اعجاز بھائی چونکہ اس فورم پر روحانیت کا کوئی فورم نہیں ہے اس لیئے میں فی الحال پوسٹ نہیں کررہا ہوں میرے فاضل دوست عارف کریم ایک دھاگہ بنا لیا ہے
http://www.urduweb.org/mehfil/showth...075#post692075

جناب نے بہت اچھا کیا ہے اب میں مزید کوئی عذر بھی نہیں کرسکتا ہوں بہرحال کوشش کرتا ہوں کہ جلد از جلد میرے پاس محفوظ اردو ان پیج میں جو مواد ہے اس کو یونی کوڈ کرکے پیش کرسکوں لیکن اس کے لیئے ذرا آپ لوگوں کو انتظار کرنا پڑے گا پہ نہیں کیا بات ہے کہ اچانک میرا پیٹ چل پڑا ہے اوپر سے رات کو بجلی چلی گئی تو ہم میاں بیوی دیر تک ایک ٹاپک پر گفتگو کرتے رہے پھر ہم سوگئے رات کو اچانک بارش ہوگی جس سے میں بھیگ گیا اور پھر مجھے بخار ہوگیا ہے یونی کوڈ ہونے تک اور صحت یاب ہونے تک اجازت پھر ملیں گے اللہ حافظ
 

عثمان

محفلین
السلام علیکم
عثمان بھائی جہاں پر آپ رہتے ہیں یعنی کینیڈا وہاں پر بھی تو اس موضوع یعنی روحانیت پر تحقیق ہوئی ہوگی اور ہو رہی ہوگی کچھ اس کے متعلق حقائق تو آپ بھی بتا سکتے ہیں بشرطیکہ روحانیت میں آپ کو کوئی دلچسپی ہو۔
عارف بھائی نے بھی اپنے ایک تجربے کا ذکر کیا تھا لیکن انہوں نے تو لنک دے کر جان چھڑالی حالانکہ اگر وہ اپنے تجربے کو اپنے الفاظ میں سمجھاتے تو زیادہ بہتر ہوتا یا شاید انہوں نے میری بات کو طنز یا مذاق سمجھا اگر ایسا ہے تو میں معذرت خواہ ہوں لیکن میرا مقصد حقیقتاً ان کے تجربے سے فائدہ اٹھانا اور خود اس تجربے سے گزرنا تھا کتابیں اور آرٹیکلز تو نیٹ پر بھرے پڑے ہیں لیکن کسی ایسے شخص سے ملاقات جو خود اس کا تجربہ رکھتا ہو اور آپ کا ہم مذہب اور ہم ملک ہو یقیناً وہ آپ کی کیفیات کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے اور اچھے اور بہتر طریقے سے آپ کی رہنمائی کرسکتا ہے، میری ایک دفعہ پھر آپ دونوں بھائیوں سے گذارش ہے کہ اس موضوع پر اپنے تجربات ضرور شیئر فرمائیں اور رہنمائ بھی کریں۔ امید ہے کہ آپ ناامید نہیں فرمائیں گے۔
شکریہ
والسلام
اعجاز احمد

اگر آپ کے نزدیک "روحانیت" ماورائے سائنس اور اس کائنات کے فطری قوانین سے ماوراء کسی چیز کا نام ہے تو میرا ایمان یہ ہے کہ وہ انبیاء کرام پر آنے والی وحی کی صورت میں اب ختم ہوچکی۔
باقی رہ گئے عام انسان۔۔۔تو جناب وہ فکر ہی کرسکتے ہیں۔ تخیل کو پرواز دے سکتے ہیں۔ فلسفہ آرائی کے ذریعے کائنات کی حقیقت کو سمجھنے کی سعی کرسکتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں وہ جن "کیفیات" سے گذرتے ہیں ان کا ماخذ ذہن انسانی ہے۔ نفسیات ہے۔ ناکہ کوئی مافوق الفطرت چیز۔ اور نفسیات پر تحقیق تو جاری و ساری ہے۔ :)
 
اگر آپ کے نزدیک "روحانیت" ماورائے سائنس اور اس کائنات کے فطری قوانین سے ماوراء کسی چیز کا نام ہے تو میرا ایمان یہ ہے کہ وہ انبیاء کرام پر آنے والی وحی کی صورت میں اب ختم ہوچکی۔
مستند احادیث میں ہے کہ رسول کریم نے فرمایا “سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں“۔ ۔۔ ۔چنانچہ روحانیت ختم نہیں ہوئی۔
روحانیت اور نبوت مترادف الفاظ نہیں ہیں:)
صوفیاء کے سلاسل طریقت روحانیت ہی کی بدولت جاری و ساری ہیں۔
 

عثمان

محفلین
مستند احادیث میں ہے کہ رسول کریم نے فرمایا “سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں“۔ ۔۔ ۔چنانچہ روحانیت ختم نہیں ہوئی۔
روحانیت اور نبوت مترادف الفاظ نہیں ہیں:)
صوفیاء کے سلاسل طریقت روحانیت ہی کی بدولت جاری و ساری ہیں۔

