٥٠ کیلومیڑ ہر خوبصورت وادیِ پِشین ہے جہاں پہاڑوں میں سوراخ کرکےانگوری باغوں کے لئے پانی حاصل کیاگیا ہے۔ یہاں سیب، انگور، آلو بخارہ، آڑو اورخوبانی کی پیداوار ہوتی ہے۔ جھیل سےشام کو واپس آ کرہم نے کیفے بلدیہ میں مقامی بکرے کےگوشت سے تیار کیا ہوابہترین پُلاؤ کھایا۔
سورج کی پہلی کرن سے پہلے ہم لوگ منی وین میں سوارتھے - تھوڑ١ فاصلہ تہہ کرنے کے بعد شہر کی گہماگہمی اور کھچا کھچ ختم ہوگی لیکن سڑک مصروف رہی۔ کار، ٹرک، بائسکل، رکشا ، گدھاگاڑیاں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ہماری وین ہندو کش پرچڑھ رہی تھی۔ ہندوکش کا شمار پاکستان کےاونچے پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے ایک مقام ہراسکی اونچائی ٢٥ ہزار فیٹ سے زیادہ ہے۔ ہماری سڑک سانپ کیطرح قدم قدم پر بل کھاری ہے۔ اور یہ لگاتاہےکہ بس کےڈرایئور کی ایک غلطی اورہم اللہ سے باتیں کررہے ہونگے۔
اچانک ہمیں ہرطرف خیمے ہی خیمےنظر آتے ہیں۔ یہ سرحدی شہراسپن بلڈوک ہے۔ اسکےاردگرد میلوں تک خیموں کا شہرآباد ہے۔ افغانستان کے ہزاروں مہاجرخاندان ان خیموں میں رہ رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر ریمشان اُداس ہوگی۔ یہاں پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں ملتی ہیں -
سڑک جو اب تک پکی تھی۔ یہاں سےگڑھوں کا ایک مجموع بن گی ہے۔ ہرقدم پر ہماری منی وین اُچھل رہی ہے اور ہمارا سر اُسکی چھت سےٹکرا رہاہے۔ دھول اُڑ رہی ہے اور درجہ حرارت ١٢٠ ڈگری ہے۔ سڑک کےدونوں طرف ہر قسم کی گاڑیوں کے ڈھانچےنظر آتے ہیں جو ہمیں حطرناک روڈ اور ایکسیڈینٹ کا احساس دِلاتے ہیں-
تین بجےہم قندھار کےاطراف میں تھے۔ ریمشاں بہت خوش تھی ۔ وہ مجھے اپنا شہردیکھانا چاہتی تھی۔ ہم نےاس کےگھر کی طرف جانے کےلئےلمبا راستہ لیا۔
کابل کےبعد قندھار افغانستان کا بڑا شہر ہے ۔ اسکی آبادی ٢٥٠ ہزار ہوگی۔ یہ دنبہ، اُون، کاٹن، غذا، اناج ، تمباکو، تازہ اورخشک پھلوں کی تجارت کا مرکز ہے۔ اسکا انٹرنیشل ائرپورٹ اسکو کابل، حیرات، کوئٹہ اور روس کے پرانی مملکتوں سےملاتا ہے -
٤ صدی ب س میں الکیزینڈردی گریٹ قندھار آیا۔ہندوستان اور ایران میں اس کی ملکیت پر جنگیں ہوئیں کیونکہ قندھار وسط ایشیا کے تجارتی راستہ پر ہے۔ ٧ صدی میں عربوں نے قندھار کو فتح کرلیا۔ ١٠ صدی میں ترکی کےغزنووں نےاس پر حکمرانی کی۔ ١٢ صدی میں چنگیزخان نےاس شہر کو تباہ کردیا۔١٤ صدی میں ایران کے تِیمُور نے منگولوں کو شکست دی - ١٦ صدی میں بابر نےقندھار کومُغل سلطنت میں شامل کرلیا۔ شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں قندھار میں پیدا ہوئ تھی۔ نیا قندھار احمد شاہ بابا دُرانی نے بسایا۔ قندھار ١٧٤٨ سے١٧٧٣ تک افغانستان کا دارلسلطنت تھا۔ ا حمدشاہ بابا دُرانی موجودہ افغانستان کا بانی تھا۔ اسکا لقب دارِدُرانی ( موتیوں کا موتی ) تھا یہ لقب اسکو اس افغانستان کے روحانی بزرگ پیرصابرشاہ نےدیا۔ احمد شاہ دُرانی نے ١٧٤٧ سے لیکر١٧٧٢ تک بادشاہت کی۔ احمد شاہ دُرانی نے نیا قندھار ایک چوکونے کی طرح بنایا۔ چرسق چوک شہر کے درمیان میں ہے۔ جہاں چارخاص بازار ملتے ہیں۔ کابل بازار پرجامع موی مبارک ہے۔یہ مسجد جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ رسول صلم کے بال اس مسجد میں موجود ہیں۔ دوسرے طرف حیرت بازار مشرق کیطرف جاکر شہیدان چوک پر ختم ہوتا ہے۔ یہاں پر ایک توپ اور یادگار بنی ہے۔
]ہم نےآفریدی اور خٹک کوشاہدان چوک پراتاردیا وہ دونوں نورجہاں ہوٹل میں ٹھہریں گے۔
ریمشاں نے ڈرایئور کو شمال کی طرف مڑنے کو کہا ۔
“ یہ شاہ بازار ہے۔ یہاں قندھار کی سب سے خوبصورت بلڈنگ ہے، یہ ہمارے جدید افغانستان کے بانی کا مقبرہ ہے۔اس کے اٹھ کونے کتنےاچھے لگتے ہیں۔“
“بھائ جان یہ دیکھئے اس درگاہ شریف زیارت میں حضور صلم کاایک لبادہ ہے جو کہ بخارہ کےامیر نے بابا دُرانی کو تحفہ میں دیا تھا۔“
“ کیا اُسے عام لوگ دیکھ سکتے ہیں۔“ میں نے پوچھا -
“ نہیں بھائ جان۔ میں نے نانی سے سنا تھا کے کہ انہوں نے٢٠ سال کی عمر میں اس کو دیکھا تھا۔ اب محافظوں کےعلاوہ اس کو دیکھنے کا اعجاز صرف طالبان کے مُلا عمرکو ملا تھا“
“ چلیں چیہلزنہ دیکھیں “
“وہ کیا ہے؟ “ -
وہ ایک غار ہے جو چالیس سیٹرھیوں کی اونچائ پر ہے۔ وہاں سے آپ سارے شہر کو دیکھ سکتے ہیں۔“
“ وہ کہاں ہے؟“
“ ہم اب شہیدان چوک پرہیں - وہ مشرق میں چار کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ سیڑھیاں چٹانوں کو کاٹ کربنائی گی ہیں “۔
