حکمرانی کے دعوے داروں کا حال

دیکھتا جا۔۔ شرماتا جا!!

اسمیں شرمانے کی کیابات ہے
ارمی میں ملازمت کے لیے اسی طرح کے اپٹیٹیوٹ ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ اگر اس کے جوابات ملاحظہ کریں تو ایسے ہی جواب ملیں گے۔
تو کیا اس کا الزام ارمی کو دیا جائے۔ نہیں۔ بلکہ پاکستان کی تعلیمی حالت بری ہے جنگ میں رہتے رہتے
 

عمران ارشد

محفلین
اسمیں شرمانے کی کیابات ہے​
ن لیگ کے اور اس کے حامیوں کو شرم کے معاملے میں استثنٰی حاصل ہے۔۔

ارمی میں ملازمت کے لیے اسی طرح کے اپٹیٹیوٹ ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ اگر اس کے جوابات ملاحظہ کریں تو ایسے ہی جواب ملیں گے۔​
تو کیا اس کا الزام ارمی کو دیا جائے۔ نہیں۔ بلکہ پاکستان کی تعلیمی حالت بری ہے جنگ میں رہتے رہتے​

تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جاہلوں کو حق حکمرانی دے دیا جائے۔ یہ تو میڈیا کی وجہ سے اس بار عوام کو پتہ چل رہا ہے کیسے کیسے گوہر نایاب ہم پر حکومت کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔
 
ن لیگ کے اور اس کے حامیوں کو شرم کے معاملے میں استثنٰی حاصل ہے۔۔



تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جاہلوں کو حق حکمرانی دے دیا جائے۔ یہ تو میڈیا کی وجہ سے اس بار عوام کو پتہ چل رہا ہے کیسے کیسے گوہر نایاب ہم پر حکومت کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔
ایک ٹی وی پروگرام میں عاصمہ جہانگیر کہہ رہی تھی کہ ہر ایک کو اسمبلی میں آنے کا حق ہے۔ چاہے وہ گرا پڑا جاہل ہی کیوں نہ ہو۔:idontknow:
 

شمشاد

لائبریرین
اس سے زیادہ شرمانے کی بات اور کیا ہو گی کہ ایک مسلمان سے پوچھا جائے کہ دعائے قنوت کس نماز میں پڑھتے ہیں تو آگے سے جواب ملے شاید فجر کی نماز میں پڑھتے ہیں۔ اور چلے ہیں اسلامی جمہہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا رکن بننے۔
 

علی خان

محفلین

منصور مکرم

محفلین
اٹھارویں ترمیم کے بعد گریجویشن کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ تو اب ان پڑھ انسان بھی قومی اسمبلی کا رکن حتٰی کہ وزیراعظم بھی بن سکتا ہے۔ تو یہ ڈرامے بازی بالکل بے مقصد ہے۔
یار یہ بڑی زایدتی ہے اور بری بات ہے ،ایک بندے کو اپنا نام لکھنا نہیں آتا اور وہ وزیر بن جائے، یا اسکو انگریزی ،ردو پڑھنی نہیں آتی اور اسکو شوری میں بٹھا لیا جائے۔ یہ کونسا طریقہ ہے۔ کل کو گدھا بھی شوری کا ممبر بن جائے گا۔ تعلیم نا ہو تو ملک خاک چلائیں گے، خاک حکومت چلے گی، دوسرے ملکوں والے کیا کہیں گے۔ جس کو قران مجید کے پاروں کا علم نہیں،جو نماز کے اوقات نہیں جانتا، وہ ملکی کے مفاد کا کیا خیال رکھے گا۔ قسم سے دل خفاء ہوجاتا ہے ایسے قوانین دیکھ کر۔
 

منصور مکرم

محفلین
اسمیں شرمانے کی کیابات ہے
ارمی میں ملازمت کے لیے اسی طرح کے اپٹیٹیوٹ ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ اگر اس کے جوابات ملاحظہ کریں تو ایسے ہی جواب ملیں گے۔
تو کیا اس کا الزام ارمی کو دیا جائے۔ نہیں۔ بلکہ پاکستان کی تعلیمی حالت بری ہے جنگ میں رہتے رہتے
آرمی مین کم از کم ایسے بندے لیڈنگ تو نہیں کرتے، نا ہی قوانین بناتے ہیں،زیادہ سے زیادہ بڑوں کے آرڈر فالو کرتے ہیں۔

یہاں یہ سیاست دان تو ملکی قوانین بناتے ہیں۔ملکی کی ترقی کی کوشش کرتے ہیں۔جن کو یہ تک نہیں پتا ہوتا کہ بل میں کیا لکھا ہے اور بحث کس چیز کے بارئے میں چل رہی ہے۔ اس سے خیر و شر کی توقع حماقت ہے۔
 

منصور مکرم

محفلین
ایک ٹی وی پروگرام میں عاصمہ جہانگیر کہہ رہی تھی کہ ہر ایک کو اسمبلی میں آنے کا حق ہے۔ چاہے وہ گرا پڑا جاہل ہی کیوں نہ ہو۔:idontknow:
اس کا تو بس چلے تو گدھوں کی طرح مرد عورت ساتھ ساتھ چرتے اور ۔۔۔۔۔۔۔ کرتے رہیں، یہ تو ایسے ایسے قوانین بنوا کردیں گی۔
 
آرمی مین کم از کم ایسے بندے لیڈنگ تو نہیں کرتے، نا ہی قوانین بناتے ہیں،زیادہ سے زیادہ بڑوں کے آرڈر فالو کرتے ہیں۔

یہاں یہ سیاست دان تو ملکی قوانین بناتے ہیں۔ملکی کی ترقی کی کوشش کرتے ہیں۔جن کو یہ تک نہیں پتا ہوتا کہ بل میں کیا لکھا ہے اور بحث کس چیز کے بارئے میں چل رہی ہے۔ اس سے خیر و شر کی توقع حماقت ہے۔

ایسے ایسے لوگ لیڈنگ رہے ہیں جو جام سرپر رکھ کرناچتے رہے
جو جنرل رانی کے دلدادہ رہے
جو ملک توڑ کر بھی سلامی رہتے رہے

ان میں اور ان میں کیا تقابل؟
 
273847_61097904.jpg
 

سید ذیشان

محفلین
یار یہ بڑی زایدتی ہے اور بری بات ہے ،ایک بندے کو اپنا نام لکھنا نہیں آتا اور وہ وزیر بن جائے، یا اسکو انگریزی ،ردو پڑھنی نہیں آتی اور اسکو شوری میں بٹھا لیا جائے۔ یہ کونسا طریقہ ہے۔ کل کو گدھا بھی شوری کا ممبر بن جائے گا۔ تعلیم نا ہو تو ملک خاک چلائیں گے، خاک حکومت چلے گی، دوسرے ملکوں والے کیا کہیں گے۔ جس کو قران مجید کے پاروں کا علم نہیں،جو نماز کے اوقات نہیں جانتا، وہ ملکی کے مفاد کا کیا خیال رکھے گا۔ قسم سے دل خفاء ہوجاتا ہے ایسے قوانین دیکھ کر۔