براہ کرم میرا مراسلہ پورا پڑھیے۔ خواب کے مطلق جواب میرے مراسلے میں شامل ہے۔ خواب کا ماخذ انسانی ذہن اور نفسیات ہے۔ جس کی تائید میں اپنے مراسلے میں کرچکا ہوں۔:)
روحانیت کی تعریف آپ کا اپنا من پسند اعتقاد ہے۔ استدلال اور ثبوت اس کے حق میں کوئی نہیں۔ یار لوگوں نے الفاظ کے ہیر پھیر سے خوب تاویلات نکال رکھیں ہیں۔ :)
صوفیاء حق کا فلسفہ ان کے تفکر کا نتیجہ ہے۔ ماورائے فطرت بات کوئی نہیں۔
 

ijaz1976

محفلین
اگر آپ کے نزدیک "روحانیت" ماورائے سائنس اور اس کائنات کے فطری قوانین سے ماوراء کسی چیز کا نام ہے تو میرا ایمان یہ ہے کہ وہ انبیاء کرام پر آنے والی وحی کی صورت میں اب ختم ہوچکی۔
باقی رہ گئے عام انسان۔۔۔تو جناب وہ فکر ہی کرسکتے ہیں۔ تخیل کو پرواز دے سکتے ہیں۔ فلسفہ آرائی کے ذریعے کائنات کی حقیقت کو سمجھنے کی سعی کرسکتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں وہ جن "کیفیات" سے گذرتے ہیں ان کا ماخذ ذہن انسانی ہے۔ نفسیات ہے۔ ناکہ کوئی مافوق الفطرت چیز۔ اور نفسیات پر تحقیق تو جاری و ساری ہے۔ :)

عثمان بھائی آپ نے یقیناً قرآن پاک میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ بلقیس کے تخت کا واقعہ تو یقیناً پڑھا ہوگا جب حضرت سلیمان علیہ السلام کے علم میں آیا کہ ملکہ بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضری دینے کے لئے اپنے ملک سے چل پڑی ہے تو آپ نے درباریوں سے پوچھا کہ کون ہے جو اس کے آنے سے پہلے ملکہ بلقیس کا تخت یہاں پہنچا دے چنانچہ ایک جن اٹھ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں آپ (حضرت سلیمان علیہ السلام) کا دربار ختم ہونے سے پہلے وہ تخت لے آئوں گا حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں مجھے ا س سے پہلے چاہئے تو ایک شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے وہ تخت لےآئوں گا، جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے مڑ کر دیکھا تو وہ تخت ان کے پاس پہنچ چکا تھا۔
آیت مع ترجمہ:
قَالَ الَّذِيْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَ ۭ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ ڷ لِيَبْلُوَنِيْٓ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ ۭ وَمَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّيْ غَنِيٌّ كَرِيْمٌ : سورہ (النمل آیت نمبر 40؀)
ترجمہ مکہ: جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں (١) جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے، تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری، شکر گزار اپنے ہی نفع کے لئے شکر گزاری کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا پروردگار (بے پروا اور بزرگ) غنی اور کریم ہے۔
بتائیے ایسا کونسا سائنسی اصول کار فرما تھا جس کے ذریعے اس شخص نے پلک جھپکنے سے پہلے وہ تخت وہاں پر پہنچا دیا، قرآن مجید تو کہتا ہے کہ کتاب کا علم تھا، یہ روحانی علم کی طاقت نہیں تو اور کیا ہے۔ اکثر تفاسیر میں تو یہی معنیٰ دیکھنے میں آئے ہیں۔ باقی آپ خود اس کی وضاحت فرما دیں۔
والسلام
اعجاز احمد
 

عثمان

محفلین
اعجاز بھائی۔۔۔
انبیاء کے دور میں ہونے والے واقعات اور ان کی حقیقت اور ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کوئی عام شخص نہ تھے۔ بلکہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کو کچھ ایسی صلاحیتیں عطا کررکھی تھیں۔ جو کسی اور کو نہ ملیں۔ حضرت سلیمان کے قبضہ میں جنات تھے۔ ہوا تھی۔ پرندوں کی بولی سمجھ سکتے تھے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو اس سے بھی آگے تھے۔ اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔
یہ واقعات ان انبیا کے لئے ظہور پذیر ہوئے جن پر اللہ تعالیٰ اپنی وحی بھیجتا تھا۔ انبیا کے علم اور صلاحیت کا ذریعہ صرف ان کا شعور ، مشاہد اور تجربہ ہی نہیں بلکہ وحی بھی تھا۔
میں آپ اور باقی سب لوگ امتی ہیں۔ وحی کے ذریعے انبیا کو ملی طاقتیں ہمیں دستیاب نہیں۔
جس واقعے کا ذکر آپ نے کیا ہے اس کی تفصیل معلوم نہیں۔ اس بارے میں مختلف مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔ وہ شخص کون تھا؟ انسان تھا کہ جن یا حضرت سلیمان کے قبضہ میں کوئی اور مخلوق تھی؟ ہم میں سے کسی کو تفصیل معلوم نہیں۔ آپ کی "روحانیت" کے حق میں استدلال کہاں سے آگیا۔ عین ممکن ہے کہ عالم جنات میں جن کے پاس یا کسی اور مخلوق کے پاس اسطرح کے کام کرنے کی قوت ہو۔ مثلا وہ عام انسانوں کی نسبت وقت میں بہت تیزی سے سفر کرسکتا ہو (طبیعات میں نظریہ اضافیت اس پرکچھ روشنی ڈالتا ہے) ۔لیکن صوفی حضرت سلیمان نہیں۔ اس پر وحی نہیں اترتی۔
صوفیا کرام جن روحانی کیفیات کا ذکر کرتے ہیں وہ ان کے شعور کی کیفیات ہیں۔ جسطرح علم نفسیات میں ہپنا ٹزم کا ذکر ہے۔ جو دراصل ذہن کی ایک مخصوص حالت کا نام ہے۔ عین ممکن ہے کہ ذہن جانے کن کن مرحلوں سے گذر سکتا ہو۔ سائنسی تحقیق جاری و ساری ہے۔ یہ تمام چیزیں قوانین فطرت میں ہی آتی ہیں۔
ماورائے قانون فطرت کی بات وہ کرتے ہیں جنہیں سائنس سے چڑ ہے۔ جو لاشعوری طور پر سائنس کو دین اسلام کے مخالف کوئی نظریہ یا عمل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ سائنس فطرت کو سمجھنے کا ایک عمل ہے۔ وہ چیزیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتیں ہم اسے جادو ، کشف یا معجزہ وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب تحقیق کے نتیجے میں ان چیزوں کا راز کھلتا ہے تو ہم اسے سائنس کہتے ہیں۔ صوفیوں کا کشف اور وجد وغیرہ بھی کچھ اسی طرح ہے۔ کہ جب تک سائنس اور بالخصوص علم نفسیات کا دائرہ بہت محدود تھا تب تک ہم کشف وغیرہ کو ماورائے فطرت کوئی شے تصور کرتے تھے۔ لیکن سائنس جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے کئی باتوں کی تصویر واضح ہوتی جارہی ہے۔ ذہن ، اعصاب اور احساسات کی مختلف حالتیں دریافت ہوتی جارہی ہیں۔
 
