حیوانوں کی بستی ۔ مکمل ناول

تفسیر

محفلین


" اگرلڑکی خوبصورت ہو؟ " ریمشاں سوال دوسرا سوال کیا۔
اگرلڑکی حسین ہو تو اس کے لئے رحیم یار خان خود کسی شیح سےاسکا سودا کرتا ہے۔ یہ لاکھوں والا معاملہ ہے ۔ شیخوں کو کنواری لڑکی چاہیے ۔ وہ ان کو لڑکی کا کنوارہ پن توڑ نا پسند ہے ۔وہ سمجھتے کہ یہ عمل ان کو جوان بناتا ہے۔ اس کے بعد لڑکی باپ سے بیٹے کو ملتی ہے ۔ اور15 یا20 دن میں جب بیٹے کا دل بھر جاتا ہے توشیخ لڑکی کو یہاں واپس بھیج دیتے ہیں۔ اگرلڑکی کے بچہ ہوجائے تو شیخ اس کےتمام اخراجات اٹھاتا ہے۔
ریمشاں نے پوچھا ۔" وہ کیوں ۔شیخ کیوں اخراجات اٹھاتاہے ۔
" اس لئے کہ یہ شادیاں ہوتی ہیں ۔تمہیں نہیں پتہ اسلام میں یہ اصول خاص طور پر بنایاگیا۔ اس کو متحہ کہتے ہیں۔ یہ ہم طوائفوں کو قانون سے بھی بچاتا ہے۔یہ مشرق وسطی میں عام ہے"۔
تم دونوں اچھی شکل کی ہو۔ ریمشاں نے کہا۔ شمیم نےہنس کر کہا میری بہن ہے اس سے پوچھو ۔ مجھے تو صرف ڈانس کے گروپ میں کام ملا۔ اس نے تو شیخ کےساتھ بیس دن گزارے۔
تسنیم نے کہا۔ "ہاں۔ لیکن افسوس ہے کہ میں پیٹ سے نہیں ہوئ۔ ماں کو ماہانہ پیسے ملتے" ۔
" وہ کیوں" ۔ ریمشاں نے سوال کیا۔
" شیخ نےمجھ سے ہم بستری نہیں کی۔ اس نےمیرا کنواراپن اپنے ہا تھ سےتوڑا اس نےکلائ تک اپنے ہاتھ پرچکنائ لگائ اورپھر ہاتھ میرے اندر میں داخل کردیا میں درد سے بےہوش ہوگی۔ دس دن تک میں محل کے ڈاکٹر کی نگرانی میں تھی اور باقی دس دن تک اس محل میں آرام کیا۔ مجھےدنیا کی تمام سہولتیں مہیا تھیں۔ وہ ہر روز مجھے تازہ پھول بھیجتا تھا۔ وہ ابھی تک مجھ تحفے بھیجتا ہے
ایک گاہک نےریمشاں کو کمرے میں چلنے کو کہا۔ مگر تسنیم اسکا گاہک ہاتھ پکڑ کر اپنےساتھ کمرے میں لےگی۔
ریمشاں کی آنکھوں سےآنسوچھلک آئےاور وہ خاموشی سے کھڑکی کے قریب کھڑی ہوگی۔ اس کے دل میں یہ سوال اٹھا۔ کیا کہیں عورتوں کا بھی خدا ہوتا ہے؟

 

تفسیر

محفلین


جب سے ریمشاں ہیرا منڈی سے واپس آئ وہ بالکل خاموش ہوگی۔ میں نےاسکا دل بہلانے کی لئےمیں نے اس کولاہور دیکھانے سوچا۔
لاہور دریاے راوی کے بائیں کنارے پر آباد ہے۔ پرانےلاہور کےتیرا دروازے ہیں ان میں سےایک دروازہ چھوٹا ہےجس کوموری دروازہ کہتےہیں۔ مشرقی دروازے کر دہلی دروزہ کہتے ہیں کیونکہ اس کا ایک رُخ د ہلی کی طرف ہے۔ دروازے کے باہر ریلوے اسٹیشن ہے ۔اسی دروازے کےاندر ایک سیدھی سڑک قلعہ کوجاتی۔ یہاں مسجد وزیرخان اورسرائے وزیرخان اور وزیرخان حمام ہے۔ اکبری دروازہ محمد جلال الدین اکبر کےنام سےموسوم ہے۔یہاں ہر قسم کےغلہ کی منڈی ہے جواکبرمنڈی کہلاتی ہے۔ اب صرف منڈی رہ گئ ہے۔ موتی دروازہ جو کہ موچی دروازہ بھی کہلاتا ہے۔ یہ دروازہ جمعدار موتی رام کےنام سےموسوم ہے۔ موتی رام اکبر کے زمانےمیں اس دروازے کی حفاظت پر تعینات تھا۔ سکھوں کے عہد میں اسکا نام موچی دروازہ میں بدل گیا۔ اب صرف اسکی یادگار باقی ہے دروازہ ختم ہوچکا ہے۔ عالمگیردروازہ ، اورنگ زیب عالمگیر کے بیٹے کے نام سے موسوم ہے۔ دروازہ ختم ہوچکا ہے۔ داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پرمغل حویلی ہے، لال خو اور سادہکرن مسجد محمد صالح ہے۔ اس پتلےبازارمیں دونوں طرف آتش بازی کا سامان فروخت ہوتا ۔ یہاں پرسوسال سےایک کباب اور ایک مٹھائ کی دوکان ہے جولاہوری اسٹائل میں کھانےاور مٹھائ بناتےہیں۔ لہاری دروازہ کام نام لاہور ی دروازہ ہے جو بگڑ کرلُہاری ہوگیا۔ محمودغزنوی نےاس جگہ راجہ جیپال سےجنگ جیتی۔ غزنوی نےشہر کوآگ لگادی اور رعایا کا قتل عام کیا۔ یہ شہر کچھ عرصے تک غیر آباد رہا۔ ملک ایاز کے زمانےمیں شہر کی نئ آبادی اسی محلہ سے ہوئ جس کولاہور منڈی کہتے ہیں۔ موری دروازہ لوہاری اور بھاٹی کے درمیاں فیصل برج کے نزدیک ہے۔ یہ بھی ملک ایاز سے موسوم ہے۔ پنجابی زبان میں موری اس بدررو کو کہتے ہیں جس میں سے پانی گہر کا نکلتا ہو کہتے ہیں۔ مشہور انارکلی کا بازار یہاں پر ہے چٹ خارا ہاوس میں لاہوری اسٹائیل کا کھانا ملتا ہے۔
پہاڑی دروازہ ، بہاٹ کی قوم سے موسوم ہے۔ سرکولر، راوئ روڈ ، لوارمال، موہنی روڈ، بلال گنج اور لوہارہ کی سڑکیں یہاں ملتی ہیں حضرت داتا گنج کا مزارقریب ہے۔ اس چوک پر کھانے پینے کی چیزوں کےاسٹال بھی ہیں ۔ ٹکسالی دروازہ کےاندر ایک زمانےمیں ایک سکہ بنا کرتا تھا۔ روشنائ دروازہ مسجد بادشائ اور قعلہ لاہور کےدرمیان ہے۔اس دروازہ کے اندرونی میدان اور باہر روشنی کی جاتی تھی، اسلئے یہ روشنائ دروازہ کہلایا۔ یہ قعلہ کا بھی دروازہ ہے۔ مستی دروازہ ایک شاہی ملازم کے نام سے مشہور ہے جس کا نام مستی بلوچ تھا۔اب یہ ایک چھوٹا گیٹ ہے۔کشمیری دروازہ کا رخ کشمیر کی طرف ہے ۔یہاں شاید کشمیری آباد کئےگے تھے۔ خضری دروازہ کےسامنےایک زمانے میں دریاے راوی تھا۔ اسلئےاس کودریا کی نزدیکی کی بنا پرخضری دروازہ کہاجاتا تھا۔ اب لوگ اس کوشیروں والا دروازہ کہتے ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کےزمانےمیں ہمشہ دوشیروں کے پنجرے رکھے ہوتے تھے۔ تیرواں ذکی دروازہ المعروف مکی یہ دروازہ پیرذکی شہید کےنام سےمشہور ہے

