حکومت کا دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان

جاسم محمد

محفلین
کپتان ٹیم پر یقین نہیں رکھتا ۔ ہر جیت اس کی اپنی جیت اور ہر ہار ٹیم کی ہار ہوتی ہے۔ سمجھا کریں!
کپتان کچھ عرصہ قبل جنرل باجوہ سے یہ گلہ شکوہ بھی کر چکے ہیں کہ ان کو ٹیم اچھی نہیں ملی۔ جنرل صاحب بھی کہتے ہوں گے کس نخرے والے وزیر اعظم کو سلیکٹ کر لیا ہے
 
ناروے سے ہی سیکھا ہے کہ یہ لازم نہیں کہ سب سے کم بڈ کرنے والی کمپنی اپنی بڈنگ کو عملا پورا کرکے بھی دکھائے۔ اور یوں کنٹریکٹ دینے والے کو الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں۔
میرے سامنے کی بات ہے۔ ۲۰۱۶ میں دارالحکومت اوسلو کی بلدیہ نے شہر کا کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کنٹریکٹ اوپن بڈنگ میں ایک نجی کمپنی کو دے دیا۔ اس نجی کمپنی کا دعوی تھا کہ وہ بلدیہ کی پبلک کمپنی کے مقابلہ میں بہت کم اخراجات کے ساتھ شہر کا کچرا اٹھا سکتی ہے۔ اس سے ایک سال قبل کمپنی کو کچھ دیگر شہروں کے کنٹریکٹ مل چکے تھے۔اور وہاں سے کوئی شکایت نہ آنے پر بلدیہ نے کمپنی کو محض سب سے سستا بڈ دینے پر کنٹریکٹ دے دیا۔
اب آگے سنیں کیا ہوا۔ کنٹریکٹ ملنے کے محض تین ہفتے بعد اوسلو بلدیہ کو کمپنی کے خلاف شکایات موصول ہونا شروع ہو گئی۔ ۳ ماہ بعد ان شکایات کی تعداد ۳۰ ہزار تک پہنچ گئی۔ بلدیہ کو مجبوراً کمپنی کو روزانہ فائن کرنا پڑا کیونکہ وہ شہر کا کوڑا کرکٹ بروقت ہٹانے میں ناکام ہو چکی تھی۔ شہر اقتدار میں جگہ جگہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگ گئے۔ بلدیہ پر آپے سے باہر عوام کا دباؤ آیا تو اس نے کمپنی کا آڈٹ کروایا جس میں سے پتا یہ چلا کہ وہاں کام کرنے والے ملازمین خلاف قانون ۸۰ گھنٹے سے زائد ہفتہ وار کام کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد بلدیہ کے صفائی ستھرائی ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ نے استعفی دے دیا اور ایک ماہ بعد سکینڈل زدہ کمپنی نے خود کو دیوالیہ ظاہر کر دیا۔ تاکہ اوسلو بلدیہ وہ کنٹریکٹ واپس اسی پبلک کمپنی کو دے سکے جو ان سے قبل شہر اقتدار کا کوڑا کرکٹ مہنگے داموں سہی مگر بروقت اٹھا تو لیا کرتی تھی :)
Da alt gikk galt med søppelhentinga i Oslo

تو آج آپ نے اس سے کیا سبق حاصل کیا؟ یہی کہ ہر بار اوپن بڈنگ میں سب سے کم بڈ دینے والی کمپنی کو کنٹریکٹ دینے کا اصول اٹل نہیں۔ بعض اوقات ایسا کرنے سے الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں
یہاں پبلک کمپنی کے ملازمین نے سازش کی ہے۔۔۔ پکا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہاں پبلک کمپنی کے ملازمین نے سازش کی ہے۔۔۔ پکا۔
اوہ سوری یہ بتانا بھول گیا تھا کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد کیا ہوا۔ ناروے پاکستان نہیں ہے جہاں مک مکا، ویلنگ ڈیلنگ کرکے سکینڈلز کو دبا دینا قومی روایات کا حصہ ہو۔
حکومت نے پہلے اس سکینڈل کی انکوائری کروائی تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہو سکے۔ انکوائری رپورٹ پبلک ہوئی اور بلدیہ کے صفائی ستھرائی ڈپارٹمنٹ جس نے نجی کمپنی کو کنٹریکٹ دیا تھا کو اس سکینڈل کا اصل ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ نیز نجی کمپنی کے مالک کو غیر قانونی بھرتیاں کرنے اور بلدیہ کو چونا لگانے پر قریبا دس کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ یہی نہیں موصوف کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور امسال فروری میں ان کو سزا یافتہ مجرم ثابت کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ یہ سزا ان کرپٹ لوگوں کیلئے نشان عبرت ہے جو مستقبل میں اوپن بڈنگ پراسیس کو متاثر کرکے عوامی فلاح کے کاموں میں حکومت کو چونا لگانے کا خواب دیکھ رہے ہیں
Jonny Enger dømt til fengsel: – Føler meg ikke som noen kriminell
 