اعجاز صاحب ہم نے آپ کو پہلے بھی سمجھایا تھا کہ اس بندے سے نہ الجھو لیکن مجھے لگتا ہے کہ آپ کے دل کا زور زیادہ ہے جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے کہا کہ یہ شخص ہر جگہ اپنی جاہلانہ لات مارتا ہے سو اب توجاہلانہ دولتی جھاڑی ہے ۔:mad:
ذرا دیکھیئے اس کی ذہنی اپروچ کے جس چیز کا زکر قرآن مجید میں موجود ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے درباری جس کا نام مفسرین کرام آصف بن برخیاہ بتاتے ہیں نے تخت پلک جھپکتے میں حاضر کیا تھا اس کو یہ شخص انسان نہیں جن بتا رہا ہے یعنی انسان جس کی بہت اعلیٰ شان ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں ہے کہ “ کرمنا یا بنی آدم“ اس کی شان کو یہ گھٹا رہا ہے اور ایک جن کی شان بڑھا رہا ہے کہ یہ کام جن نے کیا ہے۔ کوئی اس سے پوچھے کہ اے بندہ خدا اگر جن سے ہی کروانا ہوتا تو اس کو پہلے نہ کہہ دیتے کہ ہاں جا تخت اٹھا لا لیکن اس بے چارے کو کیا پتہ کہ ادھر مقصد انسان جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس کی شان بتانا مقصود تھی۔
 

عثمان

محفلین
اعجاز بھائی۔۔
روحانی بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے! :grin: میں نے آپ کو بتایا تھا کہ مجھے آپ کو پی ایم کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو خود ہی پتا چل جائے گا کہ حضرت روح دوران گفتگو کیسے پھول جھاڑتا پھرتا ہے۔ بندہ حضرت روح سے پوچھے کہ اگر آپ کے نزدیک جن کی "شان" تخت جلد لانے سے بڑھتی ہے۔ تو جن کے آنکھوں سے اوجھل ہونے کو یہ کس کھاتے میں ڈالتا ہے؟
قرآن کریم نے اس شخص کی نشاندہی نہیں کی۔ مختلف مفسرین نے مختلف اندازے دوڑائے ہیں۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ حضرت روح کے پاس اپنے "روحانی علم" کی بدولت اس کتاب کا نام بمع تفصیل موجود ہوگی۔
 
غالباً کسی حدیث میں پڑھا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ انسان ہر چیز کے لیے اپنی عقل لڑائے گے کہ یہ چیز ایسے وجود میں آ گئی اور یہ ایسے وجود میں آ گئی،یہاں تک کہ اللہ کے بارے میں انسان عقل دوڑائے گا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود کیسے ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کسی پوچھا کہ یا رسول اللہ ایسے وقت میں ہم کیا کریں؟ تو پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فداہ امی وابی نے فرمایا: کہہ دینا اٰمنتُ بِاللہِ وَ کَفَرتُ بِالطّٰاغُوتِ۔
یہ بات بندہ نے اپنی یاد سے لکھی ہے، کیا کوئی صاحب باحوالہ اس حدیث کو نقل فرما دیں گے۔ بندہ کے علم میں اضافہ ہوگا، بتانے والے کی نوازش ہو گی۔
 

عثمان

محفلین
غالباً کسی حدیث میں پڑھا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ انسان ہر چیز کے لیے اپنی عقل لڑائے گے کہ یہ چیز ایسے وجود میں آ گئی اور یہ ایسے وجود میں آ گئی،یہاں تک کہ اللہ کے بارے میں انسان عقل دوڑائے گا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود کیسے ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کسی پوچھا کہ یا رسول اللہ ایسے وقت میں ہم کیا کریں؟ تو پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فداہ امی وابی نے فرمایا: کہہ دینا اٰمنتُ بِاللہِ وَ کَفَرتُ بِالطّٰاغُوتِ۔
یہ بات بندہ نے اپنی یاد سے لکھی ہے، کیا کوئی صاحب باحوالہ اس حدیث کو نقل فرما دیں گے۔ بندہ کے علم میں اضافہ ہوگا، بتانے والے کی نوازش ہو گی۔

واقعی!
کتنا طاغوتی دور آچکا ہے۔ اللہ تمام عقل لڑانے والوں بشمول سائنسدانوں کو جہنم واصل کرے۔ :mad:
 

