خزاں رسیدہ ہے چمن کوئی حساب تو ہو - برائے اصلاح و تنقید

اسد قریشی

محفلین
جناب اسد قریشی صاحب آپ بهی دیکھ لیجیئے گا بہت مہربانی ہوگی.


بہت شکریہ محترمہ سارہ بشارت گیلانی صاحبہ اس عزت افزائی کا بیحد ممنون ہوں۔ یوں تو عروض سے اس قدر واقفیت نہیں، لیکن میری ناقص رائے میں جناب نظامی صاحب کا مشورہ قریب ترین اور موزوں محسوس ہوتا ہے۔

بشکریہ جناب محمد وارث صاحب:
بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

خ زا ر سی، د چ من ہے، کُ ئ ح سا ب ت ہو
ب ہا ر کا، ب ک سی طو، ر اح ت سا ب ت ہو

اگر اس بحر میں کوشش کی جائے تو تمام اشعار آسانی سے ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔باقی احباب یقینا" مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
فائنل صورت کی اصلاح

خزاں رسیدہ ہے چمن کوئی حساب چاہیے
بہار کا ہو احتساب کچھ جواب چاہیے
//درست

کوئی جدائی کی رتوں کا بھی شمار تو کرے
کوئی تو قائدہ ہو، یار کچھ نصاب چاہیے
//دوسرا مصرع اچھا نہیں لگ رہا ہے، ’یار‘ کی کیا ضرورت ہے یہاں؟
کوئی تو قاعدہ بھی ہو، کوئی نصاب چاہیے

وصال یار پیار کی نہیں ہے شرط ہاں مگر
کوئی گمان ہو کہیں کوئی سراب چاہیے
//درست
ہر ایک شب رہِ وفا میں ظلمتوں کی داستاں
فلک پہ ہو نجم کوئی یا ماہتاب چاہیے
//نجم کے تلفظ پر بات ہو چکی ہے۔ ویسے بھی یہاں کسی اور لفظ کی ضرورت ہے
فلک پہ کچھ ستارہ ہو کہ ماہتاب چاہئے
کیسا لگ رہا ہے؟

اگرچہ بے تکلفی عروجِ دوستی ہے پر
کبھی مکالمے میں آپ یا جناب چاہیے
//’پر‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ اس کو یوں کہو تو
ہے بے تکلفی عروجِ دوستی ۔ مگر میاں!
اس سے بھی بے تکلفی کا اظہار نمایاں ہو جاتا ہے!!

گلہ بہت اسے ہے خاردار ڈالیوں سے پر
کبھی تو اس کے ہاتھ میں کوئی گلاب چاہیے
//یہاں بھی وہی ’پر‘ بمعنی مگر۔ اس لفظ سے بچو تو بہتر ہے۔
اسے گلہ ہے خار دار ڈالیوں سے ، ہو تو ہو
کبھی تو اس کے ہاتھ میں کوئی گلاب چاہیے

سفر حیات کا تو یوں بھی کٹ ہی جائے گا مگر
کوئی تو جستجو، کوئی ترا ہو خواب چاہیے
//ہو کچھ تو تیری جستجو، کوئی تو خواب چاہئے
کر دو
 
Top