سید رافع
محفلین
علمِ لدنی اعلیٰ حضرت یا اور اولیاء کو عنایت فرمایا جاتا رہا ہے
حدیث بخاری ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اس حدیث میں غور طلب الفاظ، نبی، وارث اور عالم ہیں۔ نبی غیب کی خبر دینے والے کو کہتے ہیں۔ وارث اسے کہتے ہیں جو کہ اصلی مالک کی چھوڑی ہوئی متعاع سے اپنی قربت کے لحاظ سے کم یا زیادہ حصہ پاتا ہے۔ یہ کم و زیادہ علم کا لحاظ قرآن میں اس طرح واضح کیا گیا 12:76 اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔ یعنی صاحبان علم درجہ بہ درجہ ایک کے اوپر ایک ہیں۔ جہاں تک علم کی بات ہے نبی دیگر علوم کے علاوہ خاص کر تلاوت، آیات، تزکیہ، حکمت اور غیب کا علم بتانے میں ممتاز ہوتے ہیں۔ جیسا کہ طریقہ رسول ﷺ کے بارے میں فرمایا 2:129 اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔چنانچہ رسول پر جو غیب کھولا گیا وہ بھی علم عالم کو وراثت میں ملتا ہے۔ یا جس حکمت سے رسول آراستہ ہیں اسکا کوئی حصہ وراثت میں عالم کو ملتا ہے۔ یا تزکیہ کرنے کے طریقے عالم کو وراثت میں ملتے ہیں۔ یا آیات کی تفصیل یا ان سے نکلنے والے احکام کا علم عالم کو وراثت میں ملتا ہے۔ یا کم از کم آیات کی صحیح تلاوت کرنا بھی ایک انسان کو عالم بناتی ہے۔ ایک اور جگہ سنت رسول ﷺ کو واضح کیا 2:151 اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اَسرارِ معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔ یا اسی طرح ایک اور مقام پر رسول ﷺ کا امتی سے تعلق بیان فرمایا کہ 62:2 وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
اور بالکل سب مسلمانوں کو ان باتوں پر عمل کرنا چاہئے اور اکثر کرتے بھی ہیں لیکن علم لدنی کی تو آپ نے ہی بات چھیڑی ہے اور آپ ہی علم لدنی کی طرف دعوت دے رہے ہیں جبکہ میری کوشش ہے کہ علم لدنی کی شرعی حیثیت شرکاء محفل کو معلوم ہو جائے کیونکہ ذکر تو آپ نے اب کر ہی دیا ہے!!! شرکاء محفل کی کیوں نا توجہ ادھر ہی رہنے دیں!!!
یہ یاد رہے کہ اللہ کسی خاص ضرورت کے تحت اس غیب کا کچھ حصہ کسی رسول پر کھولتا ہے تاکہ اللہ کی طرف ہدایت کرنے میں رسول کے معاون ہو۔ 3:179 اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے چن لیتا ہے۔ پچھلی قوموں کے حالات ہوں یا دور دراز مقامات کی خبر ہو یہ وحی کے ذریعے اس رسول پر کھولی جاتیں ہیں۔ یہی علم رسول قربت کے لحاظ سے عالم کا ورثہ بن جاتی ہیں۔ جو رسول کے جتنا قریب ہو گا وہی ورثے میں سب سے زیادہ حصہ پائے گا۔ یہ قربت، بدنی قربت سے زیادہ باطنی پاکیزگی کی قربت ہے۔ اویس قرنی دور ہونے کے باوجود علم رسول کا وہ حصہ پاتے رہے جو مدینے کے بدوی پاس ہونے کے باوجود نہ پا سکے۔ 49:14 بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے ہیں، کہہ دو تم ایمان نہیں لائے لیکن تم کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اورابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ پاکیزگی میں سب سے بڑھ کر اہلبیت ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے علم رسول ﷺ سے پورا پورا حصہ حاصل کیا۔ 34:33 بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسولﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ آل رسول ﷺ زکوۃ و صدقہ نہیں استعمال کرتی بلکہ انکا حصہ خمس کا پانچواں ہے۔ حدیث مسلم ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کو نیچا کیا، اور فرمایا: ”یہ صدقہ تو لوگوں (کے مال) کا میل (کچیل) ہے، اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل (و اولاد) کے لیے حلال نہیں ہے، (یعنی بنو ہاشم کے لیے صدقہ لینا درست نہیں ہے)"۔ بلکہ اہل بیت کی پاکیزگی اور علم رسول ﷺ سے اسکا تعلق مذید واضح کرنے کے لیے فرمایا 34:33 اور تم اللہ کی آیتوں کو اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) سنت و حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے۔