محمد شیخ

محفلین
السلام علیکم!
درج ذیل مضمون جناب ہارون یحییٰ کی اردو ویب سائٹ سے لیا گیا ہے جس کا لنک یہ ہے:
ہارون یحیٰ اردو ویب سائٹ مضامین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب کی حقیقت
حقیقت میں ہم خواب میں کسی سے بات نہیں کرتے ہیں۔ہم کسی کو دیکھتے نہیں ہیں ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں۔نہ ہم بھاگتے ہیں اور نہ چلتے ہیں۔ کوئی بھوت ہمیں ڈراتا نہیں ہے اور نہ ہمارا پیچھا کرتا ہے اور نہ ہی ہمارے سامنے کوئی ہرا بھرا باغ ہوتا ہے۔نہ ہی بلند و بالا عمارتیں ہوتی ہیں کہ جہاں سے ہمیں نیچے دیکھنے سے ڈر لگے اور نہ ہی لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ ان ساری تصاویر کے ہوتے ہوئے ہم اصل میں اکیلے اپنے بستر میں ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ہجوم کا شوروغل جو کہ ہم اپنے اطرف میں محسوس کرتے ہیں حقیقت میں کبھی بھی ہمارے خاموش کمرے تک نہیں پہنچتا۔
جب ہم محسوس کر رہے ہوتے ہیں ہم بھاگ رہے ہیں حقیقت میں ہم بلکل اپنی جگہ سے نہیں ہلتے۔جب ہم اپنے آپ کو کسی کے ساتھ گرماگرم بحث میں دیکھتے ہیں اصل میں ہم اپنا منہ تک نہیں کھولتے۔ تاہم خواب میں ہم یہ ساری چیزیں واضح انداز میں تجربہ کرتے ہیں۔ ہمارے درمیان لوگ، ہمارے اطراف میں پائی جانے والی چیزیں اتنی حقیقی نظر آتی ہیں کہ ہم یہ تصّور نہیں کرسکتے کہ یہ سب خواب کی حصّہ ہیں۔
ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ایک کار ہم سے ٹکرائی اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکلیف کو ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں۔ جب کار ہماری طرف آتی ہے تو ہم حقیقی ڈر محسوس کرتے ہیں، اسکی رفتار کو محسوس کرتے ہیں اور اس تصادم کے لمحے کو تجربہ کرتے ہیں۔ ان احساسات کی حقیقت کے بارے میں ہمیں ذرا بھی شک وشبہ نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ ہمارے دماغ میں ہو رہا ہوتا ہے مگر ہمیں ذرا بھی اسکا خیال نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اگر ہمین خواب میں بتایا جاتا ہے کہ ہم خواب دیکھ رہے ہیں ہم مکمل طور پر اس امکان کو نظر انداز کرتے ہیں اور خواب کی اس دنیا کو ہی حقیقت سمجھتے ہیں۔ جب ہم اٹھتے ہیں تو وہ خواب میں پیش آئی ہوئی باتوں کو اسی طرح محسوس کرتے ہیں۔ کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی یہ جاننے کے لیے کہ اصل میں ہم خواب میں تھے۔
خواب ایک مظبوط اور واضح مثال ہے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہمارے لیے باہر کی دنیا صرف ایک احساس ہے۔ جسطرح ایک خواب دیکھنے والے شخص کو کوئی اشکال نہیں ہوتا کہ اسکے اطراف میں پائی جانے والی چیزیں حقیقی ہیں بلکل اسی طرح یہ بہت مشکل سے سمجھ آتا ہے کہ جس دنیا کو ہم حقیقی دنیا سمجھتے ہیں وہ صرف ہمارے دماغ میں ہے۔ ہم ان تصویروں کو جنہیں ہم حقیقی زندگی کا نام دیتے ہیں بلکل اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم خواب میں تجربہ کرتے ہیں۔ دونوں قسم کی تصویریں ہمارے دماغ میں بنتی ہیں۔ ہمیں دونوں تصویرں کے حقیقی ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا جیسا کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ تاہم ہمارے پاس ثبوت ہے کہ خواب حقیقت نہیں ہے۔ جب ہم اٹھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ "یہ سب تو ایک خواب تھا" تو ہم کسطرح یہ ثابت کر سکتے ہیں اس وقت جاگنے کی صورت میں ہم خواب نہیں دیکھ رہے۔
اللہ اس سچّا ئی کے بارے میں ان آیتوں میں فرماتے ہیں:

"تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی جانب چلنے لگیں گے۔ کہیں گے کہ ہائے ہائے ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا یہی ہے جسکا وعدہ رحمٰن نے کیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہ دیا تھا سورۃ یٰس ۵۱-۵۲


