عمران ارشد
محفلین
دیکھتا جا۔۔ شرماتا جا!!
دیکھتا جا۔۔ شرماتا جا!!
ن لیگ کے اور اس کے حامیوں کو شرم کے معاملے میں استثنٰی حاصل ہے۔۔اسمیں شرمانے کی کیابات ہے
ارمی میں ملازمت کے لیے اسی طرح کے اپٹیٹیوٹ ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ اگر اس کے جوابات ملاحظہ کریں تو ایسے ہی جواب ملیں گے۔تو کیا اس کا الزام ارمی کو دیا جائے۔ نہیں۔ بلکہ پاکستان کی تعلیمی حالت بری ہے جنگ میں رہتے رہتے
ایک ٹی وی پروگرام میں عاصمہ جہانگیر کہہ رہی تھی کہ ہر ایک کو اسمبلی میں آنے کا حق ہے۔ چاہے وہ گرا پڑا جاہل ہی کیوں نہ ہو۔ن لیگ کے اور اس کے حامیوں کو شرم کے معاملے میں استثنٰی حاصل ہے۔۔
تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جاہلوں کو حق حکمرانی دے دیا جائے۔ یہ تو میڈیا کی وجہ سے اس بار عوام کو پتہ چل رہا ہے کیسے کیسے گوہر نایاب ہم پر حکومت کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔
انکو دنیا میں صرف امریکہ ہی کا پتہ ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ 52 ممالک امریکہ کے ہیں۔دنیا میں کتنے ممالک ہین ؟ جواب ہے 52 اور کل کو انہی جیسوں کو وزارت خارجہ میں لگا دیا جاتا ہے لعنت ہو یار
http://www.vidjin.com/pakistani-politician-funny-interviews-on-returning-officers.html
یار یہ بڑی زایدتی ہے اور بری بات ہے ،ایک بندے کو اپنا نام لکھنا نہیں آتا اور وہ وزیر بن جائے، یا اسکو انگریزی ،ردو پڑھنی نہیں آتی اور اسکو شوری میں بٹھا لیا جائے۔ یہ کونسا طریقہ ہے۔ کل کو گدھا بھی شوری کا ممبر بن جائے گا۔ تعلیم نا ہو تو ملک خاک چلائیں گے، خاک حکومت چلے گی، دوسرے ملکوں والے کیا کہیں گے۔ جس کو قران مجید کے پاروں کا علم نہیں،جو نماز کے اوقات نہیں جانتا، وہ ملکی کے مفاد کا کیا خیال رکھے گا۔ قسم سے دل خفاء ہوجاتا ہے ایسے قوانین دیکھ کر۔اٹھارویں ترمیم کے بعد گریجویشن کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ تو اب ان پڑھ انسان بھی قومی اسمبلی کا رکن حتٰی کہ وزیراعظم بھی بن سکتا ہے۔ تو یہ ڈرامے بازی بالکل بے مقصد ہے۔
آرمی مین کم از کم ایسے بندے لیڈنگ تو نہیں کرتے، نا ہی قوانین بناتے ہیں،زیادہ سے زیادہ بڑوں کے آرڈر فالو کرتے ہیں۔اسمیں شرمانے کی کیابات ہے
ارمی میں ملازمت کے لیے اسی طرح کے اپٹیٹیوٹ ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ اگر اس کے جوابات ملاحظہ کریں تو ایسے ہی جواب ملیں گے۔
تو کیا اس کا الزام ارمی کو دیا جائے۔ نہیں۔ بلکہ پاکستان کی تعلیمی حالت بری ہے جنگ میں رہتے رہتے
اس کا تو بس چلے تو گدھوں کی طرح مرد عورت ساتھ ساتھ چرتے اور ۔۔۔۔۔۔۔ کرتے رہیں، یہ تو ایسے ایسے قوانین بنوا کردیں گی۔ایک ٹی وی پروگرام میں عاصمہ جہانگیر کہہ رہی تھی کہ ہر ایک کو اسمبلی میں آنے کا حق ہے۔ چاہے وہ گرا پڑا جاہل ہی کیوں نہ ہو۔
آرمی مین کم از کم ایسے بندے لیڈنگ تو نہیں کرتے، نا ہی قوانین بناتے ہیں،زیادہ سے زیادہ بڑوں کے آرڈر فالو کرتے ہیں۔
یہاں یہ سیاست دان تو ملکی قوانین بناتے ہیں۔ملکی کی ترقی کی کوشش کرتے ہیں۔جن کو یہ تک نہیں پتا ہوتا کہ بل میں کیا لکھا ہے اور بحث کس چیز کے بارئے میں چل رہی ہے۔ اس سے خیر و شر کی توقع حماقت ہے۔
