خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت کیوں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
ویسے بہت اچھی سوچ ہے کیا یہ مسئلہ اب در پیش ہوا ہے کہ اس کے لیے نئے اجتہاد کی ضرورت ہے بھائی جب کوئی مسئلہ قرآن ، حدیث خیرالقرون میں نہیں ملے گا تو تب علماء جاکر اجتہاد کریں گے نہ کہ ہم جیسے جو عربی کے صحیح تلفظ بھی ادا نہیں کرسکتیں۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
واجدحسین نے کہا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
ویسے بہت اچھی سوچ ہے کیا یہ مسئلہ اب در پیش ہوا ہے کہ اس کے لیے نئے اجتہاد کی ضرورت ہے بھائی جب کوئی مسئلہ قرآن ، حدیث خیرالقرون میں نہیں ملے گا تو تب علماء جاکر اجتہاد کریں گے نہ کہ ہم جیسے جو عربی کے صحیح تلفظ بھی ادا نہیں کرسکتیں۔۔۔۔۔
واجد صاحب، ذرا ایک ثانیہ کیلیے سوچیے اور اپنی زندگی میں‌شامل کسی ایک ایسی چیز کا نام لیں‌ جو آپکے اور قرونِ‌ اولٰی کے آئمہ میں‌ مشترک ہو

کیا مذہب خلا میں‌ ہے، یا ہماری روزمرہ کی زندگی کا اس تعلق ہے۔ امید ہے میرے ناقص علم میں‌ اضافہ فرمائیں‌ گے۔

ویسے آپکی بات سے تو لگتا ہے ہمارے آئمہ کے پاس “غیب؂“ کا علم بھی تھا کہ قیامت تک کے پیش آنے والے مسائل کے بارے میں‌ اجتہاد فرما گئے۔
 
زکریا نے کہا:
واجدحسین نے کہا:
اپ تو وہی بات دہرا رہے ہیں کہ “نماز نہ پڑھو “ لیکن بعد میں کیا ہے اگر تم نشے کی حالت میں ہوں۔

بات واضح کریں۔ سقطِ حمل کی بات چھوڑیں کہ وہ مسئلہ کافی مشکل ہے مگر contraception پر تو پرانے وقتوں کے بہت سے علماء راضی ہیں۔

اور مجھے تو سخت افسوس ہورہا ہے کہ یہاں پر چند ساتھی قرآن و حدیث کو سیکینڈری اور اپنے مغرب زدہ خیال کو ان پر ترجیح دے رہے ہیں

اور مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ کچھ لوگ بڑے بڑے جید علماء (امام غزالی، امام ابو حنیفہ، وغیرہ) کو چھوڑ کر سعودیہ کو ترجیح دے رہے ہیں۔ :p

contraception پر واقعی بہت سے جید علما کا اتفاق ہے اور یہ ایسا مسئلہ نہیں جس پر بہت زیادہ قدغن ہو۔ اصل شے جس سے اسلام نے روکا ہے وہ یہ ہے کہ اس ڈر سے یہ کام نہ کیا جائے کہ نیا آنے والا آپ کے رزق میں کمی لائے گا یا آپ اس کے لیے اخراجات کا بندوبست کیسے کریں گے۔ اس کے برعکس اگر عورت یا مرد دونوں کی جسمانی حالت اچھی نہیں یا تربیت میں کمی کا سخت اندیشہ ہے تو یہ طریقہ کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔
بہت سے علما خصوصا حنفی علما 120 دن تک اسقاط حمل کو جائز مانتے ہیں، اس دوران بچے میں روح نہیں پھونکی ہوئی ہوتی۔

واللہ اعلم
 
ابوشامل نے کہا:
بھائی وارث! انتہائی احترام کے ساتھ آپ سے یہ عرض کرتا ہوں‌ کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ کے لیے چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا کالعدم قرار دے دی تھی؟ ہر گز نہیں! یعنی مخصوص حالات میں کوئی خاص فیصلہ کرنے کا اختیار حکمران یا قاضی کو ہے، اس کی ایک مثال یہ لے لیجیے کہ ایک شخص روٹی یا آٹا چوری کرتا ہے، قانون کی رو سے اس کا ہاتھ کٹنا چاہیے؟ لیکن قاضی تحقیقات کے ذریعے معلوم کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے گھر میں کئی روز سے فاقے تھے تو قاضی کو اس فیصلے کا اختیار حاصل ہے کہ وہ کوئی اور نرم سزا دے کر اسے چھوڑ دے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں‌ ہوتا کہ اس نے قطع ید کی سزا کو ختم کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے میں یہی روح کارفرما تھی اور اگلے سال سے قطع ید کی سزا دوبارہ شروع کی گئی۔

بالکل اس طرح چند لوگ یہ کہتے ہیں‌ کہ موجودہ دور میں بھی یہی صورتحال ہے کہ Population Bomb پھٹنے والا ہے اگر اسے نہ روکا گیا تو بڑی تباہی ہوگی۔

لیکن اس واقعے کا جو مطلب آپ نے (بصد احترام عرض کرتا ہوں ناراض مت ہوئیے گا) نکالا ہے اس سے تو اسلام کی کئی بنیادوں‌ پر چوٹ پڑتی ہے آپ یہ کہہ دیں کہ میں‌ تو تین وقت نماز پڑھوں گا کیونکہ حج کے موقع پر تین وقت پڑھتے ہیں، میں تو روزے نہیں رکھوں گا کیونکہ سفر میں‌ روزوں کی چھوٹ ہے اور یہ زندگی بذات خود سفر ہے، میں تو جہاد نہیں‌ کروں گا کیونکہ اسلام امن کا مذہب ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے بھی تو ایک عورت کو جو زنا کی مرتکب تھی، چھوڑ دیا تھا اور کہا تھا کہ بچہ ہو جائے تو پھر آنا! پھر وہ دوبارہ آئی تو آپ صلعم نے کہا کہ دودھ پلا دو پھر آنا وہ دو سال بعد پھر آن پہنچی تب آپ نے گناہ کے ارتکاب کے تقریبا تین سال کے بعد اس کو سزا دی، اس واقعے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ زانی کو سزا نہ دی جائے بلکہ آپ صلعم نے صرف اور صرف اس لیے اس پر رحم کیا کیونکہ وہ خود گناہ کا اعتراف کر رہی تھی جس کا واضح مطلب تھا کہ وہ پشیمان ہے اور اپنے عمل پر خلوص دل سے توبہ کی طالب ہے آپ صلعم نے اسے دو مرتبہ مہلت بھی دی لیکن وہ اپنے گناہوں‌کی سزا دنیا میں‌پاکر اللہ کے ہاں جانا چاہتی تھی اس لیے جب اسے سزا دی گئی اور سنگسار کرنے کے دوران اس کے خون کے چھینٹے چند افراد پر گرے اور انہوں نے ناگواری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کتنی گندی عورت تھی ہمارے کپڑے بھی گندے کر گئی تو نبی کریم صلعم نے کہا کہ ایسا مت کہو! اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے مدینہ کے باسیوں میں‌بانٹ دیا جائے تو ہر شخص کی مغفرت ہوجائے۔ اب کیا اس واقعے کو بنیاد بنا کر زانی اور زانیہ کو ہمیشہ چھوڑ دیا جائے؟ ہر گز نہیں! بلکہ قانون اپنی جگہ مقدم ہوگا، تاہم حالات و صورتحال میں‌تبدیلی کی صورت میں عارضی یا انفرادی طور پر کوئی بہتر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

