جاویداقبال
محفلین
تاریخ اصول فقہ واجتہاد
محترم وائس چانسلرصاحب!محترم اساتذہ!محترم مہمانان گرامی!
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ!
آج کاموضوع فقہ کے متعلق ہے ۔اس میں شک نہیں کہ یہ مقابلتاایک ٹیکنیکل مضمون ہونے کی وجہ سے کم دلچسپ ہوگا۔لیکن جیساکہ آپ ابھی ملاحظہ فرمائیں گےیہ موضوع ہے جس پر مسلمان بجاطوپرفخرکرسکتے ہیں۔دنیاکی تاریخ قانون میں مختلف قوموں نے اپنی طرف سے کچھ۔ نہ کچھ۔ اضافہ کیاہے۔مسلمانوں کاسب سے بڑاکارنامہ غالبااصول فقہ ہے۔مسلمانوں سے پہلے بھی دنیامیں قانون موجودتھالیکن اصول فقہ جیسی چیزدنیامیں کہیں نہیں ملتی اورآج بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک امتیازی اضافہ ہے،جس کی بدولت علم قانون کی ایک بڑی کمی پوری ہوگئی ہے۔آپ سب واقف ہیں کہ قانون دنیاکی ہرقوم میں ملتاہے۔یہ قانون دوقسم کے رہے ہیں۔انتہائی تاریک زمانوں سے لیکرآج تک اول توبن لکھاقانون ہمیں ہرجگہ ملتاہےیعنی رسم ورواج،جوہرایک ملک میں پایاجاتاہے،جس کامؤلف یاقانون سازہمیں معلوم نہیں ہوتالیکن اس پرسب لوگ عمل کرتے ہیں۔دوسراقانون وہ ہوتاہے جوکسی بادشاہ یاکسی حکمران کی طرف سے مدون کرکے نافذکیاجاتاہے اوربالعموم تحریری صورت میں ہمیں ملتاہے۔بہرحال انسان اپنی فطرت کے بنیادی تقاضوں کے پیش نظراپنی خواہش سے اپنے لیے کوئی قانون بناکراس پرعمل کرتاہے۔لہذاقانون ہرانسانی معاشرے کی بنیادی خصوصیت ہے۔
جہاں تک تحریری قانون کاتعلق ہے،غالباقدیم ترین قانون جوہم تک پہنچاہےوہ حمورابی بادشاہ کاہے۔یہ عراق کابادشاہ تھااورجدیدترین مغربی تحقیقات کے مطابق یہ وہی شخص ہےجسے ابراہیم علیہ السلام کانمرودکہاجاتاہے۔اس رائے کی وجہ یہ ہےکہ ان دونوں کازمانہ ایک ہے (اٹھارہ سوپچاس برس قبل مسیح)اورملک بھی ایک ہی ہے۔حمورابی کاقانون ہم تک تحریری صورت میں پہنچاہے۔ایران میں سوس نامی مقام پرکچھ۔ عرصہ قبل کھدائیوں میں ایک سیاہ رنگ کاپتھرملاجس پردوآدمیوں کی سی شکلیں ہیں۔جن میں سے ایک خداہے اوردوسرا حکمران حمورابی،جوخداسے احکام حاصل کررہاہے۔یہ پتھرستون کی شکل میں ہے جس پرقانون مخي رسم الخط میں کندہ کیاگياہے۔اسے مغربی ماہرین نے اب پڑھ۔ لیا ہے۔
اوراس کے ترجمےبھی دنیاکی اثربڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔یہ قدیم ترین تحریری قانون ہونے کی وجہ سے قابل ذکرہے۔لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ وہ بہترین قانون بھی ہے۔ایک مثال میں آپ کودیتاہوں۔ اس قانون کی دفعات ومندرجات میں سے ایک قانون یہ ہے،جسےسب لوگ قبول کریں گےکہ قصاص لیناچاہیے۔مثلامیں کسی کوقتل کروں توسزائے موت دی جائے۔اس بنیادی اصول کوحمورابی بادشاہ کے مشیروں نےترقی دے کرمضحکہ خیزحدتک پہنچادیاہے۔چنانچہ اس میں لکھاہے کہ اگرکوئی شخص کسی دوسرے شخص کی گائے کوقتل کردے تواس قاتل کی گائے کوقتل کیاجائے۔ممکن ہے آپ اسے قبول کرلیں۔میں یہ کہوں گاکہ بجائےاس کے کہ گائے کوقتل کرکے ضائع کریں کیوں نہ اس محروم شدہ شخص کوصلہ دیاجائےجس کی گائے مارڈالی گئی۔خیرہم کہہ سکتے ہیں کہ گائےکے بدلے گائے۔اس کےبعدلکھاہے کہ اگرکوئی شخص کسی کی بیٹی کوقتل کرے توقاتل کی بیٹی کوقتل کیاجائے۔بھلااس بیچاری کاکیاقصورتھا۔یہ ہمیں معلوم نہیں ہوتاکہ بجائے اس کے کہ اس کے قاتل کوسزادی جائے قاتل کی بیٹی کوکیوں سزادی گئی۔یہ ادلے کابدلہ(Tittat for)اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ قصاص کے اس اصول کوحمورابی کےہاں بےسمجھی سےگویاانتہاتک پہنچادیاگیا۔انصاف کےاس اصول کوآج ہماری عقل سلیم قبول کرنے کے لیے تیارنہیں ہوتی لیکن اب سے چارہزارسال پہلے کےلوگ سمجھتے تھےکہ یہی انصاف ہےاوریہی اچھاقانون ہے خداکی طرف سے ہمیں ملاہے۔اس کے علاوہ اوربھی قوانین ہم کوملتے ہیں۔مثلامصرمیں ہیروغلیفی(Hieroglyphic)کےجوکتبےہمیں ملےہیں۔ان میں بھی قوانین ہیں۔رومی قانون بھی ملتاہے۔یونانی قانون بھی ملتاہے۔چینی اورہندوستانی قوانین بھی ملتے ہیں۔امریکہ کےپرانے باشندوں ریڈانڈین(Red Indian)کے ہاں بھی قوانین ملتے ہیں۔غرض دنیاکےہرملک میں قانون ملتاہے۔لیکن یہ قانون،علم قانون ہےبلکہ اسے ایک مجموعہ احکام کہاجاسکتاہے۔یعنی یہ کرواوروہ نہ کرو۔علم قانون یااصول قانون کی کمی ہرجگہ نظرآتی ہے۔یعنی یہ بحث کہ قانون کیاچیزہے،یہ بحث کہ قانون کس طرح بنتاہے،کس طرح بدلاجاتاہے،کس طرح سمجھاجاتاہے۔اسی طرح قانون کے دواحکام میں اگرتضادنظرآئےتوکس قاعدےپرعمل کیاجائےاورکس قاعدےپرعمل نہ کیاجائے؟غرض یہ کہ قانون اپنے مجردتصورمیں کسی قوم میں موجودنہیںتھا۔جب تک اسلام کادورنہیں آگیااورتاریخ اسلام کی ابتدائي دوصدیوں کےفقہاء نےاس میں اپنااضافہContributionپیش نہیں کرلیا۔جیساکہ آپ سے میں نےعرض کیاکہ مسلمان اس بات پرفخرکرسکتےہیں،اس معنی میں کہ قوانین تودنیاکےہرملک میں موجودتھےلیکن علم القانون اپنے مجردتصورمیں کسی قوم نے پیش نہیں کیاتھا۔یہ اصول فقہ وہ علم ہےجسکااطلاق صرف اسلامی قانون پرہی نہیں بلکہ دنیاکےکسی بھی قانون پرہم کرسکتے ہیں۔اصول فقہ کےجن مسائل کاابھی میں نے ذکرکیاکہ قانون کیاہے؟کس طرح بنتاہے؟وغیرہ یہ سوالات میں مسلمان سے بھی کرسکتاہوں،رومی اوریونانی سےبھی اورہندوسےبھی کرسکتاہوں،کہ تمہارے ذہن میں قانون کاکیامطلب ہے؟قانون کیسے بنتاہے؟اورکون بناتاہے؟کب بنتاہے؟اوراس میں تبدیلی کس طرح ہوسکتی ہے؟اسے منسوخ کسطرح کیاجاتاہے؟اس میں اضافہ کس طرح کیاجاتاہے؟قانون کس اساس پربنایاجاتاہے؟یہ سوالات کسی بھی نظام قانون سے کیے جاسکتے ہیں۔اس کے جوابات چاہےمختلف ہوں۔لیکن یہ علم جوان مجردتصورات کےمتعلق ہے،اس کوپہلی مرتبہ مسلمان پیش کرتےہیں اوراس کواصول فقہ کانام دیتے ہیں۔مجھےمعلوم نہین کہ یہ نام کیوں دیاگیا۔ایک رائےمیں پیش کرتاہے،میرے رائےقرآن مجیدکی اس مشہورآیت سےماخوذہے،جس سے آپ سب واقف ہیںمثل کلمۃ طیبہ کشجرۃ طیبۃ اصلھاثابت وفرعھافی السماء)(24:14)(اچھی بات کی مثال ایک اچھےدرخت کی طرح ہوتی ہے جس کی جڑیں توزمین میں ثبت ہوتی ہیں لیکن اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی جاتی ہیں)یہاں دوخاص لفظ استعمال کیے گئےہیں جڑاورشاخیں۔چنانچہ ہمارے فقہانےاصول فقہ کوجڑقراردیااورقانونی قاعدوں یااحکام کو"فرع"قراردیا۔یعنی علم اصول اورعلم فروع۔اصول کے لفظی معنی ہیں جڑیں۔بہرحال چنداہم ابتدائی تصورات ہوتے ہیں۔جن کی اساس پرقاعدےبنائے جاتےہیں۔
یہ چیزغالبابالکل ابتدائی زمانے میں یعنی عہدنبوی میں یاعہدخلافت راشدہ میں نہ رہی ہوگی۔لیکن بعدمیں اس موضوع پرجواولین کتابیں لکھی گئيں وہ مسلمان فقہاء کی ہیں۔گزشتہ صدی تک کسی قوم میں یہ چیزنہیں پائی جاتی تھی۔پھررفتہ رفتہ اس کاچرچایورپ میں بھی ہونے لگا۔مجھےیادہے،چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہواجب میں 1928ء میںیونیورسٹی لاء کالج میں کالب علم تھا،ان دنوں ایک کتاب شائع ہوئی تھی جس کانام ہے"Angorah Regorms"یہ انگریزی زبان مین ایک فرانسیسی پروفیسرکی تالیف تھی۔لندن یونیورسٹی کی صدسالہ سالگرہ کی تقریب میں اسی فرانسیسی پروفیسرکودعوت دی گئی تھی۔اس نے وہاں پرتین لیکچردیئے۔جن میں پہلےلیکچرکاموضوع۔"Angorah Reforms"تھا،اتاترک مصطفی کمال پاشانے ترکی میں پرانی چیزوں کومنسوخ کرکےنئے قوانین نافذکیے۔مثلاسوئٹرزلینڈکے کوڈاوراٹلی کے کوڈوغیرہ وہاں نافذکیے گئے اوراسلامی قوانین ردکردیئے گئے اوردیگرچیزیں جوترکی میں آئی تھیں ترکی ٹوپی کی جگہ ہیٹ(Hat)کااستعمال وغیرہ۔یہ لیکچرانہی چیزوں کے بارے میں تھا۔چونکہ"Angorah Reforms"ایک نئی چیزتھی،اس لیےاس زمانے میں اسکابڑاچرچاتھا۔دوسرے مضمون کاعنوان"Root of Law"یعنی قانون کی جڑیں تھا۔میں اعتراف کرتاہوں کہ پہلی باراس دوسرے مقالے کوپڑھ کرمجھے اپنی میراث کاعلم ہواکہ مسلمانوں نےکیاخاص کارنامہ(Contribution)انجام دیاہے۔چونکہ کاؤنٹ اوسٹروروگ(Ostrorog)نے،جواس کتاب کامؤلف ہے،بیان کیاکہ یہ کسی اورقوم میںنہیں پایاجاتااوریہ