آخری تدوین:

آورکزئی

محفلین
حکومت کے اندر کچھ دیسی لبرل ٹائپ وزیر ہیں جو عمران خان کو دباؤ میں لانے کیلئے اس قسم کے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ فواد چوہدری اور شیری مزاری کے بارہ میں تو کنفرم ہے کہ وہ ان کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ لوگ ہیں جن کا نام ابھی ذہن میں نہیں آرہا

اپ نے دو نام بتا دیے وہ بھی ایسے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا
 

آورکزئی

محفلین
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے منتخب لوگوں کی فوج نے دوران اقتدار کونسا تیر مار لیا تھا جو تحریک انصاف کے غیر منتخب افراد کو دیکھ کر جمہوریت کے مروڑ اٹھ رہے ہیں؟

یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ سب چور۔۔۔۔۔۔۔ چور چور۔۔۔ لیکن نیازی ان سب کو پیچھے چھوڑ گیا چوری میں۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ سب چور۔۔۔۔۔۔۔ چور چور۔۔۔ لیکن نیازی ان سب کو پیچھے چھوڑ گیا چوری میں۔۔۔۔۔۔۔۔
غیر منتخب لوگوں کے حکومت میں موجود ہونے پر جمہوری لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ یہ اس لئے غلط ہے کیونکہ ایسے لگ عوام کو جواب دہ نہیں۔ کیا یہی جمہوری لوگ بتا سکتے ہیں کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سابقہ وزیر اعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اب عوام کو جوابدہ ہونے کی بجائے ملک سے مفرور کیوں ہیں؟
 

آورکزئی

محفلین
غیر منتخب لوگوں کے حکومت میں موجود ہونے پر جمہوری لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ یہ اس لئے غلط ہے کیونکہ ایسے لگ عوام کو جواب دہ نہیں۔ کیا یہی جمہوری لوگ بتا سکتے ہیں کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سابقہ وزیر اعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اب عوام کو جوابدہ ہونے کی بجائے ملک سے مفرور کیوں ہیں؟

کیوں مفرور کا جواب یہ کہ نیازی نے ایک ایسا بازار گرم کر رکھا ہے کہ انصاف کی دھجیاں ہی اڑ گئیں ہیں۔۔ کسی کو کسی بھی ادارے پر بھروسہ نہیں۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیوں مفرور کا جواب یہ کہ نیازی نے ایک ایسا بازار گرم کر رکھا ہے کہ انصاف کی دھجیاں ہی اڑ گئیں ہیں۔۔ کسی کو کسی بھی ادارے پر بھروسہ نہیں۔۔
یعنی جب ان جمہوری مفروروں کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات دوبارہ طے ہوجائیں گے، این آر او وغیرہ مل جائے گا تو سب جعلی بیمار صحت یاب ہو کر ملک واپس لوٹ آئیں گے۔ بات تو پھر وہی ہے کہ یہ جمہوریے بھی عوام کو نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو جوابدہ ہیں جیسا کہ آجکل حکومت میں بھرتی ہونے والے غیر منتخب وزرا اور مشیر
 

آورکزئی

محفلین
یعنی جب ان جمہوری مفروروں کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات دوبارہ طے ہوجائیں گے، این آر او مل جائے گا تو سب جعلی بیمار صحت یاب ہو کر ملک واپس لوٹ آئیں گے۔ بات تو پھر وہی ہے کہ یہ جمہوریے بھی عوام کو نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو جوابدہ ہیں جیسا کہ آجکل حکومت میں بھرتی ہونے والے غیر منتخب وزرا اور مشیر

اسی نظام کو ختم کرنے کے لیے اپ لوگوں نے نیازی کو ووٹ دیا تھا نا ؟؟ اب جو وہ خود اسٹبلشمنٹ کے ہتھوں چھڈ گیا ہے تو کسی اور پہ الزام کیوں۔۔۔؟؟
 

جاسم محمد

محفلین
اسی نظام کو ختم کرنے کے لیے اپ لوگوں نے نیازی کو ووٹ دیا تھا نا ؟؟ اب جو وہ خود اسٹبلشمنٹ کے ہتھوں چھڈ گیا ہے تو کسی اور پہ الزام کیوں۔۔۔؟؟
عمران خان کی لڑائی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کبھی نہیں تھی۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ن لیگ نے لگایا تھا۔ بعد میں سب نے دیکھا کہ کیسے انہوں نے جنرل باجوہ کو عمران خان سے بھی زیادہ ووٹ ڈال کر ایکسٹینشن دی
 

