خواجہ سراؤں کے لیئے باقاعدہ جابز

یوسف-2

محفلین
  1. میں چونکہ حدیث کا عالم نہیں ہوں اس لئے آپ کی حدیث والی پوسٹ پر میں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ گھروں سے نکالنے والی بات معاشرتی پہلو کو دیکھتے ہوئے کی ہے۔
  2. ایک سائل کے سوال کا جواب ہی دے دیں۔ مولوی تو چلیں مان لیتے ہیں کہ جاب ہے لیکن مفتی کا منسب تو بحرحال جاب کی تعریف میں نہیں آتا۔ اسی کی آگاہی فرہم کر دیجئے کہ کیا یہ مدرسوں میں علم حاصل کر کے مفتی کے عظیم المرتبت درجے پر فائز ہو سکتے ہیں؟ آخر کو ان کو بھی اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔

  1. حدیث کی رائے کے مقابلہ میں ایک عام انسان کی رائے کی حمایت کرنا ۔۔۔ کیا اس کے لئے حدیث کا طالب علم ہونا ضروری ہے :eek:
  2. کیا انہیں کسی نے ایسا کرنے سے روکا ہے؟؟؟ اور کیا آپ (اپنے علم غیب کی رو سے :D ) اس بات کی ”تصدیق“ کرسکتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں جتنے غیر شادی شدہ اسلامی اسکالرز اور رہنما (بشمول آل مولویز وغیرہ) گذرے ہیں، وہ سب کے سب میڈیکلی ایک مکمل مرد تھے؟؟؟ :)
 
خواجہ سراؤں کا گھروں میں آنا جانا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا۔
ان کو گھروں میں ملازم وغیرہ کے طور پر رکھنے میں بے شمار قباحتیں ہو سکتی ہیں۔ باہر کے معاملات میں جو بہتری ہو سکے ہونی چاہئے۔
 

سید ذیشان

محفلین
  1. حدیث کی رائے کے مقابلہ میں ایک عام انسان کی رائے کی حمایت کرنا ۔۔۔ کیا اس کے لئے حدیث کا طالب علم ہونا ضروری ہے :eek:
  2. کیا انہیں کسی نے ایسا کرنے سے روکا ہے؟؟؟ اور کیا آپ (اپنے علم غیب کی رو سے :D ) اس بات کی ”تصدیق“ کرسکتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں جتنے غیر شادی شدہ اسلامی اسکالرز اور رہنما (بشمول آل مولویز وغیرہ) گذرے ہیں، وہ سب کے سب میڈیکلی ایک مکمل مرد تھے؟؟؟ :)


حدیث کے بھی درجات ہوتے ہیں اور یہ ثابت کرنا کہ جو بات حضور (ص) سے منسوب کی جا رہی ہے وہ انہوں نے فرمائی بھی ہے یا نہیں حدیث کے عالموں کا کام ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ علم الحدیث پر لیکچر دینا شروع کر دیں تو میں یہ کہوں گا کہ ضروری نہیں ہے کہ جو کتاب آپ کی نگاہ میں سب سے زیادہ مستند ہو اس کو سب ہی مستند مانتے ہوں۔ میرے خیال میں اس ڈگر پر نہیں چلتے کیونکہ اس بحث کا یہ مناسب محل نہیں ہے۔

جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے تو نفی کو ثابت کرنا تو منطقی ناممکنات میں سے ہے۔ میں اگر کہوں کہ سیارہ مشتری کے گرد مدار میں ایک چائے کی کیتلی سفر کر رہی ہے اور آپ سے کہوں کی اس کی نفی کو ثابت کریں تو کیا آپ کر سکیں گے؟

بحرحال میں اپنی باتیں بیان کر چکا ہوں اس سے آگے بحث برائے بحث شروع ہو جائے گی اس لئے میں کچھ اور لکھنے سے معذرت چاہوں گا :)
 
اس کے لیے اردو کا لفظ محنث استعمال ہوتا ہے جو زیادہ ہیجڑہ سے زیادہ بہتر ہے۔
اس پر اکبر الہ آبادی کا ایک شعر یاد آیا۔۔۔
مذکر ہی کو کہتے ہیں مؤنث شی کو کہتے ہیں۔۔۔
مگر حضرتِ مخنّث ہیں نہ ہیؤں میں نہ شیؤں میں
 