میرے بھائی! اصل خرابی کی جڑ یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی فعل اور اپنی ذاتی سوچ کے لیے اسلام کی تاویل پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ واضح طور پر کہہ دیں کہ میں جو یہ بات کہہ رہا ہوں میں‌ اس پر عمل کرتا ہوں‌ اور اس کو درست سمجھتا ہوں لیکن ساتھ میں‌یہ بات بھی واضح کر دیں کہ اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں، بس بات ختم ہو جائے گی لیکن اپنے ایک ذاتی فعل کے لیے اسلام کی توجیہہ پیش کرنے کا "غامدیانہ" عمل ہر گز اہل حق کا شیوہ نہیں۔

اب میں‌ آپ کو دوسرا پہلو دکھاتا ہوں‌ کہ اگر معالجین یہ کہتے ہیں کہ اگر خاتون حاملہ ہو گئی تو اس کی جان کو خطرہ ہے یا اس نے دوسرا بچہ جنا تو اس کی زندگی کا بھروسہ نہیں‌ تو اس صورت میں مقدم اُس عورت کی جان ہوگی۔ بالکل اسی طرح اگر حمل کے دوران عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تب بھی اسقاط جائز ہے اور اس کے حوالے سے مختلف علمائے دین کے فتاویٰ جات بھی موجود ہیں۔

مہوش بہن نے اوپر ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے جس میں‌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

If Allah intends to create it, you cannot turn it away

میں بھی اسی اصول کا قائل ہوں۔ ایک طرف اللہ ہے اور دوسری طرف ہم۔

اور اس حدیث کے بارے میں تمام حضرات کا کیا خیال ہے؟

The Prophet (pbuh) is reported to have said: “Marry the one who is loving and fertile, for I will be proud of your great numbers before the nations [i.e., on the Day of Resurrection].” (Abu Dawood Hadith no. 2050, Classed as saheeh by al-Albaani in Saheeh Abi Dawood, 1805)


آخری بات یہ کہ لگتا ہے یہاں‌ سارے ناتجربہ کار ہیں :wink: :wink: :wink: !!
اگر عورت ایک بچے کو جنتی ہے تو اسے دو سال تک اسے دودھ بھی پلانا ہوتا ہے، اور breast feeding کے نتیجے میں حمل کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اس طرح اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت تو دو سال کا وقفہ از خود ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں آپ لوگ کیا کہیں گے؟؟‌


میری اوپر کی تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ : اسلام کے احکامات اپنی جگہ پر مقدم ہیں، اگر آپ کوئی ایسا فعل کرتے ہیں‌ جو اس کے خلاف ہے تو اسے قبول کرنا چاہیے کہ ہم اسلام کی روح کے خلاف کام کر رہے ہیں لیکن برائی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنے غلط کے لیے اسلام کی تاویل پیش کرتے ہیں اور اسے اسلام کے مطابق قرار دینے کی سعی لا حاصل کرتے ہیں یعنی
دِیں بھی گیا دنیا بھی گئی


والسلام
اللہ سب کو خوش رکھے اور ہدایت دے

The Prophet (pbuh) is reported to have said: “Marry the one who is loving and fertile, for I will be proud of your great numbers before the nations [i.e., on the Day of Resurrection].” (Abu Dawood Hadith no. 2050, Classed as saheeh by al-Albaani in Saheeh Abi Dawood, 1805)

ابو شامل یہ حدیث حکمیہ نہیں بلکہ ترغیبی ہے جیسے ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ ترجیحا نیک عورت سے شادی کرنی چاہیے ۔
 

ابوشامل

محفلین
محمد وارث نے کہا:
بہت شکریہ ابو شامل صاحب۔

آپ نے واقعی لاجواب تجزیہ کیا ہے، اور جو مطالب اخذ کیے ہیں، مجھے ان سے کلی اتفاق ہے یعنی کہ

-ۡقرآن کریم کی آیاتِ ٘محکمات بھی “٘مخصوص“ حالات میں “مؑعطل“ ہو سکتی ہیں۔

-آپکے بقول سربراہِ مملکت تو کیا ایک قاضی بھی ایسا کر سکتا ہے۔

تو بھائی صاحب یہی تو میں‌ عرض‌ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، ایک قاضی کی وہ کیا سوچ ہے جس سے اسنے قرآنی سزا بھی معطل کردی۔ کیا اسے اجتہاد نہیں‌ کہیں گے۔

برائے مہربانی بتائیے گا:

-کیا اب بھی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں جو آپ نے اپنی امثال میں‌ پیش کیے ہیں۔

-اگر ہو سکتا ہے تو اسے کیا کہیں‌ گے، “اجتہاد“ یا کچھ اور۔

-اور اگر نہیں‌ ہو سکتا تو کیا اجتہاد صرف وہی تھا جو آئمہ کرام صدیوں‌پہلے کر گئے۔

امید ہے آپ میرے ناقص علم میں‌ اضافہ فرمائیں‌ گے۔

اور بھائی صاحب، اس میں‌ نے ناراض ہونے والی کون سے بات ہے، اچھے اور علمی مباحث تو بہت ضروری ہیں۔

بھائی لیکن اجتہاد کرے گا کون؟؟ آپ کو معلوم ہے اجتہاد کرنے کا حق صرف ایک اسلامی حکومت کو حاصل ہے، کیا پاکستان کا موجودہ نظام شریعت کے عین مطابق ہے، کہاں شرعی قوانین و حدود نافذ ہیں؟ یہاں اجتہاد کون کرے گا؟ پرویز مشرف، جاوید غامدی، عاصمہ جہانگیر ؟؟؟؟