“ دیکھے بھائ کتنا پیارا نظارہ ہے نا“
“ اب میں آپ کو قبرستان لےچلتی ہوں“ ۔ اس نےڈرایئور کو شمال کی طرف مڑنے کو کہا۔
“ وہ کیوں؟“
“ یہاں میرے مجاہدین دفن ہیں - جن پر مجھ کو فخراور ناز ہے“ ۔ ریمشاں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
“ یہاں طالبان اور القاعدہ کےممبر دفن ہیں۔ یہاں ایک عورت اور 80 غیرملکی مرد دفن ہیں جنہوں نے قندھار کےائر پورٹ اور اسپتال کونارتھ الائنس اور امریکوں کے قبضہ سے بچانے کے لئے جان دے دی“۔
“ بھائ آپکو پتہ ہے۔ انہیں موقع تھا کہ چلے جاتےاور انہیں پتہ تھا کہ ٹھہرے توموت لازمی ہے وہ جمےرہے اوراپنی جان دے دی“ ۔
“ مجھے پتہ ہے میں یہاں تھی“ ۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔
میں نے اپنےرومال سےاسکی بھیگی آنکھیں صاف کیں۔
“ نانی کہتی تھیں اس قبرستان کی راکھ میں شفا ہے“ ۔ ریمشاں نے جھک کرتھوڑی مٹی اٹھائی اور میرے ہاتھوں میں رکھ دی۔
“ اب ہم میرےگھرچلتے ہیں۔“ اُس نے تھکی ہوئی آواز میں کہا۔
ریمشاں نے مجھے جھنجوڑیاں دے رہی تھی۔
“بھائی جان ناشتہ کا وقت ہو گیا “ ۔
میں جاگ گیا۔
“ میں آپ کے لئے بازارسےناشتہ لائی ہوں ۔“
میں نے باہر جاکر بہتے پانی میں منہ دھویا اور کُلی کی۔
ناشتہ کےبعد ہم دیوڑھی میں آئے۔ ریمشاں ٹوٹی ہوئی جھولا کرسی میں بیٹھ گی۔
“ یہ میری نانی کی کرسی ہے۔“ اس نے افسردہ لہجے میں کہا۔
“ اور میں یہاںان کے پیروں کے پاس بیٹھتی تھی۔“
میں نے اس کےطرزِکلام میں تبدیلی محسوس کی ۔ جیسےوہ ٹرانس میں ہو۔ اسکی آواز بدل گئی۔
“ ریمی بیٹا ، میرے کو سردی لگ رہی ہے۔ میری ٹانگوں ہرچادرڈال دو“
“ جی نانی جی میں ابھی لائی“ ۔
“ میں بہت بوڑھی ہوں اور میں شاید جلد ہی اللہ کوپیاری ہوجاؤں - میں آج تمہاری ماں کی کہانی تمہیں سنناتی ہوں“ ۔
“ مجھے محسوس ہوا کہ یہ ریمی نہیں ہے“ ۔
. ٭٭٭
" تم بلکل ویسی ہی لگتی ہو جیسی تمہاری ماں تھی جب وہ بارہ سال کی تھی وہ بھی ان باغوں میں اپنی سہیلی جویریہ کے ساتھ تمہاری طرح سارا دن آنکھ مچولی کھیلتی تھی - وہ دیکھو وہ جویریہ کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ دونوں بہت ہی اچھی دوست ہیں ۔ جویریہ کےگھر کی دیوارہمارے گھر سےملتی ہے۔ یہ دیکھو یہ درمیانی دیوار میں سوراخ ہے۔ یہ تمہاری ماں اور جویریہ نے بنایا ہے - رات ہوگی ہے جویریہ کے ابا سوگے ہیں ۔ وہ سوراخ کے ذریعہ ہماری طرف آجاتی ہے اور وہ دونوں ایک بستر میں لیٹ کر گھنٹوں باتیں کررہی ہیں۔ جویریہ کی ماں اورمجھے پتہ ہے مگر ہم نےان کےاباؤں کو نہیں بتائیں گے۔
وہ دیکھو وہ جویریہ کا بڑا بھائی حسن ہے ۔ وہ عمر میں کافی بڑا ہے۔ اس نے پشاور دیکھا ہے۔ وہ میری بیٹی اور اپنی بہن کو پشاور کے قصےسنارہا ہے۔ انہیں شہر کی باتیں سننا کر سُہانے خواب دیکھلاتا ہے۔ مجھے یہ لڑکا بلکل پسند نہیں۔ مگرجویریہ کو اس کے قصوں کو سننےمیں مزا آتا ہے “ ۔
“آج میری بیٹی اسکول سے واپس نہیں آی - بہت ڈھونڈا مگر اسکا نشان نہیں ملا۔ حسن کا بھی پتہ نہیں تھا۔“
آج میری بیٹی کا خط آیا ہے۔ پتہ نہیں وہ کہاں ہے؟ -
دیکھو ریمی بیٹا ، میں نے یہ سب خط تمہارے لئے سنھبال کر رکھے ہیں۔
وہ مجھےاب خط کیوں نہیں لکھتی ۔
آج میری بیٹی لوٹ کرگھر آگی - مگرتواتنی بیمار کیوں ہے؟
یہ کون ہے؟ یہ تو میری پوتی ہے۔ بیٹی تم مجھ کو دو سال کی لگتی ہو۔
نانی ، وہ میری ماں کو زمین میں کیوں چھپا رہے ہیں ؟“
ریمی کپکپا رہی تھی۔ میں نے سفری تھیلے سےکمبل نکال کر اس پر پھیلا دیا۔
جب میں اردگرد دیکھ کر واپس لوٹا تو وہ جاگ گی تھی اور مکان سے دور بیٹھی تھی۔ مجھےدیکھ کر وہ میری طرف دوڑی۔
“بھائی جان۔ آپ مجھے اکیلاچھوڑ گے۔ اب کبھی ایسا نہ کرین۔ وعدہ کریں“
“ میں وعدہ کرتا ہوں ۔ کیوں کیا ہوا“۔
“مجھےلگا ہے کہ ماں اور نانی کی روحیں گھراندر ہیں۔
“ تم ُان سے ڈرتی کیوں ہو۔ وہ تو تمہاری ماں اور نانی ہیں“-
“ نہیں میری ماں اور نانی مرچکی ہیں“ اس نے مصومیت سے کہا۔
“اچھا - بتاو تمہاری نانی کا انتقال کب ہوا۔“
“ جس رات انہوں نے مجھے ماں کےخط دیئے۔ میں نے ان کو صبح اس جھولا کرسی پر مرا پایا“۔
“ تمہارے یہاں کوئی رشتہ دار ہیں “
“نہیں - نانی کہتی تھیں کہ سب لڑایئوں اور بم باریوں میں مرگئے۔“
“ اور تم نے نانی کی موت کے بعد کیا کیا“۔
“ میں ایک قافلے کے ساتھ پاکستان چلی گئی“
“بھائی جان “
“کیا؟“
“واپس چلیں مجھے یہاں ڈر لگتا ہے۔“