حجاز میں زمانہ قدیم سے یہ رواج ہے کہ اگر کسی کے ہاں ایسی اولاد پیدا ہوتی تھی جسے نہ مرد کہہ سکتے ہیں اور نہ عورت، تو اسے مسجدِ نبوی میں خدمات انجام دینے کیلئے مخصوص کرلیا جاتا تھا۔ انہیں طوشی کہا جاتا تھا۔ آج بھی اگر آپ مسجدِ نبوی کی زیارت کریں تو آپ کو وہاں عورتوں کے سیکشن میں ڈیوٹی انجام دیتے چند باوقار لوگ نظر آئیں گے جنہوں نے عمامے کے ساتھ عربی لباس پہنا ہوتا ہے اور انکی کمر کے گرد ایک پٹکا بھی بندھا ہوتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں طوشی کہا جاتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
”زیر بحث موضوع“ مخنث پر پر لعنت کرنا نہیں ہے، جس پر آپ نے ”نکتہ اعتراض“ اُٹھا نے کی کوشش کی ہے۔ یہ حدیث شریف علامہ پردیسی :) کے اس ”فتویٰ “ :D کے جواب میں پیش کی گئی ہے جس میں اُنہوں نے فرمایا ہے کہ ہیجڑوں کو گھروں میں ملازم رکھو، اپنی بچیوں کو ان کے حوالہ کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ وغیرہ وغیراس کے علاوہ دیگر ”ناگفتنی فوائد“ بھی بیان کئے ہیں۔ آپ کو پردیسی بھائی کے ان ”فتاویٰ “ :D پر تو کوئی ”اعتراض“ نہیں ہوا لیکن حدیث شریف پر فوراً ”اعتراض “ جڑ دیا اور وہ بھی اُس حصہ پر، جس کا زیر بحث موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اس حدیث میں صاف صاف طور پر کہا گیا ہے کہ انہیں اپنے گھروں سے نکالو اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایسا کیا تھا۔ ظاہر ہے یہ حکم سماج میں موجود ”مروجہ ہیجڑوں“ کے بارے میں ہے کہ انہیں اپنے گھروں میں نہ آنے دو اور اگر کوئی آجائے تو انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔

سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ کسی کے گھر میں ”مخنث“ پیدا ہوگیا ہو اور ایسے گھر میں”پیدا ہونے والے مخنث“ کو باہر نکالا گیا ہو۔ یہ حدیث بخاری شریف کی ہے اور مکمل حوالہ جات کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ”مسلمانوں“ میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو بعد از قرآن اس صحیح ترین دینی کتب پر ہی ایمان نہیں رکھتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ بھائی پردیسی اور آپ کا بخاری شریف کے بارے میں کیا ایمان ہے۔:)

جہاں تک ”مخنث بننے“ کا تعلق ہے، تو اس کے دو پہلو ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ نے دو ہی جنس پیدا کی پے۔ کوئی تیسری جنس (تھرڈ جینڈر) نہیں۔ قرآن اور حدیث میں بار بار ”جوڑے“ کا ذکر ہے کہ ہم نے تمہیں (انسانوں کو) جوڑے کی شکل میں مرد اور عورت بنا کر پیدا کیا ہے۔ کسی تیسری جنس کا حقیقتاً کوئی ”وجود“ نہیں ہے۔ جسے ہم عرفاً ”تیسری جنس“ (ہیجڑے، خواجہ سرا وغیرہ) کہتے ہیں وہ دراصل ”نامکمل مرد“ اور نامکمل عورتیں“ ہوتی ہیں۔ ہیجڑوں کے یکساں ڈریس اورمیک اَپ کے باوجود ان کا چہرہ صاف صاف ”مردانہ“ ( جیسے کلین شیو کیا ہوا) اور ”زنانہ“ ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ نامکمل ایسا مرد جو ”ازدواجی تعلقات“ میں حصہ لینے کے ”قابل“ ہی نہ ہو، اعضائے تناسل میں اپنے پیدائشی نقص کی وجہ سے۔ اسی طرح ایسی ”نامکمل عورتیں“ بھی ہوتی ہیں جو پیدائشی نقص کی وجہ سے ازدواجی تعلقات کی ”اہل“ ہی نہیں ہوتیں۔ بنیادی طور پر یہ دونوں شادی کے لئے معذور مرد اور عورتیں ہیں، جنہیں عرفاً تیسری جنس، ہیجڑا قرار دے کر ایک الگ ”قوم“ بنا دیا گیا ہے تاکہ یہ ناچ گاکر سماج میں فحاشی پھیلائیں۔

