ رسولوں کے علاوہ بعض غیب کسی پر مطلع نہیں فرماتا ہے تو اولیاء اور علماء علم لدنی یا علم غیب کے وارث ہونے کی بنیاد پر کیا کوئی نئی بات جو کہ اللہ کے رسول ﷺ پر مطلع نہیں کی گئی تھی بتانے یا معلوم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟؟

آپ نے فرمایا تھا آپ علم لدنی کی تلاش میں ہیں اور اعلیٰ حضرت کے پیروکار صاف دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ علم لدنی سے ایسی باتیں بتانے پر قادر تھے جو کہ پہلے کسی کو معلوم نہیں تھیں؟؟؟؟

آپ نے فرمایا علم غیب تقسیم کیا گیا ہے؟؟؟ کیا یہ کہنا درست ہے جبکہ رسول اللہ نے ﷺ صاف صاف فرمایا ہے کہ وہ تک علم غیب نہیں جانتے تھے؟؟؟

کیا غیب کا حصہ کھولنا اور غیب کی خبروں، انباء غیب کے مطلع ہونے میں کچھ فرق ہے؟؟؟ کیا رسول اللہ ﷺ اپنی مرضی سے علم غیب کے حصے سے جو کہ آپ کا کہنا ہے ان پر کھولا گیا تھا، میں سے کوئی بات اپنی مرضی سے معلوم کر سکتے تھے؟؟؟

اگر رسول اللہ ﷺ اپنی مرضی سے معلوم نہیں کر سکتے تھے جو کہ کئی آیات سے واضح ہے تو اعلیٰ حضرت علم لدنی سے حساب ک مسئلے کا حل کیسے معلوم کرنے لگ گئے؟؟؟

یہ کونسا حصہ جو پایا جاتا ہے؟ علم غیب کا حصہ جو کہ رسول اللہ ﷺ پر کھولا گیا لیکن رسول اللہ ﷺ غیب کا علم نہ رکھنے کا مسلسل فرماتے رہے ہیں تو یہ کہنا کیسے درست ہوا کہ ان کو علم غیب کا کچھ حصہ ملا اور پھر جو باطنی پاکیزگی حاصل کر لیتے ہیں وہ پورا پورا حصہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟؟؟



اور مذید علوم جو علماء وارثین تک پہنچے وہ یہ ہیں۔ 21:74 اور لوط (علیہ السلام) کو (بھی) ہم نے حکمت اور علم سے نوازا تھا ۔ اور 21:79 چنانچہ ہم ہی نے سلیمان (علیہ السلام) کو وہ (فیصلہ کرنے کا طریقہ) سکھایا تھا اور ہم نے ان سب کو حکمت اور علم سے نوازا تھا اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد (علیہ السلام) کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے۔ اور 27:15 اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو (غیر معمولی) علم عطا کیا۔ اور 44:32 اور بیشک ہم نے ان (بنی اسرائیل) کو علم کی بنا پر ساری دنیا (کی معاصر تہذیبوں) پر چُن لیا تھا۔ اور 18:65 اور اپنی طرف سے ایک خاص علم (خضر علیہ السلام کو) عطا کیا تھا۔ اور 12:68 بیشک یعقوب (علیہ السلام) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا۔
12:101 اور مجھ (یوسف علیہ السلام) کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا۔
اور 21:80 اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو تمہارے لئے زِرہ بنانے کا فن سکھایا۔ اور 27:16 اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے۔ اور 2:102 اس (جادو کے علم) کے پیچھے (بھی) لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت (نامی) دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا۔ اور 2:247 بیشک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے۔ اور 3:18 اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے۔ اور 28:14 اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِّ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوّت) اور علم و دانش سے نوازا۔ یا مومن دربار سلیمان علیہ السلام کا علم ہو۔ 27:40 (پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)۔ ایک علم لوح محفوظ میں بھی ہے 35:11 اور اﷲ ہی نے تمہیں مٹی (یعنی غیر نامی مادّہ) سے پیدا فرمایا پھر ایک تولیدی قطرہ سے، پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنایا، اور کوئی مادّہ حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر اس کے علم سے، اور نہ کسی دراز عمرشخص کی عمر بڑھائی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (یہ سب کچھ) لوحِ (محفوظ) میں ہے، بیشک یہ اﷲ پر بہت آسان ہے۔ علماء وارثین کا اصل مقصد حقیقی سیدھی راہ دکھانا ہوتا ہے۔ 19:43 اے ابّا! (یعنی چچا ابراہیم علیہ السلام آزر) بیشک میرے پاس (بارگاہِ الٰہی سے) وہ علم آچکا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا تم میری پیروی کرو میں تمہیں سیدھی راہ دکھاؤں گا۔


