سارہ بشارت گیلانی
محفلین
خزاں رسیدہ ہے چمن کوئی حساب تو ہو
بہار کا ہو احتساب کچھ جواب تو ہو
کوئی جدائی کی رتوں کا بھی شمار کرے
کوئی تو قائدہ ہو، یار کچھ نصاب تو ہو
وصال یار پیار کی نہیں ہے شرط مگر
کوئی گمان ہو کہیں کوئی سراب تو ہو
رہ وفا پہ ہر ہی شب بہت اندھیر ہوئی
کہیں فلک پہ ستارہ یا ماہتاب تو ہو
گو بے تکلفی ہے دوستی کی شان مگر
کبھی مکالمے میں آپ یا جناب تو ہو
اگرچہ گریہء گلہاء خاردار تو ہے
کبھی ملے تو اس کے ہاتھ میں گلاب تو ہو
سفر حیات کاتو یوں بھی کٹ ہی جائے گا
کوئی ہو جستجو کوئی ترا بھی خواب تو ہو