81:24 اور وہ (حبیبِ مکرّم ﷺ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں۔ اسی صحبت رسول ﷺ کی وجہ سے اہل بیت اور صحابہ میں علم رسول ﷺ کی وراثت منتقل ہوئی اور سنت رسول ﷺ کو جاری رکھنے کے لیے یہ سلسلہ آج تک امت میں بغیر کسی بخل کے جاری و ساری ہے۔ کیونکہ علم رسول ﷺ کی میراث پانے کا واحد طریقہ پاکیزگی ہے اسی لیے امت میں روحانی سلسلے جاری ہوئے جو گئے گزرے دور میں امت کا تزکیہ فرماتے ہیں۔ عام مومنین کے تزکیے پر صبر کی وجہ سے ان پرحق القاء ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً دور قریب کے لوگوں کی اچھی بری نیت، تحریر اور کلام میں کجی یا حق ہونا۔ 34:48 فرما دیجئے: میرا رب حق کا القاء فرماتا ہے سب غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔ جیسے سابقہ امتوں میں اللہ کی سنت احکام کے بارے میں امت محمدیہ ﷺ سے کچھ کچھ مختلف تھی اسی طرح علم لدنی، علم نیت یا علم غیب کی تقسیم کی سنت بھی خضر علیہ السلام یا دور کے نبی کے بجائے علماء محمدیہ ﷺکی ذمہ داری بنی۔ فرمایا کہ 2:106 ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں۔ آیت نشانی کو کہتے ہیں۔ جناب خضر علیہ السلام بھی اللہ کی ایک نشانی ہی ہیں اور اب اس سے بہتر نشانی یہ ہے کہ امت محمدیہ ﷺ کے علماء علم لدنی سے آراستہ ہیں۔ جیسا کہ فرمایا 48:23 (یہ) اﷲ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے، اور آپ اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ 17:77 اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ اور فرمایا 17:77 اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ 33:62 اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ یہ یاد رہے کہ عالم رجس سے پاک ہو۔ طاہر و مطہر ہو۔ اور ان کاموں میں مشغول ہو کہ جس کی تعلیم رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی۔ 3:164 بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
اسی قرینے سے کہ 33:62 اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ اور یہ کہ 4:113 اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جوآپ نہیں جانتے تھے۔ سابقہ انبیاء علیہ السلام کے علوم بھی امت محمدیہ ﷺ کے علماء میں منتقل ہو گئے۔ مثلاً حکومت و حکمت داود علیہ السلام۔ 2:251 اور اﷲ نے ان کو (یعنی داؤد علیہ السلام کو) حکومت اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں جو چاہا سکھایا۔ سیدنا عیسی علیہ السلام کی کتاب و حکمت کا علم اور تورات و انجیل علم بھی امت کے علماء وارثین کے پاس محفوظ ہے۔ 3:48 اور اﷲ اسے (عیسیٰ علیہ السلام) کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل (سب کچھ) سکھائے گا۔ اور فرمایا 5:110 اور جب میں نے تمہیں (عیسیٰ علیہ السلام) کتاب اور حکمت (و دانائی) اور تورات اور انجیل سکھائی۔ پھر یہی نہیں کہ سابقہ انبیاء کو جو علم دیا گیا تھا وہ آپ ﷺ کے ذریعے امت کے علماء میں منتقل ہوا بلکہ الگ سے بھی آپ کو کتاب و حکمت دی گئی۔ 4:113 اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے۔ یہ سب کا سب امت محمدیہ ﷺ کے علماء میں منتقل ہوا بسبب 81:24 اور وہ (حبیبِ مکرّم ﷺ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں۔ اور امت محمدیہ ﷺ کے علماء وارثین میں باتوں کے انجام تک پہنچنے کا علم منتقل ہوا۔ فرمایا 12:6 اورتمہیں (یوسف علیہ السلام) باتوں کے انجام تک پہنچنا سکھائے گا۔ اور فرمایا 12:21 ہم اسے (یوسف علیہ السلام) باتوں کے انجام تک پہنچنا سکھائیں۔
