محبّت ہم نے بھی کی ہے
ہم کو ازل سے بھی قبل کا کوئی چہرہ یاد آتا ہے
ہمیں بھی رات کے پچھلے پہر آواز آتی ہے
(کسی کی یاد آتی ہے)
ہمیں ویران رستوں پر
کسی ہستی کے ہونے کا
عجب احساس رہتا ہے
!کوئی ہر دم ہمارے پاس رہتا ہے
یوں لگتا ہے
کہیں ماضی کے رستوں
پر کوئی اک موڑ آیا ہے
کسی کا ساتھہ چھوٹا ہے
ہمارا دل بھی ٹوٹا ہے
مگر لمحوں کی مُٹھی سے جو پل بھی چھوٹ جاتے ہیں
پلٹ کر آ نہیں سکتے
ابد کے بے ارادہ راہرو
واپس ازل تک جا نہیں سکتے
جہانِ ذات میں لیکن بتائیں کس طرح ہم بھی
کسی “ بےاسم“ ہستی کی جُدائی دل پہ سہتے ہیں
کوئی تو ہے کہ جس کی یاد نگری میں
ہمارے خواب رہتے ہیں
جو اکثرہم سے کہتے ہیں
محبّت ہم نے بھی کی ہے