خدائے سخن میر تقی میر

رضوان

محفلین
میر تقی میر (1137ھ وفات 20 ستمبر 1810ء)


میر غالبا واحد ایسا شاعر ہے کہ ناسخ ذوق اور غالب جیسے اساتذہ سے لے کر جدید دور تک کے شعرا نے رنگ میر اپنانے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کا اعتراف بھی کیا۔ حالانکہ اب رنگ تغزل اور معیار غزل وہ نہیں جو دو صدی قبل تھا مگر آج بھی میر اپنے بھولے بھالے لہجہ میں درد کی کہانی سی کہتا ہے اور زمانہ سنتا ہے۔

بچپن میں والد کی وفات اور پھر چچا کی وفات معاشی مشکلات عشق میں ناکامی اور ملک کے حالات۔ غرض میر تقی میر کی اٹھاسی سالہ زندگی کا محور الم تھا۔ یہ محرومیوں کی ایسی طویل داستان ہے جس میں مفلسی ، رنج و محن، بے دماغی، ناکامی عشق و جنون وغیرہ مختلف ابواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نامساعد حالات اورمعاشی پریشانیوں نے جس ذہنی کرب میں مبتلا رکھا۔ اس کی بنا پر تخلیقی انا اور اس سے وابستہ نفسی پندار ہی زندگی کا سہارا بنا۔

میر کی کلیات میں غزلوں کے چھ ضخیم دوواین ہزاروں اشعار پر مشتمل ہیں۔ ان کے علاوہ مثنوی ، مسدس، مخمس ،رباعیات، قطے وغیرہ جملہ اصناف کے نمونے ملتے ہیں۔ (ذکر میر)کچھ نجی اور زیادہ تر تاریخی کوائف پر مشتمل ہے اور اس لحاظ سے اس کی ادبی اور تاریخی اہمیت مسلم ہے۔ (نکات الشعراء)اردو شعراء کا تذکرہ ہے جو کہ اردو ادب میں پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

میر زندگی میں‌ عظیم تھے ان کے معاصرین ہی ان کے عظمت کے قائل نہ تھے۔ بلکہ بعد میں آنے والوں نے بھی ان کی عظمت کا اعتراف کیا۔

سودا تو اس زمیں میں غزل در غزل لکھ
ہونا ہے تجھ کو میر سے استاد کی طرح

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں

نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

شعر میرے بھی ہیں پردرد ولیکن حسرت
میر سا شیوہء گفتار کہاں سے لاوں

جبکہ ابنِ انشا میرے کے بارے میں کہتے ہیں۔

اک بات کہیں گے انشاء جی تمہیں ریختیٰ کہتے عمر ہوئی
تم لاکھ جہاں کا علم پڑھے کوئی میر سا شعر کہا تم نے

اللہ کرے میر کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی

عزیز اعجاز میر کی غزل کو بطور تشبیہ یوں استعمال کرتے ہیں۔

بازوءں کی ٹہنی پر جھولتا بدن اس کا
ہم کبھی نہیں بھولے والہانہ پن اس کا
جسم کے تناسب سے شاعری ٹپکتی ہے
میر کی غزل اعجاز اور بانکپن اس کا

خدائے سخن میر اپنے بارے میں لکھتے ہیں۔

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں‌کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

ان کی غزلیات پیش خدمت ہیں

دل رفتہ جمال ہے اس ذو الجلال کا
مستجمع جمعي صفات و کمال کا

ادراک کو ہے ذات مقدس ميں دخيل کيا
اودھر نہيں گزر گمان و خيال کا

حيرت سے عارفوں کو نہيں راہ معرفت
حال اور کچھ ہے ياں انہوں کے حال و قال کا

ہے قسمت زمين و فلک سے غرض نمود
جلوہ و گرنہ سب ميں ہے اسکے جمال کا

مرنے کا بھي خيال رہے مير اگر تجھے
ہے اشتياق جان جہاں کے وصال کا
 

رضوان

محفلین
ہے حرف خاصہ دل زرہ حسن قبول کا
يعني خيال سر ميں نعت رسول کا

رہ پيروي ميں اس کي کہ گام نحست ميں
ظاہر اثر ہے مقصد دل کے وصول کا

وہ مقتدائے خلق جہاں اب نہيں ہوا
پہلے ہي تھا امام نفس و عقول کا

سرمہ کيا ہے وضع پے چشم اہل قدس
احمد کي رہ گزار کي خاک اور دھول کا

ہے متحد نبي و علي و وصي کي ذات
ياں حرف معتبر نہيں ہر بو الفضول کا

دھو منہ ہزار پاني سے سو بار پڑھ درود
تب نام لے تو اس چمنستاں کے پھول کا

حاصل ہے مير دوستي اہل بيت اگر
تو غم ہے کيا نجات کے اپني حصول کا
 

رضوان

محفلین
جو متعقد نہيں ہے علي کے کمال کا
ہر بال اس کے تن پہ ہے موجب وبال کا

عزتعلي کي قدر علي کي بہت ہے دور
مورو ہے ذولجلال کے عز و جلال کا

پايا علي کو جاکے محمد نے اس جگہ
جس جا نہ تھا لگائو گمان و خیال کا

رکھنا قدم پہ اس کے قدم کب ملک سے ہو
مخلوق آدمي نہ ہوا ايسي چال کا

شخصيت ايسي کس کي تھي ختم رسل کے بعد
تھا مشورت شريک، حق لايزال کا

توڑا بتوں کو دوش نبي پر قدم کو رکھ
چھوڑا نہ نام کعبہ ميں کفر و ضلال کا

راہ خدا ميں ان نے ديا اپنے بھي تئيں
يہ جو منہ تو ديکھو کسوآ شمال کا

نسبت مجھے ہے حشر ميں اس کي ہي چال کا
فکر نجات مير کو کيا مدح خواں ہے وہ

اولاد کا علي کي محد کي آل کا۔۔۔۔۔
 

رضوان

محفلین
جس سر کو غرور آج ہےياں تاج وري کا
کل اس پر يہيں شور ہے پھر نوحہ گري کا

شرمندہ ترے رخ ہے رخسار پري کا
چلتا نہيں کچھ آگے ترے کبک وري کا

آفاق کي منزل سے گيا کون سلامت
اسباب لٹا راہ ميں ياں سر سفري کا

زنداں ميں بھي شورش نہ گئي اپنے جنوں کي
اب سنگ مداوا ہے اس آتنتہ سري کا

اپني تو جہاں آنکھ لڑي پھر وہيں ديکھو
آسينے کو لپکا ہے پريشاں نظري کا

صد موسم گل ہم کو تہ بال ہي گزرے
مقدمہ ورنہ ديکھا کبھو بے بال و پري کا

اس رنگ سے چمکے ہے پلک پر کہ کہے تو
ٹکڑا ہے بڑا اشک عقيق جگري کا

کل سير کا ہم نے سمندر کو بھي جاکر
تحادست نگر پنجہ مثر گاں کي تري کا

لے سانس بھي آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کي اس کار گہ شيشہ گري کا

ٹک ميرے جگر سوختہ کي جلد خبر لے
کيا يار بھروسا ہے چراغ سحري کا
 

رضوان

محفلین
کئي دن سلوک دواع کا، مرے درپے دل راز تھا
کبھو درد تھا، کبھو، داغ تھا، کبھو زخم تھا، کبھو دار تھا

دم صبح بزم خوش جہاں، شب غم سے کم نہ تھے مہرباں
کہ چراغ تھا سو تو دور تھا، جو پتنگ تھا سو غبار تھا

دل خستہ جو لہو ہوگيا، تو بھلا ہوا کہ کہ کہاں تک
کبھو، سوزينہ سے داغ تھا، کبھو درد غم سے فگار تھا