اللہ نے انسان کو طرح طرح سے سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ 96:5 جس نے انسان کو وہ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ لیکن طرح طرح کے لطیف علوم رجس سے پاک علماء کو ورثے میں ملے۔ 34:33 بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسولﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔ مثلاً انہی علماء وارثین کو علم تعبیر معلوم ہے۔ 12:22 اسے (یوسف علیہ السلام کو) حکمِ (نبوت) اور علمِ (تعبیر) عطا فرمایا۔ اور اس علم و حکمت سے بھی آراستہ ہیں جس سے آل ابراہیم علیہ آراستہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نماز میں آل محمد ﷺ کے علاوہ آل ابراہیم علیہ السلام پر بھی درود پڑھا جاتا ہے۔ کیونکہ آل ابراہیم کے علوم تک درود پہنچنا دراصل آل محمد ﷺ کے علوم تک درود پہنچنا ہے۔
ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اے ﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔
اے ﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔
اور مذید علوم جو علماء وارثین تک پہنچے وہ یہ ہیں۔ 21:74 اور لوط (علیہ السلام) کو (بھی) ہم نے حکمت اور علم سے نوازا تھا ۔ اور 21:79 چنانچہ ہم ہی نے سلیمان (علیہ السلام) کو وہ (فیصلہ کرنے کا طریقہ) سکھایا تھا اور ہم نے ان سب کو حکمت اور علم سے نوازا تھا اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد (علیہ السلام) کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے۔ اور 27:15 اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو (غیر معمولی) علم عطا کیا۔ اور 44:32 اور بیشک ہم نے ان (بنی اسرائیل) کو علم کی بنا پر ساری دنیا (کی معاصر تہذیبوں) پر چُن لیا تھا۔ اور 18:65 اور اپنی طرف سے ایک خاص علم (خضر علیہ السلام کو) عطا کیا تھا۔ اور 12:68 بیشک یعقوب (علیہ السلام) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا۔
12:101 اور مجھ (یوسف علیہ السلام) کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا۔ اور 21:80 اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو تمہارے لئے زِرہ بنانے کا فن سکھایا۔ اور 27:16 اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے۔ اور 2:102 اس (جادو کے علم) کے پیچھے (بھی) لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت (نامی) دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا۔ اور 2:247 بیشک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے۔ اور 3:18 اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے۔ اور 28:14 اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِّ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوّت) اور علم و دانش سے نوازا۔ یا مومن دربار سلیمان علیہ السلام کا علم ہو۔ 27:40 (پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)۔ ایک علم لوح محفوظ میں بھی ہے 35:11 اور اﷲ ہی نے تمہیں مٹی (یعنی غیر نامی مادّہ) سے پیدا فرمایا پھر ایک تولیدی قطرہ سے، پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنایا، اور کوئی مادّہ حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر اس کے علم سے، اور نہ کسی دراز عمرشخص کی عمر بڑھائی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (یہ سب کچھ) لوحِ (محفوظ) میں ہے، بیشک یہ اﷲ پر بہت آسان ہے۔ علماء وارثین کا اصل مقصد حقیقی سیدھی راہ دکھانا ہوتا ہے۔ 19:43 اے ابّا! (یعنی چچا ابراہیم علیہ السلام آزر) بیشک میرے پاس (بارگاہِ الٰہی سے) وہ علم آچکا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا تم میری پیروی کرو میں تمہیں سیدھی راہ دکھاؤں گا۔
میں صحیح سمجھا تھا آپ نے لیکچر سنا ہی نہیں ہے یا پھر سن لیا ہے تو توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ لیکچر میں بالکل الگ باتیں ہیں!!! ایسی بھی کیا ضد ہے سن لیجئے، کر لیتے ہیں اس پر بھی بات چیت کیا ہو جائے گا اگر کر لی گئی تو؟؟؟؟
میں نے آپ کو کئی بار عطا اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب پڑھنے کی دعوت دی ہے لیکن لگتا ہے کہ آپ مخالف مکتبہ فکر کی کتب پڑھنے میں بالکل بھی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں!!! میں آپ کو ایک بار پھر دعوت دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اس بار اس طرف توجہ دینے کی کوشش کریں گے!!!
عطاء اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب کا مطالعہ
اس کے علاوہ اس کتاب کا مطالعہ بھی ضرور فرمائیے گا
شریعت و طریقت | Shariat wa Tariqat | کتاب و سنت
میں جیسے موقعہ ملتا ہے لیکچر، کتاب اور آپکا مراسلہ پڑھتا ہوں۔
لیکن جیسے رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے لوگ منکر ہوئے، اسی طرح علماء وارثین کے علم کے بھی لوگ منکر ہوئے۔ حالانکہ اللہ پاک ہے اور وہ لوگوں کو پاک کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اسکو پہچانیں۔ 5:6 اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ اور بعض کو اللہ نے خود ہی پاک کر دیا تاکہ وہ تزکیے کا کام سرانجام دیں اور دوسروں کو پاک کریں۔ یہ ہیں اہل بیت اور آل رسول ﷺ۔ 34:33 بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسولﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔
لیکن شک کرنے والے شک ہی کریں گے۔ 13:43 اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ آپ پیغمبر نہیں ہیں، فرما دیجئے: (میری رسالت پر) میرے اور تمہارے درمیان اﷲ بطورِ گواہ کافی ہے اور وہ شخص بھی جس کے پاس (صحیح طور پر آسمانی) کتاب کا علم ہے۔ علم تو واضح ہے اس سے ہٹ کر حسد یا دل کی جلن ہے۔ 3:19 علم آجانے کے بعد اختلاف کیا وہ صرف باہمی حسد و عناد کے باعث تھا۔ یا پھر اپنے گمان میں لگے ہیں۔ 4:157 انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کرتے ہیں)۔ پھر اسی پر بس نہیں کہ خود ہی شک میں رہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمان اور شک کا عادی بناتے ہیں۔ 6:119 بیشک بہت سے لوگ بغیر (پختہ) علم کے اپنی خواہشات (اور من گھڑت تصورات) کے ذریعے (لوگوں کو) بہکاتے رہتے ہیں۔ اور لوگوں میں سے بعض ایسے نرے لاعلم ہیں جن کے بارے میں کہا گیا 6:140 جنہوں نے اپنی اولاد کو بغیر علمِ (صحیح) کے (محض) بیوقوفی سے قتل کر ڈالا۔
اللہ کے بارے میں حجت قرآن اور احادیث رسول ﷺ ہی ہیں۔ چنانچہ ان سے کہنا چاہیے 6:148 کیا تمہارے پاس کوئی (قابلِ حجت) علم ہے کہ تم اسے ہمارے لئے نکال لاؤ (تو اسے پیش کرو)، تم (علمِ یقینی کو چھوڑ کر) صرف گمان ہی کی پیروی کرتے ہو اور تم محض (تخمینہ کی بنیاد پر) دروغ گوئی کرتے ہو۔ زندگی کا اصل مقصد یاد دلانا چاہیے کہ علم سے اللہ کے نزدیک ہوں 10:39 بلکہ یہ اس (کلامِ الٰہی) کو جھٹلا رہے ہیں جس کے علم کا وہ احاطہ بھی نہیں کرسکے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء وارثین اپنی پوری ہمت کے ساتھ کفر کا مقابلہ کرتے ہیں۔ 13:37 اور (اے سننے والے!) اگر تو نے ان (کافروں) کی خواہشات کی پیروی کی اس کے بعد کہ تیرے پاس (قطعی) علم آچکا ہے تو تیرے لئے اﷲ کے مقابلہ میں نہ کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی محافظ۔ اللہ بے علمی سے محفوظ فرمائے۔ 16:25 جنہیں بےعلمی سے گمراہ کرتے رہے۔ اللہ ہر قسم کی رسوائی و بربادی سے بچائے اور اپنی پناہ میں رکھے۔ 16:27 وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے کہیں گے: بیشک آج کافروں پر (ہر قسم کی) رسوائی اور بربادی ہے۔اللہ ہم اس چیز کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کا ہمیں ٹھیک ٹھیک علم کسی عالم وارثین سے ہوا ہو۔ 17:36 اور (اے انسان!) تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے (صحیح) علم نہیں، بیشک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔ اس عمر سے قبل علماء وارثین کی صحبت عطا فرما کہ جب کہ ناجانیں سب کچھ جاننے کے باوجود۔ 16:70 بعض لوگوں کو اتنی بدترین عمر تک پلٹا دیا جاتا ہے کہ علم کے بعد بھی کچھ جاننے کے قابل نہ رہ جائیں۔
بعض باپ دادا کے مذہب سے آزاد تو بالکل ہی لاعلمی کے مقام سے بات کریں گے۔ 18:5 نہ اس کا کوئی علم انہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ اور کچھ شیاطین کی پیروی میں لگے ہوتے ہیں جن کا تعلق انسانوں سے ہوتا ہے۔ 22:3 اور کچھ لوگ (ایسے) ہیں جو اﷲ کے بارے میں بغیر علم و دانش کے جھگڑا کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ اور فرمایا 22:54 اور تاکہ وہ لوگ جنہیں علم (صحیح) عطا کیا گیا ہے جان لیں کہ وہی (وحی جس کی پیغمبر نے تلاوت کی ہے) آپ کے رب کی طرف سے (مَبنی) برحق ہے سو وہ اسی پر ایمان لائیں (اور شیطانی وسوسوں کو ردّ کردیں) 26:112 اور ان کے دل اس (رب) کے لئے عاجزی کریں، اور بیشک اﷲ مومنوں کو ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرمانے والا ہے۔ اللہ سے متعلق گفتگو کا اصل ادب تو یہی ہے کہ جو اس نے اپنے بارے میں بیان کیا ویسا ہی بیان کر دیا جائے۔ سو فرمایا 22:8 اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اﷲ (کی ذات و صفات اور قدرتوں) کے بارے میں جھگڑا کرتے رہتے ہیں بغیر علم و دانش کے اور بغیر کسی ہدایت و دلیل کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے (جو آسمان سے اتری ہو)۔
یقیناً ان آیاتِ قرآنی کے مطالعہ سے یہ واضح ہو گیا ہوگا کہ اللہ رب العزت کے نزدیک عقل کا استعمال کتنا اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اسلام میں صرف اندھی تقلید اور عقل کا استعمال کیے بغیر ہی مذہب کی جانب متوجہ کرنا مقصود ہوتا تو یہ دینِ فطرت نہ ہوتا بلکہ ایک cult ہوتا!!! اور الحمدللہ ہمارا مذہب کلٹ نہیں ہے جہاں انسانی دماغ کو بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے!!! رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار مسلسل سوالات کرتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سوالات کے جوابات دیتے تھے!!! عقل استعمال کرنے سے وہاں روکا جاتا ہے جہاں افکار کے کمزور ہونے کا ڈر ہو اور نتیجتاً ان کو چیلنج اور رد کیے جانے کے کئی امکانات موجود ہوں لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہے!!!
