متفقبات تو سچ ہے مگر ہے رسوائی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
کالم نگار کی جہالت ترس کے قابل ہےپنجاب کے ضلع قصور کے نواحی گاؤں کورٹ رادھا کشن میں مشتعل افراد کی جانب سے عیسائی جوڑے کو قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ہلاک کر دینے کا واقعہ نہایت قابل افسوس ہے۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے اُتنی کم ہے۔ کسی بھی ملزم کو الزام ثابت ہوئے بغیر سزا دینا ایسا عمل ہے جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ ہی انسانی اخلاقیات میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ایسی نوبت آتی کیوں ہے؟؟
ان لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟؟؟
اگر ماضی کے واقعات پر نظر ڈالیں تو معاملہ بہت واضح ہو جاتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل اسلام آباد کے دیہی علاقے "میرا جعفر" میں ایک مسیحی خاتون رمشا مسیح پر توہین قران کا الزام میں ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ علاقے کے درجنوں لوگ اس بات کے گواہ تھے کہ اُس نے قرانی اوراق کو آگ لگائی۔ رمشا مسیح کیس میں پاکستانی میڈیا، سرکاری اداروں اور این جی اوز نے جس طرح قانون کو تماشہ بنایا تھا عبرت انگیز تھا۔
پولیس اور خفیہ اداروں نے واقعے کے عینی شاہدین کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا۔ مبینہ طور پر کیس کے مدعی امام مسجدخالد جدون کو پہلے اغوا کر کے اُس پر کیس واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔ بعد میں "میرا جعفر کی مسجد امینیہ" کے موذن اور واقعے کے گواہ حافظ زبیر کے اہل خانہ کو "غیرقانونی حراست" میں لے کر اُسے مدعی مقدمہ کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا گیا، جس نے مجبور ہو کر مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا کہ مدعی مقدمہ و امام مسجد خالد جدون نے رمشا مسیحی کے خلاف کیس بنانے کے لئے عام اوراق کی راکھ میں از خود قرآنی اوراق شامل کئے تھے۔
حافظ زبیر کے اس بیان پر خالد جدون کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے اُسے فوری طور پر گرفتار کرکے کے جیل منتقل کر دیا گیا۔ اسی بیان کو بنیاد بنا کر مقامی عدالت کے جج محمد اعظم خان نے ملزمہ رمشا مسیح کی ضمانت پانچ پانچ لاکھ کے دو مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔ جیل سے رمشا مسیح کو بذریعہ ہیلی کپٹر نامعلوم مقام پر لےجایا گیا۔ گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق وہ نامعلوم مقام امریکی سفارت خانہ تھا۔ جہاں سے بعد ازاں وہ ضمانت پر ہونے کے باوجود پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ کنیڈا روانہ ہو گئی۔
رمشا مسیح کے ملک سے روانہ ہونے کے فوری بعد اس کے خلاف دائر مقدمے کے مدعی امام مسجد خالد جدون کے خلاف گواہی دینے والے افراد اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ یوں ایک طرف خالد جدون کو باعزت بری کر دیا گیا، اور دوسری طرف رمشا مسیح کے خلاف درج مقدمہ بھی "عدم ثبوت" کی بنا پر خارج کر دیا گیا۔ یہ دونوں کام بیک وقت کیسے سرانجام پائے یہ تو کوئی قانونی ماہر ہی بتا سکتا ہے۔ لیکن اہل خبر جانتے ہیں کہ اس سارے کیس کے دوران تفتیشی افسر سب انسپکٹر منیر حسین جعفری غیر ملکی سفارت خانوں اور این جی اوز کے اہلکاروں کے اشاروں پر چلتا رہا تھا۔
میڈیا نے اس سارے کیس کی رپورٹنگ جس بھونڈے اور جانبدارانہ انداز سے کی وہ ایک الگ کہانی ہے۔ رمشا مسیح کی اصل تصویر کی جگہ 2005ء زلزلے سے متاثر ہونے والی ایک بچی کو رمشا بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ این جی اوز کے نمائیندوں کے بیانات کو مقامی لوگوں کا موقف بنا کر پیش کیا گیا۔ ہر خبر میں رمشا کو مظلوم اور مدعی مقدمہ کو ایک ولن بنا کر پیش کیا گیا۔ رمشا کے بیرون ملک روانگی کے بعد اس کیس کی رپورٹنگ کا مکمل بلیک آؤٹ کر دیا گیا۔
یہ صرف ایک کیس کی داستان ہے۔ ایسے درجنوں کیس بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پولیس، عدلیہ، خفیہ ادارے اور میڈیا توہین رسالت اور توہین مذہب کے مقدمات میں اتنا عجیب و غریب کردار ادا کرتے ہوئے ملزمان کے ساتھ ایک پارٹی بن جائیں گے، تو عوام اُن پر کس طرح انصاف کے حصول کی خاطر اعتماد کر سکتے ہیں؟؟
