خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت کیوں؟

دوست

محفلین
ہمیں اللہ تعالٰی رازق یاد آجاتا ہے ایسے معاملات میں۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ عام معاملات زندگی میں‌ ہم کتنا توکل کرتے ہیں اس کی ذات پر۔ جتنا توکل کرتے ہیں اس کا فائدہ جتنا ہمیں ہورہا ہے آپ کے سامنے ہی ہے۔ آسمان سے من وسلوٰی تو اتر نہیں سکتا اب رزق کی جگہ ظاہر ہے مجھے ہی اپنے بچوں کے لیے کمانا ہوگا۔ جب میرے جیسا منافق کمانے والا ہوگا تو پھر موج ہوجائے گی نا۔
مجھے کیا اسی معاملے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث یاد آئیں کہ کثرت اولاد ہو، یا عورت کی خوبیوں میں یہ بات شامل ہو کہ کثیر لاولاد بنادے ۔ مجھے یہ کیوں یاد نہیں آتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا بھی مانگی تھی کہ اے اللہ مجھے کثرت اولاد اور قلت اموال سے بچا؟
 

Muhammad Naeem

محفلین
۔ مجھے یہ کیوں یاد نہیں آتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا بھی مانگی تھی کہ اے اللہ مجھے کثرت اولاد اور قلت اموال سے بچا؟
اس دعا کی عربی عبارت کیا ہے۔ اور کس کتاب میں سے مل سکتی ہے ضرور آگاہ کریں۔
 

دوست

محفلین
یہ مجھے یاد نہیں۔ لیکن یہ کنفرم ہے کہ ایسی دعا موجود ضرور ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں۔
 
شاکر میرا نہیں خیال کہ ایسی کوئی صحیح حدیث ہے اور اس معاملے میں بہت احتیاط کرنی چاہیے اگر آپ کو نہیں یاد تو حوالہ نہ دیں کیونکہ تمہاری اس بات کو پڑھ کو جو شخص بھی اس کا حوالہ دے گا اس کی ذمہ داری تم پر ہوگی۔
 

باسم

محفلین
23112007b.gif
 
اس سلسلے میں‌ جو آئت میرے ذہن میں آتی ہے وہ ہے، یہ خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق نہیں ہے بلکہ اولاد کو مفلسی کے باعث قتل کرنے کے بارے میں ہے۔ کہ ان کا رازق اللہ تعالی ہے۔

[AYAH]6:151[/AYAH] فرما دیجئے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)، اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں، اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام کیا ہے بجز حقِ (شرعی) کے، یہی وہ (امور) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو
 

دوست

محفلین
یہاں مفلسی کے باعث قتل کرنے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اولاد کو پیدا ہی نہ کیا جائے۔ یعنی دنیا میں ہی نہ آنے دیا جائے۔
 

خرم

محفلین
یہ توشاکر بھائی اپنی عقل کا قصور ہے۔ آقا صل اللہ علیہ وسلم کا تو فرمان مبارک ہے کہ اللہ نے جس روح کو دُنیا میں بھیجنا ہے اسے کوئی آنے سے روک نہیں‌سکتا۔ بس شیطان انسان کو بہلاوے دیتا ہے اور اُلٹی بات سیدھی کر کے دکھاتا ہے۔ جب پیدا کرنے والا اور مارنے والا اللہ ہے تو پھر میرا، آپ کا یا کسی اور کا کیا کام اس سارے عمل میں؟
 
اسلام و علیکم،
اسلام میں‌اس بچے کو مارنا قتل ہے جو ماں‌کے پیٹ میں‌ہو۔ خاندانی منصوبہ بندی بالکل جائز ہے۔ کیونکہ یہ ہر ماں‌باپ کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کریں‌کہ ان کے کتنے بچے ہونے چاہئیں۔ ہاں‌بس یہ احتیاط کریں‌کہ جب حمل ٹھہر جائے تو اسقاط حمل نہ کیا جائے کیونکہ وہ قتل ہے۔

والسلام
 
Top