خطبات بہاولپور - صفحہ نمبر104تا128

جاویداقبال

محفلین
تاریخ اصول فقہ واجتہاد
محترم وائس چانسلرصاحب!محترم اساتذہ!محترم مہمانان گرامی!
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ!
آج کاموضوع فقہ کے متعلق ہے ۔اس میں شک نہیں کہ یہ مقابلتاایک ٹیکنیکل مضمون ہونے کی وجہ سے کم دلچسپ ہوگا۔لیکن جیساکہ آپ ابھی ملاحظہ فرمائیں گےیہ موضوع ہے جس پر مسلمان بجاطوپرفخرکرسکتے ہیں۔دنیاکی تاریخ قانون میں مختلف قوموں نے اپنی طرف سے کچھ۔ نہ کچھ۔ اضافہ کیاہے۔مسلمانوں کاسب سے بڑاکارنامہ غالبااصول فقہ ہے۔مسلمانوں سے پہلے بھی دنیامیں قانون موجودتھالیکن اصول فقہ جیسی چیزدنیامیں کہیں نہیں ملتی اورآج بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک امتیازی اضافہ ہے،جس کی بدولت علم قانون کی ایک بڑی کمی پوری ہوگئی ہے۔آپ سب واقف ہیں کہ قانون دنیاکی ہرقوم میں ملتاہے۔یہ قانون دوقسم کے رہے ہیں۔انتہائی تاریک زمانوں سے لیکرآج تک اول توبن لکھاقانون ہمیں ہرجگہ ملتاہےیعنی رسم ورواج،جوہرایک ملک میں پایاجاتاہے،جس کامؤلف یاقانون سازہمیں معلوم نہیں ہوتالیکن اس پرسب لوگ عمل کرتے ہیں۔دوسراقانون وہ ہوتاہے جوکسی بادشاہ یاکسی حکمران کی طرف سے مدون کرکے نافذکیاجاتاہے اوربالعموم تحریری صورت میں ہمیں ملتاہے۔بہرحال انسان اپنی فطرت کے بنیادی تقاضوں کے پیش نظراپنی خواہش سے اپنے لیے کوئی قانون بناکراس پرعمل کرتاہے۔لہذاقانون ہرانسانی معاشرے کی بنیادی خصوصیت ہے۔
جہاں تک تحریری قانون کاتعلق ہے،غالباقدیم ترین قانون جوہم تک پہنچاہےوہ حمورابی بادشاہ کاہے۔یہ عراق کابادشاہ تھااورجدیدترین مغربی تحقیقات کے مطابق یہ وہی شخص ہےجسے ابراہیم علیہ السلام کانمرودکہاجاتاہے۔اس رائے کی وجہ یہ ہےکہ ان دونوں کازمانہ ایک ہے (اٹھارہ سوپچاس برس قبل مسیح)اورملک بھی ایک ہی ہے۔حمورابی کاقانون ہم تک تحریری صورت میں پہنچاہے۔ایران میں سوس نامی مقام پرکچھ۔ عرصہ قبل کھدائیوں میں ایک سیاہ رنگ کاپتھرملاجس پردوآدمیوں کی سی شکلیں ہیں۔جن میں سے ایک خداہے اوردوسرا حکمران حمورابی،جوخداسے احکام حاصل کررہاہے۔یہ پتھرستون کی شکل میں ہے جس پرقانون مخي رسم الخط میں کندہ کیاگياہے۔اسے مغربی ماہرین نے اب پڑھ۔ لیا ہے۔



















اوراس کے ترجمےبھی دنیاکی اثربڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔یہ قدیم ترین تحریری قانون ہونے کی وجہ سے قابل ذکرہے۔لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ وہ بہترین قانون بھی ہے۔ایک مثال میں آپ کودیتاہوں۔ اس قانون کی دفعات ومندرجات میں سے ایک قانون یہ ہے،جسےسب لوگ قبول کریں گےکہ قصاص لیناچاہیے۔مثلامیں کسی کوقتل کروں توسزائے موت دی جائے۔اس بنیادی اصول کوحمورابی بادشاہ کے مشیروں نےترقی دے کرمضحکہ خیزحدتک پہنچادیاہے۔چنانچہ اس میں لکھاہے کہ اگرکوئی شخص کسی دوسرے شخص کی گائے کوقتل کردے تواس قاتل کی گائے کوقتل کیاجائے۔ممکن ہے آپ اسے قبول کرلیں۔میں یہ کہوں گاکہ بجائےاس کے کہ گائے کوقتل کرکے ضائع کریں کیوں نہ اس محروم شدہ شخص کوصلہ دیاجائےجس کی گائے مارڈالی گئی۔خیرہم کہہ سکتے ہیں کہ گائےکے بدلے گائے۔اس کےبعدلکھاہے کہ اگرکوئی شخص کسی کی بیٹی کوقتل کرے توقاتل کی بیٹی کوقتل کیاجائے۔بھلااس بیچاری کاکیاقصورتھا۔یہ ہمیں معلوم نہیں ہوتاکہ بجائے اس کے کہ اس کے قاتل کوسزادی جائے قاتل کی بیٹی کوکیوں سزادی گئی۔یہ ادلے کابدلہ(Tittat for)اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ قصاص کے اس اصول کوحمورابی کےہاں بےسمجھی سےگویاانتہاتک پہنچادیاگیا۔انصاف کےاس اصول کوآج ہماری عقل سلیم قبول کرنے کے لیے تیارنہیں ہوتی لیکن اب سے چارہزارسال پہلے کےلوگ سمجھتے تھےکہ یہی انصاف ہےاوریہی اچھاقانون ہے خداکی طرف سے ہمیں ملاہے۔اس کے علاوہ اوربھی قوانین ہم کوملتے ہیں۔مثلامصرمیں ہیروغلیفی(Hieroglyphic)کےجوکتبےہمیں ملےہیں۔ان میں بھی قوانین ہیں۔رومی قانون بھی ملتاہے۔یونانی قانون بھی ملتاہے۔چینی اورہندوستانی قوانین بھی ملتے ہیں۔امریکہ کےپرانے باشندوں ریڈانڈین(Red Indian)کے ہاں بھی قوانین ملتے ہیں۔غرض دنیاکےہرملک میں قانون ملتاہے۔لیکن یہ قانون،علم قانون ہےبلکہ اسے ایک مجموعہ احکام کہاجاسکتاہے۔یعنی یہ کرواوروہ نہ کرو۔علم قانون یااصول قانون کی کمی ہرجگہ نظرآتی ہے۔یعنی یہ بحث کہ قانون کیاچیزہے،یہ بحث کہ قانون کس طرح بنتاہے،کس طرح بدلاجاتاہے،کس طرح سمجھاجاتاہے۔اسی طرح قانون کے دواحکام میں اگرتضادنظرآئےتوکس قاعدےپرعمل کیاجائےاورکس قاعدےپرعمل نہ کیاجائے؟غرض یہ کہ قانون اپنے مجردتصورمیں کسی قوم میں موجودنہیںتھا۔جب تک اسلام کادورنہیں آگیااورتاریخ اسلام کی ابتدائي دوصدیوں کےفقہاء نےاس میں اپنااضافہContributionپیش نہیں کرلیا۔جیساکہ آپ سے میں نےعرض کیاکہ مسلمان اس بات پرفخرکرسکتےہیں،اس معنی میں کہ قوانین تودنیاکےہرملک میں موجودتھےلیکن علم القانون اپنے مجردتصورمیں کسی قوم نے پیش نہیں کیاتھا۔یہ اصول فقہ وہ علم ہےجسکااطلاق صرف اسلامی قانون پرہی نہیں بلکہ دنیاکےکسی بھی قانون پرہم کرسکتے ہیں۔اصول فقہ کےجن مسائل کاابھی میں نے ذکرکیاکہ قانون کیاہے؟کس طرح بنتاہے؟وغیرہ یہ سوالات میں مسلمان سے بھی کرسکتاہوں،رومی اوریونانی سےبھی اورہندوسےبھی کرسکتاہوں،کہ تمہارے ذہن میں قانون کاکیامطلب ہے؟قانون کیسے بنتاہے؟اورکون بناتاہے؟کب بنتاہے؟اوراس میں تبدیلی کس طرح ہوسکتی ہے؟اسے منسوخ کسطرح کیاجاتاہے؟اس میں اضافہ کس طرح کیاجاتاہے؟قانون کس اساس پربنایاجاتاہے؟یہ سوالات کسی بھی نظام قانون سے کیے جاسکتے ہیں۔اس کے جوابات چاہےمختلف ہوں۔لیکن یہ علم جوان مجردتصورات کےمتعلق ہے،اس کوپہلی مرتبہ مسلمان پیش کرتےہیں اوراس کواصول فقہ کانام دیتے ہیں۔مجھےمعلوم نہین کہ یہ نام کیوں دیاگیا۔ایک رائےمیں پیش کرتاہے،میرے رائےقرآن مجیدکی اس مشہورآیت سےماخوذہے،جس سے آپ سب واقف ہیں:(مثل کلمۃ طیبہ کشجرۃ طیبۃ اصلھاثابت وفرعھافی السماء)(24:14)(اچھی بات کی مثال ایک اچھےدرخت کی طرح ہوتی ہے جس کی جڑیں توزمین میں ثبت ہوتی ہیں لیکن اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی جاتی ہیں)یہاں دوخاص لفظ استعمال کیے گئےہیں جڑاورشاخیں۔چنانچہ ہمارے فقہانےاصول فقہ کوجڑقراردیااورقانونی قاعدوں یااحکام کو"فرع"قراردیا۔یعنی علم اصول اورعلم فروع۔اصول کے لفظی معنی ہیں جڑیں۔بہرحال چنداہم ابتدائی تصورات ہوتے ہیں۔جن کی اساس پرقاعدےبنائے جاتےہیں۔
یہ چیزغالبابالکل ابتدائی زمانے میں یعنی عہدنبوی میں یاعہدخلافت راشدہ میں نہ رہی ہوگی۔لیکن بعدمیں اس موضوع پرجواولین کتابیں لکھی گئيں وہ مسلمان فقہاء کی ہیں۔گزشتہ صدی تک کسی قوم میں یہ چیزنہیں پائی جاتی تھی۔پھررفتہ رفتہ اس کاچرچایورپ میں بھی ہونے لگا۔مجھےیادہے،چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہواجب میں 1928ء میںیونیورسٹی لاء کالج میں کالب علم تھا،ان دنوں ایک کتاب شا‏ئع ہوئی تھی جس کانام ہے"Angorah Regorms"یہ انگریزی زبان مین ایک فرانسیسی پروفیسرکی تالیف تھی۔لندن یونیورسٹی کی صدسالہ سالگرہ کی تقریب میں اسی فرانسیسی پروفیسرکودعوت دی گئی تھی۔اس نے وہاں پرتین لیکچردیئے۔جن میں پہلےلیکچرکاموضوع۔"Angorah Reforms"تھا،اتاترک مصطفی کمال پاشانے ترکی میں پرانی چیزوں کومنسوخ کرکےنئے قوانین نافذکیے۔مثلاسوئٹرزلینڈکے کوڈاوراٹلی کے کوڈوغیرہ وہاں نافذکیے گئے اوراسلامی قوانین ردکردیئے گئے اوردیگرچیزیں جوترکی میں آئی تھیں ترکی ٹوپی کی جگہ ہیٹ(Hat)کااستعمال وغیرہ۔یہ لیکچرانہی چیزوں کے بارے میں تھا۔چونکہ"Angorah Reforms"ایک نئی چیزتھی،اس لیےاس زمانے میں اسکابڑاچرچاتھا۔دوسرے مضمون کاعنوان"Root of Law"یعنی قانون کی جڑیں تھا۔میں اعتراف کرتاہوں کہ پہلی باراس دوسرے مقالے کوپڑھ کرمجھے اپنی میراث کاعلم ہواکہ مسلمانوں نےکیاخاص کارنامہ(Contribution)انجام دیاہے۔چونکہ کاؤنٹ اوسٹروروگ(Ostrorog)نے،جواس کتاب کامؤلف ہے،بیان کیاکہ یہ کسی اورقوم میںنہیں پایاجاتااوریہ




