یہ جو آپ رسل اور انبیاء علہیم السلام کے علوم کا ذکر کر رہے ہیں جیسا کہ حضرت داود علیہ السلام کے ساتھ پرندے مل کر تسبیح کرتے تھے کیونکہ اللہ نے انہیں پابند فرما دیا تھا تو کیا علماء اور اولیاء کے ساتھ بھی مل کر پرندے تسبیح کرتے ہیں؟ یہ تو حضرت داود علیہ السلام کا معجزہ ہے۔ آپ نے اور بھی انبیاء علیہم السلام کے معجزات کا ذکر کیا ہے اور ساتھ میں آپ کا دعویٰ ہے کہ ان سب معجزات کا علم بھی علماء میں منتقل ہو گیا ہے جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام کا چرند پرند کی زبان سمجھنا؟

پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا معجزات حاصل کرنا انبیاء علیہم السلام کے اختیار میں ہوتے ہیں؟ نہیں یہ خدائے رب العزت کے حکم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ منصبِ نبوت و رسالت وہبی چیز ہے، کسبی نہیں۔۔اور کسی بھی نبی یا رسول کو ملنے والے معجزات کے فاعلِ حقیقی خود اللہ رب العزت ہوتے ہیں نہ کہ خود نبی اور رسول (یہی بات معجزہ کی تعریف سے بھی ظاہر و باہر ہے)

وَمَاکَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَا تِیَ بِآیَةٍاِلَّا بِاذْنِ اللَّہِ

اور کسی بھی رسول کے لئے یہ (ممکن) نہ تھا کہ وہ کوئی نشانی بھی اﷲ کے اِذن کے بغیر لے آئے

سورۃ غافر، 78

اِنۡ اُرِيۡدُ اِلَّا الۡاِصۡلَاحَ مَا اسۡتَطَعۡتُ‌ؕ وَمَا تَوۡفِيۡقِىۡۤ اِلَّا بِاللّٰهِ‌ؕ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ وَاِلَيۡهِ اُنِيۡبُ‏

میں تو جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے (تمہاری) اصلاح ہی چاہتا ہوں، اور میری توفیق اﷲ ہی (کی مدد) سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں


معجزات انبیاء و رسل علیہم السلام کو ہی خدائے رب العزت نے عطا فرمائے ہیں تو ان کا علم بلکہ کس قسم کا علم علماء میں منتقل ہوا ہے؟ کیا نعوذباللہ علماء بھی ان معجزات کے ظہور کا اختیار رکھنے کے قابل ہو گئے ہیں؟

خاتم النبیین محمد ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جو رہتی دنیا تک تمام لوگوں کے لیے چیلنج ہے۔ اس معجزے کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چند دوسرے معجزات سے نوازا تھا لیکن ان معجزات کی حیثیت چیلنج یا لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لیے نہیں تھی۔جیسا کہ دیگر انبیاء علیہ السلام کا معاملہ تھا بلکہ یہ معجزات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باعث تکریم وتعظیم اور خدا کی طرف سے باعث نصرت ورحمت تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان معجزات کا ظہور کافرین کی فرمائش پر نہیں ہوا بلکہ کسی مصیبت کی گھڑی میں ۔ کفار ومشرکین نے جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزات کی مانگ کی اللہ تعالیٰ نے قطعی طور پر ان کی مانگیں رد کردیں۔اللہ کا ارشاد ہے:

﴿وَقالوا لَن نُؤمِنَ لَكَ حَتّىٰ تَفجُرَ لَنا مِنَ الأَرضِ يَنبوعًا ﴿٩٠﴾ أَو تَكونَ لَكَ جَنَّةٌ مِن نَخيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنه۔ٰرَ خِل۔ٰلَها تَفجيرًا ﴿٩١﴾ أَو تُسقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمتَ عَلَينا كِسَفًا أَو تَأتِىَ بِاللَّهِ وَالمَل۔ٰئِكَةِ قَبيلًا ﴿٩٢﴾ أَو يَكونَ لَكَ بَيتٌ مِن زُخرُفٍ أَو تَرقىٰ فِى السَّماءِ وَلَن نُؤمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّىٰ تُنَزِّلَ عَلَينا كِت۔ٰبًا نَقرَؤُهُ قُل سُبحانَ رَبّى هَل كُنتُ إِلّا بَشَرًا رَسولًا ﴿٩٣﴾... سورة الإسراء