واجد صاحب، ذرا ایک ثانیہ کیلیے سوچیے اور اپنی زندگی میں‌شامل کسی ایک ایسی چیز کا نام لیں‌ جو آپکے اور قرونِ‌ اولٰی کے آئمہ میں‌ مشترک ہو

اور ہاں وارث صاحب! دوست سمجھ کر کہہ رہا ہوں کہ ذاتی حملے نہ کریں امید ہے آپ برا نہیں منائیں گے لیکن اگر مندرجہ بالا جملے کا مطلب وہ نہیں‌ جو میں‌ سمجھا ہوں تو وضاحت فرما دیں۔
 

ابوشامل

محفلین
محب علوی نے کہا:
زکریا نے کہا:
واجدحسین نے کہا:
اپ تو وہی بات دہرا رہے ہیں کہ “نماز نہ پڑھو “ لیکن بعد میں کیا ہے اگر تم نشے کی حالت میں ہوں۔

بات واضح کریں۔ سقطِ حمل کی بات چھوڑیں کہ وہ مسئلہ کافی مشکل ہے مگر contraception پر تو پرانے وقتوں کے بہت سے علماء راضی ہیں۔

اور مجھے تو سخت افسوس ہورہا ہے کہ یہاں پر چند ساتھی قرآن و حدیث کو سیکینڈری اور اپنے مغرب زدہ خیال کو ان پر ترجیح دے رہے ہیں

اور مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ کچھ لوگ بڑے بڑے جید علماء (امام غزالی، امام ابو حنیفہ، وغیرہ) کو چھوڑ کر سعودیہ کو ترجیح دے رہے ہیں۔ :p

contraception پر واقعی بہت سے جید علما کا اتفاق ہے اور یہ ایسا مسئلہ نہیں جس پر بہت زیادہ قدغن ہو۔ اصل شے جس سے اسلام نے روکا ہے وہ یہ ہے کہ اس ڈر سے یہ کام نہ کیا جائے کہ نیا آنے والا آپ کے رزق میں کمی لائے گا یا آپ اس کے لیے اخراجات کا بندوبست کیسے کریں گے۔ اس کے برعکس اگر عورت یا مرد دونوں کی جسمانی حالت اچھی نہیں یا تربیت میں کمی کا سخت اندیشہ ہے تو یہ طریقہ کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔
بہت سے علما خصوصا حنفی علما 120 دن تک اسقاط حمل کو جائز مانتے ہیں، اس دوران بچے میں روح نہیں پھونکی ہوئی ہوتی۔

واللہ اعلم


میں بھی یہی بات کہنا چاہ رہا تھا، آپ نے بالکل درست تجزیہ کیا ہے کہ
اس ڈر سے یہ کام نہ کیا جائے کہ نیا آنے والا آپ کے رزق میں کمی لائے گا یا آپ اس کے لیے اخراجات کا بندوبست کیسے کریں گے۔ اس کے برعکس اگر عورت یا مرد دونوں کی جسمانی حالت اچھی نہیں یا تربیت میں کمی کا سخت اندیشہ ہے تو یہ طریقہ کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔
 

ابوشامل

محفلین
محب علوی نے کہا:
ابوشامل نے کہا:
بھائی وارث! انتہائی احترام کے ساتھ آپ سے یہ عرض کرتا ہوں‌ کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ کے لیے چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا کالعدم قرار دے دی تھی؟ ہر گز نہیں! یعنی مخصوص حالات میں کوئی خاص فیصلہ کرنے کا اختیار حکمران یا قاضی کو ہے، اس کی ایک مثال یہ لے لیجیے کہ ایک شخص روٹی یا آٹا چوری کرتا ہے، قانون کی رو سے اس کا ہاتھ کٹنا چاہیے؟ لیکن قاضی تحقیقات کے ذریعے معلوم کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے گھر میں کئی روز سے فاقے تھے تو قاضی کو اس فیصلے کا اختیار حاصل ہے کہ وہ کوئی اور نرم سزا دے کر اسے چھوڑ دے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں‌ ہوتا کہ اس نے قطع ید کی سزا کو ختم کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے میں یہی روح کارفرما تھی اور اگلے سال سے قطع ید کی سزا دوبارہ شروع کی گئی۔

بالکل اس طرح چند لوگ یہ کہتے ہیں‌ کہ موجودہ دور میں بھی یہی صورتحال ہے کہ Population Bomb پھٹنے والا ہے اگر اسے نہ روکا گیا تو بڑی تباہی ہوگی۔

لیکن اس واقعے کا جو مطلب آپ نے (بصد احترام عرض کرتا ہوں ناراض مت ہوئیے گا) نکالا ہے اس سے تو اسلام کی کئی بنیادوں‌ پر چوٹ پڑتی ہے آپ یہ کہہ دیں کہ میں‌ تو تین وقت نماز پڑھوں گا کیونکہ حج کے موقع پر تین وقت پڑھتے ہیں، میں تو روزے نہیں رکھوں گا کیونکہ سفر میں‌ روزوں کی چھوٹ ہے اور یہ زندگی بذات خود سفر ہے، میں تو جہاد نہیں‌ کروں گا کیونکہ اسلام امن کا مذہب ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے بھی تو ایک عورت کو جو زنا کی مرتکب تھی، چھوڑ دیا تھا اور کہا تھا کہ بچہ ہو جائے تو پھر آنا! پھر وہ دوبارہ آئی تو آپ صلعم نے کہا کہ دودھ پلا دو پھر آنا وہ دو سال بعد پھر آن پہنچی تب آپ نے گناہ کے ارتکاب کے تقریبا تین سال کے بعد اس کو سزا دی، اس واقعے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ زانی کو سزا نہ دی جائے بلکہ آپ صلعم نے صرف اور صرف اس لیے اس پر رحم کیا کیونکہ وہ خود گناہ کا اعتراف کر رہی تھی جس کا واضح مطلب تھا کہ وہ پشیمان ہے اور اپنے عمل پر خلوص دل سے توبہ کی طالب ہے آپ صلعم نے اسے دو مرتبہ مہلت بھی دی لیکن وہ اپنے گناہوں‌کی سزا دنیا میں‌پاکر اللہ کے ہاں جانا چاہتی تھی اس لیے جب اسے سزا دی گئی اور سنگسار کرنے کے دوران اس کے خون کے چھینٹے چند افراد پر گرے اور انہوں نے ناگواری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کتنی گندی عورت تھی ہمارے کپڑے بھی گندے کر گئی تو نبی کریم صلعم نے کہا کہ ایسا مت کہو! اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے مدینہ کے باسیوں میں‌بانٹ دیا جائے تو ہر شخص کی مغفرت ہوجائے۔ اب کیا اس واقعے کو بنیاد بنا کر زانی اور زانیہ کو ہمیشہ چھوڑ دیا جائے؟ ہر گز نہیں! بلکہ قانون اپنی جگہ مقدم ہوگا، تاہم حالات و صورتحال میں‌تبدیلی کی صورت میں عارضی یا انفرادی طور پر کوئی بہتر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

