La Alma
لائبریرین
صراطِ مستقیم پہ چلنے میں ہی نجات ہے ورنہ گمراہوں میں شمار ہو گا .رباعی کے اوزان پر گزشتہ شعرا کی کسی غزل کا نہ ملنا ہی شعرائے اردو کا اس معاملے میں "اجماع" معلوم ہوتا ہے۔
صراطِ مستقیم پہ چلنے میں ہی نجات ہے ورنہ گمراہوں میں شمار ہو گا .رباعی کے اوزان پر گزشتہ شعرا کی کسی غزل کا نہ ملنا ہی شعرائے اردو کا اس معاملے میں "اجماع" معلوم ہوتا ہے۔
ایسے تجربات ضرور ہونے چاہئے لیکن اس میں حرج یہ ہے کہ مجھ ایسے غیر سنجیدہ قاری پہلا اور آخری شعر پڑھنے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیںصراطِ مستقیم پہ چلنے میں ہی نجات ہے ورنہ گمراہوں میں شمار ہو گا .
یہاں نہ ملنے سے مراد یہ ہے کہ عموما نہیں ملتیں، ورنہ اس لڑی کی غزل بھی تو رباعی کی بحر میں ہے، نہ ملنے والی بات تو نہ رہی۔ اطلاعا عرض ہے کہ عرصہ پانچ سات پہلے ہندوستان کے کسی مدرسے سے فارغ التحصیل صاحب نے مجھے چالیس پچاس غزلیں بھیجیں تھیں اور ساری ان بحور میں تھی جن کے بارے میں بحر الفصاحت میں لکھا تھا کہ اردو میں استعمال نہیں ہوتیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تجربے کے طور پر کہی ہوئی غزلیں مل بھی جائیں گی، کیونکہ، اصولی اور تکنیکی طور پر اس پر پابندی نہیں ہے، یوں کہہ لیں کہ یہ "حرام" نہیں ہے، بس روایتا شعرا ایسا نہیں کرتے۔ ورنہ پھر وہی بات کہ اصولی اور تکنیکی اور نظریاتی اور قانونی طور پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے، ورنہ ہر عروض کی کتاب میں لکھا ہوتا کہ خبردار رباعی کی بحر میں غزل کہنا منع ہے، ایسا کہیں نہیں ہے۔رباعی کے اوزان پر گزشتہ شعرا کی کسی غزل کا نہ ملنا ہی شعرائے اردو کا اس معاملے میں "اجماع" معلوم ہوتا ہے۔
تجربے کے طور پر جو شاعری ہوئی اسے عروضی ہی سمجھیں گے۔ عوام الناس میری طرح اسے روانی سے نہیں پڑھ سکتے۔ غالبا یہی وہ سبب ہے کہ شعرا نے اس سے اجتناب برتا۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کیا یہ مسئلہ صرف میرے ساتھ ہے کہ میں کسی رباعی کو روانی سے نہیں پڑھ سکتا یا پھر اسے روانی سے پڑھنا عموما ہی کسی خاص قابلیت کے ساتھ مخصوص ہے؟ کیونکہ میں نے رباعی کے اوزان پڑھ کر ان میں شعر کہنے کی کوشش کی تو کامیاب ، لیکن انہی اشعار کو پڑھا تو روانی سے پڑھنے میں ایک بار پھر ناکام ہوا۔یہاں نہ ملنے سے مراد یہ ہے کہ عموما نہیں ملتیں، ورنہ اس لڑی کی غزل بھی تو رباعی کی بحر میں ہے، نہ ملنے والی بات تو نہ رہی۔ اطلاعا عرض ہے کہ عرصہ پانچ سات پہلے ہندوستان کے کسی مدرسے سے فارغ التحصیل صاحب نے مجھے چالیس پچاس غزلیں بھیجیں تھیں اور ساری ان بحور میں تھی جن کے بارے میں بحر الفصاحت میں لکھا تھا کہ اردو میں استعمال نہیں ہوتیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تجربے کے طور پر کہی ہوئی غزلیں مل بھی جائیں گی، کیونکہ، اصولی اور تکنیکی طور پر اس پر پابندی نہیں ہے، یوں کہہ لیں کہ یہ "حرام" نہیں ہے، بس روایتا شعرا ایسا نہیں کرتے۔ ورنہ پھر وہی بات کہ اصولی اور تکنیکی اور نظریاتی اور قانونی طور پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے، ورنہ ہر عروض کی کتاب میں لکھا ہوتا کہ خبردار رباعی کی بحر میں غزل کہنا منع ہے، ایسا کہیں نہیں ہے۔
