سونا معیشیت کی بنیاد نہیں۔ مال معیشیت کی بنیاد ہے۔ سونے کی مثال اس لئے دی جاتی ہے کہ یہ ایک آسان قابل انتقال ملکیت ہے جس کی قیمت کا تعین اس کی ڈیمانڈ کی وجہ سے کیا جاسکتا ہے۔ ورنہ یہ صرف اور صرف ایک دھات ہے۔
اس کی مثال آپ کے گھر کی ہے جو کہ مال ہے۔ لیکن آپ کے گھر کی قیمت کا تعین کسی پوائنٹ آف ٹائم میں نہیں کیا جاسکتا۔
مال کے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں ٹرانسفر ہونے کے لئے -- وعدے کا نوٹ --- استعمال کیا جائے یا پھر ---- کوئی قابل انتقال دھات -- دونوں میں ایک بڑا فرق ہے وہ یہ کہ - وعدے کا نوٹ - دے کر دینے والا ملک مکر جاتا ہے۔
پھر اصل مال کے عوض ، ایک سے زائید ---- وعدے کا نوٹ ---- دینا عام ہے۔
یہ ایسی قانونی بے ایمانی ہے جیسے میں اپنا مکان ایک سے زائید بنکوں کو قرضہ میں دے دوں۔ اور اس طرح حاصل ہونے والے ---- بنک نوٹ ---- سے کسی اور کے نام سے 10 مکان خرید لوں۔ پھر بنکوںکو کہوں کہ میں قرض ادا نہیں کرسکتا تم وہ مکان لے لو۔
بنک نوٹ کا معاملہ اس سے بھی خراب ہے۔ ایک ڈالر کے --- مال --- کے عوض ، دس عدد --- وعدے کے بنک نوٹ ---- جاری کئے جاتے ہیں۔ پھر جب وقت آتا ہے تو ان -- وعدے کے بنک نوٹوں --- کے عوض کچھ بھی نہیں دیا جاتا ہے۔
آپ بازار سے ایک ایسا ڈالر کا بنک نوٹ اٹھائیے جو 1933 میں جاری ہوا ہو اور جاری کرنے والے بنک کے پاس جا کر اس مال کا تقاضہ کیجئے جو 1933 میں اس سے خریدا جاسکتا تھا ۔ بنک آپ کا مذاق اڑائے گا۔۔۔۔ جبکہ اصل میں وہ بنک نوٹ -- کسی نے ایک آؤنس سونے (مال ) کے عوض لیا تھا۔
یہ ہے --- وعدے کے بنک نوٹ ----- کی حقیقی قیمت ۔
اسی طرح آپ کے پاس 1990 کا ، کاغذی عراقی دینار ہے یا پھر 1970 کا کاغذی افغانی ہے تو آپ اس --- وعدے کے نوٹ --- کو بھنا نہیں سکتے ۔۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ مال کو --- وعدے کے نوٹ ---- سے بہتر سمجھتے ہیں ۔۔ خاص طور پر ایسے مال کو جو باآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاکر بھنایا جاسکے۔ اس کے لئے لوگ سونے کا انتخاب کرتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں ایک ڈالر کے سونے کی قیمت صرف ایک ڈالر ہے۔ لیکن فیڈرل ریزرو کے پاس سونے کی قیمت ایک سے زائید ڈالر ہے -- کیونکہ فیڈرل ریزرو جو کہ ایک پرائیویٹ ادارہ ہے۔ ایک ڈالر کے مال کے عوض --- ایک سے زائید -- وعدے کے ڈالر کے نوٹ --- جاری کرسکتا ہے۔
مال ---- زمین، جائیداد، کاروبار وغیرہ کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے۔ اور قابل انتقال دھاتوں کی شکل میں بھی۔ لیکن اس کی ہر صورت میں مال کی قیمت آپ کے ہاتھ میں کچھ اور دنیا کے کچھ بڑے بنکوں کے ہاتھ میں کچھ اور ہوتی ہے۔
معیشیت کی کتب۔ میں صرف وہ معاملات پڑھائے جاتے ہیں جو ایک کنزیومر یا عوام کے لئے ہوں۔ وہ نظریات نہیں پڑھائے جاتے جو ان خواص کے لئے ہوں۔ کم از کم عارف کریم صاحب ان نظریات سے بھی واقف ہیں جو کہ خواص کے لئے ہیں۔
اگر دولت کے --- خواص کے نظریات --- سامنے رکھے جائیں تو بہت سے لوگ تو اس کو سمجھتے ہی نہیں ہیں اور بہت سے لوگ اس کو سازشی کہانیاں قرآر دیتے ہیں۔ لیکن ھقیقت یہ ہے کہ خواص کے لئے نظریات اپنی جگہ موجود ہیں ۔ بہت بڑے مالیاتی ادارے جیسے فیڈرل ریزرو اور آئی ایم ایف ان خواص کے نظریات کی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں۔
بہتر طریقہ یہ ہے کہ جو ممالک امیر رہنا چاہتے ہیں وہ مال اپنے پاس رکھیں اور اس کے اپنے خود کے --- وعدے کے نوٹ --- جاری کریں ۔ بجائے اس کے کہ کسی دوسرے نظام کے --- وعدے کے نوٹ --- کی عوض اپنا مال بیچتے رہیں۔
جن ممالک کے پاس صرف وعدے کے نوٹ ہیں وہ ایک ہنگامی صورت میں ان کو جلا کر ہاتھ بھی نہیں تاپ سکتے ۔۔۔۔ اس لئے کہ یہ -- وعدے کے نوٹ -- بھی موجود نہیں۔ صرف بنک میں ایک نمبر لکھا ہوا ہے۔
اگر کل سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے یو ایس ایے ، کنیڈا اور میکسیکو کے ساتھ مل کر نارتھ امریکی یونین بناتا ہے ۔ اور یہ سیاسی تبدیلی --- این اے یو--- کی شکل میں ایک گروہ کی جنگ کی وجہ سے وجود میں آتی ہے تو کیا --- وعدے کے امریکی ڈالر ---- کے عوض ---- مال --- ملے گا یا پھر نیا --- وعدے کا نوٹ امیرو --- ملے گا؟
گو کہ تمام امریکی --- وعدے کے نوٹ -- امریکہ ہی نے چھاپے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی -- بلیک منی --- کا نظریہ موجود ہے۔ اگر یہی -- وعدے کے نوٹ- کی جگہ اصل مال جیسے --- سونا، چاندی یا یورینیم --- دیا گیا ہوتا تو اس کو بلیک منی کس طرح قرآر دیا جاتا؟؟؟؟
امریکہ میں سیاسی تبدیلی کی صورت میں یا نیا سکہ جاری ہونے کی صورت میں ساری بلیک منی --- خود بخود امریکہ کی ملکیت بن جائے گی کہ اس ---- وعدے کے نوٹ --- کی جگہ امریکہ نے کچھ بھی نہیں دینا۔
اس چھوٹے سے مراسلہ میں سب کچھ نہیں لکھا جاسکتا۔۔۔ لیکن اگر یہ ذہن میں --- مال --- اور --- مال کے عوض وعدے کا نوٹ --- کا فرق نمایاں کرتا ہے تو پھر سجھئے کہ میری محنت وصول ہوگئی