محمود بھائی اس سوچ کے بہت سی وجوہات ہیں۔ کچھ تو ایسے کہ امت مسلمہ کا ایک حصہ ہونے کے ناطے اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے۔ ان وجوہات پر تو انشااللہ آگے اپنے بلاگ میں لکھتا رہوں گا تفصیل سے۔
سب سے پہلے تو آپکا شکریہ کہ آپ نے سوال کا جواب دیا۔۔۔
آپ نے جو جواب لکھا ہے، اسکے حوالے سے ایک دو گذارشات ہیں۔
وہ وجہ جس سے میں نے اپنے ساتھ ہمیشہ کے لئے اپنی فیملی کو بھی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ بالکل سیدھی سی ہے۔
آپ بھی پاکستانی معاشرے میں رہتے ہیں میں بھی وہیں سے اٹھ کر آیا ہوں۔ آپ کے سامنے ہے کہ یہ معاشرہ بے رہروی کے کس سیلاب میں بہتا جا رہا ہے۔
یہ بات کس حد تک جا چکی تھی تو اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ میں جب ایم بی اے میں تھا تو میری کلاس کے 80 فیصد لڑکے ایسے تھے جو زنا کر چکے تھے یعنی شادی سے پہلے اپنی ”گرل فرینڈ“ کے ساتھ۔
اب میری ایک بیٹی ہے ایک بیٹا ہے۔ میں نے تو جیسے تیسے اس ماحول میں زندگی گزار لی اور اللہ نے پھر بھی اس گٹر جیسے ماحول میں بھی ہدایت دے دی لیکن اپنی اولاد کا کیا کروں؟ معاشرہ جس سمت جا رہا ہے تو میرے پاس کیا گارنٹی ہے کہ میں اپنی اولاد کو بھٹکنے سے بچا سکتا ہوں؟ میں صرف ان کی دنیا بنانے کا ذمہ دار تو نہیں ہوں ان کی آخرت کی ذمہ داری بھی تو میرے ذمہ ہے۔ اگر وہ اپنی آخرت خراب کر بیٹھے تو ؟ کیا میں برداشت کر سکتا ہوں کہ میری اولاد جہنم میں جلے؟
آپکی اس بات سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرے میں کافی بے راہ روی پائی جاتی ہے۔ لیکن گذارش یہ ہے کہ اسی معاشرے میں اولیائے کرام بھی بستے ہیں، اللہ کا نظام ہے کہ اس دنیا میں جہاں برائی پائی جاتی ہے وہیں نیکی بھی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اگر ہماری آنکھ صرف معاشرے میں موجود برائیوں اور کوتاہیوں کمیوں خامیوں کو ہی دیکھ پائے اور تصویر کا دوسرا رخ نہ دیکھ سکے تو شائد اس میں کچھ کچھ ہماری نظر کی بھی کوتاہی ہوسکتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ :
اگرچہ بحر کی موجوں میں ہے مقام اسکا
صفائے پاکیءِ طینت سے ہے گہر کا وضو
آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، شیطان وہاں بھی اپنی کارگزاریوں کیلئے آزاد ملے گا، اور رحمٰن کے بندے وہاں بھی اسکے تسلط سے آزاد ملیں گے۔ رہی یہ بات کہ ہماری اولاد بھٹکنے سے بچی رہے، تو اس بات کی گارنٹی نہ آپ یہاں دے سکتے ہیں اور نہ کہیں اور۔ اس بات کا دارومدار کسی مخصوص علاقے یا کسی مخصوص وضع قطع کے لوگوں میں بودوباش رکھنے پر نہیں ہے بلکہ اللہ کے فضل پر ہے۔ وہی اللہ جو مردے میں سے زندے کو نکالتا ہے اور زندہ میں سے مردے کو۔ اور جو مشرق و مغرب دونوں کا رب ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ باپ کے ذمہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے اور بچے اپنی انسپائریشن اپنے ماں باپ سے لیتے ہیں سب سے زیادہ۔ اور معاشرے اور ماحول کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ اگر گھر میں اچھی اقدار سکھائی گئی ہوں اور ماں باپ کے کردار سے اچھی انسپائریشن ملی ہو تو معاشرے کے چیلنجز اولاد کیلئے اتنے خطرناک ثابت نہیں ہوتے۔ اور ویسے بھی انسان کی جسمانی و روحانی نشونما کیلئے چیلنجز اور مزاحمت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ رکاوٹیں ہی تو ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم کتنے مضبوط ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اندھیرا خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، روشنی کی چھوٹی سی کرن کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔
یہ دور نبی اکرم کی احادیث کی تمام نشانیوں کو پورا کرتے ہوئے بلا شبہ دور فتن ہے۔ اور نبی اکرم کا ارشاد پاک ہے کہ ”دور فتن میں پہاڑوں کی جانب ہجرت کرو کیونکہ پہاڑوں کے لوگ دین کے زیادہ قریب تر ہوتے ہیں“۔
اگر حدیث شریف کا کوئی حوالہ یا مآخذ مل جا ئے اور زمانی و مکانی اعتبار سے اسکے سیاق و سباق کا پتہ چل جائےتو شائد بات زیادہ واضح ہوسکے ورنہ پہاڑ تو اپنے پاکستان میں بھی بہت ہیں (بلکہ شائد بلند ترین پاہاڑوں میں سے ہیں)۔
بس اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے میں نے اللہ پر توکل کیا اور اپنے بیوی بچوں کو لے کر یہاں منتقل ہو گیا۔ اور آج تین سال بعد میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی زندگی کا یہ سب سے بہترین فیصلہ لگتا ہے۔ ہم پہلے سے کہیں زیادہ خوش ہیں اور انتہائی پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ بات زیادہ قابلِ قبول معلوم ہوتی ہے(بقیہ دلائل کی نسبت)۔ یعنی جب آپ اور آپکی فیملی خوش ، پرسکون اور مطمعئن ہیں تو اور کیا چاہئیے۔ خوش رہئیے جناب۔