خانہ کعبہ میں سعودی پولیس

خانہ کعبہ کے ساتھ پاؤں ٹکانے پر تنازع
140530164427_saudiarabia_kaaba_police_shoe_624x351_bbc_nocredit.jpg

سعودی پولیس اہلکار کی ایک تصویر نے جہاں عرب دنیا میں اشتعال پھیلا دیا ہے وہیں اس کے لیے ہمدردی کی ایک لہر بھی پیدا ہوئی ہے۔
اس تصویر میں وہ اہلکار اُس مقام سے پاؤں ٹکائے کھڑا جس کا مسلمان طواف کرتے ہیں۔
یہ تصویر بڑے پیمانے پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیئر کی گئی اگرچہ تاحال یہ معلوم نہیں کہ یہ تصویر کس نے کھینچی۔
ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے یہ رائے دی گئی کہ ’یہ دنیا میں مقدس ترین مقام ہے، دیکھو یہ کیسے اس کی توہین کر رہا ہے۔‘
ایک دوسرے میں کہا گیا ’لوگ ساری عمر صرف ایک مرتبہ خانہ کعبہ کو چُھونے کے آرزو کرتے ہیں لیکن یہ شخص کتنا گستاخ ہے۔‘
ایک ہیش ٹیگ (#عسكري_يضع_قدمہ_على_الكعبۃ ) 17000 مرتبہ استعمال کیا گیا جس کا مطلب ہے کہ ’فوجی نے اپنا پاؤں کعبہ پر رکھا‘۔
یہ تصویر کئی خبروں کی ویب سائٹس پر بھی شائع کی گئی جس پر کئی قارئین نے اس کی اشاعت پر اعتراض کیا۔
اطلاعات ہیں کہ مکّہ کے گورنر شہزادہ مشعل بن عبدللہ بن عبدالعزیز نے اس واقعے کی تحقیقات اور تادیبی کارروائی کا حکم دیا ہے۔
عرب دنیا میں کسی مقدس چیز کے ساتھ جوتے لگانا توہین سمجھا جاتا ہے۔ حکام نے شروع میں کہا کہ اس اہلکار نے جوتے نہیں پہن رکھے لیکن مسجد کا عملہ عام طور پر ربڑ کے یہ چپل پہنتا ہے۔
اب ٹوئٹر پر کئی لوگ اس پولیس اہلکار کے دفاع میں بھی بولنے لگے ہیں۔ کئی کا کہنا ہے کہ ’وہ یقیناً بہت تھک گیا ہو گیا اور کچھ دیر کو سستانا چاہتا ہوگا۔‘
ایک ٹویٹ میں کہا گیا ’یہ احمقانہ بات ہے، ضرورت ہے کہ لوگ اپنی ترجیحات واضح کریں۔‘
کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ تصویر بذاتِ خود ذومعنی ہے ایک ٹویٹ میں پوچھا گیا ’حج کے دوران کون تھا جو تصویرین اتار رہا تھا۔‘
کہا جا رہا ہے کہ شہزادہ مشعل نے پولیس حکام سے کہا ہے کہ وہ ایسی تربیتی کورسز کا اہتمام کریں جن میں پولیس اہلکاروں کو بتایا جائے کہ مسجد میں کس طرح پیش آنا ہے۔
 
اس بے ادب اہلکار کو فوراً سخت سزا ملنی چاہئے۔
مسجد حرام کے اہلکار زائرین کے ساتھ تو بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن خانہ کعبہ جیسے مقدس مقام کی بے ادبی ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔
 

سویدا

محفلین
ایک شخص کی غلط حرکت پر پورے سعودیہ کو یا ان کی مکمل پولیس کو مطعون کرنا بھی کوئی کم بری اور غلط حرکت نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
سعودی پولیس جتنی مددگار ہے، شاید ہی کسی دوسرے ملک کی پولیس ہو جن میں یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔

پاکستانی پولیس کے ساتھ اگر ان کا مقابلہ کیا جائے تو سرفہرست سعودی پولیس اور سب سے نیچے پاکستانی پولیس نظر آئے گی۔

حج اور رمضان کے دوران جتنی برداشت کا مظاہرہ سعودی پولیس اور رضاکار کرتے ہیں اس کو لفظوں میں لکھنا ناممکن ہے جس کا بارہا مشاہدہ میں خود کر چکا ہوں۔

جہاں تک اس لڑی میں مذکور پولیس والے کا تعلق ہے تو حکام اس کے متعلق فیصلہ دے چکے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
جہانزیب بھائی آپ کو معلوم ہے اس ڈرائیور نے کیا کہا تھا؟ جو ان کے درمیان گفتگو ہوئی ہے اس میں ڈرائیور نے کہا تھا کہ سعودی اچھے نہیں ہیں، حیوان ہیں اور کُتے ہیں تو اس پر یہ سب کچھ ہوا ہے۔

اور ہو سکتا ہے یہ مارنے والا پولیس والا نہ ہو، ایک عام شہری ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
میرے مشاہدے کا واقع ہے کہ جو امریکی یہاں آتے ہیں وہ ان میں اپنے آپ کو ایسے ہی سمجھتے ہیں جیسے سعودی اپنے آپ کو انڈین، پاکستانی، بنگالی اور دیگر مشرق بعید کے لوگوں پر برتر سمجھتے ہیں۔

مشرقی لوگ ان کے لیے "رفیق" ہوتے ہیں اور یورپی یا امریکی بھلے ہی پھٹی ہوئی پتلون پہنے ہوئے ہو، وہ ان کا "صدیق" ہوتا ہے۔ یہ "رفیق" اور "صدیق" کی اصطلاح تو آپ کو معلوم ہی ہو گی۔ اور یہ ہم لوگوں کے اپنے پیدا کردہ حالات ہیں کہ طرح طرح سے فراڈ اور بے ایمانیاں کرتے ہیں۔ چرس، افیم اور ہیروئن زیادہ تر پاکستان اور افغانستان سے ہی آتی ہے۔ بہت سے افغانی یہاں پاکستانی پاسپورٹ پر ہیں۔ جب پکڑے جاتے ہیں تو نام پاکستان کا ہی آتا ہے۔ اور بھی بہت کچھ ہے۔
 
Top