خبر - قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کی مزید قیادت نہیں کرسکیں گے۔

محمداحمد

لائبریرین
مجہے یہ بات سمجھ میں نہیں‌آئی کہ امریکہ کے خلاف جلسے اور وہیں پہ اپنے بچوں کو تعلیم
"کیا یہ کھلا تضاد نہیں"

جن مسلمانوں کو امریکہ سے اختلاف ہے اُنہیں امریکی پالیسیوں سے اختلاف ہے ورنہ وہ امریکی عوام کے خلاف تو نہیں ہیں۔

یہاں تو یہ عالم ہے کہ خود پاکستان میں ہی یکساں نظامِ تعلیم نہیں ہے سب بچوں کے لئے اور کچھ تعلیمی ادارے تو اس قدر مہنگے ہیں کہ عام آدمی اپنی پورے مہینے کی آمدن لگا کر بھی ایک بچے کے اسکول کا خرچہ نہیں برداشت کر سکتا۔ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو سب سے پہلے اس تفاوت کو ختم ہونا چاہیے۔
 

گرو جی

محفلین
امریکہ مفت تعلیم تھوڑی دے رہا ہے؟

بات مفت تعلیم کی نہیں ہو رہی ہے بات صرف یہ ہے کہ جس ملک کے آپ خلاف ہوں اور اسہی ملک میں اپنی اولادوں کو تعلیم دلوائیں‌ یہ کیا مزاق ہے اس ملک کی عوام کے ساتہ
جنہوں نے یہاں تعلیم ہی حاصل نہیں کی وہ کیا یہاں کے معیارِتعلیم کو درست کر پائیں‌گے
 

محسن حجازی

محفلین
احمقوں کا گروہ جب انتخاب پر آئے گا تمام تر رائے شماری پرچی گیری کے بعدکوئی احمق ہی منتخب کرے گا۔
جماعت اسلامی میں کوئی صاحب دانش مجھے تو نظر نہیں آتا چلیے یہ نہ سہی کوئی صاحب خطابت ہی دکھا دیجئے۔
جماعت اسلامی میں فکری تنوع کا گلا گھونٹ دیا گيا تھا اس کے بعد سے میری دانست میں اس کی حیثیت Facebook سے زیادہ نہیں جہاں جماعتی بھائي کے نام پر آپس میں کاروبار اور تعلقات بڑھائے جاتے ہیں۔
کم سے کم پچھلے بیس برس میں جماعت کی طرف سے کوئی ٹھوس علمی و فکری کاوش سامنے نہیں آئی۔
سماجی محاذ پر کھالیں اکٹھی کرنے سے زیادہ نہیں بڑھ سکے۔
سیاسی محاذ پر دھرنے اور پارلیمنٹ میں دو چار سیٹیں۔

یہ میری ذاتی آرا ہیں جن کی صحت پر مجھے قطعی اصرار نہیں یقینی طور پر میرے انداز فکر میں کوئی کجی یا کوتاہی ہو سکتی ہے تاہم فی الحال میں ایسا ہی سمجھتا ہوں نیز رائے بدلنے پر آمادہ ہوں۔
 

طالوت

محفلین
لیکن مجھے آپ کی اس رائے کی صحت پر اصرار ہے ۔۔ یہ بالکل درست رائے ہے ۔۔۔
اسے بدلنے کی کوشش مت کیجیے گا ۔۔۔ورنہ دنگا بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔
وسلام
 

ابوشامل

محفلین
پروفیسر غفور کے کوئی چانس نہیں؟
اللہ رحم کرے، یہ ساری تان پروفیسر غفور پر آ کر ہی کیوں ٹوٹتی ہے؟

بابائے احتجاج سے عوام کی جان چھوٹنے والی ہے۔
اب ہم سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کریں گے۔

یعنی کہ اگلا امیر بھی احتجاجی پالیسی جاری رکھے گا؟ :(
تو کیا احتجاج کرنا بھی چھوڑ دیں۔ میرے خیال میں جب تک احتجاج کی وجوہات باقی ہیں، سب کو احتجاج کرنا چاہئے۔