میرے بھائی! اصل خرابی کی جڑ یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی فعل اور اپنی ذاتی سوچ کے لیے اسلام کی تاویل پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ واضح طور پر کہہ دیں کہ میں جو یہ بات کہہ رہا ہوں میں‌ اس پر عمل کرتا ہوں‌ اور اس کو درست سمجھتا ہوں لیکن ساتھ میں‌یہ بات بھی واضح کر دیں کہ اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں، بس بات ختم ہو جائے گی لیکن اپنے ایک ذاتی فعل کے لیے اسلام کی توجیہہ پیش کرنے کا "غامدیانہ" عمل ہر گز اہل حق کا شیوہ نہیں۔

اب میں‌ آپ کو دوسرا پہلو دکھاتا ہوں‌ کہ اگر معالجین یہ کہتے ہیں کہ اگر خاتون حاملہ ہو گئی تو اس کی جان کو خطرہ ہے یا اس نے دوسرا بچہ جنا تو اس کی زندگی کا بھروسہ نہیں‌ تو اس صورت میں مقدم اُس عورت کی جان ہوگی۔ بالکل اسی طرح اگر حمل کے دوران عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تب بھی اسقاط جائز ہے اور اس کے حوالے سے مختلف علمائے دین کے فتاویٰ جات بھی موجود ہیں۔

مہوش بہن نے اوپر ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے جس میں‌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

If Allah intends to create it, you cannot turn it away

میں بھی اسی اصول کا قائل ہوں۔ ایک طرف اللہ ہے اور دوسری طرف ہم۔

اور اس حدیث کے بارے میں تمام حضرات کا کیا خیال ہے؟

The Prophet (pbuh) is reported to have said: “Marry the one who is loving and fertile, for I will be proud of your great numbers before the nations [i.e., on the Day of Resurrection].” (Abu Dawood Hadith no. 2050, Classed as saheeh by al-Albaani in Saheeh Abi Dawood, 1805)


آخری بات یہ کہ لگتا ہے یہاں‌ سارے ناتجربہ کار ہیں :wink: :wink: :wink: !!
اگر عورت ایک بچے کو جنتی ہے تو اسے دو سال تک اسے دودھ بھی پلانا ہوتا ہے، اور breast feeding کے نتیجے میں حمل کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اس طرح اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت تو دو سال کا وقفہ از خود ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں آپ لوگ کیا کہیں گے؟؟‌


میری اوپر کی تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ : اسلام کے احکامات اپنی جگہ پر مقدم ہیں، اگر آپ کوئی ایسا فعل کرتے ہیں‌ جو اس کے خلاف ہے تو اسے قبول کرنا چاہیے کہ ہم اسلام کی روح کے خلاف کام کر رہے ہیں لیکن برائی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنے غلط کے لیے اسلام کی تاویل پیش کرتے ہیں اور اسے اسلام کے مطابق قرار دینے کی سعی لا حاصل کرتے ہیں یعنی
دِیں بھی گیا دنیا بھی گئی


والسلام
اللہ سب کو خوش رکھے اور ہدایت دے

The Prophet (pbuh) is reported to have said: “Marry the one who is loving and fertile, for I will be proud of your great numbers before the nations [i.e., on the Day of Resurrection].” (Abu Dawood Hadith no. 2050, Classed as saheeh by al-Albaani in Saheeh Abi Dawood, 1805)

ابو شامل یہ حدیث حکمیہ نہیں بلکہ ترغیبی ہے جیسے ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ ترجیحا نیک عورت سے شادی کرنی چاہیے ۔

بالکل درست کہاں آپ نے، میں نے بھی اسی نظریے کے ساتھ لکھا تھا کہ یہ ترغیبی ہے نہ کہ حکمیہ۔
 
اپ کے مسائل اور ان کا حل

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم


آپ کے مسائل اور ان کا حل
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ
جلد ۷ صفحہ ۳۵۶ تا ۳۶۳
خاندانی منصوبہ بندی
مانع حمل تدابیر کو قتل اولاد کا حکم دینا
س ۔۔۔۔۔۔ سورۃ بنی اسرئیل کی آیت ۔۔۔۔۔۔۔
" اور تم اپنی اولاد کو مال کے خوف سے قتل نہ کرو "
کی تفسیر میں مولانا مودودی صاحب نے تفہیم القرآن میں آج کل کی مانع حمل تدابیر کو بھی قتل اولاد میں شامل کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ دور میں جو نا مناسب تقسیم رزق اور دولت انسان نے خود قائم کی ہے وہ غاصب کے لیے تو پابند مسائل نہیں ، لیکن مظلوم اپنے حصے سے محروم ہے ۔ اس صورتحال میں اگر وہ اپنی انفرادی حیثیت سے صرف مسٹقبل کے خوف سے مانع حمل تدابیر اختیار کرتا ہے تو کیا یہ حکم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوگا ؟
ذات باری تعالٰی پر یقین کامل اپنی جگہ اور اس کی عطا کی ہوئی عقل سلیم ہمیں غور و فکر کی دعوت بھی دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم بارش ، دھوپ ، آندھی ، طوفان سے بجاؤ کی تدابیر کرتے ہیں نہ کہ ایسے ہی بیٹے رہتے ہیں کہ یہ سب اسی کے حکم سے ہوتا ہے اور یہی اس کی رحمت ہے ۔ مقصد کہنے کا یہ کہ جب ایک وجود کو اس نے زندگی دینی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ لیکن انسان صرف اپنی مصلحت کی بنا پر اس کے برخلاف تدابیر کرنے کی سعی کرے تو کیا یہ خلاف حکم النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار ہوگا ؟
ج ۔۔۔۔۔۔۔ منع حمل کی تدابیر کو قتل اولاد کا حکم دینا تو مشکل ہے البتہ فقر کے خوف کی جو علت قران کریم نے فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض اندیشہ فقر کی بنا پر مانع حمل تدابیر اختیار کرنا غیر پسندیدہ فعل ہے ، اور اپ کا اس کو دوسری تدابیر پر قیاس کرنا صحیح نہیں ، اس لیے کہ دوسری جائز تدابیر کی تو نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ ان کا حکم فرمایا گیا ہے۔ جب منع حمل کی تدبیر کو ناپسند فرمایا گیا ہے۔ بہر حال منع حمل کی تدابیر مکروہ ہیں جبکہ منشا محض اندیشہ فقر ہو۔ اور اگر دوسری کوئی ضرورت موجود ہو مثلاً عورت کی صحت متحمل نہیں ، یا وہ اوپر تلے کے بچوں کی پرورش کرنے سے قاصر ہے تو مانع حمل تدابیر میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