بھئی ان پڑھ ہونے میں کوئی خرابی نہیں ہے، مشرف کے آرڈیننس سے پہلے، جب اس نے گریجویشن کی شرط رکھی، تمام الیکشن ایسے ہی ہوتے رہے ہیں۔ ان الیکشنز میں پڑھا لکھا ہونے کی کوئی شرط نہیں تھی۔
اور عاصمہ جہانگیر بالکل ٹھیک کہتی ہیں کہ بیشک بالکل ان پڑھ بھی الیکٹ ہو جائے، تو کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کا حق ہے۔ آپ ذرا غور کریں کہ پاکستان کی کتنی آبادی گریجوشین کر چکی ہے؟ شائد 10 فی صد یا بہت بھی ہوا تو 20 فی صد کہہ لیں۔ تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ 80 فی صد آبادی کو الیکشن لڑنے کا حق ہی نہ ہو۔
دوسری بات یہ کہ اس ملک میں کتنے کسان ہیں جو کہ گریجویٹ ہیں؟ اگر کسان اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کرنا چاہتے ہیں تو اپنا نمائندہ کسی گریجویٹ کو بنا دیں جس کو کسانوں کے مسائل کا علم ہی نہ ہو؟ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پھر تو صرف اور صرف وکیل ہی الیکشن کے اہل ہو سکتے ہیں کیونکہ وکلا ہی قانونی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں اور ان کو بہتر انداز میں تحریر کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ فضول بات ہوگی۔ کوئی کتنا ان پڑھ کیوں نہ ہو، پارلیمنٹ کا ممبر بن کر اپنے لئے وکیل یا سیکرٹری رکھ سکتا ہے جو اس کو قانون کے بارے میں بتائے اور کسانوں کا نمائندہ اپنے مسائل کا بہتر طور پر اظہار کر سکے اور اس پر قانون سازی کر سکے۔

اور ویسے بھی ہمارے ملک کے گریجویٹ کون سے پھنے خان ہیں، اکثر تو نقلیں مار کر اور سفارشیں کروا کر پاس ہوتے ہیں۔ ان کے معیار کا مجھے خوب علم ہے۔ بلکہ ان وڈیوز میں آپ نے دیکھ بھی لیا ہوگا۔
 

منصور مکرم

محفلین
یہ جہالت کسی طبقے کے ساتھ خاص نہیں۔ بعض جاہل کھڑے ہوتے ہیں اور دیگرے جاہل فنڈنگ کرتے ہیں۔ بعد میں جب کیس بن جاتا ہے تو سب صفائیاں پیش کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
’ریٹرنگ افسران امیدواروں سے غیر ضروری سوالات نہ پوچھیں‘