ماں ایک سال ہوگیا میں نےبابا اورتم کونہیں دیکھا۔ مجھ پتہ ہے کہ ماں میں نےتجھ کو بہت دکھ پنہچایا ہے۔ حسن نےمجھ سے کہاتھا کہ وہ اورمیں پاکستان جاکرشادی کرلیں گے۔ میں اس کےدھوکےمیں آگئی۔ جب ہم پشاور کی سرحد پر پہنچےتواس نےمجھےایک عورت کےساتھ بھیج دیا اور کہا کہ میں بازار سےسامان لےکرآتا ہوں۔
وہ دن اور آج کا دن میں نےاس کونہیں دیکھا۔ ماں میں اب آپ کو اپنا منہ نہیں دیکھنے کےقابل نہیں رہی۔ میں اب پاک نہیں ہوں ماں۔ مجھ کومعاف کردو-
ہمیں قندھارسےلوٹےہوئے دو دن ہوئے تھے۔ ریمشاں، ڈاکٹرجمیلہ کی طیبی نگرانی میں تھی۔
میرے فون کی گھنٹی بجی۔
“ کیا ریمشاں آپ کےساتھ ہے”۔ ڈاکٹرجمیلہ نے پوچھا۔
“ نہیں۔ کیا ہوا۔ وہ توآپ کے پاس تھی”۔ میں گھبرایا۔
“ میں آفس سےگھر آئی تو وہ یہاں نہیں تھی۔ گھر کی دیکھ بھال کرنےوالی نےبتایا کہ بی بی جی نےایک گھنٹہ پہلےٹیکسی منگوائی تھی“۔
میں نےٹیکسی کی تفصیلات لے کرآفریدی کےدفترمیں کال کیا۔
“ گھڑ بڑ ہوگی”
“ کیا”۔ آفریدی نےسوال کیا
“ ریمشاں گھر سے بھاگ گی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ پشاور کا رُخ کرےگی۔ کیاپشاور میں اس وقت اپنےلوگ ہیں؟”
“ ہاں”
“ ٹیکسی کا اڈے ، افغانستان کی سرحد اور مہاجروں کے کیمپ پر اپنے آدمی لگا دو۔ اور جیسے ہی کوئ اطلاع ملے بتانا “
“ ٹھیک ہے”۔ آفریدی نے کہا-
میں سکینہ کےدفتر کوکال کرنےوالا ہی تھا کہ سکینہ میرے دفتر میں داخل ہوئ۔
“ وہ لڑکی بےوقوف ہے۔ ڈاکٹرجمیلہ کی کال آئ تھی“۔ سکینہ نےغصہ میں کہا۔
میں نے کوہاٹ اور پشاور کےڈی۔آئ۔جی پولیس سےذاتی درخواست کی ہے کہ وہ اس کوڈھونڈنےمیں میری مدد کریں”۔
“ ارے اپنی زبان سنھبالیے۔ آپ میری بہن کو بےوقوف کہہ رہیں ہیں”۔ میں ہنسا۔
“ تو پھر کیا کہوں؟ وہ اسے کام کیوں کرتی ہے؟” سکینہ نےمعصومیت سے کہا۔
“ تم اس کو پگلی کہہ سکتی ہو۔ وہ بیمار ہے” میں نے ہنس کر کہا۔
“ میں یہ خبرسن کر بہت پریشان ہوں”۔ سکینہ نے کہا۔
“ اس سے پہلے کہ وہ کسی خطرے میں پڑے ہم اس کو تلاش کرلیں گے”۔ میں نےسکینہ کو تسلی دی لیکن میرا دل بھی ڈوب رہاتھا۔
٭٭٭
رات کے ایک بجے فون کی گھنٹی بجی۔ آفریدی کی کال تھی۔
“ پشاورکی پولیس کومعلوم تھا کہ وہ کہاں ہوگی۔ وہ عبدل غفارخان کےحویلی پرتھی۔ ریمشاں، سرحد پراپنےآپ کو بیچ چکی تھی۔ خریدار، عبدل غفارخان کےلوگ تھے۔ بڑی مشکل سےچارگنا قیمت پرواپس کرنے پرتیار ہوئے۔ ہم اسے ڈاکٹر صاحبہ کےگھر لےجارہے ہیں”۔ آفریدی نے کہا۔
میں نےسوچا کےننھی کواس وقت سہارے کی ضرورت ہوگی۔
“ میری بات کراسکتے ہو”۔ میں نے کہا-
“ ہاں” آفریدی نے ریمشاں کو فون دیا-
“ریمشاں۔ تم میری پیاری ننھی ہو ، میں تم سے بالکل ناراض نہیں ہوں۔ ہم کل صبع ملیں گے”۔
“ اچھا بھائی جان”۔ اس کی آواز میں اجنبیت تھی۔
عبدل غفارخان کا شمار پشاور کے معزز لوگوں میں ہے۔ ان کی پہونچ حکومت کےتمام اداوں میں ہے۔ اور پولیس کمشنراورنظام اعلٰی ان کےحلقہ احباب میں ہیں۔ وہ بہت کی نمازی اور پرہیزگارسمجھےجاتے ہیں۔ آپ تسبی کوان سےجدا نہیں کرسکتے۔ ان کی حویلی شہر سے باہر ہے- وہ افغانی نابالغ لڑ کےاور لڑکیوں، اور عورتوں کی تجارت کرتے ہیں۔
عبدل غفارخان کےایجنٹ ان کی لڑکیوں کو کئی طریقےسے حاصل کر تے ہیں۔ جب کم عمر بچےاور بچیوں والی افغانی فیملی سرحد پر پہنچتی ہے عبدل غفارخان کےایجینٹ اس فیملی پرنگاہ رکھتےہیں۔ وہ اس فیملی کو کیمپ میں جگہ لینے میں مدد کرتے ہیں۔ ایک ایجینٹ یہ ظاہر کرتا ہے کے وہ ان کی ایک لڑکی سےشادی کرناچاہتاہے اور پیسوں کے بدل وہ اس پر تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ شادی جھوٹی ہوتی ہے اور لڑکی عبدل غفارخان کی حویلی میں منتقل کردی جاتی ہے۔ کچھ بچوں کواغوا کیاجاتا ہے کچھ کوخریدلیاجاتا ہے۔ وہ غریب ماں باپ جن کے چھ سات بچے ہوتے ہیں اپنے ایک بچے کو پیسے کے لیے بیچ دیتے ہیں۔ بعض خوبصورت بالغ لڑکیوں کو روزگاری دلانے کے بہانےحویلی پہنچا دیاجاتا ہے۔
نیلام گھرمیں اس مال کوعمر، خوبصورتی، اور کنوارنا پن کےمطابق تقسیم کیاجاتا ہے۔ ہراتوار یہ نیلام ہوتا ہے۔ پاکستان کا امیرطبقہ ان لڑ کے، لڑکیاں اورعورتوں کوجنساتی غلام بنانے کے لیےخریدتے ہیں۔ کچھ تاجر، ان کو پنجاب اور کراچی کےطوائف خانوں کےلیےخریدتے ہیں۔ نوجوان خوبصورت لڑکے، بچیاں اورعورتیں مشرق وسطی والےخریدار اپنےشیخوں کے لیےخریدتے ہیں جوان کو جنساتی غلامان کی طرح رکھتے ہیں۔ خریدنےوالوں میں یورپ کےطوائف خانوں کے بھی تاجرہوتے ہیں - پاکستان کی منڈی سے یہ مال ہرسال ہزاروں کی تعداد میں دوسرے ملکوں کو برآمد کیاجاتا ہے۔اس مال میں پاکستانی، افغانی، ایرانی، بنگلادشی، فلیپینی، برمی اور تھائی مال بھی شامل ہے۔