خاندانی منصوبہ بندی کا شرعی حکم
س ۔۔۔۔۔۔ ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے شہرو ں اور دیہاتوں میں بھرپور پروپیگنڈہ کر کے عوام کو اور مسلمان قوم کو یہ تاکید کی جا رہی ہے کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کر کے کم بچے پیدا کریں اور اپنے گھر اور ملک کو خوشحال بنائیں۔ محترم ! اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہے کہ جو انسان بھی دنیا میں جنم لیتا ہے اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے نہ کہ انسان کے ہاتھ میں ۔ بلکہ انسان تو اس قدر گناہ گار اور سیاہ کار ہوتا ہے کہ وہ تو اس قابل ہی نہیں ہوتا کہ اسے رزق دئیے جائیں ۔ اسے جو رزق ملتا ہے وہ بھی اس معصوم بچوں کے طفیل ملتا ہے ، تو کیا بچوں کی پیدائش روکنے اور خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے ؟
ج ۔۔۔۔۔۔۔ خاندانی منصوبہ بندی کی تحریکیں آج عالمی سطح پر چل رہی ہیں ان کے بارے میں علمائے امت فرما چکے ہیں کہ یہ صحیح نہیں، البتہ کسی خاص عذر کی حالت میں جبکہ اطباء کے نزدیک عورت مزید بچوں کی پیدائش کی لائق نہ ہو ، علاجاً ضبط ولادت کا حکم دیا جا سکتا ہے ۔

ضبط ولادت کی مختلف اقسام اور ان کا حکم
س ۔۔۔۔۔ ضبط ولادت اور اسقاط حمل میں کیا فرق ہے ؟ کونسا حرام ہے اور کونسا جائز۔
۲۔ ایک لیڈی ڈاکٹر جو ضبط ولادت کا کام کرتی ہے اور دوائیں دیتی ہے اس کی کمائی حلال ہے یا حرام ؟
ج ۔۔۔۔۔ ضبط تو لید کے مختلف انواع ہیں ۔ ۱ ۔ مانع حمل دوائیاں یا گولیاں استعمال کرنا۔ ۲ ۔ حمل نہ ٹھہرنے کے لیے آپریشن کرانا۔ ۳۔ حمل ٹھہر جانے کے بعد اس کو دواؤں سے ضائع کرنا ۔ ۴ ۔ اسقاط حمل کرانا ۔ ۵۔ یا مادہ منوی اندر جانے سے روکنے کے لیے پلاسٹک کوئل استعمال کرنا۔ یہ سب اقسام ہیں ۔
لہذا فقر اور احتیاجی کے خوف سے یا کثرت اولاد کو روکنے کے واسطے مذکورہ انواع میں سے جس کو بھی اختیار کیا جائےگا۔ وہ ضبط تولید میں آئے گا۔ اور ضبط تولید کے عمل کرنے اور کرانے والا دونوں گناہ گار ہوں گے ۔
۲۔۔۔۔۔۔ مذکورہ بالا حالات میں ڈاکٹر کے لئے دوائیاں دینا بھی گناہ ہوگا، الا یہ کہ کوئی مریض ایسا ہو کہ حمل کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو اور حمل بھی ایسا کہ اس میں جان پیدا نہ ہوئی ہو یعنی چار ماہ کی مدت سے کم ہو ۔اس سے قبل اسقاط کرا سکتا ہے۔ ایسی خاص صورت میں ڈاکٹر بھی گناہ گار نہ ہوگا اور مانع حمل اور اسقاط کی دوائی استعمال کرنے والا بھی گناہ گار نہ ہوگا۔

خاندانی منصوبہ بندی کا حدیث سے جواز ثابت کرنا غلط ہے ؟
س ۔۔۔۔۔۔ آج صغرا بائی ہسپتال نارتھ ناظم آباد جانے کا اتفاق ہوا، وہاں ہسپتال کے مختلف شعبوں اور کوریڈور میں خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق ایک اشتہار دیکھا جس میں نفس کو مارنا جہاد عظیم قرار دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ نس بندی کی تعریف کی گئی تھی اور اسے بھی نفس کو مارنے سے تعبیر کیا گیا تھا اور ایک حدیث کا حوالہ تھا کہ " مال کی قلت اور اولاد کی کثرت سے پناہ مانگو " یعنی یہ حدیث قرآن کی ان تعلیمات کے بالکل ضد ہے ، جس میں اولاد کو فقر کے ڈر سے قتل سے منع کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ ہر ذی روح کو رزق دیتا ہے ، کیا یہ حدیث قرآن کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے ؟ امید ہے کہ اس حدیث کی وضاحت فرمائیں گے۔
ج ۔۔۔۔۔ حدیث تو صحیح ہے مگر اس کا جو مطلب لیا گیا ہے وہ غلط ہے ، "حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مصائب کی مشقت سے اللہ کی پناہ مانگو" اس کو اولاد کی بندش کے ساتھ جوڑنا غلط ہے ۔ نس بندی کو نفس کشی کہنا بھی محض اختراع ہے، نفس کشی کا مفہوم یہ ہے کہ نفس کو ناجائز اور غیر ضروری خواہشوں سے باز رکھا جائے ۔ ۔

خاندانی منصوبہ بندی کی شرعی حیثیت
س ۔۔۔۔ خاندانی منصوبہ بندی یا بجوں کی پیدائش کی روک تھام کے کسی بھی طریقہ پر عمل کرنا گناہ صغیرہ ہے ؟ گناہ کبیرہ ہے یا شرک ہے ؟
ج ۔۔۔۔ منع حمل کی تدبیر اگر بطور علاج کے ہو کہ عورت کی صحت متحمل نہیں تو بلا کراہت جائز ہے ، ور نہ مکروہ ہے اور اس نیت سے خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنا بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کیا جائے شرعاً گناہ ہے، گناہ صغیرہ ہے یا کبیرہ اس کی مجھے تحقیق نہیں ۔