احمقوں کا گروہ جب انتخاب پر آئے گا تمام تر رائے شماری پرچی گیری کے بعدکوئی احمق ہی منتخب کرے گا۔
جماعت اسلامی میں کوئی صاحب دانش مجھے تو نظر نہیں آتا چلیے یہ نہ سہی کوئی صاحب خطابت ہی دکھا دیجئے۔
جماعت اسلامی میں فکری تنوع کا گلا گھونٹ دیا گيا تھا اس کے بعد سے میری دانست میں اس کی حیثیت Facebook سے زیادہ نہیں جہاں جماعتی بھائي کے نام پر آپس میں کاروبار اور تعلقات بڑھائے جاتے ہیں۔
کم سے کم پچھلے بیس برس میں جماعت کی طرف سے کوئی ٹھوس علمی و فکری کاوش سامنے نہیں آئی۔
سماجی محاذ پر کھالیں اکٹھی کرنے سے زیادہ نہیں بڑھ سکے۔
سیاسی محاذ پر دھرنے اور پارلیمنٹ میں دو چار سیٹیں۔

یہ میری ذاتی آرا ہیں جن کی صحت پر مجھے قطعی اصرار نہیں یقینی طور پر میرے انداز فکر میں کوئی کجی یا کوتاہی ہو سکتی ہے تاہم فی الحال میں ایسا ہی سمجھتا ہوں نیز رائے بدلنے پر آمادہ ہوں۔
محسن بھائی! آپ کی واضح کردہ بات سے تو میں متفق ہوں۔ لیکن آپ کسی اور جماعت کی علمی و فکری کاوش کا ہی ذکر فرما جائیں تو بہتر ہے۔
اندھوں میں کانا راجا والی بات ہے، ورنہ جماعت کی سیاسی پالیسی پر مجھے بھی اطمینان نہیں۔
میرے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جماعت اسلامی تحریک کو مضبوط کرنے کا کام کرے، جو مولانا مودودی کے بعد سے مسلسل رو بہ زوال ہے، اور علمی و فکری میدان میں آگے آئے۔ خرم مراد صاحب کے بعد ہمیں صرف پروفیسر خورشید ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ بھی معیشت تک محدود ہیں۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں جماعت اسلامی کے لیے کچھ نہیں، اس لیے کم از کم اگلے 15 سالوں تک سیاست سے کنارہ کشی کر کے کارکنان کی تربیت اور علمی میدان میں کچھ کر دکھانا چاہئے۔ اس کے اثرات 20 سالوں میں نظر آ ہی جائیں گے۔
اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو تحریک کی طبعی عمر تو ویسے ہی ختم ہونے والی ہے، اور یہ تحریک بغیر کوئی تبدیلی لائے ختم ہو جائے گی۔ (یہ میری ذاتی رائے ہے، اختلاف کا حق حاصل ہے)
 

طالوت

محفلین
اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے خرم مراد ہی وہ واحد شخصیت ہے جس نے کچھ فکری کام بھی کیا ورنہ باقی تو یا پاکستان کو ضیاءالااسلام کرنے میں مگن رہے یا پھر ٹرین مارچوں میں
وسلام
 

سعود الحسن

محفلین
ویسے مجھے تو مشکل لگتا ہے کہ قاضی صاحب جائیں کہیں وہ بھی الطاف حسین سے تو متاثر نہیں ہو گئے؟؟؟

طفیل صاحب ، مودودی صاحب کے ساتھ جماعت کے سکریٹری جنرل تھے، جبکہ شائید یہی عہدہ قاضی صاحب کے پاس طفیل صاحب کے وقت میں تھا ، آج کل یہ عہدہ منور حسن صاحب کے پاس ہے۔؟؟؟

محسن اور فہد نے صحیح کہا ہے ، جماعت اپنے اصل مقصد کو چھوڑ کر سیاست میں لگ گئی ہے ، خاص کر قاضی صاحب نے تو اس حوالے سے تمام حدیں ہی توڑ دیں ۔