مسلمانوں کی عطاہےاوراس میں ان چیزوں سےبحث ہوتی ہے،یہ اسلامی کارنامہ(Contribution)جودنیاوی علم قانون پرروشنی ڈالتاہےوہ اصول فقہ کہلاتاہے۔اصول فقہ کاکچھ۔ مفہوم بیان کرنے سے پہلے مختصرامیں بعض ان چیزوں کودہراؤں گاجوگزشتہ دنوں اشارتاآپ سے بیان کرچکاہوں۔
اسلامی قانون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کےبعدسے شروع ہوتاہے،جس کی ابتدامیں کچھ۔ پرانے رسم ورواج ،جومکہ میں تھےوہ بھی شامل رہے اوررفتہ رفتہ اس کی ترمیم واصلاح قرآن وحدیث کے ذریعےسے ہوتی رہی۔اس میں بعض اورچیزوں کوبھی گواراکیاجاتارہا،جیسے معاہدات،سابقہ امتوں کے شریعتیں جواسلام نےبرقراررکھیں اوراسی طرح کی بعض اورچیزیں۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اورقانون کاسرچشمہ بندہوگیایعنی وحی کےذریعےسےقانون کابنانے اوربدلنے کی جوصلاحیت ہم میں پائی جاتی تھی وہ ختم ہوگئی توہم مجبورہوگئےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی وفات کےوقت جوچیزیں ہم میں چھوڑی ہیں انہی پراکتفاکریں۔عام حالتوں میں ہمارے لئےیہ بات مشکلات کاباعث بن جاتی،اگراس قانون کی ترقی کی صورت خودقانون سازنے یعنی خدااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ بتائی ہوتی،یہ چیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کے آخری دنوں سے تعلق رکھتی ہے۔یمن کوجب ایک گورنربھیجاگیا،یعنی حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالی عنہ،توان سے حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نےدریافت کیا"فبم تحکم"(کس طرح احکام دیاکروگے؟)جواب دیا۔"بکتاب اللہ"(اللہ کیاکتاب کےمطابق)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا"فان لم تجد"(اگرتم قرآن میں مطلوبہ چیزنہ پاؤتوکیاکروگے؟)توانھوں نےجواب دیا۔"فبسنۃ رسول اللہ"(رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی سنت کےمطابق احکام دیاکروں گا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرمزیدسوال کیا"فان لم تجد"(اگرسنت میں بھی مطلوبہ چیزنہ ملےتوکیاکروگے)توان کےالفاظ تھے"اجتھدبرایی ولاآلو"(میں اپنی رائےکےمطابق اجتہادکروں گااورکوئی دقیقہ نہیں چھوڑوں گا)اس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف پسندفرمایابلکہ دعادی اورآسمان کی طرف ہاتھ۔ اٹھاکریہ کہاکہ"اے اللہ تونےاپنےرسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کےرسول کوجس چیزکی توفیق دی ہےاس سےتیرارسول خوش ہے۔"اس سےبڑھ کراورکوئی تعریف نہیں ہوسکتی۔یہ چیزاسلامی قانون کوزندگی دینے والی،برقراررکھنے والی اورہرضرورت میں کام آنےوالی ہے۔اس کی وجہ سے ایک غیرجانبدارشخص بھی یہ کہہ سکتاہےکہ اسلامی قانون چودہ سوسال سےلےکرآج تک چلاآرہاہےاوراس میں آئندہ بھی چلنے کی قوت باقی ہے۔اگریہ چیزنہ ہوتی،توصرف قرآن اورحدیث پراکتفاکرنے کی صورت میں،ممکن ہے کہ بعض لوگ قرآن کریم کی آیتوں سے حدیثوں سے استنباط کرسکتےاوروہ حیران رہ جاتے کہ ہم کیاکریں واقعۃ یہ صورت بعض وقت پیش آتی ہے کہ ایک چیزسےبعض لوگ سمجھ۔ لیتے ہیں استنباط کرلیتے ہیں اور














بعض دوسرے لوگوں کی نظراس تک پہنچتی اوروہ ششدروحیران رہ جاتے ہیں۔
ایک چھوٹی سی مثال آپ کودوں گاجس کاتعلق امام اعظم(رحمۃ اللہ)سے ہے۔اس سے ان کی ذہانت کاذکرکرنامطلوب نہیں ہے بلکہ صرف مثال دیناہے کہ کس طرح ایک ہی چیزسےبعض لوگ سمجھ۔ جاتے ہیں اوربعض لوگ سمجھ۔ نہیں سکتے۔لطیفے کےطورپرقصہ بیان کیاگیاہے ایک دن ایک خاندان میں میاں بیوی میں کسی بات پرجھگڑاہوگیا۔رات کے وقت پہلے شوہرنےیہ قسم کھائی اوراپنی بیوی سے کہاکہ طلوع آفتات سے قبل اگرتومجھ۔ سے بات نہ کرے گی توتجھے طلاق ہے۔بیوی بھی بہت جلی بھنی تھی،اس نے بھی قسم کھاکرکہاکہ خداکی قسم طلوع آفتاب سے قبل میں تم سے بات نہیں کروں گی۔پھردونوں چپ ہوگئے۔سوئےیانہیں یہ تومعلوم نہیں لیکن دونوں چپ ہوگئے۔اس کےبعداذان ہوئی اورطلوع آفتاب کاوقت آگیا۔شوہرپہلے نمازکوجاتاہےاورپھرابن سیرین نامی مشہورفقیہ کےپاس جاکرساراقصہ سناتاہے۔وہ کہتے ہیں کہ میاں قصورتمہاراہے،طلاق ہوگئی،طلاق ہوگئی،کیوں کہ تم نے کہاتھاکہ بیوی اگرطلوع آفتاب تک بات نہ کرے توطلاق ہوجائے گی۔اس نے بات نہیں کی۔میں کچھ۔ نہیں کرسکتا۔وہ روتادھوتاامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کے پاس پہنچا۔وہی قصہ ان کوبھی سنایا۔توامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے کہاکہ کوئی بات نہیں۔تم شوق سے اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔طلاق وغیرہ کوئی نہیں ہوئی۔وہ شخص حیرت زدہ رہ گیااسی عالم میں واپس ابن سیرین کے پاس پہنچتاہےاورکہتاہے کہ تمہارے بعدمیں امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کےپاس گیاتھاوہ کہتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی۔انھیں تعجب ہواکہ یہ کیسے ہوسکتاہے۔چنانچہ اسی شخص کےساتھ۔ امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کےپاس آئے۔کہنے لگے:"ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)اللہ سے ڈرو"تم کیاغضب کررہے ہو۔اس کی عورت کوطلاق ہوچکی ہے۔تم کہتے ہوکہ طلاق نہیں ہوئی۔وہ اس کے ساتھ۔ رہے گاتوزناکاری ہوگی۔تم اس کے ذمہ دارہوگے۔خداکے ہاں کیاجواب دوگے؟امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے کہا:میاں قصہ ذرادوبارہ سناؤ۔"اس نے سنایا۔پہلے میں نے بیوی سے کہاتھاکہ اگرطلوع فجرتک اگربات نہ کرے توطلاق ہے۔بیوی نے اسی وقت جواب دیاکہ خداکی قسم میں تجھ۔ سے طلوع آفتاب تک بات نہیں کروں گی۔توامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے کہامیں اپنی رائے پرقائم ہوں۔طلاق نہیں ہوئی کیونکہ اس شخص نے یہ نہیں کہاکہ عورت کونسی بات کرے۔جب اس نے کہاکہ میں تم سے بات نہیں کروں گی توبات کرناہی ہوا۔ان حالات میں یہ شرط کہ عورت بات نہ کرے توطلاق ہوگی،پیش ہی نہیں آئی آپ نے دیکھاکہ کس طرح ایک ہی واقعہ سےایک شخص کچھ۔ سمجھ۔ لیتاہےاوردوسرےشخص کی نظراس نکتے تک نہیں پہنچتی۔
غرض اسلامی قانون کی ترقی کے متعلق اگراجتہادکی اجازت نہ دی جاتی توسب لوگوں کوصرف قرآن وحدیث پراکتفاء کرنی پڑتی اورممکن تھاکہ کسی وقت بڑے سے بڑے عالم اورفقیہ کوکسی نئے مسئلے کے متعلق نہ قرآن مین کوئی حکم ملے اورنہ حدیث میں۔آپ نے پڑھاہوگاکہ ایک بارحضرت عمر(رضی اللہ تعالی عنہ)کے ایک فیصلے پرحضرت علی(رضی اللہ تعالی عنہ)نےکچھ۔ توجہ دلائی توحضرت عمر(رضی اللہ تعالی عنہ)نے بےساختہ کہا"لولاعلی لھلک عمر"۔اس











اجازت کے تحت جومعاذبن جبل رضی اللہ عنہ کودی گئی تھی کہ "اجتہادکرو"اجتہادکااصول ہاتھ۔ آگیا۔اوردشواریاں ختم ہوگئيں۔
خلفائے راشدین کے زمانے میں کبھی کبھی اجتماعی غوروفکربھی ہوتاتھا۔لوگ آپس میں بحث کرتے کہ اس بارے میں کیاکرناچاہیے؟ایک صاحب اگرایک چیزبیان کرتے تودوسرے صاحب اس پراعتراض کرتے،نہیں صاحب!یہ نہیں ہوسکتا۔اس میں فلاں خامی ہے،یوں کرناچاہیے۔اوراس آپس کے بحث مباحثے سے لوگ کسی نتیجے پرپہنچ جاتے۔اس زمانے میں خاص کریہ چیزمفیدثابت ہوئی۔کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ احکام واقوال ابھی تک جمع نہیں ہوئے تھے۔بخاری،مسلم اور صحاح ستہ کی کتابیں ابھی لکھی نہیں گئی تھیں بلکہ لوگوں کے علم اورحافظے میں تھیں۔جب آپس میں مل کرمشورہ کرتے تواس وقت بعض بھولی بسری باتیں یادآجاتیں،کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےایک دن یونہی فرمایاتھا۔اس طرح اسلامی قانون کے متعلق جومعلومات حدیث میں تھیں ان کو جمع کرکے قانونی احکام استنباط کرنے کاآغازہوگیا۔
ان علمی مراکزمیں جہاں نسلہانسل تک فقہ کی تعلیم کاسلسلہ جاری رہا،قانون کی تدوین کےکام میں بڑی ترقی ہوئی۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ ممتازمدرسہ کوفہ کاتھا،جہاں اسلامی قانون کی تعلیم دی جاتی رہی۔شہرکوفہ آج بھی عراق میںموجودہےاوراگرچہ ایک چھوٹاساشہرہےلیکن اس کی تاریخی اہمیت بڑی رہی ہےاس علاقے کوکچھ۔ خصوصیتیںحاصل ہیں۔میں یہ نہیں کہہ سکتاکہ ان خصوصیتوں کے باعث یہ امتیازاسے حاصل ہے یامحض اتفاقی بات ہے ۔وہ خصوصیتیں یہ ہیں کہ جس مقام پرآج شہرکوفہ آبادہے۔پرانے زمانے میں اس کے نواح میں"حیرہ"نامی شہرآبادتھا،جس کے کھنڈرات اب بھی ملتے ہیں۔حیرہ وہ شہرہے جوزمانہ جاہلیت میںتہذیب وتمدن کابڑامرکزسمجھاجاتاتھا۔یہ شہراگرچہ ایرانیوں کےقبضےمیں تھا،وہاں یمنی عرب آکرآبادہوگئے تھے۔جزیرہ نمائے عرب میں یمن کاعلاقہ سب سے زیادہ سرسبزوشاداب تھااورقدیم زمانے میں تہذیب وتمدن کاگہوارہ رہاتھا۔جب وہاں کے لوگ حیرہ میں آبادہوئے توان کی تہذیب نےآس پاس کے لوگوں کواپناگرویدہ بنالیا۔تاریخ کایہ حیرت انگیزواقعہ ہےکہ ایران کےشہنشاہ نےاپنے ولی عہدکوبچپن میں تعلیم وتربیت کےلیےحیرہ بھیجا۔اسےپورااعتمادتھاکہ عرب حکمران کی نگرانی میں تربیت پاکراسکے بیٹے کاکردارسنورجائےگا۔اس کاخیال صحیح ثابت ہوااوربچہ جوبہرام گورکےنام سےمشہوربادشاہ گزراہےاسکاشکرگزاررہا،چنانچہ اس بادشاہ کی جوتصویریں ملتی ہیں ان میں اسےبدوی لباس میں ایک اونٹ پرسواردکھایاگیاہے۔بہرحال حیرہ وہ مقام تھاجہاں پرانے زمانے میں اکی بہت ہی ممتازعربی سلطنت گزرچکی ہےاورعربی یعنی یمنی اورایرانی روایات کاسنگم ہوکرنئی شکل کاتمدن اس مقام پرنظرآتاہے۔یہ اورعلاقوں سےممتازاوربرترتھا۔جب حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں













عراق فتح ہواتوانھوں نےاپنی سیاسی فراست کی بناپرفورافوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔عربوں کوعرب سے بھیجاکہ جاکراس مفتوحہ علاقے کے اندرکسی ایسے مقام پرآبادہوجاؤجوفوجی نقطہ نظرسےاہم ہوتاکہ بوقت ضرورت تمہیں کمک پہنچائی جاسکےاورتم بوقت ضرورت فورافساداورفتنے کےمقام پرجاکردشمن کی سرکوبی کرسکو۔انھوںنے،علاوہ اورشہروں کے،حیرہ کواسلامی چھاؤنی بنانے کے لیے بھی انتخاب کیا۔حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نےاپنی فراست سےیہ بھی معلوم کرلیاکہ پرانے شہرکے اندرمسلمانوں کوبسانامناسب نہیں۔اس مقام کوتوانھوں نے چن لیالیکن شہرکونہ چنانچہ حکم دیاکہ اس شہرکے مضافات میں ایک نیاشہربسالو۔تمہارے علاقے میں اجنبی نہ رہیں اوران کے علاقے میں تم نہ رہو۔یہ خالص اسلامی شہرہو۔اس میں بھی حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نےجونوآبادکاربھیجے وہ بیشتریمن کے تھے۔یمن ہی سے دوبارہ مہاجرین کاایک سیلاب آتاہے اوراسی پرانے مقام پربستاہے۔لیکن صرف یمنی ہی نہیں،ان میں غالبااٹھاون ایسے صحابہ بھی تھےجوجنگ بدرمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ شریک رہے۔الغرض اسلامی روایات کےحامل لوگوں کی ایک جماعت تھی جوشہرکوفہ میں آبادہوئی اوراسطرح پرانی روایات میں ایک نئی تہذیب کااضافہ ہوتاہے۔جب اس مقام پرکئی ہزارکی اسلامی آبادی ہوگئی توظاہرہےکہ مسلمانوں کواسلامی تعلیم کی ضرورت ہوئی۔حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے وہاں کی جامع مسجدمیں،جواس وقت گورنرکےمکان کاجزوتھی،ایک بڑےعالم صحابی کوبھیجا۔یہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ تھے۔جن کےتقررنامےمیں حضرت عمررضی اللہ تعالی نےیہ لکھاکہ"اےاہل کوفہ میں اپنے آپ پرتم کوترجیح دیتاہوں اورایثارکرکےمیں اس شخص کوتمہارے پاس بھیجتاہوں جس کی مجھےضرورت ہے۔یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت ہی محترم صحابی عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ہیں جوبطورمعلم کےتمہارے پاس آتےہیں۔ان سے استفادہ کرنے میں غفلت نہ کرنا۔حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق جیسامیں نےبیان کیا،وہ فطرتاقانون کی طرف مائل تھے۔وہ وہاں مقیم رہے اوراپنے شاگردوں کوزیادہ ترفقہ کی تعلیم دیتےرہے۔ان میں قانونی نکتہ آفرینی اوراستدلال کاخاص ملکہ تھا۔ان کی وفات کےبعدان کے ایک شاگردعلقمۃ التحعی،پھرانکے شاگردابراہیم نخعی،پھرانکے بعدان کےشاگردحمادبن ابی سلیمان جوایرانی تھے،پھران کے بعدامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)جوایرانی تھے،وہ اس سلسلے میں چوتھی نسل میں وہاں کارفرماہوئےہیں۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 80ھ۔۔ میں ہوئی اوروفات 150ھ۔۔ میں ۔ عباسی خلافت 132ھ۔۔ میں شروع ہوئی۔گویابنی امیہ کاآخری دوراوربنی عباس کاابتدائی دوران کے سامنے گزرا۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کادوبارہ ذکراس لیے آیاہےکہ ان کی تالیفات میں ایک تالیف"کتاب الرائی"کے نام سے ہے۔جیساکہ آپکومعلوم ہےکہ اگرقرآن وحدیث میں صراحتاحکم موجودنظرنہ آئےتواجتہادکرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔اجتہادرائے کے ذریعے سے ہوتاہے۔کیونکہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کے الفاظ یہ تھے"اجتھدبرائی"(اپنی رائے سے اجتہادکروں گا)توامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب لکھ۔ ڈالی۔"کتاب الرائی"یعنی آدمی رائےکس طرح سے قائم کرے۔مسائل میں رائےکااستعمال کس طرح ہوتاہے۔بدقسمی سے یہ کتاب ہم تک نہیں پہنچی۔غالباجب بغدادپرہلاکوخاں کاحملہ ہوااوروہاں کی لاکھوں کتابیں دریاے دجلہ میں پھینک کرتباہ کردی گئيں توممکن ہے اس کتاب کے نسخےبھی اس ضائع شدہ ذخیرے میں رہے ہوں اورضائع ہوگئے ہوں۔مجھ۔ اس سے کوئی بحث نہیں ہے کہ اس کے مندرجات کیاتھے،صرف یہ کہناچاہتاہوں کہ یہ قدیم ترین کتاب ہےجسکی طرف ہمارے مؤلف اشارہ کرتے ہیں اورجواصول فقہ کےموضوع کی گویااولین کتاب ہے۔
اصول فقہ غالبااپنے موجودہ مفہوم میں پورے کاپورااس میں نہیں ہوگا۔لیکن رائےسےاستفادہ کرکے قانون کوبدلنا،قانون کامفہوم معلوم کرنا،اس کی تاویل کرناغالبااس میں بیان کیے گئے ہوں کے۔یہ اولین کتاب ہے جس کاذکرملتاہے۔ممکن ہے کہ اس موضوع پرپہلے بھی تحریرااورعملاکام کیاگیاہویعنی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےاستادوں نے بھی رائےسےکام لےکرفتوے دیےہوں اورسوالوں کاجواب دیاہو۔لیکن یہ انھوں نے اس اس پرکوئی کتاب لکھی تھی،اب تک ہمیں اس کاپتہ نہیں چلا۔اس لیے فی الحال ہم فرض کریں گے اس موضوع پرپہلی کتاب امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کی"کتاب الرائی"ہے۔امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے قانون کی بہت بڑی خدمت کی ۔اس خدمت میں ایک تو"کتاب الرائی"کالکھناہے،اس کے علاوہ ایک اورچیزکی طرف اشارہ کروں گا۔وہ یہ کہ انھوں نے انٹرنیشنل لاپربھی ایک کتاب لکھی،جس کاانشاء اللہ کل کے لیکچرمیں صراحت سے بیان ہوگا۔انٹرنیشنل لابھی ایک ایساعلم ہےجواسلام سےپہلے عملادنیامیں موجودنہیں تھا۔اس چیزکوعلمی حیثیت سے،ساری دنیاکے لوگوں کےاستعمال میں آنے والا،انٹرنیشنل لابنانامسلمانوں کاکام ہے۔اس موضوع پرامام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)نے ایک کتاب لکھی،جسے"کتاب السیر"کانام دیاجاتاہے۔اورایک چیزجس کامجھے ذکرکرناہےوہ یہ کہ انھوں نےعلم کاذوق بھی اپنے شاگردوں میں پیداکیا۔اس ذوق کامطلب یہ نہیں کہ مولوی نےجوبتایااسے طوطا میناکی حفظ کریں اورحسب ضرورت دھرالیاکریں۔یہ امام ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ)کاتصورتعلیم نہیں تھا۔وہ اپنے شاگردوں میں اجتہاد،فکراورآزادی رائے کی صلاحیت راسخ کردیتےتھے۔چنانچہ ہرمسئلے پرانکے شاگردآزادنہ اپنی رائےکااظہارکرتے تھےاوربحث وتمحیص کےبعدمعقول دلائل کی بنیادپرردوقبول ہوتا۔استادیاشاگردہٹ دھری نہیں کرتے تھے۔اس کے باوجودکہاجاسکتاہےکہ فقہ حنفی میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائےپرشایدپندرہ فیصداحکام میں عمل کیاجاتاہواورباقی پچاسی فیصدمسئلوں پرصاحبین کی رائے،یعنی اگرامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدشیبائی رحمۃ اللہ علیہ متفق ہوں توان کی رائے پرفتوی دیاجاتاہے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائےپرنہیں دیاجاتا۔یہ سب اس تربیت کانتیجہ ہےجوامام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے شاگردوں کودیتے رہے کہ اندھی تقلیدنہ کرنا۔خودسوچنا،آزادی رائے رکھنااورحق کے سوا


























کسی اورچیزکوقبول نہ کرنا۔ابن خلکان نےلکھاہےکہ امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نےایک کتاب لکھی تھی،جس کانام "کتاب الاصول"تھاتصورکیاجاتاہےیہ اصول فقہ کےمتعلق تھی یاغالبا"کتاب الرائی"کیا شرح ہوگی۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "کتاب الرائي"لکھنےکےبعداس کادرس بھی دیاہوگا۔درس کےدوران میں شرح ہوئی ہوگی اوراعتراضات بھی ہوں گے۔اس مباحثےکےنتیجےکےطورپرامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے"کتاب الاصول"لکھ۔ ڈالی۔افسوس ہے کہ یہ کتاب بھی ہم تک نہیں پہنچ سکی۔دوسرے شاگردوں میں ممتازشاگردامام محمدشیبانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ایک حالیہ شائع شدہ کتاب سےمعلوم ہوتاہے کہ انھوں نے بھی اس موضوع پرایک کتاب لکھی تھی۔اب مطبوعہ کتاب میں امام محمدشیبانی رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب الاصول"کے کچھ۔ حوالے بھی آگئےہیں۔یہ مطبوعہ کتاب ایک معتزلی مذہب کے امام ابوالحسین البصری کی تالیف(المعتمدفی اصول الفقہ)ہے۔معتزلی فرقےکی کتابیں بہت کم ملتی ہیں۔اتفاق سے المعتمدکےچارپانچ مخطوطےملتے ہیں۔دواستنبول میں ہیں۔یمن کے ایک نسخےکےفوٹومصرمیں ہیں۔دوسرامخطوطہ میرے پاس ہے جوشہربیت الفقیہ (یمن)کےقاضی صاحب نے ازراہ نوازش مجھےبطورتحفہ دیاتھا۔ایک نامکمل نسخہ میلانو(اٹلی)میں بھی ہے۔ان سب نسخوں کی مددسے اس کتاب کوشائع کیاگیاہے۔جومعتزلی اصول فقہ کی ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔لیکن مجھے اس کتاب سے زیادہ اس کے ایک جملے پرآپ کی توجہ منعطف کرانی ہے۔امام محمدالشیبانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ"اصول فقہ چارچیزیں ہیں۔قرآن،حدیث،اجماع اورقیاس"یہ گویاان کی کتاب کاخلاصہ تھا۔جس کی طرف ابوالحسین البصری کی کتاب میں اشارہ ملتاہے۔اس بناء پرمیں کہہ سکتاہوں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک ہی نہیں،متعددشاگردوں نے"کتاب الرائی"کی شرح کے طورپراصول فقہ کی کتابیں لکھ۔ ڈالیں۔اس رائے کے قائم کرنے کی ایک اوروجہ بھی ہے۔ابھی تھوڑی دیرپہلے میں نے آپ سے بیان کیاکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف "کتاب السیر"منسوب ہے،یعنی انٹرنیشنل لاپرانھوں نے ایک کتاب لکھی تھی۔اگرچہ سوائے چنداقتباسات کے وہ کتاب ہم تک نہیں پہنچی لیکن اسی نام کی کتابیں ان کے کم سے کم تین یاچارشاگردوں نےلکھی ہیں۔ابراہیم الفزاری ایک شاگردتھےان کی "کتاب السیر"مخطوطے کی صورت میں موجودہے۔محمدشیبانی نے"کتاب السیرالصغیر"اورکتاب السیرالکبیر"کےنام سے دوکتابیں لکھیں۔یہ دونوں ہم تک پہنچ چکی ہیں۔اس طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک اورشاگردزفرنےبھی ایک کتاب لکھی جس کانام"کتاب السیر"تھا۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے معاصرین میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اورامام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نےبھی ایک کتاب لکھی جس کانام"کتاب السیر"کےنام سے ایک ایک کتاب لکھی۔ایک اورمعاصر،واقدی نےجومشہورمؤرخ تھے،انٹرنیشنل لاکےموضوع پراسی نام کی ایک کتاب تصنیف کی تھی۔جس طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب السیر"سےمتاثرہوکراورانٹرنیشنل لاپران کے لیکچروں کی اساس پر،ان کے کئی شاگردوں نے"کتاب السیر"کےنام سے کتابیں تصنیف کیں۔اسی طرح شاید"کتاب الرائی" کی