 

تفسیر

محفلین

"چوتھی منزل"۔ عدنان نےایک سات منزلہ عمارت کی طرف اشارہ کیا۔
بلڈنگ ماڈرن اور خوبصورت تھی ۔
چوتھی منزل پرایک دروازے پر" رحیم یار ٹریڈر" کا بورڈ تھا۔ آفس کے سامنے والے کمرے میں ایک شخص نے ہمیں روک دیا۔
" کس سےملنا ہے"۔ اس نےریمشاں کی طرف دیکھتےہو ے کہا۔
" رحیم یار سے"۔ میں نے کہا۔
" یہاں انتظار کرو" ۔
تھوڑی دیر بعد ایک دروازے سےایک رحیم یار باہر آیا اور ہمیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد اس نےدروازہ بند کردیا۔
" تمہاری بہن" ۔ وہ بولا
" ہاں" ۔ میں بولا۔
" نقاب اٹھاؤ"۔
ریمشاں نے اپنا نقاب اٹھادیا۔
" ٹھیک ہے ۔5 ہزار۔ ایک پیسہ بھی زیادہ نہیں"۔
"مجھےنازیہ نے تمہارا نام دیا تھا"۔ میں نے ہزار ہزار کے5 نوٹ میز پر رکھ دیئے۔ رحیم یار کا منہ کھلا رہ گیا۔ وہ مجھےحیرت سےدیکھ رہا تھا۔
" یہ لڑکی ایک شیخ کے لئے ہے۔ مجھےاس لڑکی کو دوبئ لےجانا ہے۔ کیا تم ٹرانسپورٹ کا انتظام کرسکتے ہو۔ ہم دونوں کے لئے "۔
رحیم یار بولا ۔ " دس ہزار ہوں گے دونوں کے"۔
میں نے ہزار کے10 نوٹ اور میز پر رکھ دیے۔

 

تفسیر

محفلین

کراچی

ریمشاں اور دوسری لڑکیاں ایک اندھیری گلی میں کھڑی تھیں۔ ایک ادھیڑ عورت اور مرد ان کی نگرانی کررہے تھے ۔ایک لڑکی نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی اورادھیڑ عورت نےاتنی زور سےاس کے منہ پر چانٹا مارا کہ وہ سڑک پرگری۔اس کے بعد کسی لڑکی کی ہمت نہیں ہوئ کہ وہ کچھ کہتی۔گاڑی کےانجن کی آواز آئ اور ایک ٹرک گلی میں داخل ہوا۔ ٹرک کےرکتے ہی عورت نے لڑ کیوں کو ٹرک میں دھکیلنا شروع کردیا۔ ٹرک میں سب لڑکیوں کےلیے جگہ کم تھی۔ سب بدن سے بدن لگا کر کھڑی ہوگئیں۔ عورت نے چلا کر کہا اگر کسی نے تھوڑی سی آواز نکالی تو میں اسکا منہ توڑ دوں گی۔ اور ٹرک کا دروازہ بند کردیا۔
ریمشاں کو ٹرک کی اندرونی دیوار کے پاس جگہ ملی۔ اسکی پیٹھ کو دیوار کا سہارا تھا۔ دوسری لڑکیاں ایک دوسرے کےسہارے پر کھڑی تھیں۔ ٹرک کے دھیرے ہونےیا روکنےاور چلنےسےلڑکیاں ایک دوسرے پرگرتیں۔آخر کار ٹرک ایک مقررہ رفتار سےچلنےلگا۔وہ شاید بڑی شاہراہ پرتھے۔
گرمی کےمارے برا حال تھا۔ ٹرک میں کوئ کھڑکی نہیں تھی اور لڑکیاں پسینےمیں نچڑ رہی تھیں۔ سانس لینا دشوار تھا۔ یہاں ٹرک نےاُچھلنا شروع کیا۔ سڑک ناہموار تھی ۔ ٹرک کی دیواریں لکڑی کےتختےتھےاور ریمشاں ان کے درمیان سے باہر دیکھ سکتی تھی۔ پٹوکی اوراکارا کے شہرگزرتے ہوے ساہیوال آیا۔ ساہیوال سےخانیوال تک کی سڑک ٹھیک تھی۔ سڑک کے دونوں طرف جہاں تک نگاہ پہنچتی تھی کھیت ہی کھیت نظر آتے تھے۔ ٹرک شام میں ملتان پہنچا۔ وہ ایک مکان کےسامنے رکے۔ مکان کےاندر عورت کی نگرانی میں دو دو لڑکیوں کوجوڑے کی صورت میں رَفع حاجت کو جانےکی اجازت ملی۔ کھانے کے لیے ایک ملازم نے پتلی دال اور چاول لا کر رکھے ۔
عورت نےریمشاں کو اپنےساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ دوسرے کمرے میں آفریدی بیٹھا تھا۔ اس نےمقامی ہالی ڈے ان کا کھانا ریمشاں کےسامنےرکھ دیا۔ ریمشاں کھانے پرٹوٹ پڑی اور ٹھنڈے پانی کےدوگلاس پی گئی۔آفریدی نے پوچھا ٹھیک ہو۔ ریمشاں نےسرہلایا۔ عورت نےریمشاں کوچلنے کا اشارا کیا۔

 

تفسیر

محفلین

ملتان سےلودھران تک سڑک ہموار تھی۔ خان بیلا، پی۔اس۔او پر ٹرک ڈرائیور نے پٹرول ڈلوایا۔اور رحیم یارخان کی طرف چلا۔ رحیم یارخان میں ٹرک نہیں رکا اور سندھ کی طرف مڑ گیا۔ یہاں سے سڑک کے دونوں طرف لمبےدرخت شروع ہوجاتے ہیں۔ وہ گھوٹکی میں ایک مکان کے سامنے رکے۔ پھر وہی دال چاول۔ اس دفعہ ریمشاں کو دوسرے کمرے میں تلا ہوا گوشت اور سڑک کے کیفےسےلایا ہوا نان ملا۔ یہاں سب نےزمین پرسو کےرات گزاری۔ سکر کا نیا براج بہت خوبصورت ہے۔ سکر کے بعد سڑک کےساتھ ساتھ کھجوروں کےدرخت شروع ہوجاتے ہیں۔ میلوں تک پیلی کھجورں کےگچھےلٹکتے نظر آئے۔ سڑک کے کنارے گدھےگاڑیاں اور ٹریکٹر ٹرالیاں کھجوروں سےلددی چلی جارہی ہیں۔ کوٹ ڈیگی کا قلعہ سامنے سےگزرا ۔ہالےجی اور حیدرآباد سےگزرتے ہوے سڑک پھر ناہموار ہوگی ہے
ہالےجی اور حیدر آباد کے بعد کراچی تک کی سڑک اچھی ہے ۔ آخرسہراب کوتھ سامنے نظر آتا ہے۔اور پھرکراچی شروع ہوگیا۔
شاراع فیصل سےٹرک ایک پل پرمُڑا۔ پہلا اسٹاپ ناظم آباد تھا۔ 5 لڑکیوں کو یہاں اُتاردیا گیا۔ ایک بعدایک جگہ آئ۔ عائیشہ منزل، فیڈرل بی ایریا، نارتھ کراچی، مچھر کالونی اورگلشن اقبال۔ ہراسٹاپ پر لڑکیاں کم ہوتی گئیں۔ آخرمیں ریمشاں رہ گی۔
"چلو اترو ، تمہارہ سفر ختم ہوا"۔ عورت نے کہا
عورت نے ریمشاں کو ٹرک سےدکھا دئے کراتارا۔ ریمشاں کو سمجھ نہیں آیا کہ عورت نےاس کو دکھا کیوں دیا۔ اس عورت کو آفریدی 5 ہزار روپے دئےتھے تاکہ وہ ریمشاں کی حفاظت کرے۔ اور کراچی پہنچنے پر بیچ لگزری ہوٹل پراتاردئے۔

 

تفسیر

محفلین

عورت نےایک بار ریمشاں کو زور سےدکھا دیا۔ ریمشاں زمین پرمنہ کے بل گری۔ اٹھ ، کھڑی ہو حرام زادی جاسوس۔ ریمشاں کے منہ سےخون نکل رہا تھا۔ اس نےاپنی قمیض سےخون پوچھا اوراس سے پہلے کہ عورت ایک اوردکھادیتی وہ اس گھر کی طرف چل پڑی جس کی طرف عورت نےاشارہ کیا تھا۔
کمرے میں چار آدمی تھے۔
" یہ ہے وہ حرام زادی"۔ عورت نے کہا۔
" کیا اِسکا پولیس سےتعلق ہے"۔ ایک عمر رسیدہ آدمی جو تسبی پڑھ رہا تھااس نےعورت سےسوال کیا۔
" ہاں ، بیج دو سالی کو"۔عورت نےزہریلےلہجے میں کہا ۔
" ہم اسے زیادہ دن یہاں نہیں رکھ سکتے"۔ عمر رسیدہ آدمی بولا
ایک آدمی جو تینوں میں کم عمر تھا۔وہ ریمشاں کے قریب آیا اور اسکے اردگرد گھومااور پھراس نےاپنا ہاتھ ریمشاں کےسینہ پر پھرا اوراسکی چھاتیوں کواپنےدونوں ہاتوں سےدبایا۔
ریمشاں نےاس کوچانٹا مارا۔ عورت نےفورا ریمشاں کے ہاتھ پکڑ لیا اوران کومروڑا۔ ریمشاں دوہری ہوگی۔ آدمی نےاسکےدونوں کولھو کو اپنےہاتھوں سےمحسوس کیا۔
ریمشاں نے پیچھےلات مارنے کوشش کی اور وہ منہ کےبل گری۔ اسکی ناک سےخون بہنے لگا۔
" مجھ سے سودا کرلو۔ 8 ہزار “۔ نوجوان نےبولی لگائ
" 9 ہزار " دوسرا آدمی بولا۔
" کم عمر آدمی خاموش رہا "۔
" 10ہزار " تیسرا آدمی بولا۔
" 12 ہزار۔ چھاتی اور کولھے بہت چھوٹے ہیں۔ میں اس سے زیادہ نہیں دے سکتا اوراگر یہ پولیس والی ہے تو وہ اس کےلئےضرورآئیں گے۔ میں ایک دن میں اسےدوبئی بھیج دوں گا" نوجوان نے کہا۔
" تم میں سے کوئ بولی بڑھاناچاہتا ہے"۔ عمررسیدہ شخص نےدوسروں سے پوچھا۔
" میں بڑے نیلام انتطار کروں گا۔ مجھے12 یا 13 سال سے کم کی بنگالن چاہیے۔ ایک مرد نے کہا
" مجھے تھائ لڑکی چاہیے 10سا ل سے کم کی”۔ دوسرا بولا۔
" ٹھیک ہے۔ یہ تمہاری ہے مگرتم اس کوجلد سے جلد کراچی سےنکالو" عمر رسیدہ آدمی نےتسبی پراُ نگلیاں چلاتے ہوئے کہا۔
" ایک رات کے لیےاسے مجھےدے دو۔ ایک ہزار دوں گا "۔ ان تینوں میں سے ایک نے کہا
" نہیں ، شیخ کنواری پسند کرتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے ۔ میرا لگایا پیسہ ذائع ہوجائے گا "۔ نوجوان نے کہا۔
نوجوان نے اپنا بٹوہ کھول کر12 ہزارگننےاور عمر رسیدہ شخص کےسامنےرکھ دیے۔
اس نےریمشاں کو بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔ ریمشاں نےلڑنے کی کوشش کی ۔
نوجوان نےعمر رسیدہ شخص سےرخصت چاہی اور ریمشاں کو دروازے کی طرف دکھیلا۔
ریمشاں نےسٹرک پرچلانے کی کوشش کی۔ نوجوان نےاسکا منہ بند کرکےاس کومسافر کی طرف سےکار میں دھکیل کردروازہ لاک کردیا۔
جب نوجوان گاڑی میں داخل ہوا تو ریمشاں نےاس پر حملہ کردیا۔
" میں تمھارا ساتھی ہوں۔ کراچی پولیس۔ اسپیشل برانچ "۔ نوجوان چلایا۔
" مجھےمیرے بھائ کے پاس لےچلو"۔ ریمشاں چلائ۔
" تمہارا بھائ۔ کیا مطلب تم لاہور کی خفیہ پولیس نہیں ہو؟ " نوجوان سٹپٹا گیا۔
" میرے ڈیپارٹمنٹ کے پیسے" ۔ نوجوان نےغصہ سے کہا۔
" میرا بھائ۔ تم کو دگنے پیسے دئے گا" ۔
" تمہارا بھائ کہاں ہے"۔
ریمشاں نے اسےاپنے بھیا کا موبل نمبر دیا۔
 

تفسیر

محفلین

پولیس افسر نعمان ، آفریدی، میں اور ریمشاں ہوٹل بیچ لگزری کے لان میں بیٹھے تھے۔ ریمشاں سےمیں پوری بات سن چکا تھا۔ اور جس عورت پر ہم نے بھروسہ کیا تھا اسں نے ہمیں دھوکا دئےدیا تھا،
میں نےنعمان کواس کے پیسے لوٹا دیے اور اسکا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔
" ایک مسئلہ ہے"۔ نعمان نے کہا۔
میں نے نعمان کی طرف دیکھا۔
" اگرمیں آپ کی بہن کو واپس نہیں لےجاتا اور دوبئ نہیں پہنچاتا تو میں ان انسانوں کےتاجروں کو مکمل طور ہرپکڑسکتا۔ وہ سمجھ جائیں کہ میں بھڑوا نہیں ہوں اورہم دونوں خفیہ پولیس سے تھے۔ اگرمیں مقامی گروپ کوگرفتار کرلوں تو پورا رینگ نہیں ٹوٹےگا"۔ نعمان نے کہا۔
" تم کہنا کیا چاہتے ہو؟۔" میں نے پوچھا۔
" اگرمیں ریمشاں کواس وقت تک اپنے ساتھ تک رکھنا چاھتا ہوں جب تک کہ مجھےانکے دوبئی کےمکمل رابطےکا پتہ چل جائیں۔ میں ایک پولس افسر کی حیثت سےریمشاں کی پوری حفاظت کا وعدہ کرتا ہوں"۔
" نہیں۔ ریمشاں کےلئےیہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ بھول جاؤ"۔
" دیکھو ریمشاں میں نےتم کو بےعزتی ، بےحرمتی اورایک ظوائف کی زندگی سےبچایا۔ کیا تم نہیں چاہوگی کہ ان لوگوں کا رینگ ٹوٹےاور وہ سب گرفتار ہوں''۔ نعمان نےریمشاں سےسوال کیا۔
" ہاں ، مگر بھائ جان کی مرضی کےبغیرنہیں "۔
نعمان نے میری طرف دیکھا۔
" میرا جواب اب بھی نہیں ہے"۔ میں نے کہا۔
اس سے پہلے کے میں یا آفریدی داخل انداز ہوتےنعمان نے پھرتی سے ریمشاں کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال دی اوراپنی پستول نکال کر کہا کہ ریمشاں ایک سرکاری گواہ ہے اوراس وقت تک پولیس کی خفاظت میں رہ گی جب تک یہ کیس عدالت میں نہیں جاتا۔ پھراس نےاپنےموبیل فون میں کہا۔ مجھے فورا بیچ لگژری پر بیک آپ چاہیے۔
" بھائ۔گھبرائیں نہیں۔ اگر اسے اپنے کیس کی مجھ سے زیادہ پرواہ ہوتی تو یہ مجھےآپ کے پاس نہیں لاتا۔ آپ اس کی بات توسن لیں" ریمشاں نے کہا۔
نعمان نے بتانا شروع کیا۔ ہمیں پتہ کے کس طریقہ سےلڑکیوں کو بنگلہ دیش ، ایران ، افعانستان ، چائینا ، تھائ لینڈ اور برما سے حاصل کرے اسمگلر پاکستان کی سرحد پار کرتے ہیں اور ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ کراچی بیرون دنیا کے لئے انسانوں کی تجارت کا اڈا ہے۔ لیکن ہمیں دوبئی لنک کی مکمل معلومات نہیں ۔ ہم چھوٹی مرغی نہیں پکڑنا چاہتے ہم سور پکڑنا چاہتےہیں۔ ہم پانی کے راستوں ، کشیتوں اوران کےمالکوں کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں ۔ تاکہ ان کوگرفتار کر کےاس رینگ کو ٹوڑا جائے۔ ملک سے باہرہم انٹر پول ایجنسی اور دوبئ کی خفیہ پولیس کے ساتھ کام کررہے ہیں۔میں ایک سال سےاس پرخفیہ کام کررہا ہوں۔ یہ میرے لئے ایک بہترین موقع ہوگا۔
" ریمشاں کو جانے دو ۔ میں کل جواب دوں گا"۔ میں نے کہا۔
" میں ریمشاں کوصرف دوگھنٹےسےجانتا ہوں لیکن مجھےاس کا جواب پتہ ہے وہ آج بھی ہاں ہے اور کل بھی ہاں ہوگا۔اگر اس کے پاس ایسا کرنے کی کوئ خاص وجہ نہ ہواورایک سولہ سال کی لڑکی اپنے آپ کواس خطرناک صورت حال میں نہیں ڈالتی۔ اور تم، تم میری تحقیقات کرنا چاہتے۔ ہم کل ملیں گے "۔نعمان نے ہنس کر کہا۔
نعمان نے ریمشاں کی ہتھکڑیاں نکال دیں۔

 

تفسیر

محفلین

سفر کی تیاری
نعمان کےجانے کے بعدمیں نےسکنیہ کو کال کراسکوتمام تفصیل بتائیں اوراسکونعمان سےمتعلق معلومات دیں-
" کیا تم ایک دن میں ان کی تصدیق کرسکتی ہو؟ میں تمہیں نعمان کی موبل فون کیمرہ سےلی ہوئ تصویر بھیج رھا ھوں"۔
" وہ توہوسکتاہے۔ انٹلیجینس سروس میں کچھ لوگ میرے جاننےوالےہیں ۔اگر نعمان سےمتعلق باتیں تصدیق بھی ہوجائیں ۔ پھر بھی میرا خیال ہے کہ یہ میل جھول ریمشاں کےلیےخطرناک ثابت ہوسکتا ہے"۔ سکنیہ نےاپناخدشہ ظاہر کیا۔
" مجھے پتہ ہے۔ لیکن یہ نہیں پتہ کہ اس کو کیسے رُوکوں گا۔ دوسرے وہ ریمشاں پرغلط الزام لگا ہم سب کو پریشان کرسکتا ہے"۔ میں نےسکینہ کوجواب دیا۔
" میں تمہیں شام میں کال کروں گی۔ اللہ حافظ "۔
"اللہ حافظ"۔
٭٭٭
" چلو کلفٹن چلیں۔ تم نےکبھی اونٹ کی سواری کی ہے" ۔ میں ریمشاں سے پُوچھا۔
" نہیں، میں نےتو نہیں بھائی جان " ۔ ریمشاں نےمعصومیت سے کہا۔
میں نےگیراج سےکرائے کی گاڑی نکالی اور ہم پہلےشہر کی طرف چلے۔ برنس روڈ پر بڑی بھیڑ تھی۔ گاڑی پارک کرنےکی جگہ نہیں ملی۔ میں نےڈی۔جے سائینس کالج کےقریب ایک گلی میں گاڑی پارک کے لاک کردی- اور ہم پیدل برنس روڈ کی طرف چلے۔ جامع کلاتھ مارکیٹ سے گزرتےہوئے ریمشاں نےمیرا کندھا ہلا کر کہا۔ "چوڑیاں ۔بھائی جان مجھےچوڑیاں دلائے ۔ میں چوڑیاں پہنوں گی"۔
" ٹھیک ہے لیکن اپنی پسند سےلینا مجھ سےنہ پوچھنا کہ کونسی پسند ہیں"۔
" نہیں پوچھوں گی۔ مجھےمیری پسند پتہ ہے"۔ ریمشاں نےاترا کے کہا۔
تقریبا بیس پچیس سٹ دیکھنے کے ریمشاں نےہا ر مان لی۔ اس نےبسورتےہوے کہا۔" گاؤں میں تو لال، ہری ، نیلی اور پیلی چوڑیاں ہوتی تھیں۔ اتنے رنگ اور ڈیزائن تو نہیں ہوتےتھے۔ بھائی جان آپ بتائیں نا کونسی لوں"۔
" میں نے کیا کہا تھا؟"
" مجھےتو بالکل یاد نہیں نا۔ آپ بتائیں نا "۔ ریمشاں نے معصومیت سے کہا
" ان سب میں سے چھ ڈیزائن چنو"۔
" مگربھائ جان"۔
" دیرمت کرو"
" یہ والے۔ مگر مجھےان کے رنگ نہیں پسند"
میں نےدوکان دار کی طرف اشارہ کیا۔ ان کو بتاو کہ کس ڈیزائن میں کونسا رنگ چاہیے۔
پندرہ منٹ کے بعد ہم بندوخان کے دوکان پر کگڑے تھے۔ لڑکے نے پراٹھےاور نہاری کا ڈنر باکس یمارے ہاتھ میں دیا اور میں نے اس کی قیمت چُکائی ۔
جب کلفٹن پر پہنچےتوشام ہوگی تھی۔ ہم نےکلفٹن گارڈن میں بیٹھ کر بندوخان کےمشہور پراٹھےاور نہاری کھائی۔ ہم دونوں کےہاتھ چکنائی سے بھرگے۔ ریمشاں نےتھرماس سےگرم گرم چائےنکال کرمجھےدی اور خود کےلیے بھی نکالی۔
" بھائی آپ نے کہا تھا کہ اونٹ کی سواری کریں گے۔ مجھےتوآپ کےعلاوہ کوئی نہیں نظر آرہا "۔
" وہاں دیوار تک جا کرساحل سمندر کو دیکھواونٹ کی بہن" ۔ میں نے ہنس کر کہا۔
" ارے یہ توہہت ہی خوبصورت نظارہ ہے ۔ میں نےدیکھ لیا- وہ رہا اونٹ بان ۔ بھائی جان نیچے چلیں نا آپ ہر کام میں اتنی دیر کیوں کرتے ہیں"۔
تھوڑی دیرمیں ہم سمندر کی گیلی ریت پرچل رہے تھے ۔ ریمشان ایک بچے کی طرح سمندر سے کھیل رہی تھی۔ جب پانی واپس جارہا ہوتا تو وہ اس کو پکڑ نے کےلیےدوڑتی۔ جب پانی ساحل کےطرف لوٹتا تو وہ اس سے بچنے کے لیےساحل کی طرف بھاگتی۔ ایک دفعہ وہ ساحل کی طرف تیز نہیں بھاگ سکی اور لہر نےاس کو پکڑ لیا۔ ریمشاں پانی میں گر کرمکمل بھیگ گئ۔ اس کو یہ اچھا لگا اور پھروہ ساحل کےمتوازی پانی میں بھاگنے لگی۔ میں اس کے لڑکپن کودیکھ رہا تھا - مجھےسادیہ کی بےحدیاد آئی۔
" صاب ، میم صاب۔ آپ اونٹ کی سواری کرے گا"۔
میں نے پیچھےموڑ کردیکھا۔ اونٹ بان نےاونٹ کومیرے قریب بیٹھا دیاتھا۔
"ریمشاں"۔ میں چلایا۔
ریمشاں نےہماری دیکھا اوردوڑتی ہوئی آئ۔

 

تفسیر

محفلین

اونٹ سواری کے بعد میں ساحل سمندر کے کنارے ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ ریمشاں نے پیچھے کھڑے ہو کراپنی باہیں میرے گلے میں ڈال دیں ۔اور اپنی تھوڈی کومیرے سر پر رکھ دیا۔
" بھائی جان ، مجھے پتہ ہے آپ کےدل میں کیا ہے ؟ اور یہ خاطریں کیوں ہیں؟ اور ہم سمندر کے کنارے کیوں ہیں؟" ریمشاں زور سے ہنسی ۔
" اچھا، ایک بھائ کو بہن کی خاطر کرنا منع ہے کیا؟"
" میرا ایک بھائ ہے جو مجھے بہت بہت پیارا ہے ، جسے جب کوئ چیز پریشان کرتی ہے توسمندر کی طرف بھاگتا ہے- آپ اسلئے پریشان ہیں کہ آپ کو پتہ ہے کہ میرے دل میں کیا ہے؟ " ریمشان نےسامنےآ کر میرا ماتھا پیار سےچوما اور آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر کہا۔
" تو سادیہ کی طرح میرا دل کتاب کی طرح کھول لیتی ہے" ۔ میں نے کہا۔
" لو، یہ کیا بات ہوئ ۔ آپ کےدل کا تارا ہوں میں ۔میں تو وہیں رہتی ہوں نا " ۔ ریمشاں شرارت سےکہا۔
" کیا تیرا نعمان کےساتھ جانے کا فیصلہ بدل سکتا ہے؟ " مجھے پتہ تھا کہ اسکا کیا جواب ہوگا۔
" بھائ جان ۔ جو بولیں میں آپ کےلیےکروں گی۔ لیکن آپ کو پتہ ہے کہ میرا زندہ رہنے کا مقصد ایک ہی ہے میں وہی دکھ اٹھانا چاہتی ہوں جو میری ماں نےسہےاوراس راہ پرسفر کرناچاہتی ہوں جس پرمیری ماں کوچلنے پرمجبور کردیاگیاتھا "۔ ریمشاں بسورنےلگی۔
" تم کرتو رہی ہو، میری مدد سے"۔ میں نےجھنجلا کر کہا۔
" بھائ جان مجھےجانےدو"۔ ریمشاں نے میرے بازو پرچٹکی لی ۔
میرے موبل فون کی گھنٹی بجی ۔
" بھائ جان "۔ سادیہ فون پرتھی ۔
" ننھی، تم اتنی صبح" ۔
" ریمشاں کا کال آیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ مدد چاہیے" سادیہ بولی۔
" وہ کیوں؟ میں جو ہوں یہاں" ۔ میں نےحیرت سے پوچھا۔
" اس نے کہا کہ آپ دو ہاتھ کی چٹکیوں سے باز نہیں آو گے۔ چار ہاتھ چاہیں" سادیہ نےقہقہہ
لگایا۔
اچانک میرے سمجھ میں آیا کہ کیا ہورہا ہے۔ دونوں بہنیں میرے خلاف ایک دوسرے سےمل گی ہیں ۔
" ریمشاں صحیح ہے اور آپ کے پاس کوئ چارہ نہیں ہے "۔
" وہ کیسے، میں اس کو کمرے میں بند کرسکتا ہوں۔ پھر کہاں جائے گی؟ "
میں نےدیکھا ریمشان یہ سن کرہنسنے لگی۔
" آپ بھول رہے ہیں کہ نعمان اسکوگرفتار کرسکتا ہے اور اس سے اس کا سفر رک جائےگا"۔ سادیہ نےمجھےیاد دلایا۔
"دوسرے ، آپ سکینہ سےاسکی شناخت کروا رہے ہیں اس طرح ہمیں اس کی نوکری اور کردار کا پتہ چل جائےگا ، تیسرے، ریمشاں کو نعمان پر بھروسہ ہے ۔ چوتھے، آپ اور آفریدی ان پر نگاہ رکھیں گے" ۔ سادیہ نےسنجیدگی سے کہا۔
"اور آخری وجہ ، وہ آپ کی بات نہیں مانےگی۔ میں نےاسےسمجھا کردیکھ لیا"۔
" لگتا ہے توعقل مندہوگئی ہے"۔ میں نےہنس کر کہا۔
" ہوگئی کہاں سے ، جب عقل بٹ رہی تھی میں آپ کےساتھ ہی تو لائن میں کھڑی تھی۔ بھول گئے"۔ سادیہ نےہنس کر کہا۔
" تم سے کون بحث کرے اب Ucla کی اسٹودینٹ ہونا"۔
" یہ تو صحیح ہے ۔ تو پھرمیں ریمشاں کو بتادوں کہ آپ مجھ سےہارگئے؟"۔
" وہ کیوں ۔ کیا میں نہیں بتا سکتا؟"
" بھائ جان۔ آپ فون ریمشاں کودیں اور ساحل سمندر پرچہل قدمی کریں"۔ سادیہ بولی۔
" تم نےمجھ کوڈانٹ پڑوادی" ۔ میں نے منہ بسورتے ہوے فون ریمشاں کو دے دیا –

 