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب بھر کے ڈسٹرکٹ ریٹرنگ افسران اور ریٹرنگ افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ انتخابی امیدواروں سے غیر ضروری سوالات نہ کریں اور ٹی وی چینلوں کو کمرہ عدالت سے براہ راست کوریج کی اجازت نہ دیں۔
ہائی کورٹ نے یہ حکم آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور ترسٹھ پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران دیا۔اہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے پنجاب بھر کے ریٹرننگ افسران کو حکم دیا ہے کہ وہ امیدواروں سے کاغذات کی جانچ پڑتال کے دوران غیر متعلقہ سوالات مت پوچھیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اس بات کا سخت نوٹس لیا کہ ریٹرننگ افسران امیدواروں سے غیر ضروری اور غیر متعلقہ سوال پوچھے جا رہے ہیں۔ہائی کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے قرار دیا کہ غیر متعلقہ باتوں اور اس طرح کے اقدامات سے عدلیہ کے تاثر خراب ہوگا۔
لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے ہدایت کی کہ ریٹرننگ آفیسرز امیدواروں سے ایسے کوئی سوالات نہ پوچھیں جن کا کاغذات نامزدگی میں فراہم کردہ معلومات یا پھر امیدواروں پر لگائے جانے والے اعتراضات سے کوئی تعلق نہ ہو۔
جسٹس سید منصور علی شاہ نے الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ آفیسرز کو یہ حکم بھی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کو کاغذات نامزدگی کے دوران ہونے والی عدالتی کارروائی کمرہ عدالت کے اندر سے نشر کرنے کی اجازت نہ دی جائے
التبہ ہائی کورٹ نے فیصلے میں یہ واضح ہدایت کی ہے کہ صحافیوں کے کاغذات نامزدگی کے رپورٹنگ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے قرار دیا کہ ان احکامات کا مقصد عدلیہ کے امیج کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کویقینی بنانا ہے کہ ملک میں غیر جابندارنہ اور شفاف انتخابات ہوں نہ کہ سیاست دانوں کے خلاف کارروائی یا ان کی تحقیر کرنا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار کو حکم دیا کہ وہ عدالتی احکامات پر فوری اور بلاتاخیر عمل درآمد کو یقنی بنایا جائے تاکہ بدقستمی سے عدلیہ کے بارے میں جو منفی تاثر پیدا ہوا ہے اس کو فوری زائل کیا جائے۔
اس سے پہلے سماعت کے دوران درخواست گزار منیر احمد کے وکلا اظہر صدیق نے یہ اعتراض اٹھایا کہ ریٹرننگ افسران امیدواروں سے قرضے، نادہندگی ، ٹیکس کی ادائیگی، دوہری شہریت اور جعلی ڈگریوں کے بارے سوالات کرنے کے بجائے غیر ضروری سوال کر رہے ہیں ۔
وکیل کے مطابق امیدواروں سے ان کی بیوی بچوں کے بارے سوالات کے علاوہ دیگر غیر متعلقہ اورغیر ضروری سوالات پوچھ رہے ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں ہے۔
عدالت نے عبوری فیصلہ کرنے سے پہلے لاہور ہائی کورٹ بار ایسویشن کے صدر عابد ساقی کا موقف بھی سنا۔
عابد ساقی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ عدالت نے اپنے عبوری حکم میں ریٹرنگ افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ صرف کاغذات نامزدگی میں پوچھی معلومات کے حوالےسے سوالات کریں اور لوگوں کی کردار، لوگوں کے عقائد سے متعلق سوالات نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے ریٹرنگ افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ لوگوں کی شہرت کو نقصان نہ پہنچائیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ریٹرنگ افسروں امیدواروں کی جانب سے جمع کرائے جانے والے کاغذات نامزدگی کے ساتھ دیئے اقرار نامے میں دی گئی معلومات سے پر سوالات سے پرہیز کریں۔
عدالت نے ریٹرنگ آفیسر کو حکم دیا کہ امیدوراوں کے اقرار نامے میں دی گئی معلومات کے بارے میں صرف اسی صورت میں سوالات پوچھے جائیں جب ریٹرنگ افسران کے پاس ان معلومات کےغلط ہونے کے ٹھوس اور واضح ثبوت موجود ہیں۔
عدالت نے البتہ ریٹرنگ افسران کو اجازت دی ہے کہ وہ بینکوں، نادرا یا نیب کی جانب سے مہیا کی گئی معلومات کے حوالے سے امیدواروں سے سوالات پوچھ سکتے ہیں۔


,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
سکروٹنی کا یہ عمل انتخاب سے پہلے انتخاب تو نہیں؟