ماں
میں ننگی ہوں - ایک عورت مجھے پردئے کے پیچھے سے اسٹیج پردھکیلتی ہے۔ماں ، کمرہ مردوں سے بھرا ہے۔ میں اپنے کوچھپانے کی کوشش کرتی ہوں۔ مگر کہاں اور کیسے ؟ میرا کندھا اس عورت کی جکڑ میں ہے۔ میں ایک ہاتھ سےاپنا اوپراور ایک ہاتھ سے نیچے کا حصہ چھپانے کی کوشش کرتی ہوں۔ ایک مرد ، عورت سے کہتا ہے کہ اس لڑکی کے ہاتھ ہٹاؤ۔ وہ میرے ہاتھ جھٹک دیتی ہے۔ دوسرا مرد کہتا ہے اس کوموڑو۔ایک مرد پوچھتا ہے کیا یہ کنواری ہے۔ عورت بلند آواز میں کہتی ہے۔ یہ دونوں طرف سے کنواری ہے۔
ایک ہزار۔۔۔ دو ہزار۔۔۔ تین ہزار۔۔۔ چار ہزار۔۔۔
پانچ ہزار ایک - پانچ ہزار دو - بانچ پزار تین۔ بولی بند۔
ماں تیری بیٹی کی عصت کی قیمت پاکستان میں صرف پانچ پزار رو پیہ ہے۔
تیری بیٹی
٭٭٭
ڈاکٹرجملیہ نےدروازہ کھولا۔
“ ریمشاں نہا رہی ہے۔ چائے بنواؤں” اور بغیرجواب کا انتظار کےگھر کی دیکھ بھال کرنےوالی کوناشتہ تیار کرنے کو کہا”۔
“ یہ ریمشاں کا معاملہ ، کیا ہوا”۔ میں نےسوال کیا۔
“ وہ کل صبع تک بالکل ٹھیک تھی”۔ ڈاکٹرجمیلہ نے کہا۔
“ تمہارا کیا خیال ہے”۔
“ وہ اپنے عمل سےخود کوخطرے میں ڈال رہی ہے۔ اس لیے میں آپ کو بتارہی ہوں۔ مگریہ آپ تک رہےگیا”۔ڈاکٹر کی نظریں اُس دروازے پرتھیں جو باتھ روم کی طرف جاتا ہے۔
“ وہ اپنی ماں کے کے خط پڑھ رہی ہے۔ اوراُس سفر پرجانا چاہتی ہے جواُس کی ماں سے زبردستی کروایا گیا تھا”۔
ہال سے قدموں کی آواز آئ اور ہم دونوں خاموشی سےچائے پینے لگے۔ ریمشاں نے کمرے میں دا خل ہوکر مجھےسلام کیا اور خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گی۔
میں اپنی کرسی سےاُٹھ کراس کےنزدیک والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
“ کیا میری بہن مجھ سے پیار نہیں کرتی”
“ میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔ مگرمجھے پتہ ہے کہ آپ کیا کہیں گے”
“ کیا“۔ میں نےشرارتی لہجہ میں پوچھا۔
“ تم نے ہم سب کوڈرادیا۔ تم نے یہ بیوقوفانا حرکت کیوں کی؟ اپنےآپ کوخطرے میں کیوں ڈالا؟ تمہارا مقصد کیاتھا۔ جانتی ہوتم کیا کر رہی تھیں۔ اگرتم کو کچھ ہوجاتا۔۔۔ ” ریمشاں خاموش ہوگی۔
“ تم رات ٹھیک سے سوئیں۔ میں تو تم سےصرف یہ پوچھنے والا تھا”۔ میں نےاس کی گردن کو سہلاتے ہوئے پیار سےکہا۔
“ جی بھائی جان”
“ اب تم نے بات کی ہے تو بتاو کیا تمہاری ماں نےساتھ ایساہوا تھا”۔
“ اس کو حسن نے5 ہزار روپے میں بیچ دیا تھا۔ اس کی انکھوں سےآنسوں کے دوقطرے نکل کرگالوں سے پھسلنے لگے
“ تم وہی سفر کرناچاہتی ہو جوتمہاری ماں سے زبردستی کروایا گیا۔ میں آج شام تم کواسی جگہ لےجاؤں گا جہاں عورتوں اور بچوں کی تجارت ہوتی ہے“ میں نے کہا۔
“ ہاں۔ میں ہر وہ چیز خود کرناچاہتی ہوں۔ جومیری ماں سے زبردستی کروائی گی”۔
“ یہاں سے ہمارا راستہ جدا ہوجاتا ہے۔ ”
“ وہ کیوں ابھی ابھی تو آپ نے کہا تھا۔۔۔ ”
میں نے ریمشاں کا جملہ کاٹ دیا” میں نے کہا تھا تم وہی سفر کرنا چاہتی ہو جو تمہاری ماں سے زبردست کروایا گیا۔ کیا میں نے کہا کہ خود ؟”
“ جی نہیں “۔
“ یہ سفر تم کو میری حفاظت میں کرنا گا۔ اور تم اس کو دیکھوگئ ، محسوس کروگی مگراس کا حصہ نہیں بنو گی۔ تم میری ننھی ہواور تم کو میری بات مانی پڑھےگی۔ اگر منظور ہے تو۔۔۔ ”۔
" منظور۔ میں نےسب کچھ کھودیا ہے۔ آپ ہی تو ایک رہ گئے ہیں”۔
ریمشاں نے میری بات کاٹ دی اور اپنے بازو میری گردن میں ڈال کر اپنا سرمیرے کندہے پر رکھ دیا”۔
پشاور میں شام ہو رہی تھی۔ آفریدی نےگاڑی بڑا روڈ سےخیبر روڈ پرموڑی۔ میں نے ریمشاں کی طرف دیکھا۔ وہ اس لباس اور میک اپ میں ایک عام شکل صورت کا مرد لگ رہی تھی۔ سکینہ نےساری دوپہر اس کومرد بنانےمیں لگادی۔ ایک فلم میک اپ آرٹسٹ سےاس کا مردوں والا نیچرل میک اپ کروایا۔ اس کےبال لڑکوں کی طرح کٹوائے اور رنگ کیا۔ اس کے جسم پر پیڈینگ لگائی تا کہ اس کا جسم مردوں سا لگے۔ یہ سب اس لیے کہ ہم عبدل عفار خان کی حویلی میں جارہے تھے۔ جہاں خریدار مرد ہوتے ہیں اور بچے بچیوں، لڑکے لڑکیوں اور عورتوں کا نیلام ہوتا ہے۔ اور اگر عبدل عفارخان کو یہ پتہ چل گیا کہ خریداروں میں ایک لڑکی بھی موجود تو ہمارا وہاں سے زندہ نکلنا مشکل ہوجائےگا۔ سکینہ بہت فکر مند تھی۔ اس لیے آفریدی کےعلاوہ وہاں ہمارے کچھ دوسرے حفاطت کرنے والے بھی موجود ہونگے۔
