خوبصورت نظمیں

عیشل

محفلین
میرے چارہ گر!
میرے درد کی تجھے کیا خبر
تو میرے سفر کا شریک ہے
نہیں ہم سفر؟
میرے چارہ گر،میری چارہ گر
میرے ہاتھ سے تیرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے اسے کاٹتے
میرا سارا وقت نکل گیا
نہیں جس پہ کوئی نشانِ پا
میرے سامنے ہی وہ رہ گذر
میرے چارہ گر
میرے درد کی تجھے کیا خبر؟؟؟؟؟؟÷
 

علمدار

محفلین
ایسی بستی میں لے چلو کہ جہاں
ایسی بستی میں لے چلو کہ جہاں
شب دریچوں سے پیار کرتی ہو
روشنی روشنی پہ مرتی ہو
در بدر خاک ہو خزاؤں کی
ہر طرف بات ہو بہاروں کی
ایسی بستی میں لے چلو کہ جہاں
پھول چہرہ، کتاب آنکھیں ہوں
رقص کرتی شراب آنکھیں ہوں
آگہی بھول جائے زخموں کو
نغمگی راس آئے نغموں کو
ایسی بستی میں لے چلو کہ جہاں
حکمرانوں کے قول پکے ہوں
کاہنوں کے حساب سچے ہوں
دیوتا سجدہ ریز ہوتے ہوں
سر اٹھا کر غلام چلتے ہوں
ایسی بستی میں لے چلو کہ جہاں
علم کو فکر سے ہدایت ہو
خار کو پھول کی حمایت ہو
شاعروں پر عذاب جاری ہو
محفلوں پر خمار طاری ہو
ایسی بستی میں لے چلو کہ جہاں
چاند کرنیں شمار کرتا ہو
زر دیانت سے گھر بدلتا ہو
محنتیں اجرتوں کا محور ہوں
عزتیں آبرو کا تیور ہوں
ایسی بستی میں لے چلو کہ جہاں
دل کو تیرا خیال آجائے
رقص کو بھی دھمال آجائے
مرغزاروں میں پھول کِھلتے ہوں
رنگ اور نور سے لپٹتے ہوں
ایسی بستی میں لے چلو کہ جہاں
سہیل احمد
 

عمر سیف

محفلین
کھلونا تو نہیں ہوں میں
کہ تم چاہو کہ ہم
ایک دوسرے کو چھو سکیں
محسوس بھی کر لیں
پھر اپنے آپ کو دریافت کر لیں ہم
جہاں موقع ملے تم کو
عقابوں کی طرح تم کو
جھپٹ پڑنے کی عادت ہے
گریزاں تم سے گر ہوتی ہوں میں
ایسے طلاطم میں
تو تم ناراض ہو جاتے ہو
آخر خود کبھی سوچو
کھلونا تو نہیں ہوں میںّّّّّّّّ ۔ ۔ ۔
 

علمدار

محفلین
شکریہ ضبط بھائی!
سہیل صاحب کی ایک اور نظم تلاش کر رہا ہوں وہ بھی بہت عمدہ ہے-
 

علمدار

محفلین
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو

میرے دل کی زمین پر اب بہاریں غیر لگتی ہیں
سحر انگیز آنکھوں کی صدائیں غیر لگتی ہیں
جنوں ماتم نہیں کرتا وفائیں زہر لگتی ہیں
نگہبانِ چمن کی آرزوئیں قہر لگتی ہیں
یہ دل دریائے وحشت ہے یہ کب اعجاز کرتا ہے
خزاں کی حکمرانی ہے اُسی پر ناز کرتا ہے
مجھے برباد ہونے تک ذرا سرشار رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
یہ جن ہاتھوں کو قدرت ہے
فنا کے استعارے ہیں
رواں خوشبو کا موسم ہے
ستارے ہی ستارے ہیں
ابھی سورج نہیں نکلا ابھی فریاد مت کرنا
ابھی زخموں کو مت چھونا ستم کو یاد مت کرنا
ابھی اک عمر جاری ہے
ذرا وحشت سی طاری ہے
ذرا وحشت کے ڈھلنے تک
مجھے وحشت میں رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
مری حاکم معیشت ہے
جسے مغرب نے پالا ہے
سروں پر تاج ان کے ہے
مرے سکوں کی مالا ہے
زباں جب ذکر کرتی ہے
ان ہی کا ورد کرتی ہے
مرے بازار کے آقا
مرے پندار کے آقا

کسی خواہش کے پتھر سے مجسمے مسمار کرتے ہیں
ستمگر چارہ گر بن کر مری بستی میں پھرتے ہیں
مجھے مسمار ہونے تک اسی بستی میں رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
یہ جنت بھی علامت ہے
بشارت کی کرامت ہے
گماں کے تیر چلتے ہیں
بہشتی پیر چلتے ہیں
انا کے آستانے پر گماں کو قتل کرتے ہیں
زبان کو قتل کرتے ہیں
مجھے مقتول ہونے تک اسی مقتل میں رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
مرے اجداد غافل تھے میری خوشیوں کے قاتل تھے
وراثت کی غلامی نے مجھے آزاد رکھا ہے
وطن میں جو مسافر ہے کہاں آباد رکھا ہے
میں ان کھیتوں کی رونق ہوں
جہاں فصلیں مجھ ہی سے دام لیتی ہیں غریبی تھام لیتی ہیں
قلم کے کارخانے میں میری محنت کا ایندھن ہے
مگر میں لکھ نہیں سکتا
مرے بازار اپنے ہیں
مگر میں بِک نہیں سکتا
مرے ماحول نے مجھ کو مری قامت پہ ٹوکا ہے
مرے احباب نے مجھ کو بڑی حکمت سے رکھا ہے
مرا اسباب لٹنے دو مرے احباب رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
 

عیشل

محفلین
پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
دکھ عبارت تو نہیں ہے،جو تجھے لکھ کر دے دیں۔
یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو
نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو
زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں
آئینہ بھی تو نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو
یہ کوئی راز نہیں جس کو چھپائیں تو وہ راز
کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چھلک جاتا ہے
جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی اور تیز ہوا
جب بھی چلتی ہے تو شانوں سے ڈھلک جاتا ہے
اب تجھے کیسے بتائیں ہمیں کیا دکھ ہے!!!!!!!!!!!!!!!!!
 

سارہ خان

محفلین
اَن سُنے لفظ

کسی ریگزار کی دھوپ میں وہ جو قافلے تھے بہار کے
وہ جو اَن کھلے سے گلاب تھے
وہ جو خواب تھے میری آنکھ میں
جو سحاب تھے تیری آنکھ میں
وہ بکھر گئے، کہیں راستوں میں غبار کے !
وہ جو لفظ تھے دمِ واپسیں
میرے ہونٹ پر
تیرے ہونٹ پر
انہیں کوئی بھی نہیں سُن سکا
وہ جو رنگ تھے سرِ شاخِ جاں
تیرے نام کے
میرے نام کے
انہیں کوئی بھی نہیں چُن سکا۔

(امجد اسلام امجد)
 

عیشل

محفلین
کوئی چاند چہرہ کُشا ہوا
وہ جو دھند تھی بکھر گئی
وہ جو حبس تھا ہوا ہُوا
کوئی چاند چہرہ کُشا ہوا
تو سمٹ گئی
وہ جو تیرگی تھی چہار سو
وہ جو برف ٹھہری تھی روبرو
وہ جو بے دلی تھی صدف صدف
وہ جو خاک اُڑتی تھی ہر طرف
مگر اِک نگاہ سے جل اُٹھے
جو چراغ تھے بجھے ہوئے
مگر اِک سخن سے مہک اُٹھے
مرے گلستاں،مرے آئینے
کسی خوش نظر کے حصار میں
کسی خوش قدم کے جوار میں
کوئی چاند چہرہ کُشا ہوا
مِرا سارا باغ ھرا ہوا!!!!!
 

عمر سیف

محفلین
نئی آنکھ کا پُرانا خواب
آتش دان کے پاس
گُلابی حّدت کے ہالے میں سمٹ کر
تجھ سے باتیں کرتے ہوئے
کبھی کبھی تو ایسا لگا ہے
جیسے اُوس میں بھیگی گھاس پہ
اُس کے بازو تھامے ہوئے
میں پھر نیند میں چلنے لگی ہوں !

پروین شاکر
 

علمدار

محفلین
تنبیہ

اے ننھی معصوم لڑکیو.... تم
کبھی کسی سے بھی دُکھ نہ کہنا
ان آنچلوں سے
کھنکتی رنگیں چوڑیوں سے
بدن کی اپنی ہی خوش بوﺅں سے
پلک کے اُٹھنے پلک کے جھپکنے
کی ساعتوں سے
چھتوں کے کونوں میں چھپ کے بےٹھی
وہ شوخ وشنگ اور ناز پرورسی چاندنی سے
دیوں کی لَو سے
یا اُن کتب سے کہ جن میں پھولوں کے تتلیوں کے حسین دکھ ہوں
پلنگ پہ سلوٹوں بھری صاف چادروں سے
گداز تکیوں سے جن میں زلفوں کی خوشبوئیں رقص کر رہی ہوں
تم آئینوں اور جگنوﺅں سے
سہیلیوں اور دوستوں سے
کبھی بھی معصوم لڑکیو.... تم....!
وہ دکھ نہ کہنا
سیاہ راتوں میں جس کو اپنی
اداس آنکھوں سے
اپنے ہی دل میں کی دھڑکنوں سے
چھپا چھپا کر بکھر رہی تھیں
کبھی بھی دیکھو وہ دکھ نہ کہنا
کبھی بھی اے لڑکیو....!
وگرنہ....!....!....!

وصی شاہ
 

عمر سیف

محفلین
علمدار نے کہا:
تنبیہ

اے ننھی معصوم لڑکیو.... تم
کبھی کسی سے بھی دُکھ نہ کہنا
ان آنچلوں سے
کھنکتی رنگیں چوڑیوں سے
بدن کی اپنی ہی خوش بوﺅں سے
پلک کے اُٹھنے پلک کے جھپکنے
کی ساعتوں سے
چھتوں کے کونوں میں چھپ کے بےٹھی
وہ شوخ وشنگ اور ناز پرورسی چاندنی سے
دیوں کی لَو سے
یا اُن کتب سے کہ جن میں پھولوں کے تتلیوں کے حسین دکھ ہوں
پلنگ پہ سلوٹوں بھری صاف چادروں سے
گداز تکیوں سے جن میں زلفوں کی خوشبوئیں رقص کر رہی ہوں
تم آئینوں اور جگنوﺅں سے
سہیلیوں اور دوستوں سے
کبھی بھی معصوم لڑکیو.... تم....!
وہ دکھ نہ کہنا
سیاہ راتوں میں جس کو اپنی
اداس آنکھوں سے
اپنے ہی دل میں کی دھڑکنوں سے
چھپا چھپا کر بکھر رہی تھیں
کبھی بھی دیکھو وہ دکھ نہ کہنا
کبھی بھی اے لڑکیو....!
وگرنہ....!....!....!

وصی شاہ
بہت خوب۔
 
Top