اس وقت اس بات کا ثبوت سائینسی تحقیق فراہم کرتی ہے۔ اس معاملہ میں وہ لمحہ جب ہم خواب سے اٹھیں گے وہ وقت ہوگا جب ہم اس دنیا سے کوچ کر جایئنگے۔ تو اصل چیز جو کرنے کی ہے وہ یہ کہ اس دنیا کو ایک دھوکہ خیال کیا جائے جسے ہم صرف اپنے دماغ میں تجربہ کرتے ہیں اور پھر اسکے مطابق اپنی زندگی کا روّیہ اختیار کیا جائے
رانا ڈیسکارٹس خواب کی حقیقت کے بارے میں اسطرح لکھتا ہے۔
"میں خواب دیکھتا ہوں یہ کرنے کا وہ کرنے کا، ادھر آنے کا ادھر جانے کا مگر جب میں اٹھتا ہوں میں محسوس کرتا ہوں کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا اور میں کہیں نہیں گیا میں تو ہر وقت خاموشی سےاپنے بستر میں لیٹا تھا کون اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ میں اس جاگنے کی حالت میں خواب نہیں دیکھ رہا، اور کہ میری تمام زندگی خواب نہیں ہے۔"
یقینا ہم کبھی بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ ہمارے درمیان موجود لوگ اور جس زندگی سے ہم اس وقت گزر ہے ہیں ایک خواب نہیں ہے۔ جب ہم خواب میں برف کے ایک ٹکڑے کو چھوتے ہیں تو اسکی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہیں اور اس بات کی گواہی بلکل اچھے انداز میں دیتے ہیں۔جب ہم ایک گلاب کو سونگھتے ہیں تو اسکی خوشبو کو بلکل بے عیب انداز میں محسوس کرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے چاہے ہم حقیقت میں گلاب سونگھیں یا خواب میں دونوں صورتوں میں ایک ہی جیسا عمل ہمارے دماغ میں وقوع پزیر ہوتا ہے۔
اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہم کبھی نہیں جان سکتے کہ ہم کب حقیقت میں صحیح تصویر کا اور گلاب کی خوشبو کا تجربہ کرتے ہیں۔ یعنی دونوں حالتیں ہمارے لیے خواب کی مانند ہیں اور ان دونوں حالتوں میں ہم کبھی بھی اصل گلاب کا تجربہ نہیں کرتے۔ نہ ہی گلاب کی تصویر اور نہ اسکی مہک ہمارے دماغ میں موجود ہے۔ لہٰذا دونوں حالتیں حقیقت کی عکاسی نہیں کرتیں۔
اگر کسی کو یہ پتا چل جائے کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے تو وہ کبھی بھی کار کو اپنی طرف آتا دیکھ کر خوف زدہ نہیں ہوگا اور یہ حقیقت جان لے گا کہ دولت اور اشیاء جو اسکے پاس ہیں وہ عارضی ہیں اور وہ کوئی لالچ نہیں کرے گا۔ وہ جانتا ہے کہ اس خواب کی دنیا سے باہر ایک حقیقی دنیا موجود ہے۔ چناچہ جو جانتا ہے کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے اسکے لیے اطراف میں پائی جانے والی اشیاء کی کوئی اہمیت اور قیمت نہیں۔
اسی چیز کا جسے ہم حقیقی دنیا سمجھتے ہیں پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ اس شخص کے لیے جو جانتا ہے کہ یہ دنیا حقیقی نہیں ہے یہ صرف ہمارے دماغ میں پایا جانے والا احساس ہے اور جو بھی چیز وہ اس دنیا میں تجربہ کرتا ہے اسکی کوئی اہمیت اور حقیقت نہیں۔ بلکل اسی طرح جسطرح خواب کے ساتھ ہے، وہ اس جھوٹی دنیا کی نوعیت سے واقف ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ لوگ جو اس سے منافع چاہتے ہیں وہ اصل میں موجود ہی نہیں ہیں اور اطراف میں پائی جانے والی فریبی خوبصورتی اور کشش صرف ایک دھوکا ہے۔ چناچہ اس دنیا میں پائی جانے والی چیزوں کی پیاس اور ذاتی مفادات کے لیے توانائی خرچ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ وہ ایک ختم ہوجانے والی اور عارضی دنیا میں رہتا ہے اور جانتا ہے کہ اصل زندگی تو اس زندگی کے بعد شروع ہوگی۔
مصنف رمیز ساسن اسکے بارے میں کہتا ہے کہ
"یہ بلکل ایک فلم کی طرح ہے۔ ایک شخص جو فلم دیکھ رہا ہے وہ اس فلم میں پائے جانے والے ایکٹر اور انکے ساتھ اسکرین پر پیش آنے والے واقعات کے ساتھ منہمک ہو جاتا ہے۔وہ ہیرو کے ساتھ خوش بھی ہوتا ہے اور غمگین بھی ہوتا ہے، مایوسی کا شکار بھی ہوتا ہے، چلّاتا بھی ہے اور ہنستا بھی ہے ۔اگر ایک موقع پر وہ اس فلم کو روکنے کا فیصلہ کرے اور اپنی توجہ فلم سے ہٹا دے تو وہ اس دھوکہ سے باہر نکل جاتا ہے جو اس فلم نے اس پر اثر انداز کیا ہوتا ہے۔ پرجیکٹر اسکرین پر تصویریں چھوڑتا ہے مگر وہ یہ جانتا ہے کہ یہ صرف روشنی ہے جو اس فلم کو چلاتی ہے۔ جو اسکرین پر نظر آتا ہے وہ حقیقت نہیں مگر وہ وہاں موجود ہے۔ وہ فلم دیکھتا ہے اور وہ فیصلہ کرتا ہے کہ آنکھیں اور کان بند کرلے اور اسکرین کی طرف دیکھنا بند کردے۔کیا آپ نےکبھی فلم دیکھی ہے اگر ریل پھنس جائے یا بجلی چلی جائے؟ آپ کے ساتھ کیا ہوگا اگر آپ ایک بہت ہی دلچسپ فلم دیکھ رہے ہوں اور اچانک بیچ میں اشتہارات چلنا شروع ہو جائیں؟ آپ فورا اس دھوکے سے باہر نکل آئیں گے"
جب آپ سو رہے ہوتے ہیں اور خواب دیکھ رہے ہیں اور کوئی آکر آپ کو اٹھا دے تو آپ ایک دنیا سے دوسری دنیا میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ بلکل اسی طرح یہ ہماری زندگی میں ہے جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں۔ اس خواب سے اٹھنا ممکن ہے۔
قیامت کے دن جب لوگ اٹھیں گے اسکا ذکر اس آیت میں ہے:

"اور صور پھونک دیا جائے گا وعدہ عذاب کا دن یہی ہے اور ہر شخص اسطرح آئے گا کہ اسکے ساتھ ایک لانے والا ہوگا اور ایک گواہی دینے والا۔یقینا تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پردہ ہٹا دیا آج تیری نگاہ بہت تیز ہے-سورۃ -ق ۲۰-۲۲"
May 12, 2010
(ختم شد)​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