اب ہم ائر پورٹ کے سامنے سےگزر رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں صاحب زاد گل روڈ آگیا۔ آفریدی نےگاڑی جمرود روڈ کی طرف موڑی۔
“ ہم اب بھی واپس لوٹ سکتے ہیں” ۔ میں نے ریمشاں سے کہا۔
“ نہیں“۔ ریمشاں نےسختی سے جواب دیا۔
“ تمہیں میری ہدایات یاد ہیں”۔ میں نے پوچھا۔
“ کسی بھی حالت میں بات نہ کرنا۔ کسی حا لت میں آنسونہ بہانا یا رونا۔ کسی صورت میں مجھ سے یا آفریدی سے ایک فٹ سے زیادہ دور نہ جانا۔ کسی صورت میں مجھے یا آفریدی کو مت چھونا ”۔ ریمشاں نےطوطے کی طرح دوہرایا"۔
آفریدی نےگاڑی ایک پرائیوٹ روڈ پرموڑ دی۔ سڑک کے آخرمیں ایک عالیشان حویلی تھی۔ دوردور تک کوئ مکان یا حویلی نہیں تھی۔ دروازے پر دوگارڈ بندوقیں لیےکھڑے تھے ان میں سے ایک نےہم سے کاغذات طلب کیے۔ آفریدی نے ہم سب کے شناخی کاغذات گارڈ کےحوالے کردیے۔گارڈ نےانہیں اپنی لسٹ سے ملاکر دیکھا۔ اس نے کچھ وقت لیا اور میں نےاپنی پشانی پر پسینہ محسوس کیا۔گارڈ نے آفریدی کواندر جانے کا اشارہ کیا۔ دوسرےگارڈ نےگیٹ کھولا۔ ہماری گاڑی اندر چلی اور نےگارڈ نےہمارے پیچھےدروازہ بند کردیا۔ میں نے رومال سے اپنی پیشانی پر سے پسینہ صاف کیا۔ سڑک کےدونوں طرف درخت تھےاور تقربیا سوگز کے فاصلے پرحویلی تھی۔ محل کےدروازے پر پھر سے کاغذات دیکھے گے اور پھر ہم اندر داخل ہوئے۔ ایک خوبصورت ہوسٹیس نےہمارا استقبال کا اور ہمیں ایک کمرے میں لےگی جہاں اندازً بیس یا پچیس میزیں لگی تھیں۔ ہوسٹیس نے ہمیں ایک ٹیبل پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جس پرصرف تین کرسیاں تھیں۔ ہم نے ریمشاں کو اپنے درمیان میں جگہ دی۔
کمرہ کی لمبای اور چوڑائ میں 25 سے 30 فٹ کے برابر لگ رہا تھا۔ کمرے کے بیچ میں اسٹیج تھا۔ میزوں اور کُرسیوں کو اسٹیج کےاردگرد اس طرح لگایا گیا تھا کہ ہرمہمان اسٹیج کو مکمل طور پر دیکھ سکے۔ ایک خوبصورت سی لڑکی ہماری میز پرآئ۔ اس نے مسکرا کر اپنا تعارف کرایا۔
“ میرا نام شرین ہے۔ میں آپ کی ہوسٹیس ہوں”
“ آپ لوگ کچھ پینا پسند کریں گے؟”۔
میں نےتینوں کےلے ٹھنڈا سوڈا آرڈر کردیا۔
جب سب جگاہیں بھرگیں تو دروازے سے ایک عمر رسیدہ شخص داخل ہوا اور اسٹیج کےقریب بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں تسبی تھی۔ وہ تسبی پڑھ رہا تھا۔
آفریدی نےمیری طرف جھک کر کہا“۔ یہ عبدل غفارخان ہے”۔
اسٹیج کے پردے کے پیچھے سےایک صحت مند عورت اسٹیج پرآئ اوراس کےساتھ 20 تقریباً کم عمر بچے تھے جن کی عمریں10 سے 12 سال کےدرمیان ہونگی۔ بچے ایک قطار بنا کر کھڑے ہوگئے۔ ان کےدونوں طرف گارڈ تھے۔ لڑکےخوف ذرہ اور گھبرائے ہوئے سے تھے۔
عورت نے قطار سے پہلے لڑکے کوسامنے آنے کا اشارہ کیا۔ لڑکا اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ ایک گارڈ نے اس کوذرا سا دھکادیا۔ لڑکا سہما سہما آگے بڑھا۔
5 ہزار روپیہ ایک ، کمرے میں کئی ہاتھ اٹھے۔
5 ہزار ایک سو، ایک ۔ہاتھوں کی تعداد کم ہوگئ۔
5 ہزار ایک سو، دو ۔ تین ہاتھ اوپر رہ گئے۔
5 ہزار دو سو، ایک۔ ایک ہاتھ اوپر رہ گئے
5 ہزار دو سو، دو۔
5 ہزار دو سو، تین ۔
گارڈ نے بچے کی قمیض پرخریدار کی میز کا نمبرلکھ دیا۔
سب سے بڑی بولی 5500 تک پہونچی
ایک خریدار نے5 بچے ایک ساتھ خریدے۔
آفریدی نے دھیرے سے کہا۔ یہ مشرق وسطی کاخریدار ہے۔
اس طرح ایک کے بعد ایک بچوں کا نیلام ہوا۔
اب کم عمر لڑکیوں کی باری تھی۔ 10 سے 12 سالہ خوف ذدہ لڑکیاں کمرے داخل ہوئیں۔ بولی 7000 ہزار پرشروع ہوئ۔ اور 15 منٹ میں تمام لڑکیاں بک چکی تھیں۔
کمرے میں اب ایک زیادہ عمر کی لڑکی داخل ہوئ اس کی عمر شاید 15 سے 16 سال ہوگی۔ بولی 8000 شروع ہوئی۔
کسی نے کہا “ مال دیکھاؤ”۔ عورت نےلڑکی کو کرتہ اتارنے کو کہا۔ جب لڑکی نےحکم نہیں مانا۔ گارڈ نے اسکےہاتھ پکڑ لیےاور عورت نے قینچی سےاس کی قمیض کاٹ دی۔ لڑکی نے اپنی چھاتی کو ہاتھوں سے چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ قیمت اب 9000 تک پہونچ گئی۔
اور دیکھاؤ۔گارڈ نے پھرہاتھ کو پیچھے کر کے پکڑ لیا۔ عورت نےبڑھ کر لڑکی کی شلوارگرادی۔ لڑکی نےایک ہاتھ سی چھاتی اور دوسرے سےسامناچھپا نے کی کوشش کی۔ وہ رو رہی تھی۔ عورت نےاس کو زبردستی موڑا اور اس کی گردن پکڑ کر اس کو کمر کے بل جھکا دیا۔
“ کیا یہ کنواری ہے۔ ”
“ ہاں “۔ عورت بولی۔
10000 ایک۔۔۔
10000 دو۔۔۔
10000 تین
میں نے ریمشاں کی طرف دیکھا۔ اس نےدھیرے سے کہا " بھیا میں اُلٹی کرنے والی ہوں”۔ میں نےفوراً اس کا ہاتھ ایک طرف سے پکڑا اورآفریدی نے دوسری طرف سےاور ہم ہوا کی طرح سےحویلی سے باہرتھے۔ ریمشاں نےحویلی کے باہر اُلٹی کردی۔