تدریس کے سلسلے میں بھی وہی صورت پیش آئی اوران کے بعض شاگردوں نے اس موضوع پربھی کتابیں لکھیں،ممکن ہے کہ اس کواصول کانام بھی خودامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے دیاہو،"کتاب الرائی"کی تدریس کے سلسلےمیں اس امرکاذکرکرنے کے بعدیہ بتاناہےکہ کتاب الاصول یعنی علم الاصول کی جوکتابیں مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں ان میں سے ابتدائی تین کتابیں یعنی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب الرائی"اورامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ،امام محمدشیبانی رحمۃ اللہ کی "کتاب الاصول"ہم تک نہیں پہنچیں۔جوکتاب ہم تک پہنچی وہ امام محمدشیبانی رحمۃ اللہ علیہ کےایک شاگردامام شافعی رحمۃ اللہ کی ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بیک وقت کئی سلسلوں اورروایتوں (Traditions)سےمنسلک تھے۔وہ ایک سوپچاس ہجری میں پیداہوئے۔اسی سال امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کاانتقال ہوگیا۔براہ راست وہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ نہیں کرسکے،لیکن سالہاسال تک ان کے ممتازشاگردامام محمدشیبانی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردرہے۔اسی طرح مدینہ منورہ جاکرامام مالک رحمۃ اللہ علیہ سےبھی سالہاسال تک درس لیتے رہے۔انھوں نے فلسفہ ومنطق کی بھی تعلیم پائی اورعلم الکلام کی بھی۔اس زمانے میں معتزلہ فرقے کابہت بول بالاتھا۔ان سے مباحثےبھی کرتے رہے۔اس لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات کئی ایسی چیزیں جمع ہوگئیں جن کے باعث وہ اسلام کی بہت اہم خدمات انجام دے سکے،جن میں سے ایک حسب ذیل ہے۔مسلمانوں میں جیساکہ آج ہے،پرانے زمانے میں بھی کچھ۔ لوگ قدامت پسندتھےاورکچھ۔ جدت پسند۔ان دومتضادرحجانات کےلوگ ہرمعاشرے اورہرقوم میں پائے جاتے ہیں۔بہرحال اس زمانےمیں اگربعض لوگ حدیث کی تعلیم پانے اورجمع کرنے کےکام میں مشغول تھےتوکچھ۔ لوگ دوسرے علوم سےدلچسپی رکھتے تھے۔نتیجہ یہ ہواکہ بعض فقہاء جنھیں قانون کے علم سے دلچسپی تھی،منطق اورفلسفےکی مددسےاسلامی قانون کوترقی دینے میں مشغول تھے۔ان کی توجہ حدیث کی طرف سے ہٹ گئی۔نتیجہ یہ ہواکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں اہل حدیث اوراہل رائےمیں ایک شدیدکشمکش پیداہوگئی۔اہل حدیث سے مرادوہ لوگ ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےفرمودہ احکام واقوال کوجمع کرنے اورمطالعہ کرنے میںمشغول تھےاوراہل رائےسے مرادوہ فقہاءتھےجواسلامی قانون کوجمع کرنے اورقیاس اوراستنباط کی مددسےاس کوترقی دینے میں مشغول تھے۔دونوں میں کشمکش اس بناء پربھی کہ اہل الرائےکوحدیث سے کم واقفیت تھی اوروہ اس بات کوفرض کرلیتےتھےکہ حدیث میں یہ چیزنہیں پائی جاتی۔اس سکوت کےباعث وہ قیاس کرکے نئے احکام دیاکرتے۔بعض اوقات ایساہوتاکہ اس مسئلےمتعلق حدیث میں ذکرموجودہوتالہذااہل حدیث کہتے یہ لوگ توکافرہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہوتے ہوئے اسے نظراندازکرتےہیں۔حالانکہ وہ عمداایسانہیں کرتےتھے۔انھیں واقفیت نہ ہوتی تھی۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے اہل حدیث (محدثوں)سےبھی تعلیم پائی اوراہل الرائے فقہاسے بھی۔انھیں فلسفہ وکلام پربھی دسترس حاصل تھی۔ان کی ذات میں ایسااچھااسلام عالم پیداہوگیاجوگویاایک نقطہ اتصال پیداکرنے اورربط پیداکرنے کا
 

جاویداقبال

محفلین
باعث بن سکا۔چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کاسب سے بڑاکارنامہ یہ رہاہے کہ اہل حدیث اوراہل الرائے کومتحدکردیں۔حدیثوں سے وہ زیادہ واقف تھےاوراستباط واستقراء اوراجتہادکےفن میں بھی ماہرتھے۔نتیجہ یہ ہواکہ وہ ایسی چیزبیان کرتےجس سےاہل حدیث بھی خوش رہتے اوراہل الرائےبھی خوش ہوتے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کاایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں اتحادپیداکرنےکےلئےانھوں نے"کتاب الرسالہ"کےنام سے ایک کتاب تصنیف کی ۔ہم کہہ سکتےہیں کہ اصول فقہ کی قدیم ترین کتاب جودنیامیں پائی جاتی ہے۔وہ"کتاب الرسالہ"ہے۔اب اس کے ترجمےمغربی زبانوں میں ہوچکےہیں۔ممکن ہے اردومیں بھی اس کاترجمہ ہوچکاہویہ کہاجاسکتاہےکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نےالرسالہ،لکھ۔ کرایک نئے علم کی بنیادڈال دی،کم ازکم بنیادمستحکم کردی،اس میں جوچیزیں بیان کی گئی ہیں۔بعدکی صدیوں میں بھی ذرابھی بدلتی ہوئی نظرنہیں آئیں حتی کہ اصطلاحات بھی جوامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے استعمال کی ہیں۔من وعن آج چودہ سوسال تک چلی آرہی ہیں۔رسالہ کے معنی ہوتے ہیں خط۔اس کاپس منظریہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نےاپنے ایک شاگردکی درخواست پر،جس نے کہاتھاکہ استادہمیں اس موضوع پریعنی اصول فقہ پرایک تحریرلکھ۔ دیجئےجس سے ہم استفادہ کریں،ڈیڑھ۔ سوصفحوں کاایک خط بھیجا۔اس میں تفیصل سےبتایاگیاہے کہ قانون کسےکہتے ہیں؟قانون کس طرح بناتے ہیں؟پراناقانون کس طرح منسوخ کرتےہیں؟الفاظ کوسمجھنے کےلیےکیاطریقہ اختیارکرناچاہیے؟اس میں لغت،قواعدزبان،بلاغت وعروض کےعلوم پرروشنی ڈالی گئی ہےاورمثالیں بھی دی گئی ہیں اورساتھ۔ ساتھ۔ بہت ہی دقیق اندازمیں اپنے مخالفین کےجوابات بھی دیےہیں۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کےزمانے میں معتزلہ فرقہ عروج پرتھا۔اس فرقےکانظریہ یہ تھاکہ حدیث پراعتمادکرناآسانی سے ممکن نہیں۔چنانچہ اب یہ مشہورہوگیاہے کہ معتزلہ حدیث کوردکرتے تھے۔لیکن یہ افتراء ہے،حقیقت میں ایسانہیں میں نے ابوالحسین البصری کی جس کتاب کاذکرکیاہےوہ معتزلہ فرقےکےمؤلف کی تالیف ہے۔اس میں وہ تفیصل سےبتاتاہے کہ حدیث پرکس طرح اعتمادکیاجائے،حدیث کے متعلق اس کی جورائےرہی ہے کوئی سنی بھی اسکے بیان کردہ اصول سے بہ مشکل اختلاف کرسکے گا۔تووہ کیاچیزتھی جسکی بنا پرمعتزلہ کومطعون کیاجاتاتھاکہ وہ حدیث کوقبول نہیں کرتےتھے۔اس سلسلےمیں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نےکیاکیا،اس کی طرف اشارہ کرنامقصودہے۔
معتزلہ فرقےکےعلماء کی رائے یہ تھی کہ"اگرحدیث میں کوئی حکم دیاگیاہویااس سےکوئی قانون بنتاہوتوضروری ہے کہ اس حدیث کے راوی ایک سے زیادہ ہوں۔خبرواحدیعنی ایک راوی کی بیان کردہ حدیث پرعمل نہیں کیاجاسکتا۔اس لیےنہیں کہ وہ غلط ہےبلکہ اس لیے کہ قانون کاتقاضاہے کسی دعوی کی تائیددوگواہ کریں۔اس رائے کی دوسرےمسلمان فقہاء نےتردیدکی اہل حدیث کےمحدثین نےاورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نےاس کاجواب عالمانہ اندازمیں دیا۔اسکے بعدسےمعتزلہ کاجواعتراض تھاکہ خبرواحدناقابل اعتمادہے،اس کی اہمیت بالکل ختم ہوگئی اورصرف ایک راوی کی بیان کردہ حدیث پربھی سب لوگ عمل کرنے لگے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سےایسے بہت سے واقعات انتخاب کرکےبیان کیےجن میں کسی ایک آدمی کی شہادت پرکسی حکم کی تعمیل کی گئی ہومثلاانھوں نےکہاکہ ایک دن فجرکی نمازکےوقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک شخص کوبھیجاکہ مختلف محلوں میں جاکرلوگوں سےباآوازبلندکہہ دوکہ قبلہ اب بیت المقدس کی جگہ کعبہ کی طرف ہوگیاہے۔ایک ہی شخص بھیجاگیا۔اس نے کہاکہ نمازمیں اپنےرخ کوبجائےبیت المقدس کےکعبےکی طرف موڑلو۔تب لوگوں نے اس پرعمل کیا۔اسکے معنی یہ ہیں کہ عہدنبوی میں ایک شہادت پرعمل کیاجاتاتھااوریہ کبھی نہیں کہاگیاکہ "اگردوآدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم کی اطلاع دیں توہم مانیں گے ورنہ ہم ردکردیں گے۔"اسی طرح انھوں نےایک اورمثال دی کہ ایک دن مدینہ منورہ میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامقررکردہ ایک شخص ڈھنڈوراپیٹتاہوانکلتاہے اورچلاچلاکرکہتاہے کہ اے مسلمانو!شراب کی ممانعت کاحکم نازل ہواہے،شراب نہ پیئو۔یہ صرف ایک آدمی تھا۔حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں(اوریہ صحیح بخاری کی حدیث ہے)کہ یہ انکے بچپن کاواقعہ ہے۔جب وہ شخص ڈھنڈوراپیٹتاہواان کے مکان کے پاس سے گزرا،اس وقت وہ اپنےوالدین کےمہانوں کوشراب کےپیالے پیش کررہے تھے۔شراب کی ممانعت کاحکم سنتےہی ان کےباپ نےکہا،بیٹااٹھواوراس شراب کوضا‏‏ئع کردو۔چنانچہ میں نے ایک ہتھوڑالیااورشراب کےپیپےکوتوڑکراسےبہادیا۔جولوگ شراب پی رہےتھےانھوں نے بھی پیالےپھینک دیے۔وہاں بھی صرف ایک شخص کی اطلاع پرسب لوگوں نےعمل کیا۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نےبہت سی مثالیں دی ہیں اوریہ ثابت کیاہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پرعمل کرنےکے لیے ایک شخص کی گواہی کافی ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کایہ کارنامہ تھاکہ اہل حدیث اوراہل الرائے کومتحد کردیاتاکہ اس طرح اسلامی قانون کی زیادہ بہترخدمت ہوسکے۔اب تک اہل حدیث صرف حدیث کوپڑھتے،یادرکھتےاوربیان کرنےپراکتفاکرتے تھےاوردیگرعلوم سے انھیں واقفیت نہیں ہوتی تھی۔منطق،فلسفہ، استدلال وغیرہ سےانھیں کوئی تعلق نہیں تھا،نتیجہ یہ ہوتاتھاکہ بعض وقت وہ لفظی مفہوم لےکراس کے اطلاق پراصرارکرتےجونامناسب بات تھی۔دوسری طرف اہل الرائےہرچیزمیں قیاس کرتےاوراچھی طرح تحقیق نہ کرتے کہ حدیثوں میں کسی مسئلے کےمتعلق کیااحکام موجودہیں؟اس سے بےخبررہ کروہ اپنی رائےسےقانون سازی کرتے۔یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہی کافیضان ہےکہ محدثین اپنےموادمیں ایک نظم پیداکرتےہیں اوربالابواب حدیثیں لکھتے ہیں ایک ہی موضوع پرمتعددحدیثیں ہوتی ہیں توانھیں ایک ہی جگہ جمع کرتےہیں تاکہ ہم غورکرسکیں کہ کون سی حدیث مقدم ہے کون سی حدیث مؤخرہے،کون سی ناسخ ہے،کون سی منسوخ ہے۔ایک طرف یہ اوردوسری طرف اہل الرائےبھی حدیث کامطالعہ کرنے لگے۔اسطرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی


