اللہ نے ہم سب کو ایک ”عظیم امتحان“ کے لئے پیدا کیا ہے۔ خواہ ہمیں مکمل پیدا کیا گیا ہو یا نامکمل، غریب یا امیر وغیرہ وغیرہ۔ ہم سب نے اپنی اپنی بائی ڈیفالٹ اہلیت یا ”نااہلیت“ دونوں صورتوں میں صبر اور شکر کرتے ہوئے شریعت پر چلنا ہے۔ یہ نہیں کہ جسمانی یا جنسی معذوری کی صورت میں ”ایک تیسری جنس ہیجڑہ“ بن کر اللہ کی نافرمانی کرنا اور اور فحاشی پھیلانے کو پیشہ بنا لینا اور اسے سماج میں اتنا عام کردینا کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ :D بھی اس (نام نہاد) تیسری جنس کو خوش دلی :eek: سے ”قبول“ کرنے لگیں۔ بلکہ مزید آگے بڑھ کر اب تو بہت سے مکمل مرد جوان بھی ان کے چنگل میں پھنس کر، خود کو خصی کرواکر ہیجڑا بننے لگے ہیں اور مختلف اخباری سروے رپورٹس کے مطابق سماج میں پھر نے والے ہیجڑوں میں گھروں سے بھاگے ہوئے نوجوان بھی شامل ہیں جنہیں ہیجڑا ”بنا دیا“ گیا ہے۔ ”ہیجڑا بننے“ کی یہ ”دوسری قسم“ (غالباً) دور رسالت میں نہیں تھی۔ اُس دور میں صرف ”نامکمل مرد اور نامکمل عورتیں“ ہی ہوا کرتی تھیں جو نارمل لائف چھوڑ کر ایک گروپ کی شکل مین ”پیشہ ور مخنث بن جایا“ کرتے تھے۔ اور حدیث میں یقیناً انہی کے ”مخنث بننے“ ذکر ہے۔ تاہم یہ دوسری قسم (بعد از آپریشن) مخنث بننے والوں پر بھی لاگو ہوگی یعنی یہ بدرجہ اولیٰ لعنت کے مستحق ہوں گے۔
واللہ اعلم بالصواب

حسب معمول آپ نے وہی پرانی بحث شروع کر دی کہ میں حدیث پر اعتراض کر رہا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نے حدیث کا غلط حوالہ دینے کی کوشش کی اور میں نے درستگی کر دی۔ باقی آپ کی علمیت کے بارے میں کیا کہوں، اہل محفل والے بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کو اعتراض برائے اعتراض والی بحث ہی کرنے کی عادت پسند ہے۔ جیتے رہیئے :)
 

قیصرانی

لائبریرین
متفق۔ بجا فرمایا

(×) جب ان کو آپ گھروں سے نکالیں گے اور ان کے خلاف نفرت پالیں گے تو کیا یہ سائنسدان بنیں گے؟ یہ وہی کریں گے جو کہ کر رہے ہیں۔ اور اگر حکومت ان کو باعزت جاب دیتی ہے یا پھر پردیسی بھائی کے مطابق ان کو گھروں میں نوکر رکھا جا سکتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟
- اب اگر آپ کا ایمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مقابلہ میں پردیسی بھائی کی باتوں پر زیادہ ہے تو میری طرف سے نو کمنٹس۔ :p

(×) ایک شرعی سوال بھی کرتا چلوں کیونکہ آپ محفل کے عالم ہیں
- اگر آپ کا یہ طنز ہے تو آپ کو اس بات کا پورا پورا حق حاصل ہے :p ورنہ میں نے کبھی ایسا کوئی ”دعویٰ“ :D نہیں کیا نہ ہی کبھی کوئی فتویٰ دیا:) میں تو محض قرآن و حدیث کا ایک معمولی طالب علم ہوں۔ اور اس محفل سمیت ہر جگہ قرآن و حدیث کو موقع محل کے مطابق نقل کرتا رہتا ہوں۔ اگر آپ کو یا کسی اور کو میرا یہ فعل پسند نہیں تو نہ سہی۔ :p

- کیا یہ لوگ محلے کی مسجدوں کے مولوی بن سکتے ہیں؟ یا پھر مدرسے سے تحصیل علم کے بعد صاحب فتویٰ بن سکتے ہیں؟
(×) اسے کہتے ہیں ماروں گھنٹا، پھوٹے آنکھ :D اگر مطلب نہیں معلوم تو کسی سے پوچھ لیجئے :) مراسلہ کا عنوان ہے ” خواجہ سراؤں کے لئے باقاعدہ جابز“ ۔ اس عنوان کے تحت ایک صاحب نےمشورہ دیا کہ انہیں گھروں میں نوکر رکھ لو بلکہ اپنی بچیاں بھی ان کی ”رکھوالی“ میں دیدو۔ اس تجویز کو رَد کرنے والی ایک صحیح حدیث میں نے کیا پیش کردی کہ مدعی سست گواہ چست کے طور پر محفلین باری باری نئے نئے اعتراضات پیش کر رہے ہیں۔ بھائ اگر آپ کو حدیث والی بات پسند نہیں کہ ان پیشہ ور ہیجڑوں کو اپنے گھروں ست دور رکھو تو آپ اپنے گھر مین رکھ لیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ ویسے آپ کی ”اطلاع“ کے لئے عرض ہے کہ اسلام میں ”مولوی اور مفتی“ کوئی جابز یا پیشہ نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اسلام کو کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ لیکن اس مقطع والی بات کا اصل موضوع سے کوئی تعلق نہین ہے کہ آپ اب اسے ہی گھسیٹنا شروع کردیں :)

آپ کوئی ایک مثال دیجیئے جہاں امام مسجد کو رکھتے ہوئے اس کے مردانہ خصوصیات کا طبی معائینہ کیا گیا ہو؟ یا پھر مدرسے سے تحصیل علم کے بعد صاحب فتویٰ بناتے ہوئے ان کی مردانگی چیک کی گئی ہو؟ یار کون لوگ ہو تُسی؟
 
Top