“ کیا ہوا؟”۔ ایک گارڈ نے پوچھا۔
” میرے دوست کی طبیت خراب ہوگی۔ ہم لوگ اگلے ہفتہ آئیں گے”۔ آفریدی نےگارڈ سے کہا۔
ریمشاں سارا راستہ اپنے ماں کا نام لے کر روتی رہی۔
ماں۔ میں ایک اندھیرے کمرے میں ہوں ، میرے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہیں۔ میرا ایک پاؤں چار پائ کےسیدھی طرف اور دوسرا الٹی چارپائ سے بندھاہے میرے منہ پرٹیپ لگی ہے۔ مرد ایک کے بعد ایک آتےہیں۔ میں تکلیف سے چیغتی ہوں مگرمیری آواز منہ سے باہرنہیں نکل سکتی۔ ماں اتنا درد ہےاورمیں چلا بھی نہیں سکتی ماں
۔
پُرانےلاہور کی چار دیواری کےاندرشمالی حصہ میں تین اور چارمنزلوں کی عمارتوں سے بنی ہوئ ایک بستی ہے جس کا نام شاہی محلہ ہے مگریہ جگہ ہیرا منڈی کےنام سے بھی جانی جاتی ہے۔ کہاجاتا ہے کےایک زمانےمیں یہاں فنکار رہتےتھے۔ میں اور ریمشاں الفیصل ہوٹل کےریسٹورانٹ میں بیٹھےچائے پی رہے ہیں۔ یہاں کھانےمیں دال، سبزی، دبنہ اور بکری کا سالن اور روٹی ملتی ہے۔ کمرہ مردوں سے بھرا ہے۔ یہ جگہ روشنی گیٹ کےقریب ہے۔ سڑک پر ٹھیلے والےگنے کا رس بیچ رہے ہیں۔ کچھ ٹھیلوں میں آموں سے بھری ہوئ بالٹیاں ہیں۔ ریسٹورانٹ میں عورتوں کےبیٹھنے کی جگہ کےاردگرد پردہ ہے - الفیصل ہوٹل فورٹ روڈ پرواقع ہے۔ فورٹ روڈ مسجد سےگزرتا ہوا روشنی گیٹ پرختم ہوتا ہے یہاں سےاندرونی شہر کےلوگ حضوری باغ میں داخل ہوتے ہیں پھروہ بادشاہی مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں یا عالمگیر دروازے کےذریعےقعلہ میں جاسکتے ہیں۔ یہاں سےفورٹ روڈ قعلہ کی دیوار کےساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہاں پر رکشہ، موٹراور بائسیکل کوٹھیک کرنےوالوں کی دوکانیں ہیں۔ حجام فٹ پاتھ پربیھٹے لوگوں کے بال کاٹ رہے ہیں۔چوک کےدوسری طرف شرفاء کا محلہ شروع ہوجاتاہے۔
ہم یہاں چار دن سے ہيں۔ دن میں ہم لاہور کےمختلف سیرگاہوں میں گھوتےہیں اورشام، ہیرا منڈی میں گرازتے ہيں۔ ریمشاں ہمشہ برقعے میں ہوتی ہے تاکہ لوگ اس کی طرف توجہ نہ دیں اور ہم اندرونی علاقہ میں نہیں جاتے۔ ہر روز کی طرح آج بھی آفریدی تحقیق کرنےچلا گیا۔ وہ ہرروز گلیوں میں گھومتا ہے اور کنجریوں سےگفتگو کرتا ہے۔ اس کا مقصدایسی طوائف کو تلاش کرنا ہے جو پندرہ ، بیس سال پہلےیہاں کام کرتی تھی –
پاکستان میں عورت اورمرد کا بغیرشادی کےہم بستری کرنا قانونی طور پرجرم ہے۔ لیکن جیسے ہی رات ہوتی ہے ہیرا منڈی جوکہ دن میں ایک عام تجارت کا بازار ہے اب جسموں کی تجارت کا بازار بن جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ چکلہ نےبہت فروغ پایا۔ اس وقت چکلوں میں خوبصورت عورتوں گاہک سےہم بستری کم کرتی تھیں انکے ساتھ بیٹھ کران سے ادب، شاعری اور فنون لطیفہ پرباتیں زیادہ کرتی تھیں ، اس کےعلاوہ مجرا یا ناچ کرنےوالی عورتیں امیروں کا دل ناچ کرلبہا تی تھیں ۔ طوائف کوٹھا اس زمانے میں زی عزت جگہ سمجھی جاتی تھی جہاں پرامراء ، تعلیم یافتہ اور شریف خاندان کےلوگ اور روشن خیال طبقہ اپنے لڑ کوں کلاسیکل موسیقی ، اردو شاعری آداب اور تہذیب سیکھنے بھیجتا تھا۔ ان کوٹھوں میں سے کچھ پر مصنف ، موسیقار اور ادیب تخلیقی خیالات کے لیے جمع ہوتےتھے۔ یہ ایک لذائذ نفسانی اور خوشیوں کی دنیا تھی۔ ان جگہوں کی طوائفیں مال دار، با رسوق اور اعلي عہدے کے لوگوں کی معاشوقہ بن جاتی تھیں۔ یہ طوائفیں اعلی درجہ کی طوائفیں کہلاتی تھیں۔ ان کے نیچے کی دوسرے درجہ کی طوائفیں تھیں جن کی کیفالت کرنے والے ملازم پیشہ اور کم مال دار لوگ تھے۔سب سے نیچلا درجہ ان طوائفوں کا تھا جن کی کمائی کا ذریعہ جسم بیچنے پر محدود تھا۔ آج کا ہیرا منڈی صرف جسموں کی تجارت ہے۔
پردے کے پیچھےسے کسی نے کھانس کر کہا"۔ میں عدنان ہوں صاب"
عدنان ہمارا ہیرا منڈی کا گائیڈ تھا۔ اصل میں عدنان ایک بھڑوا ہے جو رنڈیوں کے لےگاہک لاتا ہے۔ " صاب ۔ میں نے ایک پرانی مائی کو تلاش کر لیا ہے جو30 سال پہلےیہاں کوٹھہ چلاتی تھی- اب وہ صرف اپنی لڑکیوں کی مائی ہے۔ ہمیں تببی گلی میں جانا ہوگا"۔ عدنان خاموش ہوگیا۔
" اچھا کام کیا ، چلو" ۔
" صاب کیا بی بی جی کا آنا ضروری ہے"-
" کیوں"۔ میں نے سوال کیا۔
" صاب بڑی خراب جگہ ہے"۔
" کیا مطلب"۔ میں پوچھا۔
" صاب ہرطرف چور ، لٹیرے اورخراب عورتیں ہیں" –
میں نے آفریدی اور کٹک کی طرف اشارھ کیا۔" وہ دونوں کی جیب میں پستول ہیں اوروہ یہاں ہماری حفاظت کے لئے ساتھ ہیں"۔