کوشش سےاسلامی قانون کی ترقی کے لیے ایک نئی راہ کھل گئی۔
اس وقت تک چارکتابوں کابیان ہوا۔"کتاب الرائی"امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ،"کتاب الاصول"ان کے دوشاگردوں کی اور"کتاب الرسالہ"امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی۔اس کےبعدسےلےکراب تک تقریباچودہ سوسال کازمانہ ہوتاہےانہی ابتدائی کتابوں کی شرح کےسوااورکوئی چیزنہیں ملتی۔اس علم سے شغف زیادہ ترترکستان والوں کورہاہے۔یوں کہناچاہیے کہ اس علم کوترقی ترکوں نےدی اورایسی بیسیوں کتابیں لکھی گئیں جویاتوتکرارپرمبنی ہیں،یاشرح پریاخلاصوں پرمشتمل ہیں۔مثلاایک بڑی ضخیم کتاب ابوالحسین البصری نےلکھ۔ ڈالی جودوجلدوں میں ہزارڈیڑھ ہزارصفحوں پرچھپی ہے۔اس کاپڑھناہرشخص کےلیے آسان نہیں ہے۔اسکاخلاصہ امام بیضاوی نےبیس صفحوں میں کرڈالاجوچیستان بن کررہ گیا۔پھربیضاوی کے اس مختصررسالےکی شرح اورحاشیوں کاسلسلہ شروع ہوا۔کتاب تودرس کے طورپربیضاوی کی پڑھائی جاتی تھی۔لیکن اس کوسمجھانےکے لیے شرحوں اورحاشیوں اورحاشیتہ الحواشی کی ضرورت پیش آتی۔غرض یہ سلسلہ اب تک چلاآرہاہے۔
زمانہ حال میں اس میں اگرکسی نےنئی چیزپیداکرنے کی کوشش کی ہے تووہ ہمارے مرحوم سرعبدالرحیم تھے،جوایک زمانے میں ہندوستان کی اسمبلی کےصدربھی رہ چکےہیں۔بعدمیں وہ پاکستان میں بھی رہے انھوں نےقانون حیثیت سےپاکستان کی بڑی خدمت کی ہے۔ایک زمانے میں جب وہ مدراس ہائی کورت کے جج تھےتوکلکتہ یونیورسٹی کی دعوت پرغالباٹیگورلالیکچرزکےسلسلےمیں،انھوں نے اصول فقہ پرکچھ۔ لیچکردیےتھےجومحمڈن جیورسپروڈنس(Muhanandan Jurisprudence)کےنام سے کتابی صورت میں چھپ گئے ہیں۔ان میں انھوں نے ایک تھوڑی سی جدت کی ہے اوریہ کہ پرانی اصول فقہ کی کتابوں کےبیانات کواورموادکوبھی بیان کردیاہےاورحالیہ زمانے میں یورپ میں فلسفہ قانون وغیرہ کے موضوع پرجوکتابیں لکھی گئی ہیں،ان سے بھی استفادہ کرکے اسلامی اوریورپی اصول قانون کےموازنےکی کوشش کی ہے۔اس لحاظ سے عبدالرحیم کی محمڈن جیورسپروڈنس اصول فقہ کی ایک ایسی کتاب ہےجوہمارے پرانے اصول فقہ کی کتابوں میں ایک نیاباب کھولتی ہے۔اس میں ہمیں ایسی چیزیں بھی ملتی ہیں جنکاذکرپرانی اصول فقہ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔مثال کے طورپرپرانی اصول فقہ کی کتابوں میں پہلاسوال یہ ہوگاکہ قانون کے ماخذکیاہیں؟وہ کہیں گے قرآن وحدیث اوراجماع وقیاس۔ان میں یہ ذکرنہیں ہوگاکہ قوانین کس کس موضوع کےہوتے ہیں۔کچھ۔ عبادات ہیں،کچھ۔ معاملات ہیں،کچھ۔ قانون تعزیرات وقانون وراثت ہے۔لیکن اوربھی چیزیں ہیں،جیسے انٹرنیشنل لااورکانسٹی ٹیوشنل لاوغیرہ۔ہماری پرانی فقہ کی کتابوں میں انکاکوئی ذکرنہیں آیاجسٹس سربعدالرحیم نےاصول قانون کےیورپی مؤلفین کی طرح ان قوانین کابھی ذکرکیاہے۔یہ ان کاعلمی کارنامہ ہےکہ قدیم وجدیدمعلومات کواپنی جامع کتاب میں سمودیاہے۔














اب آخرمیں مجھےاجتہادکےبارے میں اشارۃ کچھ۔ کہناہےجس کااعلان میرے لیکچرکےموضوع کےطورپرکیاگیاہے۔اجتہادکیاچیزہے؟میرےگذشتہ دنوں کےبیانات سےآپ اندازہ کرچکےہوں گےاجتہادکرنے کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےحضرت معاذرضی اللہ تعالی عنہ کواس شرط پردی تھی کہ قرآن وحدیث میں انکوسکوت نظرآئے۔اگرقرآن میں صراحت آتی ہےتوبھی اجتہادکاکوئي سوال پیدانہیں ہوتا۔اجتہادصرف اس وقت کیاجاتاہےجب یہ دونوں بنیادی اساس یعنی قرآن وحدیث ہمارے سوال کےمتعلق خاموش نظرآئیں۔قانون سازی کی اس کوشش یعنی اجتہادکوہمارے فقہاء نےبہت ترقی دی اوراس کے لیے لطیف فرق کی بناپربہت سے نام دیے ہیں۔چنانچہ اجتہادکالفظ بھی ہےقیاس کالفظ بھی ہے۔استدلال کالفظ بھی ہےاوراسی طرح استصلاح کالفظ بھی استعمال کیاجاتاہے۔یہ سب بالکل مترادف چیزیں نہیں بلکہ ان میں باہم لطیف سافرق پایاجاتاہے۔اس سلسلےمیں "استحسان"کامیں خاص طورپرذکرکروں گا۔استحسان حنفی مذہب کی ایک خصوصیت ہےجس کودوسرے فقہی مکاتب فکرکے لوگ پسندنہیں کرتے۔یہ ناپسندیدگی ایک غلط فہمی کی بنیادپرہے،لیکن بہرحال اسےپسندنہیں کرتےچنانچہ آپ کوحیرت نہیں ہونی چاہیے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نےایک رسالہ لکھاہےجس کانام ہے"الردعلی الاستحسان"جواستحسان کی تردیدکے دلائل پرمبنی ہے۔اس کتاب کے مطالعےسےہمیں نظرآتاہے کہ انہوں نے استحسان کاایک فرضی مفہوم لےکراسکی تردیدکی ہے۔حنفی مکتب فکرکے مطابق استحسان کامفہوم یہ ہے کہ اگرکسی مسئلےکےظاہری حالات کی بناپرکوئی بات ذہن میں آتی ہےتواس پراکتفانہ کی جائےبلکہ گہرےغوروفکرکےبعدعمیق ترحقائق کےپیش نظرحکم دیاجائے۔چنانچہ استحسان سےکام لینے والے حنفی ائمہ محض ظاہری حالات کوکافی نہیں سمجھتےاورایک عمیق ترسبب معلوم کرکے اس کی بنیادپراحکام دیتے ہیں۔ایک مثال میں آپ کودوں گا۔فرض کیجئے کہ میں آپ میں سے کسی کے سپردکچھ۔ امانت کروں،کہ اسےفلاں کوپہنچادوتوتوقع یہی کی جائےگی آپ وہی چیزمنزل مقصودتک پہنچادیں گے۔آج کل ہمارے ڈاک خانوں سے منی آرڈربھیجاجاتاہے۔ایک رقم آپ ڈاک خانےکےسپردکرتےہیں اورکہتے ہیں کہ اس امانت کوتم فلاں شخص تک پہنچادو۔جورقم آپ ڈاک خانےکے سپردکرتے ہیں،امانت کاعام اصول تویہی ہےکہ وہی رقم پہنچائی جائے۔لیکن ڈاک کےموجودنظام کےمطابق آپ کی رقم سرکاری خزانےمیں جمع ہوجاتی ہے اورمنی آرڈروصول کرنےوالے کومتبادل رقم اداکردی جاتی ہے۔اصل رقم کوبھیجنےکی ضرورت نہیں۔یہی استحسان کامفہوم ہے۔اگرچہ یہ طریقہ امانت کےقانون کی ابتدائی یاسطحی مفہوم سےکسی حدتک مختلف ہےلیکن اس طریقے سےامانت کاحق اداکرنےمیں سہولت پیداہوجاتی ہے،اوراصلی اورمتبادل رقموں کامالیت میں کوئی فرق بالکل نہیں ہوتا۔

















اس مختصرتشریح کامنشااصل میں یہ تھاکہ مسلمانوں نےعلم قانون کواپنے اجتہادفکرکی بدولت اس طرح مدون کیاکہ اسلامی قانون کواس کے قانون سازرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعدآپکی غیرموجودگی کےباعث کوئی دشواری پیش نہ آئی اورآج بھی اسلامی قانون اسی اصول کی وجہ سےاپنی جگہ محفوظ اورہردورمیں قابل عمل ہے۔ایک نکتہ بیان کرکےمیں اس لیکچرکوختم کرتاہوں۔یہ ایک مسلمہ اصول ہےکہ کسی قانون کویاتوخودقانون سازبدل سکتاہےیااس سےبالاترشخصیت۔اس سےکمترشخصیت کوقانون بدلنےکی اجازت نہیں۔اگراللہ نےکوئی حکم دیاتواللہ ہی اسکوبدل سکتاہے۔اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کویاخودوہی نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بدلے گایااللہ اوریااللہ کابھیجاہواکوئی دوسرانبی۔نبی سے فروترشخص مثلاکوئی فقیہ اسےنہیں بدل سکتا۔اس لحاظ سے اسلامی قانون کےجواحکام قرآن میں ہیں انھیں کوئی اورشخص نہیں بدل سکتالیکن ایک فقیہ کی رائےدوسرافقیہ ردکرسکتاہےاوراپنی رائےپیش کرسکتاہے۔جیساکہ میں گزشتہ لیکچرمیں بیان کیاتھا۔کہ یہ چیزانفرادی قیاس ورائے اوراستنباط ہی سے متعلق نہیں بلکہ اجتما‏عی رائے کےمتعلق بھی درست ہے۔کم از کم حنفی مذہب میں یہ بات قبول کرلی گئی ہے کہ نیااجماع پرانےاجماع کومنسوخ کرسکتاہے۔فرض کیجئےکہ ایک چیزپراجماع پایاجاتاہے۔اجماع کےسامنے ہم سرتسلیم خم کرتے ہیں۔مگراس کےمعنی یہ نہیں کہ قیامت تک کوئی شخص اس کے خلاف زبان نہ کھولے۔اگرکوئی شخص جرات کرکےادب کےساتھ۔،دلیلوں کے ساتھ۔،اس کے خلاف اپنی رائےپیش کرےاورپھراس نئی رائےکودوسرےفقہاء بھی قبول کریں توایک نیااجماع ہوجاتاہے۔یہ نیااجماع پرانےاجماع کومنسوخ کردیتاہے۔یہ اصول مشہورحنفی امام ابوالیسرالبزدوی رحمۃ اللہ علیہ نےاپنی کتاب"اصول الفقہ"میں بیان کیاہے۔امام بزدوی رحمۃ اللہ علیہ چوتھی اورپانچویں صدی کےدرمیان کےفقیہ گزرے ہیں۔اسلامی قانون میں ان کایہ بہت بڑاکارنامہ ہے۔ان کے اس بیان کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اجماع ہمارے لیے مصیبت کاباعث نہیں بن سکتا۔اجماع اگرکسی نامناسب چیزپرہوگیااورحالات کے بدلنےکی وجہ سے ہم ان پرعمل نہ کرسکتے ہوں تواس کی گنجائش ہےکہ اجماع کےبدلنےکابھی ہم سامان پیداکرلیں اورقیاس کےذریعےسےایک نیااجماع پیداکرکےپرانےاجماع کوبدل دیں۔السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،



