برتھ کنٹرول کی گولیوں کے مضر اثرات
س ۔۔۔۔ آج سے پندرہ بیس سال قبل بچہ کی پیدائش ماں باپ کے لیے مسئلہ نہیں بنتی تھی بلکہ مشترکہ خاندان کی بدولت بچہ ہاتھوں ہاتھ پل جاتا تھا ، اس کے علاوہ مسائل کی فراوانی بھی نہیں تھی نوکر آسانی سےمل جاتے تھے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جاسکتی تھی کیونکہ عموماً بجے دادی یا نانی کی سر پرستی میں پرورش پاتے تھے ۔ مائیں بھی بچوں پر خصوصی توجہ دے لیتی تھیں ۔ کیونکہ نوکر بآسانی کم تنخواہوں پر مل جاتے تھے اکثر اوقات تو گھریلو قسم کی عورتیں صرف دو وقت کی روٹی کی خاطر کھاتے پیتے گھرانوں میں کام کرنے لگتی تھیں ۔ ظاہری نمود و نمائش کا نام و نشان نہ تھا ۔ اگرکسی کی تنخواہ کم تو وہ دال روٹی کھا کر اپنے بچوں کی پرورش کر لیتا تھا اور کھبی بھی کسی جوڑے کو کم بچے خوشحال گھرانے کا خیال تک نہیں آیا۔
لیکن آج کا دور جب کہ مسائل نے پریشانیوں کی صورت اختیار کر لی ہے مشترکہ خاندان کا تصور خال خال نظر آتا ہے ۔ دادی یا نانی اپنے بچوں کی اولادوں سے بیزار نظر آتی ہیں ۔ ظاہری نمود و نمائش کا ایک طوفان برپا ہے ہر شخص دولت کی ہوس میں اندھا ہو رہا ہے ، بیوی اور شوہر دونوں ملازمت کرکے اپنے معیار زندگی کو اعلٰی سے اعلٰی کرنے کی تگ و دو میں کوشاں ہیں ہر شخص کی فکر اپنی حد تک محدود ہے رنگین ٹی وی ، فرج ، قالین ، صوفے، عمدہ کراکری گاڑی ہر شخص کے اعصاب پر سوار ہیں ۔ ہر شخص اس بات کی فکر میں ہے کہ وہ خاندان کا امیر ترین آدمی کہلائے۔ معاشرہ کے یہ ناسور اس پر طرہ ٹی وی ، ریڈیو پر کم بچے خوشحال گھرانہ کے پروپیگنڈہ نے ہزاروں عورتوں کو ذہنی مریض ، جسمانی مریض اور پھر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ آج کا مرد عورت کو برتھ کنٹرول کی گولیاں کھلا کر اپنے معیار زندگی کو بلند سے بلند تر کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور عورت جو مرد کا دایاں بازو کہلاتی ہے آج ہمارے معاشرہ کا بیمار اور روگی عضو بنتی جا رہی ہے ۔ ان گولیوں نے نامعلوم کتنی زندگیاں تباہ و برباد کی ہوں گی ہمارے معاشرے میں کسی کا نام لکھنا اور مشتہر کرنا باعث رسوائی ہے۔ بہر حال یہ کولیاں عورت کے سر درد پیدا کرتی ہیں ماہانہ نظام میں خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ بعض عورتیں بے پناہ موٹی اور بعض عورتیں دبلی اور کمزور ہو جاتی ہیں ۔ بینائی پر اثر پڑتا ہے ۔ سر کے بال سفید ہو جاتے ہیں ، مختلف قسم کے اندرونی تکالیف پیدا ہو جاتی ہیں ۔ بعض عورتیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہیں ۔
مانع حمل گولیوں کے استعمال کرنے والی عورتوں سے اس مضر اثرات کے بارے متعلق پوچھا تو ہر عورت کو سر درد شدید تکلیف میں مبتلا پایا ، جو ہفتہ عشرہ میں ضرور اٹھتا ہے اور جس کو روکنے کے لئے وہ اسپرین کی گولیاں استعمال کرتی ہیں ۔ یہ سر درد تقریباً دو تین روز تک رہتا ہے ۔ عموماً عورتوں کے پیروں کے پٹھے اکڑنے کی بھی شکایت ہو جاتی ہے پیر سن ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات ان کو حرکت تک نہیں دے سکتیں ۔ ایک صاحبہ جو شادی سے قبل بہت اسمارٹ ہوا کرتی تھیں ۔ ان گولیوں کے استعمال کے بعد بے پناہ موٹی ہو کر ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو گئیں ۔ بہر حال اگر سروے کیا جائے تو ہر پڑھی لکھی عورت اس لعنت سے پریشان ہے لیکن وہ اس کے استعمال کو بند کرنے کو بھی تیار نہیں کیونکہ ان کے مسائل اتنے ہیں کہ وہ تیزی سے اپنی صحت کو داؤ پر لگا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس کا باقاعدہ طور پر سروے کرکے عورتوں کو اس کے مضر اثرات سے اگاہ کیا جائے اور ان گولیوں کے استعمال پر سختی سے گورنمنٹ کو پابندی عائد کرنی چاہیے جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارے لیے گناہ عظیم بھی ہے۔
ج ۔۔۔۔ خدا کرے کہ حکومت اور عورتیں آپ کے مشورہ پر دونوں عمل کریں ۔
اور جیسا کہ آپ نے ارشاد کیا ہے۔ یہ تمام نحوستیں اس وجہ سے ہیں ، کہ اس زندگی کو اصل زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ موت اور موت کے بعد کی فراموش کردیا گیا ہے ۔ اسلام نے جس سادگی اور کم تر آسائش زندگی حاصل کرنے کی تعلیم دی تھی اس کے بجائے سامان تعیش کو مقصد بنا لیا گیا ہے ، یہ معیار زندگی کو بلند کرنے کا بھوت پوری قوم پر سوار ہے ، جس نے قوم کی دنیا و آخرت دونو کو غارت کر دیا ہے ، ان تمام بیماریوں کا علاج یہ ہے کہ مسلمانوں میں آخرت کے یقیں کو زندہ کیا جائے۔
حکومت ضبط تولید پر کروڑوں روپیہ ضائع کر رہی ہے ، لیکن اس کے باوجود آبادی محدود کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکامی ہے ۔ البتہ اس سے چند خرابیاں رو نما ہو رہی ہیں : ۔
اول : عورت کا بچے پیدا کرنا ایک فطری عمل ہے ۔ جو عورتیں اس فطری عمل کو روکنے کے لیے غیر فطری تدابیر اختیار کرتی ہیں وہ اپنی صحت کو برباد کرلیتی ہیں ، اور بلڈ پریشر سے لے کر کینسر تک کے روگ ان کی زندگی بھر کے ساتھ ہو جاتے ہیں ، اور وہ جلدسے جلد قبر میں پہنچنے کی تیاری کر لیتی ہیں گو یا ضبط تولید کی گولیاں اور دوسری غیر فطری تدابیر ایک زہر ہے جو ان کے جسم میں اتارا جا رہا ہے۔
دوم : اس زہر کا اثر ان کی اولاد پر بھی ظاہر ہوتا ہے ۔ چونکہ ایسی خواتین کی اپنی سوچ گھٹیا ہے ، اس لئے ان کی اولاد بھی ذہنی و جسمانی طور پر تندرست نہیں ہوتی۔ بلکہ یا تو جسمانی طور پر معذور ہوتی ہے یا ذہنی بلندی سے عاری ، کام چور کھیل کود کی شوقین، والدین کی نافرمان اور جوان ہونے کے بعد نفسانی و جنسی امراض کی مریض۔ اس طرح ضبط تولید کی یہ تحریک، جس پر حکومت قوم کا کروڑوں ، اربوں روپیہ غارت کر چکی ہے اور کر رہی ہے ، در حقیقت ایک معذور اور ذہنی طور پر اپاہج معاشرہ وجود میں لانے کی تحریک ہے۔
سوم : ہمارے معاشرے میں مرد و زن کی کے اختلاط پر کوئی پابندی نہیں ۔ تعلیم گاہوں میں ( جن کو نئی نسل کی قتل گاہیں کہنا زیادہ صحیح ہو گا) نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مخلوط تعلیم حاصل کرتے ہیں ، عقل ناپختہ اور جذبات فراواں، اس ماحول میں نوجوان نسل بجائے فنی تعلیم کے عشق لڑانے کی مشق کرتی ہے ، اور جنسی ملاپ کو منتہائے محبت تصور کرتی ہے، اس راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اگر جنسی ملاپ کا نتیجہ ظاہر ہو گیا تو دنیا میں رسوائی ہو جائے گی ، اس برتھ کنٹرول کی تحریک نے ان کے راستہ کی یہ مشکل حل کردی، اب لڑکیاں اس غلط روی کے خوفناک انجام سے بے فکر ہو گئی ہیں، اور اگر برتھ کنٹرول کے باوجود ''نتیجہ بد'' ظاہر ہی ہو جائے تو ہسپتال میں جا کر صفائی کرالی جاتی ہے۔
الغرض حکومت کی یہ تحریک صرف اسلام ہی کے خلاف نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے خلاف ایک ہولناک سازش ہے۔

مانع حمل ادویات اور غبارے استعمال کرنا
س۔۔۔۔۔۔ آج کل لوگ جماع کے وقت عام طور پر مانع حمل ادویات استعمال کرتے ہیں یا اس کی جگہ آج کل مختلف قسم کے غبارے چل رہے ہیں جن سے حمل قرار نہیں پاتا۔ کیا ایسا عمل جس سے حمل قرار نہ پائے جائز ہے۔ نیز کیا ان غباروں کا استعمل درست ہے ؟
ج۔۔۔۔۔۔جائز ہے۔



 

دوست

محفلین
جتنے منہ اتنی باتیں۔
میں تو اپنا نکتہ نظر بتا رہا ہوں اگر آپ ایک چھابڑی فروش ہیں اور آپ کے سات آٹھ بچے ہیں جنھیں آپ دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے تو یہ بہتر ہوتا کہ یہ سات آٹھ کی بجائے تین یا چار ہوتے۔
 

عادل

معطل
جتنے منہ اتنی باتیں۔
میں تو اپنا نکتہ نظر بتا رہا ہوں اگر آپ ایک چھابڑی فروش ہیں اور آپ کے سات آٹھ بچے ہیں جنھیں آپ دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے تو یہ بہتر ہوتا کہ یہ سات آٹھ کی بجائے تین یا چار ہوتے۔

2007 میں کتنی اموات بھوک سے ہوئیں اور کتنی قتل و غارت گری میں؟
 

دوست

محفلین
ہاں ماں باپ کو قتل و غارت گری کا الگ سے مارجن رکھ لینا چاہیے کہ اتنے ہم پال سکتے ہیں اور اتنے قتل وتل ہوگئے تو مسئلہ نہیں۔
 

خاور بلال

محفلین
چھابڑی فروش ہیں اور آپ کے سات آٹھ بچے ہیں جنھیں آپ دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے تو یہ بہتر ہوتا کہ یہ سات آٹھ کی بجائے تین یا چار ہوتے۔

ایک صاحب ہیں 22 گریڈ افسر۔ بہترین تنخواہ، اچھی مراعات۔ اس حساب سے تو ان کے سو ڈیڑھ سو بچے ہونے چاہئیں۔ آخر ان پر سو بچے بوجھ تو نہیں ہونے ہونگے؟
بچے پیدا نہ کرنے کی منطق غربت سے منسوب کی جاتی ہے، جبکہ امیر حضرات میں اس کی مثال سب سے زیادہ ملتی ہے۔ وہ طبقہ جو غریبوں کا حق مارنے میں شہرت رکھتا ہے، وہی طبقہ خاندانی منصوبہ بندی کا سب سے زیادہ قائل ہے۔

"ضبطِ ولادت" از سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ اس کتاب کا مطالعہ از حد مفید ہے اور سنجیدہ حضرات سے درخواست ہے کہ اسے ضرور پڑھیں۔

ہمیں آخر غیروں کی تہذیب اپنا کر کیا ملے گا؟ ہمیں تو مسکرانے تک کے لیے دوسروں کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ہمارے پاس مسکرانےسے لیکر ایک ایک عمل کا ماڈل موجود ہے۔

دیارِ مغرب ہوس میں غلطاں
شراب ارزاں، شباب عریاں
جسے بھی دیکھو، غریقِ عصیاں
ہم ایسی تہذیب کا کیا کریں گے؟
 

خرم

محفلین
دیکھئے اگر تو آپ کا یہ یقین ہے کہ پالنے والا رب اور رازق اللہ ہے تو آپ کو کیا فکر کہ بچوں کا رزق کہاں سے آئے گا؟ ہاں اگر آپ اپنے تئیں پالن ہار اور رازق سمجھتے ہیں تو پھر تو آپ کو یہ ساری فکریں کرنی پڑیں گی مگر پہلے یہ سوچ لیجئے گا کہ اپنے بل پر کیا آپ ایک قطرہ آب بھی کما سکتے ہیں؟
 