جی مجھے تو رباعی پڑھنے میں کبھی کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہوا۔تجربے کے طور پر جو شاعری ہوئی اسے عروضی ہی سمجھیں گے۔ عوام الناس میری طرح اسے روانی سے نہیں پڑھ سکتے۔ غالبا یہی وہ سبب ہے کہ شعرا نے اس سے اجتناب برتا۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کیا یہ مسئلہ صرف میرے ساتھ ہے کہ میں کسی رباعی کو روانی سے نہیں پڑھ سکتا یا پھر اسے روانی سے پڑھنا عموما ہی کسی خاص قابلیت کے ساتھ مخصوص ہے؟ کیونکہ میں نے رباعی کے اوزان پڑھ کر ان میں شعر کہنے کی کوشش کی تو کامیاب ، لیکن انہی اشعار کو پڑھا تو روانی سے پڑھنے میں ایک بار پھر ناکام ہوا۔
بیچ میں ٹانگ اڑانے کی معذرتجی مجھے تو رباعی پڑھنے میں کبھی کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہوا۔
شاعری اس چڑیا کا نام ہے کہ کسی کو اس کی چہکار نغمۂ داؤدی محسوس ہوتی ہے، کسی کو اس کی اٹھکیلیاں مسحور کر دیتی ہیں، کسی کو اس کے رنگ برنگے پر کسی چمن کی یاد دلا دیتے ہیں، اور کچھ ایسے دلسوز بھی ہوتے ہیں کہ اُن کو اس چڑیا میں بھی اپنی اپنی مینا و کوئل صاف نظر آ جاتی ہےبیچ میں ٹانگ اڑانے کی معذرت
پر مجھے بھی اصلاح سخن لینی ہے۔
ہاں نہیں تو مجھے بھی معلوم ہونا چاہیے شاعری کس چڑیا کا نام ہے
ایک من مٹھائی اور دس گز کا پگڑ پیش کرکے آپ کی شاگردی میں آجانے کو دل کرنے لگاشاعری اس چڑیا کا نام ہے کہ کسی کو اس کی چہکار نغمۂ داؤدی محسوس ہوتی ہے، کسی کو اس کی اٹھکیلیاں مسحور کر دیتی ہیں، کسی کو اس کے رنگ برنگے پر کسی چمن کی یاد دلا دیتے ہیں، اور کچھ ایسے دلسوز بھی ہوتے ہیں کہ اُن کو اس چڑیا میں بھی اپنی اپنی مینا و کوئل صاف نظر آ جاتی ہے
کسی نے ایک لڑی بنائی تھی پوسٹس کو فریم کرکے لگانے والی۔شاعری اس چڑیا کا نام ہے کہ کسی کو اس کی چہکار نغمۂ داؤدی محسوس ہوتی ہے، کسی کو اس کی اٹھکیلیاں مسحور کر دیتی ہیں، کسی کو اس کے رنگ برنگے پر کسی چمن کی یاد دلا دیتے ہیں، اور کچھ ایسے دلسوز بھی ہوتے ہیں کہ اُن کو اس چڑیا میں بھی اپنی اپنی مینا و کوئل صاف نظر آ جاتی ہے
اور کسی کسی کے سر کے اوپر سے بھی یہ چڑیا گزر جاتی ہے ، یہ کہنا آپ بھول گئے .شاعری اس چڑیا کا نام ہے کہ کسی کو اس کی چہکار نغمۂ داؤدی محسوس ہوتی ہے، کسی کو اس کی اٹھکیلیاں مسحور کر دیتی ہیں، کسی کو اس کے رنگ برنگے پر کسی چمن کی یاد دلا دیتے ہیں، اور کچھ ایسے دلسوز بھی ہوتے ہیں کہ اُن کو اس چڑیا میں بھی اپنی اپنی مینا و کوئل صاف نظر آ جاتی ہے
جب کسی کو کسی چیز کی طرف مائل کرنا ہو تو منفی باتیں اسی وقت ہی نہیں بتا دیتے، مثبت ہی بتاتے ہیں، منفی اس کو خود ہی معلوم پڑ جائیں گیاور کسی کسی کے سر کے اوپر سے بھی یہ چڑیا گزر جاتی ہے ، یہ کہنا آپ بھول گئے .
جب کسی کو کسی چیز کی طرف مائل کرنا ہو تو منفی باتیں اسی وقت ہی نہیں بتا دیتے، مثبت ہی بتاتے ہیں، منفی اس کو خود ہی معلوم پڑ جائیں گی
خوب کلام ہے فہیم میاں۔ اور مقطع کے بارے میں میں بھی یہی سوچ رہا ہوںمنفی باتیں تو معلوم ہوجانی ہی ہیں۔
آپ میری یہ انیس سو ڈیڑھ میں لکھی گئی ایک تک بندی نما شاعری کا تو بتائیں یہ غزل ہے یا نظم ہے یا پھر بس بے سروپا سا کچھ ہے
خوشی کے کچھ دن آتے ہیں
اور بہت جلد چلے جاتے ہیں
اک گمنام سی اداسی باقی رہتی ہے
دل کو بھانے والے لوگ چلے جاتے ہیں
کیا کریں ہم، کس کو سنائیں اپنا غم
خیالات آتے ہیں اور ہم کو رلا جاتے ہیں
اداسی کو دل پر لیے، بیٹھ کر تنہائی میں
یاد کرتے ہیں بیتے دن، اور آنسو بہاتے ہیں
ہے کیا کوئی دوا اس مرضِ اداسی کی
سوچ کر ہم ایک سرد آہ کھینچ جاتے ہیں
کیسے کردی فہیم نے اتنی لمبی شاعری
مارے حیرت کے ہم آنکھیں چھپکا جاتے ہیں
یعنی ہم میں بھی شاعری کے جراثیم ہیںخوب کلام ہے فہیم میاں۔ اور مقطع کے بارے میں میں بھی یہی سوچ رہا ہوں
بڑی تعداد میں لوگوں کی ابتدائی شاعری اسی قسم کی ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ دقیانوسی اصنافِ سخن کی طرف رجوع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔یعنی ہم میں بھی شاعری کے جراثیم ہیں
وہ الگ بات ہے وہ شاعری کی ایک الگ ہی انوکھی قسم ہے
خیر سے ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔بڑی تعداد میں لوگوں کی ابتدائی شاعری اسی قسم کی ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ دقیانوسی اصنافِ سخن کی طرف رجوع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
شاعری اس چڑیا کا نام ہے کہ کسی کو اس کی چہکار نغمۂ داؤدی محسوس ہوتی ہے، کسی کو اس کی اٹھکیلیاں مسحور کر دیتی ہیں، کسی کو اس کے رنگ برنگے پر کسی چمن کی یاد دلا دیتے ہیں، اور کچھ ایسے دلسوز بھی ہوتے ہیں کہ اُن کو اس چڑیا میں بھی اپنی اپنی مینا و کوئل صاف نظر آ جاتی ہے
خامہ فرسائی رکھّے وجدان کو تر
ہم تشنہ کام وہ قلم ڈھونڈتے ہیں
اچھا خیال ہےکس کس کو ذوقِ عشق ہے اپنے سوا
شہرِ الفت میں چشمِ نم ڈھونڈتے ہیں