مسلمانوں کی عطاہےاوراس میں ان چیزوں سےبحث ہوتی ہے،یہ اسلامی کارنامہ(Contribution)جودنیاوی علم قانون پرروشنی ڈالتاہےوہ اصول فقہ کہلاتاہے۔اصول فقہ کاکچھ۔ مفہوم بیان کرنے سے پہلے مختصرامیں بعض ان چیزوں کودہراؤں گاجوگزشتہ دنوں اشارتاآپ سے بیان کرچکاہوں۔
اسلامی قانون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کےبعدسے شروع ہوتاہے،جس کی ابتدامیں کچھ۔ پرانے رسم ورواج ،جومکہ میں تھےوہ بھی شامل رہے اوررفتہ رفتہ اس کی ترمیم واصلاح قرآن وحدیث کے ذریعےسے ہوتی رہی۔اس میں بعض اورچیزوں کوبھی گواراکیاجاتارہا،جیسے معاہدات،سابقہ امتوں کے شریعتیں جواسلام نےبرقراررکھیں اوراسی طرح کی بعض اورچیزیں۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اورقانون کاسرچشمہ بندہوگیایعنی وحی کےذریعےسےقانون کابنانے اوربدلنے کی جوصلاحیت ہم میں پائی جاتی تھی وہ ختم ہوگئی توہم مجبورہوگئےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی وفات کےوقت جوچیزیں ہم میں چھوڑی ہیں انہی پراکتفاکریں۔عام حالتوں میں ہمارے لئےیہ بات مشکلات کاباعث بن جاتی،اگراس قانون کی ترقی کی صورت خودقانون سازنے یعنی خدااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ بتائی ہوتی،یہ چیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کے آخری دنوں سے تعلق رکھتی ہے۔یمن کوجب ایک گورنربھیجاگیا،یعنی حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالی عنہ،توان سے حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نےدریافت کیا"فبم تحکم"(کس طرح احکام دیاکروگے؟)جواب دیا۔"بکتاب اللہ"(اللہ کیاکتاب کےمطابق)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا"فان لم تجد"(اگرتم قرآن میں مطلوبہ چیزنہ پاؤتوکیاکروگے؟)توانھوں نےجواب دیا۔"فبسنۃ رسول اللہ"(رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی سنت کےمطابق احکام دیاکروں گا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرمزیدسوال کیا"فان لم تجد"(اگرسنت میں بھی مطلوبہ چیزنہ ملےتوکیاکروگے)توان کےالفاظ تھے"اجتھدبرایی ولاآلو"(میں اپنی رائےکےمطابق اجتہادکروں گااورکوئی دقیقہ نہیں چھوڑوں گا)اس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف پسندفرمایابلکہ دعادی اورآسمان کی طرف ہاتھ۔ اٹھاکریہ کہاکہ"اے اللہ تونےاپنےرسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کےرسول کوجس چیزکی توفیق دی ہےاس سےتیرارسول خوش ہے۔"اس سےبڑھ کراورکوئی تعریف نہیں ہوسکتی۔یہ چیزاسلامی قانون کوزندگی دینے والی،برقراررکھنے والی اورہرضرورت میں کام آنےوالی ہے۔اس کی وجہ سے ایک غیرجانبدارشخص بھی یہ کہہ سکتاہےکہ اسلامی قانون چودہ سوسال سےلےکرآج تک چلاآرہاہےاوراس میں آئندہ بھی چلنے کی قوت باقی ہے۔اگریہ چیزنہ ہوتی،توصرف قرآن اورحدیث پراکتفاکرنے کی صورت میں،ممکن ہے کہ بعض لوگ قرآن کریم کی آیتوں سے حدیثوں سے استنباط کرسکتےاوروہ حیران رہ جاتے کہ ہم کیاکریں واقعۃ یہ صورت بعض وقت پیش آتی ہے کہ ایک چیزسےبعض لوگ سمجھ۔ لیتے ہیں استنباط کرلیتے ہیں اور
بعض دوسرے لوگوں کی نظراس تک پہنچتی اوروہ ششدروحیران رہ جاتے ہیں۔
ایک چھوٹی سی مثال آپ کودوں گاجس کاتعلق امام اعظم(رحمۃ اللہ)سے ہے۔اس سے ان کی ذہانت کاذکرکرنامطلوب نہیں ہے بلکہ صرف مثال دیناہے کہ کس طرح ایک ہی چیزسےبعض لوگ سمجھ۔ جاتے ہیں اوربعض لوگ سمجھ۔ نہیں سکتے۔لطیفے کےطورپرقصہ بیان کیاگیاہے ایک دن ایک خاندان میں میاں بیوی میں کسی بات پرجھگڑاہوگیا۔رات کے وقت پہلے شوہرنےیہ قسم کھائی اوراپنی بیوی سے کہاکہ طلوع آفتات سے قبل اگرتومجھ۔ سے بات نہ کرے گی توتجھے طلاق ہے۔بیوی بھی بہت جلی بھنی تھی،اس نے بھی قسم کھاکرکہاکہ خداکی قسم طلوع آفتاب سے قبل میں تم سے بات نہیں کروں گی۔پھردونوں چپ ہوگئے۔سوئےیانہیں یہ تومعلوم نہیں لیکن دونوں چپ ہوگئے۔اس کےبعداذان ہوئی اورطلوع آفتاب کاوقت آگیا۔شوہرپہلے نمازکوجاتاہےاورپھرابن سیرین نامی مشہورفقیہ کےپاس جاکرساراقصہ سناتاہے۔وہ کہتے ہیں کہ میاں قصورتمہاراہے،طلاق ہوگئی،طلاق ہوگئی،کیوں کہ تم نے کہاتھاکہ بیوی اگرطلوع آفتاب تک بات نہ کرے توطلاق ہوجائے گی۔اس نے بات نہیں کی۔میں کچھ۔ نہیں کرسکتا۔وہ روتادھوتاامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کے پاس پہنچا۔وہی قصہ ان کوبھی سنایا۔توامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے کہاکہ کوئی بات نہیں۔تم شوق سے اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔طلاق وغیرہ کوئی نہیں ہوئی۔وہ شخص حیرت زدہ رہ گیااسی عالم میں واپس ابن سیرین کے پاس پہنچتاہےاورکہتاہے کہ تمہارے بعدمیں امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کےپاس گیاتھاوہ کہتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی۔انھیں تعجب ہواکہ یہ کیسے ہوسکتاہے۔چنانچہ اسی شخص کےساتھ۔ امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کےپاس آئے۔کہنے لگے:"ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)اللہ سے ڈرو"تم کیاغضب کررہے ہو۔اس کی عورت کوطلاق ہوچکی ہے۔تم کہتے ہوکہ طلاق نہیں ہوئی۔وہ اس کے ساتھ۔ رہے گاتوزناکاری ہوگی۔تم اس کے ذمہ دارہوگے۔خداکے ہاں کیاجواب دوگے؟امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے کہا:میاں قصہ ذرادوبارہ سناؤ۔"اس نے سنایا۔پہلے میں نے بیوی سے کہاتھاکہ اگرطلوع فجرتک اگربات نہ کرے توطلاق ہے۔بیوی نے اسی وقت جواب دیاکہ خداکی قسم میں تجھ۔ سے طلوع آفتاب تک بات نہیں کروں گی۔توامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے کہامیں اپنی رائے پرقائم ہوں۔طلاق نہیں ہوئی کیونکہ اس شخص نے یہ نہیں کہاکہ عورت کونسی بات کرے۔جب اس نے کہاکہ میں تم سے بات نہیں کروں گی توبات کرناہی ہوا۔ان حالات میں یہ شرط کہ عورت بات نہ کرے توطلاق ہوگی،پیش ہی نہیں آئی آپ نے دیکھاکہ کس طرح ایک ہی واقعہ سےایک شخص کچھ۔ سمجھ۔ لیتاہےاوردوسرےشخص کی نظراس نکتے تک نہیں پہنچتی۔
غرض اسلامی قانون کی ترقی کے متعلق اگراجتہادکی اجازت نہ دی جاتی توسب لوگوں کوصرف قرآن وحدیث پراکتفاء کرنی پڑتی اورممکن تھاکہ کسی وقت بڑے سے بڑے عالم اورفقیہ کوکسی نئے مسئلے کے متعلق نہ قرآن مین کوئی حکم ملے اورنہ حدیث میں۔آپ نے پڑھاہوگاکہ ایک بارحضرت عمر(رضی اللہ تعالی عنہ)کے ایک فیصلے پرحضرت علی(رضی اللہ تعالی عنہ)نےکچھ۔ توجہ دلائی توحضرت عمر(رضی اللہ تعالی عنہ)نے بےساختہ کہا"لولاعلی لھلک عمر"۔اس
اجازت کے تحت جومعاذبن جبل رضی اللہ عنہ کودی گئی تھی کہ "اجتہادکرو"اجتہادکااصول ہاتھ۔ آگیا۔اوردشواریاں ختم ہوگئيں۔
خلفائے راشدین کے زمانے میں کبھی کبھی اجتماعی غوروفکربھی ہوتاتھا۔لوگ آپس میں بحث کرتے کہ اس بارے میں کیاکرناچاہیے؟ایک صاحب اگرایک چیزبیان کرتے تودوسرے صاحب اس پراعتراض کرتے،نہیں صاحب!یہ نہیں ہوسکتا۔اس میں فلاں خامی ہے،یوں کرناچاہیے۔اوراس آپس کے بحث مباحثے سے لوگ کسی نتیجے پرپہنچ جاتے۔اس زمانے میں خاص کریہ چیزمفیدثابت ہوئی۔کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ احکام واقوال ابھی تک جمع نہیں ہوئے تھے۔بخاری،مسلم اور صحاح ستہ کی کتابیں ابھی لکھی نہیں گئی تھیں بلکہ لوگوں کے علم اورحافظے میں تھیں۔جب آپس میں مل کرمشورہ کرتے تواس وقت بعض بھولی بسری باتیں یادآجاتیں،کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےایک دن یونہی فرمایاتھا۔اس طرح اسلامی قانون کے متعلق جومعلومات حدیث میں تھیں ان کو جمع کرکے قانونی احکام استنباط کرنے کاآغازہوگیا۔
