دیکھا جائے تو خواجہ سرا ایک مظلوم اور معصوم سی مخلوق ہے۔ان کے ساتھ عام انسانوں سے زیادہ ہمدردی سے پیش آنا چاہئے ۔میرا تو کچھ دوستوں کو مشورہ ہے کہ آپ خود بھی کوشش کریں کہ اگر آپ کے گھر میں کسی نوکرانی یا نوکر کی جاب خالی ہو تو وہاں کسی خواجہ سرا کو ترجیح دیں ۔ اس سے آپ کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔۔۔ بلکہ ہو سکتے ہیں۔۔۔ مثلاً،
گھر میں اگر بچیاں ہیں تو خواجہ سرا کے ساتھ ان کو اکیلا چھوڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔۔۔ ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کبوتر کی طرح خواجہ سرا ؤں کا بھی پیغام رسانی میں کوئی ثانی نہیں ۔
آپ اگر تھکے ہوئے ہیں تو تھکاوٹ دور کرنے کے لئے ان سے بہتر کوئی چنپی چانٹی نہیں کر سکتا
اگر آپ کی بیوی اپنے میکے گئی ہوئی ہے تو تمام خدمت کی ذمہ داری یہ احسن طریقے سے نبھا سکتے ہیں ۔۔۔ مثلاً کھانا پکانا،کپڑے وغیرہ دھونا،صفائی ستھرائی اور نہانا دھونا وغیرہ
اگر آپ کنوارے ہیں تو آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کے گھر ایک خواجہ سرا ملازم ہے۔۔اسے آپ پیار محبت سے جیسے جی چاہیں رکھیں ۔ٹو ان ون رکھیں یا تھری ان ون۔۔یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے وہ آپ کو کبھی بھی دکھ نہیں دے گا بلکہ آپ کے محلے والے بھی آپ سے ہمیشہ خوش رہیں گے اور آپ کو آتے جاتے سلاماں کیا کریں گے
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا يحيى، عن عكرمة، عن ابن عباس ۔ رضى الله عنهما - قال لعن النبي صلى الله عليه وسلم المخنثين من الرجال، والمترجلات من النساء، وقال " أخرجوهم من بيوتكم ". وأخرج فلانا، وأخرج عمر فلانا. (صحیح بخاری حدیث نمبر 6834)
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو مخنث بنتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مرد بنیں اور آپ نے فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کو گھر سے نکالا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فلاں کو نکالا تھا۔
مخنث سے بھی پردہ ہے اور متعدد احادیث میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازدواج مطہرات کو ان لوگوں سے پردہ کا حکم دیا تھا۔ ہمارے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رول ماڈل ہیں، مغل بادشاہ اور سلاطین نہیں، جو اپنے حرم میں ان مخنثوں کو
واضح رہے کہ یہ حکم اُن ”مخنثوں“ کے بارے میں ہے جو ”غیر“ ہوں اور بحیثیت قوم ناچ گانے کا پیشہ کرتے ہوں۔ اگر کسی کے اپنے گھر میں ایسی کوئی اولاد پیدا ہوجائے تو یہ ”معذور اولاد“ تصور کی جائے گی۔ اور اس کی بھی دیگر اولادوں کی طرح معمول کے مطابق پرورش کی جائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
بہت پہلے کی ایک میٹنگ میں آل ریڈی ڈیسائیڈڈ ہے یہ بے چارے بٹلر، بٹ مین اردلی زبردستی کے بنائے گئے خواجہ سرا ہی تو ہوتے ہیں جنکو افسران کے گھر پلانٹ کیا جاتا ہےان مشوروں پر سیرسلی غور کیا جائے گا اگلی سٹاف میٹنگ میں
