ناراض ہوکر میکے بیٹھی بیگم کے نام
اری نیک بخت جب دارِ فانی سے جانا ہر نفس کو ٹھہرا، تم میکہ چلی گئیں تو کون سا غضب ہوگیا۔ اصل غضب تو یہ ہوا کہ کوئی چیز اپنی جگہ پہ چھوڑ کے نہ گئیں۔ احساس اس قضیہ کا تب ہوا جب مدتوں بعد طبیعت نے جوش مارا اور برسوں کی سُستی کو چستی نے ڈھیر کیا۔ یعنی میں نے دل میں غسل کرنے کی ٹھان لی۔ کوئی ظہر کا وقت ہوگا، اذان کی آواز کانوں میں پڑی تو غیرت ایمانی نے جوش مارا کہ صاحب خدا سےا یسی بھی کیا بیگانگی کہ اس کے گھر ہی جانا چھوڑ دیا۔ ارے میاں ذرا دیر کو ہی سہی کبھی کبھار جھانکی مار لینے میں حرج ہی کیا ہے۔ سو چا برسوں بعد پہلی بار خدا کے گھر جارہے ہیں اسی بہانے نہادھو لیں، صاف کپڑے پہن لیں۔
کپڑے تو سمجھو تین ماہ پہلے گھر چھوڑتے وقت تم جو پہنا کر گئی تھیں وہی آج تک زیب تن کیے پھر رہا ہوں۔ کئی بار سوچا تبدیل کرلوں پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔ خیر خدا کا نام لے کر نہانا شروع کیا۔ اب تم تو جانتی ہو برسوں بعد یہ کام کیا تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کہاں سے شروع کیا جائے اور کیسے ختم ہو۔ بہرحال جتنا یاد آتا گیا ہاتھ پاؤں مارتا گیا۔ اسی اثناء میں یاد آیا کہ اس عمل کے دوران صابن کا استعمال بھی لوازمات میں شامل ہے۔سو ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں مگر اس جنس کی کسی شے کو پاس نہ پایا۔ کئی بار دل میں آیا کہ اس نوعیت کی دیگر اشیاء مثلاً کپڑے دھونے کا سفوف یا بال دھونے کے محلول کو استعمال میں لایا جائے مگر نتائج معلوم نہ ہونے کے باعث احتراز برتا۔
اب غسل کو درمیان میں چھوڑ رکھا ہے۔ اور بیان اس ساری تفصیل کرنے کا یہ ہے کہ بے شک لڑائی جھگڑا اپنی جگہ، نہ تم اپنی ضد چھوڑو گی نہ ہم حق سے ہٹیں گے۔ تاہم دل پر جبر کا پتھر رکھ کر دنیا سے جاتے جاتے اتنی مہربانی ضرور کرجاؤ کہ دو گھڑی کا وقت نکالو اور گھر آکر صابن اس کی جگہ پر دھر جاؤ۔
امید پہ دنیا قائم ہے۔ نہ جانے زندگی میں پھر کبھی غسل کرنے کا ارداہ جاگ اٹھے تو کم از کم صابن کی عدم دستیابی کی مصیبت کا رونا نہیں رونا پڑے گا۔ ورنہ تم تو جانتی ہو کام نہ کرنے کے لیے طبیعت ہزار بہانے ڈھونڈتی ہے۔ ایسا نہ ہو زندگی اس بات کی مصداق بن جائے کہ یا تو نہلائے دائی یا نہلائیں چار بھائی!
والسلام
افقط
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا