پھر آپ کے خیال میں کون آئے اور کچھ کرے گا؟اس نا اہل ، جعلی ، نکھٹو اور نکمی حکومت سے ہونا ہوانا کچھ نہیں۔
یہ سوال تو سیلیکٹرز سے بنتا ہے۔پھر آپ کے خیال میں کون آئے اور کچھ کرے گا؟
عوام نے سیلیکٹرز کے فیصلے کو رد کردیا۔ عوام پر کون حکمرانی کرے گا یہ عوام کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ جمہوریت اسی کا نام ہے۔ یہ نہ ہو تو دنیا بھی یہی کہتی ہے کہ ڈیپ اسٹیٹ قائم ہےسلیکٹرز نے تو اپنا فیصلہ دے دیا، تو اس کو قبول کریں۔
اب آپ قبول بھی نہیں کرتے اور بتاتے بھی نہیں، تو مسئلہ کیسے حل ہو گا؟
شمشاد صاحب، کسی کو سلیکٹر یا ایمپائر کا وہ فیصلہ قابلِ قبول ہوتا ہے جو اس کے مزاج کے مطابق ہو وگرنہ نہیں۔ مثال کے طور پر، ایک سلیکٹر ایک نا معلوم سے شخص کو اٹھا کر اپنی کابینہ میں لے لے، وزیرِ خارجہ بنا دے اور وہ وزیر اعظم بھی بن جائے تو وہی سلیکٹڈ قائدِ عوام ہے۔ ایک سلیکٹر، ایک تحصیلدار لیول کے بندے کو وزیر خزانہ بنا دے، پھر وزیرِ اعلیٰ بنا دے اور پھر وہی سلیکٹرز اس کو وزیرِ اعظم بھی بنا دیں تو وہی سلیکٹڈ جمہوریت کا چیمپئن بنا پھرتا ہے۔ اور جو اپنے مزاج کا نہ ہو وہ اگر 'سلیکٹ' ہو جائے تو معلون ہے اور بس! یہ سیدھی سادھی منافقت ہے اور کچھ بھی نہیں!سلیکٹرز نے تو اپنا فیصلہ دے دیا، تو اس کو قبول کریں۔
اب آپ قبول بھی نہیں کرتے اور بتاتے بھی نہیں، تو مسئلہ کیسے حل ہو گا؟
کیونکہ اس بار سلیکٹرز نے "سجی دکھا کر کھبی مار دی"، اور تیسرے کو سلیکٹ کر لیا، اب پہلے دونوں کا رونا تو بنتا ہے!گزشتہ حکومتیں بھی تو پھر سیلکٹرز ہی لاتے رہے ہیں۔ بھٹو مرحوم ایوب خان کے سیلکڑ تھا اور نواز شریف ضیا الحق کا۔ تو پھر اس کی دفعہ اتنی بحث کیوں؟
ایک شخص کہہ رہا ہے:
روز پروپگنڈے ہکی دوے پچھے بن دھے رہندے نیں
ایک عام فرد بھی حکومتی پروپگنڈا کا ادراک کر چکا ہے
حکومتی پراپگنڈہ عوام کے نہیں بلکہ ملک کے بارہ میں ہے۔ اس وقت ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، برآمداد بڑھ رہی ہیں، جاری کھاتوں کا خسارہ منافع میں تبدیل ہو چکا ہے۔جاسم محمد پر ہےانہیں تو پاکستان کے معاملات کی پل پل خبر رہتی ہے مگر ان کی طرف سے خاموشی قابل غور ہے۔۔۔
کیونکہ اس بار سلیکٹرز نے "سجی دکھا کر کھبی مار دی"، اور تیسرے کو سلیکٹ کر لیا، اب پہلے دونوں کا رونا تو بنتا ہے!
گزشتہ حکومتیں بھی تو پھر سیلکٹرز ہی لاتے رہے ہیں۔ بھٹو مرحوم ایوب خان کے سیلکڑ تھا اور نواز شریف ضیا الحق کا۔ تو پھر اس کی دفعہ اتنی بحث کیوں؟
کیونکہ اس بار سلیکٹرز نے "سجی دکھا کر کھبی مار دی"، اور تیسرے کو سلیکٹ کر لیا، اب پہلے دونوں کا رونا تو بنتا ہے!