اس کی بوری تیار کرو بھئیبہت پہلے کی ایک میٹنگ میں آل ریڈی ڈیسائیڈڈ ہے یہ بے چارے بٹلر، بٹ مین اردلی زبردستی کے بنائے گئے خواجہ سرا ہی تو ہوتے ہیں جنکو افسران کے گھر پلانٹ کیا جاتا ہے
اچھا فیر تو معاف کیا پر یہ ایف آئی یو والے آپکے پیچھے کب سے پڑے ہین ؟ کیا آپکا کوئی ذاتی جہاز ہے ؟ یا آپ کسی ائیر لائن سے منسلک ہیں؟میں متحدہ میں نہیں پاک آرمی میں ہوں میری بوری کیوں ہاں ایف آئی یو والوں سے بچانا بابا بعض اوقات بٹلر بن کے بھی پھر رہے ہوتے ہیں
قسطوں پہ لیا تھا، قسطیں ٹائم پر جمع ہوں تو پیچھا چھوٹےاچھا فیر تو معاف کیا پر یہ ایف آئی یو والے آپکے پیچھے کب سے پڑے ہین ؟ کیا آپکا کوئی ذاتی جہاز ہے ؟ یا آپ کسی ائیر لائن سے منسلک ہیں؟
پائی جان میں مذاق نہیں کر رہا ایف آئی یو سے سب ڈرتے ہیں وہ کبھی بھی آ دھمکتے ہین اور جہاز پر سب اللہ اللہ کرنے لگتے ہین ۔ ایف ائی یو مطلب فلائٹ انسپکشن یونٹ اور کبھی کبھار تو بہت مشکل کھڑی ہو جاتی ہے ان کی انسپکشن سےقسطوں پہ لیا تھا، قسطیں ٹائم پر جمع ہوں تو پیچھا چھوٹے
شاید یہ ہمارے کوچہ ملنگاں کے معزز رکن ہیں۔ ایف آئی یو والے غلطی سے چیکنگ کرنے پہنچ جاتے ہوں گے کہ کہیں ملاوٹ والا "ایندھن" تو نہیں بھرا ہوا؟پائی جان میں مذاق نہیں کر رہا ایف آئی یو سے سب ڈرتے ہیں وہ کبھی بھی آ دھمکتے ہین اور جہاز پر سب اللہ اللہ کرنے لگتے ہین ۔ ایف ائی یو مطلب فلائٹ انسپکشن یونٹ اور کبھی کبھار تو بہت مشکل کھڑی ہو جاتی ہے ان کی انسپکشن سے
شاید یہ ہمارے کوچہ ملنگاں کے معزز رکن ہیں۔ ایف آئی یو والے غلطی سے چیکنگ کرنے پہنچ جاتے ہوں گے کہ کہیں ملاوٹ والا "ایندھن" تو نہیں بھرا ہوا؟
ایندھن ہی تو ایک چیز ہوتی ہے اصل جہاز میں اور ہمارے اراکین میں۔ باقی تو ساری 500 چیزیں الگ الگ ہوتی ہیںایندھن نہیں چیک کرتے باقی 500 چیزوں کی چیک لسٹ ان کے ہاتھ مین ہوتی ہے وہی کافی ہے
مطلب اب بات پکی اسی پر ٹکی ہےایندھن ہی تو ایک چیز ہوتی ہے اصل جہاز میں اور ہمارے اراکین میں۔ باقی تو ساری 500 چیزیں الگ الگ ہوتی ہیں
فوٹو شاپ ہے یہ بندہ تو خود ستار بھائی کے کونٹیکٹ میں لگتا ہے شکل ہےچلو یہ بھی سہی ہے جی فلائٹ والے آ جائیں بے شک مگر دوسرے والے کبھی نہ آئیں جی ہم تو ویسے بھی اپنے سی او کے خلاف کچھ بولتے نہیں نہ سنتے ہیں جی بڑے بی بے بندے ہیں
لیں جی تازہ فیس بک مصالحہ
چل بھئ ستار بھائی بنا دے ان کی بوری بھی
مخنث بننے والے پر لعنت کی جا رہی ہے نہ کہ مخنث پیدا ہونے والے پر