دل مضطرب سے گزر گئے، شب و وصل اپني ہي فکر ميں
نہ دماغ تھا نہ فراغ تھا نہ شکيب تھا نہ قرار تھا

جو نگاہ کي بھي پلک اٹھا تو ہمارے دل سے لہو بہا
کہ وہيں وہ نازک بے خطا کسو کے کيلجے کے پار تھا

يہ تمہاري ان دنوں دوستاں، جس کے غم ميں ہے خوں چکاں
وہي آفت دل عاشقاں، کسو، وقت ہم سے بھي ياد تھا

نہيں تاں دل کي شکستگي، يہي درد تھا يہي خستگي
اسے جب سے ذوق شکار تھا، اسے زخم سے سروکار تھا

کبھو جائے گي جو ادھر صبا تو يہ کہيو اس سے کہ بے وفا
مگر ايک مير شکستہ پا، ترے باغ تازہ ميں خار تھا​
 

رضوان

محفلین
غم رہا تک کہ دم رہا
دم کے جانے کا نہايت غم رہا

حسن تھا تيرا بہت عالم فريب
خط کے آنے پر بھي اک عالم رہا

دل نہ پہنچا گوشہ داماں تلک
قطرہ خون تھا مثرہ پر جسم رہا

جامہ احرام زاھد پر نہ جا
تھا زم ميں ليکن نا محرم رہا

ميرے رو کي حقيقت جس ميں تھي
ايک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

صبح پيري شام ہونے آئي مير
تو نہ چيتا ياں بہت دن کم رہا​
 

رضوان

محفلین
وہ جو پي کر شراب نکلے گا
کس طرح آفتاب نکلے گا

محتسب ميکدہ سےجاتا نہيں
يہاں سے ہو کر خراب نکلے گا

يہي چپ ہے تو درد دل کہتے
مونہہ سے کيونکر جواب نکلے گا

جب اٹھے گا جہان سے يہ نقاب
تب ہئ اس کا حجاب نکلے گا

عرق اسکے بھي مونہہ کا بوکيجو
گر کبھو يہ گلاب نکلے گا۔۔۔

آئو باليں تک نہ ہو کے دير
جي ہمارا شتاب نکلے گا

دفتر داغ ہے جگر اس ميں
کسو دن يہ حسب نکلے گا

تذکرے سب کے پھر رہيں گے دھرے
جب ميرا انتخاب نکلے گا

مير ديکھو گے رنگ نرگس کا
اب جو وہ مست خواب نکلےگا
 

رضوان

محفلین
کيا پوچھو ہو کيا کيا کہئيے مياں دل نے بھي کيا کام کيا
عشق کيا ناکام رہا آخر کو کام تمام کيا

عجر کيا سو اس مفسد نے قدر ہماري يہ کچھ کي
تيوري چڑھائي غصہ کيا جب ہم نے جھک سلام کيا

کہنے کي بھي لکھنے کي بھي ہم تو قسم کھا بيٹھے تھے
آخر دل کي بيتابي سے خط بھيجا پيغام کيا

عشق کي تہمت جب نہ ہوئي تھي کاہيکو ايسی شہرت ہے
شہر ميں اب رسوا ہيں يعنے بد نامي سے کام کيا

ريگستاں ميں جاکے رہيں يا سنگستاں ميں ہم جوگي
رات ہوئي جس جگہ ہم کو ہم نے وہيں بسرام کيا

خط و کتابت لکھنا اس کو ترک کيا تھا اسي ليئے
حسرو سے ٹپکا لو ہو اب جو کچھ ار قام کيا

اس کو شہد و شکر ہے ذوق ميں ہم ناکاموں کے
لوگوں ميں ليکن پوچ کہا يہ لطف بے ہنگام کيا

ايسے کوئي جہاں سے جاوئے رخصت اس حسرت سے ہوئے
اس کو چے سے نکل کر ہم نے رويہ قفا ہر گام کيا

