رضوان
محفلین
میر تقی میر (1137ھ وفات 20 ستمبر 1810ء)
میر غالبا واحد ایسا شاعر ہے کہ ناسخ ذوق اور غالب جیسے اساتذہ سے لے کر جدید دور تک کے شعرا نے رنگ میر اپنانے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کا اعتراف بھی کیا۔ حالانکہ اب رنگ تغزل اور معیار غزل وہ نہیں جو دو صدی قبل تھا مگر آج بھی میر اپنے بھولے بھالے لہجہ میں درد کی کہانی سی کہتا ہے اور زمانہ سنتا ہے۔
بچپن میں والد کی وفات اور پھر چچا کی وفات معاشی مشکلات عشق میں ناکامی اور ملک کے حالات۔ غرض میر تقی میر کی اٹھاسی سالہ زندگی کا محور الم تھا۔ یہ محرومیوں کی ایسی طویل داستان ہے جس میں مفلسی ، رنج و محن، بے دماغی، ناکامی عشق و جنون وغیرہ مختلف ابواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نامساعد حالات اورمعاشی پریشانیوں نے جس ذہنی کرب میں مبتلا رکھا۔ اس کی بنا پر تخلیقی انا اور اس سے وابستہ نفسی پندار ہی زندگی کا سہارا بنا۔
میر کی کلیات میں غزلوں کے چھ ضخیم دوواین ہزاروں اشعار پر مشتمل ہیں۔ ان کے علاوہ مثنوی ، مسدس، مخمس ،رباعیات، قطے وغیرہ جملہ اصناف کے نمونے ملتے ہیں۔ (ذکر میر)کچھ نجی اور زیادہ تر تاریخی کوائف پر مشتمل ہے اور اس لحاظ سے اس کی ادبی اور تاریخی اہمیت مسلم ہے۔ (نکات الشعراء)اردو شعراء کا تذکرہ ہے جو کہ اردو ادب میں پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
میر زندگی میں عظیم تھے ان کے معاصرین ہی ان کے عظمت کے قائل نہ تھے۔ بلکہ بعد میں آنے والوں نے بھی ان کی عظمت کا اعتراف کیا۔
سودا تو اس زمیں میں غزل در غزل لکھ
ہونا ہے تجھ کو میر سے استاد کی طرح
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
شعر میرے بھی ہیں پردرد ولیکن حسرت
میر سا شیوہء گفتار کہاں سے لاوں
جبکہ ابنِ انشا میرے کے بارے میں کہتے ہیں۔
اک بات کہیں گے انشاء جی تمہیں ریختیٰ کہتے عمر ہوئی
تم لاکھ جہاں کا علم پڑھے کوئی میر سا شعر کہا تم نے
اللہ کرے میر کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
عزیز اعجاز میر کی غزل کو بطور تشبیہ یوں استعمال کرتے ہیں۔
بازوءں کی ٹہنی پر جھولتا بدن اس کا
ہم کبھی نہیں بھولے والہانہ پن اس کا
جسم کے تناسب سے شاعری ٹپکتی ہے
میر کی غزل اعجاز اور بانکپن اس کا
خدائے سخن میر اپنے بارے میں لکھتے ہیں۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوںکو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
ان کی غزلیات پیش خدمت ہیں
میر غالبا واحد ایسا شاعر ہے کہ ناسخ ذوق اور غالب جیسے اساتذہ سے لے کر جدید دور تک کے شعرا نے رنگ میر اپنانے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کا اعتراف بھی کیا۔ حالانکہ اب رنگ تغزل اور معیار غزل وہ نہیں جو دو صدی قبل تھا مگر آج بھی میر اپنے بھولے بھالے لہجہ میں درد کی کہانی سی کہتا ہے اور زمانہ سنتا ہے۔
بچپن میں والد کی وفات اور پھر چچا کی وفات معاشی مشکلات عشق میں ناکامی اور ملک کے حالات۔ غرض میر تقی میر کی اٹھاسی سالہ زندگی کا محور الم تھا۔ یہ محرومیوں کی ایسی طویل داستان ہے جس میں مفلسی ، رنج و محن، بے دماغی، ناکامی عشق و جنون وغیرہ مختلف ابواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نامساعد حالات اورمعاشی پریشانیوں نے جس ذہنی کرب میں مبتلا رکھا۔ اس کی بنا پر تخلیقی انا اور اس سے وابستہ نفسی پندار ہی زندگی کا سہارا بنا۔
میر کی کلیات میں غزلوں کے چھ ضخیم دوواین ہزاروں اشعار پر مشتمل ہیں۔ ان کے علاوہ مثنوی ، مسدس، مخمس ،رباعیات، قطے وغیرہ جملہ اصناف کے نمونے ملتے ہیں۔ (ذکر میر)کچھ نجی اور زیادہ تر تاریخی کوائف پر مشتمل ہے اور اس لحاظ سے اس کی ادبی اور تاریخی اہمیت مسلم ہے۔ (نکات الشعراء)اردو شعراء کا تذکرہ ہے جو کہ اردو ادب میں پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
میر زندگی میں عظیم تھے ان کے معاصرین ہی ان کے عظمت کے قائل نہ تھے۔ بلکہ بعد میں آنے والوں نے بھی ان کی عظمت کا اعتراف کیا۔
سودا تو اس زمیں میں غزل در غزل لکھ
ہونا ہے تجھ کو میر سے استاد کی طرح
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
شعر میرے بھی ہیں پردرد ولیکن حسرت
میر سا شیوہء گفتار کہاں سے لاوں
جبکہ ابنِ انشا میرے کے بارے میں کہتے ہیں۔
اک بات کہیں گے انشاء جی تمہیں ریختیٰ کہتے عمر ہوئی
تم لاکھ جہاں کا علم پڑھے کوئی میر سا شعر کہا تم نے
اللہ کرے میر کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
عزیز اعجاز میر کی غزل کو بطور تشبیہ یوں استعمال کرتے ہیں۔
بازوءں کی ٹہنی پر جھولتا بدن اس کا
ہم کبھی نہیں بھولے والہانہ پن اس کا
جسم کے تناسب سے شاعری ٹپکتی ہے
میر کی غزل اعجاز اور بانکپن اس کا
خدائے سخن میر اپنے بارے میں لکھتے ہیں۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوںکو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
ان کی غزلیات پیش خدمت ہیں
دل رفتہ جمال ہے اس ذو الجلال کا
مستجمع جمعي صفات و کمال کا
ادراک کو ہے ذات مقدس ميں دخيل کيا
اودھر نہيں گزر گمان و خيال کا
حيرت سے عارفوں کو نہيں راہ معرفت
حال اور کچھ ہے ياں انہوں کے حال و قال کا
ہے قسمت زمين و فلک سے غرض نمود
جلوہ و گرنہ سب ميں ہے اسکے جمال کا
مرنے کا بھي خيال رہے مير اگر تجھے
ہے اشتياق جان جہاں کے وصال کا
مستجمع جمعي صفات و کمال کا
ادراک کو ہے ذات مقدس ميں دخيل کيا
اودھر نہيں گزر گمان و خيال کا
حيرت سے عارفوں کو نہيں راہ معرفت
حال اور کچھ ہے ياں انہوں کے حال و قال کا
ہے قسمت زمين و فلک سے غرض نمود
جلوہ و گرنہ سب ميں ہے اسکے جمال کا
مرنے کا بھي خيال رہے مير اگر تجھے
ہے اشتياق جان جہاں کے وصال کا