خوبصورت نظمیں

عمر سیف

محفلین
سنا ہوگا بہت تم نے
کہیں آنکھوں کی رم جھم کا
کہیں پلکوں کی شبنم کا
کہیں لہجے کی بارش کا
کہیں ساغر کی آنسو کا
مگر تم نے ۔۔
میرے ہمدم ۔۔
کہیں دیکھا ؟
کہیں پرکھا ؟
کسی تحریر کے آنسو ؟
مجھے تیری جُدائی نے
یہی معراج بخشی ہے
کہ میں جو لفظ لکھتا ہوں
وہ سارے لفظ روتے ہیں
کہ میں جو حرف بُنتا ہوں
وہ سارے بَین کرتے ہیں
میرے سنگ اس جُدائی میں
میرے الفاظ مرتے ہیں
میری تحریر کی لیکن ۔۔
کبھی کوئی نہیں سُنتا
میرے الفاظ کی سسکی
فلک بھی جو ہلا ڈالے
میرے لفظوں میں ہیں شامل
اُسی تاثیر کے آنسو !
کبھی دیکھو میرے ہمدم

میری تحریر کے آنسو ۔۔ !!
 

عمر سیف

محفلین
تیرا ہجر تیرا وصال بھی
تیرے خواب تیرے خیال
میری تشنگی نہ بجھا سکے
تیری یاد کو نہ مٹا سکے
میں یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی
تیرے ہجر میں میری زندگی
نہ ہی رنگ ہے ،نہ ہی روپ ہے
نہ یہ چھاوں ہے، نہ ہی دھوپ ہے
نہ خوشی ہے نہ ہی ملال ہے
یہ بس اک تشنہ سوال ہے
وہ رفاقتوں کے سفر سبھی
میری گفتگو کے ہنر سبھی
تیرے ہجر کے جو نذر ہوئے
سبھی خواب گردِسفر ہوئے
وہ جو خواب تھے وہ گزر گئے
جو ملا ہے یہی نصیب ہے
تیرا ساتھ تو کہیں کھو گیا
تیرا ہجر میرے قریب ہے
تیرے ہجر کا یہ ہر اک پل
میری عمر بھر کا حصول ہے
میری بے بسی کا تو غم نہ کر
تیرا ہجر مجھ کو قبول ہے
 

عمر سیف

محفلین
میرے دشمنوں سے کہو کوئی
کسی گہری چال کے اہتمام کا سلسلہ ہی فضول ہے
کہ شکست یوں بھی قبُول ہے۔
کبھی حوصلے جو مثال تھے۔۔وہ نہیں رہے۔
میرے حرف حرف کے جسم پر جو معانی کے پروبال تھے
وہ نہیں رہے۔
میری شاعری جو جہان کو۔۔کبھی جُگنوؤں،کبھی تتلیوں سے
سجائے پھرتی جوان تھی۔۔وہ نہیں رہی۔
میرے دُشمنوں سے کہو کوئی۔
وہ جو شامِ سحرِ مثال میں کوئی روشنی سی لئے ہُوئے۔۔کسی لب پہ
جتنے سوال تھے۔۔وہ نہیں رہے۔
جووفا کے باغ میں وحشتوں کے کمال تھے۔۔وہ نہیں رہے۔
وہ کبھی جوعہدِ نشاط میں مُجھے خود پہ اِتنا غرور تھا۔۔کہیں کھو گیا!
جو فاتحانہ غرُور میں میرے سارے خواب نہال تھے۔۔وہ نہیں رہے۔
کسی دشتِ لشکرِ شام میں۔۔وہ جو سُرخرو ماہ و سال تھے۔۔وہ نہیں رہے۔
اور اب تو دل کی زبان پر۔۔فقط ایک قصہء حال ہے
جو نڈھال ہے۔
جو گئے دنوں کا ملال ہے۔۔
میرے دُشمنوں سے کہو کوئی۔۔کسی گہری چال کے اہتمام کا سلسلہ ہی فضول ہے۔۔
 

عمر سیف

محفلین
یہ جو زیست کا سفر ہے
یہ جو راستہ ہے میرا
تم اگر نہ ساتھ دو گے
تو یہ کس طرح کٹے گا
میری سوچ کی حدوں تک
یہ گمان بھی کیسے آئے
کوئی پل بنا تمہارے
بھلا کیسے بیت جائے
میرے پاس تم نہیں ہو
میرے پاس کب نہیں ہو
میری یاد کے نگر میں
میرے خواب کےسفر میں
میری سوچ کی تہوں تک
میری آنکھ کے بھنور میں
میرےدل میں جاں میں تن میں
میری حسرتوں کے بن میں
میرے دل کی تیرگی میں
میری شب کی روشنی میں
ہاں تمہی ہو ہر کہیں ہو
میرے پاس تم نہیں ہو
میرے پاس کب نہیں ہو
میری ہر دعا کا محور
بس اک آرزو سے آگے
اسی آرزو سے آگے
کوئی راستہ نہیں ہے
تمہیں کس قدر ہے چاہا
یہ تمہیں پتا نہیں ہے
 

عمر سیف

محفلین
تمہاری انگشتری کے نگ میں
میری محبّت چمک رہی ہے
اگر کبھی یہ گماں بھی گزرے
کہ میں تمہیں بھولنے لگا ہوں
تو اس نگینے کو غور سے دیکھو
میری نگاہوں کی جگمگاہٹ
تمہاری آنکھوں سے یہ کہے گی
،“سنو“
“محبّت تو خوش گمان ہے“
اگر کوئی بغضِ دل کا مارا
تمہارے سینے میں وسوسوں کے
کیسے خنجر اُتارتا ہو
کہ وہ جو دل پھینک و بے وفا ہے
کہ وہ سب پر فریفتہ ہے
کہ وہ جو پردیس جا بسا ہے
تمہیں بھنور بیچ چھوڑ دے گا
وفا کے سب قول توڑ دے گا
چلو بس اب اُس کو بھول جاؤ
تو اس سے پہلے کہ جل بجھو تم
تو اس سے پہلے کہ یہ کہو تم
وہ عہد و پیمان سب غلط تھے
وفا کے عنوان سب غلط تھے
سحر کے امکان سب غلط تھے
تم اپنی انگشتِ مہوش پر
گلاب چہرہ جھکا کے کہنا
سنو، وہ سچ مچ بے وفا ہے ؟
تمہارا روتا سوال سن کر
وہ شوخ نگ مسکرا پڑے گا
تمہارے گالوں کو تھپتھپا کر
حسین انگشتری کہے گی
“سنو“
“محبّت تو خوش گمان ہے“
 

عمر سیف

محفلین
شکریہ دوست۔

تیرے ملنے کا اک لمحہ
بس اک لمحہ سہی لیکن
بکھر جائے تو موسم ہے
وفا کا بے کراں موسم
ازل سے مہرباں موسم
یہ موسم انکھ میں اترے
تو رنگوں سے دھکتی روشنی کا عکس کہلائے
یہ موسم دل میں ٹھہرے تو
سنہری،سوچتی صدیوں کا گہرا نقش بن جائے
تیرے ملنے کا اک لمحہ
مقدر کی لکیروں میں دھنک بھرنے کا موسم ہے

 

نوید ملک

محفلین
میں نے پوچھا کیسے ہو
بدلے ہو یا ویسے ہو
روپ وہی انداز وہی
یا پھر اس میں کوئی کمی
ہجر کا کچھ احساس تو ہو گ
کوئی تمہارے پاس تو ہو گا
میں بچھڑا یہ مجبوری تھی
کب منظور مجھے دوری تھی
ساتھ ہمارا کب چھوٹا ہے
روح کا رشتہ کب ٹوٹا ہے
میں نے کہا آواز تمہاری
آج بھی ہے ساتھ ہمارے
پھول وفا کے کھل جائیں گے
شایداِک دن ہم پھر مل جائیں گے
 