یہ علم کا معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ علم علماء وارثین سے حاصل کریں جو پاک ہیں اور آپ کو بھی پاک کردیں گے۔ کیونکہ لوگوں میں سے بعض فرقہ بندی کرتے ہیں۔ 42:14 اور انہوں نے فرقہ بندی نہیں کی تھی مگر اِس کے بعد جبکہ اُن کے پاس علم آچکا تھا محض آپس کی ضِد (اور ہٹ دھرمی) کی وجہ سے۔نفسانی خواہش بھی علماء وارثین تک پہچنے سے روکتی ہے۔ 30:29 بلکہ جن لوگوں نے ظلم کیا ہے وہ بغیر علم (و ہدایت) کے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ اور 29:8 جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر۔ اور 31:15 جس (کی حقیقت) کا تجھے کچھ علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کرنا۔اور 31:20 اور لوگوں میں کچھ ایسے (بھی) ہیں جو اﷲ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب (کی دلیل) کے۔
بعض لوگ جیسے کہ رسول ﷺ تک پہنچتے لیکن بات نہ سنتے اسی طرح بہت سے علماء وارثین تک بھی پہنچیں گے 47:16 اور ان میں سے بعض وہ لوگ بھی ہیں جو آپ کی طرف (دل اور دھیان لگائے بغیر) صرف کان لگائے سنتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ آپ کے پاس سے نکل کر (باہر) جاتے ہیں تو ان لوگوں سے پوچھتے ہیں۔ جنہیں علمِ (نافع) عطا کیا گیا ہے کہ ابھی انہوں نے (یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) کیا فرمایا تھا؟ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور فرمایا 45:17 مگر اس کے بعد کہ اُن کے پاس (بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا) علم آچکا انہوں نے (اس سے) اختلاف کیا محض باہمی حسد و عداوت کے باعث۔ اور فرمایا 45:23 کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے اسے علم کے باوجود گمراہ ٹھہرا دیا ہے اور اس کے کان اور اس کے دل پر مُہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے، پھر اُسے اللہ کے بعد کون ہدایت کر سکتا ہے، سو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے۔ اور فرمایا 53:28 اور انہیں اِس کا کچھ بھی علم نہیں ہے، وہ صرف گمان کے پیچھے چلتے ہیں، اور بیشک گمان یقین کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا۔ اور فرمایا 53:30 اُن لوگوں کے علم کی رسائی کی یہی حد ہے، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اُس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جِس نے ہدایت پا لی ہے۔
کچھ اپنے علم و فن پر اترانے کی وجہ سے علم رسول ﷺ سے محروم رہیں گے۔ 40:83 پھر جب اُن کے پیغمبر اُن کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تو اُن کے پاس جو (دنیاوی) علم و فن تھا وہ اس پر اِتراتے رہے۔ بعض اپنی ہی تدبیر میں گم ہوتے ہیں۔ 39:49 پھر جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت بخش دیتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ یہ نعمت تو مجھے (میرے) علم و تدبیر (کی بنا) پر ملی ہے، بلکہ یہ آزمائش ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ بعض اپنے غلط عمل کو بھی اللہ ہی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ 43:20 اور وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمان چاہتا تو ہم اِن (بتوں) کی پرستش نہ کرتے، انہیں اِس کا (بھی) کچھ علم نہیں ہے وہ محض اَٹکل سے جھوٹی باتیں کرتے ہیں۔ اور فرمایا 10:93 انہوں نے کوئی اختلاف نہ کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم و دانش آپہنچی۔ بیشک آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان امور کا فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کفر سے ہر لمحہ مقابلے پر رہنا چاہیے تاکہ لا علمی سے بچیں۔ 40:42 تم مجھے (یہ) دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہراؤں جس کا مجھے کچھ علم بھی نہیں۔ اور لاعلمی سے بچنے کی کنجی قرآن ہے۔ 7:52 اور بیشک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل (یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔
میں بہت گنہگار انسان ہوں اور مجھے قصیدہ خوانی سے نفرت ہے اور وہ بھی اپنے لئے کیونکہ اپنے آپ کو جب میں نے کچھ سمجھنا شروع کر دیا اور وہ بھی اللہ کے جلیل القدر نبی علیہ السلام جیسا تو پھر ایمانداری کے ساتھ سیکھنے اور سمجھنے کا کام کرنا ختم کر بیٹھوں گا کیونکہ میں اپنے آپ کو بہتوں سے بہتر سمجھنا شروع کر دوں گا اور بہتری پیدا کرنے کی گنجائش میرے لئے ضروری نہیں رہے گی۔
حدیث مشکوۃ شریف ہے کہ ہر انسان خطا کار ہے اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ لیکن یہاں تو خطا بھی نہیں ہوئی۔ محض سفر موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے علم لدنی میں کچھ مماثلت پائی گئی تو برکت کے لیے بیان کر دی گئی۔ اور انہی کی نقل میں ایک سفر تجویز کر دیا گیا۔ کچھ تو عقل سے کام لیں۔ کچھ تو عدل الہی سے آراستہ ہوں۔ آپ کا مقام اس نے اپنا خلیفہ تجویز کیا ہے۔ یہ سنت موسوی علیہ السلام کا سنت محمدیہ ﷺ کی طریق پر احیاء ہے۔ اس پر نہیں شرمانا چاہیے۔ اللہ اس سے بہت بلند اور پاک ہے۔ انکساری کچھ اور شئے ہے۔ یہ قصیدہ خوانی تھوڑی آپ اپنی ہمت بلند کرنے کے لیے ایک سفر کر رہے ہیں۔ لامحدود ذات میں منہمک لوگوں پر خود بخود نا جاننے کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ آپ مواحد بنیں۔ لوگوں کا خیال چنداں دل میں نہ لائیں۔
کل علم اللہ ہی کو ہے۔ چنانچہ علماء وارثین بھی یہی کہیں گے۔ 2:32 ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے۔ اور 3:7 اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ اور 6:80 میرے رب نے ہر چیز کو (اپنے) علم سے احاطہ میں لے رکھا ہے۔ اور وہ بتائیں گے کہ 7:89 ہمارا رب اَز روئے علم ہر چیز پر محیط ہے۔ اور کہیں گے کہ 11:14 تو سمجھ لو کہ وہ اللہ کے علم ہی سے اترا ہے۔ کل علم اللہ ہی کو سزاوار ہے۔ 11:46 پس (اے نوح علیہ السلام) مجھ سے وہ سوال نہ کیا کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ اور نوح علیہ السلام نے فرمایا 11:47 (نوح علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ سوال کروں جس کا مجھے کچھ علم نہ ہو۔ یا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ 20:52 (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: ان کا علم میرے رب کے پاس کتاب میں (محفوظ) ہے۔ اور علماء وارثین بھی کہیں گے 17:85 فرما دیجئے: روح میرے رب کے اَمر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ اور یہ علماء بھی سنت رسول ﷺ کی اطاعت میں بالکل یکسو ہو کر علم کے حصول و فروغ میں لگے ہوتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسا کہ نوح علیہ السلام نے اپنے علم کی بابت فرمایا۔ (نوح علیہ السلام نے) فرمایا: میرے علم کو ان کے (پیشہ وارانہ) کاموں سے کیا سروکار۔ اللہ کی رحمت و علم احاطہ کیے ہوئے ہے۔ 40:7 اے ہمارے رب! تو (اپنی) رحمت اور علم سے ہر شے کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے۔ وہ کہیں گے کہ 34:6 اور ایسے لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جو (کتاب) آپ کے رب کی طرف سے آپ کی جانب اتاری گئی ہے وہی حق ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ انہیں صحیح علم دیا گیا ہے۔ 29:49 بلکہ وہ (قرآن ہی کی) واضح آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں (محفوظ) ہیں جنہیں (صحیح) علم عطا کیا گیا ہے۔ لیکن انکو کوئی علم ازخود حاصل نہیں ہے۔ 38:69 مجھے تو (اَزخود) عالمِ بالا کی جماعتِ (ملائکہ) کی کوئی خبر نہ تھی جب وہ (تخلیقِ آدم کے بارے میں) بحث و تمحیص کر رہے تھے۔ علم کی پختگی ہی یہی ہے کہ ایمان سے مزین رہا جائے۔ اس کل علم کے غیب ہونے اور اس پر ایمان رکھنا ہی اصل علم ہے۔ اسی لیے فرمایا 4:162 ان میں سے پختہ علم والے اور مومن لوگ اس (وحی) پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے۔ اور اس (وحی) پر جو آپ سے پہلے نازل کی گئی (برابر) ایمان لاتے ہیں۔ ایمان اسی چیز پر لایا جاتا ہے جہاں حاصل علم تمام ہوجاتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ 27:84 تم (اپنے ناقص) علم سے انہیں کاملاً جان بھی نہیں سکے تھے۔ اورجھٹلانے والوں سے فرمایا کہ 27:84 یہاں تک کہ جب وہ سب (مقامِ حساب پر) آپہنچیں گے تو ارشاد ہوگا کیا تم (بغیر غور و فکر کے) میری آیتوں کو جھٹلاتے تھے حالانکہ تم (اپنے ناقص) علم سے انہیں کاملاً جان بھی نہیں سکے تھے یا (تم خود ہی بتاؤ) اس کے علاوہ اور کیا (سبب) تھا جو تم (حق کی تکذیب) کیا کرتے تھے۔ اور فرمایا 30:56 اور جنہیں علم اور ایمان سے نوازا گیا ہے (ان سے) کہیں گے: درحقیقت تم اﷲ کی کتاب میں (ایک گھڑی نہیں بلکہ) اٹھنے کے دن تک ٹھہرے رہے ہو، سو یہ ہے اٹھنے کا دن، لیکن تم جانتے ہی نہ تھے۔
اللہ ہی کو کل علم ہے اور وہ اس علم کو ضرورت کے لحاظ سے انسانوں پر نازل کرتا رہا ہے۔ 20:98 وہ ہر چیز کو (اپنے) علم کے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔ اور فرمایا 20:110 اور وہ (اپنے) علم سے اس (کے علم) کا احاطہ نہیں کرسکتے۔اللہ علم کے ذریعے ہمیں ایمان اور درجات میں بلندی عطا فرما۔ 58:11 اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا،۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمارا ایمان رکھ کہ تو ہی کل علم کا سزاوار ہے۔ 65:12 اور یہ کہ اللہ نے ہر چیز کا اپنے علم سے احاطہ فرما رکھا ہے۔ اور یہ کہ قیامت کا علم تجھے ہی ہے۔ 67:26 فرما دیجئے کہ (اُس کے وقت کا) علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ بلکہ انسانوں میں سب سے کامل رسول اللہ ﷺ یہ دعا کرتے ہیں کہ 20:114 اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے۔
دعا ہے کہ اللہ ہمارے علم میں اور کل مومنین و مومنات کے علم میں اضافہ فرمائے۔ آمین۔