اس حوالے سے ارشاد احمد حقانی کا کل کا کالم مجھے پسند آیا۔
 

ابوشامل

محفلین
ویسے مجھے تو مشکل لگتا ہے کہ قاضی صاحب جائیں کہیں وہ بھی الطاف حسین سے تو متاثر نہیں ہو گئے؟؟؟

طفیل صاحب ، مودودی صاحب کے ساتھ جماعت کے سکریٹری جنرل تھے، جبکہ شائید یہی عہدہ قاضی صاحب کے پاس طفیل صاحب کے وقت میں تھا ، آج کل یہ عہدہ منور حسن صاحب کے پاس ہے۔؟؟؟

محسن اور فہد نے صحیح کہا ہے ، جماعت اپنے اصل مقصد کو چھوڑ کر سیاست میں لگ گئی ہے ، خاص کر قاضی صاحب نے تو اس حوالے سے تمام حدیں ہی توڑ دیں ۔

اس حوالے سے ارشاد احمد حقانی کا کل کا کالم مجھے پسند آیا۔
کل کے کالم میں حقانی صاحب نے آخر میں ایک بڑی پتے کی بات لکھی ہے، گو پرانی ہے لیکن آپ بھی اس میں تازگی نظر آتی ہے۔ جماعت کو اس پر غور کرنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ یہ بات ہمیشہ تازہ ہی رہے:
جب مجھ سمیت بعض اہم ارکان جماعت نے مولانامودودی سے کہاکہ آپ نے تو ایک اسلامی معاشرہ اوراسلامی نظام حکومت وجود میںآ نے کاطریقہ یہ بیان کیا تھا کہ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ اور نیم تعلیم یافتہ لوگوں کی فکرو کردار کی تربیت کی جائے اور معاشرے کے تمام اہم طبقات کوذہناً اور عملاً اسلامی نظام کے لئے آمادہ و تیار کرلیاجائے، تو معاشرے میں اکثر سطحوں پر ایک اسلامی معاشرے کی پیاس پیداہوجاتی ہے اورپھر فطری طور پرایسا معاشرہ کسی انتخابی یاغیرانتخابی عمل کے ذریعے وجود میں آ جاتا ہے لیکن اب آپ براہ راست انتخابی جدوجہد کے ذریعے اپنی پسند کی حکومت اور اپنی پسند کامعاشرہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیاکہ قیام پاکستان کے بعد جو دوبڑی تبدیلیاں آئی ہیں آپ انہیں نظرانداز کر رہے ہیں۔ پہلی تبدیلی یہ آئی ہے کہ پاکستان کی آبادی میں سے غیرمسلم عنصربہت حد تک غائب ہوگیا ہے یا کم ہوگیاہے۔ دوسری تبدیلی یہ آئی ہے کہ پاکستان کے عوام کو ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ سے جو جذباتی دلچسپی ہے اسے استعمال کرکے حکمرانوں کومجبور کیاجاسکتاہے کہ وہ اسلامی حکمت عملیاں اختیار کریں اور دوسری طرف عوام کو اسلام کا نام لینے والے امیدواروں کو ووٹ دینے پرآمادہ کیاجاسکتاہے۔ اس لئے میں نے طریق کار میں جوتبدیلی کی ہے وہ حق بجانب ہے اور نتیجہ خیزہوگی لیکن جب 1970ء کے انتخابات میں توقعات کے بڑے اونچے محل تعمیر کرنے کے بعد انہیں شکست کامنہ دیکھنا پڑا توانہوں نے اپنے سابقہ طریق کار کی طرف واپس جانے کا فیصلہ کرلیااورباقاعدہ تسلیم کیاکہ انہوں نے جو تجربہ کیا ہے وہ ناکام ہو گیاہے لیکن اس وقت ان کے نائبین نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیااور اصرارکیاکہ وہ ہنگامی سیاست اور انتخابی عمل ہی کے ذریعے برسراقتدار آنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔ یہ کوشش آج تک جاری ہے
۔
 
Top