این جی اوز اور حکومتی اداروں کے اہلکاروں نے اپنی دانست میں ایک رمشا مسیح کو قانون کی گرفت سے تو بچالیا، لیکن اُن افراد کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا ہے، جن پر کبھی بھی توہین مذہب کا الزام لگے گا۔
مذہب ہمیشہ سے اس کے بیشتر پیروکاروں کے لیے جذباتی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر ریاست اور اس میں بسنے والی عوام چاہتی ہے کہ مستقبل میں کورٹ رادھا کشن جیسے واقعات کی روک تھام ہو تو اُسے فوری طور پر رمشا مسیح اور اس جیسے دیگر مقدمات میں قانون کو مذاق بنانے والے حکومتی اور غیر حکومتی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ ورنہ لوگ قانون کو پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا کر موقع پر ہی سزا دینے میں خود کو حق بجانب سمجھتے رہیں گے اور ایسے واقعات کا تدراک ناممکن ہوتا چلا جائے گا۔
کونسے؟ اظہار الحق صاحب کی یا مذکور بے نام کی؟کالم نگار کی جہالت ترس کے قابل ہے
پنجاب کے ضلع قصور کے نواحی گاؤں کورٹ رادھا کشن میں مشتعل افراد کی جانب سے عیسائی جوڑے کو قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ہلاک کر دینے کا واقعہ نہایت قابل افسوس ہے۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے اُتنی کم ہے۔ کسی بھی ملزم کو الزام ثابت ہوئے بغیر سزا دینا ایسا عمل ہے جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ ہی انسانی اخلاقیات میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ایسی نوبت آتی کیوں ہے؟؟
ان لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟؟؟
اگر ماضی کے واقعات پر نظر ڈالیں تو معاملہ بہت واضح ہو جاتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل اسلام آباد کے دیہی علاقے "میرا جعفر" میں ایک مسیحی خاتون رمشا مسیح پر توہین قران کا الزام میں ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ علاقے کے درجنوں لوگ اس بات کے گواہ تھے کہ اُس نے قرانی اوراق کو آگ لگائی۔ رمشا مسیح کیس میں پاکستانی میڈیا، سرکاری اداروں اور این جی اوز نے جس طرح قانون کو تماشہ بنایا تھا عبرت انگیز تھا۔
پولیس اور خفیہ اداروں نے واقعے کے عینی شاہدین کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا۔ مبینہ طور پر کیس کے مدعی امام مسجدخالد جدون کو پہلے اغوا کر کے اُس پر کیس واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔ بعد میں "میرا جعفر کی مسجد امینیہ" کے موذن اور واقعے کے گواہ حافظ زبیر کے اہل خانہ کو "غیرقانونی حراست" میں لے کر اُسے مدعی مقدمہ کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا گیا، جس نے مجبور ہو کر مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا کہ مدعی مقدمہ و امام مسجد خالد جدون نے رمشا مسیحی کے خلاف کیس بنانے کے لئے عام اوراق کی راکھ میں از خود قرآنی اوراق شامل کئے تھے۔
حافظ زبیر کے اس بیان پر خالد جدون کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے اُسے فوری طور پر گرفتار کرکے کے جیل منتقل کر دیا گیا۔ اسی بیان کو بنیاد بنا کر مقامی عدالت کے جج محمد اعظم خان نے ملزمہ رمشا مسیح کی ضمانت پانچ پانچ لاکھ کے دو مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔ جیل سے رمشا مسیح کو بذریعہ ہیلی کپٹر نامعلوم مقام پر لےجایا گیا۔ گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق وہ نامعلوم مقام امریکی سفارت خانہ تھا۔ جہاں سے بعد ازاں وہ ضمانت پر ہونے کے باوجود پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ کنیڈا روانہ ہو گئی۔
رمشا مسیح کے ملک سے روانہ ہونے کے فوری بعد اس کے خلاف دائر مقدمے کے مدعی امام مسجد خالد جدون کے خلاف گواہی دینے والے افراد اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ یوں ایک طرف خالد جدون کو باعزت بری کر دیا گیا، اور دوسری طرف رمشا مسیح کے خلاف درج مقدمہ بھی "عدم ثبوت" کی بنا پر خارج کر دیا گیا۔ یہ دونوں کام بیک وقت کیسے سرانجام پائے یہ تو کوئی قانونی ماہر ہی بتا سکتا ہے۔ لیکن اہل خبر جانتے ہیں کہ اس سارے کیس کے دوران تفتیشی افسر سب انسپکٹر منیر حسین جعفری غیر ملکی سفارت خانوں اور این جی اوز کے اہلکاروں کے اشاروں پر چلتا رہا تھا۔
میڈیا نے اس سارے کیس کی رپورٹنگ جس بھونڈے اور جانبدارانہ انداز سے کی وہ ایک الگ کہانی ہے۔ رمشا مسیح کی اصل تصویر کی جگہ 2005ء زلزلے سے متاثر ہونے والی ایک بچی کو رمشا بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ این جی اوز کے نمائیندوں کے بیانات کو مقامی لوگوں کا موقف بنا کر پیش کیا گیا۔ ہر خبر میں رمشا کو مظلوم اور مدعی مقدمہ کو ایک ولن بنا کر پیش کیا گیا۔ رمشا کے بیرون ملک روانگی کے بعد اس کیس کی رپورٹنگ کا مکمل بلیک آؤٹ کر دیا گیا۔
یہ صرف ایک کیس کی داستان ہے۔ ایسے درجنوں کیس بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پولیس، عدلیہ، خفیہ ادارے اور میڈیا توہین رسالت اور توہین مذہب کے مقدمات میں اتنا عجیب و غریب کردار ادا کرتے ہوئے ملزمان کے ساتھ ایک پارٹی بن جائیں گے، تو عوام اُن پر کس طرح انصاف کے حصول کی خاطر اعتماد کر سکتے ہیں؟؟
این جی اوز اور حکومتی اداروں کے اہلکاروں نے اپنی دانست میں ایک رمشا مسیح کو قانون کی گرفت سے تو بچالیا، لیکن اُن افراد کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا ہے، جن پر کبھی بھی توہین مذہب کا الزام لگے گا۔
مذہب ہمیشہ سے اس کے بیشتر پیروکاروں کے لیے جذباتی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر ریاست اور اس میں بسنے والی عوام چاہتی ہے کہ مستقبل میں کورٹ رادھا کشن جیسے واقعات کی روک تھام ہو تو اُسے فوری طور پر رمشا مسیح اور اس جیسے دیگر مقدمات میں قانون کو مذاق بنانے والے حکومتی اور غیر حکومتی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ ورنہ لوگ قانون کو پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا کر موقع پر ہی سزا دینے میں خود کو حق بجانب سمجھتے رہیں گے اور ایسے واقعات کا تدراک ناممکن ہوتا چلا جائے گا۔
بے نام صاحب کیکونسے؟ اظہار الحق صاحب کی یا مذکور بے نام کی؟
وضاحت کے لیے شکریہ!بے نام صاحب کی
کالم مذکورہ سوشل میڈیا کے ایک جہادی صفحے سے کاپی کیا گیا ہے، کالم نگار کا نام موجود نہیں تھا ورنہ درج کر دیا جاتا۔کالم نگار کی جہالت ترس کے قابل ہے
اور آپ اسی خوف سے پاکستان سے مستقل ہی نکل گئےپتا نہیں پاکستان میں یار لوگ مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز پر کیسے کیسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ ہم جب پاکستان میں تھے تو وہاں بس ایک ہی اعلان ہوا کرتا تھا کہ ’’جن کا بچہ ہے آکر لے جائیں‘‘،’’جن کا بچہ ہے آکر لے جائیں‘‘۔ اس روز جن کے خوف سے کوئی مسجد میں گھستا ہی نہیں تھا
ہماری وہاں سے نکلنے کی وجوہات خاندانی تھیں۔ ہمارے ماموں کا یہاں کوئی قریبی خاندان نہیں تھا اور جب 1999 میں انکی وفات ہوئی تو ہماری ممانی صاحبہ نے سپانسر کیا اس بنیاد پر کے انہیں اور انکے بچوں کو قریبی رشتہ داروں کی ضرورت ہے۔ جسکے بعد ہم یہاں سنہ 2000 میں وزٹ ویزا پر آئے۔ مستقل قیام کا پروگرام نہیں تھا لیکن ہمارے یہاں آتے ہی والد صاحب نے جو کہ پاکستان ہی میں تھے دوسری شادی کر لی۔ جواباً ہماری والدہ صاحبہ نے یہاں مستقل رہنے کی درخواست امیگریشن والوں کو جمع کروادی۔ ہمارا کیس کوئی ایسا مضبوط تو تھا نہیں کہ پکی پکی رہائش یہاں ملتی لیکن شومئی قسمت جب ہم یہاں آئے اسوقت یہاں عیسائی جماعتوں کی مخلوط حکومت تھی اور انکی امیگریشن پالیسی بہت زیادہ نرم دل واقع ہوئی تھی۔ اور ہزاروں لوگوں میں ہمارا بھی نام شامل ہو گیا جن کی مستقل رہائش کی درخواست منظور کر لی گئی تھی۔ اسی سال دوسرا الیکشن ہوا اور مخالف جماعتوں نے آکر ان نرم دل قوانین کو تبدیل کر دیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور جن کی درخواستیں منظور ہو چکی تھیں انہیں قانوناً رد کرنا ناممکن تھا۔ بس پھر کیا تھا ہم نہ تیتر رہے نہ بٹیر۔ پاکستان جاتے تو سوتیلی ماں۔ اور یہیں رہتے تو باپ اور ماموں کا سر پر سایہ نہیں۔ جیسے تیسے ہمنے اپنے آپکو منا لیا اور پاکستان کے بگڑتے حالات کود یکھتے ہوئے ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا فیصلہ بالکل درست تھا۔اور آپ اسی خوف سے پاکستان سے مستقل ہی نکل گئے
کتنے فیملی ممبرز تھے آپ ؟لیکن ہمارے یہاں آتے