مجھے اس ویک اینڈ موقع نہیں ملا کہ اس موضوع کے علاوہ (کئی دوسرے موضوعات جو آج کل زیرِ بحث ہیں )۔ اس پر تفصیلی تبصرہ کرسکتا ۔ بہرحال اس موضوع پر تھوڑا بہت کہنے کی کوشش کروں گا ۔
نذیر ناجی نے جو لکھا اور جن نکات پر بات کی۔ وہ بلکل درست سمت میں ہیں ۔ حکومت کی طرف سے واویلا کہ اس ڈرون حملے کے نتیجے میں مذاکرات سبوتاژ ہوگئے تو یہ بلکل غلط بیان ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کے پاس کوئی بنیاد ہی نہیں تھی کہ طالبان کے ساتھ مذکرات کریں ۔ یعنی ایک طرف کوئی ایسا تاثر موجود نہیں تھا کہ مذاکرات کی حتمی شکل کیا ہوگی ۔ اور دوسری طرف پاکستان اور پاکستان کے آئین سے منحرف شرائط کے ساتھ طالبان مذاکرات کرنے پر بضد تھے ۔ پاکستان کے آئین کے ساتھ انحراف اور پھر اپنی خود ساختہ شریعت کا نفاذ ان کے ایجنڈے کی اولین ترجیحات ہیں ۔ اور انہی شرائط پر وہ مذاکرات پر آمادہ ہورہے تھے ۔ اب نہیں معلوم کہ حکومت ان بنیادی شرائط پر کس طرح ان سے مذاکرات پر راضی ہوئی یا خود حکومت نے ان کو پیشکش کی تھی ۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔
یہ بات سمجھ آنی چاہیئے کہ طالبان اصل میں وار لارڈز ہیں ۔ امن اور شانتی سے ان کا دور دور تک واسط نہیں ہے ۔ جو لوگ ان کو خوارج گرادانتے ہیں ۔ میری دانست میں یہ اصطلاح بھی غلط ہے ۔ خوارج کے اغراض و مقاصد اور محرکات دوسری نوعیت کے تھے ۔ طالبان بہت حد تک تاتاریوں سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ جن کا مقصد صرف بربریت اور دہشت پھیلانا تھا ۔ اختلاف کا واحد حل قتل و غارت میں تھا ۔ اگر طالبان کے طرزِعمل اور کاز کو دیکھیں تو تاتاریوں سے مختلف نہیں معلوم ہوتے ۔ ماسوائے اس کے کہ یہ مذہب کی آڑ میں بربریت اور قتل و غارت کا بازار گرم کیئے ہوئے ہیں ۔ شریعت کے نفاذ کو اپنی جنگ کا ماخذ بناتے ہیں ۔ اس کے علاوہ طالبان صرف ایک تنظیم کا نام نہیں بلکہ اس کے کئی دھڑے ہیں ۔ جو اپنے اپنے منصوبے کے مطابق ملک بھر میں کاروائیاں کرتے ہیں ۔مگر حقیقت میں سب ایک ہی ہیں ۔ چرچ پر حملے کی ذمہ داری کوئی اور قبول کرتا ہے ۔ اور کوئی دوسرہ گروہ ا سے لاتعلقی ظاہر کرتا ہے ۔ مساجد اور مزاروں پر حملوں پر کوئی تیسرا گروہ اٹھ کر سامنے آتا ہے ۔ اور دوسرے اس سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہیں ۔
زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں پر انہوں نے حیات تنگ کی ہے ۔ ملک کے ایک حصے پر باقاعدہ قبضہ کیا ہوا ہے ۔ اور وہاں حکومت کی رٹ چلنے نہیں دیتے ۔ پاکستانی افواج کو باقاعدہ نشانہ بنا کر ان پر وار کرتے ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ملک کے جس حصے پر حکومت کی رٹ قائم نہیں اور فوج وہاں قدم نہیں رکھ سکتی تو کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ دراصل وہ حصے پاکستان کے تسلط میں نہیں ہیں ۔ وہاں پاکستان اور پاکستان کے آئین کی باقاعدہ خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ یعنی ریاست میں ایک اور ریاست کا قیام عمل میں آچکا ہے ۔ تو حکومت کن بنیادوں پر کہتی ہے کہ ان علاقوں پر ڈورن حملے ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف ہے ۔ جن علاقوں پر آپ کی اپنی ہی رٹ نہیں قائم تو وہاں کوئی بھی اپنی ترجیحات کے مطابق اقدام کرسکتا ہے ۔ پاکستان کے ان حصوں پر ڈورن حملے ہوں جہاں پاکستان کی حکومت قائم ہے تو اعتراض سمجھ آتا ہے ۔ مگر جہاں آپ کی چلتی ہی نہیں اور نہ ہی وہ علاقے آپ کے تسلط میں ہیں تو پھر اس سے پاکستان کی سرحدوں کی خود مختاری اور سالمیت کیسے متاثر ہوسکتی ہے ۔
بہرحال ایک برا آدمی مارا گیا ۔ اس کی جگہ ایک اور برا آدمی آجائے گا ۔ یہ بربریت اور قتل و غارت کا طوفان نہیں رکے گا ۔ اس کے لیئے مذاکرات ناکافی ہونگے کہ ایک دھڑا آج کسی حکمت عملی کی وجہ سے مذاکرات کر لیتا ہے تو دوسرے دھڑے اپنی کاروائیاں جاری رکھیں گے ۔ اس کے لیئے انتہائی ٹھوس اقدام کی ضرورت ہے ۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ حکومت کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ ان عفیریتوں سے نمٹ سکے ۔ ڈورن حملے طالبان اور القاعدہ کا ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ اور اس میں جو بے گناہ اور معصوم جانیں ضائع ہوتیں ہیں ۔ ان پر ہم سب کو افسوس ہے ۔ مگر یہ بدبخت ان کو ڈھال بناکر رکھتے ہیں ۔ ڈورن حملوں کے نتیجے میں معصوم جانوں کے ضیاع اور ان بدبختوں کےمعصوم لوگوں کے قتل وغارت کے اعداد و شمار اکٹھا کیئے جائیں تو زمین و آسمان کا فرق ملے گا ۔
نذیر ناجی نے جو لکھا اور جن نکات پر بات کی۔ وہ بلکل درست سمت میں ہیں ۔ حکومت کی طرف سے واویلا کہ اس ڈرون حملے کے نتیجے میں مذاکرات سبوتاژ ہوگئے تو یہ بلکل غلط بیان ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کے پاس کوئی بنیاد ہی نہیں تھی کہ طالبان کے ساتھ مذکرات کریں ۔ یعنی ایک طرف کوئی ایسا تاثر موجود نہیں تھا کہ مذاکرات کی حتمی شکل کیا ہوگی ۔ اور دوسری طرف پاکستان اور پاکستان کے آئین سے منحرف شرائط کے ساتھ طالبان مذاکرات کرنے پر بضد تھے ۔ پاکستان کے آئین کے ساتھ انحراف اور پھر اپنی خود ساختہ شریعت کا نفاذ ان کے ایجنڈے کی اولین ترجیحات ہیں ۔ اور انہی شرائط پر وہ مذاکرات پر آمادہ ہورہے تھے ۔ اب نہیں معلوم کہ حکومت ان بنیادی شرائط پر کس طرح ان سے مذاکرات پر راضی ہوئی یا خود حکومت نے ان کو پیشکش کی تھی ۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔
یہ بات سمجھ آنی چاہیئے کہ طالبان اصل میں وار لارڈز ہیں ۔ امن اور شانتی سے ان کا دور دور تک واسط نہیں ہے ۔ جو لوگ ان کو خوارج گرادانتے ہیں ۔ میری دانست میں یہ اصطلاح بھی غلط ہے ۔ خوارج کے اغراض و مقاصد اور محرکات دوسری نوعیت کے تھے ۔ طالبان بہت حد تک تاتاریوں سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ جن کا مقصد صرف بربریت اور دہشت پھیلانا تھا ۔ اختلاف کا واحد حل قتل و غارت میں تھا ۔ اگر طالبان کے طرزِعمل اور کاز کو دیکھیں تو تاتاریوں سے مختلف نہیں معلوم ہوتے ۔ ماسوائے اس کے کہ یہ مذہب کی آڑ میں بربریت اور قتل و غارت کا بازار گرم کیئے ہوئے ہیں ۔ شریعت کے نفاذ کو اپنی جنگ کا ماخذ بناتے ہیں ۔ اس کے علاوہ طالبان صرف ایک تنظیم کا نام نہیں بلکہ اس کے کئی دھڑے ہیں ۔ جو اپنے اپنے منصوبے کے مطابق ملک بھر میں کاروائیاں کرتے ہیں ۔مگر حقیقت میں سب ایک ہی ہیں ۔ چرچ پر حملے کی ذمہ داری کوئی اور قبول کرتا ہے ۔ اور کوئی دوسرہ گروہ ا سے لاتعلقی ظاہر کرتا ہے ۔ مساجد اور مزاروں پر حملوں پر کوئی تیسرا گروہ اٹھ کر سامنے آتا ہے ۔ اور دوسرے اس سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہیں ۔
زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں پر انہوں نے حیات تنگ کی ہے ۔ ملک کے ایک حصے پر باقاعدہ قبضہ کیا ہوا ہے ۔ اور وہاں حکومت کی رٹ چلنے نہیں دیتے ۔ پاکستانی افواج کو باقاعدہ نشانہ بنا کر ان پر وار کرتے ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ملک کے جس حصے پر حکومت کی رٹ قائم نہیں اور فوج وہاں قدم نہیں رکھ سکتی تو کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ دراصل وہ حصے پاکستان کے تسلط میں نہیں ہیں ۔ وہاں پاکستان اور پاکستان کے آئین کی باقاعدہ خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ یعنی ریاست میں ایک اور ریاست کا قیام عمل میں آچکا ہے ۔ تو حکومت کن بنیادوں پر کہتی ہے کہ ان علاقوں پر ڈورن حملے ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف ہے ۔ جن علاقوں پر آپ کی اپنی ہی رٹ نہیں قائم تو وہاں کوئی بھی اپنی ترجیحات کے مطابق اقدام کرسکتا ہے ۔ پاکستان کے ان حصوں پر ڈورن حملے ہوں جہاں پاکستان کی حکومت قائم ہے تو اعتراض سمجھ آتا ہے ۔ مگر جہاں آپ کی چلتی ہی نہیں اور نہ ہی وہ علاقے آپ کے تسلط میں ہیں تو پھر اس سے پاکستان کی سرحدوں کی خود مختاری اور سالمیت کیسے متاثر ہوسکتی ہے ۔
بہرحال ایک برا آدمی مارا گیا ۔ اس کی جگہ ایک اور برا آدمی آجائے گا ۔ یہ بربریت اور قتل و غارت کا طوفان نہیں رکے گا ۔ اس کے لیئے مذاکرات ناکافی ہونگے کہ ایک دھڑا آج کسی حکمت عملی کی وجہ سے مذاکرات کر لیتا ہے تو دوسرے دھڑے اپنی کاروائیاں جاری رکھیں گے ۔ اس کے لیئے انتہائی ٹھوس اقدام کی ضرورت ہے ۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ حکومت کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ ان عفیریتوں سے نمٹ سکے ۔ ڈورن حملے طالبان اور القاعدہ کا ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ اور اس میں جو بے گناہ اور معصوم جانیں ضائع ہوتیں ہیں ۔ ان پر ہم سب کو افسوس ہے ۔ مگر یہ بدبخت ان کو ڈھال بناکر رکھتے ہیں ۔ ڈورن حملوں کے نتیجے میں معصوم جانوں کے ضیاع اور ان بدبختوں کےمعصوم لوگوں کے قتل وغارت کے اعداد و شمار اکٹھا کیئے جائیں تو زمین و آسمان کا فرق ملے گا ۔
آخری تدوین: