واجد صاحب، ذرا ایک ثانیہ کیلیے سوچیے اور اپنی زندگی میںشامل کسی ایک ایسی چیز کا نام لیں جو آپکے اور قرونِ اولٰی کے آئمہ میں مشترک ہوواجدحسین نے کہا:بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
ویسے بہت اچھی سوچ ہے کیا یہ مسئلہ اب در پیش ہوا ہے کہ اس کے لیے نئے اجتہاد کی ضرورت ہے بھائی جب کوئی مسئلہ قرآن ، حدیث خیرالقرون میں نہیں ملے گا تو تب علماء جاکر اجتہاد کریں گے نہ کہ ہم جیسے جو عربی کے صحیح تلفظ بھی ادا نہیں کرسکتیں۔۔۔۔۔
زکریا نے کہا:واجدحسین نے کہا:اپ تو وہی بات دہرا رہے ہیں کہ “نماز نہ پڑھو “ لیکن بعد میں کیا ہے اگر تم نشے کی حالت میں ہوں۔
بات واضح کریں۔ سقطِ حمل کی بات چھوڑیں کہ وہ مسئلہ کافی مشکل ہے مگر contraception پر تو پرانے وقتوں کے بہت سے علماء راضی ہیں۔
اور مجھے تو سخت افسوس ہورہا ہے کہ یہاں پر چند ساتھی قرآن و حدیث کو سیکینڈری اور اپنے مغرب زدہ خیال کو ان پر ترجیح دے رہے ہیں
اور مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ کچھ لوگ بڑے بڑے جید علماء (امام غزالی، امام ابو حنیفہ، وغیرہ) کو چھوڑ کر سعودیہ کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ابوشامل نے کہا:بھائی وارث! انتہائی احترام کے ساتھ آپ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ کے لیے چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا کالعدم قرار دے دی تھی؟ ہر گز نہیں! یعنی مخصوص حالات میں کوئی خاص فیصلہ کرنے کا اختیار حکمران یا قاضی کو ہے، اس کی ایک مثال یہ لے لیجیے کہ ایک شخص روٹی یا آٹا چوری کرتا ہے، قانون کی رو سے اس کا ہاتھ کٹنا چاہیے؟ لیکن قاضی تحقیقات کے ذریعے معلوم کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے گھر میں کئی روز سے فاقے تھے تو قاضی کو اس فیصلے کا اختیار حاصل ہے کہ وہ کوئی اور نرم سزا دے کر اسے چھوڑ دے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ اس نے قطع ید کی سزا کو ختم کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے میں یہی روح کارفرما تھی اور اگلے سال سے قطع ید کی سزا دوبارہ شروع کی گئی۔
بالکل اس طرح چند لوگ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں بھی یہی صورتحال ہے کہ Population Bomb پھٹنے والا ہے اگر اسے نہ روکا گیا تو بڑی تباہی ہوگی۔
لیکن اس واقعے کا جو مطلب آپ نے (بصد احترام عرض کرتا ہوں ناراض مت ہوئیے گا) نکالا ہے اس سے تو اسلام کی کئی بنیادوں پر چوٹ پڑتی ہے آپ یہ کہہ دیں کہ میں تو تین وقت نماز پڑھوں گا کیونکہ حج کے موقع پر تین وقت پڑھتے ہیں، میں تو روزے نہیں رکھوں گا کیونکہ سفر میں روزوں کی چھوٹ ہے اور یہ زندگی بذات خود سفر ہے، میں تو جہاد نہیں کروں گا کیونکہ اسلام امن کا مذہب ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے بھی تو ایک عورت کو جو زنا کی مرتکب تھی، چھوڑ دیا تھا اور کہا تھا کہ بچہ ہو جائے تو پھر آنا! پھر وہ دوبارہ آئی تو آپ صلعم نے کہا کہ دودھ پلا دو پھر آنا وہ دو سال بعد پھر آن پہنچی تب آپ نے گناہ کے ارتکاب کے تقریبا تین سال کے بعد اس کو سزا دی، اس واقعے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ زانی کو سزا نہ دی جائے بلکہ آپ صلعم نے صرف اور صرف اس لیے اس پر رحم کیا کیونکہ وہ خود گناہ کا اعتراف کر رہی تھی جس کا واضح مطلب تھا کہ وہ پشیمان ہے اور اپنے عمل پر خلوص دل سے توبہ کی طالب ہے آپ صلعم نے اسے دو مرتبہ مہلت بھی دی لیکن وہ اپنے گناہوںکی سزا دنیا میںپاکر اللہ کے ہاں جانا چاہتی تھی اس لیے جب اسے سزا دی گئی اور سنگسار کرنے کے دوران اس کے خون کے چھینٹے چند افراد پر گرے اور انہوں نے ناگواری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کتنی گندی عورت تھی ہمارے کپڑے بھی گندے کر گئی تو نبی کریم صلعم نے کہا کہ ایسا مت کہو! اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے مدینہ کے باسیوں میںبانٹ دیا جائے تو ہر شخص کی مغفرت ہوجائے۔ اب کیا اس واقعے کو بنیاد بنا کر زانی اور زانیہ کو ہمیشہ چھوڑ دیا جائے؟ ہر گز نہیں! بلکہ قانون اپنی جگہ مقدم ہوگا، تاہم حالات و صورتحال میںتبدیلی کی صورت میں عارضی یا انفرادی طور پر کوئی بہتر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
میرے بھائی! اصل خرابی کی جڑ یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی فعل اور اپنی ذاتی سوچ کے لیے اسلام کی تاویل پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ واضح طور پر کہہ دیں کہ میں جو یہ بات کہہ رہا ہوں میں اس پر عمل کرتا ہوں اور اس کو درست سمجھتا ہوں لیکن ساتھ میںیہ بات بھی واضح کر دیں کہ اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں، بس بات ختم ہو جائے گی لیکن اپنے ایک ذاتی فعل کے لیے اسلام کی توجیہہ پیش کرنے کا "غامدیانہ" عمل ہر گز اہل حق کا شیوہ نہیں۔
اب میں آپ کو دوسرا پہلو دکھاتا ہوں کہ اگر معالجین یہ کہتے ہیں کہ اگر خاتون حاملہ ہو گئی تو اس کی جان کو خطرہ ہے یا اس نے دوسرا بچہ جنا تو اس کی زندگی کا بھروسہ نہیں تو اس صورت میں مقدم اُس عورت کی جان ہوگی۔ بالکل اسی طرح اگر حمل کے دوران عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تب بھی اسقاط جائز ہے اور اس کے حوالے سے مختلف علمائے دین کے فتاویٰ جات بھی موجود ہیں۔
مہوش بہن نے اوپر ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
If Allah intends to create it, you cannot turn it away
میں بھی اسی اصول کا قائل ہوں۔ ایک طرف اللہ ہے اور دوسری طرف ہم۔
اور اس حدیث کے بارے میں تمام حضرات کا کیا خیال ہے؟
The Prophet (pbuh) is reported to have said: “Marry the one who is loving and fertile, for I will be proud of your great numbers before the nations [i.e., on the Day of Resurrection].” (Abu Dawood Hadith no. 2050, Classed as saheeh by al-Albaani in Saheeh Abi Dawood, 1805)
آخری بات یہ کہ لگتا ہے یہاں سارے ناتجربہ کار ہیں !!
اگر عورت ایک بچے کو جنتی ہے تو اسے دو سال تک اسے دودھ بھی پلانا ہوتا ہے، اور breast feeding کے نتیجے میں حمل کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اس طرح اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت تو دو سال کا وقفہ از خود ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں آپ لوگ کیا کہیں گے؟؟
میری اوپر کی تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ : اسلام کے احکامات اپنی جگہ پر مقدم ہیں، اگر آپ کوئی ایسا فعل کرتے ہیں جو اس کے خلاف ہے تو اسے قبول کرنا چاہیے کہ ہم اسلام کی روح کے خلاف کام کر رہے ہیں لیکن برائی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنے غلط کے لیے اسلام کی تاویل پیش کرتے ہیں اور اسے اسلام کے مطابق قرار دینے کی سعی لا حاصل کرتے ہیں یعنی
دِیں بھی گیا دنیا بھی گئی
والسلام
اللہ سب کو خوش رکھے اور ہدایت دے
محمد وارث نے کہا:بہت شکریہ ابو شامل صاحب۔
آپ نے واقعی لاجواب تجزیہ کیا ہے، اور جو مطالب اخذ کیے ہیں، مجھے ان سے کلی اتفاق ہے یعنی کہ
-ۡقرآن کریم کی آیاتِ ٘محکمات بھی “٘مخصوص“ حالات میں “مؑعطل“ ہو سکتی ہیں۔
-آپکے بقول سربراہِ مملکت تو کیا ایک قاضی بھی ایسا کر سکتا ہے۔
تو بھائی صاحب یہی تو میں عرض کرنے کی کوشش کر رہا تھا، ایک قاضی کی وہ کیا سوچ ہے جس سے اسنے قرآنی سزا بھی معطل کردی۔ کیا اسے اجتہاد نہیں کہیں گے۔
برائے مہربانی بتائیے گا:
-کیا اب بھی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں جو آپ نے اپنی امثال میں پیش کیے ہیں۔
-اگر ہو سکتا ہے تو اسے کیا کہیں گے، “اجتہاد“ یا کچھ اور۔
-اور اگر نہیں ہو سکتا تو کیا اجتہاد صرف وہی تھا جو آئمہ کرام صدیوںپہلے کر گئے۔
امید ہے آپ میرے ناقص علم میں اضافہ فرمائیں گے۔
اور بھائی صاحب، اس میں نے ناراض ہونے والی کون سے بات ہے، اچھے اور علمی مباحث تو بہت ضروری ہیں۔
واجد صاحب، ذرا ایک ثانیہ کیلیے سوچیے اور اپنی زندگی میںشامل کسی ایک ایسی چیز کا نام لیں جو آپکے اور قرونِ اولٰی کے آئمہ میں مشترک ہو
محب علوی نے کہا:زکریا نے کہا:واجدحسین نے کہا:اپ تو وہی بات دہرا رہے ہیں کہ “نماز نہ پڑھو “ لیکن بعد میں کیا ہے اگر تم نشے کی حالت میں ہوں۔
بات واضح کریں۔ سقطِ حمل کی بات چھوڑیں کہ وہ مسئلہ کافی مشکل ہے مگر contraception پر تو پرانے وقتوں کے بہت سے علماء راضی ہیں۔
اور مجھے تو سخت افسوس ہورہا ہے کہ یہاں پر چند ساتھی قرآن و حدیث کو سیکینڈری اور اپنے مغرب زدہ خیال کو ان پر ترجیح دے رہے ہیں
اور مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ کچھ لوگ بڑے بڑے جید علماء (امام غزالی، امام ابو حنیفہ، وغیرہ) کو چھوڑ کر سعودیہ کو ترجیح دے رہے ہیں۔
contraception پر واقعی بہت سے جید علما کا اتفاق ہے اور یہ ایسا مسئلہ نہیں جس پر بہت زیادہ قدغن ہو۔ اصل شے جس سے اسلام نے روکا ہے وہ یہ ہے کہ اس ڈر سے یہ کام نہ کیا جائے کہ نیا آنے والا آپ کے رزق میں کمی لائے گا یا آپ اس کے لیے اخراجات کا بندوبست کیسے کریں گے۔ اس کے برعکس اگر عورت یا مرد دونوں کی جسمانی حالت اچھی نہیں یا تربیت میں کمی کا سخت اندیشہ ہے تو یہ طریقہ کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔
بہت سے علما خصوصا حنفی علما 120 دن تک اسقاط حمل کو جائز مانتے ہیں، اس دوران بچے میں روح نہیں پھونکی ہوئی ہوتی۔
واللہ اعلم
محب علوی نے کہا:ابوشامل نے کہا:بھائی وارث! انتہائی احترام کے ساتھ آپ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ کے لیے چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا کالعدم قرار دے دی تھی؟ ہر گز نہیں! یعنی مخصوص حالات میں کوئی خاص فیصلہ کرنے کا اختیار حکمران یا قاضی کو ہے، اس کی ایک مثال یہ لے لیجیے کہ ایک شخص روٹی یا آٹا چوری کرتا ہے، قانون کی رو سے اس کا ہاتھ کٹنا چاہیے؟ لیکن قاضی تحقیقات کے ذریعے معلوم کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے گھر میں کئی روز سے فاقے تھے تو قاضی کو اس فیصلے کا اختیار حاصل ہے کہ وہ کوئی اور نرم سزا دے کر اسے چھوڑ دے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ اس نے قطع ید کی سزا کو ختم کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے میں یہی روح کارفرما تھی اور اگلے سال سے قطع ید کی سزا دوبارہ شروع کی گئی۔
بالکل اس طرح چند لوگ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں بھی یہی صورتحال ہے کہ Population Bomb پھٹنے والا ہے اگر اسے نہ روکا گیا تو بڑی تباہی ہوگی۔
لیکن اس واقعے کا جو مطلب آپ نے (بصد احترام عرض کرتا ہوں ناراض مت ہوئیے گا) نکالا ہے اس سے تو اسلام کی کئی بنیادوں پر چوٹ پڑتی ہے آپ یہ کہہ دیں کہ میں تو تین وقت نماز پڑھوں گا کیونکہ حج کے موقع پر تین وقت پڑھتے ہیں، میں تو روزے نہیں رکھوں گا کیونکہ سفر میں روزوں کی چھوٹ ہے اور یہ زندگی بذات خود سفر ہے، میں تو جہاد نہیں کروں گا کیونکہ اسلام امن کا مذہب ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے بھی تو ایک عورت کو جو زنا کی مرتکب تھی، چھوڑ دیا تھا اور کہا تھا کہ بچہ ہو جائے تو پھر آنا! پھر وہ دوبارہ آئی تو آپ صلعم نے کہا کہ دودھ پلا دو پھر آنا وہ دو سال بعد پھر آن پہنچی تب آپ نے گناہ کے ارتکاب کے تقریبا تین سال کے بعد اس کو سزا دی، اس واقعے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ زانی کو سزا نہ دی جائے بلکہ آپ صلعم نے صرف اور صرف اس لیے اس پر رحم کیا کیونکہ وہ خود گناہ کا اعتراف کر رہی تھی جس کا واضح مطلب تھا کہ وہ پشیمان ہے اور اپنے عمل پر خلوص دل سے توبہ کی طالب ہے آپ صلعم نے اسے دو مرتبہ مہلت بھی دی لیکن وہ اپنے گناہوںکی سزا دنیا میںپاکر اللہ کے ہاں جانا چاہتی تھی اس لیے جب اسے سزا دی گئی اور سنگسار کرنے کے دوران اس کے خون کے چھینٹے چند افراد پر گرے اور انہوں نے ناگواری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کتنی گندی عورت تھی ہمارے کپڑے بھی گندے کر گئی تو نبی کریم صلعم نے کہا کہ ایسا مت کہو! اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے مدینہ کے باسیوں میںبانٹ دیا جائے تو ہر شخص کی مغفرت ہوجائے۔ اب کیا اس واقعے کو بنیاد بنا کر زانی اور زانیہ کو ہمیشہ چھوڑ دیا جائے؟ ہر گز نہیں! بلکہ قانون اپنی جگہ مقدم ہوگا، تاہم حالات و صورتحال میںتبدیلی کی صورت میں عارضی یا انفرادی طور پر کوئی بہتر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
میرے بھائی! اصل خرابی کی جڑ یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی فعل اور اپنی ذاتی سوچ کے لیے اسلام کی تاویل پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ واضح طور پر کہہ دیں کہ میں جو یہ بات کہہ رہا ہوں میں اس پر عمل کرتا ہوں اور اس کو درست سمجھتا ہوں لیکن ساتھ میںیہ بات بھی واضح کر دیں کہ اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں، بس بات ختم ہو جائے گی لیکن اپنے ایک ذاتی فعل کے لیے اسلام کی توجیہہ پیش کرنے کا "غامدیانہ" عمل ہر گز اہل حق کا شیوہ نہیں۔
اب میں آپ کو دوسرا پہلو دکھاتا ہوں کہ اگر معالجین یہ کہتے ہیں کہ اگر خاتون حاملہ ہو گئی تو اس کی جان کو خطرہ ہے یا اس نے دوسرا بچہ جنا تو اس کی زندگی کا بھروسہ نہیں تو اس صورت میں مقدم اُس عورت کی جان ہوگی۔ بالکل اسی طرح اگر حمل کے دوران عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تب بھی اسقاط جائز ہے اور اس کے حوالے سے مختلف علمائے دین کے فتاویٰ جات بھی موجود ہیں۔
مہوش بہن نے اوپر ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
If Allah intends to create it, you cannot turn it away
میں بھی اسی اصول کا قائل ہوں۔ ایک طرف اللہ ہے اور دوسری طرف ہم۔
اور اس حدیث کے بارے میں تمام حضرات کا کیا خیال ہے؟
The Prophet (pbuh) is reported to have said: “Marry the one who is loving and fertile, for I will be proud of your great numbers before the nations [i.e., on the Day of Resurrection].” (Abu Dawood Hadith no. 2050, Classed as saheeh by al-Albaani in Saheeh Abi Dawood, 1805)
آخری بات یہ کہ لگتا ہے یہاں سارے ناتجربہ کار ہیں !!
اگر عورت ایک بچے کو جنتی ہے تو اسے دو سال تک اسے دودھ بھی پلانا ہوتا ہے، اور breast feeding کے نتیجے میں حمل کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اس طرح اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت تو دو سال کا وقفہ از خود ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں آپ لوگ کیا کہیں گے؟؟
میری اوپر کی تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ : اسلام کے احکامات اپنی جگہ پر مقدم ہیں، اگر آپ کوئی ایسا فعل کرتے ہیں جو اس کے خلاف ہے تو اسے قبول کرنا چاہیے کہ ہم اسلام کی روح کے خلاف کام کر رہے ہیں لیکن برائی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنے غلط کے لیے اسلام کی تاویل پیش کرتے ہیں اور اسے اسلام کے مطابق قرار دینے کی سعی لا حاصل کرتے ہیں یعنی
دِیں بھی گیا دنیا بھی گئی
والسلام
اللہ سب کو خوش رکھے اور ہدایت دے
The Prophet (pbuh) is reported to have said: “Marry the one who is loving and fertile, for I will be proud of your great numbers before the nations [i.e., on the Day of Resurrection].” (Abu Dawood Hadith no. 2050, Classed as saheeh by al-Albaani in Saheeh Abi Dawood, 1805)
ابو شامل یہ حدیث حکمیہ نہیں بلکہ ترغیبی ہے جیسے ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ ترجیحا نیک عورت سے شادی کرنی چاہیے ۔
جتنے منہ اتنی باتیں۔
میں تو اپنا نکتہ نظر بتا رہا ہوں اگر آپ ایک چھابڑی فروش ہیں اور آپ کے سات آٹھ بچے ہیں جنھیں آپ دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے تو یہ بہتر ہوتا کہ یہ سات آٹھ کی بجائے تین یا چار ہوتے۔
چھابڑی فروش ہیں اور آپ کے سات آٹھ بچے ہیں جنھیں آپ دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے تو یہ بہتر ہوتا کہ یہ سات آٹھ کی بجائے تین یا چار ہوتے۔
آخری بات یہ کہ لگتا ہے یہاں سارے ناتجربہ کار ہیں !!
اگر عورت ایک بچے کو جنتی ہے تو اسے دو سال تک اسے دودھ بھی پلانا ہوتا ہے، اور breast feeding کے نتیجے میں حمل کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اس طرح اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت تو دو سال کا وقفہ از خود ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں آپ لوگ کیا کہیں گے؟؟