مير جو ان نے منہ کو ادھر کر ہم سے کوئي بات کہي
لطف کيا احسان کيا انعام کيا اکرام کيا
 

رضوان

محفلین
اے دوست کوئي مجھ سا رسوا نہ ہوا گا
دشمن کے بھي دشمن پر ايسا نہ ہوا گا

ٹک گور غريباں کي کر سير کہ دنيا ميں
ان ظلم رسيدوں پر کيا کيا نہ ہوا گا

اس منہ خرابے ميں آبادي نہ کر منعم
اک شہر نہيں ياں جو صحرا نہ ہوا گا

آنکھوں سے تري ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے
جو فتنہ کہ دنيا ميں برپا نہ ہوا ہو گا​
 

رضوان

محفلین
مہر کي تجھ سے توقع تھي ستمگر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

جتنے جي آہ ترے کوچے سے کوئي نہ پھرا
جو ستم ديدہ رہا جا کے سومر کر نکلا

دل کي آبادي کي اس حد ہے خرابي کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا

اشک تر قطرہ خون، لخت جگر ہجراں نے
اس دفينے ميں سے اقسام جواہر نکلا

ہم نے جانا تھا لکھے گا کوئي حرف اے مير
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا​
 

رضوان

محفلین
ياروں مجھے معاف رکھو ميں نشے ميں ہوں
اب دو تو جام خالي ہي دو ميں نشے ميں ہوں

ايک ايک فرط دور میں يوں ہي مجھے بھي دو
جام شراب پر نہ کرو ميں نشے ميں ہوں

مستي سے درہمي ہے مري گفتگو کے بيچ
جو چاہو تم بھي مجھ کو کہو ميں نشے ميں ہوں

بھاگي نماز جمعہ تو جاتي نہيں ھے کچھ
چلتا ہوں ميں بھي ٹک تو رہو ميں نشے ميں ہوں

نازک مزاج آپ قيامت ہيں مير جي
ہوں شيشہ ميرے منہ نہ لگو ميں نشے ميں ہوں
 

رضوان

محفلین
الٹي ہوگئيں سب تدبيريں کچھ نہ دوا نے کام کيا
ديکھا اس بيماري دل نے آخر کام تمام کيا

عہد جواني رو رو کاٹا پير ميں ليں آنکھيں موند
يعني رات بہت تھے جاگے صبح ہوئي آرام کيا

حرف نہيں جاں بخشي ميں اس کي خوابي اپني قسمت کي
ہم سے جو پہلے کہ بھيجا سو مرنے کا پيغام کيا

ناحق ہم مجبوروں پر يہ تہمت ہے مختاري کي
چاہتے ہيں سو آپ کريں ہيں ہم کو عبث بد نام کيا

سارے ينداد باش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہيں
بانکے ، ٹيڑھے ترچھے ، تيکھے ، ساب کا تجھ کو امام کيا

مرزو ہم سے بے ادبي تو وحشت میں بھي کم ہي ہوتي
کوسوں اس کي اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کيا

کس کا کعبہ، کيسا قبلہ، کون حرام ہے ، کيا احرام ہے
کوچے کے اس باشندوں نے سب کو يہيں سلام کيا

شيخ جو ہے مسجد ميں، ننگا رات کو تھا ميخانے ميں
جبہ، خرقہ، کرتا، ٹوپي، مستي ميں انعام کيا

کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ، ورنہ پھر کيا حاصل ہے
آنکھ مندے پر ان نے گو ديدار کو اپنے عام کيا

ياں کے سپيد وسيہ ميں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کيا اور دن کو جوں توں شام کيا

صبح چمن میں اس کو کہیں تکليف ہوائے آئي تھي
رخ سے گل کو مول ليا قامت سے سرو غلام کيا

ساعد سيميں دونوں اس کے ہاتھ ميں لا کر چھوڑے ديئے
بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خيال خام کيا