یار یہ بڑی زایدتی ہے اور بری بات ہے ،ایک بندے کو اپنا نام لکھنا نہیں آتا اور وہ وزیر بن جائے، یا اسکو انگریزی ،ردو پڑھنی نہیں آتی اور اسکو شوری میں بٹھا لیا جائے۔ یہ کونسا طریقہ ہے۔ کل کو گدھا بھی شوری کا ممبر بن جائے گا۔ تعلیم نا ہو تو ملک خاک چلائیں گے، خاک حکومت چلے گی، دوسرے ملکوں والے کیا کہیں گے۔ جس کو قران مجید کے پاروں کا علم نہیں،جو نماز کے اوقات نہیں جانتا، وہ ملکی کے مفاد کا کیا خیال رکھے گا۔ قسم سے دل خفاء ہوجاتا ہے ایسے قوانین دیکھ کر۔
اس جملے سے سب سے پہلے جو معنی ذہن میں آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ عسکری جہالت (جہالت کی ایک قسم شائد) الیکشنز میں جیتنے والی جہالت کی ذمہ دار ہےیار عسکری جہالت ہی جہالت کو جتواتی ہے
ہمارا کیا اس شاہی محلے والے کام سےاس جملے سے سب سے پہلے جو معنی ذہن میں آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ عسکری جہالت (جہالت کی ایک قسم شائد) الیکشنز میں جیتنے والی جہالت کی ذمہ دار ہے
اب آپ یہ تو نا کہیں کہ پوری محفل ہی پڑھی لکھی جاہل ہے۔محفل پر کتنے لوگ دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ ان کو قومی ترانہ پورا آتا ہے۔ کم از کم مجھے تو یاد نہیں، کچھ حصہ شائد یاد ہو گا۔ اس سے میری قابلیت پر کیسے حرف آتا ہے؟
جاہل مولوی بیٹھے ہوئے جن کو نہ ادب کی سمجھ ہے نہ اسلام کی اور ایک تماشہ لگایا ہوا ہے، مسرت شاہین تو 62 63 پر پورا اترتی ہے لیکن ایاز امیر اس پر پورا نہیں اترتا۔ عجیب ڈرامے ہوتے ہیں اس ملک میں!
80 ٪ آبادی ؟بھئی ان پڑھ ہونے میں کوئی خرابی نہیں ہے، مشرف کے آرڈیننس سے پہلے، جب اس نے گریجویشن کی شرط رکھی، تمام الیکشن ایسے ہی ہوتے رہے ہیں۔ ان الیکشنز میں پڑھا لکھا ہونے کی کوئی شرط نہیں تھی۔
اور عاصمہ جہانگیر بالکل ٹھیک کہتی ہیں کہ بیشک بالکل ان پڑھ بھی الیکٹ ہو جائے، تو کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کا حق ہے۔ آپ ذرا غور کریں کہ پاکستان کی کتنی آبادی گریجوشین کر چکی ہے؟ شائد 10 فی صد یا بہت بھی ہوا تو 20 فی صد کہہ لیں۔ تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ 80 فی صد آبادی کو الیکشن لڑنے کا حق ہی نہ ہو۔
دوسری بات یہ کہ اس ملک میں کتنے کسان ہیں جو کہ گریجویٹ ہیں؟ اگر کسان اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کرنا چاہتے ہیں تو اپنا نمائندہ کسی گریجویٹ کو بنا دیں جس کو کسانوں کے مسائل کا علم ہی نہ ہو؟ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پھر تو صرف اور صرف وکیل ہی الیکشن کے اہل ہو سکتے ہیں کیونکہ وکلا ہی قانونی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں اور ان کو بہتر انداز میں تحریر کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ فضول بات ہوگی۔ کوئی کتنا ان پڑھ کیوں نہ ہو، پارلیمنٹ کا ممبر بن کر اپنے لئے وکیل یا سیکرٹری رکھ سکتا ہے جو اس کو قانون کے بارے میں بتائے اور کسانوں کا نمائندہ اپنے مسائل کا بہتر طور پر اظہار کر سکے اور اس پر قانون سازی کر سکے۔
اور ویسے بھی ہمارے ملک کے گریجویٹ کون سے پھنے خان ہیں، اکثر تو نقلیں مار کر اور سفارشیں کروا کر پاس ہوتے ہیں۔ ان کے معیار کا مجھے خوب علم ہے۔ بلکہ ان وڈیوز میں آپ نے دیکھ بھی لیا ہوگا۔