ان علمی مراکزمیں جہاں نسلہانسل تک فقہ کی تعلیم کاسلسلہ جاری رہا،قانون کی تدوین کےکام میں بڑی ترقی ہوئی۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ ممتازمدرسہ کوفہ کاتھا،جہاں اسلامی قانون کی تعلیم دی جاتی رہی۔شہرکوفہ آج بھی عراق میںموجودہےاوراگرچہ ایک چھوٹاساشہرہےلیکن اس کی تاریخی اہمیت بڑی رہی ہےاس علاقے کوکچھ۔ خصوصیتیںحاصل ہیں۔میں یہ نہیں کہہ سکتاکہ ان خصوصیتوں کے باعث یہ امتیازاسے حاصل ہے یامحض اتفاقی بات ہے ۔وہ خصوصیتیں یہ ہیں کہ جس مقام پرآج شہرکوفہ آبادہے۔پرانے زمانے میں اس کے نواح میں"حیرہ"نامی شہرآبادتھا،جس کے کھنڈرات اب بھی ملتے ہیں۔حیرہ وہ شہرہے جوزمانہ جاہلیت میںتہذیب وتمدن کابڑامرکزسمجھاجاتاتھا۔یہ شہراگرچہ ایرانیوں کےقبضےمیں تھا،وہاں یمنی عرب آکرآبادہوگئے تھے۔جزیرہ نمائے عرب میں یمن کاعلاقہ سب سے زیادہ سرسبزوشاداب تھااورقدیم زمانے میں تہذیب وتمدن کاگہوارہ رہاتھا۔جب وہاں کے لوگ حیرہ میں آبادہوئے توان کی تہذیب نےآس پاس کے لوگوں کواپناگرویدہ بنالیا۔تاریخ کایہ حیرت انگیزواقعہ ہےکہ ایران کےشہنشاہ نےاپنے ولی عہدکوبچپن میں تعلیم وتربیت کےلیےحیرہ بھیجا۔اسےپورااعتمادتھاکہ عرب حکمران کی نگرانی میں تربیت پاکراسکے بیٹے کاکردارسنورجائےگا۔اس کاخیال صحیح ثابت ہوااوربچہ جوبہرام گورکےنام سےمشہوربادشاہ گزراہےاسکاشکرگزاررہا،چنانچہ اس بادشاہ کی جوتصویریں ملتی ہیں ان میں اسےبدوی لباس میں ایک اونٹ پرسواردکھایاگیاہے۔بہرحال حیرہ وہ مقام تھاجہاں پرانے زمانے میں اکی بہت ہی ممتازعربی سلطنت گزرچکی ہےاورعربی یعنی یمنی اورایرانی روایات کاسنگم ہوکرنئی شکل کاتمدن اس مقام پرنظرآتاہے۔یہ اورعلاقوں سےممتازاوربرترتھا۔جب حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں
عراق فتح ہواتوانھوں نےاپنی سیاسی فراست کی بناپرفورافوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔عربوں کوعرب سے بھیجاکہ جاکراس مفتوحہ علاقے کے اندرکسی ایسے مقام پرآبادہوجاؤجوفوجی نقطہ نظرسےاہم ہوتاکہ بوقت ضرورت تمہیں کمک پہنچائی جاسکےاورتم بوقت ضرورت فورافساداورفتنے کےمقام پرجاکردشمن کی سرکوبی کرسکو۔انھوںنے،علاوہ اورشہروں کے،حیرہ کواسلامی چھاؤنی بنانے کے لیے بھی انتخاب کیا۔حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نےاپنی فراست سےیہ بھی معلوم کرلیاکہ پرانے شہرکے اندرمسلمانوں کوبسانامناسب نہیں۔اس مقام کوتوانھوں نے چن لیالیکن شہرکونہ چنانچہ حکم دیاکہ اس شہرکے مضافات میں ایک نیاشہربسالو۔تمہارے علاقے میں اجنبی نہ رہیں اوران کے علاقے میں تم نہ رہو۔یہ خالص اسلامی شہرہو۔اس میں بھی حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نےجونوآبادکاربھیجے وہ بیشتریمن کے تھے۔یمن ہی سے دوبارہ مہاجرین کاایک سیلاب آتاہے اوراسی پرانے مقام پربستاہے۔لیکن صرف یمنی ہی نہیں،ان میں غالبااٹھاون ایسے صحابہ بھی تھےجوجنگ بدرمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ شریک رہے۔الغرض اسلامی روایات کےحامل لوگوں کی ایک جماعت تھی جوشہرکوفہ میں آبادہوئی اوراسطرح پرانی روایات میں ایک نئی تہذیب کااضافہ ہوتاہے۔جب اس مقام پرکئی ہزارکی اسلامی آبادی ہوگئی توظاہرہےکہ مسلمانوں کواسلامی تعلیم کی ضرورت ہوئی۔حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے وہاں کی جامع مسجدمیں،جواس وقت گورنرکےمکان کاجزوتھی،ایک بڑےعالم صحابی کوبھیجا۔یہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ تھے۔جن کےتقررنامےمیں حضرت عمررضی اللہ تعالی نےیہ لکھاکہ"اےاہل کوفہ میں اپنے آپ پرتم کوترجیح دیتاہوں اورایثارکرکےمیں اس شخص کوتمہارے پاس بھیجتاہوں جس کی مجھےضرورت ہے۔یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت ہی محترم صحابی عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ہیں جوبطورمعلم کےتمہارے پاس آتےہیں۔ان سے استفادہ کرنے میں غفلت نہ کرنا۔حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق جیسامیں نےبیان کیا،وہ فطرتاقانون کی طرف مائل تھے۔وہ وہاں مقیم رہے اوراپنے شاگردوں کوزیادہ ترفقہ کی تعلیم دیتےرہے۔ان میں قانونی نکتہ آفرینی اوراستدلال کاخاص ملکہ تھا۔ان کی وفات کےبعدان کے ایک شاگردعلقمۃ التحعی،پھرانکے شاگردابراہیم نخعی،پھرانکے بعدان کےشاگردحمادبن ابی سلیمان جوایرانی تھے،پھران کے بعدامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)جوایرانی تھے،وہ اس سلسلے میں چوتھی نسل میں وہاں کارفرماہوئےہیں۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 80ھ۔۔ میں ہوئی اوروفات 150ھ۔۔ میں ۔ عباسی خلافت 132ھ۔۔ میں شروع ہوئی۔گویابنی امیہ کاآخری دوراوربنی عباس کاابتدائی دوران کے سامنے گزرا۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کادوبارہ ذکراس لیے آیاہےکہ ان کی تالیفات میں ایک تالیف"کتاب الرائی"کے نام سے ہے۔جیساکہ آپکومعلوم ہےکہ اگرقرآن وحدیث میں صراحتاحکم موجودنظرنہ آئےتواجتہادکرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔اجتہادرائے کے ذریعے سے ہوتاہے۔کیونکہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کے الفاظ یہ تھے"اجتھدبرائی"(اپنی رائے سے اجتہادکروں گا)توامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب لکھ۔ ڈالی۔"کتاب الرائی"یعنی آدمی رائےکس طرح سے قائم کرے۔مسائل میں رائےکااستعمال کس طرح ہوتاہے۔بدقسمی سے یہ کتاب ہم تک نہیں پہنچی۔غالباجب بغدادپرہلاکوخاں کاحملہ ہوااوروہاں کی لاکھوں کتابیں دریاے دجلہ میں پھینک کرتباہ کردی گئيں توممکن ہے اس کتاب کے نسخےبھی اس ضائع شدہ ذخیرے میں رہے ہوں اورضائع ہوگئے ہوں۔مجھ۔ اس سے کوئی بحث نہیں ہے کہ اس کے مندرجات کیاتھے،صرف یہ کہناچاہتاہوں کہ یہ قدیم ترین کتاب ہےجسکی طرف ہمارے مؤلف اشارہ کرتے ہیں اورجواصول فقہ کےموضوع کی گویااولین کتاب ہے۔
اصول فقہ غالبااپنے موجودہ مفہوم میں پورے کاپورااس میں نہیں ہوگا۔لیکن رائےسےاستفادہ کرکے قانون کوبدلنا،قانون کامفہوم معلوم کرنا،اس کی تاویل کرناغالبااس میں بیان کیے گئے ہوں کے۔یہ اولین کتاب ہے جس کاذکرملتاہے۔ممکن ہے کہ اس موضوع پرپہلے بھی تحریرااورعملاکام کیاگیاہویعنی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےاستادوں نے بھی رائےسےکام لےکرفتوے دیےہوں اورسوالوں کاجواب دیاہو۔لیکن یہ انھوں نے اس اس پرکوئی کتاب لکھی تھی،اب تک ہمیں اس کاپتہ نہیں چلا۔اس لیے فی الحال ہم فرض کریں گے اس موضوع پرپہلی کتاب امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کی"کتاب الرائی"ہے۔امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے قانون کی بہت بڑی خدمت کی ۔اس خدمت میں ایک تو"کتاب الرائی"کالکھناہے،اس کے علاوہ ایک اورچیزکی طرف اشارہ کروں گا۔وہ یہ کہ انھوں نے انٹرنیشنل لاپربھی ایک کتاب لکھی،جس کاانشاء اللہ کل کے لیکچرمیں صراحت سے بیان ہوگا۔انٹرنیشنل لابھی ایک ایساعلم ہےجواسلام سےپہلے عملادنیامیں موجودنہیں تھا۔اس چیزکوعلمی حیثیت سے،ساری دنیاکے لوگوں کےاستعمال میں آنے والا،انٹرنیشنل لابنانامسلمانوں کاکام ہے۔اس موضوع پرامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے ایک کتاب لکھی،جسے"کتاب السیر"کانام دیاجاتاہے۔اورایک چیزجس کامجھے ذکرکرناہےوہ یہ کہ انھوں نےعلم کاذوق بھی اپنے شاگردوں میں پیداکیا۔اس ذوق کامطلب یہ نہیں کہ مولوی نےجوبتایااسے طوطا میناکی حفظ کریں اورحسب ضرورت دھرالیاکریں۔یہ امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کاتصورتعلیم نہیں تھا۔وہ اپنے شاگردوں میں اجتہاد،فکراورآزادی رائے کی صلاحیت راسخ کردیتےتھے۔چنانچہ ہرمسئلے پرانکے شاگردآزادنہ اپنی رائےکااظہارکرتے تھےاوربحث وتمحیص کےبعدمعقول دلائل کی بنیادپرردوقبول ہوتا۔استادیاشاگردہٹ دھری نہیں کرتے تھے۔اس کے باوجودکہاجاسکتاہےکہ فقہ حنفی میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائےپرشایدپندرہ فیصداحکام میں عمل کیاجاتاہواورباقی پچاسی فیصدمسئلوں پرصاحبین کی رائے،یعنی اگرامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدشیبائی رحمۃ اللہ علیہ متفق ہوں توان کی رائے پرفتوی دیاجاتاہے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائےپرنہیں دیاجاتا۔یہ سب اس تربیت کانتیجہ ہےجوامام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے شاگردوں کودیتے رہے کہ اندھی تقلیدنہ کرنا۔خودسوچنا،آزادی رائے رکھنااورحق کے سوا
کسی اورچیزکوقبول نہ کرنا۔ابن خلکان نےلکھاہےکہ امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نےایک کتاب لکھی تھی،جس کانام "کتاب الاصول"تھاتصورکیاجاتاہےیہ اصول فقہ کےمتعلق تھی یاغالبا"کتاب الرائی"کیا شرح ہوگی۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "کتاب الرائي"لکھنےکےبعداس کادرس بھی دیاہوگا۔درس کےدوران میں شرح ہوئی ہوگی اوراعتراضات بھی ہوں گے۔اس مباحثےکےنتیجےکےطورپرامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے"کتاب الاصول"لکھ۔ ڈالی۔افسوس ہے کہ یہ کتاب بھی ہم تک نہیں پہنچ سکی۔دوسرے شاگردوں میں ممتازشاگردامام محمدشیبانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ایک حالیہ شائع شدہ کتاب سےمعلوم ہوتاہے کہ انھوں نے بھی اس موضوع پرایک کتاب لکھی تھی۔اب مطبوعہ کتاب میں امام محمدشیبانی رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب الاصول"کے کچھ۔ حوالے بھی آگئےہیں۔یہ مطبوعہ کتاب ایک معتزلی مذہب کے امام ابوالحسین البصری کی تالیف(المعتمدفی اصول الفقہ)ہے۔معتزلی فرقےکی کتابیں بہت کم ملتی ہیں۔اتفاق سے المعتمدکےچارپانچ مخطوطےملتے ہیں۔دواستنبول میں ہیں۔یمن کے ایک نسخےکےفوٹومصرمیں ہیں۔دوسرامخطوطہ میرے پاس ہے جوشہربیت الفقیہ (یمن)کےقاضی صاحب نے ازراہ نوازش مجھےبطورتحفہ دیاتھا۔ایک نامکمل نسخہ میلانو(اٹلی)میں بھی ہے۔ان سب نسخوں کی مددسے اس کتاب کوشائع کیاگیاہے۔جومعتزلی اصول فقہ کی ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔لیکن مجھے اس کتاب سے زیادہ اس کے ایک جملے پرآپ کی توجہ منعطف کرانی ہے۔امام محمدالشیبانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ"اصول فقہ چارچیزیں ہیں۔قرآن،حدیث،اجماع اورقیاس"یہ گویاان کی کتاب کاخلاصہ تھا۔جس کی طرف ابوالحسین البصری کی کتاب میں اشارہ ملتاہے۔اس بناء پرمیں کہہ سکتاہوں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک ہی نہیں،متعددشاگردوں نے"کتاب الرائی"کی شرح کے طورپراصول فقہ کی کتابیں لکھ۔ ڈالیں۔اس رائے کے قائم کرنے کی ایک اوروجہ بھی ہے۔ابھی تھوڑی دیرپہلے میں نے آپ سے بیان کیاکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف "کتاب السیر"منسوب ہے،یعنی انٹرنیشنل لاپرانھوں نے ایک کتاب لکھی تھی۔اگرچہ سوائے چنداقتباسات کے وہ کتاب ہم تک نہیں پہنچی لیکن اسی نام کی کتابیں ان کے کم سے کم تین یاچارشاگردوں نےلکھی ہیں۔ابراہیم الفزاری ایک شاگردتھےان کی "کتاب السیر"مخطوطے کی صورت میں موجودہے۔محمدشیبانی نے"کتاب السیرالصغیر"اورکتاب السیرالکبیر"کےنام سے دوکتابیں لکھیں۔یہ دونوں ہم تک پہنچ چکی ہیں۔اس طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک اورشاگردزفرنےبھی ایک کتاب لکھی جس کانام"کتاب السیر"تھا۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے معاصرین میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اورامام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نےبھی ایک کتاب لکھی جس کانام"کتاب السیر"کےنام سے ایک ایک کتاب لکھی۔ایک اورمعاصر،واقدی نےجومشہورمؤرخ تھے،انٹرنیشنل لاکےموضوع پراسی نام کی ایک کتاب تصنیف کی تھی۔جس طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب السیر"سےمتاثرہوکراورانٹرنیشنل لاپران کے لیکچروں کی اساس پر،ان کے کئی شاگردوں نے"کتاب السیر"کےنام سے کتابیں تصنیف کیں۔اسی طرح شاید"کتاب الرائی" کی
تدریس کے سلسلے میں بھی وہی صورت پیش آئی اوران کے بعض شاگردوں نے اس موضوع پربھی کتابیں لکھیں،ممکن ہے کہ اس کواصول کانام بھی خودامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے دیاہو،"کتاب الرائی"کی تدریس کے سلسلےمیں اس امرکاذکرکرنے کے بعدیہ بتاناہےکہ کتاب الاصول یعنی علم الاصول کی جوکتابیں مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں ان میں سے ابتدائی تین کتابیں یعنی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب الرائی"اورامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ،امام محمدشیبانی رحمۃ اللہ کی "کتاب الاصول"ہم تک نہیں پہنچیں۔جوکتاب ہم تک پہنچی وہ امام محمدشیبانی رحمۃ اللہ علیہ کےایک شاگردامام شافعی رحمۃ اللہ کی ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بیک وقت کئی سلسلوں اورروایتوں (Traditions)سےمنسلک تھے۔وہ ایک سوپچاس ہجری میں پیداہوئے۔اسی سال امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کاانتقال ہوگیا۔براہ راست وہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ نہیں کرسکے،لیکن سالہاسال تک ان کے ممتازشاگردامام محمدشیبانی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردرہے۔اسی طرح مدینہ منورہ جاکرامام مالک رحمۃ اللہ علیہ سےبھی سالہاسال تک درس لیتے رہے۔انھوں نے فلسفہ ومنطق کی بھی تعلیم پائی اورعلم الکلام کی بھی۔اس زمانے میں معتزلہ فرقے کابہت بول بالاتھا۔ان سے مباحثےبھی کرتے رہے۔اس لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات کئی ایسی چیزیں جمع ہوگئیں جن کے باعث وہ اسلام کی بہت اہم خدمات انجام دے سکے،جن میں سے ایک حسب ذیل ہے۔مسلمانوں میں جیساکہ آج ہے،پرانے زمانے میں بھی کچھ۔ لوگ قدامت پسندتھےاورکچھ۔ جدت پسند۔ان دومتضادرحجانات کےلوگ ہرمعاشرے اورہرقوم میں پائے جاتے ہیں۔بہرحال اس زمانےمیں اگربعض لوگ حدیث کی تعلیم پانے اورجمع کرنے کےکام میں مشغول تھےتوکچھ۔ لوگ دوسرے علوم سےدلچسپی رکھتے تھے۔نتیجہ یہ ہواکہ بعض فقہاء جنھیں قانون کے علم سے دلچسپی تھی،منطق اورفلسفےکی مددسےاسلامی قانون کوترقی دینے میں مشغول تھے۔ان کی توجہ حدیث کی طرف سے ہٹ گئی۔نتیجہ یہ ہواکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں اہل حدیث اوراہل رائےمیں ایک شدیدکشمکش پیداہوگئی۔اہل حدیث سے مرادوہ لوگ ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےفرمودہ احکام واقوال کوجمع کرنے اورمطالعہ کرنے میںمشغول تھےاوراہل رائےسے مرادوہ فقہاءتھےجواسلامی قانون کوجمع کرنے اورقیاس اوراستنباط کی مددسےاس کوترقی دینے میں مشغول تھے۔دونوں میں کشمکش اس بناء پربھی کہ اہل الرائےکوحدیث سے کم واقفیت تھی اوروہ اس بات کوفرض کرلیتےتھےکہ حدیث میں یہ چیزنہیں پائی جاتی۔اس سکوت کےباعث وہ قیاس کرکے نئے احکام دیاکرتے۔بعض اوقات ایساہوتاکہ اس مسئلےمتعلق حدیث میں ذکرموجودہوتالہذااہل حدیث کہتے یہ لوگ توکافرہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہوتے ہوئے اسے نظراندازکرتےہیں۔حالانکہ وہ عمداایسانہیں کرتےتھے۔انھیں واقفیت نہ ہوتی تھی۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے اہل حدیث (محدثوں)سےبھی تعلیم پائی اوراہل الرائے فقہاسے بھی۔انھیں فلسفہ وکلام پربھی دسترس حاصل تھی۔ان کی ذات میں ایسااچھااسلام عالم پیداہوگیاجوگویاایک نقطہ اتصال پیداکرنے اورربط پیداکرنے کا
محترم وائس چانسلرصاحب!محترم اساتذہ!محترم مہمانان گرامی!