آورکزئی

محفلین
عمران خان کی لڑائی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کبھی نہیں تھی۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ن لیگ نے لگایا تھا۔ بعد میں سب نے دیکھا کہ کیسے انہوں نے جنرل باجوہ کو عمران خان سے بھی زیادہ ووٹ ڈال کر ایکسٹینشن دی

یعنی اب نیازی کے پرانے کلپس چلانے پڑیں گے۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا
 

جاسم محمد

محفلین
پس ثابت ہوا اوپن بڈنگ ہی افضل آپشن ہے۔
بے شک البتہ سب سے کم بڈ کرنے والا ہمیشہ افضل ترین آپشن نہیں ہوتا۔ یہ بات مشاہدات سے ثابت ہو چکی ہے۔ کنٹریکٹ دینے والے کو سب سے کم بڈ کرنے والی کمپنی کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرنی چاہئے کہ دیگر کے مقابلہ میں اتنی کم بڈنگ کی کیا وجوہات ہیں۔ کیا اس کے پیچھے واقعی کمپنی کی قابلیت و مہارات ہے یا کوئی غیر قانونی کام کارفرما ہے۔ اور اگر اس معاملہ میں شکوک و شبہات ہوں تو پھر کم ترین بڈ والی کمپنی کی بجائے اس سے اوپر والی کمپنیوں کو دیکھنا چاہئے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
مہمند ڈیم 2025 اور بھاشا ڈیم 2028 میں مکمل ہو جائیں گے، چیئرمین واپڈا
ویب ڈیسک پير 1 جون 2020
2046600-news-1591006039-504-640x480.jpg

کیس کی سماعت 6 ماہ کیلئے ملتوی کردی گئی۔

اسلام آباد: چیئرمین واپڈا (ریٹائرڈ) لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین کا کہنا ہے کہ مہمند ڈیم کے تینوں یونٹ جولائی 2025 میں مکمل ہو جائیں گے جب کہ بھاشا ڈیم جولائی 2028 میں مکمل ہوجائے گا۔

سپریم کورٹ میں دیا میر بھاشا اور مہمند ڈیم کیس کی سماعت ہوئی جس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈیم میں کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی، ڈیم میں جو زمین استعمال ہو رہی ہے اس میں جو مسئلے ہیں انہیں حل کریں، مہند ڈیم میں عثمان خیل اور برہان خیل کی زمین کا مسئلہ چل رہا ہے۔

جس پر واپڈا حکام نے جواب دیا کہ مہند ڈیم کی تعمیر کیلئے ٹھیکیدار نے اپنا کام شروع کر رکھا ہے، وہاں 32 گھرانے ہیں اور وہ زمین ابھی ہمیں درکار نہیں، پہلے مرحلے میں جو زمین چاہیے تھی وہ ہم حاصل کر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ نے بیرون ملک سے ڈیمز فنڈ میں آنے والی رقوم کی تفصیلات اسٹیٹ بینک سے طلب کرلی۔ اسٹیٹ بینک حکام نے عدالت کو بتایا کہ ڈیم فنڈ سٹاک ایکسچینج میں انوسٹ کیا جائے تو زیادہ منافعے کے ساتھ خطرہ بھی ہوگا، ڈیم فنڈز کا پیسہ جہاں انویسٹ کیا گیا وہاں نفع بھی ٹھیک ہے اور سکیورٹی بھی ہے۔

عدالت نے کہا کہ کوئی پاکستانی ایسی جگہ سے پیسے بھیجنا چاہتا ہو جہاں پاکستانی بینک نہ ہو جس پر بینک حکام نے کہا کہ ڈیم فنڈ میں رقم جمع کرانے کے حوالے سے ایمبیسیز کو خط لکھ دیئے گئے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ خط لکھنے سے کیا ہوگا، کسی سے فون پر بات کریں، ایسی صورت میں متعلقہ سفارتخانوں کو رقوم کی پاکستان منتقلی کا پتہ ہونا چاہئے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ مہمند ڈیم پر تعمیر کی کیا صورتحال ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مہمند ڈیم کی منظوری سی ڈی ڈیبلو پی کے پاس زیر التواء ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دیامیر بھاشا ڈیم کا کنٹریکٹ تو پہلے ہی دیا جا چکا ہے، بھاشا ڈیم کی تعمیر کب مکمل ہوگی۔ واپڈا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ دیامیر بھاشا ڈیم پر کام شروع ہو چکا ہے اور مہمند ڈیم پر کام شیڈول کے مطابق جاری ہے۔

چیئرمین واپڈا کا کہنا تھا کہ مہمند ڈیم کا پہلا یونٹ 2024 میں آپریشنل ہو جائے گا، مہمند ڈیم کے تینوں یونٹ جولائی 2025 میں مکمل ہو جائیں گے، بھاشا ڈیم جولائی 2028 میں مکمل ہوجائے گا۔ بعد ازاں کیس کی سماعت 6 ماہ کیلئے ملتوی کردی گئی۔
 
Top