رونا دھونا کیسے چھوڑ دیں؟ سلیکٹرز تو اب ان کو منہ بھی نہیں لگاتے۔ بغض عمران میں رو رو کر برا حال ہےانہیں چاہیے کہ رونا دھونا چھوڑیں اور کسی طرح باقی کے ڈھائی سال گزار لیں، پھر اگلے میچ کے لیے تیاری کریں۔
حکمران ووٹ لینے کے لیے امام ضامن بھی باندھ لیتا ہے اور فیضان مدینہ میں دورہ کرتا ہے ، پیروں سے بھی فیض لیتا ہے اور دعوت و تبلیغ کو بھی راضی رکھتا ہے اور پھر فارن فنڈنگ سے پروپگنڈا سیل بناتا ہے ، پرو پی ٹی آئی بیانیے کا میڈیا خریدتا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد سب سے لاتعلق ہو کر نرگسیت کے جزیرے پر اپنا تخت بچھاتا ہے۔نظامی صاحب اب آپ نے ٹیگ کر ہی دیا ہے تو کچھ کہنا بنتا ہے۔۔۔بات دراصل یوں ہے کہ ایسی سینکڑوں کہانیاں اس ملک میں آپ کو بکھری نظر آئینگی۔۔۔حکمران کوئی بھی ہو اس کی حالت ایسے ہی رہنی ہے جب تک وہ خود اسے بدلنے کا نہ سوچے ہزار میل چلنے کے لیے بہرحال پہلا قدم تو اٹھانا ہی پڑتا ہے۔۔۔
اب بات شروع کر ہی دی ہے تو پھر کہنے دیں کہ میں تو سمجھا تھا آپ نے حکمران کی حالیہ بے حسی پر لڑی ڈالی ہو میرا اشارہ حالات حاضرہ کی طرف ہے۔۔۔جب ایسے ہی حالات ہوئے تھے تو اس سے قبل تو عمران صاحب بڑھ چڑھ کر بیان دے رہے تھے اب خود گوشہ نشین ہوئے بیٹھے ہیں یہاں پر کسی کا دلچسپی نہ لینا ان معاملات میں سمجھ آتا ہے مگر خصوصی حیرت تو جاسم محمد پر ہےانہیں تو پاکستان کے معاملات کی پل پل خبر رہتی ہے مگر ان کی طرف سے خاموشی قابل غور ہے۔۔۔
عوام نے سیلیکٹرز کے فیصلے کو رد کردیا۔ عوام پر کون حکمرانی کرے گا یہ عوام کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ جمہوریت اسی کا نام ہے۔ یہ نہ ہو تو دنیا بھی یہی کہتی ہے کہ ڈیپ اسٹیٹ قائم ہے
جس عوام نے اپوزیشن کو ووٹ ڈالے اسی عوام نے سلیکٹڈ کو ووٹ ڈالے۔ اب آپ اپوزیشن کو پڑنے والے ووٹوں کو جعلی کہیں یا سلیکٹڈ کو پڑنے والے ووٹوں کو بھی اصلی کہیں۔ کھلی منافقت نہیں چلے گی۔شمشاد صاحب، کسی کو سلیکٹر یا ایمپائر کا وہ فیصلہ قابلِ قبول ہوتا ہے جو اس کے مزاج کے مطابق ہو وگرنہ نہیں۔ مثال کے طور پر، ایک سلیکٹر ایک نا معلوم سے شخص کو اٹھا کر اپنی کابینہ میں لے لے، وزیرِ خارجہ بنا دے اور وہ وزیر اعظم بھی بن جائے تو وہی سلیکٹڈ قائدِ عوام ہے۔ ایک سلیکٹر، ایک تحصیلدار لیول کے بندے کو وزیر خزانہ بنا دے، پھر وزیرِ اعلیٰ بنا دے اور پھر وہی سلیکٹرز اس کو وزیرِ اعظم بھی بنا دیں تو وہی سلیکٹڈ جمہوریت کا چیمپئن بنا پھرتا ہے۔ اور جو اپنے مزاج کا نہ ہو وہ اگر 'سلیکٹ' ہو جائے تو معلون ہے اور بس! یہ سیدھی سادھی منافقت ہے اور کچھ بھی نہیں!
چلو یہ تو مدینہ کا نام لیتا ہے، امام ضامن بھی بندھوا لیتا ہے، پیروں سے بھی فیض لیتا ہے اور اسلامی دعوت و تبلیغ کو بھی راضی رکھتا ہے۔حکمران ووٹ لینے کے لیے امام ضامن بھی باندھ لیتا ہے اور فیضان مدینہ میں دورہ کرتا ہے ، پیروں سے بھی فیض لیتا ہے اور دعوت و تبلیغ کو بھی راضی رکھتا ہے اور پھر فارن فنڈنگ سے پروپگنڈا سیل بناتا ہے ، پرو پی ٹی آئی بیانیے کا میڈیا خریدتا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد سب سے لاتعلق ہو کر نرگسیت کے جزیرے پر اپنا تخت بچھاتا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاون کی کہانی - عمران خان کی زبانی
موجودہ حکومت کا طرہ امتیاز کیا ہے؟جس عوام نے اپوزیشن کو ووٹ ڈالے اسی عوام نے سلیکٹڈ کو ووٹ ڈالے۔ اب آپ اپوزیشن کو پڑنے والے ووٹوں کو جعلی کہیں یا سلیکٹڈ کو پڑنے والے ووٹوں کو بھی اصلی کہیں۔ کھلی منافقت نہیں چلے گی۔