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ!
آج کاموضوع فقہ کے متعلق ہے ۔اس میں شک نہیں کہ یہ مقابلتاایک ٹیکنیکل مضمون ہونے کی وجہ سے کم دلچسپ ہوگا۔لیکن جیساکہ آپ ابھی ملاحظہ فرمائیں گےیہ موضوع ہے جس پر مسلمان بجاطوپرفخرکرسکتے ہیں۔دنیاکی تاریخ قانون میں مختلف قوموں نے اپنی طرف سے کچھ۔ نہ کچھ۔ اضافہ کیاہے۔مسلمانوں کاسب سے بڑاکارنامہ غالبااصول فقہ ہے۔مسلمانوں سے پہلے بھی دنیامیں قانون موجودتھالیکن اصول فقہ جیسی چیزدنیامیں کہیں نہیں ملتی اورآج بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک امتیازی اضافہ ہے،جس کی بدولت علم قانون کی ایک بڑی کمی پوری ہوگئی ہے۔آپ سب واقف ہیں کہ قانون دنیاکی ہرقوم میں ملتاہے۔یہ قانون دوقسم کے رہے ہیں۔انتہائی تاریک زمانوں سے لیکرآج تک اول توبن لکھاقانون ہمیں ہرجگہ ملتاہےیعنی رسم ورواج،جوہرایک ملک میں پایاجاتاہے،جس کامؤلف یاقانون سازہمیں معلوم نہیں ہوتالیکن اس پرسب لوگ عمل کرتے ہیں۔دوسراقانون وہ ہوتاہے جوکسی بادشاہ یاکسی حکمران کی طرف سے مدون کرکے نافذکیاجاتاہے اوربالعموم تحریری صورت میں ہمیں ملتاہے۔بہرحال انسان اپنی فطرت کے بنیادی تقاضوں کے پیش نظراپنی خواہش سے اپنے لیے کوئی قانون بناکراس پرعمل کرتاہے۔لہذاقانون ہرانسانی معاشرے کی بنیادی خصوصیت ہے۔
جہاں تک تحریری قانون کاتعلق ہے،غالباقدیم ترین قانون جوہم تک پہنچاہےوہ حمورابی بادشاہ کاہے۔یہ عراق کابادشاہ تھااورجدیدترین مغربی تحقیقات کے مطابق یہ وہی شخص ہےجسے ابراہیم علیہ السلام کانمرودکہاجاتاہے۔اس رائے کی وجہ یہ ہےکہ ان دونوں کازمانہ ایک ہے (اٹھارہ سوپچاس برس قبل مسیح)اورملک بھی ایک ہی ہے۔حمورابی کاقانون ہم تک تحریری صورت میں پہنچاہے۔ایران میں سوس نامی مقام پرکچھ۔ عرصہ قبل کھدائیوں میں ایک سیاہ رنگ کاپتھرملاجس پردوآدمیوں کی سی شکلیں ہیں۔جن میں سے ایک خداہے اوردوسرا حکمران حمورابی،جوخداسے احکام حاصل کررہاہے۔یہ پتھرستون کی شکل میں ہے جس پرقانون مخي رسم الخط میں کندہ کیاگياہے۔اسے مغربی ماہرین نے اب پڑھ۔ لیا ہے۔
اوراس کے ترجمےبھی دنیاکی اثربڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔یہ قدیم ترین تحریری قانون ہونے کی وجہ سے قابل ذکرہے۔لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ وہ بہترین قانون بھی ہے۔ایک مثال میں آپ کودیتاہوں۔ اس قانون کی دفعات ومندرجات میں سے ایک قانون یہ ہے،جسےسب لوگ قبول کریں گےکہ قصاص لیناچاہیے۔مثلامیں کسی کوقتل کروں توسزائے موت دی جائے۔اس بنیادی اصول کوحمورابی بادشاہ کے مشیروں نےترقی دے کرمضحکہ خیزحدتک پہنچادیاہے۔چنانچہ اس میں لکھاہے کہ اگرکوئی شخص کسی دوسرے شخص کی گائے کوقتل کردے تواس قاتل کی گائے کوقتل کیاجائے۔ممکن ہے آپ اسے قبول کرلیں۔میں یہ کہوں گاکہ بجائےاس کے کہ گائے کوقتل کرکے ضائع کریں کیوں نہ اس محروم شدہ شخص کوصلہ دیاجائےجس کی گائے مارڈالی گئی۔خیرہم کہہ سکتے ہیں کہ گائےکے بدلے گائے۔اس کےبعدلکھاہے کہ اگرکوئی شخص کسی کی بیٹی کوقتل کرے توقاتل کی بیٹی کوقتل کیاجائے۔بھلااس بیچاری کاکیاقصورتھا۔یہ ہمیں معلوم نہیں ہوتاکہ بجائے اس کے کہ اس کے قاتل کوسزادی جائے قاتل کی بیٹی کوکیوں سزادی گئی۔یہ ادلے کابدلہ(Tittat for)اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ قصاص کے اس اصول کوحمورابی کےہاں بےسمجھی سےگویاانتہاتک پہنچادیاگیا۔انصاف کےاس اصول کوآج ہماری عقل سلیم قبول کرنے کے لیے تیارنہیں ہوتی لیکن اب سے چارہزارسال پہلے کےلوگ سمجھتے تھےکہ یہی انصاف ہےاوریہی اچھاقانون ہے خداکی طرف سے ہمیں ملاہے۔اس کے علاوہ اوربھی قوانین ہم کوملتے ہیں۔مثلامصرمیں ہیروغلیفی(Hieroglyphic)کےجوکتبےہمیں ملےہیں۔ان میں بھی قوانین ہیں۔رومی قانون بھی ملتاہے۔یونانی قانون بھی ملتاہے۔چینی اورہندوستانی قوانین بھی ملتے ہیں۔امریکہ کےپرانے باشندوں ریڈانڈین(Red Indian)کے ہاں بھی قوانین ملتے ہیں۔غرض دنیاکےہرملک میں قانون ملتاہے۔لیکن یہ قانون،علم قانون ہےبلکہ اسے ایک مجموعہ احکام کہاجاسکتاہے۔یعنی یہ کرواوروہ نہ کرو۔علم قانون یااصول قانون کی کمی ہرجگہ نظرآتی ہے۔یعنی یہ بحث کہ قانون کیاچیزہے،یہ بحث کہ قانون کس طرح بنتاہے،کس طرح بدلاجاتاہے،کس طرح سمجھاجاتاہے۔اسی طرح قانون کے دواحکام میں اگرتضادنظرآئےتوکس قاعدےپرعمل کیاجائےاورکس قاعدےپرعمل نہ کیاجائے؟غرض یہ کہ قانون اپنے مجردتصورمیں کسی قوم میں موجودنہیںتھا۔جب تک اسلام کادورنہیں آگیااورتاریخ اسلام کی ابتدائي دوصدیوں کےفقہاء نےاس میں اپنااضافہContributionپیش نہیں کرلیا۔جیساکہ آپ سے میں نےعرض کیاکہ مسلمان اس بات پرفخرکرسکتےہیں،اس معنی میں کہ قوانین تودنیاکےہرملک میں موجودتھےلیکن علم القانون اپنے مجردتصورمیں کسی قوم نے پیش نہیں کیاتھا۔یہ اصول فقہ وہ علم ہےجسکااطلاق صرف اسلامی قانون پرہی نہیں بلکہ دنیاکےکسی بھی قانون پرہم کرسکتے ہیں۔اصول فقہ کےجن مسائل کاابھی میں نے ذکرکیاکہ قانون کیاہے؟کس طرح بنتاہے؟وغیرہ یہ سوالات میں مسلمان سے بھی کرسکتاہوں،رومی اوریونانی سےبھی اورہندوسےبھی کرسکتاہوں،کہ تمہارے ذہن میں قانون کاکیامطلب ہے؟قانون کیسے بنتاہے؟اورکون بناتاہے؟کب بنتاہے؟اوراس میں تبدیلی کس طرح ہوسکتی ہے؟اسے منسوخ کسطرح کیاجاتاہے؟اس میں اضافہ کس طرح کیاجاتاہے؟قانون کس اساس پربنایاجاتاہے؟یہ سوالات کسی بھی نظام قانون سے کیے جاسکتے ہیں۔اس کے جوابات چاہےمختلف ہوں۔لیکن یہ علم جوان مجردتصورات کےمتعلق ہے،اس کوپہلی مرتبہ مسلمان پیش کرتےہیں اوراس کواصول فقہ کانام دیتے ہیں۔مجھےمعلوم نہین کہ یہ نام کیوں دیاگیا۔ایک رائےمیں پیش کرتاہے،میرے رائےقرآن مجیدکی اس مشہورآیت سےماخوذہے،جس سے آپ سب واقف ہیںمثل کلمۃ طیبہ کشجرۃ طیبۃ اصلھاثابت وفرعھافی السماء)(24:14)(اچھی بات کی مثال ایک اچھےدرخت کی طرح ہوتی ہے جس کی جڑیں توزمین میں ثبت ہوتی ہیں لیکن اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی جاتی ہیں)یہاں دوخاص لفظ استعمال کیے گئےہیں جڑاورشاخیں۔چنانچہ ہمارے فقہانےاصول فقہ کوجڑقراردیااورقانونی قاعدوں یااحکام کو"فرع"قراردیا۔یعنی علم اصول اورعلم فروع۔اصول کے لفظی معنی ہیں جڑیں۔بہرحال چنداہم ابتدائی تصورات ہوتے ہیں۔جن کی اساس پرقاعدےبنائے جاتےہیں۔
یہ چیزغالبابالکل ابتدائی زمانے میں یعنی عہدنبوی میں یاعہدخلافت راشدہ میں نہ رہی ہوگی۔لیکن بعدمیں اس موضوع پرجواولین کتابیں لکھی گئيں وہ مسلمان فقہاء کی ہیں۔گزشتہ صدی تک کسی قوم میں یہ چیزنہیں پائی جاتی تھی۔پھررفتہ رفتہ اس کاچرچایورپ میں بھی ہونے لگا۔مجھےیادہے،چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہواجب میں 1928ء میںیونیورسٹی لاء کالج میں کالب علم تھا،ان دنوں ایک کتاب شائع ہوئی تھی جس کانام ہے"Angorah Regorms"یہ انگریزی زبان مین ایک فرانسیسی پروفیسرکی تالیف تھی۔لندن یونیورسٹی کی صدسالہ سالگرہ کی تقریب میں اسی فرانسیسی پروفیسرکودعوت دی گئی تھی۔اس نے وہاں پرتین لیکچردیئے۔جن میں پہلےلیکچرکاموضوع۔"Angorah Reforms"تھا،اتاترک مصطفی کمال پاشانے ترکی میں پرانی چیزوں کومنسوخ کرکےنئے قوانین نافذکیے۔مثلاسوئٹرزلینڈکے کوڈاوراٹلی کے کوڈوغیرہ وہاں نافذکیے گئے اوراسلامی قوانین ردکردیئے گئے اوردیگرچیزیں جوترکی میں آئی تھیں ترکی ٹوپی کی جگہ ہیٹ(Hat)کااستعمال وغیرہ۔یہ لیکچرانہی چیزوں کے بارے میں تھا۔چونکہ"Angorah Reforms"ایک نئی چیزتھی،اس لیےاس زمانے میں اسکابڑاچرچاتھا۔دوسرے مضمون کاعنوان"Root of Law"یعنی قانون کی جڑیں تھا۔میں اعتراف کرتاہوں کہ پہلی باراس دوسرے مقالے کوپڑھ کرمجھے اپنی میراث کاعلم ہواکہ مسلمانوں نےکیاخاص کارنامہ(Contribution)انجام دیاہے۔چونکہ کاؤنٹ اوسٹروروگ(Ostrorog)نے،جواس کتاب کامؤلف ہے،بیان کیاکہ یہ کسی اورقوم میںنہیں پایاجاتااوریہ