سوالات وجوابات
برادران کرام!خواہران محترم!السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ!
متعددسوالات آئے ہیں،اپنی بساط کےمطابق جواب دینے کی کوشش کرتاہوں۔
سوال نمبر1:موجودہ دورمیں پاکستان میں اجتہادکاکیاطریقہ ہوناچاہیے؟اسکی وضاحت فرمائیں۔اسی طرح اس دورمیں اجماع اورقیاس کاکیاطریقہ ہوگا۔
جواب:- میراخیال ہے کہ پاکستان اورغیرپاکستان کاسوال بےمحل ہے۔ساری دنیاکےمسلمانوں کایہ مشترکہ معاملہ ہے۔جس چیزکےمتعلق قرآن وحدیث میں صراحت نہیں ہےاورایک ایسامسئلہ پیداہواہےجسکی ہمیں ضرورت ہےتواس کےلیے ہم اجتہادکےذریعےسےاسلامی نقطہ نظرمعلوم کرنےکی کوشش،انفرادی طورپربھی کریں اورباہمی مشاورت سےبھی یعنی اجتماعی طورپربھی۔سب لوگ متفق ہوتےہیں۔توفبہاورنہ ہماری حکومت کوجورائےاپنےپارلیمنٹ کےارکان کی کثرت رائےکی بنیادپرمناسب معلوم ہوگی،اس پرعمل کرایاجائےگا۔اجماع اورقیاس کاابھی یہاں ذکرکیاگیاہے۔اصل چیزصرف اجتہادہے۔کچھ۔ خفیف سےفرق کی وجہ سے اس کے مختلف نام ہوگئے ہیں۔کس طرح اجتہادقیاس کہلائے گا،کس طرح اجتہاداستحسان کہلائےگا،یہاں مجھےتفیصلی بحث کی ضرورت نہیں۔قیاس اوراجماع عملاایک ہی چیزہیں۔صرف اتناہی فرق ہے کہ اجتہادایک آدمی کی رائے ہوتی ہےاوراجماع وہ ہےجس پرسارے فقیہ اورقانون کے ماہرین متفق ہوجائیں۔میں غالباکسی لیکچرمیں عرض کرچکاہوں کہ مسلمانوں میں اجماع کاتصورپایاجاتاہےلیکن بدقسمتی سےگزشتہ چودہ سوسال سےاجماع کوایک ادارےکی حیثیت دینےکی طرف ہم نے توجہ نہیں کی۔نتیجہ یہ ہے کہ کسی چیزپراجماع ہواہےیانہیں،اس کےمعلوم کرنےکاآج ہمارےپاس کوئی ذریعہ نہیں،ابتدائی صدیوں ہی سے مسلمان تین براعظموں ایشیاء،یورپ اورافریقہ میں پھیلےہوئےتھےمگرکبھی یہ صورت ممکن نہ ہوسکی کہ کسی سوال کوسارے فقہاءکےپاس بھیج کران کی آراءکوجمع کیاجاتا،کیاسب لوگ اس جواب پرمتفق ہیں؟شایدپرانےزمانےمیں یہ چیزممکن بھی نہیں تھی،کیونکہ وسائل نقل وحمل کی دشواریاں تھیں۔لیکن زمانہ حال میں اسکےامکانات پیداہوگئےہیں۔اسی لیے میں نےیہ خیال ظاہرکیاتھاکہ اسلامی ممالک تک اپنے آپکومحدودرکھنےکی ضرورت نہیں ہے۔جہاں بھی مسلمان موجودہیں،انکوایک نظام کےاندرمنظم کرنےکی کوشش کی جانی چاہیے۔مثلاہرملک میں انجمن فقہاء قائم کی جائے۔کسی مقام پراس کاایک صدرمرکزہو۔یہ مرکزپاکستان میں بھی ہوسکتاہےاورپاکستان سےباہربھی،حتی کےماسکواوروشنگٹن میں بھی ہوسکتاہے۔اس میں کوئی امرمانع نہیں کیونکہ یہ صرف مسلمانوں کاایک مخصوص ادارہ ہوگا۔جہاں بھی مرکزہواس کوایک سوال

















پیش کیاجائےگا۔اگرسیکرٹریٹ کی رائے میں وہ سوال واقعی اسکامتقاضی ہوکہ مسلمان فقہائے عالم اپنی رائےدیں،تووہ اس سوال کوساری شاخوں کےپاس روانہ کردےگا،اسلامی ممالک کی شاخوں کوبھی اورغیراسلامی ممالک کی شاخوں کوبھی۔ہرشاخ کےسیکرٹری اپنےملک کےسارےمسلمان قانون دانوں کےپاس اس سوال کی نقل روانہ کرکےدرخواست کرےگاکہ تم اپنامدلل جواب اسکے متعلق روانہ کرو،جب اسکےپاس یہ جوابات جمع ہوجائیں تووہ مرکزکوروانہ کرےگا،کہ یہ متفقہ جواب ہے۔اگراختلافی جواب تواختلاف کےساتھ۔،لیکن ہرفریق کی دلیلوں کےساتھ۔۔اس عملی پہلوپربھی آپکوتوجہ دلاؤں کہ مرکزکی زبان عربی ہونی چاہیےاورانفرادی طورپرہرملک میں کوئی مقامی زبان ہوسکتی ہےمثلااگروہ سوال پاکستان میں آئےتویہاں کےعلماء اپنےجوابات اردومیں دےسکتےہیں یاکسی اورزبان میں۔لیکن یہاں سے مرکزکوجوجواب جائےگاوہ عربی میں ہوناچاہیےتاکہ ساری دنیائےاسلام کے فقہاءاس سے آسانی سے استفادہ کرسکیں۔کیونکہ میری رائےمیں ہم اچھافقیہ اسکوکہیں گےجسےاچھی عربی آتی ہوغرض جب ساری شاخوں کےپاس سے جواب آجائےاوردیکھاجائےکہ اس پرسب کااتفاق ہےتواس امرکااعلان کیاجاسکتاہے کہ اس جواب پرسب لوگ متفق ہیں۔لیکن اگراختلاف ہوتواختلافی دلیلوں کاایک خلاصہ تیارکیاجائےاوردوبارہ اسکوگشت کرایاجائےتاکہ جن لوگوں کی پہلے ایک رائےتھی،ان کے سامنےمخالف دلیلیں بھی آجائیں۔اورانھیں غورکرنےکاموقع ملے،ممکن ہےوہ اپنی رائےبدل کراس دوسری رائےپرمتفق ہوجائیں جوانکےمخالفین کی تھی۔جب اسطرح سامنے مخالف دلیلیں بھی آجائیں۔اورانھیں غورکرنےکاموقع ملے،ممکن ہےاوراپنی رائےبدل کراس دوسری رائےپرمتفق ہوجائیں جوانکے مخالفین کی تھی۔جب اسطرح کافی غوروبحث کےبعددوبارہ تمام شاخوں سےمرکزکےپاس جواب موصول ہوجائیں تویہ معلوم ہوجائےگاکہ کس چیزپراجماع ہواہےاورکس چیزپراختلاف رائےہے۔نیزیہ کہ اختلافی پہلوپراکثریت کی رائےکیاہے؟ان سب نتائج کوایک رسالےکی صورت میں شا‏ئع کیاجائےجس میں جوابات مع دلائل درج ہوں۔یہ میراتصورہےکہ ہمارے زمانےمیں اجماع کو،اگرہم ایک ادارہ بناناچاہیں توکس طرح بنائیں اورکس طرح اس سےاستفادہ کریں۔یہ قطعاممکن نہیں ہےکہ دنیابھرکےماہرین فقہائےاسلام کومستقل طورپرکسی ایک جگہ جمع کردیاجائے۔وہ کسی چندروزہ اجتماع میں شرکت کےلیےتوآسکتےہیں لیکن ساری عمرایک مقام پرگزارناان کے لیے ممکن نہیں ہے۔اورنہ ہی ان ملکوں کےلیےجہاں کےباشندےہیں،فائدہ مندچیزہوگئی۔کیونکہ انکے خدمات سےان کے ہم وطن محروم ہوجائيں گے۔اس کے برخلاف اگراس طرح کی انجمن بنائی جائےتووہ اپنی رائےآسانی کےساتھ۔ دےسکتےہیں۔اوراس سےساری دنیاکےلوگ استفادہ کرسکتےہیں۔لیکن شرط یہ ہےکہ ہمارے فقہاء وصول شدہ خط کاجواب بھی دیں۔بدقسمتی سےخط کاجواب دینےمیں تساہل وتغافل اب ہم سے بہت عام ہوگیاہے۔مجھےیادہے کہ میں ایک مرتبہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی التاریخ الکبیرپڑھ رہاتھا،جومحدثین کےحالات کی کتاب ہے۔اس میں انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا












ایک قول نقل کیاہے۔بخاری حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سےروایت کرتے ہیں کہ"خط کاجواب دینااسی طرح واجب ہےجسطرح سلام کاجواب دینا"۔اگراس پرہمارے زمانہ حال کے فقہاء عمل کرناپسندکریں توامت ان سےاستفادہ کرےگی۔ورنہ جہاں ہماری دیگربےشماربرائیاں ہیں۔ان میں یہ برائی بھی سخت ہے کہ لوگ کم ہی جواب دیناپسندفرماتے ہیں۔
سوال نمبر2:-اسلامی قانون میں فیصلہ ظاہری عمل کی بنیادپردیاجاتاہے،جس طرح جبری طلاق،ایساکیوں ہے؟نیت پراعتبارنہیں کیاجاتا۔اسکی کیاوجہ ہے؟
جواب:-بظاہراسکی وجہ یہ ہے کہ نیت ایک ایسی چیزہےجوہمیں نظرنہیں آتی اوراسکاامکان بھی ہےکہ ایک آدمی ابتداء ایک نیت رکھتاہےاورجب اس سے سوال کیاجاتاہےتووہ جھوٹ بیان کرتاہے کہ میری نیت یہ نہ تھی۔ان حالات میں حدیث کےالفاظ کواگرہم دیکھیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ قراردیاہے کہ ظاہرپرعمل کیاجائے،کیونکہ باطن کاعلم صرف خداہی کوہوسکتاہے۔چنانچہ ایک مشہورواقعہ ہے کہ ایک دن ایک جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےایک قریبی صحابی حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ جوآپ کےآزادکردہ غلام اورمتنبی حضرت زیدکےبیٹے بھی تھےانھوں نے ایک دشمن کادست بدست مقابلہ کیا۔آخری لمحےمیں جب حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تلواراسکے سرکےقریب پہنچ رہی تھی تو اس نے اشھدان لاالہ الااللہ بلندآوازسےکہہ دیا۔اس کے باوجودحضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہاتھ۔ نہیں روکااوراس کاسرقلم کردیا۔جب اس کی اطلاع حضورصلی اللہ علیہ وسلم کوہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خفاہوئے۔اسامہ نےکہاکہ اس شخص نےتوصرف ڈرکرکلمہ شہادت پڑھاتھا۔حقیقت میں دل سےمسلمان نہیں ہواتھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ تھے:"ھلاشققت قلبہ"(کیاتونےاسکادل چیرکراسکے اندردیکھاتھاکہ وہ ایساتھا)۔دوسرےالفاظ میں ظاہرپرعمل کرنےکےسواہمارےپاس کوئی چارہ نہیں ہے۔مغرب کی اعلی ترین ایجادوں کےباوجودانسان کے باطن کاحال معلوم کرنااب تک ممکن نہیں ہوسکا۔اگرکسی دن یہ ممکن ہوجائےتوہوسکتاہےہم اس پرعمل کریں،لیکن فی الحال اس پرعمل کرناانصاف کے خلاف ہی ہوگا۔لوگ اپنےبرےاعمال کےخمیازےسے بچنےکےلیےجھوٹ بولاکریں گےاوراگرجھوٹ کوقانوناہماراقاضی یاحاکم عدالت قبول کرنے پرمجبورہوجائےتووہ انصاف نہیں ہوگا،ظلم ہوگا۔
سوال نمبر3:- اگرنئےاجماع کوپرانےاجماع پرفوقیت دی جاسکتی ہےتوکیایہ اصول صحابہ کےاجماع اورائمہ اربعہ کےاجماع کوردکرنےمیں بھی قابل عمل ہوگا؟
جواب:- بجائے اصولی بحث کرنےکےمیں یہ سوال کروں گاآپ کو‏ئی ایسی چیزبتائیں جس پرصحابہ کااجماع ہواہو،جس پرچاروں اماموں کااجماع ہواہو،اورپھرمیں آپکوجواب دوں گاکہ اس کے
