تفسیر

محفلین

سکینہ کی کال رات بارہ بجے آئی ۔
" میں تم کو انفارمیشن فیکس کر رہی ہوں ۔ خلاصہ یہ ہے ۔ بندہ ، 28 سال کا ہے۔ اور سی۔ آی۔ ڈی میں آٹھ سال سے ہے ۔ ہمبرگ یونیورسٹی جرمنی سے کرِمینالوجی میں ڈاکٹر ہے اور پاکستانی انٹرسروس انٹلیجینس نے اسے ٹریننگ دی ہے۔ باپ ، وزارتِ دفاع میں انڈر سیکرٹری ہے ۔ ماں ، وزارتِ انصاف و عدل میں سرکاری وکیل ہے ۔ دوچھوٹی بہنیں ہیں ۔ ایک اسکول اور دوسری کالج میں ۔افسروں کی رائے میں سنجیدہ اور پیشہ ور ہے اور جذبات کے بجائےعقل سے کام لیتا ہے۔ کردار کی جانچ پڑتال سے پتہ چلا کہ صحیح ہے۔ اب تک کئی امتیازی تمخےحاصل کرچکا ہے" ۔سکینہ سانس لینے کےلیے رکی۔
" یہ تواچھی خبر کیونکہ ریمشاں اپنی بات پر اَ ڑھی ہوئ ہے" میں نے کہا۔
" مجھے پتہ ہے ۔تم نےسولہ سال کی لڑکی سےہا ر مان لی"۔ سکینہ نےقہقہہ لگایا۔
" کیا مطلب ؟" میں نےپوچھا۔
" اب بہت ہوشیار مت بنو ۔تمہیں پتہ ہے کہ سادیہ اور میں ایک دوسرے کےکتنےقریب ہیں۔ اگرسادیہ کھانسے بھی تو مجھے بتاتی ہے کہ آج وہ کتنی دفعہ کھانسی"۔ سکینہ نے کہا۔
" شب الخیر"۔
" سہانےخواب "۔ اور سکینہ نےہنس کر بن کردیا۔

 

تفسیر

محفلین

ریمشاں ، آفریدی اور میں میکلوڈ روڈ پر سی۔آئ۔ڈی کی آفس بلڈنگ میں داخل ہوئے۔ فرنٹ لوبی میں ائیر پورٹ کی طرح سےچیکینگ کروا کرہم کھلےحصہ میں پہنچے۔ پولیس وردی میں ایک شخص ہماری طرف بڑھا ۔
" آپ لوگ ڈی۔آجی نعمان سےملنے آئیں ہیں؟"
" میں نےاثابت میں سر ہلایا "-
" میں ان کا پی۔ اے ہوں - کیا میں آپ کے آی۔ڈی کارڈ دیکھ سکتاہوں "
آفریدی اور میں نےاپنےشناختی کارڈ دیکھائے۔
" آپ کا شناختی کارڈ مس ریمشاں "۔ اسے ریمشاں کا نام پتہ تھا۔
" میرے پاس نہیں ہے۔ تم نعمان کو کال کرو" ۔ ریمشان نےرعب سے کہا۔
افسر نےموبل پرایک بٹن دبایا- اور ریمشاں کےحلیہ اورقدوقامت کو بیان کیا۔
" آپ لوگ میرے ساتھ آئے"۔ افسر بولا۔
کئ راستوں اور دروازوں سےگزر کرہم ایک وسیع کمرے میں داخل ہوئے - نعمان نےمیز کے پیچھےسےاٹھ کرہم سب سےہاتھ ملایا۔ اور ہم کوصوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اور پی۔ اے کو چائے لانے کو کہا۔
" آپ نےسکینہ کےذریعےمیرے متعلق سب تصدیق کرلیا ہوگا"۔ نعمان نےہنس کر کہا۔
میں سمجھ گیا کہ اس نےہمارے بارے میں بھی تحقیقات کیں ہیں۔
" دنیا کے بڑے اور سنگین جرائم میں انسانوں کی تجارت تیسرے نمبر پر آتی ہے۔ اس وقت دنیا میں 2 کروڑ 70 لاکھ انسان غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عورتوں کا عالمی بیوپار ایک نیا مسلہ نہیں ہے۔ لیکن اب جرائم کے پیشہ ور نیٹ ورک اس جرم کو کنڑول کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اسحلہ اور ناجائز نشہ ور چیزوں کا بھی کاروبار کرتے ہیں۔ اسلئے ہمارے پاس دو مسائل ہیں۔ عورتوں اور بچوں کے بنیادی انسانی حقوق اور ان کی جانی حفاظت "۔نعمان نے بولنا شروع کیا۔
عورتوں اور بچوں کوجنسیاتی اور مزدوری کےغلام بنانے کی تجارت کا منبع اور نقل و مقام ہے ایشیا میں پاکستان ہے۔
نیپالی، بنگلا دیشی ، ہندوستانی، ایرانی ، برمی، افغانی ، کازخستانی ، کرگز رتانی ، ترکمینستانی ، ازبکستانی عورتیں کو پاکستان لایا جاتا ہے اورانہیں یہاں سے مشرق وسطہ ، یورپ اور امریکہ میں منتقل کیا جاتا ہے۔ جہاں یہ عورتیں جنسی غلامی میں بیچ دی جاتی ہیں ۔
یہ مسئلہ پاکستان کا اپنا اندونی بھی ہے۔جو کہ ہمارے رسم ورواج نے پیدا کیا ہے۔ مگراس سے توتم لوگ واقف ہو۔
یو۔ایس۔اے کےاسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی 2004 کی رپورٹ " انسانوں کا بیوپار" کے مطابق ہرسال 6 سے8 لاکھ عورتیں اور بچوں کا عالمی حدود کے آرپار بیوپار ہوتا ہے۔ان میں سے 70% عورتیں اور 30% بچےہوتےہیں زیادہ ترملظوم کو عصمت فروشی کےلیے بیچااورخریداجاتا ہے۔
پاکستان میں 2002 کا آرڈیننس نےفیڈرل انویسٹگشن ایجنسی کےاندرانسانوں کے بیوپار کے خلاف کےایک یونٹ بنایا ہے اس کوانٹی۔ٹرافکینگ۔یونٹ کہتے ہیں۔ میں آج کل کراچی میں اس کا ذمہ دار ہوں۔
2004 میں ہم نے 479 کیس پر کام کیا، 289 لوگوں کوپکڑا ، 248 کورٹ میں مقدمے کیے اور 72 افراد کوسزا دلوائی۔ لیکن ہم اس منحوسیت کو کم کرنےمیں کامیاب نہیں ہوئےہیں ۔
جس کیس میں اس وقت میں کام کر رہا ہوں اس میں ہمیں امید ہے کہ ہم ایک بڑےگروہ کوتباہ کرنےمیں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ مسئلہ یہ کہ ہرچیزہمارے پلان کےمطابق کام کررہی تھی اورتم لوگ نمودارہوگے۔ اب معاملہ کی نوعیت بدل گی۔اگر ریمشاں اس میں حصہ نہیں لے گی تو مجھےاپنے کواس تحقیقات سےعلحیدہ کرنا پڑےگا اورہمارا اس گروہ تعلق ختم ہوجائےگا۔ اورہم ان کی نگرانی نہیں رکھ سکیں گے" ۔
نعمان خاموش ہوگیا۔ افسر نےداخل ہو کرسب کوگرم گرم چائےدی۔
" میرے پاس تم لوگوں کی پوری رپورٹ ہے اور مجھےاب یہ بھی پتہ ہے کے ریمشاں تمہارا سفر کیا ہے۔ تمہارا بھائی تم کو یہاں سے آگےنہیں لےجاسکتا۔ میں اب تمہارا ہم سفرہوں"۔

 

تفسیر

محفلین

سفر
ماں ۔ میں ایک20 فٹ کےٹین کے ڈبےمیں بند ہوں ۔ دسیوں میری ہم عمر لڑکیاں اس ڈبہ میں بغیرآواز رورہی ہیں دھوپ سےچھت تپ رہی ہے۔ ہم سب پسینےشرابور ہیں۔ انہوں نے کہاہے کہ باہر پہرا ہے اور اگر ہم نےکوئی آوازیں نکالیں تووہ ہمیں جان سےمار دیں گے۔
 

