”زیر بحث موضوع“ مخنث پر پر لعنت کرنا نہیں ہے، جس پر آپ نے ”نکتہ اعتراض“ اُٹھا نے کی کوشش کی ہے۔ یہ حدیث شریف علامہ
پردیسی کے اس ”فتویٰ “
کے جواب میں پیش کی گئی ہے جس میں اُنہوں نے فرمایا ہے کہ
ہیجڑوں کو گھروں میں ملازم رکھو، اپنی بچیوں کو ان کے حوالہ کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ وغیرہ وغیراس کے علاوہ دیگر ”ناگفتنی فوائد“ بھی بیان کئے ہیں۔ آپ کو پردیسی بھائی کے ان ”فتاویٰ “
پر تو کوئی ”اعتراض“ نہیں ہوا لیکن حدیث شریف پر فوراً ”اعتراض “ جڑ دیا اور وہ بھی اُس حصہ پر، جس کا زیر بحث موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اس حدیث میں صاف صاف طور پر کہا گیا ہے کہ
انہیں اپنے گھروں سے نکالو اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایسا کیا تھا۔ ظاہر ہے یہ حکم سماج میں موجود ”مروجہ ہیجڑوں“ کے بارے میں ہے کہ انہیں اپنے گھروں میں نہ آنے دو اور اگر کوئی آجائے تو انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔
سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ کسی کے گھر میں ”مخنث“ پیدا ہوگیا ہو اور ایسے گھر میں”پیدا ہونے والے مخنث“ کو باہر نکالا گیا ہو۔ یہ حدیث بخاری شریف کی ہے اور مکمل حوالہ جات کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ”مسلمانوں“ میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو بعد از قرآن اس صحیح ترین دینی کتب پر ہی ایمان نہیں رکھتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ بھائی پردیسی اور آپ کا بخاری شریف کے بارے میں کیا ایمان ہے۔
جہاں تک ”مخنث بننے“ کا تعلق ہے، تو اس کے دو پہلو ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ نے دو ہی جنس پیدا کی پے۔ کوئی تیسری جنس (تھرڈ جینڈر) نہیں۔ قرآن اور حدیث میں بار بار ”جوڑے“ کا ذکر ہے کہ ہم نے تمہیں (انسانوں کو) جوڑے کی شکل میں مرد اور عورت بنا کر پیدا کیا ہے۔ کسی تیسری جنس کا حقیقتاً کوئی ”وجود“ نہیں ہے۔ جسے ہم عرفاً ”تیسری جنس“ (ہیجڑے، خواجہ سرا وغیرہ) کہتے ہیں وہ دراصل ”نامکمل مرد“ اور نامکمل عورتیں“ ہوتی ہیں۔ ہیجڑوں کے یکساں ڈریس اورمیک اَپ کے باوجود ان کا چہرہ صاف صاف ”مردانہ“ ( جیسے کلین شیو کیا ہوا) اور ”زنانہ“ ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ نامکمل ایسا مرد جو ”ازدواجی تعلقات“ میں حصہ لینے کے ”قابل“ ہی نہ ہو، اعضائے تناسل میں اپنے پیدائشی نقص کی وجہ سے۔ اسی طرح ایسی ”نامکمل عورتیں“ بھی ہوتی ہیں جو پیدائشی نقص کی وجہ سے ازدواجی تعلقات کی ”اہل“ ہی نہیں ہوتیں۔ بنیادی طور پر یہ دونوں شادی کے لئے معذور مرد اور عورتیں ہیں، جنہیں عرفاً تیسری جنس، ہیجڑا قرار دے کر ایک الگ ”قوم“ بنا دیا گیا ہے تاکہ یہ ناچ گاکر سماج میں فحاشی پھیلائیں۔
اللہ نے ہم سب کو ایک ”عظیم امتحان“ کے لئے پیدا کیا ہے۔ خواہ ہمیں مکمل پیدا کیا گیا ہو یا نامکمل، غریب یا امیر وغیرہ وغیرہ۔ ہم سب نے اپنی اپنی بائی ڈیفالٹ اہلیت یا ”نااہلیت“ دونوں صورتوں میں صبر اور شکر کرتے ہوئے شریعت پر چلنا ہے۔ یہ نہیں کہ جسمانی یا جنسی معذوری کی صورت میں ”ایک تیسری جنس ہیجڑہ“ بن کر اللہ کی نافرمانی کرنا اور اور فحاشی پھیلانے کو پیشہ بنا لینا اور اسے سماج میں اتنا عام کردینا کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ
بھی اس (نام نہاد) تیسری جنس کو خوش دلی
سے ”قبول“ کرنے لگیں۔ بلکہ مزید آگے بڑھ کر اب تو بہت سے مکمل مرد جوان بھی ان کے چنگل میں پھنس کر، خود کو خصی کرواکر ہیجڑا بننے لگے ہیں اور مختلف اخباری سروے رپورٹس کے مطابق سماج میں پھر نے والے ہیجڑوں میں گھروں سے بھاگے ہوئے نوجوان بھی شامل ہیں جنہیں ہیجڑا ”بنا دیا“ گیا ہے۔ ”ہیجڑا بننے“ کی یہ ”دوسری قسم“ (غالباً) دور رسالت میں نہیں تھی۔ اُس دور میں صرف ”نامکمل مرد اور نامکمل عورتیں“ ہی ہوا کرتی تھیں جو نارمل لائف چھوڑ کر ایک گروپ کی شکل مین ”پیشہ ور مخنث بن جایا“ کرتے تھے۔ اور حدیث میں یقیناً انہی کے ”مخنث بننے“ ذکر ہے۔ تاہم یہ دوسری قسم (بعد از آپریشن) مخنث بننے والوں پر بھی لاگو ہوگی یعنی یہ بدرجہ اولیٰ لعنت کے مستحق ہوں گے۔
واللہ اعلم بالصواب