بدلنے کی ضرورت ہوگی یانہیں۔فرضی سوالات میں وقت ضائع کرنےکی ہمیں ضرورت نہیں۔میں سمجھتاہوں کہ جس پرسارےصحابہ متفق ہوچکے ہوں،جس پرسائےائمہ حنفی،شافعی متفق ہوں،وہ قطعاایسی چیزنہیں ہوگی،جوآج ہماری عقلوں کےلیےناقابل قبول ہو۔اسےاصولامیں قبول کرنےکوتیارنہیں ہوں۔آپ مجھےمعین مثال دیں پھرمیں بتاسکتاہوں کہ اس قاعدےکےاطلاق،کہ نیااجماع پرانےزمانے کےفقہاء کےسامنےپیش کریں گے۔جب تک ان کااجماع نہ ہو،پرانااجماع ہی واجب التعمیل ہوگا۔صحابہ کااجماع یاائمہ کااجماع ہی برقراررہےگاجب تک کسی مسئلےپرواقعتایااجماع میں عمل میں نہ آئے۔
سوال نمبر4:- اگرخلافت علی منہاج النبوۃ ہوتووہ حکومت کس مسئلےمیں اجتہادکرےگی۔اگرکسی مسئلےمیں اجتہادکرےگی توآیاعوام کےلیےقابل قبول ہوگا؟
جواب:- اگرایسی خلافت ہوجیسی کہ آجکل ہے۔توظاہرہےکہ حکومت کااجتہادقابل قبول نہ ہوگا۔اس صورت میں جوقرآن وحدیث سےخوداستدلال نہ کرسکتاہوکیاکرےگا۔کیونکہ آجکل بہت سےمسائل میں علمائےکرام نے مختلف آراء دی ہیں۔اگرچہ میں سوال کامقصدشایدنہیں سمجھالیکن ایک بات کی طرف آپ کی طرف توجہ مبذول کراؤں گا،وہ یہ کہ اسلام میں ایک روایت(Tradition)عجیب وغریب رہی ہےجوکسی اورقوم میں ہمیں نظرنہیں آتی۔یعنی اورممالک میں قانون سازی حکومت کااجارہ ہوتی ہے،جب کہ اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدیہ چیزکبھی یوں نہیں رہی۔اسلامی قانون کایہ اصول ہے کہ عدالت کوحکومت سےآزادرہناچاہیے۔یہ اصول مغرب میں بھی قبول کرلیاگیاہےاورہمارےہاں بھی برقراراورجاری ہے۔اسی طرح عہدنبوی کےبعدسےلےکرآج تک اسلام میں قانون سازی ایک پرائیویٹ چیزرہی ہے۔کبھی حکومت کااجارہ(Monopoly)نہیں رہی۔اس کانتیجہ یہ ہے کہ مسلمان فقہاء پوری آزادی کے ساتھ۔ قانون کی ترقی میں مشغول رہے۔قانون سازی صرف حکومت کی پارلیمنٹ تک محدودنہیں رہی،ورنہ اسلامی قانون کی ترقی اس طرح نہیں ہوسکتی تھی۔جس طرح عمل میں آئی۔میں یہ نہیں کہتاکہ اسلام کایہ اصول،قانون اورحکم ہےبلکہ اسلامی روایت(Tradition)یہ ہےکہ قانون سازی حکومت کااجارہ نہیں،ورنہ حکومت کی سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے قانون متاثرہوگا۔اگرمیں وزیرقانون ہوں توصدرمملکت کی ضرورت اوربعض وقت اسکی منشاء کالحاظ کرکےمسودہ قانون پارلیمنٹ میں پیش کروں گااوراپنےاثرات ڈال کر،کہ میں اکثریتی پارٹی یاحکومتی پارٹی کالیڈرہوں،اپنےارکان کوحکم دوں گاکہ اس مسودہ قانون کے خلاف رائےنہ دو۔اس صورت میں اکثریت کی رائےسےجوقانون بنےگاوہ سیاسی ضروریات سے متاثرہوگا۔اسکےبرخلاف اگرمسلمان فقہاءکوحسب سابق آزادی رہے کہ قانون سازی وہ خودکریں یعنی احکام کےمتعلق اپنےقیاس واجتہادکےذریعےسےرائےدیں،تووقتی سیاست اورحکومت کےاحکام کاکوئی اثرنہیں پڑےگا،ایک شخص اپنی رائےدےگا،دوسراشخص اس کے














برعکس رائےدےگا،تیسراشخص شایددونوں کےبین بین رائےدےگااوراسطرح ایک عام بحث ومباحثہ کےبعدہم کسی بہترنتیجےپرپہنچ سکیں گےجوملت کے لیے،حکومت کےلیےاورساری انسانیت کےلیےکارآمدہوسکتاہے۔میراتصوراسکےمتعلق یہ ہے۔ضروری نہیں کہ اس رائےسے آپ بھی متفق ہوں۔
سوال نمبر5:- امت مسلمہ میں سےپہلااجماع کب ہوااورکس بات پرہوا؟
جواب:-مجھےمعلوم نہیں۔پہلااجماع غالباعہدصحابہ میں ہواہوگا۔لیکن کس مسئلےپراورکب ہواتھا۔یہ کہنادشوارہے۔ممکن ہےحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کےزمانے میں ہواہو۔مثلازکوۃ نہ دینے والوں سے جنگ کے متعلق،کیونکہ یہ اولین مسئلہ تھاجس میں کچھ۔ اختلاف پیداہواتھا۔بڑے بڑےصحابہ مثلاحضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ جیسےصحابی کی بھی رائےتھی کہ فی الحال اس پراصرارنہ کیاجائےاورجولوگ صرف زکوۃ دینےسےانکارکرتےہیں،انھیں کافرنہ قراردیاجائے۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نےحضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کوجواب دیاکہ قرآن میں صلوۃ اورزکوۃ دونوں کوایک ہی سانس میں بیان کیاگیاہے۔(اقیمواالصلوۃ واتوا الزکوۃ)جس طرح ایک شخص نمازپڑھنےسےانکارکرےتومیں مرتدقراردینےپرمجبورہوں۔یہی معامعلہ زکوۃ کابھی ہے۔ممکن ہے کہ یہ پہلااجماع ہو۔یاشایداس امرپرکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدمسلمانوں کوایک خلیفےکی ضرورت ہے۔
سوال نمبر6‍:- کیااجتہادکاحق ہرشخص کوہے۔اگرایساہی ہےتوہرشخص کےاجتہادی اختلاف کی بناء پراختلافات کی کثرت ہوجائے گی۔اسکاحل کیاہوسکتاہے؟
جواب:- میں نےابھی آپ سے گزارش کی کہ اجتہادکاحق فن قانون اوراسلامی فقہ کےماہرین کوہوگا،ہرعام آدمی کونہیں ہوگا۔ان میں اختلاف رائےہوتوکوئی حرج نہیں۔ہمیں معلوم ہوناچاہیےکہ کس طرف اکثریت کی رائےہےاورکس طرف اقلیت کی رائے ہے۔اولافرق ثانی یعنی مخالف کی دلیل کومعلوم کرنےکےبعدہمیں موقع ملےگاکہ اسےقبول کریں یاردکردیں۔اس میں میرےنزدیک کوئی دشواری نہ پرانےزمانےمیں پیداہوئی اورنہ آئندہ زمانےمیں پیداہونےکاامکان ہے۔کیونکہ اختلاف رائےکی وجہ سےفائدہ ہی فائدہ ہوتاہےبشرطیکہ وہ اختلاف نیک نیتی سےکیاجائے،صرف اپنےآپ کونمایاں کرنےکےلیےنہیں یااس لیےنہیں کہ فلاں نےیہ بیان کیاہے۔لہذامیں اسکی تردیدضرورکروں۔غالبااسی بناپرکہاجاسکتاہےکہ اختلاف رائےکوروکنانہیں چاہیے۔اسےصحیح رخ میں صحیح راستےپرلگانے کی کوشش کرنامفیدہوگا۔
سوال نمبر7:- اگرایک غیرمسلم آپ سے یہ کہے کہ میں مسلمان ہوناچاہتاہوں۔براہ کرم آپ مجھےوہ فرقہ بتادیں جس کے عقائدونظریات پرعمل پیراہوکروہ صحیح مسلمان بن سکےگا۔نیزاس بارےمیں آپ ذاتی طورپراسےکیسے مطمئن کریں گے؟شکریہ۔
جواب:- میں سمجھتاہوں کہ اسکاسیدھاسادہ جواب یہ ہےکہ اگرکوئی شخص کسی فرقےکےاندریامذہب
















کےاندرہےتوپورےخلوص اورپورےیقین کےساتھ۔ وہ یہ سمجھتاہےکہ اسکایہی مذہب ٹھیک ہے۔لہذااس کے پاس آنےوالےطالبعلم کوبغیراصرارکےاس پرچلانےکی کوشش کرے گا۔میرااپناطرزعمل اس بارے میں کچھ۔ مذبذب سارہاہے۔پیرس میںبعض نومسلم فرانسیسی مجھ۔ سے پوچھتےرہےہیں کہ ہم نےسناہے کہ مسلمانوں میں بہت سےفقہی مذاہب (School of Law)ہیں،حنفی شافعی،مالکی،ہم کسےاختیارکریں۔مالکی مذہب میرامذہب نہیں ہے۔لیکن فرانس میں شایداسی پچاسی (80،85)فیصدیااس کے سےبھی زیادہ لوگ مالکی مذہب کےہیں۔لہذامیں ان سے کہتاہوں کہ مالکی مذہب تمہارے ماحول کےلیےموزوں ترہے۔میں خودمالکی مذہب کانہیں ہوں لیکن میراخیال ہے کہ تم اس ماحول میں جذب ہونےکےلیےمالکی مذہب کےرہوتویہ زیادہ مناسب ہوگا۔یہ میراطرزعمل رہاہے۔اس بارےمیں آپکواختیارہےآپ جس طرح چاہیں عمل کریں اورظاہرہےکہ آپ اسی مذہب کی طرف اس نومسلم کوبلائیں گےجوآپ کی رائےمیں صحیح ہوگا۔
سوال نمبر8:-اگروہ شرعی دلیلوں میں تعارض پیداہوجائےتومجتہدکوکس طرف رجوع کرناچاہیے اورکیوں؟
جواب:-یہ مجتہدخودفیصلہ کرےگا۔میری رائےیہ ہے کہ اس کے سامنے دودلیلیں ہوں تواسکی رائےاسکاذہن اوراسکاضمیرجس چیزکی طرف مائل ہوگا۔وہ اسی کاحکم دےگا۔کوئی قاعدہ نہیں ہے بلکہ یہ انفرادی چیزہوگی۔محض سہولت ہمیشہ بہتراورمفیدچیزنہیں ہوتی۔
سوال نمبر9:-مجتہدکےاسنباطی احکام کےلیےکون ساطریقہ کار ہے؟
جواب:-اسکےلیے آپ اصول فقہ کی کسی کتاب کوآسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔اجتہادکی بحث میں بتایاگیاہے کہ آدمی کوکسی مسئلےکاحکم دینےکےلیے سب سےپہلےقرآن کی طرف رجوع کرناچاہیے۔قرآن میں وہ چیزنہ ملےتوحدیث کی طرف رجوع کرناچاہیے۔حدیث میں نہ ملےتواس سےپہلےکےجوفقہاء اورمجتہدگزرےہیں،یعنی جہاں ان میں اجماع پایاجاتاہےتواسکی طرف رجوع کرناچاہیے۔اوران میں بھی کوئی چیزنہ ملےتوذہن سےسوچ کرایساحکم دیناچاہیےجواس حکم دینےوالےکی رائےمیں سب سےزیادہ قابل قبول ہو۔یعنی خداترسی کےساتھ۔ اس کوحکم نکالنےکی کوشش کرنی چاہیے۔یہ نہیں کہ چونکہ فلاں صاحب مجھے بطوروکیل کےفیس دےرہےہیں۔لہذاان کی مرضی کےمطابق میں قانون وضع کردوں۔وکیل بےشک کوشش کرےگاکہ اسکامؤکل مقدمہ جیت جائے۔لیکن اگراس سے اس کی پرائیویٹ حیثیت سےکوئی سوال کیاجائےوہ ایسانہیں کرتا۔وہ ایسی چیزپیش کرنےکی کوشش کرتاہے۔جواس کی رائےمیں حق کےمطابق ہےاورخداکی قبولیت کاامکان رکھتی ہے۔
سوال نمبر10:۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ حدیث کی تدوین کےسلسلےمیں ایک شہادت کوبھی قبول کرنےپرزوردیتے ہیں۔لیکن اسلامی قانون شہادت اکثرصورتوں میں واحدشہادت کوقبول نہیں کرتا۔یہ تضادکیسےحل کیاگیاہے؟
جواب:- میرے خیال میں اسکاجواب یہ ہے کہ قاضی کےسامنےاگرایک مقدمےکےفیصلے کےسلسلےمیں کوئی مسئلہ آئےتووہ گواہیاں طلب کرےگا۔لیکن حدیثوں کامسئلہ ہی دوسراہے۔اگرایک ثقہ راوی کےذریعےسےکوئی حدیث ہم کوپہنچ چکی ہےیعنی خبرواحدہےتوامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اسےقبول کرو۔مگراس بارےمیں کہ عدالت کےسامنےکوئی دعوی پیش کیاجائےتواکثرصورتوں میں اس کی دوگواہوں کی ضرورت ہوگی لیکن بعض صورتوں میں ایک گواہی بھی کافی ہوتی ہے۔مثلابچےکی پیدائش کےبارےمیں صرف دائی کابیان کہ یہ بچہ اس عورت کےبطن سےپیداہواہےکافی سمجھاجاتاہےکیونکہ اس موقع پردوسرےلوگ موجودنہیں ہوتے۔لیکن زناکےمقدموں میں چارگواہوں کی ضرورت قرآن نےقراردی ہےتووہاں دونہیں بلکہ چارکی ضرورت ہوگی۔کہنایہ ہے کہ حدیث کوقبول کرناایک الگ چیزہےاورمقدمےکافیصلہ کرتےوقت کسی گواہی کوقبول کرناایک دوسری چیز ہے۔معتزلہ فرقےمیں خاص کراسکےایک مشہورامام "نظام"کاخیال تھاکہ اس حدیث کوہم قبول نہ کریںجسےدورایوں کےذریعےہم تک نہ پہنچایاگیاہو۔لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کایہ جواب مجھےمعقول نظرآتاہےکہ عہدنبوی میں ایسانہیں کیاجاتارہا۔لہذاہمیں ضرورت نہیں کہ اس قدراصرارکریں،ورنہ نتیجہ یہ ہوگاکہ حدیثوں کی بہت بڑی تعدادسے ہم محروم ہوجائيں گےاوریہ ہمارےلئےعلمی اوردینی نقصان ہوگا۔یہ کوئي تضادنہیں ہےجس کے حل کرنے کی ضرورت ہو۔حدیث کوایک راوی کی بنیادپرقبول کیاجائے۔لیکن دعوےکوعدالت میں دوگواہوں کی بناپرقبول کیاجائے۔
سوال نمبر11:- کیاشارع کی منشاکےبغیریاخلاف،احکام میں تغیرکیاجاسکتاہے۔مثلاجنگ قادسیہ میں سعدبن ابی وقاص کاابومحجن ثقفی کوشراب(خمر)پرمعاف کردینایاحضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کاقبیلہ مزینہ کےایک آدمی کی شکایت پرحاطب بن ابی بلتعہ کےغلاموں کوقطع یدکاحکم سناکرمنسوخ کردینا۔
جواب:-پہلے سوال کےمتعلق مجھے صرف یہ عرض کرناہے کہ انتہائی خصوصی حالات میں ایسابھی عمل میں آیاہے کہ کسی قانون کااطلاق نہ کیاگیاہویاملتوی کیاگیاہو۔چنانچہ جنگ قادسیہ میں ایک سپاہی نے،جسے شراب نوشی کےالزام میں درےلگانےکی بجائےعارضی طورپرقیدکردیاگیاتھا،اس قیدسےعارضی مدت کےلیے چھٹی لی اورجاکرایسی بہادری سےلڑاکہ اس جنگ کی کایاپلٹ گئی۔اس سےمسلمانوں کوفائدہ ہوا۔جب سعدبن ابی وقاص نےاسے کہاکہ جاؤمیں تمہیں معاف کرتاہوں توابومحجن ثقفی کوبڑادکھ۔ ہوا۔انھوں نےکہاکہ اگرمجھےدرےلگادیے جاتےتواللہ کےہاں معاف ہوجاتا۔مجھےاللہ کےسامنےجواب دہی کےلیےتیارہوناہے۔میں توبہ کرتاہوں کہ آئندہ شراب نہیں پیئوں گا۔میں سمجھتاہوں کہ سعدبن ابی وقاص کی فراست تھی کہ اس شخص کےضمیرکوبیدارکرناچاہیے اوروہ تدبیریہ ہے کہ اسکومعاف کردیاجائے۔ممکن ہے ان صحابہ کےمتعلق اورصورتوں میں بھی ایسےہی واقعات پیش آئےہوں۔حضرت عمررضی اللہ تعالی کےمتعلق حدیث میں آیاہے کہ یہ وہ شخص ہے کہ جب وہ کسی راستے پرچلتاہےتوشیطان کوادھر
 

جاویداقبال

محفلین
سےگزرنےکی ہمت نہیں ہوتی۔ان میں اتنی بے نفسی Selflessnessپیداہوگئی تھی کہ کبھی ذاتی خواہش کالحاظ نہیں کرتےتھے۔وہ اللہ ،رسول اوراسلام کی خدمت کرناچاہیتےتھے۔چنانچہ ایک زمانےمیں جب قحط پڑاتوحضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نےاس زمانے میں قحط کےدوران غذائی اجناس کی چوری کرنے والےکےہاتھ۔ کاٹنابالکل ہی بندکردیا۔یہ انکااجتہادتھا۔اس بارےمیں ممکن ہے کہ کسی کومنطق اوراصول کی بناپراختلاف ہولیکن میں سمجھتاہوں کہ اگرمنطق والےصاحب اس زمانےمیں برسراقتداراورخلیفہ ہوتے تووہ بھی وہی کرتے جوحضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے کیاتھا۔میرا خیال ہے۔میں یہ نہیں کہہ سکتاکہ اس جواب سےآپ کواتفاق ہوگایانہیں۔
سوال نمبر12:- فقہ اسلامی کےضمنی ماخذاستحسان،مصالح اورعرف کومختصرتوضیح کیجئے۔
جواب:-استحسان سےمرادیہ ہوتاہے کہ فوری طورپرجوظاہری مفہوم ذہن میں آتاہے،اسکی جگہ اسکی عمیق تروجہ تک پہنچنےکی کوشش کی جائے،اسکواستحسان کہاگیاہے۔فوری ذہن میں آنےوالی چیزپرنہیں بلکہ اس عمیق ترچیزپرعمل کرنازیادہ بہترہے،یہ استحسان کہلاتاہے۔مصالح مرسلہ بھی عملاوہی چیزہے۔اس چیزمیں مفادعامہ کی مصلحت پیش نظرہوتی ہے،کہ ایساہےتومنطق پرعمل کرنےکی جگہ امت کی مصلحت، سہولت آسانی اورملک میں امن وامان کوبرقراررکھنےکی کوشش کرنابہترہے،مصالح مرسلہ کہلاتےہیں۔عرف کےمعنی میں بتاچکاہوں کہ ملک کے رسم ورواج کوکہتے ہیں۔اسےکس نےبنایا،کب بنایاہمیں کوئی علم نہیں۔جس کوقانون نےمنسوخ نہیں کیا۔وہ عرف رہتاہےاوربرقراررہتاہے۔یہ عرف ہرملک ہوگا۔چاہےہندوستان یاپاکستان کاہو۔عرب کے قبیلوں کاہو،چین کاہو،افریقہ کاہو،جہاں بھی ہم جائیں اورکوئی نیاطرزعمل کسی چیزکےمتعلق نظرآئےجوقرآن وحدیث سےنےمنسوخ نہیں کیاتھاتواسےہم قبول کرسکیں گے۔اگروہ ہمارےرائےمیں معقول بھی ہو۔
سوال نمبر13:- کیایہ درست ہے کہ عراق میں ذخیرہ حدیث بہت کم پہنچا،اس لیےامام حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نےقیاس سے فقہی مسائل استنباط کیےاوراس میں اہل عجم کےمزاج کی خوب رعایت کی،اس لیےاسےقبول عام حاصل ہوا۔
جواب:- میں اس خیال کےقبول کرنےکے لیےتیارنہیں ہوں۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بہت ہی ابتدائی زمانے کےفقیہ ہیں۔ان کی ولادت 80ھ۔۔ میں ہوئی تھی۔جوکوشش عہدنبوی سےاس وقت تک حدیث کومدون کرنےکےلیے شروع ہوئی تھی،ابھی تک تکمیل کونہیں پہنچی تھی اورجیساکہ میں نےپہلےبیان کیاہےوہ متخصص لوگوں(Specialists)کاکام تھا۔کچھ۔ لوگ حدیث سےدلچسپی رکھتے تھےاورکچھ۔ لوگ فقہ سےاورابھی تک ایسی کتابیں شا‏ئع نہیں ہوئی تھیں،جیسے بخاری،مسلم،حدیث کی کتابیں ہیں انکوایک فقیہ بھی آسانی سے حاصل کرکےپڑھے۔اگرامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فقہ کےکام کوچھوڑکرحدیث کی تلاش میں لگ توانھیں ساری عمرگزارناپڑتی اورفقہ کاعلم ان کی قانونی صلاحیت سے محروم ہوجاتا۔عراق میں










احادیث پہنچ چکی تھیں۔مگرامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نےبعض صورتوں میں حدیث نہ ہونےکی بناپراجتہادکرکےایک رائےدی۔لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےفوراہی بعدیعنی پچاس ساٹھ۔ سال کے اندرحدیث کے ذخیرےفقہاء کی دسترس میں بھی آگئے۔حنفی مذہب ہی کےفقہاء نےامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائےکےخلاف رائے دی اوروہ حنفی مذہب کاجزبن گئی۔جیساکہ میں نےآپ سےکہاکہ بہت سی صورتوں میں صاحبین کی رائےپرعمل کیاجاتاہے،ابوحنیفہ کی رائےپرعمل نہیں کیاجاتا،لیکن اسےحنفی مذہب ہی کہاجاتاہے۔یہ ایک تاریخی واقعہ کہ ایک زمانےمیں فقہیوں کوحدیثوں کاعلم کم تھا،لیکن انھوں نےحدیثوں سےانکاربالکل نہیں کیاتھا۔یہ کہاکہ یہ عجمیت اورایرانیت کی بناپرتھا،میری رائےمیں قطعاغلط ہے۔
سوال نمبر14:- آپ نےفرمایاکہ قانون بدلنےوالایاتوخودقانون سازہویااس سے بالاترشخصیت حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نےقحط کےدورمیں چوری کےلیےقطع یدکی سزاملتوی کردی جب کہ نہ تووہ مقنن تھے،نہ وہ پیغمبر۔آخراس کی وجہ کیاہے؟
جواب:- میں سمجھتاہوں انھوں نےقرآن مجیدکی اس آیت(الامن اضطر)(173:2)سےاستدلال اگراضطرارکی حالت پیداہوجائےتوجیساکہ عام قاعدہ ہےکہ"الضرورات تنیح المحظورات"حالت اضطرارمیں ممنوعات بھی مباح ہوجاتے ہیں،یا(Necessity know no Law)ضرروت کسی قانون کی پرواہ نہیں کرتی۔حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کاخیال یہ تھاکہ چونکہ قحط کےزمانےمیں حالت اضطرارکی کیفیت ہوتی ہے،لہذااس قدررعائت کی جائےاگرایسانہ کیاجاتاممکن ہےبہت سےلوگ مرجاتے اوران کےمرنےیعنی خودکشی کرنےکاوبال حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ پرپڑتا۔ظاہرہے ایک خداترس حکمران اس صورت حال کوبرداشت نہیں کرسکتا۔
سوال نمبر15:- اجماع سے کیامرادہے،اجماع امت یااجماع علماء؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جس حدیث سےاجماع کاثبوت ملتاہے۔اس میں تواجماع امت کےلیےفرمایاگیاہےکیایہ اجماع ممکن ہے؟کیونکہ مسلمان دنیاکےمختلف ممالک میں پھیلےہوئے ہیں۔اس صورت میں کون سااجماع قانون بن سکےگا،اجماع اہل یااجماع اہل پاکستان؟
جواب:-میں سمجھتاہوں کہ سوال کرنےوالےدوست اگرمیرے بیان سے واقف ہوچکتےجوابھی تھوڑی دیرپہلےمیں نےبتایاکہ اجماع کوکسطرح منظم کیاجاسکتاہےاورکسطرح Insitutionalize کیاجاسکتاہے،توسوال کاایک جزء باقی نہ رہتاہے۔میں اس سوال کاجواب دےچکاہوں کہ اجماع امت اوراجماع علماء میرے نزدیک ایک ہی چیزہیں۔اجماع امت سےمرادیہ نہیں ہے کہ ہران پڑھ شخص کی بھی رائےلی جائےبلکہ اسکے معنی یہ ہیں کہ امت کےعلماء کی رائے،جیساکہ میں نےابھی تھوڑی دیرپہلےعرض کیاہےکہ شخص کوکس خاص علم سےکوئی واقفیت اورلگاؤنہیں ہےتواسےمہم جو














(Adventurer)بن کراس علم مں دخل دینا،نہ اسکے لیےمناسب ہوگااورنہ اس علم کےلیےسودمندہوگا۔لہذااس سےمرادعلماء ہی ہیں اورعلماء میں بھی یہ شرط لگاؤں گافقہاء کی ،یعنی جس شخص کوعلم قانون سے دلچسپی اوروقفیت ہےاوراس میں ایک حدتک خصوصی لگاؤہواسی کورائےدینےکاحق ہوگا۔رائےدینےکےمعنی یہ نہیں کہ رائےکوقبول بھی کیاجائے۔وہ رائےدےگا،دوسراشخص اس کے خلاف رائےدےگا۔مثلامیںنےرائےدی جوناقص تھی،اسےآپ ردکرنےکی کوشش کی۔اب تیسراشخص فیصلہ کرےگاکہ میری رائےقبول کرےیادوسرےشخص کی رائے۔اس لیےمیری رائےمیں ،رائےدینے میں کوئی ممانعت نہیں ہونی چاہیےبلکہ رائےقبول کرنےمیں احتیاط کی ضرورت ہے۔آپ فیصلہ کریں کہ کون سی رائےامت کےلیے اوراللہ کےنزدیک مقبول ہونےکی صلاحیت رکھنےوالی ہے اورکونسی رائےنہیں۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ۔
 
Top