تفسیر

محفلین

ریمشاں نےچھ انچ کی جالی میں سےکنٹینر کے باہردیکھا۔ وہ سب سےاوپر والے بسترے پرتھی۔ ریمشاں سامان اٹھانےوالی بڑی بڑی کرینوں کو بندرگاہ پردیکھ سکتی تھی۔ اور کچھ دورسمندر کا پانی سورج کی کرنوں سےجھلملارہاتھا۔ اسکی شلواراورقمیض پسینےمیں بھیگ کراسکےجسم سی چپک گی تھیں۔ ایسا لگتا تھاجیسےاس نے کپڑے پہنےغسل کیا ہو۔ وہ بالکل ننگی لگ رہی تھی۔ رات ہونےمیں چارگھنٹےاور باقی تھےجوانہیں اس ڈبےمیں گزارنےہوں گے۔ یہ صرف اس کو پتہ تھا۔
نعمان نےاس کو بتایا تھا کہ کراچی سے بلوچستان کا سفر مکران کوسٹل ہائی وے این10 پر ہوگا - کراچی سےگوادہرکی بندرگاہ کا سفر بارہ گھنٹے کا ہے۔ لڑکیوں لاریوں کے ذریع گوادہر کی بندرگاہ پر لےجایا جائےگا اور وہاں ان کوایک کنٹینر میں مقفل کردیا جائےگا۔ رات کےاندھیرے میں کرین اس کنٹینر کو پانی کے ایک جہاز پرلاد دےگی۔اوردوبئی کا سفرشروع ہوگا۔ دو دن کے بعد جہاز پورٹ راشد پر پہنچ جائے گے۔ نعمان نے کہا تھا کہ وہ اس سےدور نہیں ہوگا۔
کنٹینر میں اس کوملا کر40 لڑکیاں تھیں۔ کنٹینر میں دس قطاریں تھیں۔ ہرقطارمیں ایک بنک بیڈ تھا۔ ہر بنک بیڈ پرچار بستر، چار منزل کا بسترخانہ بنا رہے تھے۔ بستر دو دو فٹ چوڑے ، دو فٹ اونچےاور ساڑھے پانچ فٹ لمبے تھےاس کا اندازہ ریمشاں نےاپنےقد سے لگایا۔ ہر بستر کےسرہانےایک چھ انچ کا سوراخ تھا۔ جس پر لوہے کی جالی تھی۔ اس جالی سے ہوا اور کچھ روشنی کنٹینر میں داخل ہورہی تھی۔
ریمشاں نے کھڑکی کے باہر دیکھا سورج نےمغرب کی طرف اپنا سفرجاری رکھا۔سورج ایک نارنگی بن گیا۔ اور اسس رنگ نے بادلوں میں قوس و قزح کا ایک سماں پیدا کردیا ۔ ریمشان نے اندازہ کیا کہ باہرکا درجہ حرارت اب کم ہوگیا ہے ۔ لیکن ڈبہ کی گرمی میں کوئی کمی نہیں ہوئی ۔
ریشماں صرف اوپری منزل کے بستر دیکھ سکتی تھی۔ وقت گرازنےکے لئےریمشاں نےان لڑکیوں کی شہریت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ اس کےدائیں طرف چارلڑکیوں کے بسترتھے اور بائیں جانب پانچ ۔وہ سب مختلف ملکوں سےتعلق رکھتی تھیں- سفید رنگ والی شاید ایران ، افغانستان ، یا صوبہ سرحداور کالے رنگ والی بنگلہ دیش، ہندوستاں اور پاکستان سے ہونگی۔ اسےذیادہ ملکوں اوران کےجغرافیہ کی علمیت نہیں تھی۔ گرمی اور حبس میں کچھ کمی ہونے لگی ۔ باہراندھیرا ہوگیا تھا۔
ریمشاں کو اپنی ماں یاد آئی۔ میری ماں یہاں تھی۔ یہ لڑکیاں اسکی ماں کی طرح ہیں۔ جنہیں کچھ نہیں پتہ ھے کہ وہ کہاں ہیں ، کیوں ہیں اور کہاں لیےجائےجارہی ہیں؟ اس نےاپنی ماں کی بے بسی اور بے چینی محسوس کی۔ ریمشاں نے ایک سبکی لی اور اسکی آنکھوں سےآنسو بہنے لگے۔ ماں، ماں اس نے کہنے کی کوشش کی۔ میں تمہارے پاس ہوں نا ، ماں ۔ تم اب مت ڈرو ۔ میں تمھارے پاس ہوں ماں ۔ اور وہ زارقطار رونےلگی۔
اچانک کنٹینر ہلا اور جھولنا شروع کردیا۔ لڑکیوں نے بستروں کو مضبوطی سے پکڑا۔ مگرخود کو لوٹ پوٹ سے روکنا نا ممکن تھا۔ ریمشاں نے آنسووں کو پوچھ کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ کرین ، کنٹینر کو ایک اونچائی پر لے آئی تھی۔ اوراب جہاز کی طرف لیےجارہی تھی۔ لڑکیاں اب کھڑکی کے باہردیکھ کرخوف میں بستروں سے چپکی تھیں ۔ تھوڑی سی دیرمیں کرین نے کنٹینر کوجہاز کے ڈیک پررکھ دیا۔
کنٹینر نےجیسے پانی کئ جہاز کے ڈیک کو چھوآ جہاز نےچلنا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بندرگاہ سےدور تھے۔ ریمشاں نےمڑ کردیکھا اور بلندآوازمیں کہا
" الوعدہ میرے خدا۔اب ہم تیری ملکیت سے باہرہیں۔ ہم تجھےتیری ذمہ دار سے بری کرتے ہیں ۔ اب توہمارا خدا نہیں ہے ۔یہاں سےحیوانوں کی بستی شروع ہوتی ہے۔ یہاں ہمارے خدا دوسرے ہیں"۔

 

