عاطف ملک
محفلین
استادِ محترم جناب الف عین کی اصلاح کے بعد اور ان کی تجویز پر(جو میرے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے) یہ غزل پیشِ نظر ہے۔
جو دل کو جوڑتے ہیں ان کو غم تنہا نہیں کرتے
اگر جذبہ ہو صادق، درد آزردہ نہیں کرتے
خلوصِ دل کو دولت سے کبھی تولا نہیں جاتا
کسوٹی پر انا کی پیار کو پرکھا نہیں کرتے
نہاں خانوں میں اس دل کے بسائی تھی تِری صورت
دریچے دل کے وہ خود پر بھی ہم اب وا نہیں کرتے
جدا ہوں تم سے اور خوش بھی رہیں یہ عین ممکن ہے
مگر دل میں ہے جانے کیا کہ ہم ایسا نہیں کرتے
تڑپ کر آہ بھرتے ہیں، لہو کے گھونٹ پیتے ہیں
مگر ان کی جفاؤں کا کہیں چرچا نہیں کرتے
مقامِ سرکشی ہے یہ، جھکائیں سر کو پھر کیونکر
خدا پتھر کا ہو عاطف تو ہم سجدہ نہیں کرتے
جو دل کو جوڑتے ہیں ان کو غم تنہا نہیں کرتے
اگر جذبہ ہو صادق، درد آزردہ نہیں کرتے
خلوصِ دل کو دولت سے کبھی تولا نہیں جاتا
کسوٹی پر انا کی پیار کو پرکھا نہیں کرتے
نہاں خانوں میں اس دل کے بسائی تھی تِری صورت
دریچے دل کے وہ خود پر بھی ہم اب وا نہیں کرتے
جدا ہوں تم سے اور خوش بھی رہیں یہ عین ممکن ہے
مگر دل میں ہے جانے کیا کہ ہم ایسا نہیں کرتے
تڑپ کر آہ بھرتے ہیں، لہو کے گھونٹ پیتے ہیں
مگر ان کی جفاؤں کا کہیں چرچا نہیں کرتے
مقامِ سرکشی ہے یہ، جھکائیں سر کو پھر کیونکر
خدا پتھر کا ہو عاطف تو ہم سجدہ نہیں کرتے
آخری تدوین: