خوبصورت نظمیں

عیشل

محفلین
اے غمِ یار ٹھہر آج کی شب!
لگ چکی تیری سیاہی دل پر
آچکی جو تھی تباہی ،دل پر
زرد ہے رنگ ِ نظر،آج کی شب
خاک کا ڈھیر ہوئے خواب نگر
آج کی شب
اے غمِ یار ٹھہر آج کی شب

کم نظر دیکھ ہوا کی آہٹ
کس کی خوشبو میں بسی آتی ہے
کون سا عکس ہے جس کی خاطر
آنکھ آئینہ بنی جاتی ہے!

کس طرح چاند اچانک جھک کر
سرد شاخوں سے لپٹ جاتا ہے
کس طرح رنگِ چمن
ایک چہرے میں سمٹ جاتا ہے
سیلِ امواجِ تمنّا کیسے
ساحلِ دل سے پلٹ جاتا ہے
اور کس طور سے طے ہوتا ہے
لڑکھڑاتے ہوئے تاروں کا سفر آج کی شب
بے ہنر! آج کی شب
مجھ کو جی بھر کے اُسے یاد تو کر لینے دے
دولت ِ درد سہی جیب تو بھر لینے دے!!1
(امجد اسلام امجد)
 

عمر سیف

محفلین
[align=right:4c0c50dd90]کہاں جانا تھا مجھ کو
کس نگر کی خاک بالوں میں سجانا تھی
مجھے کن ٹہنیوں سے دھوپ چُننا تھی
کہاں خیمہ لگانا تھا
مری مٹی راہِ سیارگاں کی ہمقدم نکلی
مری پلکوں پہ تارے جھلملاتے ہیں
بدن میں آگ لگتی ہے
مگر پاؤں میں خوں آ شام رستے لڑکھڑاتے ہیں
یہ کیا شیرازہ بندی ہے
یہ میری بےپری کس کُنج سے ہو کر بہم نکلی
نظر میں دن نکلتا ہے
پروں میں شام ڈھلتی ہے
مگر میں تو لہو کی منجمد سل ہوں
بدن کی کشتِ ویراں میں
یہ کس کی اُنگلیوں نے عمر بھر مجھ کو کریدا ہے
کہاں شریان میں چلتا ہوا یہ قافلہ ٹھہرا
کہ میں اس ہاتھ کی ریکھاؤں میں رنگِ حنا ٹھہرا
کہاں جانا تھا مجھ کو
کس جگہ خیمہ لگانا تھا

عباس تابش
[/align:4c0c50dd90]
 

حجاب

محفلین
مرے دل مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یار نامہ بر کا
ہر ایک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے نا شنائیاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

عمر سیف

محفلین
[align=right:bd223b62a0]تمھارا خط مِلا جاناں
وہ جس میں تم نے پوچھا ہے
کہ ان حالات کیسے ہیں
میرے دن رات کیسے ہیں
مہربانی تمھاری ہے
کہ تم نے اس طرح مجھ سے
میرے حالات پوچھے ہیں
میرے دن رات پوچھے ہیں
تمھیں سب کچھ بتا دونگا
مجھے اتنا بتا دو کہ
کبھی ساغر کنارے پر
کِسی مچھلی کو دیکھا ہے
کہ جس کو لہریں پانی کی
کنارے تک تو لے آتی ہیں
مگر پھر چھوڑ جاتی ہیں
میرے حالات ایسے ہیں
میرے دن رات ایسے ہیں
[/align:bd223b62a0]

[align=left:bd223b62a0]شعر نامعلوم[/align:bd223b62a0]
 

عیشل

محفلین
بہت ممکن تھا
میرے پاؤں ،میرے زیست کے
کانٹے نکل جاتے
بہت ممکن تھا
میری راہ کے پتھّر پگھل جاتے
جو دیواریں میرے رستے میں حائل تھیں
میرے آگے سے ہٹ جاتیں
اگر تم آنکھ اٹھا کر دیکھ لیتے
کوہساروں کی طرف اک پل
چٹانیں اک تمہاری جنبش ابرو سے کٹ جاتیں
بہت ممکن تھا
انگاروں بھری اس زندگانی میں
تمہارے پاؤں کے اجلے کنول کھِلتے
رفاقت کی سنہری جھیل میں
دونوں کے عکس ضوفشاں بنتے
بس اک خواب مسلسل کی فضا رہتی
ہماری روح کب ہم سے
خفا رہتی
یہ سب کچھ عین ممکن تھا
اگر تم مجھ کو مل جاتے!!!

(اعتبار ساجد)
 

عمر سیف

محفلین
بہت خوب عیشل۔

سفر میں رات ساری تھی
مگر صحرا نشینوں کے
مقّدر کی زمینوں پر
شگوفے کُھل نہیں سکتے
ستارے مل نہیں سکتے !
ہمیں تنہا ہی رہنا ہے
جُدائی کی فصیلوں پر
تمنّا کے جزیروں میں
مسافر چل نہیں سکتے
ستارے مل نہیں سکتے !
محّبت کاٹ سکتی ہے
دِلوں کے فاصلے لیکن
تری مری اَنا کے بُت
جگہ سے ہِل نہیں سکتے
ستارے مل نہیں سکتے !


[align=left:1674de326d]مریم عرفان[/align:1674de326d]
 

عیشل

محفلین
چلو ایک دوسرے کی خواہشوں کی دھوپ میں
جلتے ہوئے آنگن کی ویرانی میں
آنکھیں بند کر لیں اور برس جائیں
یہاں تک ٹوٹ کر برسیں کہ پانی
وصل کی مٹی میں خوشبو گوندھ لے
اور پھر سروں سے گذر جائے
زمیں سے آسماں تک ایک ہی منظر سنور جائے
ہمارے راستوں پر آسماں اپنی گواہی بھیج دے
خوشبو بکھر جائے
زمیں پاؤں کو چھو لے
چاندنی دل میں اتر جائے!!!!!!!!!!
 

عیشل

محفلین
یہ ممکن ہے ہمارے درمیاں کوئی
غلط فہمی بھی نہ رہتی
جو اپنے دل میں چھوٹی سی
خلش ہے ختم ہوجاتی
بتا دیتا کہ مجھ کو آج بھی اسکی ضرورت ہے
جو اس جیون کا حاصل ہے تو بس اسکی محبت ہے
بتا دیتا کہ لوگوں کی سب باتیں فسانے ہیں
سب ہی قصے پرانے ہیں
میں کہہ دیتا ذرا سی بات پر یوں روٹھنا اچھا نہیں ہوتا
محبت کرنے والوں میں غلط فہمی تو ہو سکتی ہے پر
جھگڑا نہیں ہوتا
میں ہر اک بات کہہ دیتا
خلش بھی دور ہو جاتی
میں اسکا ہاتھ پکڑے یوں ہی اسکا ہم قدم رہتا
وہ آگے ہاتھ تو کرتا
وہ مجھ سے بات تو کرتا!!!
 

حجاب

محفلین
کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سر زمینوں میں
کہ جو اہلِ محبت کو صدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو کہ جیسے ہاتھ میں پارا
کہ جیسے شام کا تارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
گماں کے شاخچوں میں آشیاں بنتا ہے اُلفت کا
یہ عین وصل میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے
محبت کے مسافر زندگی جب کاٹ چُکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے وفا کی افرکیں پہنے
سمے کی رہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے
یہ سچ ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔!
ہماری زندگی ایک دوسرے کے نام لکھی تھی
دھندلکا سا جو آنکھوں کے قریب و دور پھیلا ہے
اسی کا نام چاہت ہے
تمہیں مجھ سے محبت تھی
تمہیں مجھ سے محبت تھی
محبت کی طبیعت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے !(امجد اسلام امجد )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

Arshad khan

محفلین
مجھے تم سے بچھڑنا ہے
جدا ہونے سے پہلے
بس تمھیں اتنا ہی کہنا ہے
کبھی جب رات کی آنچل پہ تارے سج گئے ہونگے
سہانی چاندنی
مدهم سرو میں گیت کوئی گا رہی ہوگی
بہاروں پر نظاروں پر
سمندر کے کناروں پر
تو ایسے میں ہوا کی دوش پر کوئی
صدا چپ چاپ آئے گی
تمہاری یاد کے در کو
ذرا سا کٹ کٹائے گی
اگر تم سو چکی ہوگی
تو واپس لوٹ جائے گی
سنو تم! جاگتی رہنا
 
Top