درج بالا مضمون کے ذریعے سے جو بات مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں زندہ ہیں یہ بھی حقیقی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کچھ بھی حقیقی طور پر موجود نہیں جو کچھ بھی ہم دیکھتے ہیں سنتے ہیں چکھتے ہیں یا دیگر حواس سے محسوس کرتے ہیں وہ سب ایسے احساسات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات روح کو محسوس کراتی ہے یعنی یہ دنیا اور اس کے علاوہ آخرت اور تمام کائنات سب صرف اور صرف ہمارے محسوسات ہیں یہ چیزیں فزیکلی موجود نہیں ہیں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ایسی ہے جو حقیقی اور موجود ہے باقی سب محسوسات ہیں جیسا کہ ہارون یحییٰ صاحب نے خواب کی مثال دی ہے۔
اس حوالے سے ہارون یحییٰ صاحب کی ایک ویڈیو بھی اسی ویب سائٹ پر موجود ہے جس کا لنک یہ ہے:
THE_SECRET_BEYOND_MATTER
اس موضوع کے حوالے سے ہپناسس کی مثال بھی دی جاسکتی ہے گو کہ میں خود کبھی اس تجربے سے دوچار نہیں ہوا لیکن جو کچھ پڑھا اس کے مطابق ہپناسس یا عمل تنویم کے ذریعے جب معمول پر تنویمی نیند طاری کی جاتی ہے تو عامل جو چیز معمول کو محسوس کروانا چاہے کروا سکتا ہے، مثلاً اگر وہ معمول سے کہے کہ تم ہوا میں اڑ رہے ہو تو معمول اپنے آپ کو حقیقی طور پرہوا میں اڑتا ہوا محسوس کرے گا حالانکہ وہ کرسی یا بیڈ پر لیٹا ہوا ہوگا یا عامل اس کو کوئی ایسی چیز محسوس کروانا یا دکھانا چاہے جو فزیکلی وہاں موجود نہ ہو تو معمول اس چیز کو حقیقی چیز کی طرح ہی دیکھے اور محسوس کرے گا حالانکہ وہ چیز فزیکلی وہاں موجود نہ ہوگی سوائے اس کے کہ معمول سے ایسی بات پر عمل نہیں کروایا جاسکتا جو وہ حالت بیداری میں کرنا پسند نہ کرتا ہو اگر ایسی کسی بات پر عمل کرنے کے لئے عامل کہے گا تو معمول تنویمی نیند سے باہر آجائے گا۔
اس حوالے سے آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟ خواب کی حقیقت کیا ہے؟ دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ سب محض واہمہ اور احساسات کا مجموعہ ہے؟؟؟
 

محمد شیخ

محفلین
السلام علیکم!
درج ذیل مضمون جناب ہارون یحییٰ کی اردو ویب سائٹ سے لیا گیا ہے جس کا لنک یہ ہے:
ہارون یحیٰ اردو ویب سائٹ مضامین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب کی حقیقت
حقیقت میں ہم خواب میں کسی سے بات نہیں کرتے ہیں۔ہم کسی کو دیکھتے نہیں ہیں ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں۔نہ ہم بھاگتے ہیں اور نہ چلتے ہیں۔ کوئی بھوت ہمیں ڈراتا نہیں ہے اور نہ ہمارا پیچھا کرتا ہے اور نہ ہی ہمارے سامنے کوئی ہرا بھرا باغ ہوتا ہے۔نہ ہی بلند و بالا عمارتیں ہوتی ہیں کہ جہاں سے ہمیں نیچے دیکھنے سے ڈر لگے اور نہ ہی لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ ان ساری تصاویر کے ہوتے ہوئے ہم اصل میں اکیلے اپنے بستر میں ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ہجوم کا شوروغل جو کہ ہم اپنے اطرف میں محسوس کرتے ہیں حقیقت میں کبھی بھی ہمارے خاموش کمرے تک نہیں پہنچتا۔
جب ہم محسوس کر رہے ہوتے ہیں ہم بھاگ رہے ہیں حقیقت میں ہم بلکل اپنی جگہ سے نہیں ہلتے۔جب ہم اپنے آپ کو کسی کے ساتھ گرماگرم بحث میں دیکھتے ہیں اصل میں ہم اپنا منہ تک نہیں کھولتے۔ تاہم خواب میں ہم یہ ساری چیزیں واضح انداز میں تجربہ کرتے ہیں۔ ہمارے درمیان لوگ، ہمارے اطراف میں پائی جانے والی چیزیں اتنی حقیقی نظر آتی ہیں کہ ہم یہ تصّور نہیں کرسکتے کہ یہ سب خواب کی حصّہ ہیں۔
ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ایک کار ہم سے ٹکرائی اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکلیف کو ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں۔ جب کار ہماری طرف آتی ہے تو ہم حقیقی ڈر محسوس کرتے ہیں، اسکی رفتار کو محسوس کرتے ہیں اور اس تصادم کے لمحے کو تجربہ کرتے ہیں۔ ان احساسات کی حقیقت کے بارے میں ہمیں ذرا بھی شک وشبہ نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ ہمارے دماغ میں ہو رہا ہوتا ہے مگر ہمیں ذرا بھی اسکا خیال نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اگر ہمین خواب میں بتایا جاتا ہے کہ ہم خواب دیکھ رہے ہیں ہم مکمل طور پر اس امکان کو نظر انداز کرتے ہیں اور خواب کی اس دنیا کو ہی حقیقت سمجھتے ہیں۔ جب ہم اٹھتے ہیں تو وہ خواب میں پیش آئی ہوئی باتوں کو اسی طرح محسوس کرتے ہیں۔ کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی یہ جاننے کے لیے کہ اصل میں ہم خواب میں تھے۔
خواب ایک مظبوط اور واضح مثال ہے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہمارے لیے باہر کی دنیا صرف ایک احساس ہے۔ جسطرح ایک خواب دیکھنے والے شخص کو کوئی اشکال نہیں ہوتا کہ اسکے اطراف میں پائی جانے والی چیزیں حقیقی ہیں بلکل اسی طرح یہ بہت مشکل سے سمجھ آتا ہے کہ جس دنیا کو ہم حقیقی دنیا سمجھتے ہیں وہ صرف ہمارے دماغ میں ہے۔ ہم ان تصویروں کو جنہیں ہم حقیقی زندگی کا نام دیتے ہیں بلکل اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم خواب میں تجربہ کرتے ہیں۔ دونوں قسم کی تصویریں ہمارے دماغ میں بنتی ہیں۔ ہمیں دونوں تصویرں کے حقیقی ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا جیسا کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ تاہم ہمارے پاس ثبوت ہے کہ خواب حقیقت نہیں ہے۔ جب ہم اٹھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ "یہ سب تو ایک خواب تھا" تو ہم کسطرح یہ ثابت کر سکتے ہیں اس وقت جاگنے کی صورت میں ہم خواب نہیں دیکھ رہے۔
اللہ اس سچّا ئی کے بارے میں ان آیتوں میں فرماتے ہیں:

"تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی جانب چلنے لگیں گے۔ کہیں گے کہ ہائے ہائے ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا یہی ہے جسکا وعدہ رحمٰن نے کیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہ دیا تھا سورۃ یٰس ۵۱-۵۲


اس وقت اس بات کا ثبوت سائینسی تحقیق فراہم کرتی ہے۔ اس معاملہ میں وہ لمحہ جب ہم خواب سے اٹھیں گے وہ وقت ہوگا جب ہم اس دنیا سے کوچ کر جایئنگے۔ تو اصل چیز جو کرنے کی ہے وہ یہ کہ اس دنیا کو ایک دھوکہ خیال کیا جائے جسے ہم صرف اپنے دماغ میں تجربہ کرتے ہیں اور پھر اسکے مطابق اپنی زندگی کا روّیہ اختیار کیا جائے
رانا ڈیسکارٹس خواب کی حقیقت کے بارے میں اسطرح لکھتا ہے۔
"میں خواب دیکھتا ہوں یہ کرنے کا وہ کرنے کا، ادھر آنے کا ادھر جانے کا مگر جب میں اٹھتا ہوں میں محسوس کرتا ہوں کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا اور میں کہیں نہیں گیا میں تو ہر وقت خاموشی سےاپنے بستر میں لیٹا تھا کون اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ میں اس جاگنے کی حالت میں خواب نہیں دیکھ رہا، اور کہ میری تمام زندگی خواب نہیں ہے۔"
یقینا ہم کبھی بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ ہمارے درمیان موجود لوگ اور جس زندگی سے ہم اس وقت گزر ہے ہیں ایک خواب نہیں ہے۔ جب ہم خواب میں برف کے ایک ٹکڑے کو چھوتے ہیں تو اسکی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہیں اور اس بات کی گواہی بلکل اچھے انداز میں دیتے ہیں۔جب ہم ایک گلاب کو سونگھتے ہیں تو اسکی خوشبو کو بلکل بے عیب انداز میں محسوس کرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے چاہے ہم حقیقت میں گلاب سونگھیں یا خواب میں دونوں صورتوں میں ایک ہی جیسا عمل ہمارے دماغ میں وقوع پزیر ہوتا ہے۔
اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہم کبھی نہیں جان سکتے کہ ہم کب حقیقت میں صحیح تصویر کا اور گلاب کی خوشبو کا تجربہ کرتے ہیں۔ یعنی دونوں حالتیں ہمارے لیے خواب کی مانند ہیں اور ان دونوں حالتوں میں ہم کبھی بھی اصل گلاب کا تجربہ نہیں کرتے۔ نہ ہی گلاب کی تصویر اور نہ اسکی مہک ہمارے دماغ میں موجود ہے۔ لہٰذا دونوں حالتیں حقیقت کی عکاسی نہیں کرتیں۔
اگر کسی کو یہ پتا چل جائے کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے تو وہ کبھی بھی کار کو اپنی طرف آتا دیکھ کر خوف زدہ نہیں ہوگا اور یہ حقیقت جان لے گا کہ دولت اور اشیاء جو اسکے پاس ہیں وہ عارضی ہیں اور وہ کوئی لالچ نہیں کرے گا۔ وہ جانتا ہے کہ اس خواب کی دنیا سے باہر ایک حقیقی دنیا موجود ہے۔ چناچہ جو جانتا ہے کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے اسکے لیے اطراف میں پائی جانے والی اشیاء کی کوئی اہمیت اور قیمت نہیں۔
اسی چیز کا جسے ہم حقیقی دنیا سمجھتے ہیں پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ اس شخص کے لیے جو جانتا ہے کہ یہ دنیا حقیقی نہیں ہے یہ صرف ہمارے دماغ میں پایا جانے والا احساس ہے اور جو بھی چیز وہ اس دنیا میں تجربہ کرتا ہے اسکی کوئی اہمیت اور حقیقت نہیں۔ بلکل اسی طرح جسطرح خواب کے ساتھ ہے، وہ اس جھوٹی دنیا کی نوعیت سے واقف ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ لوگ جو اس سے منافع چاہتے ہیں وہ اصل میں موجود ہی نہیں ہیں اور اطراف میں پائی جانے والی فریبی خوبصورتی اور کشش صرف ایک دھوکا ہے۔ چناچہ اس دنیا میں پائی جانے والی چیزوں کی پیاس اور ذاتی مفادات کے لیے توانائی خرچ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ وہ ایک ختم ہوجانے والی اور عارضی دنیا میں رہتا ہے اور جانتا ہے کہ اصل زندگی تو اس زندگی کے بعد شروع ہوگی۔
مصنف رمیز ساسن اسکے بارے میں کہتا ہے کہ
"یہ بلکل ایک فلم کی طرح ہے۔ ایک شخص جو فلم دیکھ رہا ہے وہ اس فلم میں پائے جانے والے ایکٹر اور انکے ساتھ اسکرین پر پیش آنے والے واقعات کے ساتھ منہمک ہو جاتا ہے۔وہ ہیرو کے ساتھ خوش بھی ہوتا ہے اور غمگین بھی ہوتا ہے، مایوسی کا شکار بھی ہوتا ہے، چلّاتا بھی ہے اور ہنستا بھی ہے ۔اگر ایک موقع پر وہ اس فلم کو روکنے کا فیصلہ کرے اور اپنی توجہ فلم سے ہٹا دے تو وہ اس دھوکہ سے باہر نکل جاتا ہے جو اس فلم نے اس پر اثر انداز کیا ہوتا ہے۔ پرجیکٹر اسکرین پر تصویریں چھوڑتا ہے مگر وہ یہ جانتا ہے کہ یہ صرف روشنی ہے جو اس فلم کو چلاتی ہے۔ جو اسکرین پر نظر آتا ہے وہ حقیقت نہیں مگر وہ وہاں موجود ہے۔ وہ فلم دیکھتا ہے اور وہ فیصلہ کرتا ہے کہ آنکھیں اور کان بند کرلے اور اسکرین کی طرف دیکھنا بند کردے۔کیا آپ نےکبھی فلم دیکھی ہے اگر ریل پھنس جائے یا بجلی چلی جائے؟ آپ کے ساتھ کیا ہوگا اگر آپ ایک بہت ہی دلچسپ فلم دیکھ رہے ہوں اور اچانک بیچ میں اشتہارات چلنا شروع ہو جائیں؟ آپ فورا اس دھوکے سے باہر نکل آئیں گے"
جب آپ سو رہے ہوتے ہیں اور خواب دیکھ رہے ہیں اور کوئی آکر آپ کو اٹھا دے تو آپ ایک دنیا سے دوسری دنیا میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ بلکل اسی طرح یہ ہماری زندگی میں ہے جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں۔ اس خواب سے اٹھنا ممکن ہے۔
قیامت کے دن جب لوگ اٹھیں گے اسکا ذکر اس آیت میں ہے:

"اور صور پھونک دیا جائے گا وعدہ عذاب کا دن یہی ہے اور ہر شخص اسطرح آئے گا کہ اسکے ساتھ ایک لانے والا ہوگا اور ایک گواہی دینے والا۔یقینا تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پردہ ہٹا دیا آج تیری نگاہ بہت تیز ہے-سورۃ -ق ۲۰-۲۲"
May 12, 2010
(ختم شد)​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

درج بالا مضمون کے ذریعے سے جو بات مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں زندہ ہیں یہ بھی حقیقی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کچھ بھی حقیقی طور پر موجود نہیں جو کچھ بھی ہم دیکھتے ہیں سنتے ہیں چکھتے ہیں یا دیگر حواس سے محسوس کرتے ہیں وہ سب ایسے احساسات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات روح کو محسوس کراتی ہے یعنی یہ دنیا اور اس کے علاوہ آخرت اور تمام کائنات سب صرف اور صرف ہمارے محسوسات ہیں یہ چیزیں فزیکلی موجود نہیں ہیں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ایسی ہے جو حقیقی اور موجود ہے باقی سب محسوسات ہیں جیسا کہ ہارون یحییٰ صاحب نے خواب کی مثال دی ہے۔
اس حوالے سے ہارون یحییٰ صاحب کی ایک ویڈیو بھی اسی ویب سائٹ پر موجود ہے جس کا لنک یہ ہے:
THE_SECRET_BEYOND_MATTER
اس موضوع کے حوالے سے ہپناسس کی مثال بھی دی جاسکتی ہے گو کہ میں خود کبھی اس تجربے سے دوچار نہیں ہوا لیکن جو کچھ پڑھا اس کے مطابق ہپناسس یا عمل تنویم کے ذریعے جب معمول پر تنویمی نیند طاری کی جاتی ہے تو عامل جو چیز معمول کو محسوس کروانا چاہے کروا سکتا ہے، مثلاً اگر وہ معمول سے کہے کہ تم ہوا میں اڑ رہے ہو تو معمول اپنے آپ کو حقیقی طور پرہوا میں اڑتا ہوا محسوس کرے گا حالانکہ وہ کرسی یا بیڈ پر لیٹا ہوا ہوگا یا عامل اس کو کوئی ایسی چیز محسوس کروانا یا دکھانا چاہے جو فزیکلی وہاں موجود نہ ہو تو معمول اس چیز کو حقیقی چیز کی طرح ہی دیکھے اور محسوس کرے گا حالانکہ وہ چیز فزیکلی وہاں موجود نہ ہوگی سوائے اس کے کہ معمول سے ایسی بات پر عمل نہیں کروایا جاسکتا جو وہ حالت بیداری میں کرنا پسند نہ کرتا ہو اگر ایسی کسی بات پر عمل کرنے کے لئے عامل کہے گا تو معمول تنویمی نیند سے باہر آجائے گا۔
اس حوالے سے آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟ خواب کی حقیقت کیا ہے؟ دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ سب محض واہمہ اور احساسات کا مجموعہ ہے؟؟؟


السلام علیکم،

أَع۔وذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْ۔طانِ الرَّجي۔م
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

♦☆دنیا کی حقیقت☆♦
اۨلَّذِىۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَالۡحَيٰوةَ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡغَفُوۡرُۙ‏ ۞ سورۃ الملك- 02
جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال پیش کرنے والا ہے۔ اور وہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت بخشنے والا بھی۔

ہارون یحیی ایک متنازعہ شخصیت ہے، بے سروپا باتوں کا حاصل وصول کچھ نہیں۔ بہتر یہ نہیں ہم جس ذات مبارکﷺ کے اسیر ہیں، انہی کے زاویے سے ہر چیز کو دیکھا کریں۔

♦☆تقوی، حصول علم کا باعث ہیں☆♦
وَ اتَّقُوا اللّٰهَ‌ ؕ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ‌ ؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۞
البقرة۔282
اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ ہی تمہیں(معملات کی) تعلیم دیتا ہے اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
❍┈─┅═••࿇✠࿇••═┅─┄❍
 
Top