کام ہو جائے سارے ضائع ہر ساعت کي سماعت سے
استغا کي چوگني ان نے جوں جوں ابرام کيا

ايسا آ ہوئے رم خوردہ کي وحشت کھوني مشکل تھي
سحر کيا ، اعجاز کيا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کيا

مير کے دين و مذہب کو اب پوچھتے کيا ہو ان نے تو
قشقہ کھينچا ، دير ميں بيٹھا ، کب کا ترک اسلام کيا
 

رضوان

محفلین
لوگ بہت پوچھا کرتے ہيں کيا کہئے مياں کيا ہے عشق
کچھ کہتے ہيں سر الہي کچھ کہتے ہين خدا ہے عشق

عشق کي شان اکثر ہے ارفع ليکن شانيں عجائب ہيں
گہہ ساري ہے دماغ و دل ميں گا ہے سب سے جدا ہے عشق

کام ہے مشکل الفت کرنا اس گلشن کے نہالون سے
بو کش ہو کر سيب ذقن کا عش نہ کرے تو سزا ہے عشق

الفت سے پرہيز کيا کيا کلفت اس میں قيامت ہے
يعني درد و رنج و تعب ہے آفت جان، و بلا ہے عشق

مير خلاف مزاج محبت موجب تلخي کشيدن ہے
ياد موافق مل جاوے تو لطف ہے چاہ مزا ہے عشق

نزديک عاشقوں کے زميں ہے قرا عشق
اور آسماں غبار سر رہگوار عشق

مقبول شہر ہي نہيں مجنوں ضعيف و زار
ہے وحشيان دشت ميں بھي اعتبار عشق

گھر کيسے کيسے ديں کے بزرگوں کے ہيں خراب
القصہ ہے خرابہ کہنہ ديار عشق

گو ضبط کرتے ہو ديں جراہت جگر کے زخم
روتا نہيں ہے کھو کے دل راز دار عشق

مارا پرا ہے انس ہي کرنے ميں ورنہ مير
ہے دور گر دوا دي وحشت شکار عشق
 

رضوان

محفلین
لب ترے لعل عناب ہيں دونوں
پر تمامي عتاب ہیں دونوں

رونا آنکھوں کا روئيے کب تک
پھوٹنے ہي کے باب ہيں دونوں

ہے تکليف نقاب دے رخسار
کيا چھپيں آفتا ہيں دونوں

تن کے معمورہ ميں يہي دل و چشم
گھر تھے دو، سو خراب ہیں دونوں

کچھ نہ پوچھو کہ آتش غم سے
جگر و دل کباب ہيں دونوں

سو جگہ اس کي آنکھيں پڑتي ہیں
جيسے مست شراب ہيں دونوں

پائوں ميں وہ نشہ طلب کا نہيں
اب تو سر مست خواب ہيں دونوں

ايک سب آگ ايک سب پاني
ديدہ و دل عذاب ہيں دونوں

بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے
اس کے لب ہيں جواب ہيں دونوں

آگے دريا تھے ديدہ تر مير
اب جو ديکھو سراب ہيں دونوں
 

رضوان

محفلین
ہمارے آگے ترا جب کسي نے نام ليا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام ليا