مسلمانوں کی عطاہےاوراس میں ان چیزوں سےبحث ہوتی ہے،یہ اسلامی کارنامہ(Contribution)جودنیاوی علم قانون پرروشنی ڈالتاہےوہ اصول فقہ کہلاتاہے۔اصول فقہ کاکچھ۔ مفہوم بیان کرنے سے پہلے مختصرامیں بعض ان چیزوں کودہراؤں گاجوگزشتہ دنوں اشارتاآپ سے بیان کرچکاہوں۔
اسلامی قانون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کےبعدسے شروع ہوتاہے،جس کی ابتدامیں کچھ۔ پرانے رسم ورواج ،جومکہ میں تھےوہ بھی شامل رہے اوررفتہ رفتہ اس کی ترمیم واصلاح قرآن وحدیث کے ذریعےسے ہوتی رہی۔اس میں بعض اورچیزوں کوبھی گواراکیاجاتارہا،جیسے معاہدات،سابقہ امتوں کے شریعتیں جواسلام نےبرقراررکھیں اوراسی طرح کی بعض اورچیزیں۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اورقانون کاسرچشمہ بندہوگیایعنی وحی کےذریعےسےقانون کابنانے اوربدلنے کی جوصلاحیت ہم میں پائی جاتی تھی وہ ختم ہوگئی توہم مجبورہوگئےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی وفات کےوقت جوچیزیں ہم میں چھوڑی ہیں انہی پراکتفاکریں۔عام حالتوں میں ہمارے لئےیہ بات مشکلات کاباعث بن جاتی،اگراس قانون کی ترقی کی صورت خودقانون سازنے یعنی خدااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ بتائی ہوتی،یہ چیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کے آخری دنوں سے تعلق رکھتی ہے۔یمن کوجب ایک گورنربھیجاگیا،یعنی حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالی عنہ،توان سے حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نےدریافت کیا"فبم تحکم"(کس طرح احکام دیاکروگے؟)جواب دیا۔"بکتاب اللہ"(اللہ کیاکتاب کےمطابق)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا"فان لم تجد"(اگرتم قرآن میں مطلوبہ چیزنہ پاؤتوکیاکروگے؟)توانھوں نےجواب دیا۔"فبسنۃ رسول اللہ"(رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی سنت کےمطابق احکام دیاکروں گا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرمزیدسوال کیا"فان لم تجد"(اگرسنت میں بھی مطلوبہ چیزنہ ملےتوکیاکروگے)توان کےالفاظ تھے"اجتھدبرایی ولاآلو"(میں اپنی رائےکےمطابق اجتہادکروں گااورکوئی دقیقہ نہیں چھوڑوں گا)اس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف پسندفرمایابلکہ دعادی اورآسمان کی طرف ہاتھ۔ اٹھاکریہ کہاکہ"اے اللہ تونےاپنےرسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کےرسول کوجس چیزکی توفیق دی ہےاس سےتیرارسول خوش ہے۔"اس سےبڑھ کراورکوئی تعریف نہیں ہوسکتی۔یہ چیزاسلامی قانون کوزندگی دینے والی،برقراررکھنے والی اورہرضرورت میں کام آنےوالی ہے۔اس کی وجہ سے ایک غیرجانبدارشخص بھی یہ کہہ سکتاہےکہ اسلامی قانون چودہ سوسال سےلےکرآج تک چلاآرہاہےاوراس میں آئندہ بھی چلنے کی قوت باقی ہے۔اگریہ چیزنہ ہوتی،توصرف قرآن اورحدیث پراکتفاکرنے کی صورت میں،ممکن ہے کہ بعض لوگ قرآن کریم کی آیتوں سے حدیثوں سے استنباط کرسکتےاوروہ حیران رہ جاتے کہ ہم کیاکریں واقعۃ یہ صورت بعض وقت پیش آتی ہے کہ ایک چیزسےبعض لوگ سمجھ۔ لیتے ہیں استنباط کرلیتے ہیں اور
بعض دوسرے لوگوں کی نظراس تک پہنچتی اوروہ ششدروحیران رہ جاتے ہیں۔
ایک چھوٹی سی مثال آپ کودوں گاجس کاتعلق امام اعظم(رحمۃ اللہ)سے ہے۔اس سے ان کی ذہانت کاذکرکرنامطلوب نہیں ہے بلکہ صرف مثال دیناہے کہ کس طرح ایک ہی چیزسےبعض لوگ سمجھ۔ جاتے ہیں اوربعض لوگ سمجھ۔ نہیں سکتے۔لطیفے کےطورپرقصہ بیان کیاگیاہے ایک دن ایک خاندان میں میاں بیوی میں کسی بات پرجھگڑاہوگیا۔رات کے وقت پہلے شوہرنےیہ قسم کھائی اوراپنی بیوی سے کہاکہ طلوع آفتات سے قبل اگرتومجھ۔ سے بات نہ کرے گی توتجھے طلاق ہے۔بیوی بھی بہت جلی بھنی تھی،اس نے بھی قسم کھاکرکہاکہ خداکی قسم طلوع آفتاب سے قبل میں تم سے بات نہیں کروں گی۔پھردونوں چپ ہوگئے۔سوئےیانہیں یہ تومعلوم نہیں لیکن دونوں چپ ہوگئے۔اس کےبعداذان ہوئی اورطلوع آفتاب کاوقت آگیا۔شوہرپہلے نمازکوجاتاہےاورپھرابن سیرین نامی مشہورفقیہ کےپاس جاکرساراقصہ سناتاہے۔وہ کہتے ہیں کہ میاں قصورتمہاراہے،طلاق ہوگئی،طلاق ہوگئی،کیوں کہ تم نے کہاتھاکہ بیوی اگرطلوع آفتاب تک بات نہ کرے توطلاق ہوجائے گی۔اس نے بات نہیں کی۔میں کچھ۔ نہیں کرسکتا۔وہ روتادھوتاامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کے پاس پہنچا۔وہی قصہ ان کوبھی سنایا۔توامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے کہاکہ کوئی بات نہیں۔تم شوق سے اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔طلاق وغیرہ کوئی نہیں ہوئی۔وہ شخص حیرت زدہ رہ گیااسی عالم میں واپس ابن سیرین کے پاس پہنچتاہےاورکہتاہے کہ تمہارے بعدمیں امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کےپاس گیاتھاوہ کہتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی۔انھیں تعجب ہواکہ یہ کیسے ہوسکتاہے۔چنانچہ اسی شخص کےساتھ۔ امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کےپاس آئے۔کہنے لگے:"ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)اللہ سے ڈرو"تم کیاغضب کررہے ہو۔اس کی عورت کوطلاق ہوچکی ہے۔تم کہتے ہوکہ طلاق نہیں ہوئی۔وہ اس کے ساتھ۔ رہے گاتوزناکاری ہوگی۔تم اس کے ذمہ دارہوگے۔خداکے ہاں کیاجواب دوگے؟امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے کہا:میاں قصہ ذرادوبارہ سناؤ۔"اس نے سنایا۔پہلے میں نے بیوی سے کہاتھاکہ اگرطلوع فجرتک اگربات نہ کرے توطلاق ہے۔بیوی نے اسی وقت جواب دیاکہ خداکی قسم میں تجھ۔ سے طلوع آفتاب تک بات نہیں کروں گی۔توامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے کہامیں اپنی رائے پرقائم ہوں۔طلاق نہیں ہوئی کیونکہ اس شخص نے یہ نہیں کہاکہ عورت کونسی بات کرے۔جب اس نے کہاکہ میں تم سے بات نہیں کروں گی توبات کرناہی ہوا۔ان حالات میں یہ شرط کہ عورت بات نہ کرے توطلاق ہوگی،پیش ہی نہیں آئی آپ نے دیکھاکہ کس طرح ایک ہی واقعہ سےایک شخص کچھ۔ سمجھ۔ لیتاہےاوردوسرےشخص کی نظراس نکتے تک نہیں پہنچتی۔
غرض اسلامی قانون کی ترقی کے متعلق اگراجتہادکی اجازت نہ دی جاتی توسب لوگوں کوصرف قرآن وحدیث پراکتفاء کرنی پڑتی اورممکن تھاکہ کسی وقت بڑے سے بڑے عالم اورفقیہ کوکسی نئے مسئلے کے متعلق نہ قرآن مین کوئی حکم ملے اورنہ حدیث میں۔آپ نے پڑھاہوگاکہ ایک بارحضرت عمر(رضی اللہ تعالی عنہ)کے ایک فیصلے پرحضرت علی(رضی اللہ تعالی عنہ)نےکچھ۔ توجہ دلائی توحضرت عمر(رضی اللہ تعالی عنہ)نے بےساختہ کہا"لولاعلی لھلک عمر"۔اس
اجازت کے تحت جومعاذبن جبل رضی اللہ عنہ کودی گئی تھی کہ "اجتہادکرو"اجتہادکااصول ہاتھ۔ آگیا۔اوردشواریاں ختم ہوگئيں۔
خلفائے راشدین کے زمانے میں کبھی کبھی اجتماعی غوروفکربھی ہوتاتھا۔لوگ آپس میں بحث کرتے کہ اس بارے میں کیاکرناچاہیے؟ایک صاحب اگرایک چیزبیان کرتے تودوسرے صاحب اس پراعتراض کرتے،نہیں صاحب!یہ نہیں ہوسکتا۔اس میں فلاں خامی ہے،یوں کرناچاہیے۔اوراس آپس کے بحث مباحثے سے لوگ کسی نتیجے پرپہنچ جاتے۔اس زمانے میں خاص کریہ چیزمفیدثابت ہوئی۔کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ احکام واقوال ابھی تک جمع نہیں ہوئے تھے۔بخاری،مسلم اور صحاح ستہ کی کتابیں ابھی لکھی نہیں گئی تھیں بلکہ لوگوں کے علم اورحافظے میں تھیں۔جب آپس میں مل کرمشورہ کرتے تواس وقت بعض بھولی بسری باتیں یادآجاتیں،کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےایک دن یونہی فرمایاتھا۔اس طرح اسلامی قانون کے متعلق جومعلومات حدیث میں تھیں ان کو جمع کرکے قانونی احکام استنباط کرنے کاآغازہوگیا۔