تفسیر

محفلین

دروازہ کھول کرایک مرد نےچلا کرسب کو باہر آنے کا کہا۔ ریمشاں نےدیکھا کہ اس سے پہلے نکلنے والی لڑکیاں ایک مرد کے پیچھےایک کھلےدروازے کی طرف جارہی تھیں۔ اس نےبھی ان کے پیچھےچلنا شروع کردیا اوردروازے میں میں داخل ہوگئی وہ ایک چبوترہ پرتھی اور اس کے سامنےایک منزل نیچےایک کھلی ھوئی جگہ تھی۔ لڑکیاں سڑھیاں اتررہی تھیں ۔ وہ بھی اترنے لگی۔ کمرے میں ایک عجیب سی بدبو پھیلی ہوئ ۔ ریمشاں نے بڑی مشکل سےمتلی کو روکا۔ جب آخری لڑکی سیڑھی اترچکی۔ مردوں نےدروازہ بند کردیا۔
ریمشاں نے ایک مدھم بلب کی روشنی کمرے کا جائزہ لیا ۔ وہ تقریبا سوفٹ لمبےاور بیس فٹ چوڑے کمرے میں تھے۔ اس کےدائیں طرف کمرے کے آخر میں ایک چھوٹا سا کمرا تھا۔ یہ پاخانہ کرنے کی جگہ ہوگی۔اس سے پہلے کہ کسی اور لڑکی کواس کاخیال آتا۔ ریمشاں کمرے کی طرف بڑھی ۔ جیسے جیسے وہ کمرے کے قریب آتی گئی بدبو میں اضافہ ہوتا گیا۔اس نے دروازے کا پردا اٹھا کردیکھا اسکا خیال صحیح تھا۔ ریمشاں اندر داخل ہوئی اور اپنے کوکر رَفع حاجت سےفارغ کیا۔ یہاں ایک ٹوٹا ہوا پانی کا نلکا تھا مگرلوٹا نہیں۔ اس نےاپنےڈوپتے سے کےکنارے سے تین ٹکڑے پھاڑے ایک ٹکڑے سے اپنےآپ کو پُونچھا اور پھر پہلےدوسرا ٹکڑا کو پانی میں گیلا کر کر کے اپنے آپ کو صاف کیا اور تیسرے سے سکھایا۔ ٹوکری اوپر تک بھری تھی۔ ریمشاں نے ڈوپٹے کےگندے ٹکڑوں کو ٹوکری کے اُ بھرتے ہوئے ڈھیر پر ڈال دیا۔
جب ریمشاں باہرنکلی تو پاخانہ کے سامنے ایک لائن بن چکی تھی ۔ پاخانے کےسیدھےہاتھ پر کمبلوں کا ایک ڈھیرتھا ۔ ریمشاں نےلپک کرتین کمبل اٹھا لیےاور کمرے کےاس کونے کا رخ کیا جو پاخانےاورسیٹرھیوں سے بہت دورتھا۔ یکے بعددیگر ے دو لڑکیوں نےاس کی طرف رخ کیا۔
وہ ریمشاں کر قریب آ کر رک گئیں ۔ایک نے اپنا کمبل ریمشاں کر دائیں طرف اور دوسری نے ریمشاں کر بائیں طرف لگا دیا۔ ریمشاں کو ان کا بدن دیکھ کر ایسا لگا جیسے کےوہ دونوں وردیش کرتی ہوں ۔
ریمشاں کی نیند پکی نہیں لگی ۔ تھوڑی تھوڑی دیرمیں اس کی آنکھ کھل جاتی۔ اس نےکسی کے چلانے اور رونے کی آواز سننی اور مردوں کےڈانٹنے کی اور تھپڑ مارنے کی۔ اس نےگھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر دیکھا۔ چار، یا پانچ مرد لڑکیوں سے زبردستی زنا کررہے تھے۔ وہ کیا کرسکتی تھی۔ کچھ بھی نہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ اس نےسیٹرھیوں سےدور جگہ کا انتخاب کیاتھا۔ تھوڑی دیر میں ہنگامہ ختم ہوگیا اورمرد جاچکےتھے۔ کچھ عرصہ بعد اس نے پھرچلانےاور رونے کی ڈانٹنے اور تھپڑ مارنے کی آوازیں سننی۔ یہ سلسلہ رات پر جاری رہا۔اور ریمشاں کانپتی رہی۔ شاید یہ ڈر تھا یا سردی یا دونوں۔

 

تفسیر

محفلین

صبح دروزہ کھلا اورسورج کی روشنی نے کمرے کوچمکا دیا۔ ایک مرد نےاندر آ کر کچھ لڑکیوں کواس کے ساتھ جانے کا اشارہ کیا۔ لڑکیاں ہچکچائیں۔ مرد نےغصہ سےایک کےچانٹا مارا دوسری کے پیٹ میں لات ماری اور تیسری کے بال پکڑ کرسیڑھی کی طرف کھینچا۔ تینوں لڑکیاں روتی ہوئی اس کے پیچھے چلیں دئیں۔ کمرے میں ایک افسردگی چھاگئی۔ شاید ہرلڑکی اپنے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس کے ساتہ کیا ہوگا۔
ایک گھنٹہ بعد ریمشاں نےان تین لڑکیوں کو واپس آتےدیکھا۔ ان کےہاتوں میں بالٹیاں تھیں۔ اور دو مردوں کےہاتھوں میں کاغذ کی پلیٹیں اور پلاسٹک کےچمچےاور پانی کی بالٹیاں۔ تینوں لڑکیوں کےسامنےقطاریں بن گئیں۔
دو دن کےبھوکی پیاسی لڑکیوں کےلیے یہ دلیا اورایک نعمت تھی ۔ ریمشاں نے اپنا حصہ وصول کیا اور اپنے کونے میں واپس آکر بیٹھ گئی اور دلیا کھانے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ میری ماں نے بھی اس قسم کے جہاز میں سفر کیا ہوگا۔ مگر وہ تو مجھ سے زیادہ معصوم ہوگی۔ پچیس سال پہلے تواس کو کچھ بھی نہیں پتہ ہوگا۔ مجھےتوتھوڑا بہت پتہ ہے کہ مجھے کہاں لےجایا جارہا ہے اور میرے ساتھ کیا ہوسکتا ہے ۔
کیا کسی نے ماں کو تھپڑ مارا ہوگا یا کسی نےاس کے بال کھینچے ہونگے؟
کیا کیسی نے اس کے پیٹ پر لات ماری ہوگی؟
کیا اس کےساتھ زنا بلجبر ہوا ہوگا؟
کیا وہ بے بسی اور تکلیف میں وہ نانی کا نام لے کرچلائی ہوگی؟
کیا اس کھوکھلے کمرے میں ماں کی چیخیں ان لڑکیوں کی طرح گونجی ہوں گی؟
کیا ماں کا خدا اس پرہنسا ہوگا ؟
نعمان اس وقت کہاں ہے؟ وہ میری حفاظت کیسے کرےگا؟
بھیا میں وعدہ کرتی ہوں میں آپ کی ہر بات مانوگی۔ مجھے یہاں سے لے جاؤ ۔ان باتیں سوچ کر ان کو زبردست متلی ہوئی اور اس نے قَے کردی۔
سمندر ظغیانی پرتھا۔ موجزن سمندر سےجہاز جھولے کھا رہا تھا۔ بہت سی لڑکیوں کو متلی ہورہی تھی اور کچھ قَے کر رہی تھیں۔
دوپہرمیں لڑکیوں کو ڈیک پر لایا گیا اور پہرے داروں کے درمیان انہوں نے سورج کی روشنی میں سمندر کی کھلی ہوا کو سونگھا۔ ریمشاں کو اتنی بدبو سونگھنے کے بعد تازی ہوا بہت اچھی لگی ۔دونوں لڑکیاں جواس کے قریب سوئی تھیں ڈیک پر بھی اس سے زیادہ دور نہیں ہوئیں ۔
شام کو پھر وہی دلیا ملا۔ اس دفعہ ریمشان کودلیا اتنا خراب نہیں لگا اور وہ پورا پیالہ کھا گئی ۔ رات آئی اور پھراس نے رونے، چلانےاورالتجاؤں کی آوازیں سننی ۔اس نے روتے ہوتے کہا ۔ کیا خدا بہرا اوراندھا ہے؟ ۔ کیا وہ نہیں دیکھ سکتا کہ ان بیٹیوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟

 

تفسیر

محفلین

رات کے ایک پہر میں شور وغل اور ہنگامہ شروع ہوگیا۔
برابر کی دونوں لڑکیوں نے ایک ساتھ کہا " تم ہمارے ساتھ رہنا"۔
ریمشاں ان لڑکیوں کےساتھ ڈیک پر آئی۔ کچھ دور شہر کی روشنی نظر آرہی تھی۔ تمام لڑکیوں کو ربر کی انجن والی کشتیوں میں اتارا جارہا تھا ریمشاں ان دونوں کے ساتھ ایک کشتی میں سوار ہوگئ ۔ کشتیاں تیزی سے ساحل سمندر کی طرف چلی ۔ ساحل پر مردوں نے سب کو ایک گلی کی طرف جانے کا اشارہ جہاں چھ منی وین ان کا انتظار کر رہی تھیں۔

 
Top