پاکستان میں گیارہ مئی کے تاریخی انتخابات سے قبل ملک کے بہت سے حلقوں میں ریٹرننگ افسر جس طرح آئین کی شقوں باسٹھ اور تریسٹھ کے تحت انتخاب میں حِصّہ لینے کے خواہشمند افراد کی اہلیت جانچنے کی کوشش کر رہے ہیں اس نے ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ سکروٹنی کا یہ عمل انتخاب سے پہلے انتخاب تو نہیں؟
پوچھا یہ جا رہا کہ کیا یہ چند ریٹرننگ افسروں کا ذاتی فیصلہ ہے جس کے تحت وہ اپنی ہی سوچ کے مطابق چند منٹوں میں کمرۂ عدالت میں ایک، دو یا چند سوالات کے ذریعے یہ طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے سامنے کھڑے امیدوار اچھے مسلمان اور پاکستان کے اسلامی نظریے کے حامی ہیں یا نہیں؟ یا، بصورت دیگر، یہ کارروائیاں اس سلسلے کی کڑی ہیں جس کے تحت قیامِ پاکستان کے وقت سے غیر منتخب ادارے براہ راست یا بالواسطہ طور پر ملک میں اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتے۔ریٹرننگ افسروں کے اس انداز کے بارے میں ماہرین کی ایک رائے تو یہ سامنے آئی ہے کہ انہیں ایک اختیار ملا ہے اور وہ اس کا مزہ لے رہے ہیں، ’شغل چل رہا ہے، میڈیا کو بھی مزہ آ رہا ہے اور دیکھنے والوں کو بھی‘، لیکن یہ بات اس سے آگے نہیں بڑھے گی، معاملات اپیل میں جائیں گے اور اخلاقی بنیادوں پر کسی امیدوار کے کاغذات مسترد نہیں ہوں گے۔دوسری رائے قدرے مختلف ہے۔ وہ اس دلیل کو مسترد کرتی ہے کہ کوئی ایک شخص یا افسر کسی امیدوار کے اچھا مسلمان اور اچھا پاکستانی ہونے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکتا، یہ لوگ اس دلیل کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ جرم کا فیصلہ تو عدالتوں میں ہو سکتا ہے لیکن گناہ، ثواب کا فیصلہ خدا کے ہاں ہوگا۔ اس رائے کے نزدیک ان کی مخالفت کرنے والے ’پاکستان کے اسلامی نظریے‘ کے معیار پر پورا نہیں اترتے اور انہیں اسمبلیوں میں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔
دوسری رائے کو اگر سنجیدگی سے لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صرف وہ لوگ انتخابات میں حِصّہ لے سکتے ہیں جن کی اسلام، پاکستان اور اس کی تاریخ کے بارے میں سوچ اور سمجھ ان غیر منتخب اداروں میں بیٹھے افراد کی سوچ سے مطابقت رکھتی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت پسندوں اور غیر منتخب اداروں کے درمیان اقتدار پر کنٹرول کی یہ کشمکش ملک کے قیام کے بعد سے ہی جاری ہے، جس میں غیر منتخب اداروں کا پلڑا بھاری رہا ہے۔
انیس سو اٹھاسی میں جنرل ضیا الحق کی ہلاکت کے بعد جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے ذریعے ایک جمہوری سفر شروع ہوا جو انیس سو ننانوے تک چلا جب میاں نواز شریف کی دوسری حکومت کو اس وقت کے فوجی سربراہ نے براہ راست مداخلت کر کے ختم کر دیا۔
اس دوران چار اسمبلیاں منتخب ہوئیں لیکن ہر بار انہیں مدت ختم کرنے سے پہلے ہی آئین کی شق اٹھاون ٹو بی کے تحت ختم کیا جاتا رہا۔ المختصر اسمبلیاں منتخب تو پاکستان کے عوام کرتے تھے لیکن ان کی کارکردگی پر فیصلہ ملک کے صدور جاری کرتے رہے اور اپنا عدم اعتماد ظاہر کر کے انہیں گھر بھیجتے رہے۔
سن دو ہزار آٹھ میں جب پاکستان کی اس برس منتخب ہونے والی قومی اسمبلی نے اپنا سفر شروع کیا تو کم ہی لوگوں کو یقین تھا کہ وہ اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر سکے گی۔ لیکن بار بار نقصان اٹھانے کے بعد سیاستدانوں نے مل کر اٹھاون ٹو بی آئین سے نکال دی۔ پاکستان کی اس قومی اسمبلی نے سولہ مارچ سن دو ہزار تیرہ کو اپنی تاریخ میں پہلی بار یہ سنگ میل پار کر لیا۔
اب ملک دوسرے سنگِ میل کی طرف بڑھ رہا ہے جب پاکستانی عوام پہلی بار خود فیصلہ کریں گے کہ ان کی منتخب کردہ حکومت ان کی توقعات پر پورا اتری یا نہیں اور وہ آئندہ پانچ برس کے لیے نئے نمائندے منتخب کریں گے۔
اس سنگِ میل کے راستے میں باسٹھ تریسٹھ کے استعمال کی بحث آ گئی ہے۔ ان شقوں کے غلط استعمال سے صرف نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر لوگوں کو انتخاب لڑنے سے روکا جاسکتا ہے اور یہ پاکستان کے شہریوں کی اپنے نمائندے منتخب کرنے کی صلاحیت پر شک کے مترادف ہوگا۔
اور اگر ایسا نہیں بھی تو جس انداز میں امیدواروں کی اہلیت کے بارے میں نئے نئے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور میڈیا پر یہ عمل نظر آ رہا ہے، اس سے سیاستدانوں اور سیاست کی ساکھ ضرور متاثر ہو رہی ہے۔ نتیجہ، آئندہ اسمبلی کی نمائندہ حیثیت پر سوالیہ نشان لگ جائےگا۔
اور ایک اور کمزور پارلیمان کا مطلب یہ ہو گا کہ غیر منتخب اداروں اور قومی اسمبلی کے درمیان کشمکش کا ایک نیا دور چلے گا جس میں نقصان عوام کا ہوگا اور ساکھ جمہوریت کی متاثر ہو گی۔
..........................................
 
محفل پر کتنے لوگ دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ ان کو قومی ترانہ پورا آتا ہے۔ کم از کم مجھے تو یاد نہیں، کچھ حصہ شائد یاد ہو گا۔ اس سے میری قابلیت پر کیسے حرف آتا ہے؟
جاہل مولوی بیٹھے ہوئے جن کو نہ ادب کی سمجھ ہے نہ اسلام کی اور ایک تماشہ لگایا ہوا ہے، مسرت شاہین تو 62 63 پر پورا اترتی ہے لیکن ایاز امیر اس پر پورا نہیں اترتا۔ عجیب ڈرامے ہوتے ہیں اس ملک میں!
اب آپ یہ تو نا کہیں کہ پوری محفل ہی پڑھی لکھی جاہل ہے۔
 
کونسی
بھئی ان پڑھ ہونے میں کوئی خرابی نہیں ہے، مشرف کے آرڈیننس سے پہلے، جب اس نے گریجویشن کی شرط رکھی، تمام الیکشن ایسے ہی ہوتے رہے ہیں۔ ان الیکشنز میں پڑھا لکھا ہونے کی کوئی شرط نہیں تھی۔
اور عاصمہ جہانگیر بالکل ٹھیک کہتی ہیں کہ بیشک بالکل ان پڑھ بھی الیکٹ ہو جائے، تو کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کا حق ہے۔ آپ ذرا غور کریں کہ پاکستان کی کتنی آبادی گریجوشین کر چکی ہے؟ شائد 10 فی صد یا بہت بھی ہوا تو 20 فی صد کہہ لیں۔ تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ 80 فی صد آبادی کو الیکشن لڑنے کا حق ہی نہ ہو۔
دوسری بات یہ کہ اس ملک میں کتنے کسان ہیں جو کہ گریجویٹ ہیں؟ اگر کسان اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کرنا چاہتے ہیں تو اپنا نمائندہ کسی گریجویٹ کو بنا دیں جس کو کسانوں کے مسائل کا علم ہی نہ ہو؟ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پھر تو صرف اور صرف وکیل ہی الیکشن کے اہل ہو سکتے ہیں کیونکہ وکلا ہی قانونی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں اور ان کو بہتر انداز میں تحریر کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ فضول بات ہوگی۔ کوئی کتنا ان پڑھ کیوں نہ ہو، پارلیمنٹ کا ممبر بن کر اپنے لئے وکیل یا سیکرٹری رکھ سکتا ہے جو اس کو قانون کے بارے میں بتائے اور کسانوں کا نمائندہ اپنے مسائل کا بہتر طور پر اظہار کر سکے اور اس پر قانون سازی کر سکے۔

اور ویسے بھی ہمارے ملک کے گریجویٹ کون سے پھنے خان ہیں، اکثر تو نقلیں مار کر اور سفارشیں کروا کر پاس ہوتے ہیں۔ ان کے معیار کا مجھے خوب علم ہے۔ بلکہ ان وڈیوز میں آپ نے دیکھ بھی لیا ہوگا۔
80 ٪ آبادی ؟
 
Top