تببی گلی میں جانے کے کئ راستے ہیں۔ ایک راستہ تکسالی گیٹ سے ہے۔ ہم الٹے ہاتھ دو دفعہ مڑے اور اب ہمارے سامنے بلڈنگوں کےدرمیان ایک پتلی اور لمبی گلی تھی جس کےدونوں طرف چھوٹے راستےتھے۔ سسّتے میک اپ میں بنی سجی عورتیں دروازوں سے ٹیک لگائے کھڑی تھیں۔ ہم کھلےدروازوں سے پلنگوں پرلیٹی ہوئ عورتوں کودیکھ سکتے ہیں۔ کجھ جوان عورتیں اپنےسہلیوں سے باتیں کررہی تھیں اور ساتھ ساتھ کولھو مٹکا رہی تھیں۔ عدنان کی وجہ سے کسی نے ہماری طرف توجہ نہیں دی۔ ان کے لئے ہم عدنان کےگاہک تھے۔
ہم ایک گلیارا میں مُڑے اور ایک بلڈنگ میں داخل ہوئے ۔
عدنان نے کہا۔" صاب ، دوسری منزل پراوراسکا نام نازیہ ہے"۔
میں نےاپنے بٹوے میں سےایک ہزار کا نوٹ نکال کرعدنان کو دیا"۔
" شکریہ صاب، نازیہ 5 ہزار پر راضی ہوئ ہے"۔
میں اور ریمشاں سیڑھیاں چڑھ کراوپر پہونچے ۔
دوسری منزل پرایک ادھیڑ عمرکی عورت نے ہم سےملی جس کا نام نازیہ ہے ۔ اس کی چال اور چہرہ سے پتہ چلتا تھا کہ ایک زمانے میں اس کے کوٹھے کے سامنے لائن ہوتی ہوگی اور اس نے ہزاروں دل توڑے ہوں گے۔
نازیہ کےساتہ ہم سامنے کے کمرے میں داخل ہوئے۔ کمرے میں نازیہ نےاسکی4 لڑکیاں سےملوایا جن کی عمریں تقریباً 10 سے 18 سال کے درمیان ہوں گی۔ ایک عمر رسیدہ عورت بھی کمرے میں موجود تھی۔ یہ میری ماں ہیں۔ اس نے کہا۔
بیٹھتے ہی نازیہ کا پہلا سوال تھا ۔" میرے 5 ہزار "۔
میں بٹوے سےہزار ہزار کے5 نوٹ میز پر رکھ دیے۔
نازیہ نےنوٹوں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
" اتنی جلدی نہیں" ۔ ریمشاں نےاپنا ہاتھ نوٹوں پر رکھ دیا۔
" تم ہیرا منڈی میں کب سے ہو؟"
" میں پیدا ہی یہاں ہوئی تھی۔ ایک زمانےمیں میری ماں کا شاہی محلہ میں اپنا جھرونکا تھا۔ اس گلی میں تو ہم حالات تبدیل ہونے کے بعد آئے "۔
" لڑکیاں جو باہر ملکوں کو بھیجی جاتی ہیں۔ ان کے متعلق پتہ ہے تم کو؟
"ہاں میری ماں ۔ پشاور جاکرلڑکیاں لاتی تھی ۔ان لڑکیوں کا کنواری ہونا بہت ضروری تھا۔"
ریمشاں نے اپنے پرس میں سے اپنی ماں کی ایک میلی سے تصویر نکال کرنازیہ کودیکھائ ۔
نازیہ نےتصویر کو کچھ دیردیکھا اور اپنی ماں کی طرف بڑھادیا۔ اسکی ماں نےاپنا چشمہ صاف کرکے تصویر کو دیکھااور پھر ریمشاں کی طرف دیکھا۔ اس نے پھرتصویرکوغورسےدیکھا اورتصویرنازیہ کودے دی ۔
" پہچانی" - نازیہ نےماں سے سوال کیا ۔
" ہاں یہ وہ ہی تو ہے جواپنی ماں کو یاد کر کے ہروقت روتی رہتی تھی"۔ نازیہ کی ماں نے کہا۔
" میرا خیال بھی یہ ہی ہے۔ یہ وہ ہی ہے" ۔ نازیہ نے کہا۔
" مجھے بتا کیا ہوا؟" ریمشاں نے بے تاب ہو کر کہا۔
" ہم نےاس کوشادی کرنےدوبئ بھیج دیا"۔
" کیا مطلب؟"
" کنواری لڑکیوں کی دوبئ میں بہت بڑی قیمت ہے۔ شیخ ان لڑکیوں کےلئےلاکھوں روپےدیتے ہیں۔ وہ ان سےایک دن کے لئے شادی کرتے ہیں ۔"
" اس کے بعدان لڑکیوں کا کیا ہوتا ہے؟" میں نےغصہ سے پوچھا۔
" اگران کے بچہ ہوجائے توشیخ ان کوماہانہ لگا دیتا ہے ورنہ ایک مقررہ قیمت دے دیتا ہے اوروہ یہاں کے لوگوں سےشادی کرلیتی ہیں"۔
" میں نہیں سمجھا کھ ایک طوائف کیوں شادی کرے گی"۔
" ارے بدھو ، پاکستان اسلامی ملک ہے۔ ہم اگر جسم نیلام لیں تو مجرم ہیں۔ اس لئے متعہ یا نکاح مؤقت کی شادی لازمی ہے۔ میرے یہ تیسری شادی ہے"۔
" میں نہیں سمجھی" ۔ ریمشاں نے کہا۔
میں نے ریمشاں کوسمجھایا۔ اسلام میں تھوڑے عرصے کی شادیاں، جائزشادی سمجھی جاتی ہیں۔ اور مرد اُس عورت کےساتھ سب کچھ کرسکتے ہیں جو کہ طوائف کےساتھ کیاجاتا ہے۔ میں تم کو اسکی تفصیل گھرچل کربتاؤں گا"۔
" تو پھراس لڑکی کا کیا ہوا؟"
" اسےشیخ نے رکھ لیا تھا"۔
" کبھی اس نےتم سےخط و کتابت کی؟"
" وہ اپنی ماں کے لئے خط بھیجتی تھی جوایک لفافے میں رکھ کر ہم اسکی ماں کوڈاک میں بھیج دیتےتھے وہ کچہ عرصہ آئےاور پھر بند ہوگے "۔
" یہ کام دلالوں کی مدد سے ہوتا ہے۔"
" کیا کام"۔
" شادی کا"۔
"ہاں"
" تمہارے پاس اس دلال کا نام ہے؟"
" ارے رحیم یار ۔ ہاں"۔
"رحیم یار کا پتہ؟"
" اسکا آفس مال روڈ پر ہے۔ عدنان جو تم کویہاں لایا ہے اس کو پتہ ہے۔
" نازیہ تم نےایک ہزار اور کمانا ہیں"۔ ریمشاں نےسوال کیا۔
" ہاں وہ کیسے؟"
" میں یہاں تمہارے ساتھ ایک دن اور ایک رات گزارناچاہتی ہوں" ۔
" یہ کیا ہورہا ہے"۔ میں نے ریمشاں سےسوال کیا۔
" بھائی جان ، ہمارا نازیہ سے ملنے کا ایک مقصد یہ بھی تو ہے کہ ماں کی طرح میں بھی یہاں رہ کر دیکھوں"۔
" نہیں" ۔
" ہاں" ۔
" نہیں" ۔