عمر سیف

محفلین
میری جاں ٹھیک کہتی ہو !
ہماری اس محبت کا
بھلا کیا فائدہ ہوگا
ہمارے درمیاں جو دوریاں ہیں
کم نہیں ہونگی
کبھی بارش کے موسم میں
ہمیشہ ساتھ رہنے کی !
جو خواہش دل میں جاگی تھی
جو سپنے ہم نے دیکھے تھے
وہ سپنے ٹوٹ جائیں گے
مری جاں! ٹھیک کہتی ہو
مقّدر کے لکھے کو ہو اگر تسلیم کرنا ہے
تو پھر ایسی محبت کا
کوئی بھی فائدہ کیسا؟
مگر اس کو اگر چاہو
تو میری بےبسی کہہ لو

“ مجھے تم سے محبت ہے“

عاطف سعید
 

نوید ملک

محفلین
ہاتھ کی لکیروں میں کیا تلاش کرتے ہو
ان فضول باتوں میں کس لئے الجھتے ہو
جسکو ملنا ہوتا ہے
بن لکیر دیکھے ہی
زندگی کے رستوں پر ساتھ ساتھ چلتا ہے
پھر کہاں بچھڑتا ہے
جو نہیں مقدر میں
کب ہمیں وہ ملا ہے
کب وہ ساتھ چلا ہے
ہاتھ کی لکیروں میں کیا تلاش کرتے ہو
 

عمر سیف

محفلین
آؤ کچھ دیر کے لیے ہمدم!
بھول جائیں وہ جو حقیقت ہے
بھول جائیں کے یہ جیون کا سفر
ھم کو تنہا ھی کاٹنا ہو گا!
بھول جائیں کی اپنا دکھ سکھ بھی
ھم کو تنہا ھی بانٹنا ھو گا

آؤ کچھ دیر کے لیے ہمدم!
فاصلوں کے ہر ایک معانی کو
اور جدائی کی ہر کہانی کو
اپنے ھاتھوں کی سب لکیروں کو
اپنی تقدیر کے ستاروں کو
بھول کر ھی چلو بھلاتے ہیں

آؤ کچھ دیر کے لیے ہمدم!
بھول جاؤ جو رسمِ دنیا ہے!
میرے شانے پہ اپنا سر رکھ دو
اور مجھے ھاتھ تھامنے دو ناں!
میرے اس دل میں پیار ہے جتنا
وہ ہتھیلی پہ میں تیری رکھ دوں
تم مجھے ہاتھ تھامنے دو ناں!

آؤ کچھ دیر کے ہمدم!
پھر نہ جانے ملیں بھی ہم کہ نہیں
یا ملیں بھی تو اس طرح جیسے
اجنبیت کی دھند چھائی ہو
دل کی باتوں کو لب پہ لا نہ سکیں
اور آنکھوں سے کچھ چھپا نہ سکیں
اس سے پہلے کہ بات اس دل کی
دل کے اندر ھی گونج بن جائے

آؤ کچھ دیر کے لیے ہمدم!
جھوٹ کی خول سے نکلتے ہیں
ایک دوجے کو اپنی چاہت کا
آؤ ہم رازداں بناتے ہیں

آؤ کچھ دیر کے لیے ہمدم ۔۔۔
 

عیشل

محفلین
میری اتنی سی خواہش ہے
کہ میں اک آسماں ہوتا
اور تو میری زمیں ہوتی
میں جھک کر تیرے سارے غم
اپنے کاندھوں پر ڈھو لیتا
تیری تکلیفیں اور کٹھنائیاں
خود میں سمو لیتا
میرے بادلوں سے بارشیں
چھم چھم برستی تو تجھے سیراب کر دیتیں
وہ تیری پیاس کو پی کر تجھے شاداب کر دیتیں
میرے سورج کی کرنیں تجھ پر پڑتی تو
بڑی انمول ہو جاتیں
ہوا سے مل کر نئی اک شکل میں ڈھلتیں
منزل کے بول ہو جاتیں
میں تجھ سے روٹھتا تو تاریک رات ہو جاتا
مگر پھر بھی میرا چندا تیرے ہی ساتھ ہو جاتا
لیکن جاناں!
میں نے مانا
کہ ایسا ہو نہیں سکتا
نجانے کس کی سازش ہے
مگر پھر بھی میری اتنی سی
خواہش ہے!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 

دوست

محفلین
اچھی نظم شئیر کی ہے آپ نے عیشل۔۔
محفل پر خوش آمدید۔۔
امید ہے آپ کی آمد ہمارے لیے باعث عزت و افتخار ہوگی۔۔
اگر اپنا تعارف بھی کروا دیں تو کیا ہی کہنے۔۔
 

عمر سیف

محفلین
عیشل نے کہا:
میری اتنی سی خواہش ہے
کہ میں اک آسماں ہوتا
اور تو میری زمیں ہوتی
میں جھک کر تیرے سارے غم
اپنے کاندھوں پر ڈھو لیتا
تیری تکلیفیں اور کٹھنائیاں
خود میں سمو لیتا
میرے بادلوں سے بارشیں
چھم چھم برستی تو تجھے سیراب کر دیتیں
وہ تیری پیاس کو پی کر تجھے شاداب کر دیتیں
میرے سورج کی کرنیں تجھ پر پڑتی تو
بڑی انمول ہو جاتیں
ہوا سے مل کر نئی اک شکل میں ڈھلتیں
منزل کے بول ہو جاتیں
میں تجھ سے روٹھتا تو تاریک رات ہو جاتا
مگر پھر بھی میرا چندا تیرے ہی ساتھ ہو جاتا
لیکن جاناں!
میں نے مانا
کہ ایسا ہو نہیں سکتا
نجانے کس کی سازش ہے
مگر پھر بھی میری اتنی سی
خواہش ہے!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
خوب
 

عمر سیف

محفلین
یہ تصویریں
نجات ان سے نہ پاؤ گے
دبے پاؤں بڑھے آتے ہیں سائے
صداؤں کے حصاروں سے
چلو مانا
نکل کر چل دئیے اک دن
کہاں تک پھر بھی جاؤ گے
لگی جب جسم و جاں کو آگ جل اٹھا
فتیلہ بھی مرے دل کا
مجھے معلوم ہے اک دن
دھماکہ سا کہیں ہو گا
گرا ہوا اک مکاں جیسے
پھٹا ہوا آسماں جیسے
یہی لمحہ ہے جس سے خوف آتا ہے مجھے
لیکن مجھے معلوم ہے، اس سے ذرا پہلے
سنوں گا باز گشت ایسی جو مجھ میں ہی نہاں ہو گی
مرے جاں سے گزرنے کی صدائے بے اماں ہو گی
 

عمر سیف

محفلین
کھیلتے کھیلتے دونوں میں سے
ایک نے دوجی کی گڑیا کی نوچ لیں آنکھیں
لڑکی چیخی
دیکھو تم نے میری گڑیا اندھی کر دی
اب سپنے کیسے دیکھے گی؟
لڑکا نادم ہو کر بولا
جب میں ابو جتنا ہو کر شہر گیا تو
یہ وعدہ کرتا ہوں تم سے
سب سے پہلے
اس کی آنکھیں‌لاوں گا
سنا ہے شہر گیا وہ اک دن
جانے اس کے بعد ہوا کیا
یہ معلوم نہیں ہے لیکن
آج اچانک اس لڑکی کو راہ میں دیکھا
ہاتھ میں‌اس کے اک گڑیا تھی
ہاں بتلانا بھول گئی میں
گڑیا آج بھی اندھی ہے
 

عمر سیف

محفلین
چپ چپ رہ کر
ہر دکھ سہہ کر
کیا ثابت کرنا ہے تم کو؟
یہی کہ ہر دکھ سہہ سکتے ہو
یہی کہ تنہا جی سکتے ہو
کیا جانو تم کیا ہو جاناں
چپ چپ رہ کر ہر دکھ سہہ کر
کچھ ثابت کر پاؤ گے نا
کیا تم کو معلوم نہیں
چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے
 
Top