جہاں تک ”مخنث بننے“ کا تعلق ہے، تو اس کے دو پہلو ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ نے دو ہی جنس پیدا کی پے۔ کوئی تیسری جنس (تھرڈ جینڈر) نہیں۔ قرآن اور حدیث میں بار بار ”جوڑے“ کا ذکر ہے کہ ہم نے تمہیں (انسانوں کو) جوڑے کی شکل میں مرد اور عورت بنا کر پیدا کیا ہے۔ کسی تیسری جنس کا حقیقتاً کوئی ”وجود“ نہیں ہے۔ جسے ہم عرفاً ”تیسری جنس“ (ہیجڑے، خواجہ سرا وغیرہ) کہتے ہیں وہ دراصل ”نامکمل مرد“ اور نامکمل عورتیں“ ہوتی ہیں۔ ہیجڑوں کے یکساں ڈریس اورمیک اَپ کے باوجود ان کا چہرہ صاف صاف ”مردانہ“ ( جیسے کلین شیو کیا ہوا) اور ”زنانہ“ ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ نامکمل ایسا مرد جو ”ازدواجی تعلقات“ میں حصہ لینے کے ”قابل“ ہی نہ ہو، اعضائے تناسل میں اپنے پیدائشی نقص کی وجہ سے۔ اسی طرح ایسی ”نامکمل عورتیں“ بھی ہوتی ہیں جو پیدائشی نقص کی وجہ سے ازدواجی تعلقات کی ”اہل“ ہی نہیں ہوتیں۔ بنیادی طور پر یہ دونوں شادی کے لئے معذور مرد اور عورتیں ہیں، جنہیں عرفاً تیسری جنس، ہیجڑا قرار دے کر ایک الگ ”قوم“ بنا دیا گیا ہے تاکہ یہ ناچ گاکر سماج میں فحاشی پھیلائیں۔
اللہ نے ہم سب کو ایک ”عظیم امتحان“ کے لئے پیدا کیا ہے۔ خواہ ہمیں مکمل پیدا کیا گیا ہو یا نامکمل، غریب یا امیر وغیرہ وغیرہ۔ ہم سب نے اپنی اپنی بائی ڈیفالٹ اہلیت یا ”نااہلیت“ دونوں صورتوں میں صبر اور شکر کرتے ہوئے شریعت پر چلنا ہے۔ یہ نہیں کہ جسمانی یا جنسی معذوری کی صورت میں ”ایک تیسری جنس ہیجڑہ“ بن کر اللہ کی نافرمانی کرنا اور اور فحاشی پھیلانے کو پیشہ بنا لینا اور اسے سماج میں اتنا عام کردینا کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی اس (نام نہاد) تیسری جنس کو خوش دلی سے ”قبول“ کرنے لگیں۔ بلکہ مزید آگے بڑھ کر اب تو بہت سے مکمل مرد جوان بھی ان کے چنگل میں پھنس کر، خود کو خصی کرواکر ہیجڑا بننے لگے ہیں اور مختلف اخباری سروے رپورٹس کے مطابق سماج میں پھر نے والے ہیجڑوں میں گھروں سے بھاگے ہوئے نوجوان بھی شامل ہیں جنہیں ہیجڑا ”بنا دیا“ گیا ہے۔ ”ہیجڑا بننے“ کی یہ ”دوسری قسم“ (غالباً) دور رسالت میں نہیں تھی۔ اُس دور میں صرف ”نامکمل مرد اور نامکمل عورتیں“ ہی ہوا کرتی تھیں جو نارمل لائف چھوڑ کر ایک گروپ کی شکل مین ”پیشہ ور مخنث بن جایا“ کرتے تھے۔ اور حدیث میں یقیناً انہی کے ”مخنث بننے“ ذکر ہے۔ تاہم یہ دوسری قسم (بعد از آپریشن) مخنث بننے والوں پر بھی لاگو ہوگی یعنی یہ بدرجہ اولیٰ لعنت کے مستحق ہوں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
متفق۔ بجا فرمایااجناس دو ہی ہیں لیکن جنس کی تعریف کو صرف اور ٍصرف جسم تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کے تین عوامل ہیں:
1 جسمانی
2 معاشرتی
3 عملی یا برتاو
جسمانی لحاظ سے تو transexuals میں خرابیاں ہو سکتی ہیں لیکن ان کے ٹرانس سیکشول یا خواجہ سرا بننے کے عوامل جسمانی سے ہٹ کر ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ جسمانی لحاظ (دیکھنے، بولنے وغیرہ میں) پیدا تو مرد جیسا ہوتا ہے لیکن وہ معاشرتی اور عملی طور پر اپنے آپ کو عورت کی طرح دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔
جہاں تک بات ناچ گانے کی ہے تو پاکستان کے علاوہ بھی دنیا میں 200 سے زائد ممالک ہیں۔ اور ہر ملک میں خواجہ سرا پائے جاتے ہیں لیکن ہر ملک میں یہ گانا بجانا نہیں کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بالخصوص اور برصغیر میں بالعموم ان پر یہ رول مسلط کیا گیا ہے۔ جب لوگوں کے ہاں ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں تو وہ ان کو گرووں کو دے دیتے ہیں تاکہ معاشرے میں ان کی عزت پر کوئی حرف نا آئے۔ جاب تو معاشرہ ان کو دیتا نہیں ہے۔ ایک گانا بجانا ہی رہ جاتا ہے وہ اگر کریں تو اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا کام پراسٹیٹیوشن ہے اور یہ بھی معاشرے کا مسلط کردہ ہے۔
متفق۔ بجا فرمایا
(×) جب ان کو آپ گھروں سے نکالیں گے اور ان کے خلاف نفرت پالیں گے تو کیا یہ سائنسدان بنیں گے؟ یہ وہی کریں گے جو کہ کر رہے ہیں۔ اور اگر حکومت ان کو باعزت جاب دیتی ہے یا پھر پردیسی بھائی کے مطابق ان کو گھروں میں نوکر رکھا جا سکتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟
- اب اگر آپ کا ایمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مقابلہ میں پردیسی بھائی کی باتوں پر زیادہ ہے تو میری طرف سے نو کمنٹس۔
آپ کو یہ خیال کیسے گزرا کہ میں خدانخواستہ طنز کر رہا ہوں؟ میں تو محض آپ کے تبحر علمی کی تعریف کر رہا تھا۔(×) ایک شرعی سوال بھی کرتا چلوں کیونکہ آپ محفل کے عالم ہیں
- اگر آپ کا یہ طنز ہے تو آپ کو اس بات کا پورا پورا حق حاصل ہے ورنہ میں نے کبھی ایسا کوئی ”دعویٰ“ نہیں کیا نہ ہی کبھی کوئی فتویٰ دیا میں تو محض قرآن و حدیث کا ایک معمولی طالب علم ہوں۔ اور اس محفل سمیت ہر جگہ قرآن و حدیث کو موقع محل کے مطابق نقل کرتا رہتا ہوں۔ اگر آپ کو یا کسی اور کو میرا یہ فعل پسند نہیں تو نہ سہی۔
- کیا یہ لوگ محلے کی مسجدوں کے مولوی بن سکتے ہیں؟ یا پھر مدرسے سے تحصیل علم کے بعد صاحب فتویٰ بن سکتے ہیں؟
(×) اسے کہتے ہیں ماروں گھنٹا، پھوٹے آنکھ اگر مطلب نہیں معلوم تو کسی سے پوچھ لیجئے مراسلہ کا عنوان ہے ” خواجہ سراؤں کے لئے باقاعدہ جابز“ ۔ اس عنوان کے تحت ایک صاحب نےمشورہ دیا کہ انہیں گھروں میں نوکر رکھ لو بلکہ اپنی بچیاں بھی ان کی ”رکھوالی“ میں دیدو۔ اس تجویز کو رَد کرنے والی ایک صحیح حدیث میں نے کیا پیش کردی کہ مدعی سست گواہ چست کے طور پر محفلین باری باری نئے نئے اعتراضات پیش کر رہے ہیں۔ بھائ اگر آپ کو حدیث والی بات پسند نہیں کہ ان پیشہ ور ہیجڑوں کو اپنے گھروں ست دور رکھو تو آپ اپنے گھر مین رکھ لیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ ویسے آپ کی ”اطلاع“ کے لئے عرض ہے کہ اسلام میں ”مولوی اور مفتی“ کوئی جابز یا پیشہ نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اسلام کو کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ لیکن اس مقطع والی بات کا اصل موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ آپ اب اسے ہی گھسیٹنا شروع کردیں