قسم جو کھائيے تو حائج زليخا کي
عزيز مصر کا بھي صاحب اک غلام ليا

خراب رہتے تھے مسجد کے آگے ميخانے
نگاہ مست نے ساقي کا انتظام کيا

وہ کنج روش نہ ملا راستوں ميں مجھ سے کبھي
نہ سيدھي طرح سے ان نے مرا سلام ليا

مزا دکھا ديں گے بے رحمي کا تري صياد
گر اضطراب اسيري نے زير دام ليا

مرے سليقے سے ميري نبھي ميري محبت ميں
تمام عمر ميں ناکاميوں سے کام ليا

اگرچہ گوشہ گزيں ہوں ميں شاعروں ميں مير
يہ ميرے شور نے روئے ز ميں تمام ليا
 

رضوان

محفلین
ہم ہوئے تم ہوئے کہ مير ہوئے
اس کي زلفوں کے سب اسير ہوئے

جن کي خاطر کي استخوان شکني
سو ہم ان کے نشان تير ہوئے

نہيں آتے کسو کي آنکھوں ميں
ہو کے عاشق بہت حقير ہوئے

آگے يہ بے ادائياں کب تھيں
ان دنوں تم بہت شرير ہوئے

اپنے روتے ہي روتے صحرا کے
گوشے گوشے ميں آب گير ہوئے

ايسي ہستي عدم ميں داخل ہے
نے جواں ہم نہ طفل شير ہوئے

ايک دم تھي نمود بود اپني
يا سفيدي کي يا اخير ہوئے

يعني مانند صبح دنيا ميں
ہم جو پيد اہوئے سو پير ہوئے

مت مل اہل دول کے لڑکوں سے
مير جي ان سے مل فقير ہوئے
 

رضوان

محفلین
فقيرانہ آئے صدا کر چلے
مياں خوش رہو ہم دعا کر چلے

جو تجھ بن نہ جينے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے

شفا اپني تقدير ہي ميں نہ تھي
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے

وہ کيا چيز ہے آہ جس کے لئے
ہر اک چيز سے دل اٹھا کر چلے

کوئي نا ميدانہ کرنے نگاہ
سو تم ہم سے منہ بھي چھپا کر چلے

بہت آرزو تھي گلي کي تري
سو ياں سے لہو ميں نہا کر چلے

دکھائي دیے يوں کہ بے خود کيا
ہميں آپ سے بھي جدا کر چلے

جبيں سجدہ کرتے ہي کرتے گئي
حق بندگي ہم ادا کر چلے

پرستش کي عادت کہ اے بت تجھے
نظر ميں سبھوں کي خدا کر چلے
 
میر کی عظمت متعلق دوسرے شعرا کیا کہتے ہیں۔

سودا تو اس زمیں میں غزل در غزل لکھ
ہونا ہے تجھ کو میر سے استاد کی طرح

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں

نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

شعر میرے بھی ہیں پردرد ولیکن حسرت
میر سا شیوہء گفتار کہاں سے لاوں

جبکہ ابنِ انشا میرے کے بارے میں کہتے ہیں۔

اک بات کہیں گے انشاء جی تمہیں ریختیٰ کہتے عمر ہوئی
تم لاکھ جہاں کا علم پڑھے کوئی میر سا شعر کہا تم نے

اللہ کرے میر کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی

عزیز اعجاز میر کی غزل کو بطور تشبیہ یوں استعمال کرتے ہیں۔

بازوءں کی ٹہنی پر جھولتا بدن اس کا
ہم کبھی نہیں بھولے والہانہ پن اس کا
جسم کے تناسب سے شاعری ٹپکتی ہے
میر کی غزل اعجاز اور بانکپن اس کا

خدائے سخن میر اپنے بارے میں لکھتے ہیں۔

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں‌کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
 

رضوان

محفلین
وہاب بھائی میں آپ سے درخواست کرنے ہی والا تھا کہ ان شعراء کا تعارف تحریر کر دیجیے ۔ عنایت ہو گی اگر مومن اور فیض پر بھی کچھ لکھ دیں
 

رضوان

محفلین
ديکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
يہ دھواں سا کہا سے اٹھتا ہے

گور کس دل جلے کي ہے يہ فلک
شعلہ اک صبح ياں سے اٹھتا ہے

خانہ دل سے زينہار نہ جا
کوئي ايسے مکاں سے اٹھتا ہے

نالہ سر کھينجتا ہے جب مير
شور اک آسماں سے اٹھتا ہے

لڑتي ہے اس کي چشم شوخ جہاں
ايک آشوب وہاں سے اٹھتا ہے

آگے دريا تھے ديدہ تر مير
اب جو ديکھو سراب ہيں دونوں
 
Top