ان علمی مراکزمیں جہاں نسلہانسل تک فقہ کی تعلیم کاسلسلہ جاری رہا،قانون کی تدوین کےکام میں بڑی ترقی ہوئی۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ ممتازمدرسہ کوفہ کاتھا،جہاں اسلامی قانون کی تعلیم دی جاتی رہی۔شہرکوفہ آج بھی عراق میںموجودہےاوراگرچہ ایک چھوٹاساشہرہےلیکن اس کی تاریخی اہمیت بڑی رہی ہےاس علاقے کوکچھ۔ خصوصیتیںحاصل ہیں۔میں یہ نہیں کہہ سکتاکہ ان خصوصیتوں کے باعث یہ امتیازاسے حاصل ہے یامحض اتفاقی بات ہے ۔وہ خصوصیتیں یہ ہیں کہ جس مقام پرآج شہرکوفہ آبادہے۔پرانے زمانے میں اس کے نواح میں"حیرہ"نامی شہرآبادتھا،جس کے کھنڈرات اب بھی ملتے ہیں۔حیرہ وہ شہرہے جوزمانہ جاہلیت میںتہذیب وتمدن کابڑامرکزسمجھاجاتاتھا۔یہ شہراگرچہ ایرانیوں کےقبضےمیں تھا،وہاں یمنی عرب آکرآبادہوگئے تھے۔جزیرہ نمائے عرب میں یمن کاعلاقہ سب سے زیادہ سرسبزوشاداب تھااورقدیم زمانے میں تہذیب وتمدن کاگہوارہ رہاتھا۔جب وہاں کے لوگ حیرہ میں آبادہوئے توان کی تہذیب نےآس پاس کے لوگوں کواپناگرویدہ بنالیا۔تاریخ کایہ حیرت انگیزواقعہ ہےکہ ایران کےشہنشاہ نےاپنے ولی عہدکوبچپن میں تعلیم وتربیت کےلیےحیرہ بھیجا۔اسےپورااعتمادتھاکہ عرب حکمران کی نگرانی میں تربیت پاکراسکے بیٹے کاکردارسنورجائےگا۔اس کاخیال صحیح ثابت ہوااوربچہ جوبہرام گورکےنام سےمشہوربادشاہ گزراہےاسکاشکرگزاررہا،چنانچہ اس بادشاہ کی جوتصویریں ملتی ہیں ان میں اسےبدوی لباس میں ایک اونٹ پرسواردکھایاگیاہے۔بہرحال حیرہ وہ مقام تھاجہاں پرانے زمانے میں اکی بہت ہی ممتازعربی سلطنت گزرچکی ہےاورعربی یعنی یمنی اورایرانی روایات کاسنگم ہوکرنئی شکل کاتمدن اس مقام پرنظرآتاہے۔یہ اورعلاقوں سےممتازاوربرترتھا۔جب حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں
عراق فتح ہواتوانھوں نےاپنی سیاسی فراست کی بناپرفورافوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔عربوں کوعرب سے بھیجاکہ جاکراس مفتوحہ علاقے کے اندرکسی ایسے مقام پرآبادہوجاؤجوفوجی نقطہ نظرسےاہم ہوتاکہ بوقت ضرورت تمہیں کمک پہنچائی جاسکےاورتم بوقت ضرورت فورافساداورفتنے کےمقام پرجاکردشمن کی سرکوبی کرسکو۔انھوںنے،علاوہ اورشہروں کے،حیرہ کواسلامی چھاؤنی بنانے کے لیے بھی انتخاب کیا۔حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نےاپنی فراست سےیہ بھی معلوم کرلیاکہ پرانے شہرکے اندرمسلمانوں کوبسانامناسب نہیں۔اس مقام کوتوانھوں نے چن لیالیکن شہرکونہ چنانچہ حکم دیاکہ اس شہرکے مضافات میں ایک نیاشہربسالو۔تمہارے علاقے میں اجنبی نہ رہیں اوران کے علاقے میں تم نہ رہو۔یہ خالص اسلامی شہرہو۔اس میں بھی حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نےجونوآبادکاربھیجے وہ بیشتریمن کے تھے۔یمن ہی سے دوبارہ مہاجرین کاایک سیلاب آتاہے اوراسی پرانے مقام پربستاہے۔لیکن صرف یمنی ہی نہیں،ان میں غالبااٹھاون ایسے صحابہ بھی تھےجوجنگ بدرمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ شریک رہے۔الغرض اسلامی روایات کےحامل لوگوں کی ایک جماعت تھی جوشہرکوفہ میں آبادہوئی اوراسطرح پرانی روایات میں ایک نئی تہذیب کااضافہ ہوتاہے۔جب اس مقام پرکئی ہزارکی اسلامی آبادی ہوگئی توظاہرہےکہ مسلمانوں کواسلامی تعلیم کی ضرورت ہوئی۔حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے وہاں کی جامع مسجدمیں،جواس وقت گورنرکےمکان کاجزوتھی،ایک بڑےعالم صحابی کوبھیجا۔یہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ تھے۔جن کےتقررنامےمیں حضرت عمررضی اللہ تعالی نےیہ لکھاکہ"اےاہل کوفہ میں اپنے آپ پرتم کوترجیح دیتاہوں اورایثارکرکےمیں اس شخص کوتمہارے پاس بھیجتاہوں جس کی مجھےضرورت ہے۔یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت ہی محترم صحابی عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ہیں جوبطورمعلم کےتمہارے پاس آتےہیں۔ان سے استفادہ کرنے میں غفلت نہ کرنا۔حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق جیسامیں نےبیان کیا،وہ فطرتاقانون کی طرف مائل تھے۔وہ وہاں مقیم رہے اوراپنے شاگردوں کوزیادہ ترفقہ کی تعلیم دیتےرہے۔ان میں قانونی نکتہ آفرینی اوراستدلال کاخاص ملکہ تھا۔ان کی وفات کےبعدان کے ایک شاگردعلقمۃ التحعی،پھرانکے شاگردابراہیم نخعی،پھرانکے بعدان کےشاگردحمادبن ابی سلیمان جوایرانی تھے،پھران کے بعدامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)جوایرانی تھے،وہ اس سلسلے میں چوتھی نسل میں وہاں کارفرماہوئےہیں۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 80ھ۔۔ میں ہوئی اوروفات 150ھ۔۔ میں ۔ عباسی خلافت 132ھ۔۔ میں شروع ہوئی۔گویابنی امیہ کاآخری دوراوربنی عباس کاابتدائی دوران کے سامنے گزرا۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کادوبارہ ذکراس لیے آیاہےکہ ان کی تالیفات میں ایک تالیف"کتاب الرائی"کے نام سے ہے۔جیساکہ آپکومعلوم ہےکہ اگرقرآن وحدیث میں صراحتاحکم موجودنظرنہ آئےتواجتہادکرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔اجتہادرائے کے ذریعے سے ہوتاہے۔کیونکہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کے الفاظ یہ تھے"اجتھدبرائی"(اپنی رائے سے اجتہادکروں گا)توامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب لکھ۔ ڈالی۔"کتاب الرائی"یعنی آدمی رائےکس طرح سے قائم کرے۔مسائل میں رائےکااستعمال کس طرح ہوتاہے۔بدقسمی سے یہ کتاب ہم تک نہیں پہنچی۔غالباجب بغدادپرہلاکوخاں کاحملہ ہوااوروہاں کی لاکھوں کتابیں دریاے دجلہ میں پھینک کرتباہ کردی گئيں توممکن ہے اس کتاب کے نسخےبھی اس ضائع شدہ ذخیرے میں رہے ہوں اورضائع ہوگئے ہوں۔مجھ۔ اس سے کوئی بحث نہیں ہے کہ اس کے مندرجات کیاتھے،صرف یہ کہناچاہتاہوں کہ یہ قدیم ترین کتاب ہےجسکی طرف ہمارے مؤلف اشارہ کرتے ہیں اورجواصول فقہ کےموضوع کی گویااولین کتاب ہے۔
اصول فقہ غالبااپنے موجودہ مفہوم میں پورے کاپورااس میں نہیں ہوگا۔لیکن رائےسےاستفادہ کرکے قانون کوبدلنا،قانون کامفہوم معلوم کرنا،اس کی تاویل کرناغالبااس میں بیان کیے گئے ہوں کے۔یہ اولین کتاب ہے جس کاذکرملتاہے۔ممکن ہے کہ اس موضوع پرپہلے بھی تحریرااورعملاکام کیاگیاہویعنی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےاستادوں نے بھی رائےسےکام لےکرفتوے دیےہوں اورسوالوں کاجواب دیاہو۔لیکن یہ انھوں نے اس اس پرکوئی کتاب لکھی تھی،اب تک ہمیں اس کاپتہ نہیں چلا۔اس لیے فی الحال ہم فرض کریں گے اس موضوع پرپہلی کتاب امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کی"کتاب الرائی"ہے۔امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے قانون کی بہت بڑی خدمت کی ۔اس خدمت میں ایک تو"کتاب الرائی"کالکھناہے،اس کے علاوہ ایک اورچیزکی طرف اشارہ کروں گا۔وہ یہ کہ انھوں نے انٹرنیشنل لاپربھی ایک کتاب لکھی،جس کاانشاء اللہ کل کے لیکچرمیں صراحت سے بیان ہوگا۔انٹرنیشنل لابھی ایک ایساعلم ہےجواسلام سےپہلے عملادنیامیں موجودنہیں تھا۔اس چیزکوعلمی حیثیت سے،ساری دنیاکے لوگوں کےاستعمال میں آنے والا،انٹرنیشنل لابنانامسلمانوں کاکام ہے۔اس موضوع پرامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے ایک کتاب لکھی،جسے"کتاب السیر"کانام دیاجاتاہے۔اورایک چیزجس کامجھے ذکرکرناہےوہ یہ کہ انھوں نےعلم کاذوق بھی اپنے شاگردوں میں پیداکیا۔اس ذوق کامطلب یہ نہیں کہ مولوی نےجوبتایااسے طوطا میناکی حفظ کریں اورحسب ضرورت دھرالیاکریں۔یہ امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کاتصورتعلیم نہیں تھا۔وہ اپنے شاگردوں میں اجتہاد،فکراورآزادی رائے کی صلاحیت راسخ کردیتےتھے۔چنانچہ ہرمسئلے پرانکے شاگردآزادنہ اپنی رائےکااظہارکرتے تھےاوربحث وتمحیص کےبعدمعقول دلائل کی بنیادپرردوقبول ہوتا۔استادیاشاگردہٹ دھری نہیں کرتے تھے۔اس کے باوجودکہاجاسکتاہےکہ فقہ حنفی میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائےپرشایدپندرہ فیصداحکام میں عمل کیاجاتاہواورباقی پچاسی فیصدمسئلوں پرصاحبین کی رائے،یعنی اگرامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدشیبائی رحمۃ اللہ علیہ متفق ہوں توان کی رائے پرفتوی دیاجاتاہے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائےپرنہیں دیاجاتا۔یہ سب اس تربیت کانتیجہ ہےجوامام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے شاگردوں کودیتے رہے کہ اندھی تقلیدنہ کرنا۔خودسوچنا،آزادی رائے رکھنااورحق کے سوا