زیک

مسافر
آخری بات یہ کہ لگتا ہے یہاں‌ سارے ناتجربہ کار ہیں :wink: :wink: :wink: !!
اگر عورت ایک بچے کو جنتی ہے تو اسے دو سال تک اسے دودھ بھی پلانا ہوتا ہے، اور breast feeding کے نتیجے میں حمل کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اس طرح اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت تو دو سال کا وقفہ از خود ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں آپ لوگ کیا کہیں گے؟؟

باقی تو ناتجربہ‌کار ہیں مگر میں نے سوچا کہ lactational amenorrhea کے بارے میں کچھ غلط‌فہمیوں کا ازالہ کر دوں۔ حمل روکنے کے لئے یہ پہلے 6 ماہ تو کافی effective ہے (جب بچہ صرف ماں کے دودھ پر گزارہ کرتا ہے) مگر اس کے بعد کافی کم۔ اوسط وقت جب یہ بیکار ہو جاتا ہے شاید 14 ماہ ہے مگر اس کی standard deviation بہت زیادہ ہے لہذا بہت سے کیسز میں یہ صرف 5،6 ماہ ہی قابلِ استعمال طریقہ ہے۔
 
یہ طنزیہ سوال نہیں، سوالیہ سوال ہے۔ کوئی صاحب اس بات پر روشنی ڈالنہ پسند فرمائیں گے کہ یورپ کی آبادی 1701 میں کتنی تھی؟ اور اب یورپ کی آبادی جس کا ایکسپلوژن شمالی اور جنوبی امریکہ میں بھی ہوا ہے، 2001 میں کتنی ہے۔ اسی نسبت سے برصغیر پاک ہند کی آبادی 1701 میں کتنی تھی اور 2001 میں کتنی ہو گئی؟ اس سے اندازہ ہوگا کہ دنیا کی آبادی میں اضافہ بیشتر کہاں ہورہا ہے۔

اگر ہم اس کرہ ارض پر آبادی کم کرنے کا ذمہ اٹھالیں اور باقی ممالک نہ اٹھائیں تو پھر نتیجہ کیا نکلے گا؟
 

زیک

مسافر
یہ لیں۔

برِ اعظم |{colsp=2} 1750 عیسوی |{colsp=2} 1999 عیسوی
۔ | آبادی (ملین) | فیصد (%) | آبادی (ملین) | فیصد (%)
دنیا | 791 | 100.0 | 5,978 | 100.0
ایشیا | 502 | 63.5 | 3,634 | 60.8
یورپ | 163 | 20.6 | 729 | 12.2
شمالی و جنوبی امریکہ | 18 | 2.3 | 818 | 13.6
افریقہ | 106 | 13.4 | 767 | 12.8

یاد رہے کہ امریکہ کی آبادی میں کافی native americans بھی ہیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ 1750 میں امریکہ کی آبادی تاریخی اعتبار سے بہت کم تھی کہ بہت سے نیٹو امریکی یورپ سے آئی بیماریوں کا شکار ہو چکے تھے۔
 

ساجداقبال

محفلین
آبادی کے بڑھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔دنیا کی آبادی 2 بندوں سے 6 ارب ہوگئی ۔۔۔کچھ نہیں ہوا، پھر بھی کچھ نہیں ہوگا۔ :)
 

حسن نظامی

لائبریرین
میں اس دھاگے کو تفصیلا تو نہیں پڑھ سکا مگر کچھ اندازہ ضرور لگا پایا ہوں

مہوش خود غائب ہیں ؟؟؟

دراصل ہر انسان جو دنیا میں آنا ہے وہ اﷲ تعالی کو معلوم ہے اور ہر آنے والے کا رزق بھی اﷲ تعالی نے لکھ رکھا ہے رازق جو ہوا

ہم نے کیا کرنا ہے فقط اس اﷲ وحدہ لا شریک کی غلامی

اور اس کا غلامی کے چند فرائض ہیں

جب اﷲ اپنے بندے کو اولاد جیسی نعمت سے نوازتا ہے تو اس کے اوپر کچھ فرائض بھی عائد کرتا ہے

کہ ادبوا اولادکم

اولاد کو تربیت دے اور تعلیم سے اسے سنوارے ادب سے اس کا بناو سنگھار کرے اور اس کے من میں اﷲ رب العزت کی وحدانیت کو یوں بٹھائے کہ وہ رب کا نیک بندہ بنے

یار میرے ذہن میں ایک بات آتی ہے

ایک شخص جس کے 12 بچے ہیں اور 12 کے 12 ہی آوارہ اور بد چلن ہیں اس کو ان 12 کا کیا فائدہ

کیا حضرت خضر اور حضرت موسی سلام اﷲ علیھما و علی نبینا الصلوۃ والسلام کا واقعہ نہیں ہے کہ ایک بچے کو قتل کر دیا اس لیے کہ بری اولاد سے اس کے والدین کو نجات نصیب ہو جائے

بھلے اولاد کی کثرت ہو اگر ایسے مسلمانوں کا اضافہ امت محمدیہ کرے گی تو پھر تو بلے ہی بلے

اگر کسی کا ایک بچہ ہو اور وہ ہدایت یافتہ اور نیک ہو اس کی تربیت اچھے طور پر کی گئی ہو تو بہت ہے بلکہ بہتوں سے وہ ایک اچھا ہے

تو بس یہی بات ہے اگر اولاد کی مناسب اور اچھی تربیت کر سکتے ہو ان کے مابین انصاف کر سکتے ہو تو بھلے 2 چھوڑ 10 ہونے چاہئیں

اور اگر نہیں تو پھر ایک کی بھی ضرورت نہیں

نکاح سنت ہے اور اولاد بھی صدقہ جاریہ ہے اگر نیک ہو تو بد اولاد سے تو نہ ہونا ہی بہتر بھائی

رہی بات منصوبہ بندی کی

تو "عزل "سرکار صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں بھی تھا اور سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی اجازت بھی دی

اگر کوئی اس حدیث کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے اور اس کی تفصیل میں جائے تو مناسب حل مل جائے گا

علاوہ ازیں مولانا جعفر شاہ پھلواروی ایک بڑے اچھے محقق گزرے ہیں ان کی ایک کتاب ہے اسلام اور منصوبہ بندی انہوں نے بڑے محققانہ انداز میں منصوبہ بندی کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے اور اسے جائز کہا ہے

والسلام
 
Top