جاسم محمد
محفلین
حکومت کا سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان
13 فروری 2019
انہوں نے کہا کہ ہم نے مشرق وسطیٰ میں دیکھا کہ جب بھی کوئی غیر معمولی یا فرقہ وارانہ تنازع شروع ہوئے تو وہ پورے ملک تباہ و برباد ہوگئے اور ٹکڑوں میں بٹ گئے لیکن پاکستانی معاشرے کی برداشت کی تاریخ بہت بڑی ہے جبھی ہم اس تنازع سے باہر آنے کے قریب ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ جو پاکستانی قوم نے کرکے دکھایا یہ کہیں اور ممکن ہی نہیں تھا، ہم نے زخم سہے، قربانیاں دیں، ہمارے 70 ہزار لوگ شہید ہوئے، پورے ملک میں خون بہا ہے لیکن ہم اس تنازع سے کافی حد تک باہر نکل گئے ہیں اور اگلا مرحلہ ہمارا لوگوں کو نفرت کے پرچار سے روکنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نفرت کے پرچار کی پہلی اسٹیج انتہاپسندی اور دوسری اسٹیج دہشت گردی ہے لیکن دہشت گردی کا بیچ انتہا پسندی میں بویا جاتا ہے، لہٰذا جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے ہم ایک نظام کے تحت آگے بڑھے ہیں اور ہم نے قانون کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے میں بات چیت یا بحث ایک بنیادی شرط ہے لیکن ہمارے یہاں شدت پسند طبقے کا یہ نقطہ نظر ہے کہ ہم نے بات چیت ہی نہیں ہونے دینی، جو میری رائے ہے بس وہی حتمی ہے جو بحث کرے اس پر فتوے جاری کروائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ایک رائے تب ہی بن سکتی ہے جب دوسرے کو بولنے کی اجازت دیں گے لیکن یہاں ریاست کا کردار بہت اہم ہے، کوئی ریاست کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ دوسروں کی آزادی سلب کریں۔
فواد چوہدی کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کا مطمع نظر ہے کہ انہیں ہر چیز کی آزادی ہے لیکن ایسا نہیں ہے، ہر کسی کی آزادی کی ایک حد ہوتی ہے اور اس سے دوسرے کی آزادی سلب نہیں ہونی چاہیے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے ہاں قوانین ہے، ان پر عملدرآمد کروانا ایک چیلنج رہا ہے کیونکہ جو ہمارے سیاسی و سیکیورٹی حالات اسے پورا نہیں کر رہے تھے لیکن اب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان قوانین کو نافذ کریں اور کسی کو نفرت انگیز تقریر کی اجازت نہیں دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے غیرملکی میڈیا پر نفرت انگیز بیانیے کو کافی حد تک ریگولرائز کیا ہے اور ہم نے عام میڈیا پر اس طرح کے بیانیے کو کافی حد تک کنٹرول کرلیا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک میکانزم تیار کرلیا ہے جہاں ہم سوشل میڈیا پر بھی نفرت انگیز بیانیے کو کنٹرول کرپائیں گے کیونکہ ڈیجیٹل میڈیا عام میڈیا پر ٹیک اوور کررہا ہے لہٰذا ضروری تھا کہ ہم اسے ریگولرائز کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پمرا) لارہے ہیں، جس کا مقصد پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے لیے قوانین نافذ کرسکیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ ضروری تھا کہ ہم سوشل میڈیا کو مانیٹر کرسکیں، وہاں جو جعلی اکاؤنٹس ہیں انہیں پکڑ سکیں اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ رواں ہفتے کچھ ایسی گرفتاریاں ہوئی ہیں، جنہوں نے سوشل میڈیا کو فتویٰ دینے، دھمکیاں دینے اور نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے والوں کے لیے استعمال کیا اور آنے والے ہفتوں میں اس پر سخت کریک ڈاؤن کریں گے اور ہم سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بیانیے کی اجازت نہیں دیں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا طاقت کا اختیار صرف ریاست کا ہے اور کسی فرد کو اس کا اختیار نہیں دے سکتے اور ہم جلد ایک بڑا کریک ڈاؤن کا آغاز کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان آرہے ہیں اور سعودی عرب کا وژن 2030 بھی انتہا پسندی کے خلاف ایک بہت بڑا موقع فراہم کرتا ہے۔
13 فروری 2019
انہوں نے کہا کہ ہم نے مشرق وسطیٰ میں دیکھا کہ جب بھی کوئی غیر معمولی یا فرقہ وارانہ تنازع شروع ہوئے تو وہ پورے ملک تباہ و برباد ہوگئے اور ٹکڑوں میں بٹ گئے لیکن پاکستانی معاشرے کی برداشت کی تاریخ بہت بڑی ہے جبھی ہم اس تنازع سے باہر آنے کے قریب ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ جو پاکستانی قوم نے کرکے دکھایا یہ کہیں اور ممکن ہی نہیں تھا، ہم نے زخم سہے، قربانیاں دیں، ہمارے 70 ہزار لوگ شہید ہوئے، پورے ملک میں خون بہا ہے لیکن ہم اس تنازع سے کافی حد تک باہر نکل گئے ہیں اور اگلا مرحلہ ہمارا لوگوں کو نفرت کے پرچار سے روکنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نفرت کے پرچار کی پہلی اسٹیج انتہاپسندی اور دوسری اسٹیج دہشت گردی ہے لیکن دہشت گردی کا بیچ انتہا پسندی میں بویا جاتا ہے، لہٰذا جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے ہم ایک نظام کے تحت آگے بڑھے ہیں اور ہم نے قانون کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے میں بات چیت یا بحث ایک بنیادی شرط ہے لیکن ہمارے یہاں شدت پسند طبقے کا یہ نقطہ نظر ہے کہ ہم نے بات چیت ہی نہیں ہونے دینی، جو میری رائے ہے بس وہی حتمی ہے جو بحث کرے اس پر فتوے جاری کروائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ایک رائے تب ہی بن سکتی ہے جب دوسرے کو بولنے کی اجازت دیں گے لیکن یہاں ریاست کا کردار بہت اہم ہے، کوئی ریاست کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ دوسروں کی آزادی سلب کریں۔
فواد چوہدی کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کا مطمع نظر ہے کہ انہیں ہر چیز کی آزادی ہے لیکن ایسا نہیں ہے، ہر کسی کی آزادی کی ایک حد ہوتی ہے اور اس سے دوسرے کی آزادی سلب نہیں ہونی چاہیے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے ہاں قوانین ہے، ان پر عملدرآمد کروانا ایک چیلنج رہا ہے کیونکہ جو ہمارے سیاسی و سیکیورٹی حالات اسے پورا نہیں کر رہے تھے لیکن اب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان قوانین کو نافذ کریں اور کسی کو نفرت انگیز تقریر کی اجازت نہیں دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے غیرملکی میڈیا پر نفرت انگیز بیانیے کو کافی حد تک ریگولرائز کیا ہے اور ہم نے عام میڈیا پر اس طرح کے بیانیے کو کافی حد تک کنٹرول کرلیا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک میکانزم تیار کرلیا ہے جہاں ہم سوشل میڈیا پر بھی نفرت انگیز بیانیے کو کنٹرول کرپائیں گے کیونکہ ڈیجیٹل میڈیا عام میڈیا پر ٹیک اوور کررہا ہے لہٰذا ضروری تھا کہ ہم اسے ریگولرائز کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پمرا) لارہے ہیں، جس کا مقصد پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے لیے قوانین نافذ کرسکیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ ضروری تھا کہ ہم سوشل میڈیا کو مانیٹر کرسکیں، وہاں جو جعلی اکاؤنٹس ہیں انہیں پکڑ سکیں اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ رواں ہفتے کچھ ایسی گرفتاریاں ہوئی ہیں، جنہوں نے سوشل میڈیا کو فتویٰ دینے، دھمکیاں دینے اور نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے والوں کے لیے استعمال کیا اور آنے والے ہفتوں میں اس پر سخت کریک ڈاؤن کریں گے اور ہم سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بیانیے کی اجازت نہیں دیں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا طاقت کا اختیار صرف ریاست کا ہے اور کسی فرد کو اس کا اختیار نہیں دے سکتے اور ہم جلد ایک بڑا کریک ڈاؤن کا آغاز کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان آرہے ہیں اور سعودی عرب کا وژن 2030 بھی انتہا پسندی کے خلاف ایک بہت بڑا موقع فراہم کرتا ہے۔