کسی اورچیزکوقبول نہ کرنا۔ابن خلکان نےلکھاہےکہ امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نےایک کتاب لکھی تھی،جس کانام "کتاب الاصول"تھاتصورکیاجاتاہےیہ اصول فقہ کےمتعلق تھی یاغالبا"کتاب الرائی"کیا شرح ہوگی۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "کتاب الرائي"لکھنےکےبعداس کادرس بھی دیاہوگا۔درس کےدوران میں شرح ہوئی ہوگی اوراعتراضات بھی ہوں گے۔اس مباحثےکےنتیجےکےطورپرامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے"کتاب الاصول"لکھ۔ ڈالی۔افسوس ہے کہ یہ کتاب بھی ہم تک نہیں پہنچ سکی۔دوسرے شاگردوں میں ممتازشاگردامام محمدشیبانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ایک حالیہ شائع شدہ کتاب سےمعلوم ہوتاہے کہ انھوں نے بھی اس موضوع پرایک کتاب لکھی تھی۔اب مطبوعہ کتاب میں امام محمدشیبانی رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب الاصول"کے کچھ۔ حوالے بھی آگئےہیں۔یہ مطبوعہ کتاب ایک معتزلی مذہب کے امام ابوالحسین البصری کی تالیف(المعتمدفی اصول الفقہ)ہے۔معتزلی فرقےکی کتابیں بہت کم ملتی ہیں۔اتفاق سے المعتمدکےچارپانچ مخطوطےملتے ہیں۔دواستنبول میں ہیں۔یمن کے ایک نسخےکےفوٹومصرمیں ہیں۔دوسرامخطوطہ میرے پاس ہے جوشہربیت الفقیہ (یمن)کےقاضی صاحب نے ازراہ نوازش مجھےبطورتحفہ دیاتھا۔ایک نامکمل نسخہ میلانو(اٹلی)میں بھی ہے۔ان سب نسخوں کی مددسے اس کتاب کوشائع کیاگیاہے۔جومعتزلی اصول فقہ کی ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔لیکن مجھے اس کتاب سے زیادہ اس کے ایک جملے پرآپ کی توجہ منعطف کرانی ہے۔امام محمدالشیبانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ"اصول فقہ چارچیزیں ہیں۔قرآن،حدیث،اجماع اورقیاس"یہ گویاان کی کتاب کاخلاصہ تھا۔جس کی طرف ابوالحسین البصری کی کتاب میں اشارہ ملتاہے۔اس بناء پرمیں کہہ سکتاہوں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک ہی نہیں،متعددشاگردوں نے"کتاب الرائی"کی شرح کے طورپراصول فقہ کی کتابیں لکھ۔ ڈالیں۔اس رائے کے قائم کرنے کی ایک اوروجہ بھی ہے۔ابھی تھوڑی دیرپہلے میں نے آپ سے بیان کیاکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف "کتاب السیر"منسوب ہے،یعنی انٹرنیشنل لاپرانھوں نے ایک کتاب لکھی تھی۔اگرچہ سوائے چنداقتباسات کے وہ کتاب ہم تک نہیں پہنچی لیکن اسی نام کی کتابیں ان کے کم سے کم تین یاچارشاگردوں نےلکھی ہیں۔ابراہیم الفزاری ایک شاگردتھےان کی "کتاب السیر"مخطوطے کی صورت میں موجودہے۔محمدشیبانی نے"کتاب السیرالصغیر"اورکتاب السیرالکبیر"کےنام سے دوکتابیں لکھیں۔یہ دونوں ہم تک پہنچ چکی ہیں۔اس طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک اورشاگردزفرنےبھی ایک کتاب لکھی جس کانام"کتاب السیر"تھا۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے معاصرین میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اورامام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نےبھی ایک کتاب لکھی جس کانام"کتاب السیر"کےنام سے ایک ایک کتاب لکھی۔ایک اورمعاصر،واقدی نےجومشہورمؤرخ تھے،انٹرنیشنل لاکےموضوع پراسی نام کی ایک کتاب تصنیف کی تھی۔جس طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب السیر"سےمتاثرہوکراورانٹرنیشنل لاپران کے لیکچروں کی اساس پر،ان کے کئی شاگردوں نے"کتاب السیر"کےنام سے کتابیں تصنیف کیں۔اسی طرح شاید"کتاب الرائی" کی
تدریس کے سلسلے میں بھی وہی صورت پیش آئی اوران کے بعض شاگردوں نے اس موضوع پربھی کتابیں لکھیں،ممکن ہے کہ اس کواصول کانام بھی خودامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے دیاہو،"کتاب الرائی"کی تدریس کے سلسلےمیں اس امرکاذکرکرنے کے بعدیہ بتاناہےکہ کتاب الاصول یعنی علم الاصول کی جوکتابیں مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں ان میں سے ابتدائی تین کتابیں یعنی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب الرائی"اورامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ،امام محمدشیبانی رحمۃ اللہ کی "کتاب الاصول"ہم تک نہیں پہنچیں۔جوکتاب ہم تک پہنچی وہ امام محمدشیبانی رحمۃ اللہ علیہ کےایک شاگردامام شافعی رحمۃ اللہ کی ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بیک وقت کئی سلسلوں اورروایتوں (Traditions)سےمنسلک تھے۔وہ ایک سوپچاس ہجری میں پیداہوئے۔اسی سال امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کاانتقال ہوگیا۔براہ راست وہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ نہیں کرسکے،لیکن سالہاسال تک ان کے ممتازشاگردامام محمدشیبانی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردرہے۔اسی طرح مدینہ منورہ جاکرامام مالک رحمۃ اللہ علیہ سےبھی سالہاسال تک درس لیتے رہے۔انھوں نے فلسفہ ومنطق کی بھی تعلیم پائی اورعلم الکلام کی بھی۔اس زمانے میں معتزلہ فرقے کابہت بول بالاتھا۔ان سے مباحثےبھی کرتے رہے۔اس لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات کئی ایسی چیزیں جمع ہوگئیں جن کے باعث وہ اسلام کی بہت اہم خدمات انجام دے سکے،جن میں سے ایک حسب ذیل ہے۔مسلمانوں میں جیساکہ آج ہے،پرانے زمانے میں بھی کچھ۔ لوگ قدامت پسندتھےاورکچھ۔ جدت پسند۔ان دومتضادرحجانات کےلوگ ہرمعاشرے اورہرقوم میں پائے جاتے ہیں۔بہرحال اس زمانےمیں اگربعض لوگ حدیث کی تعلیم پانے اورجمع کرنے کےکام میں مشغول تھےتوکچھ۔ لوگ دوسرے علوم سےدلچسپی رکھتے تھے۔نتیجہ یہ ہواکہ بعض فقہاء جنھیں قانون کے علم سے دلچسپی تھی،منطق اورفلسفےکی مددسےاسلامی قانون کوترقی دینے میں مشغول تھے۔ان کی توجہ حدیث کی طرف سے ہٹ گئی۔نتیجہ یہ ہواکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں اہل حدیث اوراہل رائےمیں ایک شدیدکشمکش پیداہوگئی۔اہل حدیث سے مرادوہ لوگ ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےفرمودہ احکام واقوال کوجمع کرنے اورمطالعہ کرنے میںمشغول تھےاوراہل رائےسے مرادوہ فقہاءتھےجواسلامی قانون کوجمع کرنے اورقیاس اوراستنباط کی مددسےاس کوترقی دینے میں مشغول تھے۔دونوں میں کشمکش اس بناء پربھی کہ اہل الرائےکوحدیث سے کم واقفیت تھی اوروہ اس بات کوفرض کرلیتےتھےکہ حدیث میں یہ چیزنہیں پائی جاتی۔اس سکوت کےباعث وہ قیاس کرکے نئے احکام دیاکرتے۔بعض اوقات ایساہوتاکہ اس مسئلےمتعلق حدیث میں ذکرموجودہوتالہذااہل حدیث کہتے یہ لوگ توکافرہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہوتے ہوئے اسے نظراندازکرتےہیں۔حالانکہ وہ عمداایسانہیں کرتےتھے۔انھیں واقفیت نہ ہوتی تھی۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے اہل حدیث (محدثوں)سےبھی تعلیم پائی اوراہل الرائے فقہاسے بھی۔انھیں فلسفہ وکلام پربھی دسترس حاصل تھی۔ان کی ذات میں ایسااچھااسلام عالم پیداہوگیاجوگویاایک نقطہ اتصال پیداکرنے اورربط پیداکرنے کا