’’انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان لانے کے نہیں تاوقتیکہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کردیں ۔ یا خود آپ کے لئے ہی کوئی باغ ہو کھجوروں اور انگوروں کا اور اس کے درمیان آپ بہت سی نہریں جاری کر دکھائیں ۔یا آپ آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرا دیں جیسا کہ آپ کا گمان ہے یا آپ خود اللہ تعالیٰ کو اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لاکھڑا کریں ۔یا آپ کے اپنے لئے کوئی سونے کا گھر ہوجائے یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم تو آپ کے چڑھ جانے کا بھی اس وقت تک ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک کہ آپ ہم پر کوئی کتاب نہ اتار لائیں جسے ہم خود پڑھ لیں، آپ جواب دے دیں کہ میرا پروردگار پاک ہے میں تو صرف ایک انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہوں‘‘

ایک دوسری آیت میں اللہ نے ان کی مانگوں کو قبول نہ کرنے کے سبب کی طرف اشارہ کیا ہے:

﴿وَما مَنَعَنا أَن نُرسِلَ بِالءاي۔ٰتِ إِلّا أَن كَذَّبَ بِهَا الأَوَّلونَ وَءاتَينا ثَمودَ النّاقَةَ مُبصِرَةً فَظَلَموا بِها وَما نُرسِلُ بِالءاي۔ٰتِ إِلّا تَخويفًا ﴿٥٩﴾... سورة الإسراء

’’ہمیں نشانات (معجزات) کے نازل کرنے سے روک صرف اسی کی ہے کہ اگلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں۔ ہم نےثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظالم کیا ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں‘‘

ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،معجزات کی فرمائش کے بدلے میں اس نے قرآن نازل کیا جو تمام معجزات کے مقابلہ میں اکیلا ہی کافی ہے:

﴿أَوَلَم يَكفِهِم أَنّا أَنزَلنا عَلَيكَ الكِت۔ٰبَ يُتلىٰ عَلَيهِم ...﴿٥١﴾... سورة العنكبوت

’’اور کیا ان لوگوں کے لیے نشانی کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے‘‘


پیغمبر اکرم ﷺ کے بارے میں آیات سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ پر لوگوں کا دبائو اس قدر بڑھا ہواتھا کہ خداوند عالم کو وحی کرنا پڑتی تھی کہ اے ہمارے نبی ﷺ مصلحت نہیں ہے آپ ان کے اس طرح کے مطالبے قبول نہ کیجئے گا :

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعۡضَ مَا يُوۡحٰٓى اِلَيۡكَ وَضَآٮِٕقٌۢ بِهٖ صَدۡرُكَ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡهِ كَنۡزٌ اَوۡ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌ‌ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ نَذِيۡرٌ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ وَّكِيۡلٌؕ‏

بھلا کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس میں سے کچھ چھوڑ دیں جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے اور اس سے آپ کا سینہء (اَطہر) تنگ ہونے لگے (اس خیال سے) کہ کفار یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا، (ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اے رسولِ معظم!) آپ تو صرف ڈر سنانے والے ہیں (کسی کو دنیوی لالچ یا سزا دینے والے نہیں)، اور اﷲ ہر چیز پر نگہبان ہے


سورۃ ھود، ۱۲

وَقَالُوۡا لَوۡلَا نُزِّلَ عَلَيۡهِ اٰيَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖ‌ؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰٓى اَنۡ يُّنَزِّلَ اٰيَةً وَّلٰ۔كِنَّ اَكۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏

اور انہوں نے کہا کہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پراس کے رب کی طرف سے (ہروقت ساتھ رہنے والی) کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ فرما دیجئے: بیشک اﷲ اس بات پر (بھی) قادر ہے کہ وہ (ایسی) کوئی نشانی اتار دے لیکن ان میں سے اکثر لوگ (اس کی حکمتوں کو) نہیں جانتے


سورۃ الانعام، ۳۷


وَاِنۡ كَانَ كَبُرَ عَلَيۡكَ اِعۡرَاضُهُمۡ فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِىَ نَفَقًا فِىۡ الۡاَرۡضِ اَوۡ سُلَّمًا فِىۡ السَّمَآءِ فَتَاۡتِيَهُمۡ بِاٰيَةٍ‌ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمۡ عَلَى الۡهُدٰى فَلَا تَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡجٰهِلِيۡنَ‏

اور اگر آپ پر ان کی رُوگردانی شاق گزر رہی ہے (اور آپ بہر صورت ان کے ایمان لانے کے خواہش مند ہیں) تو اگر آپ سے (یہ) ہو سکے کہ زمین میں (اترنے والی) کوئی سرنگ یا آسمان میں (چڑھنے والی) کوئی سیڑھی تلاش کرلیں پھر (انہیں دکھانے کے لیے) ان کے پاس کوئی (خاص) نشانی لے آئیں (وہ تب بھی ایمان نہیں لائیں گے)، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان کو ہدایت پر ضرور جمع فرما دیتا پس آپ (اپنی رحمت و شفقت کے بے پایاں جوش کے باعث ان کی بدبختی سے) بے خبر نہ ہوجائیں


سورۃ الانعام، ۳۵


یعنی خدا کبھی ایسے کام انجام نہیں دیگا اس کے کام لوگوں کی خواہشات کے تابع نہیں ہوتے اور آپ بھی اس طرح کے کام انجام نہیں دیں گے اور دے بھی نہیں سکتے۔کیونکہ خدا اس کی اجازت نہیں دے گا۔(پھر بھی ) اگر انجام دے سکتے ہوں تو انجام دیجئے ۔

لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّ۔فۡسَكَ اَلَّا يَكُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِيۡنَ‏

(اے حبیبِ مکرّم!) شاید آپ (اس غم میں) اپنی جانِ (عزیز) ہی دے بیٹھیں گے کہ وہ ایمان نہیں لاتے

اِنۡ نَّشَاۡ نُنَزِّلۡ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ اٰيَةً فَظَلَّتۡ اَعۡنَاقُهُمۡ لَهَا خٰضِعِيۡنَ‏

اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے (ایسی) نشانی اتار دیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھکی رہ جائیں

وَمَا يَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ ذِكۡرٍ مِّنَ الرَّحۡمٰنِ مُحۡدَثٍ اِلَّا كَانُوۡا عَنۡهُ مُعۡرِضِيۡنَ‏

اور ان کے پاس (خدائے) رحمان کی جانب سے کوئی نئی نصیحت نہیں آتی مگر وہ اس سے رُوگرداں ہو جاتے ہیں


سورۃ الشعراء ۳-۵


کبھی کبھی وحی نازل ہوئے کئی دن ہوجایا کرتے تھے اس وقت منافقین یا کفّار کہا کرتے تھے کہ ان کا جبرئیل کہاں ہے ؟کوئی آیت کیوں نازل نہیں ہوتی ؟کبھی کبھی توہین آمیز الفاظ استعمال کیا کرتے مذاق اڑاتے

خدائے رب العزت ارشاد فرماتا ہے

وَاِذَا لَمۡ تَاۡتِهِمۡ بِاٰيَةٍ قَالُوۡا لَوۡلَا اجۡتَبَيۡتَهَا‌ؕ قُلۡ اِنَّمَاۤ اَتَّبِعُ مَا يُوۡحٰٓى اِلَىَّ مِنۡ رَّبِّىۡ‌ۚ هٰذَا بَصَآٮِٕرُ مِنۡ رَّبِّكُمۡ وَهُدًى وَرَحۡمَةٌ لِّقَوۡمٍ يُّؤۡمِنُوۡنَ‏

اور جب آپ ان کے پاس کوئی نشانی نہیں لاتے (تو) وہ کہتے ہیں کہ آپ اسے اپنی طرف سے وضع کر کے کیوں نہیں لائے؟ فرما دیں: میں تو محض اس (حکم) کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف وحی کیا جاتا ہے یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے دلائل قطعیہ (کا مجموعہ) ہے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں


سورۃ الاعراف، ۲۰۳

؏‎2‌وَيَقُوۡلُوۡنَ لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡهِ اٰيَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖ‌ۚ فَقُلۡ اِنَّمَا الۡغَيۡبُ لِلّٰهِ فَانتَظِرُوۡا‌ ۚ اِنِّىۡ مَعَكُمۡ مِّنَ الۡمُنۡتَظِرِيۡنَ‏

اور وہ (اب اسی مہلت کی وجہ سے) کہتے ہیں کہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے رب کی طرف سے کوئی (فیصلہ کن) نشانی کیوں نازل نہیں کی گئی، آپ فرما دیجئے: غیب تو محض اللہ ہی کے لئے ہے، سو تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں


سورۃ یونس، ۲۰

راہ اور رہنما کی پہچان

http://magazine.mohaddis.com/shumara/278-apr-1988/3086-mujza

(22) نبی کریم ﷺ کے معجزات | اردو فتویٰ

مندرجہ بالا آیات قرآنی کے مطالعہ سے واضح ہے کہ معجزات اللہ تعالیٰ کے حکم سے انبیاء اور رسل پر عنایت فرمائے جاتے رہے ہیں اور یہ انبیاء اور رسل علیہم السلام کے لئے ہی مخصوص رہے ہیں تو اس بات کا کہاں ثبوت ملتا ہے کہ معجزات کا علم منتقل ہوا ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی بھی خدا جب چاہتا تھا نازل فرماتا تھا۔ تو سوال وہی آجاتا ہے کہ پھر معجزات نبوی کا کونسا علم ہے جو منتقل ہو گیا ہے اس امت کے علماء میں؟ یہ عقائد میں سے بہت ہی بنیادی نظریہ ہے اور اس میں جھول کی گنجائش نکلتی ہی نہیں ہے۔


علمِ لوح محفوظ؟؟؟؟ اسی کا انتظار تھا کہ آپ کب اس طرف آتے ہیں۔

قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّ۔هِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ ﴿٣٨﴾ يَمْحُو اللَّ۔هُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ الخ رعد38،39 پارہ 13
(ترجمہ :ہم تجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا ،کسی رسول سے نہیں ہو سکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لئے آئے ،ہر مقرر وعدے کی ایک لکھت ہے ،اللہ جو چاہے نابود کردے اور جو چاہے ثابت رکھے ،لوح محفوظ اسی کے پاس ہے )


پھر یہ کونسا لوح محفوظ کا علم ہے جو علماء کو حاصل ہے جبکہ قرآن میں خدائے رب العزت واضح طور پر فرما رہے ہیں کہ لوحِ محفوظ اسی کے پاس ہے؟

اس بحث کے بعد یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ معجزات صرف انبیاء اور رسل کے لئے مخصوص رہے ہیں۔ تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کیسے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ علماء کے پاس ان معجزات کا علم منتقل ہوا ہے؟ اور سب سے بڑی بات لوحِ محفوظ کا علم جس کے بارے میں صاف صاف ارشاد ہوا ہے کہ اللہ رب العزت کے پاس ہے؟

کیا آپ کو محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ جب انبیاء اور رسل کے لئے مخصوص چیزیں دوسروں کو بھی حاصل ہونے لگ جائیں تو پھر انبیاء رسل اور علماء میں فرق نعوذباللہ کیا رہ گیا؟؟؟ پھر آپ کہتے ہیں کہ اس خطے کے مسلمانوں کی کوئی غلطیاں نہیں ہیں جس کی وجہ سے قادیانیت نے سر ابھارا!!! مرزا قادیانی سے مناظروں میں معجزہ دکھانے پر اصرار کیا جاتا تھا اور آپ کہتے ہیں علماء کے پاس معجزات کا علم ہے؟؟؟
 

فہد مقصود

محفلین
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

آپ ایک انتہائی نازک مذہبی معاملے کو مذاق میں ٹآلنا چاہ رہے ہیں۔ آپ کے لئے یہ سب ہنسی مذاق ہے؟؟؟

استغفراللہ العظیم۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

آپ کے مراسلے کا جواب لکھنے کے بعد اسی دھاگے میں آپ کے مراسلوں کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ تو "اعلیٰ حضرت" کے عقیدتمند ہیں تو یقین جانئے ساری حیرت جاتی رہی!!! آپ کا رویہ آپ اور آپ کے ہم فرقہ ساتھیوں کی اپنے فرقہ کی ہر غلط بات کو درست ماننے کی عادت کو بہت اچھی طرح واضح کر رہا ہے۔

آپ کے لئے دعاگو ہوں کہ آپ میں مذہب کو فرقہ پرستی پر فوقیت دینے کی صلاحیت پیدا ہو اور اتنی ہمت بھی پیدا ہو کہ اپنے فرقہ کی اسلام مخالف باتوں کو رد کر سکیں۔
 
فہد مقصود آپ کے مراسلے مسلسل ایک فرقہ کی تحقیر و تضحیک سے بھرے ہوئے ہیں۔ اپنا پیغام شائستگی سے بھی دیا جا سکتا ہے۔
محفل کو فرقہ ورانہ مباحث کی جگہ نہ بنائیں۔ یہ مناظروں کی جگہ نہیں۔

اس لڑی پر جتنی گفتگو ہونی تھی ہو چکی۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top