" ہاں" ۔
" تم یہاں کیوں ٹھہرنا چاہتی ہو؟" نازیہ نےپوچھا۔
" بس میں تم لوگوں کی زندگی دیکھنا چاہتی ہوں " ۔ ریمشاں نے کہا۔
" صاحب ، میری دو لڑکیاں ہیں شایداسکی ہم عمرہوں۔ یہ ان ساتھ رہ سکتی ہے ۔میں اور میری لڑکیاں اوراس پرآنچ تک نہیں آنےدئیں گے"۔ نازیہ بولی
میں نےروکہے لہجہ میں کہا۔" میں تم پر کیسے بھروسہ کروں"۔
" صاحب۔ ہم کنجر ہیں ۔ایک زمانہ تھا کہ شہر کے معزز اپنی بیٹیوں کومیرے مجرہ خانے میں کلاسیکل موسیقی، اردو شاعری ، اوراعلیٰ خاندان کےآداب سیکھنے لے لیے بھیجتے تھےاورہاں ہرطوائف اپنا جسم نہیں نیلام کرتی ہے۔ میں ایک نواب کی دوسری بیوی تھی۔ نازیہ ایک نواب کی بیٹی ہے۔ ہمیں اس بیٹی کوہمارا ماحول دیکھنے پر اعتراض نہیں ہے"۔ نازیہ کی ماں بولی۔
" بھائی جان ۔میں مہاجر کیمپ میں اکیلی رہی اور اپنی حفاظت خود کی۔ آپ اطمیناں رکھیں"۔
"مجھےیہ بالکل پسند نہیں"۔ میں نے کہا۔
ریمشاں نےمیری ضرور سے چٹکی لی۔ میری چیخ نکل گی۔ نازیہ، اسکی ماں اور لڑکیاں زور سے ہنس پڑ ئیں۔
ریمشاں نےمیری گردن میں اپنے بازو ڈال کر کہا " میں ناراض ہوجاؤں گی اور کبھی نہیں بولوں گی آپ سے"۔
" ٹھیک ہے یہ میری شرائط ہیں۔ ایک، آفریدی باہرموجود رہےگا ۔سونے کے وقت وہ اندر برآمدے میں چار پائی پرسوئےگا۔دو ، تم موبل فون اپنے پاس ہر وقت رکھوگی۔ میں ایک بٹن کال پروگرام کردیتا ہوں ہے۔ بٹن نمبر ایک آفریدی کا موبل نمبر ہوگا اور نمبر دو میرا موبل نمبرہوگا"
نازیہ، اس کی ماں اور لڑکیاں قہقہہ لگاتےہوئے دوہری ہورہی تھیں۔
" بھائی جان۔ اب جب آپ نے وعدہ کرلیا تو بتادیتی ہوں۔ میں آپ سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوسکتی۔ ہاں لیکن میں ضدی ضرور ہوں اور آپ سے وعدہ لئے بغیر نہیں چھوڑتی"۔
" اور تم سمجھتی ہو کہ مجھے تمہاری چال پتہ نہیں تھی"۔ میں نےقہقہہ لگا کرکہا۔
" بھائی اپنی تعریف آپ کرنا اچھی بات نہیں ہے"۔
" آج کی رات اور کل کا دن۔ کل شام میں آ کر لئےجاؤں گا۔ آفریدی یہاں رہےگا اور میں خٹک کے ہاتھ تمہاری ضروریات کی چیزیں بھیج دوں گا "۔
ریمشاں کوشمیم اور تسنیم سے دوستی کر نےمیں کوئی وقت نہیں لگا۔ اور وہ تینوں چار پائ پر بیٹھ گئیں اورگھل مل کر باتیں کرنے لگی۔ دونوں کی عمروں میں شاید ایک سال کا فرق ہو۔ اور وہ ریمشاں کی ہم عمر بھی تھیں۔ وہ دونوں ہیرا منڈی میں ہی پیدا ہوئ تھیں ۔
شام ہونے لگی اور دونوں نے میک اپ کا سامان نکال کے اپنے چہرے پوتنےشروع کیے ۔
تقریبا ہر15 منٹ بعد ایک مرد اندرداخل ہوتا اور سجی سجای شمیم اور تسنیم میں سے ایک کو پسند کرتا اور وہ دونوں دوسرے کمرے میں چلے جاتے۔ پانچ یا دس منٹ میں وہ دونوں باہر آتےاور مرد اپنی پتلون کے بٹن لگاتا ہوا تیزی سے رخصت ہوجاتا۔ مرد بدصورت ، موٹے اور بڑی عمر کے تھے۔ کچھ میں سے تو عجیب سی بدبو بھی آرہی ہوتی۔
ان گاہکوں کی درمیاں لڑکیوں سے ریمشاں کو پتہ چلا۔ کہ جب نازیہ کے پاس اتنے پیسہ ہوجاتے ہیں کہ وہ پشاور جا کرایک لڑکی خرید سکے وہ خرید لاتی ہے۔ اگر لڑکی معمولی شکل کی ہے تو وہ یہیں کام کرے گی۔ مقامی گاہکوں کو وقت نہیں ہوتا اُن کوتجربہ کار لڑکی چاہیے۔ معمولی شکل کی لڑکیوں کو گاہکوں کے لیے تیار کرنے کے لئے اس کے ہاتھ پیچھے باندھ دیتے ہیں اور ٹانگیں کھول کر پلنگ کے پایوں سے باندھ دیتے ہیں اورگلی کے بھڑوے ایک بعد ایک آتے ہیں اور زنا کرتے ہیں۔ دس بارہ مردوں سےہم بستری ہونے کے بعد وہ کوٹھے پر بیٹھانے کے قابل ہوجاتی ہے۔
" کیا ایسا تمھارے ساتھ ہوا "۔ ریمشان نے پوچھا
" ہاں ، مگر ہم اس گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔اور کسی کو ہمیں باندھنا نھیں پڑا ۔ہم نےتوخوشی سےاور اپنی پسند کےمردوں کےساتھ اپنا کنوارہ پن کھویا۔" شمیم نے ہنس کر کہا۔
" تم کیا ابھی تک کنواری ہو" ۔ تسنیم نے پوچھا۔
" اگرلڑکی اچھی شکل کی ہوتو؟ " ریمشاں نےتسنیم کے سوال کو نظرانداز کردیا ۔
تواس کو ناچنا سیکھایا جاتا ہے۔اور رحیم یار سے بات کی جاتی ہے ۔ رجیم یار ہر تین ماہ کے بعد دوبئ کو ایک ڈانس گروپ بھیجتا ہے ۔ یہ لڑکیاں وہاں اچھی ہوٹلوں میں ٹھہرتی ہیں اور وہاں شام میں ڈانس پروگرام کرتی ہیں اور رات میں ان سے پیشہ کرایاجاتا۔ ایک سال میں وہ اس ماحول میں بس جاتی ہیں۔ ریمشاں کو یہ ممکن نہیں لگا۔ شممیم نے کہا۔ اس نےصرف دو دفعہ ایسا دیکھا کہ لڑکی نےخود کشی کرلی مگر ایسا کم ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ایک لڑکی بھاگ میں کامیاب ہوگی۔